Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Dr. Waris Mazhari (Chief Editor)
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Dr. Joshua Patel ( Deputy Editor)
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Dr. Safia Amir ( Assistant Editor-I)
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Dr. Syed Abdur Rasheed ( Assistant Editor-II)
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Dr. Javed Akhatar (Managing Editor)
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
International Advisory Board:
Saadia Yacoob ( associate editor-I)
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Ali Altaf Mian ( associate editor-II)
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Adeel Khan ( associate editor-III)
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
Instructions for Authors
The Journal welcomes articles from academics and scholars from around the world.
All articles will be subject to anonymous review, and will be evaluated on the basis of their creativity, quality, and understanding.
The Editor accepts responsibility for the selection of materials to be published, however individual authors are responsible for the facts, figures, and views in their articles.
The Editor reserves the right to edit the articles for reasons of space and clarity.
Articles should generally contain between 5,000 and 7,000 words including notes and bibliography, although shorter articles may be accepted by arrangement with the editors.
Submission of an article is taken to imply that it has not been previously published, or considered for publication elsewhere.
عمار خان ناصر
ذخیرئہ حدیث کی تحقیق میں حنفی روایت کا ارتقاء
حنفی فقہ اور حدیث کے باہمی تعلق کے ضمن میں ایک بہت بنیادی سوال جو مورخین فقہ کے مابین زیر بحث رہا ہے، یہ ہے کہ فقہ حنفی کے موسسین احادیث وآثار کے ذخیرے سے کتنے واقف تھے اور اس ذخیرے تک ان کی رسائی کی کیفیت کیا تھی؟
امام ابوحنیفہ کی بہت سی متنازعہ آرا کے تناظر میں ان کے ناقدین کے ایک گروہ کا تاثر یہ رہا ہے کہ وہ ذخیرئہ حدیث سے کماحقہ واقف نہیں تھے اور اسی وجہ سے رائے اور قیاس سے بکثرت کام لیتے تھے جس کے نتیجے میں ان کی آرا احادیث کے ساتھ
متعارض ہو گئیں۔ محدث محمد بن نصر المروزی ایک مسئلے میں امام ابو حنیفہ کی رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وانما اتی من قلۃ معرفتہ بالاخبار وقلۃ مجالستہ للعلماء، سمعت اسحاق بن ابراھیم یقول قال ابن المبارک: کان ابو حنیفۃ رحمہ اللہ یتیما فی الحدیث، حدثنی علی بن سعید النسوی قال سمعت احمد بن حنبل یقول: ھولاء اصحاب ابی حنیفۃ لیس لھم
بصر بشیء من الحدیث ما ھو الا الجرأۃ۔(1)
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں روایات کی معرفت اور اہل علم کی صحبت بہت کم حاصل تھی۔ میں نے اسحاق بن ابراہیم سے سنا، وہ ابن المبارک کا قول نقل کر رہے تھے کہ ابو حنیفہ حدیث کے معاملے میں یتیم تھے۔ علی بن سعید نسوی بیان کرتے ہیں کہ
میں نے احمد بن حنبل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہ ابو حنیفہ کے اصحاب ہیں، انھیں حدیث سے متعلق کچھ بھی بصیرت حاصل نہیں۔ یہ صرف جسارت سے کام لیتے ہیں۔‘‘
امام ابوحنیفہ کے ناقدین کے علاوہ بعض غیر جانب دار مورخین کا تاثر بھی یہی ہے، البتہ وہ اسے طعن اور نقص کے بجائے ایک دوسرے تناظر میں اس کی توجیہ کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن خلدون نے فقہ حنفی میں رائے کی کثرت پر گفتگو کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ چونکہ
عراق میں مقیم تھے جو علم حدیث کے اصل مراکز یعنی حجاز سے دور تھا، اس لیے احادیث وآثار کے جس ذخیرے تک اہل حجاز کو رسائی حاصل تھی، اس تک عراقی فقہاء کو نہیں ہو سکتی تھی۔ یوں عراق میں ذخیرہ حدیث کی کم یابی کی وجہ سے حنفی فقہاء
کو رائے اور قیاس سے زیادہ کام لینا پڑا اور وہ ’’اہل الرای‘‘ کے لقب سے موسوم ہو گئے۔(2)
ابن خلدون کے اس تجزیے پر کئی پہلووں سے سوالات اٹھائے گئے ہیں:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عراق میں ذخیرئہ حدیث کی کم یابی کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ مدینہ منورہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا مستقر تھا، اس لیے اہل مدینہ احادیث وآثار سے زیادہ واقف تھے۔ یہ توجیہ تاریخی طور پر درست نہیں، اس لیے کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے سارے صحابہ اپنی وفات تک مدینہ ہی میں مقیم نہیں رہے، بلکہ مختلف دینی ضرورتوں کے تحت مختلف علاقوں کی طرف منتقل ہوتے رہے اور اسی نقل مکانی کی وجہ سے عالم اسلام کے مختلف مراکز فقہائے
صحابہ میں سے مختلف شخصیات کی نسبت سے معروف ہو گئے۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں خلفائے ثلاثہ کے علاوہ امہات المومنین اور خاص طور پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو علمی مرجع کی حیثیت حاصل
تھی۔ مکہ میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جبکہ شام میں سیدنا ابو الدرداء اور سیدنا معاویہ کے فقہ واجتہاد سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ یمن میں معاذ بن جبل لوگوں کی راہ نمائی کرتے تھے۔ اسی تناظر میں کوفہ بھی عہد صحابہ
میں نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ علمی وفقہی لحاظ سے بھی ایک مشہور علمی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا تھا اور اکابر صحابہ میں سے بالخصوص سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیدنا علی اور سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہم کے اس شہر
میں قیام کی بدولت ان حضرات کی وساطت سے علم دین صحابہ سے تابعین کو منتقل ہو رہا تھا۔
پھر یہ کہ احادیث وآثار سے اہل عراق کی واقفیت صرف کوفہ میں مقیم صحابہ تک محدود نہیں تھی۔ یہاں کے اہل علم کے حجاز کے مراکز کے ساتھ تعلق اور استفادہ کا سلسلہ مستقل طور پر قائم تھا اور کوفہ سے تعلق رکھنے والے تابعین میں سے بہت سی نامور شخصیات نے حجاز میں
جا کر وہاں کے اہل علم سے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل کیا تھا۔ جلیل القدر تابعی ابو العالیہ اس حوالے سے اپنے شہر کے اہل علم کے طرز عمل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
کنا نسمع الروایۃ بالبصرۃ من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلم نرض حتی رکبنا الی المدینۃ فسمعناھا من افواھھم۔(3)
’’ہم بصرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے مروی احادیث سنتے تھے، لیکن اس پر مطمئن نہیں ہوئے جب تک کہ مدینہ کا سفر کر کے خود ان کی اپنی زبان سے یہ احادیث سن نہیں لیں۔‘‘
ذخیرہ حدیث سے واقفیت کے سوال کے حوالے سے ائمہ احناف کی تصانیف میں درج مواد کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ان تصانیف کا ایک سرسری جائزہ لینے سے اس تاثر کی نفی ہو جاتی ہے کہ ائمہ احناف کی رسائی احادیث وآثار کے ذخیرے تک بہت
محدود تھی۔
مثال کے طور پر امام ابو یوسف کی ’کتاب الخراج‘ کا موضوع اسلامی ریاست کے محصولات اور دیگر مالیاتی معاملات سے متعلق شرعی وفقہی احکام کی وضاحت ہے اور اس میں موضوع کے دائرے میں آنے والے جملہ مسائل وامور پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے۔ یہ تصنیف سر تا سر احادیث وآثار
پر مبنی ہے اور ہر باب اور ہر مسئلے کے ضمن میں سب سے پہلے متعلقہ روایات اور احادیث نقل کی گئی ہیں اور پھر ان کی تشریح وتفصیل کے حوالے سے قیاسی مباحث کا ذکر کیا گیا ہے۔
اسی طرح امام محمد بن الحسن الشیبانی کی تصنیف ’الآثار‘ میں فقہی مسائل سے متعلق ان روایات وآثار کو جمع کیا ہے جو انھیں اپنے کوفی اساتذہ اور فقہا ومشائخ کے واسطے سے پہنچی ہیں۔ یہ کتاب ایک ہزار کے قریب روایات کا مجموعہ ہے جن میں مرفوع احادیث کے علاوہ ایک
بڑی تعداد صحابہ کے فتاویٰ اور تابعین کے اقوال کی ہے۔ کتاب کم وبیش تمام فقہی ابواب کا احاطہ کرتی ہے اور ہر باب کے اہم اور بنیادی مسائل پر مستقل عنوانات قائم کر کے ان کے تحت متعلقہ روایات نقل کی گئی ہیں۔
امام محمد کی ایک دوسری معروف تصنیف ’الموطا‘ بنیادی طور ان روایات پر مبنی ہے جو امام محمد نے اپنے استاذ امام مالک سے روایت کی ہیں۔ امام صاحب نے ان مرویات کے علاوہ کچھ مزید روایات بھی اس میں درج کی ہیں اور اپنی تعلیقات اور ترجیح وتجزیہ کے ذریعے سے اس میں
فقہی آرا کے تقابلی مطالعہ کا رنگ پید اکرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ یوں ذخیرہ حدیث تک ائمہ احناف کی رسائی کے پہلو سے ’الموطا‘ غیر معمولی قدر وقیمت کی حامل ہے۔
مذکورہ تمام تصانیف سے احادیث وآثار کے ذخیرے تک رسائی کی جو کیفیت سامنے آتی ہے، اس کی وضاحت میں رفعت فوزی لکھتے ہیں:
ولا تقل معرفۃ ابی یوسف ومحمد عن معرفۃ غیرھم من الفقھاء او المحدثین، نلمس ذلک عند ابی یوسف فی کتاب الخراج، فلیس فیہ صحیفۃ الا فیھا حدیث، ھذا مع ملاحظۃ کبر حجم الکتاب وکونہ فی موضوع واحد، کما نلمس معرفۃ محمد الواسعۃ بالحدیث
فی مؤلفاتہ الآثار، والموطا، والاصل، والحجۃ، والسیر الصغیر والکبیر۔(4)
’’ابویوسف اور محمد کی (احادیث کی) معرفت دوسرے فقہاء اور محدثین کے مقابلے میں کسی طرح کم نہیں ہے۔ ہم اس حقیقت کو واضح طور پر ابو یوسف کی کتاب الخراج میں دیکھ سکتے ہیںجس میں کوئی صفحہ ایسا نہیں جس میں کوئی روایت درج نہ ہو، اور یہ اس کے باوجود ہے کہ کتاب
کا اچھا خاصا حجم ہے اور وہ ایک ہی موضوع (کے مختلف پہلووں) پر لکھی گئی ہے۔ اسی طرح ہمیں امام محمد کے ہاں حدیث کی وسیع معرفت کی کیفیت ان کی تالیفات الآثار، الموطا، الاصل، الحجۃ، السیر الصغیر اور السیر الکبیر میں دکھائی
دیتی ہے۔‘‘
مولانا محمد حنیف ندوی نے اسی نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’امام محمد سے دو طرح کی کتابیں منقول ہیں: ایک جو ظاہر الروایۃ سے منسوب ہیں جیسے مبسوط، الجامع الکبیر، الجامع الصغیر، کتاب السیر الکبیر،
کتاب السیر الصغیر اور الزیادات۔ دوسرے نوادر، جیسے کتاب الامالی یا کیسانیات وغیرہ اور ان سب میں اپنے مسلک کی تائید میں احادیث وآثار ہی کو پیش کیا گیا ہے۔‘‘(5)
مذکورہ وجوہ سے ابن خلدون وغیرہ کا یہ تجزیہ درست معلوم نہیں ہوتا کہ ذخیرہ حدیث تک رسائی اور واقفیت کے حوالے سے حجازی فقہاء کو عراقی فقہاء پر کوئی غیر معمولی یا امتیازی فوقیت حاصل تھی یا یہ کہ عراق میں روایات وآثار کا علم اتنا کم یاب تھا کہ اسے رائے اور
قیاس کی طرف رجوع کا ایک بنیادی محرک قرار دیا جا سکتا ہے۔
ذخیرئہ حدیث تک رسائی کی نوعیت
البتہ اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو بہت اہم ہے۔ اور وہ یہ کہ اس دور میں ذخیرئہ حدیث کی جمع وتدوین کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں تھا اور اس ذخیرے کی تحقیق وتنقیح کے لیے محدثین نے بعدکے مراحل میں راویوں کی عدالت وثقاہت اور روایت کے مختلف طرق اور
اسانید کے موازنے پر مبنی جو اصولی منہج تشکیل دیا، اس ابتدائی مرحلے میں اس کے خط وخال ابھی زیادہ واضح نہیں ہوئے تھے۔ عالم اسلام کے مختلف علمی مراکز کے اہل علم، فقہ واجتہاد کے ضمن میں زیادہ تر اپنے علاقوں میں مقیم صحابہ
وتابعین کی وساطت سے میسر آنے والے ذخیرئہ روایات سے استفادہ کر رہے تھے اور ان کا انحصار بنیادی طور پر اسی مواد پر تھا جو انھیں اپنے گرد وپیش کے علمی ماحول میں دستیاب تھا۔ کوئی فقیہ یہ فرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا
کہ سنت متواترہ اور مشہور ومستفیض احادیث کے علاوہ، اخبار آحاد کا پورا ذخیرہ اور اس کی تحقیق کے لیے درکار وہ سارا علمی مواد اس کی دسترس میں ہے جس کی بنیاد پر وہ کسی حتمی نتیجہ تحقیق تک پہنچ سکے۔ چنانچہ اس دور میں ذخیرہ
حدیث کی تدوین وحفاظت کی مساعی جس مرحلے میں تھیں، اس کے تناظر میں اس بات کی کلی نفی بھی نہیں کی جا سکتی کہ بہت سی روایات عراقی فقہاء، اور اسی طرح کسی بھی دوسرے مرکز کے علماء وفقہاء، کے علم میں نہ آ سکی ہوں یا ایسے قابل
اعتماد طریقے سے ان تک نہ پہنچی ہوں کہ وہ ان پر اجتہاد واستنباط کی بنیاد رکھنے میںاطمینان محسوس کریں۔ مثال کے طور پر امام محمد کی آرا میں اس بات کے مضبوط شواہد ملتے ہیں کہ بعض مسائل میں انھیں زیر بحث موضوع سے متعلق احادیث
وآثار نہیں پہنچ سکیں اور انھوںنے اجتہاد وقیاس سے کام لیتے ہوئے کوئی رائے قائم کر لی۔
یہاں ہم چند نمایاں مثالوں سے اس پہلو کو واضح کریں گے:
امام محمد نے مس ذکر سے وضو ٹوٹنے کی روایت کو ا س بنیاد پر ردکیا ہے کہ یہ صرف ایک عورت بسرہ بنت صفوان سے مروی ہے، جبکہ ان کے علاوہ باقی سب صحابہ مس ذکر سے وضو نہ ٹوٹنے کے قائل ہیں۔(6) حالانکہ یہ روایات بسرہ بنت صفوان
کے علاوہ جابر بن عبد اللہ(7) ابو ایوب انصاری (8) ام حبیبہ (9) زید بن خالد جہنی(10) ابو ہریرہ (11) عبد اللہ بن عمر(12)اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص (13) رضی اللہ عنہم سے مرفوعاً مروی ہیں، اور صحابہ میں سے عبد اللہ
بن عمر، عبد اللہ بن عباس(14) جابر بن زید اور سعد بن ابی وقاص (15) رضی اللہ عنہم سے بھی یہی عمل منقول ہے۔
امام محمد فرماتے ہیں کہ اکہری اقامت کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور پہلی مرتبہ یہ طریقہ امیر معاویہ نے اختیار کیا۔(16)حالانکہ سیدنا انس کی مسند روایت کے مطابق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال کو اکہری اقامت کہنے کی ہدایت کی(17) بلکہ
خود سیدنا بلال بھی اپنی روایت میں یہ بات بیان کرتے ہیں۔(18) ابوہریرہ کی ایک روایت میں یہی ہدایت آپ نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو بھی دی(19) اور ابومحذورہ کی اقامت کا طریقہ بھی ایک روایت میں یہی نقل ہوا ہے۔ (20) اسی
طرح آپ کے دور میں اکہری اقامت کہے جانے کی روایات عبد اللہ بن عمر(21) ابورافع (22) سعد بن عائذ(23) سلمہ بن الاکوع(24) نے بیان کی ہیں اور انس اورابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی اکہری اقامت کا جواز ثابت ہے۔(25)
امام ابو حنیفہ اور امام محمد کی رائے میں فجر کی اذان میں ’حی علی الفلاح‘ کے بعد ’الصلاۃ خیر من النوم‘ نہیں کہنا چاہیے۔ وہ اسے اذان میں اضافہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ اذان سے فارغ ہونے کے بعد تثویب کے طور پر یہ کلمات کہے جا سکتے ہیں۔(26) اس حوالے سے ائمہ احناف
کے پیش نظر بعض تابعین کے آثار ہیں۔ محمد بن سیرین ان کلمات کو سنت قرار نہیں دیتے تھے، جبکہ اسود بن یزید کی رائے یہ تھی کہ یہ کلمات اذان سے زائد ہیں اور انھیں نہیں کہنا چاہیے۔(27) تاہم مستند روایات کی روشنی میں اذان
میں ان کلمات کا اضافہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر بلال رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جگانے کے لیے یہ کلمات کہے تو اس کے بعد ان کلمات کو
اذان میں شامل کر لیا گیا۔(28) یہی بات ام المومنین عائشہ نے بیان کی ہے۔(29) سعید بن المسیب کی مرسل روایت میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے۔(30) بعض روایات میں ہے کہ بلال فجر کی اذان میں ’حی علیٰ خیر العمل‘ کہا کرتے تھے،
لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس کی جگہ ’الصلاۃ خیر من النوم‘ کے کلمات کہنے کی تلقین کی۔(31) اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کی تعلیم ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو بھی دی(32) اور وہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور اس کے بعد سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کے دور میں اذان میں یہ کلمات کہا کرتے تھے۔(33)اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اذان میں ان کلمات کا کہاجانا نعیم بن النحام کی روایت میں
بھی بیان ہوا ہے۔ (34) سیدنا بلال بھی اپنی اذان میں یہ کلمات کہا کرتے تھے۔(35) سیدنا انس اس کو سنت قرار دیتے ہیں(36)اور ابن عمر سے بھی یہ کلمات ثابت ہیں۔ (37)
امام محمد فرماتے ہیں کہ سلام سے پہلے سجدئہ سہو کرنے کی روایت صرف عبد اللہ بن بحینہ سے مروی ہے اور وہ قابل قبول نہیں۔ (38) حالانکہ سلام سے پہلے سجدئہ سہو کرنے کی قولی اور فعلی ر سہو کرنے کی قولی اور فعلی روایات ابو سعید خدری(39) عبدالرحمن بن عوف (40) ابوہریرہ
(41) اور معاویہ(42)رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں اور صحابہ میں سے ابوہریرہ اور عبد اللہ بن السائب سے بھی سلام سے پہلے سجدئہ سہو کرنا ثابت ہے۔ (43)
امام محمد فرماتے ہیں کہ پہلے قعدے اور دوسرے قعدے میں بیٹھنے کے طریقے میں کوئی فرق روایات میں وارد نہیں ہوا اور تمام روایات میں ایک ہی طریقہ آیا ہے جو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق ہے۔(44)
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قعدے میں تورک کرنے یعنی بایاں پاؤں باہر نکال کر کولہے پر بیٹھنے کی روایات ابو حمید الساعدی(45) اور عبد اللہ بن زبیر (46) سے مروی ہیں، بلکہ ابن عباس نے دونوں قدموں کو کھڑا کر
کے ان پر بیٹھنے کے طریقے کو بھی سنت قرار دیا ہے۔(47)
صلاۃ الکسوف میں ایک سے زائد رکوعوں کی روایات کی توجیہ کرتے ہوئے امام محمد فرماتے ہیں کہ اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل رکوع کیاجس کی وجہ سے بعض لوگوںنے رکوع سے اٹھ کر دیکھا اور اگلی صف کے لوگوں کو رکوع میں پا کر دوبارہ رکوع میں چلے گئے۔ اس سے
پیچھے کھڑے لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ شاید زیادہ رکوع کیے گئے ہیں۔ (48)
امام محمد صلاۃ الخوف کے اس طریقے کو خلاف سنت قرار دیتے ہیں جس میں مقتدی امام کے ایک رکعت پڑھانے کے بعد امام کے نماز مکمل کرنے سے پہلے دوسری رکعت ادا کر کے اپنی نماز مکمل کر لیتے ہیں(49) حالانکہ مستند روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کے پیچھے اس طریقے سے بھی نماز ادا کی۔ یہ روایات ایک مبہم صحابی(50) جابر بن عبد اللہ، (51) حذیفہ (52) اور سہل بن ابی حثمہ (53) رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔
نماز وتر میں دو رکعتوں کے بعد سلام سے فصل کرنے کے متعلق امام محمد لکھتے ہیں کہ وتر کی تین رکعتوں میں سلام کے ذریعے فصل کرنے کا طریقہ روایات میں ثابت نہیں۔ مزید لکھتے ہیں:
فینبغی لمن ذکر السلام ان یاتی علیہ ببرھان والا فالامر علی جملتہ(54) ’’جو لوگ (دو رکعتوں کے بعد) سلام کا ذکر کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اس پر کوئی دلیل لائیں، ورنہ اصل حکم برقرار رہے گا (کہ نماز کے درمیان میں سلام سے فصل نہ کیا جائے)۔‘‘
جبکہ سیدہ عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات وترکی دو رکعتوں پر سلام پھیر کر تیسری رکعت الگ سلام کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے۔(55)اس کے علاوہ آثار میں عبد
اللہ بن عمر(56) اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما(57) کا طریقہ بھی یہی نقل ہوا ہے۔
امام طحاوی نے یہ آثار نقل کر کے تسلیم کیا ہے کہ صحابہ کرام کے ہاں وتر ادا کرنے کے مذکورہ دونوں طریقے رائج تھے، البتہ انھوںنے فرض نماز پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ دو رکعتوں کے بعد سلام نہ پھیرنے کا طریقہ
زیادہ مناسب ہے۔(58)
امام محمد فرماتے ہیں کہ ابن عمر کے علاوہ ہمارے علم میں کوئی آدمی ایسا نہیں جو وتر میںدعائے قنوت نہ پڑھتا ہو۔(59) حالانکہ آثار میں سیدنا علی اور ابی بن کعب کے متعلق منقول ہے کہ وہ صرف رمضان کے نصف آخر میں وتر میں دعائے قنوت پڑھا کرتے تھے،(60) جبکہ ابو
المہزم بیان کرتے ہیں کہ میں دس سال تک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مہمان بن کر ان کے پاس جاتا رہا۔ میں نے کبھی انھیں نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھتے نہیں دیکھا۔ (61) اسی طرح تابعین میں سے عطاء بن ابی رباح، محمد بن سیرین
اور یحییٰ سے بھی یہی عمل منقول ہے۔(62)
امام محمد نے ’الحجۃ‘ میں اس ضمن میں عبد اللہ ابن عمر کے عمل کے بارے میں جو مختلف روایتیں نقل کی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیش نظر صرف وہی روایات تھیں جن میں ابن عمر کے سواری سے اتر کر نماز وتر ادا کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ امام محمد نے دوسری طرح کی
روایات کا نہ ذکر کیا ہے اور نہ ان کی کسی توجیہ کو وہ زیر بحث لائے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ روایات ان کے علم میں نہیں ہیں۔ (63)
ذخیرئہ حدیث کی تحقیق میں حنفی روایت کا ارتقا
گزشتہ سطور میں ذخیرئہ حدیث تک ائمہ احناف کی رسائی کی جو صورت حال واضح کی گئی ہے، اس کے تناظر میں ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا حنفی روایت میں ذخیرئہ حدیث کی باقاعدہ تدوین کے بعد اور روایات وآثار کی تحقیق وتنقیح کے ضمن میں محدثین کی غیر معمولی علمی
کاوشوں کی روشنی میں ائمہ احناف کی آرا پر نظر ثانی اور دلائل کی روشنی میں ان سے اختلاف کی کوئی ضرورت محسوس کی گئی ہے یا ائمہ احناف کی آرا کو بنیاد بنا کر ہر حال میں مخالف روایات کی تضعیف یا تاویل ہی پر اصرار کیا گیا
ہے؟
اس سوال کاجواب یہ ہے کہ حنفی فقہاء اس غلط فہمی کا کبھی شکار نہیں رہے کہ کسی بھی مسئلے میں رائے قائم کرنے کے لیے احادیث کا سارا ذخیرہ اور ان کی تحقیق وتنقید سے متعلق سارا ضروری مواد ائمہ احناف کے سامنے موجود تھااور انھوں نے کسی روایت کو قبول نہ کرنے یا
اس کی توجیہ وتاویل کرنے کا فیصلہ جس میسر مواد کی روشنی میں کیا، اس میں علمی طور پر کسی اضافے کی گنجائش نہیں۔ اس کے بالکل برخلاف، حنفی روایت میں احادیث کی تحقیق اور چھان پھٹک کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ ارتقا پذیر رہا ہے
اور نئے سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں احادیث کی تحقیق کے ضمن میں پیش رو ائمہ سے اختلاف کا رجحان حنفی روایت میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے براہ راست تلامذہ سے لے کر عصر حاضر تک تمام
بڑے حنفی فقہاء کے ہاں قوت دلیل کی بنیاد پر امام صاحب بلکہ متعدد مسائل میں مسلمہ حنفی موقف سے اختلاف کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ چنانچہ، مثال کے طور پر، امام ابوحنیفہ کی مختلف علمی آراء کے ساتھ ان کے تلامذہ، امام ابو
یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کا اختلاف ایک معلوم حقیقت ہے۔ اس اختلاف کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ ان حضرات کے علم میں ایسی روایات وآثار آ گئے جو امام ابوحنیفہ کے پیش نظر نہیں تھے یا جن کی صحت پر
انھیں اطمینان نہیں تھا۔
یہاں اس کی چند مثالیں نقل کرنا مناسب ہوگا:
امام ابو حنیفہ مال غنیمت میں گھوڑے اور اس کے سوار کو ایک ایک حصہ دینے کے قائل تھے اور اس کے لیے سیدنا عمر کے ایک اثر سے استدلال کرتے تھے۔ تاہم امام ابو یوسف اور امام محمد نے ان کی اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔ امام ابو
یوسف لکھتے ہیں:
وما جاء من الاحادیث والآثار ان للفرس سھمین وللرجل سھما اکثر من ذلک واوثق والعامۃ علیہ۔(64) ’’جن احادیث وآثار میں گھوڑے کے لیے دو اور اس کے مالک کے لیے ایک حصے کا ذکر ہوا، وہ تعداد میں اس سے زیادہ ہیں اور زیادہ قابل وثوق ہیں اور اکثر اہل علم نے انھی کو قبول کیا ہے۔‘‘ یہی بات امام محمد نے لکھی
ہے۔(65)
امام ابوحنیفہ گھوڑوں کی زکوٰۃ وصول کرنے کے قائل تھے۔ لیکن امام ابویوسف لکھتے ہیں:
وقد بلغنا نحو ذلک عن علی رضی اللہ عنہ، وقد بلغنا عن علی ایضاً فی حدیث آخر یخالف ما روی عنہ اولًا یرفعہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال: قد عفوت لامتی عن الخیل والرقیق۔(66) ’’یہ قول ہم تک علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بھی پہنچا ہے، تاہم علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری روایت بھی ہم تک پہنچی ہے جو مذکورہ روایت کے مخالف ہے اور اس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل
کرتے ہیں کہ میں نے اپنی امت کو گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کر دی ہے۔‘‘
امام ابوحنیفہ کا موقف یہ تھا کہ زمین کی فصل کی مقدار جتنی بھی ہو، اس پر عشر کی ادائیگی لازم ہے اور اس میں کم یا زیادہ مقدار کا فرق نہیں کیا جائے گا۔ امام ابویوسف اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وقال غیرہ: لا صدقۃ فی ما تخرج الارض حتی یبلغ خمسۃ اوسق لما جاء فی ذلک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم … قال ابویوسف: والقول عندنا علی ھذا۔(67) ’’دوسرے اہل علم کا کہنا ہے کہ زمین کی پیداوار
میں اس وقت تک زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی جب تک اس کی مقدار پانچ وسق کونہ پہنچ جائے، کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے۔ ابویوسف کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی یہی بات درست ہے۔‘‘ یہی بات
امام محمد نے بھی لکھی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ولسنا ناخذ بھذا من قول ابی حنیفۃ وابراھیم ولکنا ناخذ بما روی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم انہ قال: لیس فی ما دون خمسۃ اوسق صدقۃ(68) ’’ہم ابوحنیفہ اور ابراہیم نخعی کے اس قول کو قبول
نہیں کرتے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو اختیار کرتے ہیں جس میں آپ نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم فصل میں زکوٰۃ واجب نہیں۔‘‘
امام ابو یوسف جب مدینہ گئے اور امام مالک سے مختلف مسائل پر ان کا مذاکرہ ہوا تو امام مالک نے انھیں بتایا کہ خلفائے راشدین کے زمانے سے اہل مدینہ میں یہ تعامل چلا آ رہا ہے کہ سبزیوں اور ترکاریوں کی زکوٰۃ وصول نہیں کی جاتی۔ اس پر امام ابو یوسف نے اس حوالے سے اپنے موقف سے رجوع کر لیا اور کہا کہ:
لو رای صاحبی ما رایت لرجع مثل ما رجعت(69) ’’اگر ابو حنیفہ یہ دلائل دیکھ لیتے جو میں نے دیکھے ہیں تو وہ بھی اسی طرح رجوع کر لیتے جیسے میں نے رجوع کیا ہے۔‘‘
سمندر سے نکلنے والے جواہر کے متعلق امام ابوحنیفہ اور ابن ابی لیلیٰ کا مسلک یہ تھا کہ ان پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی، کیونکہ ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے سمندر کی مچھلیوں کی۔ تاہم امام ابو یوسف نے صحابہ کے آثار کی بنیاد پر اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
واما انا فانی اری فی ذلک الخمس واربعۃ اخماسہ لمن اخرجہ، لانا قد روینا فیہ حدیثا عن عمر رضی اللّٰہ عنہ ووافقہ علیہ عبد اللہ بن عباس فاتبعنا الاثر ولم نر خلافہ۔(70) ’’جہاں تک میری رائے کا تعلق
ہے تو میں اس میں خمس کو لازم سمجھتا ہوں، جبکہ باقی چار حصے اسی کے ہوں گے جس نے انھیں (سمندر سے) نکالا ہو، کیونکہ اس کے بارے میں ہم نے عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کیا ہے جس میں عبد اللہ بن عباس بھی ان کے ساتھ
متفق ہوں۔ اس لیے ہم اثر کی پیروی کرتے ہیں اور اس کی خلاف ورزی کو درست نہیں سمجھتے۔‘‘
امام ابوحنیفہ بعض روایات کی روشنی میں زمین کو بٹائی پر دینے کے عدم جواز کے قائل ہیں، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد نے دیگر روایات کی روشنی میں ان سے اختلاف کیا اور اس معاملے کو جائز قرار دیا ہے۔ امام ابو یوسف لکھتے ہیں: فکان احسن ما سمعنا فی ذلک واللّٰہ اعلم ان ذلک جائز مستقیم، اتبعنا الاحادیث التی جاء ت عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مساقاۃ خیبر لانھا اوثق عندنا واکثر واعم مما جاء فی خلافھا من الاحادیث۔(71) ’’اس کے متعلق ہم نے جو سب سے عمدہ قول سنا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ معاملہ بالکل جائز اور درست ہے۔ ہم ان احادیث کی پیروی کرتے ہیں جو خیبر کو بٹائی پر دینے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، کیونکہ
وہ ہمارے نزدیک اس کے خلاف وارد ہونے والی احادیث کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد ہیں اور تعداد اور شہرت میں بھی ان سے بڑھ کر ہیں۔‘‘
امام ابو حنیفہ کی رائے یہ ہے کہ ان کے نزدیک اگر کوئی آدمی حاکم کے سامنے مقدمہ پیش ہو جانے کے بعد بھی چور کو معاف کر دے تو اس سے حد ساقط ہو جائے گی، کیونکہ چور دراصل صاحب مال کا مجرم ہے، چنانچہ اگر صاحب مال چور کو معاف کر دے اور اپنا مال اس کو بخش دے
تو چور کی سزا ساقط ہو جانی چاہیے۔ تاہم امام ابویوسف نے اس سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ عدالت میں پیش ہو جانے کے بعد صاحب مال کی معافی کا کوئی اعتبار نہیں۔ امام طحاوی
فرماتے ہیں کہ صفوان بن امیہ کے واقعے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی چادر چرانے والے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو صفوان نے کہا کہ میں اس کو معاف کرتا ہوں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’فھلا قبل
ان تاتینی بہ؟‘ یعنی اسے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں معاف نہیں کر دیا؟ اگر حاکم کے سامنے مقدمہ پیش ہونے سے پہلے اور بعد کے حکم میں کوئی فرق نہ مانا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بے معنی ہو جاتا ہے، اس
لیے اس مسئلے میں امام ابویوسف کا قول ہی راجح ہے۔(72)
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تازہ کھجور کا تبادلہ خشک کھجور کے ساتھ کرنے سے منع کیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ تازہ کھجور کی مقدار خشک ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے۔(73) امام ابوحنیفہ نے اس روایت کو
قبول نہیں کیا، تاہم امام ابویوسف اور امام محمد نے اس حدیث کو درست تسلیم کرتے ہوئے تازہ اور خشک کھجور کے باہمی تبادلے کو نادرست قرار دیا ہے۔ (74)
امام ابوحنیفہ استسقاء کے لیے نماز کے مشروع ہونے کے قائل نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر صرف دعا کرنی چاہیے۔ اس کی دلیل کے طور پر انھوں نے ان روایات کا حوالہ دیا جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابہ کے، صرف دعا کرنے کا ذکر ہوا ہے، جبکہ
اس روایت کو شاذ قرار دیا جس میں اس موقع پر باجماعت نماز پڑھنے کا ذکر ہوا ہے۔ (75) تاہم امام محمد نے روایات وآثار کی بنیاد پر ان کی رائے سے اختلاف کیا اور نماز استسقا کو مشروع قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
ولکن قول اھل المدینۃ الآخر احب الینا من قولھم الاول ومن قول ابراھیم النخعی وابی حنیفۃ لانہ امر قد جاء فی الآثار۔(76) ’’لیکن اہل مدینہ کا دوسرا قول ہمیں ان کے پہلے قول سے اور ابراہیم نخعی اور ابوحنیفہ کے قول سے زیادہ پسند ہے، کیونکہ یہ بات احادیث سے ثابت ہے۔‘‘
نماز استسقاء میں تفاؤل کے طور پر چادر کوپلٹانے سے متعلق امام محمد لکھتے ہیں: قلت: فھل یستحب ان یقلب الامام او احد من القوم رداء ہ فی ذلک؟ قال: لا، وھذا قول ابی حنیفۃ وقال محمد بن الحسن ..... ویقلب رداء فی ذلک
..... وانما تتبع فی ھذہ السنۃ والآثار المعروفۃ۔(77) ’’میں نے امام ابوحنیفہ سے پوچھا کہ کیا امام یا لوگوں میں سے کسی کے لیے اس موقع پر اپنی چادر کوپلٹانا مستحب ہے؟ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ تاہم یہ امام ابوحنیفہ
کی رائے ہے، جبکہ محمد بن الحسن کہتے ہیں کہ آدمی کو اپنی چادر پلٹانی چاہیے۔ اس معاملے میں سنت اور معروف روایات پر عمل کیا جائے گا۔‘‘
امام ابوحنیفہ، گھوڑے کے گوشت کی حرمت کے قائل تھے، تاہم امام ابو یوسف اور امام محمد نے ان کے موقف سے اختلاف کیا اور متعدد مشہور احادیث کی روشنی میں اسے حلال قرار دیا ہے۔ امام محمد لکھتے ہیں:
ولسنا ناخذ بہ ولا نری بلحم الفرس باسا، وقد جاء فی احلالہ آثار کثیرۃ۔(78) ’’ہم اس قول کو اختیار نہیں کرتے اور ہماری رائے میں گھوڑے کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے حلال ہونے کے بارے میں
بہت سے آثار منقول ہیں۔‘‘
امام طحاوی لکھتے ہیں کہ قیاساً دیکھا جائے تو گھوڑے اور گدھے کے گوشت میں کوئی فرق نہیں، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ احادیث منقول ہوں تو پھر انھیں قیاس پر ترجیح حاصل ہوتی ہے، خاص طور پر جبکہ
اس مسئلے میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عین اس وقت جب گدھوں کے گوشت کو حرام قرا ر دیا، گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا حکم الگ الگ
ہے۔(79)
امام ابوحنیفہ کا موقف یہ تھا کہ عرفہ کے دن میدان عرفہ میں امام کے منبر پر چڑھنے کے بعد پہلے موذن جمعے کی اذان کی طرح اذان دے گا اور اس کے بعد امام خطبہ کہے گا۔ تاہم امام ابو یوسف نے میدان عرفہ میں اذان دینے والوں سے تحقیق کی تو انھوں نے بتایا کہ انھوں
نے ہمیشہ سے لوگوں کو اسی پر پایا ہے کہ پہلے امام خطبہ دیتا ہے اور اس کے بعد موذن اذان کہتا ہے۔ چنانچہ امام ابویوسف نے امام ابوحنیفہ کے قول سے رجوع کر کے یہی موقف اختیار کر لیا۔ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ اگر صرف قیاسی
استدلال کی بات ہو تو امام ابوحنیفہ کا قول وزنی ہے، تاہم روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں خطبہ دیا اور اس کے بعد موذن نے اذان دی۔(80)
امام ابوحنیفہ کا فتویٰ یہ تھا کہ اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز کے آخری تشہد میں امام کے ساتھ شامل ہو تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ دو رکعتیں ہی ادا کرے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جمعہ کی نماز پالی، لیکن امام محمد نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا موقف یہ
ہے کہ اگر کوئی شخص جمعہ کی کم سے کم ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کرے، تب اسے جمعہ کی نماز ملے گی اور اگر وہ تشہد میں شامل ہو تو اسے ظہر کی چار رکعتیں ادا کرنی پڑیں گی۔ لکھتے ہیں: ولسنا ناخذ بھذا، من ادرک من الجمعۃ رکعۃ اضاف الیھا اخری، وان ادرکھم جلوسا صلی اربعا، وبذلک جاء ت الآثار من غیر واحد۔(81) ’’ہم اس رائے کو قبول نہیں کرتے۔ جس شخص کو جمعہ کی ایک رکعت مل جائے، وہ اس کے ساتھ ایک
رکعت مزید شامل کر لے، لیکن اگر کوئی شخص قعدے کی حالت میں لوگوں کے ساتھ شامل ہو تو وہ چار رکعتیں ادا کرے۔ متعدد آثار میں یہی بات نقل ہوئی ہے۔‘‘
امام ابوحنیفہ کا موقف یہ تھا کہ اگر ایک غلام دو آدمیوں کی مشترکہ ملکیت ہو اور ان میں سے ایک اپنے حصے میں غلام کو آزاد کر دے تو دوسرے مالک کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اپنے حصے کو آزاد کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ لیکن اس مسئلے میں وارد احادیث کے پیش نظر امام
ابویوسف اور امام محمد نے اس سے اختلاف کیا ہے اور ان کی رائے یہ ہے کہ ایک مالک کے آزاد کرنے سے غلام پورا آزاد ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں آزاد کرنے والا اگر مال دار ہو تو وہ اپنے ساتھ ملکیت میں شریک دوسرے آدمی کو اپنے
مال سے اس کے حصے کی قیمت ادا کرنے کا پابند ہے، بصورت دیگر غلام کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ محنت مزدوی کر کے دوسرے آدمی کو اس کے حصے کی قیمت ادا کر دے۔(82) امام طحاوی اس بحث
میں امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں: والقول الاول الذی ذھب الیہ ابو یوسف ومحمد رحمھما اللہ اصح القولین عندنا لموافقتہ لما قد رویناہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (83) ’’پہلا قول جسے ابو یوسف اور محمد رحمہما اللہ نے اختیار
کیا ہے، ہمارے نزدیک صحیح تر قول ہے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث کے مطابق ہے۔‘‘
امام ابو حنیفہ کی رائے یہ تھی کہ اگر مادہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ میں سے مردہ بچہ نکل آئے تو اس کاحکم مردار کا ہے اور اس کا گوشت نہیں کھایا جا سکتا، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد نے صریح احادیث کی بنیاد پر اس فتوے سے اختلاف کیا ہے اور ان
کا موقف یہ ہے کہ اگر بچے کی خلقت مکمل ہو چکی ہو تو اس کی ماں کو ذبح کرنا ہی پیٹ کے بچے کو ذبح کرنے کے قائم مقام ہے اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ (84)
امام ابوحنیفہ عصر میں تاخیر کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی پر اصحاب ابن مسعود کا عمل تھا، جبکہ اہل مدینہ تعجیل کو ترجیح دیتے ہیں او ر سیدنا عمر نے ابوموسیٰ اشعری کو یہی ہدایت کی تھی۔ امام محمد نے امام مالک کے موقف کو ترجیح دی ہے۔ (85)
امام ابوحنیفہ کے نزدیک شفق، بیاض کا نام ہے جبکہ امام مالک کے نزدیک سرخی کا۔ امام محمد نے امام مالک کے موقف کو ترجیح دی ہے اور اس پر متعدد آثار سے استدلال کیا ہے۔ (86)
امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ تیمم کرنے والا وضو کرنے والوں کا امام بن سکتا ہے۔ امام محمد فرماتے ہیں کہ تیمم کرنے والے کے لیے وضو کرنے والوں کی امامت مناسب نہیں، کیونکہ سیدنا علی سے یہی مروی ہے۔ (87)
امام ابوحنیفہ اس کے جوازکے قائل ہیں کہ امام مقتدیوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائے۔ امام محمد فرماتے ہیںکہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی شخص بیٹھ کر نماز نہ پڑھائے، اس لیے امام کو بیٹھ کر نماز نہیں پڑھانی چاہیے۔(88)
امام ابوحنیفہ ایام تشریق میں یوم النحر کی عصر کی نماز تک تکبیرات تشریق کہنے کے قائل ہیں، جبکہ امام محمد نے اس کے مقابلے میں آخری یوم تشریق کی عصر تک تکبیرات کہنے کے قول کو ترجیح دی ہے۔(89)
حنفی اہل علم نے اس نوعیت کے مسائل میں متعدد جگہ اس امکان کا ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ یا دوسرے حنفی ائمہ کے علم میں متعلقہ روایات نہیں آئی ہوں گی جس کی وجہ سے انھوں نے ان کے مخالف رائے قائم کر لی۔ مثال کے طور پر امام طحاوی زمین کی پیداوار میں عشر سے
متعلق امام ابوحنیفہ کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ولا تحسب ان ابا حنیفۃ رحمہ اللہ ذھب فی ذلک الی الآثار الاول التی لا توقیت فیھا الا لانہ لم یتصل بہ ھذہ الآثار الاخر المفسرۃ، ولم یقف علی ظھورھا ولا تواترھا من رواھا، فذھب الی ظاھر الآثار الاول التی لا توقیت فیھا مع ما قد دلہ علی ذلک من القیاس۔(90)
’’ہمارا خیال یہی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس مضمون کی روایات پر جن میں مقدار کا ذکر نہیں کیا گیا، اس لیے بنیاد رکھی کہ یہ دوسری احادیث جن میں مقدار کی وضاحت کی گئی ہے، ان تک نہیں پہنچی تھیں اور وہ ان کی شہرت اور
تواتر سے واقف نہیں ہو سکے تھے، اس لیے انھوں نے ان احادیث کے ظاہر کے مطابق رائے قائم کر لی جن میں مقدار کا ذکر نہیں کیا گیا اور اس کی تائید میں ان کے سامنے قیاسی دلائل بھی تھے۔‘‘
ایک دوسری بحث میں لکھتے ہیں:
ولم یکن اصحابنا ذکروا فی کتبھم استلام الرکن الیمانی، ولا نری ذلک الا لانہ لم یتصل بھم ما روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی استلامہ ایاہ فی طوافہ مما قد ذکرنا ولو اتصل ذلک بھم لقالوہ۔(91)
’’ہمارے اصحاب نے اپنی کتابوں میں (طواف کے دوران میں) رکن یمانی کو چھونے کا ذکر نہیں کیا اور ہمارے خیال میں ا س کی وجہ یہی ہے کہ وہ روایات ان تک نہیں پہنچیں جن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کرتے ہوئے رکن
یمانی کو چھوا تھا۔ اگر یہ روایات ان تک پہنچتی تو وہ لازماً اس کا ذکر کرتے۔‘‘
ذکاۃ الجنین کے مسئلے میں امام ابوحنیفہ کا نقطہ نظر حدیث کے خلاف ہے۔ اس ضمن میں حنفی فقہاء نے حدیث کی مختلف تاویلات پیش کی ہیں، تاہم قاضی ابو زید دبوسی فرماتے ہیں کہ:
لعل ھذا الحدیث لم یبلغ ابا حنیفۃ فانہ لا تاویل لہ ۔(92)
’’غالباً یہ حدیث امام ابوحنیفہ تک نہیں پہنچی، کیونکہ اس کی کوئی تاویل (ان کی رائے کے موافق) نہیں ہو سکتی۔‘‘
احادیث کی تحقیق کے ضمن میں، سامنے آنے والے نئے مواد کی روشنی میں گزشتہ اہل علم کے نتائج فکر پر نظر ثانی کی یہ روایت صاحبین کے بعد بھی تسلسل کے ساتھ حنفی روایت میں جاری رہی ہے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی نے اس ضمن میں حنفی روایت
کے ارتقا کے چار بنیادی مراحل کی نشان دہی کی ہے:
امام ابوحنیفہ کی آرا وتحقیقات
امام صاحب کے تلامذہ، امام ابویوسف، امام محمد اور امام حسن بن زیاد کے اختلافات واستدراکات
چوتھی اور پانچویں صدی کے حنفی فقہاء ومحدثین، امام طحاوی، کرخی اور زیلعی وغیرہ کی تنقیحات
ان کے بعد آنے والے حنفی محدثین کے، آرا ومسائل کی ترجیح میں ائمہ مذہب سے اختلافات
مولانا عثمانی کی اصل عبارت درج ذیل ہے:
وان سلمنا ان الامام خفی علیہ بعض الاحادیث التی یجب العمل بھا شرعا فنقول: ان محمدا وابا یوسف وزفر بن الھذیل وابن المبارک والحسن بن زیاد وغیرھم من اصحابہ قد تاخروا الی زمان تدوین الحدیث۔ ثم الطحاوی والکرخی والحاکم مؤلف ’’الکافی‘‘
وعبد الباقی بن قانع والمستغفری وابن الشرقی والزیلعی وغیرھم من حفاظ الحنفیۃ ونقاد الحدیث منھم تاخروا الی کمال التنقیر عن الحدیث النبوی واطلعوا علی صحیحہ وسقیمہ ومشھورہ وآحادہ۔ فکل قیاس من قیاسات ابی حنیفۃ راوہ خلاف الحدیث
ترکہ اصحابہ کمحمد وابی یوسف وزفر والحسن، وخالفوا شیخھم فی شطر مذھبہ، ومذھب الحنفیۃ ھو مجموع اقوال الامام واصحابہ ھولاء۔
ثم المحدثون من الحنفیۃ من بعدھم رجحوا فی بعض المسائل قول الشافعی وفی بعضھا قول مالک وبعضھا قول احمد، وافتوا بما ترجح عندھم من الدلیل، وھذا کلہ ھو مذھب ابی حنیفۃ، لکونہ جاریا علی منوالہ واصولہ التی بنی علیھا مذھبہ، منھا تقدیمہ النص ولو ضعیفا علی القیاس،
فلم یبق والحمد للہ فی مذھبنا قول خلاف حدیث الا وعندنا حدیث آخر یؤیدنا، والذی خالفناہ ظاھرا فلہ عندنا تاویل لا نخالفہ، وکذلک الائمۃ کلھم واصحابھم یفعلون۔ فلا یستطیع احد ان یدعی العمل بکل الاحادیث بجملتھا وانما کل یعمل
ببعضھا ویترک بعضھا اما لکونہ ضعیفا عندہ او مخالفا للنص او الخبر المشھور او المتواتر او لکونہ شاذا او معللا او منسوخا او مؤلا بمعنی لا یدرکہ العامۃ ونحو ذلک۔(93)
’’اور اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ بعض ایسی احادیث امام ابوحنیفہ سے مخفی رہ گئیں جن پر عمل کرنا شرعاً واجب ہے تو بھی ہم کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے اصحاب میں سے محمد، ابو یوسف، زفر بن الہذیل، ابن المبارک، حسن بن زیاد اور دیگر حضرات تدوین حدیث کے وقت تک
زندہ رہے۔ پھر طحاوی، کرخی، الکافی کے مصنف الحاکم، عبد الباقی بن قانع، مستغفری، ابن الشرقی ، زیلعی اور احناف میں سے دیگر حفاظ اور نقاد حدیث کا زمانہ تو ان کے بھی بعد کا ہے جب احادیث نبوی کی تحقیق وتنقیح اپنے کمال کو
پہنچ چکی تھی اور یہ سب اہل علم صحیح وضعیف اور مشہور وآحاد روایات سے اچھی طرح واقف تھے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ کے قیاسات میں سے جو بھی قیاس حدیث کے خلاف تھا، وہ ان کے تلامذہ امام محمد، ابو یوسف، زفر اور حسن بن زیاد نے
ترک کر دیا اور نصف مذہب میں اپنے استاذ کی رائے سے اختلاف کیا۔ اور احناف کا مذہب (صرف امام ابوحنیفہ نہیں، بلکہ) ان کے ساتھ ان کے مذکورہ تلامذہ کے اقوال کے مجموعے کا نام ہے۔
پھر یہ کہ ان کے بعد آنے والے حنفی محدثین نے بعض مسائل میں امام شافعی کے قول کو، بعض میں امام مالک کے قول کو اور بعض میں امام احمد کے قول کو ترجیح دی ہے اور ازروئے دلیل ان کے نزدیک جو قول راجح ثابت ہوا، ا س کے مطابق فتویٰ دیا ہے۔ یہ سب کا سب امام ابوحنیفہ
کا ہی مذہب ہے، کیونکہ اس منہج اور ان اصولوں کے مطابق ہے جن پر انھوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی، جن میں سے ایک اصول یہ ہے کہ نص (باعتبار ثبوت) کمزور بھی ہو تو اسے قیاس پر ترجیح حاصل ہے۔ یوں بحمد اللہ ہمارے مذہب میں کوئی
ایسا قول باقی نہیں رہا جو کسی حدیث کے خلاف ہو جبکہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسری حدیث ہمارے قول کی موید نہ ہو۔ جس روایت کے ظاہری مفہوم کی ہم نے مخالفت کی ہے تو ہمارے نزدیک اس کی ایسی تاویل ہے جس کی رو سے ہم اس کے مخالف
نہیں رہتے۔ تمام ائمہ اور ان کے اصحاب بھی یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔چنانچہ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ تمام کی تمام احادیث پر عامل ہے۔ سبھی ائمہ بعض احادیث پر عمل کرتے اور بعض کو ترک کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ ان
کے نزدیک ضعیف ہوتی ہیں یا کسی دوسری نص یا خبر مشہور یا متواتر کے خلاف ہوتی ہیں یا شاذ، معلل یا منسوخ ہوتی ہیں یا ان کی ایسی تاویل کی جاتی ہے جو عام لوگوں کے حیطہ ادراک سے باہر ہوتی ہے۔‘‘
حاصل بحث
سابقہ سطور میں جو معروضات پیش کی گئیں، ان سے اخذ ہونے والے اہم نتائج کو درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
ابن خلدون کی یہ رائے کہ عراق کا علاقہ چونکہ علم حدیث کے اصل مراکز یعنی حجاز سے دور تھا، اس لیے احادیث وآثار کے جس ذخیرے تک اہل حجاز کو رسائی حاصل تھی، اس تک عراقی فقہاء کو نہیں ہو سکتی تھی، تاریخی طو رپر درست نہیں،
کیونکہ کوفہ عہد صحابہ میں علمی وفقہی لحاظ سے بھی ایک مشہور علمی مرکز کی حیثیت اختیار کر چکا تھا اور اکابر صحابہ میں سے بالخصوص سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیدنا علی اور سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہم کے اس شہر
میں قیام کی بدولت ان حضرات کی وساطت سے علم دین صحابہ سے تابعین کو منتقل ہو رہا تھا۔
اس دور میں ذخیرئہ حدیث کی جمع وتدوین کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں تھا اور عالم اسلام کے مختلف علمی مراکز کے اہل علم، فقہ واجتہاد کے ضمن میں زیادہ تر اپنے علاقوں میں مقیم صحابہ وتابعین کی وساطت سے میسر آنے والے ذخیرئہ
روایات سے استفادہ کر رہے تھے اور ان کا انحصار بنیادی طور پر اسی مواد پر تھا جو انھیں اپنے گرد وپیش کے علمی ماحول میں دستیاب تھا۔
ائمہ احناف کی آرا میں اس امر کے مضبوط شواہد ملتے ہیں کہ بعض مسائل میں انھیں زیر بحث موضوع سے متعلق احادیث وآثار نہیں پہنچ سکیں اور انھوںنے اجتہاد وقیاس سے کام لیتے ہوئے کوئی رائے قائم کر لی۔
حنفی روایت میں احادیث کی تحقیق اور چھان پھٹک کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ ارتقا پذیر رہا ہے اور امام ابوحنیفہ کے براہ راست تلامذہ سے لے کر عصر حاضر تک تمام بڑے حنفی فقہاء کے ہاں قوت دلیل کی بنیاد پر اپنے پیش رو اہل علم
کے موقف سے اختلاف کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔
ابوعبد الرحمن ابن خلدون ،مقدمۃ ابن خلدون، تحقیق: الاستاذ خلیل شحادۃ، بیروت: دار الفکر ،1421ھ ، ص: 564
ابومحمد عبد اللّٰہ الدارمی، المقدمۃ، باب الرحلۃ فی طلب العلم واحتمال العناء فیہ(583)، تحقیق: حسین سلیم اسد الدارانی ، الریاض: دار المغنی، 1421ھ (الطبعۃ الاولیٰ)،ج،1 ص،465
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ، تحقیق: السید مہدی حسن گیلانی، بیروت: عالم الکتب،1403ھ (الطبعۃ الثالثۃ) ج1 ص،64,65
القزوینی،ابو عبدا للّٰہ ابن ماجہ :سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارات، باب الوضوء من مس الذکر (480)، الریاض: بیت الافکار الدولیۃ، سن ندارد، ص: 64
ایضاً،(481)، ص: 64
ایضاً، (482)، ص: 64
ابو عبداللّٰہ محمد بن احمد بن حنبل :مسند احمد، حدیث زید بن خالد الجہنی (21585)، القاہرۃ: دار الحدیث، 1416ھ (الطبعۃ الاولیٰ)، ج 16،ص:62
بیہقی، احمد بن الحسین: السنن الکبریٰ، کتاب الطہارۃ، جماع ابواب الحدث، باب الوضوء من مس الذکر (627)،مکۃ المکرمۃ: مکتبۃ دار الباز،1414ھ ،ج 1،ص207
سنن الدارقطنی، کتاب الطہارۃ، باب ما روی فی لمس القبل والدبر والذکر والحکم فی ذلک (531)، 267/1، تحقیق: شعیب الارنووط/حسن عبد المنعم شلبی/ سعید اللحام، موسسۃ الرسالۃ :بیروت، 1424ھ (الطبعۃ الاولیٰ)
مسند احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص(7076)، 487/6
بیہقی، السنن الکبریٰ، کتاب الطہارۃ، جماع ابواب الحدث، باب الوضوء من مس الذکر (633)، 208/1
المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الطہارۃ، من کان یری من مس الذکر وضوء ا (1743,1742)،200/2، تحقیق: محمد عوامۃ،بیروت: شرکۃ دار القبلۃ جدۃ/موسسۃ علوم القرآن :1427ھ (الطبعۃ الاولیٰ)
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ،84/1
البخاری، محمد بن اسماعیل: الجامع الصحیح، کتاب الاذان، باب الاقامۃ واحدۃ الا قولہ قد قامت الصلاۃ(607)،، تحقیق: صدقی جمیل العطار بیروت: دار الفکر، سن ندارد، ص: 153
المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ذکر ابی محذورۃ الجمحی(6260)، 632/3، دار الکتب العلمیۃ، بیروت،1411ھ (الطبعۃ الاولیٰ)
المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الاذان والاقامۃ، من کان یقول الاذان مثنی والاقامۃ مرۃ (2139)، 317/2
سنن النسائی، کتاب الاذان، باب تثنیۃ الاذان(624)، ص: 160، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب، 1406ھ (الطبعۃ الثانیۃ)
سنن ابن ماجہ، کتاب الاذان والسنۃ فیہ، باب افراد الاقامۃ (732)، ص: 89
ایضاً،(731)، ص: 88
الہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب الصلاۃ، باب کیف الاذان(18863)،90/2، دار الفکر، بیروت، 1414ھ
المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الاذان والاقامۃ، من کان یقول الاذان مثنی والاقامۃ مرۃ (2145,2144)، 319/2
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ،84/1، 86؛ الموطا، ابواب الصلوۃ، باب الاذان والتثویب،55/1، تعلیق وتحقیق: الدکتور تقی الدین الندوی، دار السنۃ والسیرۃ بمبئی / دار القلم، دمشق،1412ھ (الطبعۃ الاولیٰ)۔
البتہ امام طحاوی نے ناقابل فہم طور پر ائمہ احناف کا موقف یہ نقل کیا ہے کہ وہ فجر کی اذان میں یہ کلمات کہنے کے قائل ہیں۔ (شرح معانی الآثار، کتاب الصلاۃ، باب التاذین للفجر،137/1)
المصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الاذان والاقامۃ، من کان یقول فی الاذان الصلاۃ خیر من النوم (2174)، 328/2، (2179)،(329/2)
طبرانی، المعجم الاوسط(7524)، 290/7، تحقیق: ابومعاذ طارق بن عوض اللّٰہ / ابو الفضل عبد المحسن بن ابراہیم، دار الحرمین، القاہرۃ،1415ھ
ایضاً،(7583)، (309/7)
سنن ابن ماجہ، کتاب الاذان والسنۃ فیہ، باب السنۃ فی الاذان (716)، ص: 87
بیہقی، السنن الکبریٰ، کتاب الصلاۃ، جماع ابواب الاذان والاقامۃ، باب ما روی فی حی علیٰ خیر العمل (1994)، 625/1
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب کیف الاذان (500)، ص: 78، بیت الافکار الدولیۃ، الریاض، سن ندارد
سنن النسائی، کتاب الاذان، باب التثویب فی اذان الفجر(643)، ص: 166؛ المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الاذان والاقامۃ، من کان یقول فی الاذان الصلاۃ خیر من النوم (2180)، 329/2
بیہقی، السنن الکبریٰ، کتاب الصلاۃ، جماع ابواب الاذان والاقامۃ، باب التثویب فی اذان الصبح (1985)، 623/1
ایضاً، (1983)، 623/1
ایضاً،(1984)،623/1
ایضاً،1986، 623/1 بعض روایات کے مطابق یہ واقعہ سیدنا عمر کے ساتھ پیش آیا اور انھوں نے ان کلمات کو فجر کی اذان میں مقرر کر دیا۔ (موطا الامام مالک، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی النداء للصلاۃ(151)، ص: 42، دار الکتب
العلمیۃ، بیروت،1405ھ (الطبعۃ الاولیٰ)؛ المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الاذان والاقامۃ، من کان یقول فی الاذان الصلاۃ خیر من النوم(2172)، 327/2) طاؤس بیان کرتے ہیں کہ یہ کلمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہیں کہے
گئے۔ بلال نے ابوبکر کے عہد میں ایک موذن کو یہ کلمات کہتے ہوئے سنا تو انھوں نے بھی کہنے شروع کر دیے۔ پھر جب سیدنا عمر کا دور آیا تو انھوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ بلال کو اس سے روک دیا جائے، لیکن غالباً وہ بھول گئے اور
اس طرح یہ طریقہ چلتا آ رہا ہے۔ (المصنف عبد الرزاق، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ خیر من النوم (1827)،474/1، تحقیق: حبیب الرحمن الاعظمی، المجلس العلمی، ڈابھیل، 1403ھ (الطبعۃ الثانیۃ)) حفص بن عمر بیان کرتے ہیں کہ سب سے
پہلے یہ کلمات سعد موذن نے سیدنا عمر کے دورمیں کہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بدعت ہے، لیکن پھر انھیں ایسا کرنے دیا۔ (ایضاً، (1829)، 474/1)
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ،225/1
صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب السہو فی الصلاۃ والسجود لہ(571)، ص: 227، تحقیق: ابوصہیب الکرمی، بیت الافکار الدولیۃ، الریاض، 1419ھ
سنن الترمذی، کتاب مواقیت الصـلاۃ، باب ما جاء فی الرجل یصلی فیشک فی الزیادۃ والنقصان (398)، ص:108، تعلیق: العلامۃ محمد ناصر الدین الالبانی، مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع، الریاض، الطبعۃ الاولیٰ
سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصـلاۃ، باب ما جاء فی سجدتی السہو قبل السلام (1216)، ص135:
طبرانی، المعجم الکبیر(773...)، 336/19
سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی سجدتی السہو قبل التسلیم،(391)، ص: 106
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ،269/1
صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب سنۃ الجلوس فی التشہد (828)، ص: 199
صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب صفۃ الجلوس فی الصلاۃ(579)، ص: 231
ایضاً، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب جواز الاقعاء علی العقبین (536)، ص:
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ، 320/1
ایضاً، 345/1
صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب صلاۃ الخوف (842)، ص: 327
سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء فی صلاۃ الخوف (1260)، ص: 140
مسند احمد، حدیث حذیفۃ بن الیمان (23346)، 631/16
صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب صلاۃ الخوف(841)، ص: 326
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ،193/1
مسند احمد، حدیث السیدۃ عائشہ (24418)، 361/17؛ ایضاً، مسند عبد اللّٰہ بن عمر (5461)، 75/5
موطا الامام مالک، کتاب صلاۃ اللیل، باب الامر بالوتر، رقم280؛ صحیح البخاری، کتاب الوتر، باب ما جاء فی الوتر،(991)، ص: 234
شرح معانی الآثار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر(1749)، 294/1، تحقیق: محمد زہری النجار/ محمد سید جاد الحق، عالم الکتب، بیروت ،1414ھ (الطبعۃ الاولیٰ)
ایضاً،294/1
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ،199/1
المصنف لابن ابی شیبہ، کتاب الصلاۃ، من قال القنوت فی النصف من رمضان (7008, 7007)، 527/5
ایضاً، من کان لا یقنت فی الوتر (7017)، 530/4
ایضاً، من قال القنوت فی النصف من رمضان (7009-7012)،528/5
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ،188/1 تا190
کتاب الخراج، ص: 19، دار المعرفۃ، بیروت، 1399ھ
کتاب الآثار، باب الجہاد فی سبیل اللّٰہ وان یدعوا من لم تبلغہ الدعوۃ (861)، ص: 189
کتاب الخراج، ص 77:
ایضاً، ص: 53
الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ،502/1، 505
البدایۃ والنہایۃ، 617/13، تحقیق: الدکتور عبد اللّٰہ بن عبد المحسن الترکی، دار ہجر للطباعۃ، مصر،1419ھ (الطبعۃ الاولیٰ)