Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
مدرسہ ڈسکورسزپروجیکٹ کے لیے تیار کردہ ایک مختصر ویڈیو ٹریلر میں میں نے یہ نکتہ اٹھایاتھا کہ جدید سائنس جدید علم کلام کا تقاضا کرتی ہے۔ حالانکہ میری یہ تجویز اس روایتی طبقے کو ناگوار گزرے گی جو تجدید دین کے محرکات کو مستقبل کی جگہ ماضی میں تلاش کرتا ہے۔تکنیکی سائنس آج اعلی مقاصد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔وہ ایک ایسا مستقبل تعمیر کرنا چاہتی ہے جہاں انسان اپنے وجود سے اوپر اٹھ کر ستاروں پر کمندیں ڈالے۔ کیسا ہوگا اگر ہم دوسرے سیاروں پر نئی دنیا بسائیں، ہمارے اجسام اپنی وضع تبدیل کر کے ایسی ہی زندگی گزاریں جیسی ہم آج گزارتے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کو قبول کر لیں۔ اس روز افزوں حقیقت اور ٹرانس ہیومنزم کے ذریعہ معلومات کے نیٹ ورک اور مصنوعی اشیا کا خود کو عادی بنالیں۔ حقیقت میںروایت یا روایتی ذہن ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ مخفی چیز کا خوف روایت کو منجمد کر دیتا ہے۔ ہمارے سامنے آج بدلتی ہوئی دنیا کی جو تصویر ہے ،پوری انسانی تاریخ میں کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ سب سے بہترین میری نسل ہے، پھر وہ جو میرے بعد آئے گی۔ اس کے بعد وہ جو اس کے بعد آئے گی۔(بخاری: 3650) ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ حدیث مسلمانوں کو تحریک دیتی رہی ہے۔ مثالی ایمان و عمل پر مبنی زندگی کا یہ اہم نمونہ ہے جسے ساتویں صدی میں خطہ عرب کے اندر مبعوث ہونے والے پیغمبر کی زندگی میں تلاش کیا جاتا ہے۔یہ بالکل صحیح ہے کہ ماضی سے رشتہ منقطع نہیں کیا جاسکتا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی طرح مستقبل کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ روایت ماضی کی کھوئی ہوئی حسین یادوں کی تلاش میں گم ہوجانا چاہتی ہے، جب کہ مستقبل جس کی تلاش و یافت ابھی باقی ہے، جوانمردی اور عزم و حوصلگی کی دعوت دیتا ہے۔ ایسی صورت میں ان روایت پسند لوگوں کے لیے جو رسول اللہ سے محبت اور وحی پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتے ہیں، کیایہ ممکن ہے کہ وہ ایک ایسے مستقبل کا تصور کریں ،جو تکنیکی و سائنسی اور بین کواکبی(interstellar) ہو؟ کیا سنت کے ذریعے ایک ایسے فریم ورک کی تشکیل ممکن ہے، جو اس امید کو زندگی و حوصلہ بخشے اور اسے پروان چڑھائے؟ کیا ضروری ہے کہ ایک مومن کی تلاش و جستجو نئی دریافتوں میںشکوک و شبہات پر منتہی ہو؟ سوال یہ ہے کہ کیا سنت ہمیں ایک غیر یقینی تاہم پرجوش مستقبل کی تلاش کی تحریک دے سکتی ہے؟
ان دونوں نکات کا تقابلی مطالعہ حال ہی میں شائع ہونے والی دو مطبوعات میں کیا جا سکتا ہے۔ زیتونہ کالج کے جرنل Renovatioکی شاندار اولین اشاعت میں شامل ایک خصوصی مضمون میں مارک ڈیلپ(Mark Delp ) مسیحی روایت میں موجود ’’ڈیزرٹ فادرس‘‘ (یہ مسیحی راہبوں کی ایک جماعت تھی جو تقریبا تیسری صدی میں مصر کے وادی نطرون میں زندگی بسر کرتی تھی) کو بنیاد بنا کر روح کو افسردہ کرنے والی ڈجیٹل تصاویر کے خطرات کی وضاحت کرتے ہیں۔ ڈیلپ لکھتے ہیں کہ ایسی مشمولات جو واضح طور پر عریاں اور قابل مذمت ہیں ، ان سے قطع نظر جو عام درجے کی مشمولات، آن لائن یا تصویری اشتہارات ہوتے ہیں وہ بھی اخلاق سوز اور مضر ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے مذہبی اصولوں کی روشنی میں جن کا تصور مختلف مذہبی روایات میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے،ایسی تصویروں کو دیکھنا جو اخلاقاََ بری نہیں سمجھی جاتیں اوروہ کسی اخلاقی پابندی کے بغیرمختلف سائٹوں پر دستیاب ہوتی ہیں، وہ بھی انسانی شخصیت کے لیے پر خطرتصور کی جاتی ہیں کیوں کہ وہ انسان کے سکون قلب کو درہم برہم کر دیتی ہیں جو خارج میں اخلاقی عمل کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے۔(1) متاثر کن انداز میں خوش اسلوبی سے لکھا گیا یہ آرٹیکل بہت سارے روایت پسندوں کو بڑا مسحور کن محسوس ہوگا ۔تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے استعمال کے خلاف لوگوں کو متنبہ کرنے والا یہ مقالہ اپنے پیغام کودوسروں تک پہنچانے کے لیے اسی ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے استعمال کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔
اوپر بیان کردہ تصور’’ کلایئوتھامپسن‘‘( Clive Thompson)کی خوش امیدی کے بالکل برعکس ہے۔ اپنی معروف کتابSmarter Than You Think میںتھامپسن بیان کرتے ہیں کہ کس طرح imaging technology اور انٹرنیٹ لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں معاونت کررہے ہیں اور ان سے سماج پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ وہ اس تعلق سے واقعات بیان کرتے ہیں ان میں سے ایک واقعہ ’’گورڈون بیل‘‘( Gordon Bell) کا ہے، جو اپنے ساتھ ایک کیمرا اور ایک آڈیو ریکارڈر لے کر چلتا ہے اور تقریبا ہر سامنے آنے والی چیز کو ریکارڈ کر لیتاہے۔ اس طرح وہ اپنی یادداشت کو محفوظ کر لیتا ہے اور عرصہ دراز کے بعد بھی اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ بغیر کسی مشکل اور پریشانی کے، ایک آسان سی کوشش کے ذریعہ کسی بھی شخص کے ساتھ ہونے والی ملاقات یا کسی نوع کی مشغولیت کو دوبارہ ذہن میں تازہ کر سکے۔ بیل کے مطابق سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عمل سے اسے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔یہ خیال کہ ہر وہ چیز جسے وہ پڑھتا ، دیکھتا ، یا سنتا ہے، محفوظ ہے؛ اسے ہر لمحہ زندگی کا احساس دلاتا رہتا ہے، اور اسے ہر کام کو پوری توجہ سے کرنے میں مدد دیتا ہے۔(2)تھامپسن دوسری مثال ایسےAlzheimer کے مرض سے متاثر ا فراد کی دیتے ہیں جو اپنے ساتھ کیمرے رکھتے ہیں اور رات میں سونے سے پہلے دن بھر کی رکارڈنگ دیکھ لیتے ہیں۔ اس پر ہونے والی تحقیقات سے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں ان کے مطابق اس عمل کے ذریعہ ان کی یادداشتیں تیزی سے مضبوط ہو رہی ہیں۔
اس پوری بحث سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی نئی چیز کے بارے میں شبہ میں پڑنا ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا۔ سقراط Phaedrus (ایک مکالمہ جسے افلاطون نے لکھا تھا) میں فن تحریر کی مخالفت کرتا ہے کیوں کہ اس کے مطابق اس طرح لوگ چیزوں کو بھولنے لگیں گے۔ افلاطون اپنے دوسرے مکالمے Gorgias میں فن بلاغت کی مخالفت کرتا ہے، کیوں کہ اس کا ماننا ہے کہ اس کے ذریعہ سچائی کی ملمع سازی کی جا سکتی ہے اور لوگوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ظاہر ہے، تاریخ کے عمل کو کوئی روک نہیں سکتا۔ سقراط بھی نہیں۔ ہر ٹیکنالوجی دو دھاری تلوار کی طرح ہوتی ہے۔ ایک بار وجود میں آ جانے کے بعد اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ اس کے استعمال کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ سکون قلب کا سامان مہیا کرنے کا ایک طریقہ تو’’ ڈیزرٹ فادرس‘‘ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا سے بے تعلق ہو جانا ہے، جس میں وسوسوں اور خواہشات کے خلاف سخت احتیاط کی تاکید کی جاتی ہے۔ تاہم گوشہ نشیں ہو جانا تاریخ کے عمل پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اس کے بر عکس دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایسے درویش کی طرح جو زندگی کو ایک متحرک چیز سمجھتا ہے، شہروں کی افراتفری اور ہما ہمی کے درمیان قلبی سکون حاصل کیا جائے۔وہ رقص بھی کرتا ہے لیکن اپنے مرکز سے دور بھی نہیں جاتا۔
ایسا بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ہر نئی ایجاد مثبت اور مفید ہی ہوتی ہے۔ بیسویں صدی کی تباہ کن جنگیں اس دعوے کی تائید کے لیے کافی ہیں۔ ایسی صورت میں روایت ایک ضابطے کا کردار ادا کر سکتی ہے، اور اسے کرنا بھی چاہیے، تاکہ وہ ہمیں احتیاط برتنے اور اپنے اخلاقی رویہ پر غور کرتے رہنے کی دعوت دیتی رہے اور ان چیزوں کا احساس دلائے جو انسان کو انسان بناتی ہیں۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ احتیاط پسندی مفلوج اور جامد کردینے کی حد تک نہ ہو۔ دین میں تجدید کی راہ میں پہلا قدم سائنس اور ٹیکنالوجی کی مسحور کن ترقیا ت کی قدردانی کرنا اور خود کو سائنس کے کرشمے اور دانشوروں کی فکری پرواز سے مسحور ہونے دینا ہے۔بھلے ہی آپ ان کے نظریات سے اتفاق نہ کرتے ہوں۔ جدید سائنس کے پاس تخلیق کائنات کی ایک الگ کہانی ہے، جو بالکل نئی ہے۔ اس نے ایک پیچیدہ کائنات سے ہمیں روشناس کرایا ہے،جس میں ایسی حقیقتیں پنہاں ہیں جو فکر کے قوانین (laws of thought) کو بھی چیلنج کرتی ہیں۔
ہم نے ان سب کو ابھی سمجھنا شروع ہی کیا ہے۔ آن لائن جرنل’’ تجدید‘‘ کا بنیادی مقصد نئی علمی روایت اور تجربات کو قدیم روایت سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ جدید دنیا میں اسلامی تعلیمات کی تجدید کی تحریک کے ایک حصے کے طور پر ہم نے مدرسے کے فارغین کے ساتھ اپنے سفر کا
آغاز کیا ہے۔ یہ طلبہ مدارس اسلامی روایت کا تو بخوبی ادراک رکھتے ہیں، تاہم انہیں باضابطہ طور پر تکنیکی سائنس کی دنیا سے روشناس ہونا بھی ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں وہ فعال فکری رہنما کی مانند ہیںنہ کہ جامد مقلدین کے۔ ممکن
ہے کہ تجدید کی تحریک کے پاس شاندار مستقبل کی تعمیرکے لیے سوالوں کا صرف ایک ہی جواب نہ ہو۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کے مختلف جوابات ہوںجو باہم مختلف اورمتصادم بھی ہوں۔ تاہم یہ تصادم تعمیری ہوگا۔ لہذا تجدید کا مقصد ایک ایسا
پلیٹ فارم تعمیر کرنا ہے جس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لو گوں کو ہم خیال بنانے کی کوشش کی جائے بلکہ اختلاف کے معیار کوبلند کیا جائے۔ زندہ روایات ہمیشہ ایسی ہی ہوتی ہیں: انتہائی متمول اورمتنوع ۔وہ وقت کے اہم سوالات کا جواب
دینے کے لیے ہمیشہ داخلی سطح پر مکالمے میں مشغول رہتی ہیں۔
( ترجمہ : ایم علی ،رابطہ مصنف : mmirza@nd.edu)
(1) Mark Delp, "Beware What Comes Within from Without," in Renovatio, April 28. 2017, https://renovatio.zaytuna.edu/article/beware-what-comes-within-from-without [last accessed May 1, 2017]
(2) Clive Thompson, Smarter Than You Think: How Technology is Changing Our Minds for the Better (The Penguin Press, 2013), p. 32. ( Email.mmirza@nd.ed)