Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
]ترسیل وحی کے امکان کو دلیل فراہم کرنے کی کوششیں اور اس میں کا میابی کے امکان نے ایسے موضوعات پر غور و خوض کے باب وا کردیے ہیں جو بنیادی طور پر سائنسی موضوعات ہیں۔ لیکن اپنی فطری محدودیت کی بنا پر سائنس ان کے بارے میں تیقن کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتی۔ البتہ وحی اپنے قاری کو اس یقین کے حصول میں معاون ہوتی نظر آتی ہے۔ معروف اسکالر جناب جمشید اختر نے اس موضوع پر تین کتابیں تصنیف کی ہیں جو تحقیق و جستجو کا اعلی نمونہ پیش کرتی ہیں۔ ہم یہاں ان کی ایک کتاب In Search of Our Originsکے ایک باب کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔[
زمین سے پرے انسان کو کسی پیغام کے موصول ہونے کے امکان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں دور کہیں کوئی ذی عقل وجود (intelligence) موجود ہے ۔ تازہ سائنسی تحقیقات جن میں ہماری زمین کے سورج اور ستاروں (stars) کی صفات اور ان کے امتیاز پر بحث کی جاتی ہے۔(1) یہ موضوع بھی سائنسی مباحثہ کا حصّہ بن گیا ہے ۔خَلا( space)اور خلائی مخلوق( aliens)کے موضوعات پر جدید میڈیا میں ہونے والے مباحثے میں بڑھتی ہوئی عوامی دلچسپی سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اب تقریباً یہ تسلیم کر ہی لیا گیا ہے کہ زمین سے دو ر زندگی اور ذی عقل وجود افسانہ نہیں حقیقت ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ غیر ارضی ( terrestrial extra) وجوداور ماورا ئے ارض حیات (life) میں یقین رکھنے والوں کی تعداد ان لوگوں سے زیادہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کائنات میں ہم ہی ممتاز حیثیت رکھتے ہیں ۔ گوکہ SETI (2)( Terrestrial Intelligence Extra Search for )کا پروگرام ابھی کسی خاطر خواہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکا لیکن عام خیال یہ ہے کہ ایک نہ ایک روز کسی نہ کسی ایسے ریڈیائی پیغام سے ہماری مڈبھیڑ ہوجائیگی جو اہل زمین کو یہ بتادے گا کہ ماورائے ارض ایک ذی شعور اور فہیم وجود موجود ہے۔ البتہ ہمارے سائنسداں اس الجھن میں گرفتار ہیں کہ ستاروں کے درمیان لامتناہی فاصلوں کے رہتے ہوئے کائنات کی دوسری ذی عقل مخلوق اوراہل زمین کسی بامعنی پیغام کی ترسیل نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں روشنی کی محدود رفتار سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہزاروں سال قبل بھیجا گیا کوئی پیغام جو ہمیں آج موصول ہوگا وہ زمانی مطابقت کھو چکا ہوگا اور ہمارے لیے اس کی اہمیت اصولی اور نفسیاتی قسم کی ہی رہ جائے گی۔
اس پس منظر میں جب علم الوحی پیغام رسانی کے ایک متبادل دریچہ اور کائنات کے خالق کی طرف سے انسانی ہدایت کے واسطے ماورائے ارض ترسیل کا ایک ذریعہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو منطقی طور پر اس کی ثقا ہت مشکوک ٹھیرتی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کی نظروں میں جو صدیوں سے اس کے خلاف ایک تعصّب کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔ اس ترسیل کو تسلیم کرنے کا مطلب نہ صرف کائنات میں ایک ذی عقل و ذی شعور وجود کو تسلیم کرنا ہوگا بلکہ کائنات میں پھیلے ہوئے ترسیلی ریشوں میں کسی ایسے مترادف ریشے کو بھی تسلیم کرناہوگا جو نہ صرف حقیقی وقت میں ترسیل کرسکیں بلکہ روشنی کی رفتار سے وابستہ رکاوٹوں کو بھی خاطر میں نہ لائیں۔
معروف سائنسداں ڈاکٹر کارل ساگان نے اپنی کتاب(3)Contact میں ایسی کسی مخفی اور اجنبی ترسیل کے امکان کے خلاف واضح دلائل پیش کیے تھے جس میں اصل اشارہ ایک مذہبی صحیفہ کی طرف تھا۔ مزید یہ کہ اس نے کسی ایسے دعوے کی سچائی کو پرکھنے کا ایک طریقہ بھی بتایا تھا:
’’ ۔۔۔لیکن ذرا غور کریںکہ اُس قسم کا خدا جس پر تم یقین رکھتے ہو، جو قادر مطلق ہے، علام الغیوب اور رحیم ہے۔ کیا وہ واقعی چاہتا تھا کہ آئندہ آنے والی نسلوں مثلاً موسی کی آئندہ نسلوں کے لیے وہ ایسا کوئی ریکارڈ چھوڑدے جسے دیکھ کر یہ نسلیں اس کے وجود کے بارے میں کسی شک کا شکار نہ ہوں۔ یہ رکارڈ انتہائی سادہ اور بڑا ہی معمولی قسم کا ہے۔ اس میں کچھ پیچیدہ جملے ہیں اور کچھ تندو تیز حکم نامے ہیںتا کہ یہ اسی طرح بغیر کسی ردّو بدل کے آئندہ نسلوں تک پہنچتے ر ہیں‘‘۔۔۔ مثلاً Joss بہت غیر محسوس طریقے سے ذرا آگے جھکا جیسے۔۔۔؟ جیسے سورج ایک ستارہ ہے۔ یا مریخ ایک بوسیدہ سی جگہ ہے جس میں ریگستان ہیں، سینائے جیسے آتش فشاں ہیں۔۔۔ یا کوئی حرکت پذیر شے حرکت میں ہی رہنا چاہتی ہے۔ یاچلیے یہ دیکھتے ہیں۔ اس نے جلدی سے ایک پیڈ پر چند نمبر درج کئے، زمین کا وزن کسی بچے کے وزن کے مقابلہ میں ملین ملین ملین ملین ملین زیادہ ہے۔۔۔ یا مجھے لگتا ہے کہ تم دونوں اسپیشل تھیوری آف ریلیٹیوٹی میں کچھ دقّت محسوس کرتے ہو۔ لیکن پارٹیکل ا یکسلریٹر میں اور کا سمک شعائوں میں یہ روزہی ثابت ہوتی ہے۔۔۔یا پھر یہ کہ کسی حیطہء فکر کو خصوصی استحقاق کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔۔۔کوئی تین ہزار سال قبل وہ جو کچھ بھی جانتے ہوں گے۔۔۔‘‘
اسے بد قسمتی ہی سمجھا جائیگا کہ کارل ساگان نے مذکورہ بالا تصور قائم کرتے ہوئے ایک انتہائی اہم نکتہ پر غور نہیں کیا کہ انسانوں میں عقیدت کا عنصر ہمہ وقت کارفرما رہتا ہے۔ اس سچائی کو تسلیم کرنا چاہیے کہ انسان اس قیاسی کمال اور استدلالی کردار کا حامل نمونہ نہیں جیسے کارل ساگان سوچتا ہے۔ کسی انسان کو کسی قدیم صحیفہ میں اس نوعیت کا کوئی بیان مل بھی جائے تو پہلے سے موجود عقائد اور تعصبات اسے اس نوع کی معلومات کو تسلیم کرنے میں مانع ہونگے۔ مزید یہ کہ اس رویہ میں سب برابر ہیں چاہے وہ یہودی ہوں یا عیسائی ، مسلمان ، اہل ہنود اور جدیدیت کے پیروکار یا پھر دہریے ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کے عقائدمختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان عقائد سے پھوٹنے والے رویّے ایک ہی جیسے ہونگے۔ ایک دہریے کے نزدیک نظریہ ارتقاء عقیدے جیسا ہے چنانچہ وہ اس نظریہ کے اثبات میںتو ہر توجیہ کو تسلیم کرے گا اور اس میں پائی جانے والی کمزوریوں اور ناقابل توجیہ نکات پر غور ہی نہیں کریگا۔ اور اس کے خلاف ہر اس توجیہ کو جوکسی دوسرے مذہبی یا فکری گروہ کی جانب سے پیش کی جارہی ہوگی کسی استدلال اور غور وخوض کے بغیر ہی پورے علمی غرور و تکبّرکے ساتھ مسترد کردے گا۔
کوئی مسلمان رسول اﷲ کے کسی بیان کے ا ثبات میں بڑی خوشی اور معصومیت کے ساتھ ہر نوع کی دلیل کو تسلیم کرلے گا۔ لیکن یہ دلیل اگر کسی ایسی بات کو ثابت کر رہی ہوگی جسے مسترد کرنا اس کے ایمان کا جز ہے تو وہ رکاوٹ سامنے آجائیگی جس کا ہم سطور بالا میں تذکرہ کرچکے ہیں۔ حقیقت دراصل یہ ہے کہ عقیدوں اور عقیدتوں پر مشتمل مختلف نظریاتی گروہ حق و باطل کو ناپنے کے ایسے پیمانے رکھتے ہیں جو دوسرے گروہوں کو بہت سخت معیار پر جانچتے ہیں لیکن اپنی کمزوریوں پر نگاہ بھی نہیں جاتی۔
سائنسدانوں کو ایک سادہ سی بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی فوقِ ادراک (supra intellect) ہستی انسانی ہدایت کے لیے کوئی پیغام بھیجنا طے کرلے تو وہ اس زمین پر کسی دقیق تحقیقی مضمون کی شکل میں کسی معروف سائنسی میگزین میں شائع نہیں ہوگی۔ عقل و منطق کہتی ہے کہ انسان کو یہ معلومات کسی ٹیکنالوجی سے آزاد bio-receptor کی بدولت یعنی انسان ہی کے ذریعہ پہنچیں گی اور ایسے مناسب وقت پر پہنچیں گی جب اسے محفوظ کرنے کی صلاحیت انسان کو حاصل ہوچکی ہو۔ مزید یہ کہ یہ معلومات عمومی انداز میں انسانی ہدایت کے وسیع تر میدان کا احاطہ کرتے ہوئے اخلاقیات اور سائنسی رہنمائی کو ایسی زبان میں پیش کریں گی جو گزرے وقتوںکے ریگستان صحرا کے بدو کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کے ماہرِ فزکس کو یکساں طور پر اپیل اور متاثر کریںگی۔ اس زبان میں یہ صلاحیت ہوگی کہ وہ بتدریج علم کی وسیع ہوتی ہوئی بنیادوں کے درمیان انسان کو واضح ہدایت دے سکے اور انسان اسے نہ صرف سمجھنے بلکہ تسلیم بھی کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکا ہو۔ مزید یہ کہ اس طرح کے مختلف علوم کے افراد مذکورہ معلومات کی اجتماعی طور پر اور معروضی انداز میںتحقیق و تجزیہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ حاصل شدہ data کو صبر اور تحمل کے ساتھ کھنگالیں گے اور یوں معلومات کی صحیح تشریح و توضیح کے ذریعہ اس پیغام کی ترسیل کا اصل مقصد یعنی انسانی ہدایت مکمل طور پر حاصل ہوسکے گی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس مقام پر منفی تناظر بھی در آتا ہے۔مثلاً صحائف میں موجود ممکنہ اشارے جیسے نظریہ اضافیت یعنی theory of relativity یعنی کائنات میںrelative time کا وجود یا جیسے کارل ساگان نے کہا: ’’خصوصی استحقاق کے حامل حیطہ فکرموجود نہیں ہیں۔‘‘ اگر کہیں مل جائیں اور انھیں ’’قبل از وقت معلومات ‘‘ کا درجہ دے دیا جائے تو پورا پورا امکان ہے کہ انھیں جعلی سائنسی(psedu-scientific) کاوشیں کہہ کر مسترد کردیا جائے یا یہ کہا جائے کہ صحائف میں موجود بعض غیر واضح اور مبہم الفاظ کو سائنسی معنویت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایسے ناقدین اپنے نقطۂ نظر کی حمایت میں قدیم تفسیروں مثلاً آٹھویں صدی کی تفاسیر کی تقلید میں، جب نظریہ اضافیت سامنے نہیں آیا تھا، موجود اس سے مطابقت رکھنے والے الفاظ کو انسانوں اور معاشروں کے درمیان مساوات کی تعلیم وہدایت کی طرف اشارہ قراردیں گے۔ یہ ناقد جان بوجھ کر الفاظ کے مصادر یعنی مادّے سے بھی صرف نظر کریںگے اور لغات میں پائے جانے والے ان معانی کو ہی چسپاں کریں گے جو گزری ہوئی صدیوں کے لسانی ارتقاء کے نتیجہ میں بعد میں شامل ہوگئے ہیں تاکہ بالا ٓخر یہ ثابت کرسکیں گے اصل متن کچھ اور کہہ رہا ہے۔ اصل میں اس طرح کی تحقیقی کوششوں میں یہی منفی رویہ بڑا اہم کردار ادا کرتا رہاہے۔
چنانچہ اس اشارہ کو اگر کوئی بطور ثبوت پیش کرے کہ ان آیات کے متن کا ماخذ غیرا نسانی منبع ہے تو ناقدین پوری سفاکی اور بد دیانتی کے ساتھ اس سے نہ صرف صرف نظر کریںگے بلکہ علمی حلقوں میں اس کا مذاق اڑانے اور بے عزتی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ دیکھا جائے تو اس نوع کے بیان تخلیق کائنات کی کھوج میں انسانی عزائم کی رہنمائی کرنے میں بڑے معاون رہے ہیں۔ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی پیغام اور ترسیلی عمل موجود ہے تو آخر کتنے عرصہ تک چھپارہ سکتاہے اور کب تک انسان اس کے ماوارائے ار ض ماخذ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہے گا؟
مجھے احساس ہے کہ بحث کے اس مرحلے میں اس سوال پر غور خاصا وقت طلب ہے ۔ منطقی طور پر دیکھا جائے تو کوئی شعور اگر اس طرح کا پیغام بھیجنے کی استطاعت رکھتا ہے تو وہ یہ بھی کرسکتا ہے کہ ایسا ماحول اور فضا بھی قائم کردے جس میں دنیا کی توجہ اس پیغام کی طرف مبذول ہوجائے اور بتدریج یہ دنیا کا مر کز توجہ بن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ایسا ہورہا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا بہانہ خود ہی وہ حالات پیدا کررہا ہے جس میں علم الوحی کے معمّہ کو نظر انداز نہیں کیاجا سکے گا۔
ارض سے ماورا کسی پیغام کی ترسیل کے امکان کو اگر مناسب انداز سے باور کرایا جاسکے اور ذہن انسانی اس امکان کو تسلیم کرلے تو اس میں حائل تعصّبات بے اثر ہو سکتے ہیں اور کسی مرحلہ پر غیر متعصب سائنسدانوں اور ماہرین کا ایک پینل ان تمام دلائل اور ثبوتوں کی جانچ کرسکتا ہے جو اس امکان کے حق میں پیش کیے جارہے ہیں اور پھر تصحیح و تصدیق کی ایک اجتماعی کوشش کے ذریعہ اجماع پر پہنچا جا سکتا ہے ۔ اس کتاب کے آخر میں ہم نے اس ا جتماعی عمل کے سلسلہ میں ممکنہ نقشہ کار بھی پیش کیا ہے۔
ہمارے خیال میں اس امکان یعنی ترسیل وحی کی جو واقعاتی رپورٹیں ہم تک پہنچی ہیں ان کے جائزہ سے اس تلاش کا آغاز ہونا چاہیے۔ یہ رپورٹیں جو قدیم کتابوں میں موجود ہیں اگر ان کا مطالعہ جدید علوم کی روشنی میں کیاجائے تو یہ انسان میں موجود استطاعتوںکی بحث میں بعض بڑے منفرد پہلوئوں کو متعارف کراتی ہیں۔
ایسی لاتعداد رپورٹیں موجود ہیں جووحی کے نزول کے دوران رسول اﷲ کے جسمانی وجودمیں بالعموم واقع ہونے والی تبدیلیوں کا تذکرہ کرتی ہیں۔ ان کے مطابق آپ نے خود ہی اس دوران سخت تکلیف و درد ، بڑھی ہوئی قوت مدرکہ اور کانوں میں آنے والی گھنٹیوں جیسی(4)آوازوں کا تذکرہ فرمایا۔ آپ کے قریبی احباب نے بتایا کہ اس دوران آپ کا سر افسردگی جیسی کیفیت کا شکار ہوکر اچانک جھک جایا کرتا تھا۔ چہرہ ایسے زرد ہوجاتا جیسے بیماری کے نتیجہ میں ہواکرتا ہے اور سخت سردی(5) میں بھی آپ کے چہرہ پر پسینہ کی بوندیں ظاہر ہونے لگتیں۔ لیکن کسی بھی روایت میں یہ نہیں کہا گیا کہ اس دوران آپ بے ہوش ہوجاتے اور حقیقت کا احساس کھو بیٹھتے تھے۔
مسلمان علماء کے لیے دوران نزول ’تکلیف ‘ کے احساس کی تشریح کرنا خاصا مشکل رہا ہے۔ معلوم ہے کہ روحانی ارتقاء کے لیے شدید محنت اور ہر ممکن جدوجہد کو قرآن ضروری قراردیتا ہے لیکن یہ کہ ا س کے لئے جسمانی تکلیف و کرب میں مبتلا ہونا ضروری ہے ،وہ اس نقطہ نظر کو مسترد کردیتا ہے ۔ چنانچہ کوئی اس کی توجیہ نہ کرسکاکہ دوران نزول وحی ، رسول اﷲ کو تکلیف کا احساس کیوں ہوتا تھا۔ تکلیف کی کیفیت ،پسینہ آنا اور چہرہ کا زرد ہوجانا وغیرہ جیسے مشاہدات بعد کے سالوں میں کبھی بھی موضوع بحث نہ بن سکے۔ کانوں میں آنے والی گھنٹیوں کی آوازکی توجیہ کرنے کی کوشش ضرور کی گئی۔ بعضوں نے اسے فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے تعبیر کیا اور بعض نے اسے محض استعاراتی بیان سمجھ کر وحی کی آواز سمجھا جس کا نہ تو کوئی رخ متعین کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی اس کی ترسیل قطع کلامی سے متاثر ہوتی تھی۔(6)
ایک محقق کی حیثیت سے میں یہ رائے رکھتاہوں کہ دوران نزول ایک قسم کی تکلیف کا احساس اور کانوں میں گھنٹی بجنے کی سی آواز دونوں کا آپس میں ایک تعلق ہے۔ گوکہ مسلم علماء عام طور پر ان دونوں کے کسی باہمی تعلق کے قائل نہیں رہے۔ میڈیکل کی دنیا میں کانوں میں گھنٹی کی سی آواز کو tinnitus کہا جاتا ہے جس کی متعدد وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ vascular systemمیں پیدا ہوجانے والی کوئی رکاوٹ(blockage) اسnerve میں جو auditory canal کے ساتھ ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہے، خرابی پیدا کردیتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں کانوں میں خلاف معمول آوازیں آنے لگتی ہیں جو اسی طرح دماغ پر پہنچ جاتی ہیں۔(7) دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگر خون کا بہائو ناہموار اور غیر یکساں ہو تب بھی کانوں میں غیر معمولی آوازیں آسکتی ہیں۔ ناہموار خون کے بہائو کی بنا پر خون کی سپلائی میں کمی(ischaemia) بھی درد ، بے چینی اور اسی طرح کی دوسری علامتیں جیسے چہرہ کا زرد ہوجانا، پسینہ آجانا اور متلی ہونا وغیرہ ظاہر ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اُس زمانہ میں بلڈ پریشر اور رفتار نبض ناپے جانے کی سہولیات موجود نہیں تھیں لیکن بقیہ علامتیں جو بیان کی گئیں جیسے چہرہ زردی مائل ہونا ، پسینہ چھوٹ جانا، متلی اور کانوں میں گھنٹیوں کا بجنا جیسی علامتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ ایسا ہورہا تھا جس سے دوران خون متاثرہوتا اور جسم انسانی کے لئے یہ پورا تجربہ بہت تکلیف دہ تھا۔ خود رسول اﷲ کا یہ قول کہ وحی کا عمل انتہائی تکلیف دہ تھا،یہی ثابت کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ صورتحال نزول وحی کے وقت ہی ہوتی تھی کسی اور وقت نہیں۔ چنانچہ tinnitus اور اس سے ملحق علامتوں کے ظہور کے لیے رسول اﷲ کے جسم کی فزیالوجی نہیں بلکہ بیرون ہی کوئی عامل رہا ہوگا۔
ایک اور ثبوت جس کا حوالہ ہماری پرانی کتابوں میں محفوظ ہوگیا ہے، اسے ہمارے اسکالر ز نے توجہ کے قابل نہیں سمجھا۔ یہ ثبوت خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کے حوالہ سے ایک حدیث میں دوران نزول وحی دھیمی لیکن تیز بھنبھناہٹ کا پایا جانا ہے جو رسول اﷲ کے سر مبارک کے قریب کان لاکر سنی جاسکتی تھی۔(8) آج تک کسی نے بھی اس آواز کے بارے میں جو شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ سی لگتی تھی ،کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ اگر اُسے معروضی یعنی حقیقی tinnitusہی کا شاخشانہ مان لیا جائے تویہ بعید از فہم ہی رہے گا کہ آخر جسم انسانی میںکس کمزوری کی بنا پر ایسا ہونے لگتا ہے کیونکہ اس کا اظہار صرف اور صرف دوران نزول وحی ہی ہوا کرتا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہobjective tinnitus حددرجہ نادر ہے اور کبھی کبھار ہی اس کا اظہار ہوتا ہے اور یہ سر،گردن اور دماغ کے حصوں کی رگوں میں یا دماغی اعصا ب سے متعلق ہوتا ہے۔ احادیث میں جس طرح کی آواز کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اس سرسراہٹ (whooshing) سے مختلف ہے جو جسم کے مذکورہ بالا حصوں کی رگوں میں کسی رکاوٹ کے نتیجہ میں کبھی ظاہر ہوجاتی ہے۔
احادیث ایک اور پراسرار عامل کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو نزول وحی کے دوران رسول اﷲ کے جسم کے وزن کا بہت واضح البتہ عارضی طور پر بڑھ جانا ہے۔ وزن میں یہ اضافہ بہت واضح تھا اور ہر دیکھنے والے کو معلوم ہوجاتا تھا کیونکہ جب کبھی بھی وحی ایسے وقت نازل ہوتی کہ آپ اوٹنی پر سوار تھے تو لوگ دیکھتے کہ ایک ناقابل برداشت بوجھ کی بنا پر اونٹنی اچانک بیٹھ جاتی۔(9) یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ کچھ وقت گذرنے کے ساتھ کھانے پینے کی عادات کے پیش نظر کسی فرد کا وزن گھٹ بڑھ سکتا ہے لیکن یہ چند لمحوں کے لیے وزن کا بڑھ جانا اور پھر قبل والے وزن پر واپس آجانااس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک کہ ان لمحوں کے لیے انسان زمین چھوڑ کر کشش ارض کی حدوں سے گذر نہ جائے۔
آئنسٹائن کی(10) Special Theory of Relativity (1909) ،وزن میں اس طرح کے عارضی لیکن واقعی اضافہ کے امکان کو تسلیم کرتی ہے بشرطیکہ اس عمل میںزبردست انرجی کا استعمال ہورہا ہو ۔ لیکن اس تھیوری میں مشاہدہ کرنے والے اور مرکز ِ مشاہدہ کے درمیان اضافی حرکت ضروری ہے جونزول وحی کے عمل میں موجود نہیں ہے۔
آسان سا جواب تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ؟ کیونکہ اس کے جواب کی کوئی بھی کوشش فی الوقت محض ایک قیاس آرائی ہوگی۔ البتہ اگر قرآنی آیات میں موجود اشاروں کو سامنے رکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نزول وحی کے دوران زبردست انرجی شامل حال ہوجاتی تھی۔ قرآن کہتا ہے:
’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کیا ہوتا توتم دیکھتے کہ وہ عاجز ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ مثالیںہیں انسانوں کے لیے کہ وہ غور کریں‘‘۔ (ا لحشر(59:21 (11)
دورا ن نزول وحی رسول اﷲ کے وزن میں اضافہ ہوجانا ایک دوسرا مسئلہ ہے جس نے مزید سوالات کھڑے کیے ہیں لیکن مسلمان اسکالرز نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ متعدد رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اگر رسول اﷲ اونٹ کی سواری کررہے ہوتے اور وحی آجاتی تو اونٹ کے لئے کھڑا رہنا ممکن نہ ہوتا اور وزن کے اضافہ کے نتیجہ میں وہ بیٹھ جاتاتھا ۔ زید بن ثابت سے روایت (12)ہے کہ ایک بار رسول اﷲ آرام کی خاطر اس طرح لیٹ گئے کہ سرِ مبارک کو زید ؓ کی رانیں سہارا دیئے ہوئے تھیں۔ زید کہتے ہیں کہ اچانک انھیں اتنا شدید کچل ڈالنے والا دبائو محسوس ہوا کہ انھوں نے سوچاکہ شاید آئندہ کبھی بھی میں چلنے کے لائق نہیں رہونگا۔ لیکن اﷲ کا کرم کہ یہ دورانیہ بہت مختصر تھا اور عام طور پر یہ دورانیہ مختصر ہی ہوا کرتا تھا۔
یہاں یہ سوال فطری ہے کہ رسول اﷲ نزول وحی کی حالت میں اگر سیدھے کھڑے ہوتے تو یہ کچل ڈالنے والا دبائو کس طرح برداشت کرتے تھے؟ آج تک کسی محقق اور اسکالر نے اس مسئلہ پر غور نہیں کیا کہ اچانک آجانے والے اضافی وز ن کا جسم انسانی میں مرکز کہاں ہوتا تھا؟کیا وزن پورے جسم میں مساوی طور پر تقسیم ہوجاتا تھا یا سر اور دماغ اس کے مرکز اثر ہوتے تھے؟
ایک عام انسانی جسم میں گردن کے پٹھے، ورٹیبرا ( vertebra) کے نازک column اور ہڈیوں کا پورا ڈھانچہ بیک وقت اتنے زبردست دبائو کے اچانک آجانے کے نتیجہ میں یہ سب متاثر ہونگے ۔چنانچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نزول وحی کے تجربہ سے گزرنے کے اس موقع پر دبائو کو برداشت کرنے کے لیے جسمانی ڈھانچہ کوپر اسرار طریقے سے ایک خاص طاقت اور قوت برداشت عطا فرمائی گئی ہوگی۔ بد قسمتی سے ہم یہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ رسول اﷲ کے جسم پر اثر انداز ہونے والے اس دبائو کا صحیح اور معیّنہ مقام کیا تھا؟ البتہ vertebra کو دیے جانے والے سہارے سے متعلق ایک نشانی موجود ہے جو اس پر اسراریت سے متعلق ہے۔
سورہ انشراح میں خود قرآن کریم اس پر اسراریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لفظ انشراح کے معنی میں دلجوئی،تسلّی ، طبعی سکون اور بوجھ سے نجات شامل ہے۔ ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:
قرآن کریم کے الفاظ ’’اَ لَم نَشرَح لَکَ صَدرَکَ ‘‘ میں دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی شرح اور صدر۔ لفظ شرح کا ترجمہ یوسف علی نے اپنے انگریزی ترجمہ میں expandکیا ہے البتہ اس کے لغوی معنی کھول دینے کے ہیں۔ یہ لفظ بالعموم عمل جراحی یعنیsurgical operation میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ دوسر ے لفظ ’صدر‘ کے معنی ایک مرکزی حصہ کے ہوتے ہیں جسے عرف عام میں سینہ سمجھاجاتا ہے ۔ دوسری آیت ’’وَوَضَعنَا عَنکَ وِزرَکَ‘‘ جس کا ترجمہ ’’اور اتاردیا تجھ سے تیرا بوجھ۔‘‘ کیا گیا ہے۔ لفظ وَضَعَ کے معنی اتار دینا، بچانا، تخفیف کرنا اور درجہ کم کرنا ہے۔ جبکہ ’وَزَرَ ‘ بوجھ ، دبائو اور وزن کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لفظی ترجمہ کیا جائے تو پہلی دو آیتیں رسول اﷲ کے سینہ پر کیے جانے والے عمل جراحی کی طرف اشارہ کرتی نظر آتی ہیں جس کا مقصد آپ پر ایک دبائو میں تخفیف کرنا تھا (مکمل طور پر اس دبائوکا خاتمہ پیش نظر نہیں تھا)- تیسری آیت’’ جس نے تیری پیٹھ توڑدی تھی‘‘ اسی ’دبائو‘ کے منفی اور نقصان دہ اثرات کی وضاحت کرتی ہے۔ عربی میں اس طرح کہا گیا ہے:’’ الذی اَنقَضَ ظَہرَکَ‘‘ اس میںفعل اَ نْقَضَکے معنی خارج کردینا اور بے اثر کردینا ہے۔جبکہ ظَہر کے معنی ریڑھ کی ہڈی کے ہیں۔ مجموعی طور پر ان الفاظ کے یہ معنی نکلتے ہیں کہ دبائو کی بناپر پشت کچلی جارہی تھی۔ پانچویںاور چھٹی آیات ایک یکساں نوعیت کے پیغام کو دہرارہی ہیں ۔یہ الفاظ کہ ’’ پس یقینا مشکل کے بعد آسانی ہے ‘‘ سے شاید یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ نزول وحی کے ہر وقوعہ کے بعد مشکلات کم ہوتی جانے والی ہیں۔ عربی زبان کے قاعدے کے مطابق کسی بات کودہرانا دراصل اس بات یا پیغام کی اہمیت اور شدت کے پیش نظر ہوتا ہے۔چنانچہ نزول وحی سے متعلق جو کوائف رکارڈ ہوکر ہم تک پہنچے ہیں ان سے ہمارے مذکورہ نتیجہ کو تقویت پہنچتی ہے کہ نزول وحی میں جو تکلیف اور شدت ابتداء میںتھی وہ بتدریج آسان ہوتی گئی ۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ اتبداء میں چھوٹی آیات کا نزول ہوا مثلاً آغاز میں پانچ آیات اتریں اور پھر آہستہ آہستہ ان کا سائز بڑھتا گیا۔ چند استثنا کو چھوڑ کر نزول وحی کے 23 سالوںکے دوران یہی طرز برقرار رہا ۔ چنانچہ قرآن کریم کے اخیر میںموجود تمام چھوٹی چھوٹی سورتیں ابتدائی دور میں وحی کی گئیں جبکہ بڑی بڑی مثلاً سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران کے بڑے حصے بعد کے دور میں نازل ہوئے۔
مذکورہ بالا آیت یعنی ’’ تجھ سے تیرا بوجھ اتاردیا‘‘ کی تشریح بعض مفسرین نے(13) اس طرح کی ہے کہ یہاں اﷲ ان درپیش مسائل و مشکلات اور ان غلطیوں کی طرف ا شارہ کررہا ہے جو منصب رسالت پر فائز ہونے سے قبل رسول اﷲ سے ہوئی تھیں یا درپیش تھیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ تفسیر صورتحال کی صحیح عکاّسی نہیں کر پارہی کیونکہ مفسرین قبل از نبوت آ پ کی ممکنہ غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہیں۔ مزید یہ کہ یہ بالکل ابتدائی دور کی وحی ہے۔ جب مسائل کے بوجھ کا اثر کم نہیں ہورہا تھا بلکہ مسائل کا آغاز ہورہا تھا۔اس پس منظر میں بعض روایتیں حدیث لٹریچر میںموجود ہیں جو اس بحث کوخاصا دلچسپ بنا دیتی ہیں۔ ان روایتوں میں رسول اﷲ کے جسم پر بعض
اجنبی افراد کے ذریعہ کی جانے والی جراحی کا تذکرہ ہے۔ ان روایتوں میں الفاظ کے ساتھ ساتھ اس جراحی کے وقت آپ کی عُمر کا فرق بھی پایاجاتا ہے لیکن عمل جراحی کا واقعہ سب میں یکساں ہے۔ تفسیری لٹریچر میں تفسیرالقرآن العظیم میںابن کثیر (وفات 774 ھ) نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جسے ہم یہاں پور ا پورا بیان کرتے ہیں:
’’ اُبی بن کعب کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کے مقابلہ میں رسول اﷲ سے سوال کرنے میں ابو ہریرہ زیادہ بے تکلف تھے۔ ایک دن انھوں نے رسول اﷲ سے سوال کیا:
وہ اولین نشانی کیا تھی جس سے آپ کو یہ لگا کہ آپ منصب رسالت پر فائز ہونے والے ہیں؟ رسول اﷲ بیٹھ گئے اور فرمایا ــ :
’’ ابو ہریرہ تم نے سوال کر ہی ڈالا ہے۔ تو بتاتاہوں میں کوئی دس سال کا رہا ہوں گا کہ ریگستان میں تھا تو سنا کہ کوئی میر ا نام لے رہا ہے۔ میں نے نظریں اُٹھا ئیں تو دو لوگ نظر آئے۔ ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ کیا یہ وہی ہے ــ ؟’’وہ میرے سامنے اترے اور دوسروں سے مختلف نظرآرہے تھے۔ اور جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ دوسروں سے بالکل جدا اور میرے لیے بالکل نئے تھے۔وہ میر ی طرف ا ٓگے بڑھے اور پھر ایک نے اپنا ہاتھ میرے شانوں پر رکھ دیا۔ میں گویا آج بھی ان کے لمس کی ٹھنڈک محسوس کرتاہوں۔ ایک نے دوسرے سے کہا کہ ’اسے لٹادو‘۔انھوں نے مجھے بلا کسی مشقت کے لٹادیا۔ پھر ایک دوسرے سے بولا ’’سینہ کھول دو‘‘ اس عمل میں نہ تو خون بہا اور نہ ہی میں نے کوئی درد محسوس کیا۔ ایک نے کہا’’ اس کے اندر سے فریب اور حسد نکال دو۔ خون کا لوتھڑا جیسی کوئی شئے انھوں نے نکال کر پھینک دی۔ پھر اس نے کہا اب رحم اور دردمندی رکھ دو‘‘ دوسرے نے چاندی کی طرح چمکتی کوئی ا تنی ہی بڑی چیز جتنی نکال کر پھینکی تھی اُٹھاکر رکھ دی۔ پھر اس نے میرے سیدھے پیر کے انگوٹھے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور بولا ’’ ہوجائو جیسے پہلے تھے۔‘‘ اور بس ایک لمحہ میں میں بالکل ٹھیک اور چلتا پھرتا ہوگیا۔ اور اب چھوٹوں کے لیے میرے دل میں دردمندی تھی اور بزرگوں کے تئیں رحم کے جذبات۔‘‘ (14)
1- بائبل کی کتاب العمل میں بھی حضرت عیسیٰ کی زندگی کی اہم ترین واردات یعنی زمین سے آپ کی رخصتی کے ساتھ دو پراسرار سفید پوش ہستیوں کی آمد کا تذکرہ ہے:
’’جب عیسیٰ یہ کہہ چکے، تو وہ ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اٹھا لیے گئے اور بادل کے ایک ٹکڑے نے انھیں نظروں سے چھپالیا۔عیسیٰ کے حواری انھیں آسمانوں میں جاتا دیکھ رہے تھے کہ اچانک دو سفید پوش ظاہر ہوئے اور ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔’’ گلیلی کے لوگو‘‘! انھوں نے کہا: ’’تم آسمان کی طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟ یہی عیسیٰ تم سے جدا ہوکر اب جنتّو ں کی طرف محو پرواز ہیں۔ جس طرح گئے ہیں اسی طرح پھر تمہارے پاس واپس آئیں گے‘‘۔ (10:11, Act.9)(15)
منقولہ مکالمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو سفید پوش معمولی راہ گیر نہ تھے۔ انھیں عیسیٰ کے بارے میں وہ کچھ معلوم تھا جو ان کے اصحاب کو بھی نہیں تھا۔ قدیم رکارڈ س یہ نہیں بتاتے کہ وہ دونوں سفید پوش کہاں سے آئے اور وقوعہ کے بعد کہاں چلے گئے تھے ۔
عالم اسلام میں بھی یہ پر اسراریت پائی جاتی ہے۔ قدیم ریکارڈس میں ان دو سفید پوشوں جن کا لمس غیرمعمولی طور پر ٹھنڈا تھا کچھ نہیں ملتا ۔ البتہ جو بات سمجھ میں آجاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس جّراحی کے نتیجہ میں جسے بظاہر غیرانسانی وجود نے انجام دیا تھا رسول ااﷲ کے بچپن میں جسم میں کوئی ایسی شئے ڈالی گئی تھی جس سے جسم کا ڈھانچہ اور پٹھے اور جسم کے مختلف حصوں میں برداشت کرنے اور باقی رہنے کی صلاحیت میںغیر معمولی اضافہ ہوگیا تھا اور جسم کا دفاعی نظام بہت مضبوط ہوگیا تھا۔ اس قیاس کو ایک دوسرے وقوعے سے بھی مدد ملتی ہے جو خاصی عمر گذر جانے کے بعد آپ کو پیش آیا تھا۔
ایسے متعدد بیانات موجود ہیں جو رسول اﷲ کی جوانی میں آپ کی کمر پر ابھرنے والے ایک قدرے بڑے دانے یا ابھار کا حوالہ دیتے ہیں۔(16) ان بیانات میں زیادہ تر اس ابھار کا سائز کبوتر کے انڈے جیسا اور دونوں شانوں کے درمیان میں کسی مقام پر گردن کے قریب بتایا گیا ہے۔ ایک بیان ایسا بھی موجود ہے جواس کا سائز مٹھی کی پشت جیسا اور بایاں بازوکی طرف بتاتا ہے یہ بیان بھی موجود ہے کہ جب کسی نے اسے جرّاحی کے ذریعہ نکال دینے کا مشورہ دیاتو آپ نے ا نکار کرتے ہوئے اسے نزول وحی سے منسلک قرارد دیا تھا۔صحابہ کرام مہر نبوت کے حوالہ سے اس ابھار کا تذکرہ کرتے تھے۔
اس سلسلہ میں تین باتوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یعنی کمر پر ایک ابھارکا ہونا ، جراحی کے ذریعہ اسے نکالنے سے رسول اﷲ کا انکار اور نزول وحی اور اس ابھار میں ایک تعلق خاص۔ کیونکہ یہ ابھار vertebral column کے بالکل اوپر تھا جہاں ہڈیوں اور جلد کے درمیانی عضلات (muscles) اور شحم (چربی ) کی پرت مہین ترین ہوتی ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ یہ اس اضافی دبائو اور بو جھ کو برداشت کرنے کی خاطر عطا کی گئی اس داخلی اضافی کمک کا خارجی اظہار ہو اور جو ہڈیوں کے frame میں نیچے تک پہنچتی ہو۔ یہ وہ واحد توجیہہ ہے جو مذکورہ تینوں عوامل کو رسول اﷲ پر بچپن ہی میں ہونے والے عملِ جراحی اور آپ کو حاصل ہوجانے والی اس قوت برداشت کی تفہیم میں مدد دیتی ہے جس کی بدولت آپ سیدھے کھڑے کھڑے بھی نزول وحی کے زبردست بوجھ کو برداشت کرلیا کرتے تھے۔
ضمناً یہ بھی واضح رہے کہ تاریخ میںکوئی ایسا بیان نہیں ملتا جس میں کمر کے ابھار ، رسول اﷲ کا اس ابھار کی جراحی سے انکار اور وحی سے اس کے تعلق پر روشنی پڑتی ہو۔ بلکہ آج تک کسی بھی اسکالر نے عمل وحی اور کمر کے ابھار پر غور و فکر یا قیاس آرائی بھی نہیں کی۔
اس موضوع سے متعلق دو مزید پہلو قابل غور ہیں۔ البتہ یہ دونوں محض فرضی اور خیالی نوعیت کے ہیں اور ان سے متعلق کوئی حوالہ قدیم روایتوں میں نہیں ملتالیکن اس پس منظر میں خاصے اہم ہیں۔ دورِ جدید کے بر خلاف جبکہ ہماری زمین برقی مقناطیسی لہروںکے ایک جال میں ملفوف ہوچکی ہے، قرآن کریم کی وحی اس دور میں نازل ہوئی جب ہمارا کرئہ ارض برقی طور پر خاموش اور ساکت تھا۔ ساتویں صدی ہجری میں برقی مقناطیسی سرگرمیوں کا واحد ذریعہ سورج، ستارے اور کرہ ارض پر پائے جانے والے مختلف النوع نباتاتی و حیوانی (flora and faunna) وجود کا حیاتیاتی عمل ہی تھا۔ مزید یہ کہ وحی کا نزول ہزاروں میل تک پھیلے ایک ایسے ریگستان میں پائی جانے والی ایک پیالہ نما وادی میں ہوا تھا جہاں حیاتیاتی عمل کے آثار تقریباً ناپید تھے۔ مزید یہ کہ رات کے وقت یہ حیاتیاتی عمل بھی اپنی کم ترین سطح پر ہوتا ہوگا۔ اس صورتحال میں اور بالخصوص رات کے وقت رسول اﷲ کو یہ ہدایت کہ پیغام رسانی کے مقصد کے پیش نظر وہ اٹھ جایا کریں (مزمل 73:1-6) خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
جن احادیث میں یہ تمام احوال منقول ہیں ان کی صداقت پرکھنے کے لیے ان کی قدامت اور معیار صداقت کو ہی نہیں بلکہ منطقی امکان کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ مثلاً کوئی یہ سوال کرسکتا ہے بلکہ یہ سوال اٹھایاجاتا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ احادیث من گھڑت رہی ہوں۔ مثلاً یہ سوچنا چاہئے کہ نزول وحی کے دوران شدید درد اور تکلیف کے احساس کا بیان گھڑنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے وہ بھی اس طرح کہ اس تکلیف سے وابستہ تمام ممکنہ علامتوں کا مکمل تذکرہ بھی ہو اور پھر اس کی کوئی توجیہ آنے والی صدیوں تک نہ پیش کی جاسکے۔ اسی طرح دوران نزول وحی بظاہر رسول اﷲ کے سر سے دھیمی مگر تیز بھنبھناہٹ کی آواز کا آنا بھی ایک ایساہی بیان ہے جو بجلی یا انرجی کے تصورات سامنے آنے سے ہزار سے زیادہ سال پہلے جن کا گھڑا جانا انتہائی حیرت انگیز اور بعید از قیاس ہے۔ اسی طرح دوران نزول وحی، رسول اﷲ کے وزن میں بے حد اضافہ ہوجانے کا بیان بھی من گھڑت نہیں ہو سکتا ۔انسانی نفسیات میں اوج اور پستی کا تصور نیکی اور بدی سے متعلق ہے اور آپ کا کوئی بھی پیروکار اپنے حواس میں رہتے ہوئے رسول اﷲ کے لیے کوئی ایسا جعلی بیان منسوب نہیں کرسکتاکہ آپ ایک پراسرار روحانی تجربہ سے گذرتے ہوئے نفسیاتی پستی کا شکا ر ہوئے۔ بلکہ یہ بیان اگر من گھڑت ہوگا تو بھی اس میں رسول کو نفسیاتی بلندی کی طرف محو پرواز ہی ظاہر کرے گا اور خاص طور پر اس وقت جبکہ اس عمل میں متحرک ترین عامل ایک بزرگ اور محترم فرشتہ تھا۔ دیکھا جائے تو اس بیان کے ساتھ ساتھ نزول وحی میں زبردست انرجی کی معیت اور اس پیغام کی ترسیل کے لیے رسول اﷲ کے جسم مبارک کی خصوصی تیاری جس کا تذکرہ الانشرا ح 1-9میں ہواہے، ایک ایسا سلسلہ وار بیانیہ لگتا ہے جس کا تذکرہ اس سے قبل کبھی نہیں کیا گیا تھا۔یہ بھی واضح رہے کہ یہ بیانات ایسے متعدد بیانات سے کسی خاص معیار کو سامنے رکھتے ہوئے منتخب نہیں کیے گئے بلکہ احادیث کے لٹریچر میں یہی چند رپورٹیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں من گھڑت ہونے کے پہلو کو شامل کرنے کے لیے اس وقت کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی منطق اور دلیل فراہم کرناہوگی جس کے نہ مل پانے کے نتیجہ میں ان تمام بیانات کو صحیح اور معتبر مانے بغیر کوئی چارہ نہیں باوجود اس کے کہ ہم معلوم علم کی روشنی میں ابھی تک ان کی تشریح سے قاصر ہیں۔
رسول اﷲ کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب بھی کوئی وحی نازل ہوتی اپنے کاتبین سے اسے ضبط تحریر میں لانے کا حکم د یتے (17)محض اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی بتاتے کہ اسے کس مقام پر رکھنا ہے ؟(18)مزید یہ کہ اسی خاص ترتیب میںانھیں یاد کرلینے کا حکم بھی دیتے۔ پھر ہر سال ماہ رمضان میں ہر ایک کی یہ ذمہ داری تھی کہ اس وقت تک جتنا بھی قرآن نازل ہوچکا تھا اسی خاص ترتیب میں اس کی تلاو ت کرتا۔23سال بعد جب پیغام ربّانی کا آخری حصہ نازل ہوا(19) تو اﷲ کے رسول نے اسے پانچویں باب کی چوتھی آیت میں رکھنے کا حکم دیا اور اس طرح آخری وحی کے ساتھ قرآن کریم کی ترتیب کوبھی آخری شکل مل گئی۔اس آخری دن سے آج تک کروڑوں مسلمان اسی ترتیب کے ساتھ بلا ناغہ ماہِ رمضان میں پوری دنیا میں اس مکمل پیغام کی تلاوت کرتے آئے ہیں۔ بعد میں اسے نماز تراویح کی شکل میں ایک ادارہ کی حیثیت مل گئی۔
رسول اﷲ کی وفات کے کوئی چھ ماہ بعد جنگ یما مہ میں رسولؓ اﷲ کے ایک قریبی ساتھی حضرت عمر ؓنے محسوس کیا کہ دشمن ان لوگوں کو ختم کرنے کی خاص کوشش کررہا ہے جنھوں نے پورے قرآن کو یاد کررکھا ہے تو انھوں نے خلیفہ وقت حضرت ابو بکرؓ کو مشورہ دیا ہے کہ قرآن کریم کو تحریری شکل میں جمع کردیا جائے تاکہ اس کا کوئی حصہ کھو نہ جائے اور پورا قرآن انسانوں کے سامنے آجائے۔خلیفہ وقت کو ابتداء ًکچھ تکلّف ہوا لیکن پھر آ پ ؐنے حضرت علی ؓ جو رسول اﷲ کے چچیرے بھائی کے ساتھ آپؐ کے دامادبھی تھے اور زیدؓ جو آپ کے آزاد کردہ غلام اور بہت قریبی ساتھی تھے کو حکم دیا کہ قرآن کریم کو جمع کریں۔ ابتداء میں ان دونوں کو بھی ذرا تکلف ہوا لیکن بالآخر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ کیونکہ رسول اﷲ قرآن کریم کو کتابی شکل میں چھوڑ کر نہیں گئے تھے اس لیے ان حضرات کو اپنے اس عمل کی صحت اور معقولیت پر پورا یقین نہیں تھا۔ لیکن چونکہ قرآن پہلے ہی سے رسول اﷲ کی ہدایت کردہ تحریر میں موجود تھا اور اسی ترتیب میں یہ صحابہ کرام کو یا د بھی تھا تو بالآخر حضر ت عمر ؓ کے مشورہ کی معقولیت پر سب کو اطمینان ہوگیا ۔
چنانچہ حافظہ سے تحریری شکل میں منتقلی کے لیے ایک پہلا عمومی اعلان کیا گیا کہ انفرادی طور پر جن جن کے پاس قرآن کریم کے جو جو حصّے لکھے ہوئے موجود ہیں انھیں ایک جگہ جمع کردیا جائے۔ بعد میں جب یہ تحریر شدہ حصّے جوالگ الگ کاغذ، چمڑے ، ہڈی، پتھر کے ٹکڑوں ، کھجور کے تنوں پر لکھے ہوئے تھے، جمع ہونے لگے تو یہ احتیاط کی گئی کہ اُنھیں تحریروں کو قبول کیا گیا دو آزاد گواہوں نے جن کی صحت کی شہادت دی۔ کتاب میں شامل کرنے کے لیے ہر تحریر شدہ وحی کو حافظہ کی شکل میں محفوظ آیتوں سے ایک بار پھر چیک کیا گیا۔ اور یہ صحابہ وہ تھے جنھوں نے ان آیتوں کو رسول اﷲ سے براہ راست سنا تھا اور پورے قرآن کو حفظ کرلیا تھا۔ ایسے حفاظ کی تعداد خود رسول اﷲ کے زمانہ میںسینکڑوں سے متجاوز ہوچکی تھی۔
اس طرح قرآن کریم کی جمع وترتیب خلیفہ اوّل کے دور میں ہوئی لیکن خلافت کی طرف سے اس مکمل مسودہ کی آفیشیل نقلیں خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں تیار ہوئیں۔ اُس وقت تک اس پیغام کے اثرات شام تک پہنچ چکے تھے۔ اس کے نتیجہ میںیہ فکر مندی بھی پیدا ہوگئی کہ ادائیگی اور تلفظ میں جو تحریفات پیدا ہونے لگی تھیں کہیں وہ اصلی مسودہ کو تبدیل نہ کرنا شروع کردیں۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے یہ کیا کہ ان کے وقت تک قرآن کی جو مختلف نقلیں موجود تھیں انھیں تلف کرادیا اور مذکورہ بالاایک نقل سے مختلف کاپیاں تیار کراکر پوری مملکت میں اہم مراکز تک بھیجوادی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ نقل کے ہمراہ صحیح طرز پر تلاوت کرنے والوں کا ایک گروپ بھی ان مقامات پر بھیجا گیا تاکہ وہ صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن کو پڑھنے کی تعلیم بھی دے سکے۔ غیر سرکاری نقول کو تلف کردینے کی کئی وجوہات تھیں۔ آیات مختلف حصوں میں نازل ہوتی تھیں اور صحابہ کرام ان تحریر شدہ آیات کوآپس میں تقسیم کرلیا کرتے تھے۔ انھیں دیکھ کر بعض دوسروں نے بھی نقلیں تیار کرلیں جن میں ہجّوں کی کچھ غلطیاں بھی در آئیں۔ یہ بھی ہوا کہ لکھنے والوں نے اپنی ذاتی نقول کے حاشیوں پر کچھ اپنے نوٹس بھی تحریر کردیے تھے۔ ہجوں کی یہ غلطیاں اور ذاتی نوٹس آنے والے دورمیں بہت سی غلط فہمیوں اور الجھنوں کا باعث ہوسکتے تھے۔ قرآن کریم قبیلہ قریش کی زبان میں نازل ہوا تھا اور اس وقت پورا قبیلہ موجود تھا جو زبان کی نزاکتوں سے بخوبی آگاہ تھا۔ ایسے متعدد صحابہ ابھی موجود تھے جنھوں نے اﷲ کے رسول سے براہ راست قرآن سنا اور سمجھاتھا۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ گارنٹی نہیں دی جاسکتی تھی کہ مستقبل میں بھی قرآن کریم نزاعات سے محفوظ رہے گا اور خاص طور پر اس وقت جبکہ ان نوٹس اور ہجوں کی غلطیاں لیے ہوئے مختلف کاپیوں کو خلیفہ وقت نے تلف نہ کرایا ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی، حفظ کی جانے والی اور اس طرح سب سے زیادہ حفاظت کی جانے والی کتاب ہے اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جو نقول تیار ہوئی تھیں ان کی دو کاپیاں دنیا کے عجائب خانوں میں آج بھی محفوظ ہیں اور انھی کی بنیاد پر تیار کی جانے والی متعدد قدیم نقول بھی دستیاب ہیں(20) اور کروڑوں کی تعداد میں ان کے پڑھنے والے موجود ہیں۔