Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
حالیہ کچھ برسوں کے دوران اسلامی بشریات ( anthropology of Islam )کے موضوع میں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے۔ان دنوں بشریات کے ماہر مغربی دانشوروں کی ’اسلام‘ اور ’مسلم‘ کے عنوان سے تصنیفات کی تعداد میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔اس عمل کے پیچھے کار فرما سیاسی مقاصد اس قدر واضح ہیں کہ ان پر مزید روشنی ڈالنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، حالانکہ اسلامی بشریات کی نظریاتی بنیاد کے کچھ اہم پہلوہیں جن پر ہم روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک بہت ہی عام سوال سے اپنی بات شروع کرتے ہیں۔ اسلامی بشریات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے تجزیہ و تحقیق کا مقصد کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ اسلامی بشریات جس چیز کا تجزیہ کرتی ہے وہ یقینا اسلام ہے۔ لیکن اسلام کو ایک بشریاتی مطالعے کا موضوع بنانا یا تصور کرنا اتنا آسان نہیں جتنا بعض مصنفین خیال کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا سوال کے حوالے سے کم از کم تین ممکنہ جوابات ہو سکتے ہیں: اول تو یہ کہ تجزیہ کا خلاصہ یہ واضح کرے کہ اصولی موضوع کی حیثیت سے اسلام کا مطالعہ ممکن ہی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ اسلام اصطلاحاً ماہر بشریات کی ایک اختراع ہے جس سے وہ ایسی مختلف النوع اشیاء کا مجموعہ مراد لیتے ہیں جنہیں مسلم عوام اسلامی سمجھتے ہیں۔ سوم یہ کہ اسلام ایک ممتاز تاریخی کلیت یا مجموعے کا نام ہے جو معاشرتی زندگی کے مختلف پہلووں کی تنظیم کرتا ہے۔ ہم پہلے شروع کے دو جوابات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔ اس کے بعد تفصیل سے تیسرے جواب کا تجزیہ کریں گے، جسے اگرچہ مقبولیت حاصل نہیں ہے لیکن اصولی طور پر وہ سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ :
مندرجہ بالا سوال کے حوالے سے کم از کم تین ممکنہ جوابات ہو سکتے ہیں: اول تو یہ کہ تجزیہ کا خلاصہ یہ واضح کرے کہ اصولی موضوع کی حیثیت سے اسلام کا مطالعہ ممکن ہی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ اسلام اصطلاحاً ماہر بشریات کی ایک اختراع ہے جس سے وہ ایسی مختلف النوع اشیاء کا مجموعہ مراد لیتے ہیں جنہیں مسلم عوام اسلامی سمجھتے ہیں۔ سوم یہ کہ اسلام ایک ممتاز تاریخی کلیت یا مجموعے کا نام ہے جو معاشرتی زندگی کے مختلف پہلووں کی تنظیم کرتا ہے۔ ہم پہلے شروع کے دو جوابات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔ اس کے بعد تفصیل سے تیسرے جواب کا تجزیہ کریں گے، جسے اگرچہ مقبولیت حاصل نہیں ہے لیکن اصولی طور پر وہ سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔
آٹھ سال پہلے ماہر بشریات عبد الحامد الزین کو ایک سروے کے دوران ، جس کا عنوان تھا"Beyond Ideology and Theology: The Search for the Anthropology of Islam"(1)اسلامی بشریات کے سوال نے کافی پریشان کیا۔ یہ ایک جرات مندانہ کوشش تھی ، لیکن لاحاصل ٹھہری۔ مصنف نے اس بحث کو کہ اسلام کی مختلف قسمیں یا شکلیں ہیں اورہر ایک قسم حقیقت میں موجود بھی ہے اور اہمیت کی حامل بھی، اس دعوی سے مبہم طور پر جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کی یہ تمام شکلیں بالآخر ایک غیر شعوری منطق کا اظہاریہ ہیں۔انہوں نے بشریاتی تناظریت(contextualism) کے بجائے لیوی سٹراس(levi-Strass) کے نظریہ آفاقیت پر انحصار کیا اور نتیجتاً انہیں اپنے مقالے کے آخر میں یہ جملہ لکھنے پر مجبور ہونا پڑا کہ:’’اسلام ایک تجزیاتی زمرے (analytical category) کی حیثیت سے بشریاتی مطالعے کا موضوع نہیں بن سکتا۔‘‘دوسرے لفظوں میں، اگریہ مان لیا جائے کہ اسلام ایکanalytical category نہیں ہے تویہ بھی ماننا پڑے گا کہ اسلامی بشریات جیسی کسی چیز کا تصورنہیں کیا جاسکتا۔
پہلے جواب کے متعلق اتنی وضاحت کافی ہے۔ دوسرا جواب جس نظریے کی نمائندگی کرتا ہے اس کے حامی مشیل گلسنان (Michael Gilsenan )ہیں۔ الزین کی طرح انہوں نے بھی اپنی تازہ ترین تصنیف(2)Recognizing Islam میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام کی کسی بھی قسم یا شکل کو ماہر بشریات کے مطالعے کے موضوع سے اس بنیاد پر خارج نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی یہ قسم معیاری یامعتبر نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ مختلف چیزیں جنہیں مسلمان خود اسلامی تسلیم کرتے ہیں، انہیں ان کے معاشروں کی بقا اور ترقی کے سیاق میں دیکھنا یقیناً سماجیات کے اصول کی سطح پر اہم ہے، تاہم اس کی بنیاد پر اسلام کا مطالعہ ایکanalytical category کی حیثیت سے نہیں کیا جا سکتا۔مشیل گلسنان نے دوسرے ماہر بشریات سے یہ نظریہ اخذ کیا ہے۔یعنی اسلام وہی ہے جسے ہر جگہ کے مسلمان اسلام کا نام دیں۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے کیوں کہ بد قسمتی ہے ہر جگہ ایسے مسلمان موجود ہیں جو دوسروں کے تصور اسلام کو قطعیت کے ساتھ رد کردیتے ہیں۔ یہ پیراڈاکس صرف یہ کہنے سے حل نہیں ہوسکتا کہ کسی چیز کے اسلام ہونے کے متعلق جو دعوی ہے اس کا انطباق ماہرین بشریات صرف informant (اطلاع دہندہ)کے اپنے نظریات اور معمولات (practices) پر ہی کریں، اس کی وجہ یہ ہے کہ عقائد و معمولات کے پورے نظام کو ایک فرد کے حوالے سے بیان کرنا اور اس کی وضاحت کرنا نا ممکن ہے۔ دوسرے لوگوں کے عقائد اور معمولات کے بارے میں ایک مسلمان کا عقیدہ اس کا اپنا عقیدہ ہے۔ اور ایسے تمام عقیدوں کی طرح ، اس مسلمان کے عقائد بھی دوسرے افراد کے ساتھ اس کے معاشرتی تعلقات کی وجہ سے ہی جلا پاتے ہیں اور باقی رہتے ہیں۔
اب ہم تیسرے جواب کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ارنسٹ گیلنر (Ernest Gellner)کی کی کتابMuslim Society(3) اسلامی بشریات سے متعلق سوال کو موضوع بحث بنانے والی بعض اہم کوششوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں مخصوص طریقوں پر مبنی ایک بشریاتی ماڈل پیش کیا گیا ہے، جس میں سماجی ساخت، مذہبی عقائد، اور سیاسی رویوں کا ایک اسلامی ہمہ گیریت کے ساتھ تعامل ہوتا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم اسی کتاب پر قدرے تفصیل سے بحث کریں گے۔ حالانکہ میرا مقصد اس ایک کتاب کا تجزیہ کرنا نہیں ہے، بلکہ اس پر گفتگو کرتے ہوئے ان نظریاتی مسائل کی نشان دہی کرنا ہے جن کا تجزیہ کرنا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہو جاتا ہے جو اسلامی بشریات پر کام کرنا چاہتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گیلنر کے پیش کیے گئے مجموعی تصور میں بہت سارے عناصر ماہرین بشریات، مستشرقین، سیاسی مفکرین، اور صحافیوں کی تحریروں میں بھی موجود ہیں۔اسی لیے اس ایک کتاب کے مطالعے سے قاری بہت سارے مباحث سے بیک وقت واقف ہوجا تا ہے۔ لیکن جو تصور یہ کتاب پیش کرتی ہے اس سے زیادہ دلچسپ اس کا انداز بیان ہے۔ مصنف نے بحسن و خوبی مفروضوں کی بنیاد پر نظریات کی فراہمی کا طریقہ انجام دیا ہے۔
گیلنر نے اسلام کو نظریاتی سطح پرمختلف طرح سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام کو سمجھنے کی اس کی سب سے پہلی کوشش اسلام اور عیسائیت کے درمیان تقابلی مطالعہ ہے۔ اس کے مطابق ، ہر ایک کی تشکیل مختلف تاریخی پس منظر میں طاقت اور عقیدے کی ترتیب سے ہوئی ہے۔ ایک کا تعلق بنیادی طور پر یورپ سے ہے جب کہ دوسرے کا مشرق وسطی سے۔ اس طرح کی تصور آرائی استشراقی مطالعے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، لیکن موجودہ ماہر بشریات کے یہاں بھی یہ طریق کارضمنی طور پر نظر آتا ہے۔
اس کی ایک مثال تو یہ حقیقت ہے کہ مشرق وسطی پر بشریات کی جودرسی کتب ہیں ،مثلاً گلک(4) (Gulick اور آئیکلمن(5)Eickelmanکی کتابیں، ان میں ’مذہب‘ پر جو ابواب ہیں انہیں مکمل طور پر اسلام کے لیے مختص رکھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عیسائیت اور یہودیت بھی اس خطے کے مقامی مذاہب ہیں، پھر کیوں مغربی ماہرین بشریات صرف مسلمانوں کے ہی عقائد و معمولات میں دلچسپی لیتے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ اکثر مغربی ماہرین بشریات کے نزدیک سفاردی یہودیت( Sephardic Judaism) اور مشرقی مسیحیت نظریاتی سطح پر حاشیہ پر آ چکی ہے اور انہیں مشرق وسطی میں عیسائیت کی عظیم تاریخ ،جو مغربی ثقافت کے زیر اثر یورپ میں پروان چڑھی، کی ذیلی شاخوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
میرا اس نظریے سے متعلق عدم اطمینان کہ یورپ صحیح معنوں میں عیسائیت کا محل وقوع ہے اور مشرق وسطی اسلام کا ، اس قدیم اعتراض کی پیداوار نہیں ہے کہ مذہب کو تاریخ اور ثقافت کے بنیادی جوہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ (اس اعتراض کو بعض مستشرقین جیسے بیکر (Becker)نے بہت پہلے اٹھایا تھا۔)(6) بحیثیت ماہر بشریات میری تشویش کا باعث وہ خاص طرز کا تقابلی مطالعہ ہے جو اسلام کی تفہیم اور اس کے متعلق نظریہ سازی کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر گیلنر کی کتاب کے ابتدائی پیراگراف کامطالعہ کریں۔ اس میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان امتیازی فرق کو واضح اور معروف انداز میں بیان کیا گیا ہے:
’’اسلام ایک سماجی نظام کا بنیادی خاکہ فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق خدا نے انسانوں کے لیے بعض ازلی احکام نازل فرمائے ہیں ، جو انسان کی خواہش کے تابع نہیں ہیں، اور جو معاشرے کے لیے ایک صالح اورصحیح نظام کا تعین کرتے ہیں۔۔۔
یہودیت اور عیسائیت بھی کسی سماجی نظام کے لیے ایک بنیادی خاکہ پیش کرتی ہے لیکن ان کی حیثیت اسلام کے فراہم کردہ نظام سے کم ہے۔ عیسائیت، ابتدا سے اس نظریے کی حامل رہی ہے کہ جو قیصر کا حق ہے وہ اسے دو۔ ایک مذہب جس کی ابتدا ایک سیاسی قوت کی سرپرستی کے بغیر ہوتی ہے اور اسے کچھ وقت تک اس کے بنا ہی جد و جہد کرنا پڑتی ہے، اس کے پاس سوائے اس کے کہ اس سیاسی نظام کے مطابق، جو ابھی اس کے قبضے میں نہیں ہے، خود کو ڈھال لے کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔عیسائیت جوبنیادی طور پر سیاست سے محروم کمزور لوگوں کے درمیان پروان چڑھی، اس وقت قیصر کی سرپرستی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔اپنے آغاز کے غیر موافق حالات کے زمانے سے ہی ایک طرح کے سیاسی تواضع اورانکساری کی استعداد عیسائیت میں پیدا ہو گئی تھی۔۔۔لیکن اسلام کی ابتدائی کامیابیاں اتنی تیز تھیں کہ اسے قیصر کو کچھ دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔‘‘
سطور بالا کے بغور مطالعے سے قاری کے ذہن میں مختلف طرح کے سوالات کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ قسطنطین کے بعد سے ایک لمبی تاریخ کا مطالعہ کیجئے، جس میں عیسائی شہنشاہ اور بادشاہ، عام شہزادے اور کلیسائی انتظامیہ، کلیسائی مصلحین اور نوآبادیاتی مشنریاں، تمام ہی لوگوں نے مختلف طرح سے طاقت کے استعمال کے ذریعے ایسے معاشرتی حالات پیدا کرنے اور انہیں قائم رکھنے کی کوششیں کی ہیں جن میں مرد اور عورتیں بحیثیت عیسائی زندگی گزار سکیں۔ کیا اس پوری تاریخ کا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ ایک غیر عیسائی ہونے کی حیثیت سے میں یہ فرض نہیں کروں گا کہ نہ تو ٭Liberation Theologyاور نہ ہی ٭٭Majority Moral کا عیسائیت کے جوہر یا اصل سے کوئی تعلق ہے۔ حالانکہ بحیثیت ماہر بشریات میرے لئے یہ تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں عیسائی معمولات اور مباحثے پوری تاریخ میں مذہبی مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال کے لیے کم کوشاں رہے ہوں۔
میں اس کی وضاحت کرتا چلوں کہ عیسائی اور مسلم تاریخوں کے تقابلی مطالعے کے خلاف اصولی طور پر میں کچھ پیش نہیں کر سکتا۔بلا شبہ ایران پرفشر (Fischer )کی حالیہ تصنیف کی اہم خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے مدرسے کے نظام کی تفصیلات میں یہودیوں اور عیسائیوں کی تاریخ میں موجود وضاحتی مواد کو بھی شامل کیا ہے۔یہ کتاب موجودہ دور میں اسلام پر ہونے والے ان چند بشریاتی مطالعات میں سے ایک ہے جو ضمنی طور پر یورپ کی تاریخ کے تقابلی مطالعے سے استفادہ کرتے اور ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔
لیکن ایک ماہر بشریات کوفشر (7)کی طرح متوازی خطوط تلاش کرنے کے عمل سے بھی آگے بڑھ کر ایک منظم انداز سے اختلافات کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی بنا پر پچھلے تین سالوں سے میری تحقیق بارہویں صدی کے مغربی یورپ میں راہبانہ رسومات ،میثاق اعتراف(sacrament of confession) اورالحاد کے خاتمے کے لئے قائم کی جانے والی عدالتی تحقیقات (Inquisition) کے تفصیلی بشریاتی جائزے(8) پر مرتکز رہی ہے۔ یہ تمام تاریخی واقعات عہد وسطی کے مشرق وسطی میں مذہب اور طاقت کے مابین تعلقات کے مقابلے میں بالکل مختلف ہیں۔ میں اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جس طرح عیسائی اور یہودی مشرق وسطی کے معاشرے کا جزو لاینفک ہیں اس طرح غیر عیسائی آبادی یورپی معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔میں اس مشہور اور جائز دعوے کو نہیں دہراتاکہ جس طرح مسلم حکمران اپنی غیر مسلم رعایا کے ساتھ روادار رہے عیسائی حکمراں غیر مسلم رعایا کے ساتھ اتنے روادار نہیں تھے۔ بلکہ میرا دعوی تو یہ ہے کہ عہد وسطی کے ’مذہبی‘ اور ’سیاسی‘ عیسائی و مسلم مقتدرہ نے ایک اخلاقی قوت وصلاحیت رکھنے والی رعایا پیدا کرنے اور انہیں قابو میں رکھنے کے لئے یقینی طورپر مختلف طریقہ ہائے کار ایجاد کیے ہوں گے۔ ویسے یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس مختصر سے مضمون میں اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ میں نے صرف اشا رتا اس کا ذکر مناسب سمجھا۔
’’ایک زبردست فوجی طاقت کی پشت پر دولت عثمانیہ اور مسلمان عہد جدید کی ابتداء تک حکومت کرتے اور پھلتے پھولتے آئے ہیں۔ اور کئی تو آج تک مغرب اور مشرق میں اسی طرح پھل پھول رہے ہیں۔ اتنے لمبے عرصے کی حکمرانی نے انہیں یقین دلا دیا کہ ان کی تہذیب و ثقافت پائدار اور دوسری قوموں سے ہزار گنا افضل اور اعلی ہے۔عہد وسطی میں اندلس سے لے کر ایران تک کے مسلمانوں کے لیے عیسائی یورپ جہالت ووحشت اور کفر سے عبارت تھا، جس سے تہذیب یافتہ مسلمانوں کو نہ ڈرنے کی کچھ ضرورت تھی اور نہ ہی سیکھنے کی۔‘‘(10)
ہو سکتا ہے یہ بات صحیح ہو، لیکن ہمارا سوال بالکل برعکس ہے، بجائے اس سوال کے کہ کیوں مسلمان یورپ میں دلچسپی نہیں لیتے تھے، ہم یہ پوچھتے ہیں کہ کیوں رومی سلطنت کے عیسائی دوسری قوموں کے عقائد و اورمذہبی معمولات میں دلچسپی رکھتے تھے؟ اس سوال کے جواب کا تعلق ان تہذیبی مقاصد سے اتنا نہیں ہے، جو مبینہ طور پر کسی نظریہ کائنات کی ذاتی خصوصیات یا فوجی مقابلوں کے مجموعی تجربے سے پیدا ہوتے ہیں، جتنا ان انتظامی ڈھانچوں سے ہے جو مختلف طرح کے منظم علوم کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں۔بہر حال یہ المیہ ہے کہ ایسی عیسائی قومیں جو مسلمانوں کے ساتھ مشرق وسطی میں بستی ہیں، نہ تو انہیں یورپ کے بارے میں اپنی علمی دلچسپی اور مشاغل کے حوالے سے کوئی جانتا ہے اور نہ ان مسلم سیاحوں کو جنہوں نے بارہا افریقی اور ایشیائی ملکوں کی سیر کی اور ان کے بارے میں کثرت سے لکھا۔ عیسائی اور مسلمانوں کے مابین امتیازی رویوں کی ٹوہ میں لگنے سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ فراہم نہیں ہو سکتا۔ اس میں ایک محقق صرف اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ایک بے معنی عدم التفا ت، دوسری قوموں سے سیکھنے کی ایک بے معنی خواہش سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کے بجائے ایک محقق کوان انتظامی یا ادارتی حالات کی جستجو کرنی چاہیے جو مختلف طرح کے سماجی علوم کو جنم دیتے ہیں۔ دوسری قوموں کے عقائد و تہذیب کے بارے میں کن چیزوں کو جمع کرنے کے قابل سمجھا گیا؟ کس نے انہیں جمع کیا؟ کس سماجی منصوبے کے تحت ان ریکارڈس کا استعمال ہوا؟ اسے صرف اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ عہد وسطی کے ابتدائی دور میں عیسائی دنیا میں بسنے والی غیر عیسائی اقوام کے عقائد اور معمولات کے زیادہ تر اہم کیٹلاگز وہ ہیں جنہیںPenitentials میں جمع کیا گیا ہے۔ Penitentials ایک طرح کی بیاض ہے جس میں نو عیسائیوں کو sacramental confession ، جو ایک طرح کی رسم ہے، کو ادا کرنے کا طریقہ لکھا ہوا ہے۔ یا پھرالحاد کے استیصال کی عدالتوں کو جاری کیے جانے والے وہ دستور العمل مرقوم ہیں جنہیں یورپین عہد وسطی کے آخری دور میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ دستور العمل صحت اور جامعیت کے ساتھ غیر عیسائی اقوام کے نظریات اور رسومات کی وضاحت کرتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں باشندگی اختیار کرنے والے دوسرے مذا ہب کے لوگوں کے بارے میں منظم علمی تحقیقات کے ذریعے تیار کیے گئے اس طرح کے دستاویزات کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے یہاں ایسے کسی بھی علمی شعبے یا فن کی ایجاد ہی نہیں کی گئی جو اس طرح کی معلومات فراہم کرتے اور ان کے تحفظ کا ذریعہ بنتے۔ دوسرے لفظوں میں، علم کی تخلیق میں مفاد کا تنوع مختلف قسم کے طاقت کے ڈھانچوں(structures of power) میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور ان کی رنگا رنگی اسلام یا عیسائیت کے بنیادی خصائص کی وجہ سے نہیں ہوتی ، بلکہ تاریخ کے ساتھ بدلتے انضباطی نظام کی وجہ سے ہوتی ہے۔
تہذیبی مقاصد کے تناظر میں تاریخی تقابل(مثلاً عیسائیت میں سیاسی تناظر میں سختی کے بجاے نرمی کی استعداد پائی جاتی ہے جب کہ اسلام میں خدائی حکومت کی تشکیل و نفاذ کی) کی صحت کے حوالے سے بیان کیے گئے میرے شبہات سے بڑھ کرایک اور مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ بہت سارے ایسے اہم امتیازات ہو سکتے ہیںجنہیں ماہرین بشریات کو معاشروں کے مطالعے کے دوران تلاش کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر سطحی اور غلط امتیازات کی جستجو میں پڑنے سے وہ بآسانی بے توجہی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اسلام اور عیسائیت کا تقابلی مطالعہ جیسا کہ گیلنر نے پیش کیا ہے،اس میں جو دشواری پیدا ہوتی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ مذہب اور طاقت کے درمیان جو تعلقات ہوتے ہیں وہ دونوں میں یکساں ہیں، بلکہ انہوں نے جو اصطلاحیں استعمال کی ہیں وہ خود میں گمراہ کن ہیں۔ اور اس لیے ہمیں ایسے تصورات ونظریات تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو زیادہ بہترطور پر ا ن امتیازات کی وضاحت کر سکیں۔
ابھی تک ہم نے بہت ہی اختصار کے ساتھ اسلامی بشریات کی تدوین کے تعلق سے کی جانے والی کوششوں کے ایک پہلو پر روشنی ڈالی ہے، مثلاً یہ کہ اسلام اور مشرق وسطی کو فی الواقع ایک ہی سمجھنا، اور جیسا کہ گیلنر کا خیال ہے، عیسائی تاریخ کو سمجھنے کے لیے مسلم تاریخ کو ایک نمونہ قرار دینا۔ اس فرق کے ساتھ کہ عیسائی تاریخ میں طاقت اور مذہب کے درمیان جس نوعیت کا تعلق پایا جاتا ہے ،اسلامی تاریخ میں یہ تعلق اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس نظریے پر دو وجہوں سے تنقید کی جاسکتی ہے: اول تو یہ کہ یہ نظریہ عیسائیت کی تاریخ میں منظم انداز میں طاقت کی مداخلت کو نظر انداز کردیتا ہے، دوم اس لیے کہ یہ اصولی طور پر سب سے زیادہ کمزور ہے۔ یہ دلیل اسلام سے متعلق چند باتوں کو لیکر ایک کلیہ قائم کرنے کی کوشش کے خلاف نہیں ہے، بلکہ جس طرح سے یہ کلیہ قائم کیا جاتا ہے اس کے خلاف ہے۔ اسلامی بشریات پر تحقیق کرنے والا اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے معمولات اور عقائد میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلا مسئلہ اس تنوع کو ایک مکمل نظریے کی صورت میں منظم کرنے کا ہے۔ اصل اسلام کو طاقت اور مذہب کے مجموعے کے طور پر پیش کرنے کی معروف کوشش ان میںسے ایک نہیں ہے۔ نہ اس نظریے کی کوئی حقیقت ہے کہ اسلام کے نام سے جو مختلف واقعات موجود ہیں وہ منفرد نوعیت کے ہیں۔
تنوع کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ماہرین بشریات نے ایک طریقہ تو یہ نکالا ہے کہ مستشرقین کی ’راسخ العقیدہ اسلام‘ اور ’غیر ر اسخ العقیدہ اسلام‘کی تقسیم کو’ زیادہ معتبر‘ اور’ کم معتبر‘ کی تقسیم کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ اور اس طرح انہوں نے ظاہری طور پر منقولی، دیہات کے تطہیری فکر رکھنے والوں کے عقائد، پیر پرستی، اور گاؤں کے رسوماتی مذہب کے درمیان ایک مقبول ترین تفریق قائم کردی ہے۔ ماہرین بشریات کے نزدیک اسلام کی کوئی بھی شکل یہ دعوی نہیں کرتی کہ اسے دوسری قسم کے مقابلے میں زیادہ معتبر تسلیم کیا جائے۔ وہ جیسی بھی ہیں بہر حال موجود ہیں اور مختلف حالات میں پیدا ہونے کے سبب ان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بلا شبہ دیہات میں مذہب کی جو شکل وجود میں آتی ہے وہ ایک مبہم،بے جوڑ اورمختلف انداز کی ہوتی ہے۔اس لیے اس طرح کا مذہب فرقہ پرست ہوتا ہے جس کی جڑیں مختلف علاقائی حالات اور شخصیات میں پیوست ہوتی ہیں۔ غیر مستند اور مسلسل یاداشتوں پر مبنی زبانی تہذیبی روایات اسے جواز فراہم کرتی ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ دیہاتی لوگوں کا اسلام بہت زیادہ متنوع ہے۔ لہٰذا روایتی اسلام ایسے ماہرین بشریات کے نزدیک اسلام کی بہت ساری شکلوں میں سے ایک (غیر متغیر) شکل ہے، جو اسلامی قوانین اور نظریات کے حوالے سے احتیاط پر اپنے اصرار اور کسی نیک بندے کی بجائے مذہبی متون کی بنیاد پر صحت کے اپنے دعوی کی وجہ سے ممتا ز ہے۔
اس تقسیم کو مراکش میں اسلام پر مطالعہ کرنے والے دو مشہور مغربی ماہرین بشریات :کلفرڈ گیرٹزClifford Geertz،ارنسٹ گیلنر اور ان کے شاگردوں کی وجہ سے بہت شہرت حاصل ہوئی۔ لیکن جس دلیل نے اسے زیادہ دلچسپ بنایا وہ یہ تھی کہ اسلام کی ان دو قسموں کا واضح تال میل دو طرح کے الگ الگ سماجی ڈھانچوں کے ساتھ ہے۔ سب سے پہلے یہ دعوی شمالی افریقہ پر کی جانے والی فرانسیسی نوآبادیاتی تحقیق کے نتیجے کے طور پر کیا گیا تھا جس کا ماحصل یہ ہے کہ قدیم شمالی افریقی معاشرہ ایک طرف تو شہری مرکزیت اور طبقہ بندی کی تنظیم پر، اور دوسری طرف آس پاس کے قبائل کی علاقائی اور مساواتی تنظیم پر مشتمل تھا۔شہروں پر بادشاہ حکمراں ہوتے تھے جو ہمیشہ مخالف گروہ، اور خودمختار قبائل کو زیر کرنے کی کوشش میں رہتے تھے؛ ان کے مقابلے میں یہ قبیلے کچھ کامیابی کے ساتھ مزاحمت کرتے اور کبھی ،کسی شجاعت وجاں فروشی سے متصف مذہبی قیادت میں ،اپنے اوپر مسلط حاکم کا تختہ الٹنے میں بھی کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسلام کی یہ دوہری تقسیم پوری طرح سے ان دو سماجی اور سیاسی ڈھانچوں کے موافق ٹھہرتی ہے: یعنی شہروں میں شریعت کے مطابق اسلام کی پیروی کی جاتی ہے اور قبائل میں متنوع رسومات کے مطابق۔ علماء کو شریعت پسندوں کے خانے میں رکھا جائے گا جبکہ صوفیاء کو رسومات پسندوں کے خانے میں۔ دونوں ہی ڈھانچوں کو ایک ہی نظام کا حصہ تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ ان حلیفوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کے درمیان سیاسی برتری حاصل کرنے کے لیے ایک نہ رکنے والی کشمکش چلتی رہتی ہے۔ زیادہ واضح الفاظ میں اس طرح سمجھیں کہ چونکہ شہری اور قبائلی دونوں آبادیاں مسلمان ہیں، اوردونوں ہی نام کی حد تک مذہبی متون پر ایمان رکھتی ہیں ( اور ساتھ ہی ضمناً طبقہ علماء کی بھی وفادار ہوتی ہیں)۔ اس وجہ سے ایک خاص طرح کی سیاسی کشمکش وجود میں آتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شہری حکمراں قبائل پر اپنی حکمرانی مستحکم کر لیں اوریہ بھی ممکن ہے کہ قبائل کسی ایسے علاقائی قائد کی قیادت تسلیم کر لیں جو اسلام کے نام پر اس حاکم کی جگہ خود حکمراں بننا چاہتا ہے۔
اس مفصل اسکیم میں ، جو اصل میں فرانسیسی اصحاب علم کی طرف سے اسلام کے سماجیاتی مطالعے کی پیداوار تھی، گیلنر نے سلسلہ وار مضامین کے ذریعے خاصہ اضافہ کیا ۔ اس کام میں اس نے ، اول مذہب کی کلاسیکی سماجیات، دوم ابن خلدون کے مقدمے، اورسوم مختلف معاشرتی گروہوں کے خاندانی یا وراثتی بنیاد پر مطالعے کے نظریے سے متعلق برطانوی ماہرین بشریات کی تحریروں سے استفادہ کیا۔ فی الواقع گیلنر نے اس اسکیم میں وسعت دے کر پورے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے علاوہ پوری مسلم تاریخ کو ہی اس میں شامل کر لیا۔ اس سے جو نتیجہ برآمد ہوااسے گیلنر نے اور ان کے بعد کے مصنّفین نے گیلنر سے ہی استفادہ کرتے ہوئے اسلام اور عیسائیت کے درمیان پرانے تقابلی مطالعے کووضاحت کے ساتھ بیان کرنے کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً ذیل میں برائن ٹرنر کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی لحاظ سے بحر روم کا مسلم آبادی والا جنوبی کنارہ ایک اعتبار سے یورپ کی طرف واقع شمالی کنارے کا عکس ہے۔ شمالی کنارے پر مرکزی مذہبی روایت طبقاتی نظام اور رسومات پر مبنی ہے اور دیہاتی لوگوں کو زیادہ اپنی سمت متوجہ کرنے والی ہے۔ اس سرکاری مذہب کا ایک بنیادی عقیدہ پیر پرستی ہے۔ اس کے برعکس جو منحرف اصلاحی روایت ہے وہ مساوی اور تطہیری نقطہ نظر کی حامل شہری روایت ہے۔ اس میں کسی نو عیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جنوبی کنارے پر اسلام نے اس ترتیب کو بالکل الٹ دیا ہے۔ یہ قبائلی اور دیہاتی روایت کا حامل ہے جو طبقاتی نظام اور رسومات پر مبنی ہے۔ اسی طرح راہب اور شیخ بھی ایک دوسرے کے عکس ہیں۔ جہاں ایک طرف عیسائیت میں راہب روایت پسند، انفرادیت پسند اور اپنی قبروں میں ہیں ، اور انہیں مرکزی ادارے کی طرف سے ولایت کے منصب پر فائز کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف اسلام میں شیوخ غیر روایتی انداز رکھنے والے ، قبائل سے یا پھروہ کسی جماعت سے مربوط اور زندہ ہوتے ہیں اور علاقائی لوگوں کی رضامندی سے پیر بن جاتے ہیں۔‘‘(11)
اس اقتباس میں مغربِ عرب کی تصویر کشی کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تصویر کشی کو عربی میں علاقائی تاریخی ذرائع تک رسائی رکھنے والے محققین ، جیسے حمودی(Hammoudi) اور کورنیل(Cornell)(12)کی طرف سے بھاری تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس طرح کی تنقید بہت اہم ہے، لیکن یہاں اس پر گفتگو نہیں کی جائے گی۔ اگرچہ یہ ایک اہم سوال ہے کہ موجودہ تاریخی معلومات کے پیش نظر کیا اس طرح کی اسلامی بشریاتی تحقیق پوری مسلم دنیا ( یا صرف شمالی افریقہ) کے لیے درست ہے؟ ہم اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اس دوسرے مسئلے پر گفتگو کریں گے یعنی اسلام کے بشریاتی مطالعے کے دوران (اول) اسلامی سیاسی ڈھانچے میں تاریخی تغیرات اور (دوم) اسلام کی مختلف شکلوں کا بحیثیت مذہب اس کے سیاسی ڈھانچے سے تعلق، اس کی تحقیق میں کن استدلالی طریقہ کار کا استعمال کیا گیا اور یہ طریقہ کار کن سوالوں پر غور و فکر کرنے میں آڑے آ رہا ہے؟ بحیثیت ماہر بشریات ، ہمیں کس طرح کے اصول وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایسے سوالوں کے جواب کو عملی شکل دے سکیں؟
اس مسئلے پر گفتگو کرنے کے لیے ہمیں درج ذیل نکات پر غور کرنا ہوگا: (اول) ممتاز تہذیبی عوامل سے جڑے معمولات کو تاریخی سیاق سے الگ کر کے ایک خاص ترتیب میں دیکھنے کی بجائے ان سے متعلق بیانیوں کو تاریخی طور پر رائج ان عوامل کے مباحث کو دوسرے عوامل کے مباحث کے رد عمل کے طور پر دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔(دوم) سماجی ڈھانچوں کے بشریاتی تجزیوں کو مخصوص عوامل پر نہیں ، بلکہ ادارتی تعلقات اور حالات کے بدلتے ہوئے پیٹرن کوپیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ (خاص طور سے ان پر جنہیں ہم سیاسی معاشیات کہتے ہیں۔) (سوم) مشرق وسطی کی سیاسی معاشیات کا تجزیہ کرنا اور اسلام کو ڈرامائی اسلوب میں پیش کرنا، بنیادی طور پر دونوں ہی مختلف طرح کی استدلالی مشقیں(discursive exercises) ہیں جنہیں ایک دوسرے کی جگہ پر نہیں رکھا جا سکتا۔ حالانکہ انہیں ایک ہی بیانیے میں بڑی حد تک پرویا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ دونوں کی نوعیت مباحثوں(discourses) کی ہے۔ (چہارم) ضمنی طور پر سماجی اور نظریاتی یکسانیت کی بنیاد پر اسلام کی مختلف شکلوں کو سماجی ڈھانچوں کی مختلف شکلوں سے جوڑ کر دیکھنا صحیح نہیں ہے۔ (پنجم) بشریاتی تفہیم کے لیے اسلام کا مطالعہ ایک ایسی استدلالی روایت کے طور پر ہونا چاہیے جو مختلف طرح سے اخلاقی نفسیات اور جذبے کی پرورش میں، عوام کے ساتھ تعامل کرنے یا مزاحمت سے دو چار ہونے اور مناسب علوم کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اگر کوئی گیلنر جیسے ماہر بشریات کی تحریروں کا بغور مطالعہ کرے تو اسے یہ احساس ہوگا کہ قدیم مسلم معاشرے کی سماجی اور سیاسی ساختوں کو ایک بہت ہی مخصوص انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ قاری کو ایسا لگتا ہے کہ بڑے بڑے کرداروں کی ایک جماعت ہے جو ایک ڈرامائی کشمکش میں باہم دست و گریباں ہے۔ چھوٹے چھوٹے قبائل مرکزی ریاستوں سے نبردآزما ہیں۔ مسلح خانہ بدوشوں کو "مدنیت کی ہوس" ہوتی ہے، اور غیر مسلح تاجر خانہ بدوشوں سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ صوفیاء کبھی جنگ جو قبائل کے درمیان اور کبھی دور افتادہ ، متلون مزاج خدا اور جاہل بدووں کے درمیان ثالث اور وسیلہ بنے ہوئے ہیں۔ علماء طاقتور حکمرانوں کی خدمت گزاری اور شریعت کو بر قرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تطہیریت پسند بورژوائی(puritanical bourgeoisie) اپنے ممتاز رتبوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ شہر کے فقراء کو ایک جوش آفریںمذہب کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذہبی مصلح ایک زوال پذیر حکومت کے خلاف گلہ بانوں کی فوج لے کر صف آراء ہو جاتے ہیں۔ باغی شہری رعایا اپنے قبائلی دشمنوں کی مذہبی اور فوجی امداد کی مدد سے کمزور بادشاہوں کا تختہ پلٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔
سماجی ڈھانچے کی ایسی عکاسی جسے مکمل طور پر ڈرامائی کرداروں کے تناظر میں پیش کیا گیا ہو، اس سے متعلق دوسرے ممکنہ تصورات کو خارج کرنے کے درپے ہوتی ہے ۔ اس نکتے پر ہم آئندہ سطور میں روشنی ڈالیں گے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کسی ڈرامے کے مخصوص کرداروں سے متعلق ایک بیانیے کو بھی ان مباحث کی تفصیل کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کرداروں کے رویوں کا تعین کرتے ہیں۔ تاہم یہ گنجائش باقی رہتی ہے کہ ان تفصیلی مباحث میں پیش کیے جانے والے ان رویوں کویہ کردارباہم صحیح یا غلط طور پر پیش پرکریں۔ اگر واضح لفظوں میں کہا جائے تو یہ مباحث ایک ڈرامائی انداز میں پورے طور پر عوامل کے ادا کردہ مفاہیم پر ہی منحصر رہتے ہیں۔ اس کے برعکس گیلنر کے بیانیے میں کسی بھی طرح مقامی سطح پر ہونے والے مباحث کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ گیلنر کے اسلامی یا مسلم کردارنہ تو بولتے ہیں اور نہ ہی سوچتے ہیں۔ وہ صرف اپنے کردار ادا کرتے ہیں۔مزید برآں اطمینان بخش شواہد کے فقدان کے باوجودگیلنر’’معمولی‘‘ اور’’انقلابی‘‘ رویوں کے پیچھے کار فرما مقاصد کو مسلسل قدیم مسلممعاشرے (classical Muslim society) کے اہم اور نمائندہ افراد کے اعمال سے جوڑ تے رہتے ہیں۔ گیلنر کی کتاب میں بلاشبہ ایک ہی اخلاقی زبان بولنے والے مشترکہ کردارکے حوالے سے بات کی گئی ہے، لیکن یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ اس طرح کے بیانات خالص مردہ استعارے کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ وہ اس لیے کہ یہاں گیلنر زبان کو ایک ایسی شے کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو فی نفسہٖ تصادم و کش مکش کی صفت سے خالی ہے اور جسے آسانی کے ساتھ طاقت آزمائی کے عملی تسلسل سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ گیلنر مسلم معاشرے کی ایسے ڈھانچے کی صورت میں عکاسی کرتے ہیں جس پر اشرافیہ کا تسلط نظر آتا ہے۔اس سیاق میں متعلقہ امر کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ: ’’اسلام نے ایک مشترکہ زبان کی سرپرستی کی جس کے سبب ایک عمل کے لئے خاص طرح کی آسانیاں پیدا ہوئیں۔ اور یہ عمل خاموشی اور سفاکیت کے ساتھ بہر حال عمل پذیر ہو‘‘ا۔دوسرے لفظوں میں، اگر عالم اسلام میں بولی جانے والی مشترکہ زبان نہ ہوتی تو تاریخ میں کسی بھی طرح کی اہم تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ گویا زبان غلبے کے دائرے کی توسیع کے حوالے سے آسانیاں فراہم کرنے کے ایک آلے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔
زبان کو مکمل طور سے ایک آلہ تصور کرنے کا نظریہ ناقص ہے۔ خاص طورپر اس نوع کے بیانیے کے حوالے سے جو ثقافتی طور پر تسلیم شدہ کرداروں کو ترغیب دینے والے اسباب وعوامل کے توسط سے مسلم معاشرے کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان حالات کے بارے میں (جن میں مسلم حکمرانوں اور رعایا کا رد عمل اقتدار، مادی قوت، ترغیب اور عادت کے حوالے سے مختلف رہا ہوگا) ایسے سوالات دریافت کرنا تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب گیلنر تاریخی طور پر واضح مباحث کو سنجیدگی سے لیں اور خاص طور پراس بات کو کہ کس طرح سے یہ مباحث واقعات کو تشکیل دیتے ہیں؟
اس حقیقت پر غور کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ گیرٹز (Geertz) ، جن کے بارے میں مانا جاتاہے کہ گیلنر کے برعکس ، جو سماجی اسباب پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، بنیادی طور پر ثقافتی معانی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنی کتاب Islam Observed میں وہ اسلام کے متعلق ایک بیانیہ پیش کرتے ہیں، جو گیلنر کے مقابلے میں بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔گیرٹز بھی اسلام کو ڈرامائی انداز میں پیش کرتے ہیں۔اپنے ثقیل ادبی اندازمیں گیرٹز سیاسی ڈرامے میں استعمال ہونے والے استعاروں کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ قدیم مراکش اور انڈونیشیا میں اسلامی سیاست کی مختلف انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے، لیکن دونوں ہی کو الگ الگ انداز میں ایسے پیش کیا گیا ہے جیسے وہ محض ایک ڈرامہ ہو۔گیرٹز اور گیلنر کے ذریعے پیش کیا گیا اسلام طاقت کا مظاہرہ کرنے والاایک مذہبی ڈراما ہے۔اپنے اس تصور کی تشکیل میں وہ علاقائی تناظر میں غور وفکر کا موضوع بننے والے مباحث کو بھی خارج کر دیتے ہیں اور اسلامی رویوں کو محض اشارتی اسالیب کے علاوہ کچھ اور اہمیت نہیں دیتے۔
ڈرامائی کرداروں کے اظہارات اور اظہار کے ارادوں کے تعلق سے بیانیوں کی اختراع کرنا ہی ماہرین بشریات کے لیے ایک اکیلا آپشن نہیں رہ گیا ہے۔ سماجی زندگی پر تجزیاتی تصورات کی روشنی میں لکھا بھی جا سکتا ہے اور اس پر گفتگو بھی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے تصورات کے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہم اہم سوالات دریافت کرنے میں ناکام رہتے ہیںاور بالآخر تاریخی ڈھانچوں کی غلط توضیح کر بیٹھتے ہیں۔
مثال کے طور پر قبیلے کے تصور کو ہی لیجیے۔ قبیلے کا تصور ایسی اسلامی بشریات کا مرکزی خیال ہے جس کی ایک اہم مثال خود گیلنر کی کتاب ہے۔ مشرق وسطی پر لکھنے والے اکثر اس تصور کا استعمال ایک بالکل مختلف ڈھانچے اور طرزپر مشتمل زندگی گزارنے والے انسانوں کا حوالہ دینے کے لیے کرتے ہیں۔ عام طور سے جہاں اصولی مسائل شامل کار نہ ہوں وہاں اس بات سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن جہاں کسی طرح کا کوئی اصولی یا نظریاتی مسئلہ موجود ہو،جیسا کہ یہاں ہے،’’قبیلے‘‘ کی اصطلاح کے غیر امتیازی استعمال کے تجزیے کے مدلولات پر غور و فکر کرنا اہم ہو جاتا ہے۔
ایسا صرف اس لیے نہیں ہے کہ’’قبائل‘‘ کے رسمی ضوابط و قوانین ایک دوسرے سے بڑی حد تک مختلف ہیں، بلکہ اس لئے ہے کہ گلہ بان بدو کسی بھی طرح کی مثالی معاشیات کے حامل ہی نہیں ہیں۔ ان کی سماجی ومعاشی تنظیم کا تنوع ان کی ممکنہ طور پر سیاست، تجارت اور جنگوں میں شمولیت پر بہت ہی مختلف انداز میں دلالت کرتا ہے۔ پیری اینڈرسن (Perry Anderson)جیسے متعدد مارکسی مفکرین نے گلہ بانی پرمبنی معیشت کے تصور پر اپنے دلائل پیش کیے ہیں۔ ان کی پیروی کرتے ہوئے برائن ٹرنر یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ یہ تصور مسلمانوں کے سماجی ڈھانچوں کی اصولی سطح کی تفصیل فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے، اور وہ اس لیے کیوں کہ مشرق وسطی کے ممالک میں گلہ بان بدو بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔(13)
یہ مفروضہ کہ مسلم مشرق وسطی میں گلہ بان بدووں کا ایک مخصوص سیاسی اور معاشی ڈھانچہ موجود ہے ،گمراہ کن ہے۔(14) اس کے اسباب اتنے پیچیدہ اور موضوع سے ہٹے ہوئے ہیں کہ ان پر یہاں گفتگو ممکن نہیں، لیکن اس مسئلے پر معمولی طورپر غور و فکر سے بھی یہ واضح ہو جائے گا کہ سماجی ڈھانچوں سے متعلق یہ تصورات ان تصورات سے مختلف ہیں جنہیں اسلامی تاریخ اور بشریات کے ماہرین اسلام کو سمجھنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
شہرکے باشندوں کے سیاق میں گلہ بان بدووں کی فوجی قابلیت ومہارت کے کسی بھی مطالعے کا آغاز اس نکتے کے بجائے کہ وہ گلہ بان بدو ہیں، متنوع سیاسی-معاشی حالات، جن میں ترتیب اور بے ترتیبی دونوں کی کیفیت پائی جاتی ہے، کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ مختلف قسم کے جانوروں کی افزائش، موسمی مہاجرت کے طریقے، گلہ بانی کی تنظیم کے طریقے ، چراگاہوں اور پانی کے چشموں تک ر سائی کے حقوق، جانوروں کی بحیثیت مال تقسیم، اشیاء کی فروخت کے محصول پر انحصار کا درجہ، خود کفیل ہونے کے لیے کاشتکاری سے متعلق اعلی یا ادنیٰ سیاسی شخصیات کی طرف سے پیش کیے جانے والے تحفے اور نذرانے۔ ان سے متعلق یہ اور اس طرح کے دوسرے ملاحظات ہیں جو اس جیسے بنیادی سوال کی تفہیم کے لیے ضروری ہیں کہ بچے ہوئے لوگوں میں سے کتنے لوگوں کو جنگ کے لیے کتنی آسانی سے اور کتنی دیر تک کے لیے جمع کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شمالی سوڈان کے گلہ بان بدووں کی آبادی میں، جن کا کئی سال قبل میں نے مطالعہ کیاتھا، لڑائی کے قابل مردوں کی ایک بڑی تعداد کو سرگرم وفعال بنانے کے امکانات میں انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی کے وسط کے دورانیے میں بہت زیادہ فرق پیدا ہواہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایک تو یہ ہے کہ ان کے مویشیوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے اور ایک یہ کہ ان کے گلہ بانی کے نظام میں زیادہ پیچیدگی آ گئی ہے۔ وہ اب بڑے پیمانے پر جانوروں کی فروخت میں مشغول رہتے ہیں اور انہوں نے حقوق جائداد کا ایک مختلف طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ یہ مثال اس طرف توجہ دلانے کے لیے نہیں پیش کی گئی کہ اس طرح کی قبائلی تنظیم کسی طرح بھی مشرق وسطی کے قبائل کی تنظیم کے مماثل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی طرح کے قبائلی نمونوں کا کوئی مستقل وجود ہی نہیں ہے۔ میری سیدھی سی دلیل یہ ہے کہ بدو شہری عوام سے متعلق جو کرنا چاہتے یا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ مختلف تاریخی حالات کی پیداوار ہے جو ان کی سیاسی معاشیات کی وضاحت کرتی ہے، نہ کہ وہ کسی طرح کے بنیادی مقاصد کا اظہار ہے جنہیں کلاسیکی اسلامی ڈرامہ میں اہم قبائلی افراد کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ’’قبائل‘‘ کو ’’استدلالی ڈھانچوں‘‘(discursive structures) اور’’معاشروں‘‘ کے مقابلے میں بااثرعوامل کی حیثیت سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔قبائل بھی تاریخی ڈھانچے ہیں جن کے لحاظ سے لوگوں کی زندگیوں کے امکانات اور حدود کی تفہیم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبائل کو تشکیل دینے والے افراد سے ’’قبائل‘‘ کی حقیقت کو کم کر کے دیکھا جائے، بلکہ اغراض، رویوں اور الفاظ کا ذخیرہ ان تجزیاتی تفصیلات سے ، جن کا خاص موضوع قبیلہ ہو، کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ حالانکہ اس طرح کی تفصیلات کو سماجی عوامل سے متعلق بیانیے کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ قبائل کا ڈھانچہ وقت اور جگہ کے حساب سے الگ الگ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مقاصد، طرزہائے عمل اور کلام کی تفہیم سب ہی مختلف ہو جاتے ہیں۔
مسلم معاشرے کو سپاہیوں اور جنگجووں پر مشتمل معاشرے کے طور پرپیش کرنے میں اگر کسانوں کی اہمیت کو نظر انداز کیا جائے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ عورتوں کی طرح کسانوں کی بھی عکاسی ایسے کی گئی ہے جیسے وہ کچھ بھی نہیں کرتے۔ جیسی تحقیقات گیلنر نے پیش کی ہیں ان میں بدو قبیلوں اور شہری عوام کے مقابلے میں کسانوں کا نہ تو کوئی ڈرامائی کردار ملتا ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص مذہبی شعار۔ لیکن جیسے ہی پیداواراور باہمی مبادلے کے تصورات پر نظر جاتی ہے، ایک دوسری ہی کہانی نظر آتی ہے۔ مرد و عورت کاشت کار فصل پیدا کرتے ہیں (بالکل ایسے ہی جیسے گلہ بان مرداور خواتین جانوروں کی پرورش کرتی ہیں) جسے وہ فروخت کردیتے ہیں یا پھر وہ کرائے یا ٹیکس کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کسانوں کی خدمات بھی مشرق وسطی کے تاریخی خطے میں ، جس طرح دنیا کے کسی اور علاقے میں ، سماجی تشکیل کے لیے بہت ضروری ہوتی ہیں، لیکن اسے سمجھنے کے لیے ان کی خدمات کو سیاسی-معاشی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے نہ کہ ڈرامائی تناظر میں۔ عہد وسطی کے زراعتی حلقوں میں بڑی حد تک تبدیلی واقع ہوئی ہے جس سے شہری آبادی، پیسے پر مبنی معیشت، اور ملکی و بین بر اعظمی تجارت(15) کی ترقی پر دور رس نتائج واثرات مرتب ہو ئے ہیں۔ یہ بات عہد وسطی کے آخری دور پر بھی صحیح طور پر منطبق ہوگی، اگرچہ معاشی تاریخیں ان تبدیلیوں کو ترقی کے بجائے زوال کے طور پر دیکھتی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے کہ ان تبدیلیوں نے غلبے اور خود مختاری سے جڑے سوالات پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے ، کسی شخص کو معاشی جبریت کا نظریہ قبول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔
مشرق وسطی پر لکھنے کی یہ روش، جو غیر مشخص رکاوٹوں کے طویل مدتی کاموں پر خاص توجہ دیتی ہے، ان سماجی معاشیات اور سماجی قوت کے درمیان متنوع لیکن پائیدار تعلقات کے لیے حساس ہوگی۔ یہ نکتہ اس طرف بھی ہماری توجہ مبذول کرائے گا کہ مشرق وسطی کے تاریخی معاشرے کبھی بھی خود کفیل نہیں تھے، اور نہ ہی کبھی خارجی تعلقات سے علیحدہ تھے اور اسی طرح عصر جدید کے سماجی دھاروں میں شامل ہونے سے پہلے، نہ ہی کبھی مکمل طور پر جامد تھے۔ ان راویوں کے بر خلاف جو ہمارے سامنے ایک متعینہ کہانی کی بنیاد پر ایک ہی طرح کے اسلامی کردار پیش کرتے ہیں، اسلامی تماشاگاہ کے ایک معین اسٹیج سے الگ ہٹ کر ہم مختلف سماجی عوامل کے درمیان روابط، تبدیلیوں اور اختلافات کو تلاش کرسکتے ہیں۔ اس کے بعدہمیں ایک بنیادی اسلامی معاشرتی ڈھانچے پر لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ ہم مشرق وسطی کے تاریخی ڈھانچوں اور نمونوںپر لکھیں گے، جن کے عناصر کبھی بھی پوری طرح متحد نہیں ہوئے، اور کبھی بھی ’’مشرق وسطی‘‘کے جغرافیائی حدود کے پابند نہ تھے۔ یہ بات بھی اکثر بھلا دی جاتی ہے کہ ’’عالم اسلام‘‘تاریخی بیانیوں کو منظم انداز میں سمجھنے کا ایک تصور ہے نہ کہ خودمختار عوامل کے ایک مجموعے کا نام۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاریخی بیانیے کسی بھی طرح کا کوئی سماجی اثر نہیں رکھتے ہیں، اس کے بر خلاف تاریخی روایات اثر رکھتی ہیں۔لیکن عالم اسلام کی سالمیت کی بنیاد نظریاتی اور ایک استدلالی نمائندگی (discursive representation)پرہے۔ اسی وجہ سے گیرٹز لکھتے ہیں :
’’یہ شاید تہذیبوں کے ساتھ بھی اتنا ہی حقیقت پر مبنی ہے جتنا کہ انسانوں کے ساتھ، حالانکہ بعد میں ان میں کتنی ہی تبدیلیاں واقع ہو جائیں، ان کی خصوصیت کے بنیادی پہلو ، وہ ممکنہ ڈھانچے جن کے اندرایک معنی میں وہ (تاریخی ڈھانچے) ہمیشہ گردش کرتے رہیں گے، وہ ان سانچوں میں اسی وقت ڈھل چکے تھے جب ان کی تشکیل ہو رہی تھی۔‘‘(16) لیکن کردار یا شخصیت کی تباہی گیرٹز جیسے ماہر بشریات جسے عمل میں لاتے ہیں، پیشہ ور مصنف کا موضوع ہے نہ کہ موضوع سے ناواقف ایسے شخص کا جو مغربی دانشوروں کے مطالعے کے لیے اسلام پر لکھتاہو۔
جس اسلامی بشریات پر یہاں نقد کیا جا رہا ہے وہ ایک ایسے کلاسیکی سماجی ڈھانچے کو پیش کرتا ہے جو بنیادی طور پر شہری اور قبائلی عناصر پر مشتمل ہے اور دونوں ہی اس ڈھانچے میں مذہب کی دو بنیادی شکلوں کے فطری نمائندے تسلیم کیے جاتے ہیں: یعنی عام قبائلی مذہب ، جس کا ارتکاز صوفیاء اور درگاہوں پر ہوتا ہے اور غالب شہری مذہب جس کا ارتکاز’’کتاب مقدس‘‘ پر۔ میری دلیل یہ ہے کہ اگر ماہرین بشریات مذہب کو تصوراتی طور پر اس کے سماجی سیاق میں رکھ کر سمجھیں، تو جس طرح سماجی سیاق کی وضاحت ہوگی وہ ضرور مذہب کی تفہیم کو متاثر کرے گی۔ بعض ماہرین بشریات کے ذریعہ مشہور کی گئی اسلام کی جامد اور دوہری تقسیم والے ڈھانچے کی اسکیم کو اگر کوئی ردکرکے وقت اور جگہ کے باہمی تداخل کے لحاظ سے مسلم معاشروں کے سماجی ڈھانچوں کے بارے میں لکھنے کا فیصلہ کرے تاکہ مشرق وسطی کو مختلف معاشرتی اکائیوں کے اجتماع کا مرکز تصور کیا جائے ( اور اس بنا پر مختلف ممکنہ تاریخوں کا )، تو اسلام کی دوہری تقسیم بلا شبہ بہت کم معقول نظر آئے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ مذہب کی دو بڑی تقسیم کے علاوہ ، جسے ایسی اسلامی بشریات نے پیدا کیا ہے جس پر ہم گفتگو کر رہے ہیں، کبھی کبھی معمولی قسموں کی بھی صراحت کی جاتی ہے۔ گیلنر اور دوسرے ماہرین بشریات نے اس کا اہتمام کیا ہے۔ لہٰذا قبائل کے درمیان پائے جانے والے اسلام کے عام تصور کے مقابلے میں اسلام کا ایک ’’انقلابی‘‘ تصور ہے، جو کبھی کبھی شہروں کے تطہیری تصور کے ساتھ ضم ہو جاتا ہے۔ یا پھر ان کی تجدید کرتا ہے۔ دوسرا مذہب کا راہبانہ تصور ہے جو غریب شہریوں میں پروان چڑھتا ہے اور افیون کی طرح ان غریب شہریوں کو بااثر سیاسی اقدامات سے باز رکھتا ہے تا آ ں کہ جدیدیت ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔دوسری طرف شہر میں رہنے والے عوام کا مذہب وہ مذہب ہوتا ہے جو ’’انقلابی‘‘ رنگ اختیار کر لیتا ہے۔گیلنر کی کتاب میں حیرت انگیز طریقے سے اسلام کی یہ دو معمولی شکلیں، ایک مثبت اور ایک منفی طور پر، اسلام کے دو عظیم ادوار کی تشکیل کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک دورقرون وسطی کا ہے جو ایک جامد ڈھانچے کے اندر گردش کرتا نظر آتا ہے۔ دوسرا باغیانہ جوش وخروش اور عوامی تحریکوں سے عبارت ہے۔ لہٰذا اس تصور کو تسلیم کرنا کہ اسلام کی دو سے زیادہ قسمیں یا شکلیں ہونا ممکن ہے، اس تصور کو راہ دینا ہے کہ مسلمانوں کا ایک روایتی معاشرہ ہے اور ایک جدید۔
اب ماہرین بشریات کی طرف سے اسلام کا تعارف صرف سماجی ڈھانچوں کی تفہیم پر منحصر نہیں ہوگا، بلکہ اس طرز پر جس میں خودمذہب کو سمجھا جاتا ہے۔ مذہب کی سماجیات سے واقف کار اس بات سے آگاہ ہیں کہ بین ثقافتی مقاصد کے لیے مذہب کا ایک موزوں تصور پیش کرنا کتنا مشکل امر ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے کیونکہ ایک شخص کے مذہب کا تصور ہی اس بات کو متعین کرتا ہے کہ اس سے کس طرح کے سوالات دریافت کرنے چاہئیں۔ لیکن بہت ہی کم اسلامی بشریات کے ماہرین اس معاملے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرسکیں گے۔ اس کے بجائے اسلام کی شکلوں کو بیان کرنے کے لیے وہ کثرت سے بلا تمیز ان عظیم ماہرین سماجیات مثلاً مارکس(Marx)، ویبر(Weber)اور درخائیم (Durkheim) کی تحریروں میں موجود نظریات پر انحصار کریں گے، اور ان کے نتائج ہمیشہ یکساں نہیں ہوں گے۔
گیلنر کی کتاب اس حوالے سے ایک اچھی مثال پیش کرتی ہے۔ اسلام کی شکلیں جنہیں گیلنر نے’’روایتی مسلم سماج‘‘ کی خصوصیت کے طور پر پیش کیا ہے، ان کی تعمیر مذہب کے تین مختلف تصورات کی بنیادپر ہوئی ہے۔ لہٰذا عام قبائلی مذہب کو درویش کی مرکزی شخصیت کے ارد گرد تصور کرنا واضح طور پر درخائیم کے نظریے کے تحت ہے۔ اس مذہب کا تعلق سماج میں زمانی ومکانی سطح پر پیدا ہونے والے مختلف تغیرپذیر حالات، موسم سازی اور فرقہ سازی کے تقریبات سے متعلق ہوتا ہے۔ مذہب کا تقدس انہیں پر لطف، نمایاں اور معتبر بناتا ہے۔ یہاں اجتماعی رسومات کی بنیاد پر مذہب کی تصور سازی کی گئی ہے۔ اوریہ مانا گیا ہے کہ ان رسومات کا نفاذ الٰہیاتی بنیادوں پر ہوا ہے۔ یعنی درخائیم کے مطابق ، یہ بھی کونیاتی اور سماجی ڈھانچوں کی علامتی نمائندگی کرتے ہیں۔
شہرمیںسکونت پذیر غربا کے مذہب کی وضاحت میں جس تصور کو بروئے کار لایا گیا ہے وہ قدرے مختلف ہے۔ اور اسے ظاہر ہے مذہب بہ عنوان جھوٹی آگاہی پر مارکس کی ابتدائی تحریروں سے اخذ کیا گیا ہے۔گیلنر لکھتے ہیں:
’’شہروں کے غریب، جن کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا، خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور معاشرے سے الگ تھلگ رہتے ہیں۔۔۔انہیں مذہب سے اور کیا چاہیے سوائے سکون اور فرار کے، وہ وجد و سرور کے خواہاں رہتے ہیں۔ ایک ایسی مذہبی کیفیت جو ان پرسرمستی کی کیفیت طاری رکھتی ہے۔۔۔‘‘
اگر اس طرح کے دلائل کی ساخت پر غور کیاجائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جسے یہاں مذہب کہا گیا ہے وہ ایک جذباتی تجربے کا نفسیاتی رد عمل ہے۔قبائلی اسلام کی تفصیل میں جس کی طرف اشارہ کیا گیا تھا وہ ایک جذباتی اثر تھا، لیکن یہاں جس کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے وہ جذباتی سبب ہے۔پہلی مثال میں قاری کو اجتماعی رسوم اور ان کے معانی، رسومات کے ماہرین اور ان کے کردار کے بارے میں اور سرسری مثال میں قاری کی توجہ ذاتی مشکلات اور نامکمل خواہشات کی طرف کی جاتی ہے۔
’’خوشحال شہری بورژوائی طبقے میں عوامی تیوہاروں کا ذوق بالکل نہیں ہوتا ، اس کے بجائے وہ عملی پاکیزگی کے ذریعے حاصل ہونے والے اطمینان کو ترجیح دیتے ہیں، جو اس کی عظمت اورتجارتی ضرورتوں کے بالکل موافق ہوتا ہے۔ اس کی نزاکت اس کے مقام کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، اور اسے دیہاتیوں اور شہر کے ادنی طبقے کے لوگوں سے ممتاز رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ شہری زندگی نصوص پر مبنی تطہیری توحید کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ اسلام اس ذہنی رجحان یا رویے اورذہن کے اس پہلو کی کسی دوسرے مذہب کے مقابلے میں زیادہ بہتر وضاحت کرتا ہے۔‘‘
اس اقتباس میں ویبر کی Protestant ethics کی بازگشت سنائی دینا اتفاقی نہیں ہے۔ اس صور ت میں جبکہ ایک سے زائد مرتبہ اس کے حوالے دیے گئے ہوں۔ اس تشریح میں ’’بورژوائی مسلم‘‘کو اخلاقی ،یا بالفاظ دیگر جمالیاتی سلیقہ کا حامل بتایا گیا ہے۔ اس کی شخصیت کا جو پہلو اہم ہے وہ تعلیم ہے جو اسے شریعت اور نصوص کے سمجھنے اور پڑھنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ دوسری مثال اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ بورژوائی مسلمان کو اخلاقی اور علمی مشاغل میں ہمہ تن متصور کیا جائے۔ بورژوائی مسلمانوں کے مذہبی تصور کا معنی نہ تو اجتماعی رسومات ہیں اور نہ ہی نا مکمل آرزوئیں اور سماجی بیزاری بلکہ یہاں مذہب کا معنی عوام کے اختیار کو بحال رکھنا ہے۔ اس کی معقولیت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ تحریر شدہ ہے اور دوسری وجہ یہ کہ وہ سماجی سرگرمیوں کے لیے فائدہ مند ہے، یعنی ریاست کے خدمت گزار بھی رہیں اور تجارت سے تعلق بھی نہ ٹوٹے۔
قبائلی اور شہری تقسیم کی بنیاد پر مختلف انداز میں مذہب پر گفتگو کرنے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ یہ ایک ہی چیز کے مختلف پہلو ہیں۔ دراصل یہ نصوص کی مختلف تعبیریں ہیں جن کا مقصد مختلف چیزوں کی وضاحت کرنا ہے، اور جو سماجی حقائق کی ماہیت ، ضروریات کے ماخذ اور ثقافتی معانی کے استدلال کے حوالے سے مختلف مفروضے تشکیل دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں صرف مختلف توضیحات سمجھنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ ان میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔جب ان کے حوالے سے کوئی مصنف گفتگو کرتا ہے تو وہ ایک کا دوسرے سے تقابل نہیں کرتا۔
لیکن اس طرح کی توضیحات یا تفہیمات میں سب سے زیادہ پریشان کن جو بات ہے وہ ان کے درمیان موجود تعارض نہیں بلکہ یہ مسئلہ ہے کہ اس طرح کی اسلامی بشریات (اور یہاں میں اس نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ اسلام پر لکھنے والے کئی ایک سماجیات کے ماہرین کی تحریروں میں گیلنر کی انتخابیت پسندی کو نمونے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔) کا انحصار جھوٹے مخالف و مساوی تصورات پر ہوتا ہے جن کی بنیاد پر اکثر مصنّفین مذہب سے متعلق اثرات ، معانی اور مقاصد کے بارے میں کمزور دلائل قائم کرلیتے ہیں۔خاص طور سے ، اس طرح کی اسلامی بشریات ایسے سوالوں کے مقابلے میں جن کا موجودہ اسلام (قدامت پرست اور انقلابی) پرمطالعہ کرنے والے محققین جواب تلاش کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، ان سوالات کی ترتیب میں مشکلیں پیدا کرتی ہے جوذاتی رجحان سے کسی قدردوراور زیادہ دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔
اس کی ایک بہترین مثال وہ پرانی بحث ہے جس کے مطابق ر اسخ العقیدہ اسلام مطلق العنان ہوتا ہے۔ برنارڈلیوس اور دوسرے مصنّفین کی طرح گیلنر بھی کہتے ہیں کہ مذہبی نصوص پر مبنی اسلام کو مارکسزم سے ایک طرح کا تعلق ہے۔ اس کی ایک وجہ تو خدائی نظام کو دنیا میں نافذ کرنے کی فطری طلب ہے اور دوسری دونوں ہی نظریات میں موجود مطلق العنانیت ہے جو ادارتی سیاست کے لیے مانع ہوتی ہے۔
اس سوال کے بجائے کہ بیسویں صدی کی مسلم آبادی پر مارکسزم نے کیا اثر ڈالا، یہ ضرور کہنا چاہیے کہ مطلق العنان اسلام کا تصورمختلف نظریات سے سماج پر مترتب ہونے والے اثرات کے غلط نقطہ نظر پر بنایا گیا ہے۔ ایک لمحے کے غور و فکر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں شریعت کی ظاہری تفہیم سے بحث نہیں ہے بلکہ بحث اس سے ہے کہ کس حد تک یہ تفہیم سماجی معمولات کو متاثر اور ان کی تنظیم کرتی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ آج تک کوئی بھی ایسا مسلم معاشرہ نہیں رہا ہے جس میں اسلامی شریعت نے سماجی زندگی کے کسی ایک حصہ سے زیادہ کی تنظیم کی ہو۔ اگر جدید ریاستوں میں ایک شخص انتہائی منظم انداز کی سماجی زندگی کا حوالہ دے کراس حقیقت کی نفی کرتا ہے تو وہ اس کے پیچھے کار فرما اسباب کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس طرح کی سیکولر ریاستوں کی انتظامی اور قانونی دفعات لوگوں کی زندگیوں کو بہت بڑے پیمانے پر اور با اثر طریقے سے قابو میں کرتی ہیں۔ ایسی کسی بھی طرح کے تنظیمی ادارے کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ظاہر ہے ان دونوں کے درمیان جو فرق ہے وہ متنی تصریحات میں نہیں ہے، جسے مبہم طور پر ایک معاشرے کا بنیادی خاکہ تصور کر لیا گیا ہے، بلکہ فرق ادارتی طاقت کی رسائی میں ہے جو سماجی زندگی کے جدید صنعتی معاشرے کی، منظم قوانین خواہ وہ سرمایہ دارانہ ہو یا اشتراکی، کے مطابق بڑی حد تک تشکیل، تقسیم اور تنظیم کرتی ہے۔
’’خوش قسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ مغربی دنیا اس عہد سے باہر آگئی ہے جب اکثر مصنفین لکھتے تھے۔۔۔کہ اسلام اور مارکسزم میں کئی طرح سے یکسانیت ہے۔ وہ ایک دوسر ے کو راہ دے سکتے ہیں۔‘‘(17)
شاید مغربی تحقیق کا وہ معصومانہ دور ابھی بھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوا ہے۔ لیکن اگر اس اقتباس کو اس دعوے کے خلاف کہ اسلام کا تعلق مطلق العنانی پر مبنی نظام سے ہے، اسلام کے دفاع کے طور پر دیکھا جائے گا تو پھر اس کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ اس طرح کے دعوے کو ماضی میں بھی چیلنج کیا جا چکا ہے۔ اور یہ کہ اگرچہ منطقی تنقید اس دعوے کی بازگشت کو نہیں روک سکتی، یہ بحث برائے خود علمی اور نظری دلچسپی سے خالی ہے۔ اس کے بجائے توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ ایک محقق احتیاط کے ساتھ مروجہ سماجی معمولات، مذہبی و غیر مذہبی، کا تجزیہ کرے تاکہ ان حالات کی تفہیم ہو سکے جن کی بنیاد پر موجود ہ اسلامی دنیا میں کسی سیاسی عمل کو’’انقلابی‘‘اور’’ قدامت پسند‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم اسی خیال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ابھی تک میرا دعوی رہا ہے کہ کسی بھی طرح ایک منطقی اسلامی بشریات کی تشکیل ایک متعین بنیادی سماجی خاکے کے تصور پر نہیں ہو سکتی، اور نہ ہی ایک مربوط سماجی کلیے کے تحت جس میں سماجی ڈھانچہ اور مذہبی نظریات باہم تعامل کرتے ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی بھی طرح کا منظم موضوع اسلامی بشریات کے لیے ممکن نہیں ہے، یا یہ کہ یہ کہنا کافی ہے کہ مسلمان اپنے جس عمل یا عقیدے کو اسلامی کہتے ہیں اسے ایک ماہر بشریات کو اسلامی مان لینا چاہیے۔ اکثر ماہر ین بشریات اپنے دائرہ کار کی تفصیل سے وضاحت کرتے ہیں ، ان میں وہ ماہرین بشریات بھی شامل ہیں جو اساسیت پسند اصولوں کو اور وہ بھی ہیں جوظاہری اور محض نام نہاد اصولوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر کوئی اسلامی بشریات پر لکھنا چاہتا ہے تو اسے مسلمانوں کی طرح اس استدلالی روایت سے اس کی ابتدا کرنی چاہیے جو قرآن و حدیث کے بنیادی متون سے متعلق اور اس پر مشتمل ہو۔ اسلام نہ تو ایک ممتاز سماجی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی متبائن عقائد کا مجموعہ۔ وہ فنون کے نمونوں، رسومات،اوراخلاقیات کا مجموعہ ہے۔ وہ ایک روایت ہے۔
اپنے ایک اہم مضمونThe Study of Islam in Local Context میں آئیکلمان (Eickleman ) کا خیال ہے کہ عالمی اسلام اور قبائلی یا دیہاتی اسلام کے تحقیقی مطالعے کے درمیان ایک خلاء موجود ہے جسے نظریاتی اصول کو وضع کر کے ہی پر کیا جا سکتا ہے۔ (18)ممکن ہے کہ ان کی بات صحیح ہو، لیکن اسلامی بشریات کے موضوع کو جس چیز کی فی الحال سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اس کے لیے صحیح پیمانہ تشکیل دینے کے بجائے صحیح تصورات کو تشکیل دینے کی ہے۔’’ایک استدلالی روایت‘‘ ایسا ہی ایک تصور ہو سکتا ہے۔
روایت کیا ہے؟(19) ایک روایت بنیادی طور پر ایسے مباحث پر مشتمل ہوتی ہے جو اس روایت کے حاملین اور اس پر عمل پیرا افراد کے مروجہ عمل کی صحیح صورت اور مقصد کے تعلق سے رہنمائی کرتے ہیں، کیونکہ روایت سماج میں پیوست ہوتی ہے اور اس کے پاس اپنی تاریخ ہو تی ہے۔ یہ مباحث نظریاتی طور پر ماضی (ماضی یعنی جب اس عمل کا نفوذ عمل میں آیا تھااس وقت سے اس کے صحیح طور پرروبہ عمل آنے کا طریقہ نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہا) مستقبل (یعنی کیسے اس عمل کے آغاز کو زیادہ یا کم مدت کے لئے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، یا پھر اسے کیوں تبدیل کرنا چاہیے یا چھوڑ دینا چاہیے ؟) اورحال ( یعنی کیسے اسے دوسرے معمولات ، اداروں، اور سماجی حالات سے جوڑ کر رکھا جائے؟) سے مربوط رہتا ہے۔ ایک اسلامی استدلالی روایت آسان لفظوں میں مسلمانوں کے درمیان ہونے والی بحثوں کی روایت پر مشتمل ہوتی ہے جو حال کے ایک خاص اسلامی تصور کے حوالے سے اسلام کے ماضی اور مستقبل کے ادراک سے بحث کرتی ہے۔ ظاہر ہے مسلمانوں کا ہر قول یا عمل ایک اسلامی استدلالی روایت کا حصہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ اسلامی روایت اس معنی میں ماضی کی اتباع کرنے والی ہو۔جہاں کہیں بھی روایتی معمولات ماہرین بشریات کو ماضی کی اتباع کے طور پر نظر آئے،وہ اصلاعامل کا ’’معیاری عمل‘‘ اور ماضی کے ساتھ حالیہ معمولات کے تعلق کے تصور کی وجہ سے تھا۔ یہ چیز روایت کے لئے اہم تو ہو سکتی ہے لیکن پرانی یا ماضی کے عمل کی اتباع نہیں ہو سکتی۔
میرا نکتہ یہ نہیں ہے کہ جس طرح مغربی ماہرین بشریات اور مغربی مسلم دانشوران خیال کرتے ہیں کہ روایت دور حاضر کا ایک افسانہ اور جدیدیت کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ یعنی دور حاضر کی بحرانی صورتحال میں روایت کو مسلم دنیا میں ایک ہتھیار ، ایک حیلے اور دفاع کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔(20) روایت مسلمانوں کے لیے نئی خواہشات اور نئے مستعار رویوں کو چھپانے کا ایک ذریعہ ہے۔(21) یہ دعوی کہ موجودہ خیالات اور سماجی انتظامات حقیقتاً قدیم ہیں،بجائے خود اتنا اہم نہیں ہے ،جتنی یہ بات کہ نئے خیالات اور سماجی انتظامات نئے زمانے کی اختراع ہیں ، حالانکہ یہ بھی غلط ہے۔ خود اپنے آپ سے اور دوسروںسے جھوٹ بولنا ماضی وحال کے درمیان ارتباط سے متعلق جھوٹا بیانیہ گڑھنا جدید معاشروں میں اتنا ہی عام ہو گیا ہے جتنا ان معاشروں میں جن کا مطالعہ ماہرین بشریات کرتے ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ تمام ا دارتی معمولات کو ماضی کے تصور کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔
لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی بشریات پر کام کرنیوالوں کو اصولی طور پر کسی ایسے قائم شدہ معمول(instituted practice) سے اپنے مطالعے کا آغاز کرنا چاہیے جس کا آغاز ایک خاص سیاق میںہوا ہو اور ایک خاص تاریخی روایت کا حامل ہو، جس میں مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان ہی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہو۔ تجزیاتی مقاصد کے لیے اس حد تک تو’’کلاسیکی‘‘ اور’’ جدید‘‘ اسلام کے درمیان کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ وہ مباحث جن میں معمولات کی تعلیم دی جاتی ہے اور جن میں ایک معمول کے صحیح طریقے کی وضاحت کی جاتی ہے اور اسے سیکھا جاتا ہے، وہ اندرونی طورپر تمام اسلامی معمولات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسی تجاویزپیش کرنا جس طرح بعض ماہرین سماجیات پیش کرتے ہیں(22) یعنی یہ کہ جن چیزوں کی اسلام میں اہمیت ہے ان میں سے بعض کے تعلق سے ان کا کہنا کہ یہ راسخ العقیدگی پر مبنی ہیں اوردوسرے بعض سے متعلق یہ فیصلہ دینا کہ وہ راسخ العقیدگی سے منحرف ہیں، ایک گمراہ کن رویہ ہے۔ یہ غلط اس لیے ہے کیوں کہ اس طرح کے تنازعات’’صحیح نظریے‘‘ کی مرکزی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہیں جس کے ذریعے ایک قائم شدہ عمل کو ،جس میں رسوم بھی شامل ہیں، جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ دوسری روایتوں کی طرح اسلامی روایت میں بھی معتبر اصول و قواعد کو اسی نمونے کے مطابق عام کیا جاتا ہے۔اور یہاں میری مراد بنیادی طور پر ’’جدت پسند‘‘ یا’’بنیاد پسند‘‘اسلامی تحریکات کے منضبط مباحثوں سے نہیں ہے، بلکہ جاہل مسلمانوں کے مروجہ معمولات سے ہے۔ ایک عمل تبھی اسلامی کہلاتا ہے جب اسے اسلام کی استدلالی روایت سے سند حاصل ہوئی ہو، اور اس کی حقیقی شکل میں مسلمانوں کو اس کی تعلیم دی گئی ہو۔(23) چاہے یہ تعلیم کسی عالم، خطیب،صوفی شیخ یا ناخواندہ والدین کی طرف سے حاصل ہوئی ہو۔
راسخ العقیدگی تمام اسلامی روایات کے لیے ضروری ہے۔ لیکن جس معنی میں میں نے یہ لفظ ’’راسخ العقیدگی‘‘ استعمال کیا گیا ہے، اکثر مستشرقین اور ماہرین بشریات کے استعمال کردہ معنی سے وہ بالکل منفرد ہے۔ الزین جیسے ماہرین بشریات کی خواہش ہوتی ہے کہ راسخ العقیدگی کی اہمیت کا انکار کریں جب کہ گیلنر جیسے ماہرین بشریات راسخ العقیدگی کو اسلام کے مرکزی نظریات کے ایک مجموعے کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ دونوں ہی ایک اہم نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں: یعنی راسخ العقیدگی صرف آراء کا ایک مجموعہ نہیں ہے بلکہ طاقت کے ساتھ اس کی ایک خاص طرح کی وابستگی ہے۔ جہاں کہیں بھی مسلمان کسی صحیح معمول کو منظم کرنے، قائم رکھنے، اس کی ضرورت پیدا کرنے یا ٹھیک کرنے کی طاقت رکھتے ہیں یا پھر کسی غلط معمول کو رد کرنے، خارج کرنے، دبانے، اور بدلنے کی طاقت ر کھتے ہیں، وہ ساری جگہیں راسخ العقیدگی کا حلقہ اثر ہیں۔ جس طرح سے ان طاقتوں کا استعمال کیا جاتا ہے، اور جو سماجی، سیاسی، معاشی وغیرہ حالات اسے ممکن بناتے ہیں، اور مسلمانوں وغیر مسلموں سے انہیں جس مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، یہ تمام چیزیں اسلامی بشریات سے یکساں طور پر تعلق رکھتی ہیں۔ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ تحقیق کے موضوع کا تعلق شہر سے ہے یا دیہات سے، ماضی سے ہے یا دور حاضر سے۔ معمولات کی اہمیت اور ان کی ہیئت کے اوپر بحث اور اختلاف اسی وجہ سے اسلامی روایت کا فطری حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
مستشرقین اور ماہرین بشریات کی ’’اسلامی روایت‘‘کی تشریحات اکثر روایتی معمولات کے تعلق سے ہونے والی بحث و استدلال کی اہمیت کو حاشیے پر پہنچادیتی ہیں۔ مباحثے کو عام طور پر روایت میں بحران کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ عام روایت (جسے عبداللہ لاروئی ’’روایت پسند ڈھانچے‘‘ کا نام دیتے ہیں اور اسے ’’روایت بحیثیت نظریہ‘‘ سے الگ کر کے دیکھتے ہیں)،(24) منطقی استدلال کو قبول نہیں کرتی، بلکہ اس کا میلان غیر منطقی مطابقت کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن یہ تقابل و توازن خود بھی تاریخی ترغیب کی پیدا وار ہے جس کی وضاحت ایڈمنڈ برکے (Edmund Burke)نے اپنے ایک مضمون میں روایت اور منطق(25) کے درمیان نظریاتی مخالفت کے طور پر کی ہے۔برکے کے قدامت پرست نظریہ ساز متبعین نے بعد میں مزید اس نظریے کی تشریح و تشہیر کی اور جسے ویبر نے سماجیات میں متعارف کرایا۔
جب کبھی بھی حاملین روایت کسی معمول کی صحیح نقل اور اس کے نقطہ آغاز کی تعلیم دیتے ہیں، اور جب کبھی ان تعلیمات میں شک پیدا ہونے لگتا ہے ، یا سہل پسندی آتی ہے، یا پھر فہم کا فقدان ہوتا ہے ، تو لازماًروایتی معمول کی تشریح و تعلیم میں بحث و استدلال کا استعمال کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم بحث کو ایک رسمی بحث و جدال، اور مناظرے کے طورپر دیکھتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ روایتی معمولات میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔(26) تاہم کسی شخص کو کسی روایتی عمل کے حسب خواہش نقل کرنے کے لیے قائل کرنا، جو اپنے مخالف کے علمی دلائل کو رد کرنے سے بالکل الگ بات ہے، دوسری روایتوں کی طرح اسلامی استدلالی روایت کا لازمی جزء ہے۔ اگر بحث و استدلال روایتی معمول میں روح کی حیثیت رکھتے ہیں، اور صرف روایتی بحران کا ہی حصہ نہیں ہیں، تو یہ ماہرین بشریات کا پہلا کام ہونا چاہئے کہ اسلام کے روایتی معمولات کی بنیاد میں کار فرما اس طرح کے استدلال اورمباحثوں کے اسباب کا جائزہ لیں اور ان کی وضاحت کریں۔
اس طرح تجزیہ نگار طاقت کے مرکزی طریقہ کار اور پیش آنے والی مزاحمت کی نشاندہی کر سکتا ہے، کیونکہ بحث کا عمل اور استدلالی قوت کا استعمال بیک وقت مزاحمتی حقیقت پر دلالت کرتا ہے اور رد عمل بھی پیش کرتا ہے۔قوت اور مزاحمت دونوں ہی کسی بھی روایتی عمل کے برتنے اور اس کی ترقی کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
اس کا جو اصولی نتیجہ برآمد ہوگا اس کے مطابق روایات کو بنیادی طور پر متجانس(homogeneous) نہیں سمجھا جائے گا۔مزید برآں روایتی معمولات کے متبائن ہونے کا مطلب یہ لینا ضروری نہیں ہے کہ یہ روایت اسلامی روایت کا حصہ نہیں ہے۔ مختلف زمانوں، علاقوں اور آبادیوں میں روایتی اسلامی معمولات کا تنوع اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسلام کی مختلف استدلالی روایات رہی ہیں جنہیں مختلف تاریخوں اور سماجی حالات میں یا تو بر قرار رکھا گیا یا پھر وہ ختم ہو گئیں۔ یہ خیال کہ روایات بنیادی طور پر متجانس ہوتی ہیں، ذہن کو بہت زیادہ اپیل کرتا ہے، لیکن یہ گمراہ کن تصور ہے۔ بلاشبہ، عام تجانس/یکسانیت روایت کی کرشمہ سازی نہیں ہے بلکہ یہ تجانس مواصلاتی تکنیک، جو جدید صنعتی معاشروں کا اہم جزء ہے، کی ترقی اور معاشرے پر اس کے کنٹرول کا نتیجہ ہے۔
اگرچہ اسلامی روایات متجانس نہیں ہیں، تاہم ، جس طرح سے تمام استدلالی روایات کی کوشش ہوتی ہے، وہ بھی آپس میں مربوط ہونے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ حالانکہ انہیں ہمیشہ اپنی اس کوشش میں کامیابی نہیں ملتی۔ اور اس کی وجہ وہ سیاسی اور معاشی حالات کی بندشیں ہیں جن میں انہیں رکھا جاتا ہے جیسے وہ فطری نوعیت کی ہوں۔ ہمارے زمانے میں صنعتی سرمایہ دار سماجی قوتیں اسلامی روایات کی یادداشت اور خواہش کو ایک مربوط انداز میں منظم کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔ یہ کاوش ایک بالکل ہی مختلف طرز کی خواہش اور غفلت شعاری کے لیے موافق حالات پیدا کرے گی۔ لہٰذا ایک اسلامی بشریاتی ماہر کو ان تاریخی حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو استدلالی روایت کی پیداوار اور نگہداشت ، یا ان میں پیدا ہونے والے تغیر کو ممکن بناتے ہیں۔ مزید برآں، ایک اسلامی بشریات کے ماہر کو حاملین روایت کی ان کوششوں کا جائزہ بھی لینے کی ضرورت ہے جو روایات کو مربوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس پورے مقالے میں میری دلیل یہ رہی ہے کہ جو ماہرین بشریات اسلام میں دلچسپی لیتے ہیں انہیں اپنے مطالعے کے موضوع پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ روایت کا تصور ان کے لیے اس حوالے سے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اب میں ایک آخری مگر مختصر سے نکتے پر اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں۔ کسی روایت کے بارے میں لکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مصنف کا اس روایت کے ساتھ ایک خاص طرح کا تعلق ہے اور اس کا یہ تعلق اس کے روایت کو صحیح یا غلط سمجھنے، یا اخلاقی طور پر اس کے ساتھ غیر جانب داری برتنے کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اس روایت میں فریقین ربط کو تلاش کر پاتے ہیں یا نہیں ، یہ ان کے تاریخی نقطہ نظر پر منحصرہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر،یہ ایک کلیہ ہے کہ ایک زندہ روایت کے حوالے سے نہ تو کبھی کوئی ایک مثالی توضیح تھی اور نہ کبھی ہو سکتی ہے۔ کسی بھی طرح کی روایت کی توضیح قابل تردید اور قابل بحث ہے۔ اگر یہ بحث واقع ہوتی ہے تو اس کی جو شکل بنے گی اس کا تعین صرف فریقین کے ذریعے استعمال ہونے والی طاقت اور علوم نہیں کریں گے، بلکہ اس کا تعین اس اجتماعی زندگی کے ذریعے بھی ہوگا جس کے لیے فریقین کوشاں ہوں گے، یا جس کی بقاکی انہیں کوئی پروا نہیں ہے۔ اخلاقی غیر جانب داری ،جیسا کہ توقع کی جاتی ہے، سیاسی معصومیت کی ضامن نہیں ہے۔
(مصنف: ثقافتی بشریات کے ماہر مشہور مصنف وقلم کار ہیں اور سٹی یونی ورسٹی آف نیویارک کے گریجوئٹ سینٹرسے وابستہ ہیں۔ مترجم: جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر اور مدرسہ ڈسکورسز پروگرام سے بحیثیت طالب علم وابستہ ہیں۔ ای میل مترجم : mohammad91.ali@gmail.com )