Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
جب سائنس اور مذہب کے مابین رشتے کا سوال اٹھتا ہے تو اس موضوع پر مسلمانوں کی طرف سے جو لوگ گفتگو کرتے ہیں ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اسلام کو سائنس کے ساتھ کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ۔کیوںکہ یہ سوال اصل میں مغربی کلچر کی دین ہے۔ جہاں چرچ نے نہ صرف سائنس کو مشتبہ جانا بلکہ سائنس دانوں کو ٹارچر بھی کیا۔ مثال کے طور پر گیلیلیو کی کہانی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مسلمان قرآن کی متعدد آیات کا حوالہ دیتے ہیں کہ اسلام سائنس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے مثلاً نبی اکرم ﷺ پر پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی اقرأ (پڑھو) تھا۔ (العلق:1) اور إنما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ( الفاطر28:)(اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوںمیں وہی ہیںجوعلم رکھتے ہیں۔) لیکن یہ ردِ عمل چاہے جتنا عام ،فوری اور typicalہو، یہ اپنے اندر کئی غلط فہمیاں رکھتا ہے:
(الف) - سب نہیں تو زیادہ تر حوالے ’’علم‘‘ کے اسی ضمن میں دیے جاتے ہیں۔ اس اصطلاح کو متعدد طرح سے سمجھا گیا ہے جن میں سے ایک ہے مذہبی تعلیم یا خدا کے بارے میں معلومات۔ اور عمومی معنی میں کبھی کبھی اس سے سائنس بھی مراد لی جاتی ہے۔
(ب) - موجودہ زمانہ میں بعض روایتی اسلامی نظریات اور ماڈرن سائنس میں کئی طرح کا تصادم موجود ہے، جن میں حیاتیات سے متعلق سوالات اور ارتقاء کا نظریہ بھی شامل ہے یعنی ڈارون کی تھیوری ،خدا کا عمل، معجزات وغیرہ ۔لہٰذا سادہ طور پر یہ دعویٰ ممکن نہیں ہے کہ اسلام کو ماڈرن سائنس سے کوئی پرابلم نہیں۔
(ج) - اسلام اور ماڈرن سائنس کے تعامل پر گفتگو اسلام اور سائنس دونوں کے حق میںمفید ہوگی لہٰذا اس موضوع سے سرے سے پلہ جھاڑ لینا کوئی مفید عمل نہ ہوگا۔
(د) - اسلام کا جدید سائنس سے تعامل ضروری ہے اور علم کلام سے متعلق مسائل کے بارے میں فیصلہ کن ہے۔ اسی سے ہمارے اس مضمون کا عنوان ماخوذ ہے، ساتھ ہی جینیٹک انجینیرنگ، زندگی کا خاتمہ اور میڈیسن وغیرہ موضوعات بھی زیر بحث آئیں گے۔
اس سرسری بحث میں میںصرف ان تصوراتی، فلسفیانہ ، مابعد الطبیعاتی اور کلامی مسائل پر ارتکاز کروں گا جن کو نیچرل سائنس نے بھی جدیدصورتوں میں اٹھایا ہے۔ عملی مسائل مزید تبصروں، نظرثانی اور بحث و گفتگو کی خاطر چھوڑدیے گئے ہیں۔ ماڈرن سائنس کی تعریف اور بنیاد ی خصائص کا تذکرہ کیا جائے گا۔ اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اسلام اور سائنس کے مابین تعامل کوئی معمولی چیز نہیں۔ اسی طرح علم کلام و سائنس کا باہمی تعامل بھی ضروری اور اہم ہے۔
ضیاء الدین سردار نے ماڈرن سائنس کی تعریف یوں کی ہے: ’’ایک باضابطہ اور منظم اور باقاعدہ اسلوب ِتحقیق جو تجربیت پر مبنی ہے جس کے نتائج کا انطباق عمومی طور پر تمام تمدنوں میں کیا جاسکتا ہے اور ان کو دہرایا بھی جاسکتا ہے۔‘‘(1) اس تعریف میں معروضیت کی صفات پر بہت زور دیا گیا ہے( یعنی دہرائے جانے اور عمومی ہونے کی صلاحیت) اس کے علاوہ پر قابلِ آزمائش ہونے (تجربات و تجربیت) پر بھی۔ یہ بالواسطہ سائنس کے پراِسس (سائنٹفک میتھڈ) کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اس میں کارل پوپرکا’ ’قابلِ تخطیۂ‘‘ معیار (testability)بھی آجاتا ہے جو کسی بھی ایسی مجوزہ تشریح کو جس میں چیکنگ کے طریقے نہ ہوں غیر سائنسی قرار دیتا ہے۔ اس چیکنگ کامقصد یا تو اس کی توثیق کرنا یا غلط قرار دے کر اس کو مسترد کردینا ہے۔ تاہم سردار کی تعریف میری نظر میں ماڈرن سائنس کی جو بنیادی صفات ہیں ان کو بیان نہیں کرتی یا کم از کم واضح طریقے پر نہیںکرتی ؛خاص طور پرمنہاجیاتی فطرتیت (methedological naturalism)کو جس کا اصرار ہے کہ سائنس محض مظاہر فطرت سے بحث کرتی ہے اور مافوق الفطرت چیزوں کومکمل طور پر خارج کردیتی ہے۔یہ مافوق الفطرت چیزیں فرشتہ، شیطان، ارواح اور یہاں تک کہ خدا ہی کیوں نہ ہوں۔
مزید برآں ماڈرن سائنس نے اپنے دائرئہ فکر سے کسی بھی طرح کے غائی اعتبارات کو نکال دیا ہے۔ اور خاص طور پر اس تصور کو کہ کائنات کی تخلیق کا کوئی مقصد ہے؟۔ خدا میں یقین رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بہت حساس اورمسئلہ ہے۔
میتھوڈولاجیکل نیچرل ازم(MN)کا تصور فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہے اور سائنس اور مذہب یا سائنس اور اسلام کی بحث میں اس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ لہٰذ ہم ا اس نکتہ کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کو فلسفیانہ نیچرل ازم سے ممیز رکھنا لازم ہے جس کی رو سے الحاد یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مافوق الفطرت چیزوں کا وجود ہے ہی نہیں۔ یہ فلسفیانہ مادیت کے مترادف ہے۔ جیسا کہ اس نام سے اسے پکارا بھی جاتا ہے یا میٹافیزیکل مادیت کے مرادف ہے۔ یہ پوزیشن بہت سے فلسفیوں اور کئی سائنس دانوں نے اختیار کی ہوئی ہے۔ تاہم یہ سائنس کا کوئی اصول نہیں ہے۔ جیسا کہ فل اسٹل ویل(Phil Stilwell) اپنے ایک حالیہ پیپر میں بیان کرتا ہے:
’’زیادہ تر اسکالر تحریر کرتے ہیں کہ سائنٹفک نیچرل ازم مافوق الفطرت وجودوں کے امکان کی نفی نہیں کرتا۔ سائنٹفک نیچرل ازم ایک مشروط علمیات اور وجودیات ہے جو ایک فریم ورک فراہم کرتی ہے جس کی بنیاد پر سائنس کام کرتی ہے۔ یہ حدود محض مشروط ہیں۔ سائنٹفک، نیچرل ازم کا مطلب فلاسوفیکل نیچرل ازم قطعا نہیں بلکہ وہ بعض عملیات اور نظائر سے عبارت ہے کیونکہ سائنس اپنا ہر تخلیقی عمل کسی مفروضے سے شروع کرتی ہے۔ظاہر ہے کوئی بھی تشریح مادی قانون اور تعریفات کے طے شدہ دائرہ میں ہی آئے گی۔ سائنٹفک نیچرل ازم کا مطلب ہے کہ اگر نیچرل تشریح کسی تحقیق سے نہیں نکلتی تو ہم اس کے سپر نیچرل سبب کا اعلان نہیں کرڈالیں گے۔‘‘ (2)
لیکن کیسے اور کیوں میتھوڈولاجیکل نیچرل ازم جدید سائنس کا ایک ستون بن گیا؟ کئی فلسفیوں ، جن میں مائکل مارٹن اور Massimo Pigliucciدونوں مصنف شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی سبب عملیت اورتاثیر ہے۔ چناں چہ یہ اپروچ خود سائنٹفک ریسرچ اور تحقیق کو آگے بڑھانے میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ اس میں سب سے چھوٹا مفروضہ کام کرجاتا ہے جو اوکام کے ریزر(Occam’s razor)یا کفایت شعاری کے اصول کے مطابق ہو، جس کی رو سے سائنس داں ہمیشہ اپنی تشریحات میں بہت سادہ اور چند ہی مفروضات کا استعمال کرتے ہیں۔ لہذاجب مادی اسباب مظاہرِ فطرت کی توجیہ کرسکتے ہیں تو مافوق الفطرت عوامل کی ضرورت کیوں ہو؟ حقیقت میں ماڈرن سائنس کے ظہور کے وقت مظاہر فطرت کی توجیہ کے لیے مافوق الفطرت عوامل کے حوالے کو سائنس کا راستہ روکنے والا، غیر تخلیقی اور یہاں تک کہ معکوس نتیجہ پیدا کرنے والا عنصر قرار دیا گیا جس سے ترقی کی راہ میں روڑے پڑتے تھے۔ (ترقی سے یہاں مراد فطرت کے بارے میں مزید سچائیوں کو جاننا اور مفید آلات کی اختراع ہے۔)مثال کے طور پر اگر کوئی ڈاکٹر دماغی بیماری کو جن بھوت کی کارستانی بتانے لگے تو وہ دماغ کے گہرے پیچیدہ نظام کو خاک سمجھے گا !نہ اس کی کوئی ایسی دوا تجویز کرسکے گا جو بیمار کی مشکلات کو کچھ کم کرسکے۔
واضح طور پر سائنس کا فریم ورک کم از کم دنیا اور مظاہرِ فطرت کے بارے میں اسلام کے بعض اجزا کو تو چیلنج کرتا ہی ہے، جیسا کہ مسلمان اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ شخصی طور پر راست دنیا میں مداخلت کرتا ہے۔ مثلاً معجزات کے ذریعہ(اس پر بعد میں بات ہوگی) یابڑے پیمانے پر عام حالات میں بھی جیسے زلزلے، سیلاب وغیرہ یا چھوٹے شخصی و انفرادی پیمانہ پر جیسے دعا کی قبولیت کے حوالے سے خصوصیت کے ساتھ۔ اس کے کچھ سنجیدہ اطلاقات بھی ہیں جیسے ہمارے اطراف میں موجود مظاہر کی توجیہ جن میں دفعتاً لاوا پھوٹ پڑنا، موت ہوجانا یا خاص طور پر گنہ گاروںکے اندر مختلف طرح کی بیماریوں کا پھیل جانا وغیرہ شامل ہیں۔چنانچہ قدیم عیسائیوں میں بجلی چمکنے کو کہا جاتا تھا کہ یہ گنہ گاروں کے لیے خدا کے غیض وغضب کا اظہار ہے۔بعد میں سائنسی تحقیق نے اس تشریح کو غلط ثابت کردیا اور بتادیا کہ یہ بجلی بننے کے معمول کا حصہ ہے۔ بہت سے مسلمانوںمیں اس نوع کے توہمات پائے جاتے ہیں کہ وہ دماغی بیماری کو جن بھوت کے آنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس طرح کی تشریحات میں اگر متاثرہ افراد اور ان کے مذہبی اعتقادات ورویوں میں شماریاتی مطابقت یا عدم مطابقت کا تھوڑا سا بھی مطالعہ کرلیا جائے تو’’گناہ‘‘ کے عنصر کو ’’پوپیرین‘‘ طریقہ پر غلط ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
یوں سائنس اورعلم کلام (اور عمومی طور پر خدا کو ماننے)کے درمیان چیلنج، مقابلہ اور ٹکراؤ کا پہلا پڑاؤ تو یہی ہے کہ موجود اور شخصی خدا پرایمان اور مبنی برفطرت مطالعہ‘ یا دنیا اور فطرت کی تشریح کے مابین مصالحت کیسے پیدا کی جائے؟ کیا خدا دنیا میں عامل ہے،؟اگر ہاں، تو کیا اس سے ماڈرن سائنس کا تصادم ہوتا ہے؟ اور یا خدا دنیا میں (کم از کم جسمانی طور پر کہیں) عامل نہیں ہے؟ مختلف نقاط نظر رکھنے والے مغربی علمائِ کلام کی طرف سے کئی تجویزیں اس بابت پیش کی گئی ہیں۔میرا میلان اس طرف ہے کہ ’’خدا صرف روحانی طور پر عامل ہے، لیکن یہ کوئی معمولی بات یا ایسا سوال نہیں ہے جس کا فیصلہ کرلیا گیاہو۔ مسلمان علماء کلام کو صلائے عام ہے کہ وہ سائنس دانوں، فلسفیوں اور مختلف سطحوں کے مفکرین سے ڈائیلاگ کریں تاکہ اس سوال پر کوئی مرتب نظریہ پیش کیا جاسکے۔
نیچر کے منظم منہجی اور مضبوط مطالعہ سے جو کلامی انطباقات نکل سکتے ہیں انھیں کو فطری علم کلام (natural theology)کہا گیا ہے۔ اس کو علم کلام کا وہ میدان کہا جاسکتا ہے جو عقلیت / نالج/ تجربہ اور فطرت کے جائزہ پر مبنی ہوتا ہے۔ یوں وہ مبنی بر وحی تھیالوجی سے الگ ہوجاتا ہے جو مقدس کتابوں اور مختلف قسم کے مذہبی تجربات پر مبنی ہوتی ہے۔ خاص طور پر نیچرل تھیالوجی کوشش کرتی ہے کہ خدا کے وجود پر معروضی مصادر( فطرت اور عقل) کے ذریعہ استدلال کرے نہ کہ منزل سور سسزکے ذریعہ۔
نیچرل تھیالوجی کے مین اسٹریم دلائل میں سے ایک ’’آرگومینٹ آف ڈیزائن‘‘ ہے، جس کا مشاہدہ دنیا میں ہوتاہے اور جس کو خدا اور خالق کے وجود ، اس کی قدرت اور صفات کا طاقتور ثبوت مانا جاتا ہے۔ ڈیزائن یا غایت کا یہ آرگومینٹ کم از کم یونانیوں کے زمانے سے ہی جانا جاتا ہے۔ اور اس پر مسلمان علماء نے زیادہ بحث کی ہے (اگرچہ اس کا ادراک اور اعتراف بہت کم کیا جاتا ہے)۔یہ1802ء میں اپنے عروج کو پہنچا جب ولیم پے لے نے Natural Theology: Evolution of the Existence and Attributes of the Deity Collected from the Appearance of Natureشائع کی۔ جس میں اس نے اپنی مشہور ’’گھڑی ساز‘‘ والی تشبیہ کا استعمال کیا۔(3)
نو صدی پیشتر عظیم ماہر فلکیات البتانی کا اصرار تھا کہ افلاکی مظاہر پر غوروفکر اور مشاہدہ و توجہ کے ساتھ آدمی کو وحدتِ الٰہ کو بھی ثابت کرنا چاہیے۔ اس طرح خالق کی قوت، اس کی وسیع حکمت اور شاندار ڈیزائن کا اعتراف کرنا چاہیے۔(4) حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک نے بار بار اس جانب متوجہ کیا ہے کہ مظاہر فطرت میں کامل توازن خود خالق و ڈیزائنرکی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’کیا انھوںنے آسمان کو نہیں دیکھا جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے کیسے اس کو بنایا اور اس کو زینت بخشی اور اس میں کوئی کمی نہیں کی۔‘‘ (الانعام: 50)’’جو خدا کو یاد کرتے ہیں کھڑے بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور کرتے ہیں وہ پکار اٹھتے ہیں: اے ہمارے رب یہ سب کچھ تو نے بے کار پیدا نہیں کیا، عظمت ہے تیرے لیے۔‘‘ (آل عمران:119) اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ہیں جن کا اختتام ہی بعض اوقات اس سوال پر ہوتا ہے کہ کیا خالق اللہ کے سوا کوئی اورہے؟
ڈیزائن کا یہ آرگومینٹ بعد میں مسیحی فطرت پسندوں میں خوب مقبول ہوا۔ چنانچہ انیسویں صدی میں اس طرح کی کتابیں منظر عام پر آئیں جن میں سے ایک کا عنوان تھا Bridgewater Treatises(5)آج تک مسلمان مصنفین کے درمیان یہ ایک مقبول عام تصور ہے۔
تاہم ڈیوڈ ہیوم نے اپنی کتاب Natural Religion Dialogues Concerningمیں اس طرز فکر پر فلسفیانہ بنیادوں پر سخت تنقید کی ہے۔ اسی طرح اس قسم کی بنیادوں کو چارلس ڈارون نے اپنے نظریہ ارتقاء کے ذریعہ متزلزل کردیا ہے۔ اس نے اس تھیوری کے ذریعہ دکھایا ہے کہ پیچیدہ اور بظاہر ڈیزائنڈ اجسام کی تشریح بھی لمبے زمانوں کی تبدیلیوں اور فطری انتخاب کے پراسس سے کی جاسکتی ہے۔ تاہم مذہب کے موجودہ فلاسفرز ہیوم کی تنقید کو بہت محدود قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کا اطلاق زیادہ تر قیاسی نوعیت کے دلائل پر ہوتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حالیہ وقتوں میں نیچرل تھیالوجی مغرب میں خدا کو ماننے والے مفکرین کے درمیان واپس آرہی ہے۔ زیادہ تر علم الانسان کے اصول پر یا یوں کہہ لیں کہ کائنات میں پائے جانے والے حیرت انگیز نظام کی بنا پر جو آرگومینٹ آف ڈیزائن کا ہی زیادہ گہرا اور جاذب توجہ ورژن ہے،جیسا کہ میں بعد میں بیان کروں گا۔ جان سی پوکنگھم کے ذریعے تھیالوجی اور سائنس کے درمیان زیادہ عمومی اور بنیادی ایشوز پر بحث کی گئی ہے۔ فزکس کا یہ ماہر مذہبی رہنما بن گیاہے اور اس کی کتاب کا نام ہے:
نیچرل سائنس اور تھیالوجی کے مابین تعامل کا اہم ایشو قوانینِ فطرت کا سوال ہے۔ سائنس والے ان کو اس نام سے پکارتے ہیں جبکہ خدا پرست ان کو ’’خدا کے وہ قوانین جو فطرت سے متعلق ہیں‘‘ کہتے ہیں۔ پہلا مسئلہ اس ضمن میں یہ آتا ہے کہ افلاطون کے نقطۂ نظر سے یہ ’’ابتدائی‘‘ قوانین جن کی مطابقت میں کائنات چل رہی ہے کیا ایسے قوانین ہیں جن کی دریافت میں ہم سرگرداں ہیں؟ یا یہ ’’وہ قوانین‘‘ ہیں جن کو ہم بناتے ہیں اور عموماً ان کو صحیح پاتے ہیں۔ یہ محض ہماری اپنی فہمِ فطرت کی ترجمانی کرتے ہیں اور غالباً بعد کو مختلف شکلوں میں لکھ لیے جاتے ہیں؟ کیا دنیا کے علاوہ اور کہیں پائے جانے والے عاقل کا وجود بھی - اگر وہ ہوں- فطرت سے ویسے ہی قوانین اخذ کرتے ہیں جیسے ہم کرتے ہیں یا وہ مظاہر فطرت کو مختلف طور پر بیان کرتے ہیں؟ ثانیاً کیا یہ قوانین وقت اور خلا میں ثابت ہیں یا وہ تبدیل ہوتے ہیں؟
اسلام کی طرف سے ہم مظفر اقبال کو پیش کرسکتے ہیں، جن کا زور اس پر ہے کہ ’’خدا کے قوانین اور سنن غیر متبدل ہیں‘‘ ۔ قرآن کی آیت سنۃ اللّٰہ التی قد خلت من قبل و لن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا (الاحزاب: 62) (یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں میں جو گزرچکے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے۔) نقل کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یوں پوری کائنات ناقابلِ تغیر قوانین کے ذریعہ چل رہی ہے، جن کو فطرت میں تلاش و جستجو سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔‘‘(7)ماضی کے مسلمان مفکرین نے بھی کئی قوانین فطرت سے وابستہ ایشوز و مسائل سے اعتناء کیا ہے- گو زاویہ نگاہ مختلف رہا ہو-مثال کے طور پراس پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے کہ بظاہر ایسے قوانین کا وجود ہے جن کے مطابق مظاہر فطرت ہمیشہ عمل کرتے ہیںقاضی عبدالجبار جیسے اہم معتزلی عالم دین (متوفی:1024ء تقریباً) کا خیال تھا کہ خدا تعالیٰ عقلی قوانین کے مطابق عمل کرتا ہے۔(8)
یہ سوال کہ کیا سائنسی دریافتیں انسانی یا سوشل عمل ہیں ’’سائنس کے مشہوراختلافات‘‘ کا موضوع رہا ہے۔ یہ نزاعیں سائنس دانوں، سخت گیر فلسفیوں اور مابعد جدیدیت کے علمبرداروں اور نظریۂ اضافیت کے قائلین کے مابین برپا ہوئیں۔ اس عظیم سائنسی ایڈونچر میں انسانی کردار کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن کوئی اندھا ہی بہت سی بلکہ زیادہ تر سائنسی دریافتوں میں عالمگیر پہلوہونے کا انکار کرسکتا ہے۔ (جو اکتشافات دہرائی جاسکتی ہیں اور اشخاص سے بے نیاز ہیں)
پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ رہ جاتا ہے کہ کیا ہم بس دنیا کا ایک انسانی perceptionبنارہے ہیں، جوبالکل مختلف بھی ہوسکتا ہے، یا جس میں مستقبل میں بڑی سطح پر ترمیم کی ضرورت ہوسکتی ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ آئن اسٹائن کا قوتِ کشش کا بیان نیوٹن کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے؟ کیا کوانٹم میکانکس کلاسیکل میکانکس سے بالکل جدا نہیں؟ اگرچہ یہ مسئلہ میرے اس مقالہ کی حدود سے باہر ہے۔ سائنسی نظریات کی شمولیت، معروضیت اور اضافیت پر میں نے دوسرے مقالے میں گفتگو کی ہے اور میں قاری کو اس مقالہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔(9)
اختصار کے ساتھ دونوں انتہاء پسندانہ مواقف کی اس بحث (اور اس کے بین بین کی زیادہ نازک پوزیشن) کی خصوصیت کا بیان ایک جانب، دوسری طرف بعض مابعد جدیدیت کے علمبرداروں کا یہ دعویٰ کہ ’’سائنس‘‘ بلکہ درحقیقت تمام انسانی علم انسانی ذہن کی ان ترکیبوں کا ترجمان ہے، جو دنیا ’’جیسا کہ وہ حقیقت میں ہے‘‘ کی عکاسی نہیں کرتیں۔ دوسری جانب انتہا پسند realistsیہ رائے رکھتے ہیں کہ دنیا درحقیقت ویسی ہی ہے جیسی وہ ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ جو لوگ موضوعی کیمپ میں ہیں ان کے لیے انسانی زبان، تصورات اور کلچر نہ صرف یہ طے کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا کیسی نظر آئے بلکہ یہ بھی کہ وہ ہمارے لیے کیسی ہو؟ جو لوگ انتہا پسند realistsکیمپ میں ہیں ان کے لیے مظاہرِ فطرت ہمارے مشاہدے سے آزاد ہیں(جیسا کہ مشہور ہے آئین اسٹائن نے پوچھا تھا کہ ’’کیا چاند وہاں ہے جہاں کوئی بھی اسے نہیں دیکھ رہا ہے؟) اور سائنسی اصولوں کی دریافت اسی حقیقت کو بیان کرنے کی ہماری کوشش ہے۔
جیسا کہ محولہ بالا پیپر میں بھی بتایا گیا ہے کہ حقیقت کہیں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان میں ہے۔ سائنس تجرباتی ڈاٹا کو استعمال کرتے ہوئے ایسے ماڈل ڈیولپ کرتی ہے جو سچائی کو وقت گزرنے کے ساتھ دقت نظر کے ساتھ قریب قریب لاتے جاتے ہیں تاہم اس بات پر بھی پورا زور دینے کی ضرورت ہے کہ موضوعی عوامل بھی اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ تھیوریوں میں استعمال ہونے والے تصورات میں بھی اور مادی مظاہر کے ہمارے وصف کے دہرے نیچر کی توضیح کے لیے بھی ۔یہاںمیں ایک دلچسپ فکر کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا، جس کو Ronald Giereنے پیش کیا ہے(10) اور سادہ لفظوں میں Massimo Pigliucci نے اس کی تشریح کی ہے۔(11) وہ ہے: perspectivism (تناظریت) اس میں نیچرل ورلڈ کی داخلی معروضیت جس کا آدمی مطالعہ کررہا ہے، اور انسان کے اندرکی موروثی موضوعیت دونوں موجود ہیں۔ وہ انسان جو مظاہر فطرت کے بیان یا تشریح کی تشکیل کرتا ہے۔ جہاں ’’الوان‘‘ کے ساتھ تشبیہ بطور خاص راہ کو روشن کرتی ہے۔ رنگوں میں انسانی تصورات (موضوعیت) اور معروضی حقائق دونوں شامل ہیں، جس کو کسی ملون شے سے منعکس ہوتی یا پھوٹی پڑتی روشنی کی پرتوں میں سب سے نمایاں اور غالب لہر کہا جاسکتا ہے۔
کئی ایسے اہم موضوعات اور میدان ہیں جن میں مسلم علم کلام کے ماہرین کو سائنس دانوں، فلسفیوں اور مفکروں سے مذاکرات کرنے چاہئیں اور جتنی گفتگو اب تک ہوئی ہے اس سے کہیں بڑے پیمانے پر۔ اس طرح کے موضوعات میں تخلیق کا تصور آنا چاہیے۔ (تخلیق میں دنیا کا ٹائم، خلا، عالم/ عوالم، زندگی اور انسانوں کی تخلیق سب شامل ہیں۔) ارتقاء کا مسئلہ (زندگی ، انسان، ذہانت ، شعور اور اخلاق کا ارتقاء) اور ارتقاء میں خدا کا کردار، کائنات میں انسانوں کا مقام، دنیا میں خدا کا عمل، معجزات کا مسئلہ، دنیا ئے ارض سے باہر کی زندگی اور ذہانت، مصنوعی ذہانت وغیرہ۔ اگلے صفحات میں ان ایشوز میں سے بعض پر میں تبصرہ کروں گا۔ مقصد یہ ہوگا کہ اس سے مسلمان مفکرین کو مہمیز کیا جائے کہ وہ ان مسئلوں پر مفید و ایجابی طریقہ پر بحث کریں۔ جو حوالے میں دو ںگا ان کے ذریعے ہم دیکھیں گے کہ مغربی ذہن، خاص طور پر مسیحی علماء ان میں سے بعض مسائل پر گفتگو کرتے آرہے ہیں اور مسلمان آوازوں کا اس ضمن میں کم از کم عالمی سطح پر تو زیادہ غیاب ہی محسوس ہوتا ہے۔
مسلمان علماء اور خاص کر مفسرینِ قرآن آج یہ مان کر چلتے ہیں کہ قرآن تخلیق کا معنی یہ لیتا ہے کہ خدا نے کائنات کو عدم سے وجود بخش دیا۔ اس قضیہ میں دلیل کے طور پر وہ خود سائنس کی جدید معلومات کا استعمال کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں قرآن کی ان آیات کی تشریح کرتے ہیں جو تخلیق سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم اس مسئلہ میں جدید سائنس نے علم کلام پر اثر ڈالا ہے۔ اگلے وقتوں میں مسلمان فلاسفرز اور متکلمین اس مسئلہ پر مختلف رائیں رکھتے تھے۔ الکندی کی رائے یہ تھی کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی لیکن الفارابی اور ابن رشد نے خصوصاً اس تصور کو مسترد کیا۔ ابن سینا نے تخلیق کے چار مراحل قرار دیے:
احداث: مظاہر فطرت کی تخلیق جن میں عارضی اور ابدی دونوں مظاہرہیں۔
ابداع: بغیر کسی واسطے کے جاوداں اور غیر زوال پذیر چیزوں کی تخلیق۔
خلق: دوسرے عوامل کے ذریعے تخلیق۔
تکوین : صناعت یعنی دنیاوی زوال گرفتہ اور عارضی عوامل کے ذریعے تخلیق۔
ماڈرن کا سمولوجی نے اس موضوع پر گفتگو کی اصطلاحیں اب بدل ڈالی ہیں۔ نئی منہاجیات کو متعارف کرادیا ہے اور نئے نتائج یا حقائق قائم کردیے ہیں۔ پال ڈیوینر کا کہنا ہے کہ ریڈیو ایسٹرونومی کے دس سالوں نے انسان کو کائنات کی تخلیق اور نظم کے بارے میں اس سے زیادہ بتادیا ہے جتنا مذہب اور فلسفہ کے ہزاروں سال نہیں بتاسکے۔(12) اپنی دریافتوں کے ذریعہ کاسمولوجی نے آج بحث کے لیے ذیل کے نکات متعین کیے ہیں:
وہ مزید کہتے ہیں کہ کائنات کی پیدائش کا مسئلہ چونکہ مابعد الطبیعاتی مذہبی مسئلہ ہے لہذا اس کا جواب وحی کی سچائی سے آئے گا، محض نیچرل اور فزیکل دنیا کے علوم کی توسیع اور استقراء سے نہیں آئے گا۔ ان کی رائے میں اس سوال کے جواب میں اسلامی رویہ مغربی سائنسی فکر کے بالکل متضاد سمت میں کھڑا ہے۔ کسی اور جگہ میں اس قسم کے طریقہ ٔفکر سے اپنے اختلاف کا اظہار کرچکا ہوں تاہم مجھے خوشی ہے کہ اس مسئلہ پر ایک مسلم آواز سنائی تودی۔ اور کاسمولوجی پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی جانے لگی۔(14) نصر اپنی بحث میں مغربی سائنسی کاسمولوجی اور استقرائی طریقوں کی غلطیاں نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل میں کل سائنس داں کچھ اور کہہ رہے تھے، آج بگ بینگ کی تھیوری کا چرچا ہے اور کل کوئی اور تھیوری سامنے آجائے گی۔
اوپر میں نے تذکرہ کیا ہے کہ نیچرل تھیالوجی میں کبھی’’ آرگومینٹ فرام ڈیزائن‘‘ کیا مقام رکھتا تھا۔ اسلامی روایت میں فلسفیوں / متکلمین اور مفسرین کے لٹریچر میں یہ چیز بہت زیادہ ملتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسلامی روایت کے اہم اور قدیم ترین ورژن میں کائنات کے ڈیزائن کو انسانوں کی ضرورت سے ہم رشتہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ الکندی نے اس کو ’’دلیل العنایۃ‘‘ کا نام دیا ہے اور بتایا ہے کہ منظم اور معجز نما مظاہرِ فطرت حادثاتی اور بے مقصد نہیں ہوسکتے۔(15) مشہور کلاسیکل اشعری متکلم وفقیہ الباقلانی نے اس دلیل کو سادہ انداز میں یوں بیان کیا کہ دنیا کا ایک خالق ہوناضروری ہے اور ایک رب (مبدع و مصور) بھی جس طرح کسی لکھی ہوئی چیز کا مصنف ہونا ضروری ہے۔تصویر ہے تو کوئی تصویربنانے والا ہوگا اور عمارت ہے تو کوئی عمارت کا بنانے والا ضروری ہے۔ (16)
یہاں میں امام غزالی کا حوالہ دوں گا جنھوںنے اس آرگومینٹ کو بطور خاص اپنی ایک غیر معروف کتاب ’الحکم فی مخلوقات اللّٰہ‘ میں تفصیل سے واضح کیا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار ایڈٹ شدہ1978ء میں شائع کی گئی۔ یہ کتاب پوری اس چیز کے لیے مختص ہے کہ دنیا اور اشیائے دنیا، ان کے کام کے طریقے، ان کے فائدے اور انسانی زندگی کے لیے ان کی ضرورت کیا ہے۔(17) تعارف میں غزالی لکھتے ہیں :
’’عزیز قاری اللہ تم پر رحمت کرے، یہ جان لو کہ اگر تم دنیا پر غور کروگے تو تم پاؤگے کہ یہ ایک گھر کی مانند ہے جہاں ضرورت کی ہر چیز فراہم کرد ی گئی ہے۔ چھت کی طرح آسمان سر پر بلند کیا گیا، فرش کی طرح زمین بچھادی گئی، چراغوں کی مانند ستارے آسمان میں ٹانک دیے گئے۔ آدمی گھر کے مالک کی طرح ہے جو دنیا میں حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے، جہاں اس کی ضرورتوں کے لیے نباتات پیدا کی گئیں اور انسان کی ضرورتوں کے لیے مختلف قسم کے جانور مسخر کردیے گئے.....یہاں واضح نشانیاں ہیں جو دنیا کے خالق کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اشیائے عالم کا شاندار ابدی ڈیزائن اپنے خالق کے علم اور اس کی مشیت کو بتاتا ہے۔(18)
کتاب کے مختلف ابواب ہیں، جن میں ہر باب کو ایک مخلوق کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ الغزالی اپنی تائید میں قرآنی آیات کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے غائی و انسانی اصولوں کو دلائل فراہم کرتے ہیں۔ آخر میں وہ ایک عمومی ڈیزائنر کا نتیجہ نکالتے ہیں:
’’یہ سب مثالیں مختلف شواہد ہیں اور باہم ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں اور بڑی بلیغ علامات خالق کے وجود کی ہیں اور صاف صاف اس کی طاقتوں کے کمال اور اس کے علم و حکمت کے اتھاہ ہونے کو بتاتی ہیں اور اعلان کرتی ہیں کہ یہ تخلیق ہے اس ہستی کی جو تمام تر قوتیں رکھتی ہے ، محافظ اور قدیر ہے۔‘‘(19)
مختلف کلچروں / زمانوں اور مذاہب کے نمائندوں کی تحریروں میں مشابہت اور آراء کی بازگشت پایانا ایک دلچسپ موضوع ہے۔ چنانچہ ہم6 صدیوں بعد کے عیسائی مذہبی رہنما اور نیچرلسٹ جان رے کو یہ کہتا ہوا پاتے ہیں:
’’خدا کے وجود کی زیادہ بڑی زیادہ واضح اور موثر دلیل خدا کی تخلیق، زمین و آسمان کے نظم، ان کے فوائد و نقصانات، ان کی عظمت، بناوٹ اور دستور میں پنہاں حکمت اور آرٹ سے بڑھ کرکوئی نہیں ۔‘‘(20)
’’یہ عمومیتِ کمال ہے۔یہ حقیقت کہ جہاں بھی ہم دیکھتے ہیں جتنی گہرائی میں بھی ہم جاتے ہیں کمال درجہ کی واقفیت و لطافت اور ایسی مطلق ماورائی کوالیٹی ہے کہ حادثاتی طور پر زندگی کے وجود کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔‘‘(21) ابنِ رشد نے بھی ڈیزائن کے آرگومینٹ کو صانع کے وجود کی اچھی دلیل مانا ہے۔ ’’جس طریقہ پر کاریگری کاریگر کے وجود پر دال ہے، اور یہ دلالت اس صفت کے اجزاء میں اور اس کے طریقہ استعمال میں ہے۔‘‘ اشیاء وجود رکھتی ہیں کے بجائے اشیاء بنائی گئی ہیں،(اس خیال میں) میں ابنِ رشد خدا کے وجود کی زیادہ دلالت دیکھتے ہیں۔‘‘
آج کے زمانہ میں سائنس داں یہ مانتے ہیں کہ کائنات بہت ہی عمدگی کے ساتھ ہمارے وجود سے مطابقت رکھتی ہے اور وہ زندگی کے ظہور کے لیے زیادہ سازگار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن اصول ومعیارات سے مظاہرِ کائنات کی تشریح کی جاتی ہے ان کو یونہی کھینچ دیا جاتا تو یہ امکان کہ ان میں زندگی (کسی وقت اور جگہ میں)اور ذہانت کی ضامن قدریں ظہور پذیر ہوسکتی ہیں ،بہت ہی کم ہوتا، اتنا کم کہ بلینوں بلینوں بلینوں میں ایک کے برابر۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن میں یہ ہے کہ ہماری کائنات تین ابعاد رکھتی ہے (اس سے کم سے کام نہیں چلتا) روشنی کی رفتار کائنات کے پھیلاؤ کی شرح اور دوسری چیزیں ناقابل تصور حد تک صحیح مقدار میں ہیں ۔ اپنی 2006ء میں شائع ہونے والی کتاب بعنوان: The Goldilocks Enigma :Why is the Universe Just Right for Life?میں پال ڈیویز نے اس طرح کی بالکل صحیح ترین حدود کو تقریباً 30 شمار کیا ہے۔ کائنات انتہائی حد تک متوازن ہے اور اس توازن کے بغیر زندگی، ذہانت، شعور اور انسان کا وجود ظہور پذیر نہیں ہوسکتے تھے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بہت سے فلسفی اور سائنس داں ان مشاہدات اور تبصروں میں یہ دیکھتے ہیں کہ ڈیزائنر والی دلیل کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ سائنس نے اس قسم کی غایت والے عناصر(مثلاً علت العلل یا ہدف وغیرہ) سے چھٹکارا پالیا ہے اور یہ کہ کائنات میں انسان کو کوئی خاص مقام دینا سائنس کے نزدیک ایک بدعت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آخر کو انسان ارتقاء کا عروج ہی تو ہے مگر یہ بالکل ضروری نہیں کہ یہاں اکیلی ہماری کائنات ہی ہو۔ اس لیے مادیت پرست یا نیچرلسٹ سائنس و فلاسفی متعدد کائناتوں کے نظریہ کو لے کر آئی کہ یہاں کروڑوں کائناتوں کا وجود ہے، جن کے درمیان خلا پائے جاتے ہیں جن کا پتہ لگانا بھی ناممکن ہے، ان سے رابطہ تو بڑی چیز ہے۔ اور سب اپنے اجسام، حدود اور قوانین میں الگ الگ ہیں۔ ان میں سے ہماری کائنات اچھی کائناتوں میں سے ہے۔ اس لیے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہماری کائنات حیویت سے معمور ہے۔ عظیم کائناتی لاٹری میں کسی ایک ٹکٹ کو جیتنے والا توہونا چاہیے ناں!
یہاں یہ ضرور ذکر کرنا چاہیے کہ بہت ساری کائناتوں کے تصور کے مخالفین بھی بہت ہیں۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ نظریہ مکمل طور پر غیر سائنٹفک ہے۔ (نہ صرف اس کی تائید میں شواہد بہت کم ہیں بلکہ واضح طور پر نہ اس کو ثابت کیا جاسکتا ہے نہ تردید کی جاسکتی ہے۔) بعض اس کو ایک ایڈہاک تشریح سمجھتے ہیں یا ایک مادی عذر۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کاسمولوجی کے ماہرین کی بڑی تعداد اس آئڈیا کو قبول کررہی ہے۔ سائنس داں، فلاسفرز، اور علمائے کلام اس موضوع پر آج گفتگو کررہے ہیں۔ سائنٹفک پیپرز، نیم فلسفیانہ کتابیں اور کلامی دلائل وغیرہ مرتب کیے جارہے ہیں۔پال ڈیویز اس کو سائنٹفک تھنکنگ میں ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں۔(22)
اس اہم ڈیولپمنٹ کے سلسلہ میں اپنا ردِ عمل دینے میں مسلمان بڑے سست رو واقع ہوئے۔ میرے خیال میں اس کے کئی اسباب ہیں۔ ایک تو یہ، جیسا کہ میں نے اوپر وضاحت کی ،کہ مسلمان ہمیشہ آرگومینٹ آف ڈیزائن سے چمٹے رہے۔ اس لیے ان کے لیے کائنات کا نظم کوئی نئی بات نہیں تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اکثر مسلمان یہاں تک کہ تعلیم یافتہ بالائی طبقے کے لوگ بھی ،ہر اُس پیراڈائم سے بیزار رہے جو ارتقاء پر مبنی ہو۔ اور انسانیات پر مبنی ہر اصول ہر قدم پر ارتقاء کو بنیاد بناکر چل رہا ہے، چاہے وہ بگ بینگ ہو یا کائنات کا ظہور یا کیچڑ سے انسان کا وجود یعنی حیاتیاتی ارتقاء۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ بشریات پر مبنی کوئی مثبت پوزیشن مسلمان دانشوروں نے پیش ہی نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی اسکالروں نے قرآنی لفظ اوراصطلاح’ تسخیر ‘پر لکھا ہے(23) جو قرآن کی اس آیت کی تشریح پر مبنی ہے کہ ’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔ اور اندر اور باہر سے تم پر اپنی نعمتیں مبذول کردی ہیں۔‘‘ (20:31)
اس جیسی آیات سے کلاسیکل مفکروں سے لے کر معاصر دانشوروں نے دلیل العنایۃ پر استدلال کیا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس کی اشیاء کو انسان کے لیے کافی بنایا ہے جو اس کی انسان سے محبت پر دلیل ہے اور اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کی اطاعت بھی انسانوں پر واجب ہے۔
ابن رشد کہتے ہیں کہ پوری کائنات انسانوں سے ہم آہنگ ہے اور ایسا تبھی ہوسکتا ہے جب کوئی فاعل ایسا کرنا چاہے۔ رات دن، چاند سورج اور تمام اجرامِ فلکی ہمارے لیے مسخر کیے گئے ہیں اور یہ اس نظم و انضباط کے ذریعے ہوا جو خالق نے ان کے اندر ودیعت کیا تاکہ مظاہر فطرت اور ہمارا وجود برقرار رہے۔ اگر اس نظم میں پوزیشن، بُعد، رفتار وغیرہ کی ذرا سی بھی کمی آئے یا تبدیلی ہوجائے تو زمین پر زندگی کا وجود ممکن نہ ہوگا۔
اپنے مطالعۂ قرآن سے میں سمجھتا ہوں کہ کائنات کی ہم آہنگی کی دلیل آیت تسخیر میں نہیں بلکہ آیت تقدیر میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر جہاں یہ کہا گیا ہے کہ: ’’وہی ذات ہے جس نے چیزوں کو پیدا کیا اور سب کو ایک تناسب کے ساتھ پیدا کیا‘‘۔(25:2) ’’ ہر چیز اس نے مناسب قدر کے ساتھ پیداکی ہے‘‘۔(13:8) اسی طرح میزان کا تصور ہے: ’’اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان رکھا۔‘‘ (55:7)
کائنات کے اس شاندار نظم کوبعض لوگ کاسمک کوڈ سے تعبیر کرتے ہیں یہ بہت عظیم اکتشاف ہے۔ اس سے جو دوبڑے جواب نکلتے ہیں وہ بھی کم اہم نہیں ہیں۔ ایک اصول انسانیات کا دوسرا تعدد کائنات کا۔ بشریات کااصول یہ بتاتا ہے کہ کائنات ابتداء ہی سے ایسے فیچر رکھتی تھی جو کہیں آگے چل کر زندگی، ذہانت اور شعور جیسی پیچیدہ چیزوں کے ظہور پر منتج ہوئی۔ اس کو ایک نام دیا گیا ہے جو نہ صرف انسان کی طرف اشارہ کرتاہے بلکہ اس کوکائنات میںایک مرکزی مقام دیتا ہے۔ (اس سے کئی سائنس داں ناراض بھی ہوتے ہیں اوراس کی شکل میں کوپرنکس سے پہلے کی نظریاتی دنیا کی واپسی سے خوف محسوس کرتے ہیں)۔ اصل میں بشریاتی اصول کی کئی شکلیں ہیں جن میں کئی زیادہ بشریاتی ہیں بعض کم جو کہ انسان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں۔ اسی طرح سے تعدد کائنات والے ’حل‘ پر بھی یہ الزام ہے کہ وہ نظریاتی محرکات رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ ہماری عجیب و غریب کائنات اربوں کائناتوں میں سے ایک ہے۔ ان میں سے بہت سی ہماری کائنات سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں اور ان میں زیادہ ذہین اورترقی یافتہ مخلوقات ہیں۔ (یاد رہے کہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ اور ذہین مخلوق کا وجود ہماری کائنات میں بھی ہوسکتا ہے لیکن متعدد کائناتوں میں تو یہ تقریباً یقینی ہے)۔ اب کیا مسلمان علمائے کلام کو ان ایشوز سے تعامل نہیں کرنا چاہیے؟ کیا ان کواِن مختلف حالات پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے:انسان یا کم از کم زندگی اور شعور کا کائنات کی صفات میں مرکزی ہونا، انسانوں کا دوسروں کے مقابلہ میں کم اہم ہونا، alienمخلوقات کا کائنات میں ہونااور اس کائنات کا دوسری کائناتوں میںبالکل معمولی ہونا وغیرہ ۔
انسانوں میں ارتقاء کا تصور خاص کر اور حیاتیاتی عضویات کا عموماً جس کی رو سے نچلے درجہ کی انواع سے بڑے درجے کی انواع وجود پذیر ہوئیں، آج کے مسلم کلچر میں ایک بڑا عقدہ ہے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان بھی ارتقاء کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ (حال ہی میں کیے گئے کئی سرویز سے مسلمانوں کے درمیان یہی صورت حال سامنے آتی ہے جس میں عام مسلمانوں سے لے کر یونیورسٹی اسٹوڈنٹس اور اساتذہ بھی شامل ہیں)۔(24) میرے خیال میں ارتقاء سے بے خبری اور تعلیم یافتہ مسلمانوں میں بھی اس کے بارے میں غلط فہمی، جو زیادہ تر ارتقاء کے حق میں مضبوط شواہد سے ناواقف ہیں بلکہ وہ ارتقاء کے حقائق اور ان کی تشریح کرنے والی تھیوریوں میں بھی فرق نہیں کرتے؛ اس صورت حال کا سبب ہے۔
آدم کا تصور مسلمانوں کے لیے ارتقاء کے مسئلے میں ایک بڑا ایشو ہے۔ کم از کم آج کل۔ زیادہ تر معاصر مذہبی علما کے لیے یہ بات سوچنا بھی مشکل ہے کہ آدم سے پہلے کوئی نوع انسانی پائی جاتی ہو یا آدم میں بھی تعد د کا امکان ہو۔ یااس نسل کا جس کونیندرتھلس(Neanderthals)، جاوامین(Java Men) وغیرہ کہا جاتا ہے،امکان ہو۔ اسی وجہ سے وہ ارتقاء کو سرے سے ہی مسترد کرتے ہیں۔ ارتقاء کے تصور کو مسلمان ہمیشہ سے ہی مسترد کرتے نہیں آئے ہیں بلکہ موجودہ زمانہ یعنی بیسویں صدی کی ابتداء میں بھی حالت یہ نہیں تھی۔ گرچہ انسانی ارتقاء تو ناپسندیدہ ہی تھا پھر بھی مجملاً وہ حیاتیاتی ارتقاء کو قبول کرتے تھے۔ حرفیت پسند ذہن انسان کی تخلیق کا سادہ سا تصور رکھتا ہے بلکہ حیوانوں کی تخلیق کا بھی۔ اس ذہن کی رو سے انسان و حیوان اپنی موجودہ شکل میں ہی پیدا کیے گئے اور وہ کسی تبدیلی سے گزرے ہی نہیں یا بہت معمولی تبدیلی سے گزرے۔ (اس سے تھوڑی مختلف اور ذہین تعبیر یہ ہے کہ مختلف انواع ارتقاء سے تو گزریں مگر ایک نوع دوسری نوع میں نہیں بدلی)۔
تخلیق پرستی( creationism)ایک حرفیت پسند مذہبی تحریک ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں، جانوروں، زندگی اور دنیا کی تخلیق کو ڈائرکٹ خدا کا عمل قرار دیا جائے جس میں بیچ کے مراحل موجود نہیں۔ یہ تحریک امریکہ اور مسلم دنیا میں بہت مضبوط ہے اور دوسری کسی جگہ اس کا وجود نہیں ہے۔ لیکن امریکہ اور مسلم دنیا میں فرق یہ ہے کہ امریکہ میں عمومی طور پر مذہبی لوگوں میں تخلیق پرستی موجود ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتوں کا ایک قلیل گروہ بھی اس کا قائل ہے۔ مسلم دنیا میں عوام تو چھوڑیے اعلیٰ تعلیم یافتوں میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے۔ انسانوں کو سب سے الگ مرکزی مقام پر رکھنے کا نظریہ human exceptionismکے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں میں بھی وجود رکھتا ہے۔ مسیحیت میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کیوں اس قسم کا human exceptionismکا نظریہ مانا جاتا اور اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔ آخر کو مذہب یہ کہتا ہے کہ انسان کو خداوند((Godنے اپنی شبیہ پر پیدا کیا۔ اور جب تک اس تصور کو خیر باد نہ کہا جائے یا بڑے پیمانے پر اس کی تشریح نو نہ کی جائے انسان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ’’انسان‘‘ ابتداء میں یک خلیہ مخلوق کی شکل میں پیدا کیا گیا اور اس مرحلہ سے اس میں ارتقاء کا عمل جاری ہوا اور اربوں سال کی مدت میں کہیں جاکر یہ ذہین، خدا رخی، اور باشعورمخلوق وجود میں آئی۔ اسلام میں ایسا کوئی نظریہ تو نہیں مگر انسان کی نیابت الٰہی یا خلافت کا تصور پایا جاتا ہے جس کو زمین کی امانت دی گئی ہے۔ تاہم میرے خیال میں خلافت کا یہ تصور نظریۂ ارتقاء کو تسلیم کرنے میں مانع نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ خلافت انسان کو اس وقت ملی جب وہ روحانیت اور خدا کے شعور کے قابل ہوجانے کے مرحلہ میں داخل ہوچکا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی ایک مسلمان مصنفین کے مطابق قرآن کی متعدد آیات کو اگر صحیح طور پر سمجھا جائے، تو وہ انسان کے ارتقاء کی تاریخ کو بخوبی بیان کرتی ہیں۔ انسان کی شبیہ کا کھڑا ہونا، زبانوں کا ارتقاء، تدفین کا سیکھنا، قربانی، روحانی ترقی، کپڑے پہننا، اپنے آپ کو ڈھانپنا، آگ کی دریافت اور خدائی وحی کا آنا وغیرہ۔
آخر میں بہت سے مغربی مفکروں نے دنیا میں’’پرابلم آف ایول‘‘ (مسئلہ وجود شر)کا سوال اٹھا یا ہے جو ان کے نزدیک ارتقاء کا مذہب اور تخلیق پرستوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے کہ اگر یہ دنیا خدا کی بنائی ہوئی اور اس کی رہنمائی میں چل رہی ہے تو پھر فطرت میں اتنی برائی کیوں ہے؟ (مختلف انواع بشمول انسان کے پوری تاریخ میں یہ ظاہرہ رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے اور لوٹتے رہے ہیں) اور پھر اربوں کھربوں انواع کو پیدا ہی کیوں کیا اگر ان میں 99فیصدکو ختم ہی ہوجانا تھا؟ اتنی تباہی و بربادی کیوں ؟
اس طرح کے سوالوں کا مناسب جواب علم کلام والوں کی طرف سے آنا چاہیے مگر اس ضمن میں زیادہ ترمسلم آوازیں خاموش ہی رہتی ہیں۔ اگر ہمیں ارتقاء کے تصور (حیاتی ارتقاء اور انسانی ارتقاء) سے اتنی زیادہ پریشانی ہے، حالانکہ ہم اس کی یہ توجیہ کرسکتے ہیں کہ یہ خدا کے تخلیقی پلان کا طریقہ ہے، تو پھر سائنس اگر کوئی ایسا تصور لے کر آئے کہ زندگی inert matter (جامد مادہ) سے پیدا نہیں ہوئی تو اس صورت میں مسلمانوں کا رویہ کیا ہوگا؟ اسی طرح اخلاق کا سوال ہے کہ جس پر سائنس کے مختلف میدانوںیعنی انسانیات، نفسیات، سوشیوبایولوجی وغیرہ سے تعلق رکھنے والے لوگ سنجیدگی سے کام کررہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں اس پر بھی مسلمان کیا رائے رکھتے ہیں؟
وہ دن دور نہیں کہ جب مسلمان علماء اور خاص کر علم کلام والے اسلامی عقائد کی سائنسی تحقیقات سے ہم آہنگی کی کوشش کرنے کے لیے آمادہ ہوں تاکہ سائنس کے ساتھ تصادم اور اس کے مکمل استرداد سے بچ سکیں،جس کی وجہ سے مغرب میں بہت سے لوگ مجبور ہوگئے کہ وہ الحاد اور مادیت کی طرف چلے جائیں۔ ظاہر ہے کہ مسلم دنیا میں اچھے اور ذہین طلبہ اگر ان ایشوز پر مسلمان علماء کی جانب سے کوئی متبادل نہ پائیں تو یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
اس بنیادی مسئلہ پر بھی حال ہی میں بہت سے مفکرین نے توجہ مبذول کی ہے۔ یہاں ہم اس مجموعۂ مقالات کی پہلی جلد کا حوالہ دیں گے جس کا عنوان ہے:The God Who Acts: Philosophical and Theological Explorations جس کو تھامس ایف ٹریسی نے ایڈٹ کیا ہے اور وہ 1994ء میں شائع ہوا۔(25) تازہ ترین بہترین کتاب آکسفورڈ کے ماہر کلام کیتھ وارڈ کی ہے، اس کا موضوع ہے: Divine Action: Examining God's Role in an Open and Emergent Universe, 2007، اس سے دو سال قبل John Polkinghorne نے جو تھیولوجی اور فزکس دونوں کے ماہر ہیں،نے کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا:Science and Providence: God's Interaction with the World اس کے بعد اس عنوان سے متعدد مضامین بھی سامنے آئے ہیں۔ (26)جن میں چند ایک کے یہاں نام لکھے جاتے ہیں:
علمائے دینیات، اسکالرز آف سائنس اور مذہبی علماء نے دنیا میں خدا کے عمل کی تشریح یا تصویر گری کے لیے کئی طریقے تجویز کیے ہیں۔ ان میں سے کئی جیسے پول کنگ ہورنے، رسل اور گرے گرسن نے محض جسمانی مادی طریقوں یعنی کوانٹم میکانکس، بدنظمی یا دونوں کے ہم آہنگ اثرات پر ارتکاز کیا۔ دوسروں مثلاً آرتھر پیکاک وغیرہ نے ایک طرح کی مجموعی انفارمیشنبہاؤ کو تجویز کیا ہے جس کے ذریعہ خدا پوری انسانی دنیامیں سرگرم ہے، جس کے بتدریج اثرات ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت میں خاص نتیجہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے دنیا میں خدا تعالیٰ کے عمل کو بیان کرنے والی تجاویز ایک توہیں نہیں اوراگرہیںتوبڑی کم۔(33) دراصل یہ ایک بڑا حساس ایشو ہے اور اس میں راسخ العقیدگی سے انحراف کے خطرات بہت ہیں۔ راسخ العقیدگی سے دور ہونے اور الحاد کا الزام لگنے کا خطرہ ہے لہٰذا اس موضوع پر بڑی کم تحریریں پائی جاتی ہیں۔
اس موضوع پر حال ہی میں ایک مضمون آیا ہے گو وہ معاصر تناظر میں اس پر گفتگو نہیں کرتا ۔وہ ہے رحیم عطار کا مقالہ: Avicena's Position Concerning the Basis of the Divine Creative Action۔(34) اس مقالہ میں مصنف نے ابن سینا کے خیالات کا مطالعہ کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ عظیم فلسفی اور عالم خدا کے تخلیقی عمل کو اشیائے فطرت کے عمل کے مشابہ قرار دیتا ہے۔ ابن سینا کے نقطۂ نظر کی اساس یہ اصول ہے کہ کائنات لازمی ہے اور تخلیق (ابتدائی ہو یا مسلسل) خودکار عمل کے مقابلہ میں نیچرل زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اور مقالہ عبدالحکیم الخلیفی کا تحریرکردہ بعنوان: Divine Action Between Necessity and Choice(35)ہے۔ گرچہ اس کا اسکوپ زیادہ وسیع ہے۔ انھوںنے بھی عطار کی بحث سے ملتی جلتی بحث کی ہے۔ گرچہ بحث کے دائرہ کو قدیم کلاسیکل حکماء الفارابی و ابن سینا سے لے کر علم الکلام کے دو مشہور مکاتبِ فکر: اشاعرہ و معتزلہ تک وسیع کردیا ہے۔ خاص طور پر انھوںنے راسخ العقیدہ اشعریوں کے اس عقیدے،کہ خدا اپنے عمل میں مکمل طور پر آزاد ہے اور کسی چیز کا پابند نہیں، کا تقابل معتزلہ (تعقل پسند کلامیوں) کے اس تصور سے کہ خدا کا عملِ تخلیق آزاد تھا اور ابنِ سینا کے اس خیال سے کہ خدا نے اپنے آپ کو عمل ِخیر، عذاب و ثواب اور جزا و سزا کے اصولوں کا پابند کرلیا ہے، سے کیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ مستقبل میں مذہب و سائنس اور خدا کے عمل کے مرکزی موضوع پر مسلمان مفکرین مزید توجہ دیں گے اور اس سے متعلق مختلف امکانات کا جائزہ لیں گے۔
حال ہی میں میں نے اپنی یونیورسٹی میں کئی پروفیسروں اور طلبہ کا جائزہ لیا کہ سائنس اور مذہب کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟ ایک سوال جو میں نے ان سے کیا وہ یہ تھا:’’کیا آپ معجزات میں یقین رکھتے ہیں؟‘‘ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ متعدد نان مسلم پروفیسرز اور طلبہ نے لفظ ’’معجزات‘‘ کے قریب لکھ دیا: ’’اس کی تعریف کریں۔‘‘ یا انھوں نے اس پر سوالیہ نشان بنادیا مگر کسی مسلمان استاد یا طالب علم نے جواب نہیں دیا۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس قسم کی بحث میں معجزات کی تعریف بہت ضروری ہے۔ اور جن مفکرین، مصنفین اور علمائے کلام نے اس پر گفتگو کی ہے انھوںنے بنیاد اس کی تعریف ہی کو بنایا ہے۔ میں معجزات کی تعریف ایسے ظاہرہ سے کروں گا جو’’ قوانین طبعی یا طریقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘ (یعنی کوئی ایسی چیز جس میں خدا کا عمل یا اس کی مداخلت متصور ہورہی ہو) نہ کہ ایسا ظاہرہ جس کی آج کی سائنس تشریح نہ کرسکے۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز زمین پر چھوڑیں اور وہ زمین میں گرنے کے بجائے ہوا میں معلق ہوجائے یا اوپر جانے لگے جو مشہورِ عام سائنسی قاعدہ قانون کشش کے مطابق نیچے کی طرف جانے والی حرکت کی خلاف ورزی ہوگی۔
ڈیوڈ ہیوم نے معجزات کی یہی تعریف کی تھی کہ ان سے قوانین آف نیچر کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور اس لیے اس نے معجزات کے محال ہونے کا نقطہ نظر پیش کیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہیوم کے اس نقطہ نظر پراس کودائروی فکرکا حامل قراردے کر بہت سی تنقیدیں ہوئیں(13)جبکہ معجزات کی تعریف پر کوئی اتفاق بھی نہیں ہوسکا ہے۔ اس وجہ سے یہ طے کرنے میں بڑی دشواری ہورہی ہے کہ معجزات کیا ہیں اور بحث اس تعریف سے متجاوز ہورہی ہے جو ہیوم نے طے کی تھی یعنی یہ کہ’’ معجزات قوانین فطرت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘
دراصل معاملہ اس سے بھی کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ مثلاً خاصا آگے بڑھ چکا کینسر ٹیومر اچانک غائب ہوجاتا ہے یا اس کی شدت میں بہت کمی آجاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے نیچر کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی؟ کیا اس کو معجزہ کہیں گے؟ غالباً نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ ابھی کسی خاص جسمانی پراسس کو ہم سمجھ نہیں پارہے ہوںاورکبھی اس کی وضاحت کے قابل ہوجائیں ۔ حضرت عیسیٰ اندھوں کی آنکھوں پر مٹی میں سنے ہاتھ پھیرتے اوران سے کہتے کہ آنکھوںکوپانی میں دھولیںاس طرح وہ ان کو بینا کردیتے تھے۔ کیا اس سے قوانینِ فطرت کی خلافت ورزی ہوتی ہے؟ روایتاً اس کو ہمیشہ معجزہ سمجھا گیا ہے تو کیا یہ معجزہ ہی تھا یا کچھ اور؟ سوال یہ بنتا ہے کہ کس چیز کو معجزہ قرار دیا جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ آج مذہب اور سائنس کے مابین معجزات کا سوال تنازعہ کی سب سے واضح بنیاد ہے۔ اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک سائنس داں خاص کر طب کے میدان میں اس قسم کے حالات کی بہتر تفہیم حاصل نہ کرلیں اور مذہبی علماء بھی اس تصور کے مسئلہ میں کوئی معقول رویہ اختیار نہ کرلیں۔ ستمبر2002ء میں سائنس اور مذہب پر اہم جرنل ’’زیگون‘‘ نے ایک پورا شمارہ اس مسئلہ پر بحث کے لیے وقف کیا۔(37) امریکہ میں دسمبر 2004ء کے ایک پول میں جس میں11000 فزیشین شامل ہوئے تھے، یہ بات سامنے آئی کہ ان میںسے74 فیصد لوگ معجزات پر یقین رکھتے ہیں۔ (38) ستمبر2006ء میں فرانس کی سائنس کی مقبول عام میگزین Science et Vie(جو اپنے عقلی طرزِ فکر کے لیے معروف ہے) نے اسی سوال پر ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔
مسیحی علماء جیسے ٹیرنس نکلولس اور کیتھ وارڈ نے معجزات کے سوال کے حل کے لیے کئی دلچسپ تصورات دیے ہیں۔ نکولس نے معجزات سے تعامل کے لیے دوطریقوں کی سفارش کی ہے۔ نمبر ایک یہ کہ مظاہر فطرت کو فطری پراسیس کا وجدانی اور انتہائی کیس قرار دیا جائے بلیک ہول جیسا ۔جس میں کشش ہے اور جو سپر کنڈکٹویٹی اور الیکٹریسٹی سے لیس ہے۔
نمبر دو یہ کہ معجزات کو خدا کے عمل یا خدائی مداخلت سے تعبیر کیا جائے اس کے لیے وہ کوانٹم میکانکس کے عدم تیقن یا فوضویت کے نظریے( chaos theory) کا حوالہ دیتے ہیں۔(39)کیتھ وارڈ نے بھی کچھ ایسا ہی موقف اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’قوانینِ فطرت کو غیر استثنائی قوانین نہ مانا جائے بلکہ پس منظر پر موقوف طبیعی قوتوں کا تمثل سمجھا جائے۔(40) تاہم وہ اس امکان کو بھی کھلا رکھتے ہیں کہ معجزات فارمولوں کی صورت میں سائنسی قاعدوں کے تحت نہ آتے ہوں۔ وہ مزید اضافہ کرتے ہیں کہ ’’خدا پر یقین رکھنے والے کے لیے یہ سوچنے کا پورا امکان ہے کہ کائنات میں نیچر کے قوانین سے بھی ’’اعلیٰ اصول‘‘ جاری ہیں۔ البتہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ متعلقہ میدان کے ماہر سائنس داں ہی یہ بتاسکتے ہیں کہ کوئی خاص واقعہ نارمل طبیعی قوانین سے ماوراء ہوا ہے یا نہیں۔ اگر نہیں ہوا تو وہ واقعہ حسابیاتی طور پر کتنا ہی غیر ممکن کیوں نہ ہو اسے معجزہ نہیں کہیں گے۔‘‘
اسلام میں معجزات کے وجود اور ان کے نیچر کے مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ زیادہ مشہور خیال یہ ہے کہ قرآن پاک معجزہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں چند واقعات کو ممکنہ طور پر معجزہ کہا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ان کی دوسری توجیہ بھی کی جاسکتی ہے۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ صرف خدا کے پیغمبران ہی سے معجزوں کا صدور ہوسکتا ہے کیونکہ پیغمبروں کو وحی و الہام ہوتا ہے ۔تائیدِ غیبی اور حمایت ِ ربانی سے وہ سرفراز ہوتے ہیں، لیکن ’’عام انسان‘‘ معجزے نہیں دکھا سکتے۔ اس کے علاوہ ایک اور رائے خاص کر صوفیاء کے مابین مقبول ہے وہ یہ ہے کہ معجزات تو انبیاء کے ساتھ خاص ہیں مگر اولیاء کو خدا نے ’’کرامات‘‘ دی ہیں، جن کی وجہ سے اولیاء خلق کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ تاہم یہ یاد رہے کہ اولیاء کی سیرت و سوانح کی کتابوں میں ان کی محیرالعقول کرامتیں اس کثرت سے اور اس نوعیت کی بیان کی گئی ہیں کہ جن کو معجزوں کے زمرہ میں ہی رکھا جاسکتا ہے۔
ایک معاصر پاکستانی فلاسفر ابر اراحمد نے معجزات کے بارے میں مسلم موقف کے احیاء کی کوشش کی ہے اور اپنا خیال بھی اس بارے میں پیش کیا ہے۔(41) انھوںنے انیسویں صدی کے انگریز حکومت کے انعام یافتہ مسلم مصلح سرسید احمد خاں کے معجزات کے بارے میں خیالات کو مسترد کردیا، جنھوںنے کہا تھاکہ اصل میں قوانینِ فطرت خدا کا عملی وعدہ ہیں کہ فلاں چیز اس طرح ہوگی۔ اب اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ چیز دوسری طرح سے بھی ہوسکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا کو وعدہ کی خلاف ورزی کا الزام دے رہے ہیں، جس کو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔(42)سید احمد خاں کہتے تھے کہ وہ معجزات کا انکار اس لیے نہیں کررہے ہیں کہ وہ غیر معقول ہیں بلکہ اس لیے کررہے ہیں کہ خدا نے چیزوں کے دوسری طرح ہونے کو کہا ہے۔ ابرار احمد ان کے موقف کو مسترد اس لیے کرتے ہیں کہ خدا کو محدود نہیں ہونا چاہیے۔ وہ یقینا قوانینِ نیچر سے بالا تر ہے۔ پاکستانی فلاسفر نے ’’نیچرل معجزات‘‘ جن کو قرآن میں ’آیات‘ کہا گیا ہے اور ’’سپر نیچرل‘‘ معجزات میں فرق کیا ہے، جو تاریخی طور پر مختلف پیغمبروں کی طرف منسوب ہیں اور وحی(طریقۂ وحی) جن کوخود قرآن آیات بینات کہتا ہے، کوشامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بائبل کی طرح قرآن بھی معجزات کا لفظ کبھی استعمال نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ ’’آیات‘‘ کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتا ہے یا ان کے حوالہ سے کوئی بات کہتا ہے۔
ابراراحمدپہلی کیٹیگری کو ’’مائیکرو مریکل‘‘ (micro miracle)کہتے ہیں یہ خدا کے وہ کام ہیں جو وہ دنیا میں زندگی سے متعلق انجام دیتا ہے جن کو معمول کے کام بھی کہہ سکتے ہیں اور انسان ان کو سمجھ سکتا ہے اور چونکہ خدا مائند باڈی کنکشن(mind body connection) کے ذریعے ہر جگہ موجود ہے اس لیے یہ بھی خدا کا کام ہے۔ دوسری قسم کے معجزات وہ ہیں جو میکرولیول(macro level) پر انجام پاتے ہیں اور انسان کا شعور ان کا ادراک نہیں کرسکتا۔ وہ کسی بھی نیچرل تعبیر سے ماوراء چیز ہوتے ہیں۔
مہدی گلشنی معروف و محترم شیعی عالم مرتضیٰ مطہری (1919-1979)کے نظریہ کو اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قوانینِ فطرت کو لازمی خدائی طریقے سمجھنا چاہیے۔ لیکن معجزات کے امکان سے انکار نہیں۔ البتہ ان کو مذکورہ قوانین سے مستثنیٰ نہیں بلکہ ان کا توسیعہ سمجھنا چاہیے کہ تمام قوانین کو ہم ابھی تک دریافت نہیں کرسکے ہیں ۔(43)
معجزات کا سوال سائنس اور تھیالوجی کے درمیان ڈائیلاگ کا ایک میدان ہے۔ امید ہے کہ دوسری سنجیدہ تحقیقات اور آراء بھی سامنے آئیں گی اور مسیحی علماء کے ساتھ مسلمانوں کا کنٹری بیوشن بھی نظر آئے گا۔ کیونکہ موجودہ وقت میں مسیحی علماء ان سوالوں کے ساتھ زیادہ نبرد آزما ہیں۔
سائنس اور مذہب کے درمیان تعامل اور گفتگو کا موضوع علمی سرگرمیوں اور سنجیدہ اکیڈمک کاوشوں کا میدان بن چکا ہے۔ معروف یونیورسٹیوں بشمول آکسفورڈ و کیمبرج نے اس میدان میں علمی تحقیقات کے لیے سینٹر کھولے ہیں۔ بعض مقامات پر گراں قدر اوقاف کے ذریعے پروفیسر شپ چیئرز قائم کی گئی ہیں۔(44) محققین کے لیے اعلیٰ سطحی اور معیاری مجلات بھی نکل رہے ہیں جو سائنس و مذہب کے رشتہ سے بحث کرتے ہیں، ان میں بعض یہ ہیں: Zygon: Journal of Religion & Science, Theology and Science, Islam and Science۔
اس میں ہائی لیول لیکچر سیریز کا اضافہ بھی کرلیجیے جو وسیع بنیادوں پر مذہب و سائنس جیسے مسائل کو ایڈریس کرتی ہے اور ساتھ ہی شاندار انعامات کا اہتمام بھی۔ آدم لارڈ جیفورڈ نے وسیع بنیادوں پر نیچرل تھیالوجی کے مطالعہ و اشاعت کے لیے The Gifford Lecturesکا آغاز کیا۔ Giffordتھیالوجی سے وہ تھیالوجی مرادلیتے ہیں جس کو سائنس سپورٹ کرتی ہے اور جو سپر نیچرل سورسز پر موقوف نہیں ہے۔ اسی موضوع پر ایک انعام The Templeton Prizeبھی رکھا گیا ہے جس کا عنوان شروع میں تھا:
Templeton Prize for Progress in Religion
پھر2002ء سے 2008ء میں اس کا نام بدل کر یوں کردیا گیا:
Templeton Prize for Progress Toward Research or Discoveries about Spiritual Realities
اس ایوارڈ کو اکثر مذہب و سائنس کے میدان میں دیا جانے والا انعام سمجھا جاتا ہے۔
یہ ساری چیزیں واضح طور پر بتاتی ہیں کہ مذاہب اور کلامیات نے کس حد تک سائنس کے ساتھ ایک سنجیدہ تعامل قائم کیا ہے؟ اس سلسلے میں معاصر علماء اور اسکالروں کے ذریعہ اسلام کی پیش رفت بہت معمولی رہی ہے۔ امید ہے کہ مذکورہ بالا جائزہ کی طرح اور کوششیں بھی سامنے آئیں گی جن سے ایک صحت مندڈسکورس شروع ہوگا اور نہ صرف اسلامی ثقافت کو اس سے فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر ہونے والے تبادلۂ فکر اور بحث و مذاکرے کی کوششوں کو بھی اس سے تقویت حاصل ہوگی۔ اس طرح کے ڈسکورسز کی واقعی بہت ضرورت ہے اور اس سے امید بھی بہت زیادہ وابستہ ہے ۔خاص طور پر مسلم سوسائٹی کے تعلیم یافتہ طبقات میں، جہاں ماڈرن اور قدیم روایتوں میں تصادم نے بسا اوقات منجمد رویوں کو جنم دے دیا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں سائنس بین المذاہب ڈائیلاگ کا میدان بھی بن گئی ہے، جس میں بہت سے لوگ اور تہذیبیں شریک ہیں اور یہ چیزیں جاری ہیں۔ دریافتیں عالمی دائرہ میں مقبول ہوتی ہیں، مظاہر فطرت بھی ایسے ہی ہیں اور انھیں مشاہدہ کرنے والے یا تحقیق کرنے والے سے مطلب نہیں ہوتا جیسا کہتے ہیں کہ ریاضیات نیچرکی یونیورسل زبان ہے۔ یوں سائنس تمام انسانوں کی مشترکہ خصوصیت ہے اور وہ اکثر مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے سامنے ایک ہی جیسے چیلنج بھی پیش کرتی ہے ، جن میں سائنٹفک نالج کے اخلاقی انطباق کے مسئلہ میں یا تو تصوراتی ورلڈ ویو کا یا عملی ایشوز کا اختلاف ہوسکتا ہے۔ (مثال کے طور پر اسٹیم سیل ریسرچ، کلوننگ، جینٹک تبدیلیاں اور نیچر کا غلط استعمال وغیرہ)۔
خاص طور پر مسیحی مفکرین کے ساتھ مسلمان اسکالرز بھی مذہب و سائنس کے مابین تعلقات کے سلسلے کے مباحث میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ وہ دونوں کے درمیان مفروضہ ’’تصادم‘‘ یا ’’ماڈرن سائنس کی مذہبی بنیادوں کی تھیوری‘‘ وغیرہ دوسرے مسائل و ایشوز پر لکھ سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ماڈرن سائنس کے ساتھ سنجیدہ تعامل میں مسلمان ماہرین کلام، اسکالرز اور مفکرین بہت کچھ حاصل کریں گے۔
(مصنف امریکن یونیورسٹی آف شارجہ، امارات کے شعبہ طبیعات میں پروفیسر ہیں۔ مترجم صحافی وقلم کار ہیں اور مدرسہ ڈسکورسز پروگرام سے بحیثیت طالب علم وابستہ ہیں۔ای میل: mohammad.ghitreef@gmail.com )