Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
ہندوستان کی عظیم اور مختلف علوم کی جامع شخصیت شاہ ولی اللہ دہلوی(وفات: 1762)کی آپ کسی بھی کتاب کو پڑھیں وہ آپ کی نگاہ کوایک حسیاتی متبادل ( sensory substitution or 'synesthesia')کی طرف متوجہ کردے گی۔شاہ ولی اللہ دہلوی عہد وسطی اوردور جدید کے ابتدائی مرحلے سے تعلق رکھنے والے متعدد علما میںایک مثالی شخصیت کے حامل ہیں ۔وہ بسا اوقات نظریات وافکارکے حوالے سے ایسے حیرت انگیز اور بصیرت مندانہ نقوش پیش کرتے ہیں ،جن سے متعلق محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اعصابی مرونت یا لچکیلے پن (neuroplasticity)جیسے موضوعات کا مقدمہ اورپیش خیمہ ہوں۔میںیہ بات اس انتباہ کو خوب اچھی طرح محسوس کرتے ہوئے کہہ رہا ہوںکہ ہمیںیہ حق نہیں ہے کہ ہم’’ جدید اشیا سے مشابہت کی بنا پر دورقدیم کی اشیاسے متعلق اپنی نظریاتی ساخت تبدیل کردیں۔‘‘(1)
شاہ ولی اللہ نے اسلامی قانون ،تصوف ،قرآن اور حدیث کے موضوعات پر ماہرانہ اسلوب میں کافی تفصیل سے لکھا ہے۔ا ن موضوعات پراپنی لکھی گئی تحریروں میںانہوںنے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح وحی والہام کے سلسلے میں انسان ،خاص طور پر انبیا کا ذہن، واسطہ بنتا ہے اور ثالث کا رول ادا کرتا ہے۔راقم الحروف کے مطالعے کے مطا بق، ایسا محسو س ہوتا ہے کہ جیسے وہ دینیات اور ثقافت(culture) کے درمیان پل تعمیرکرنا چاہتے ہوں۔ انہوں نے اس نکتے کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ جس وقت انبیا کا ذہن ایک معنی میںسماوی یا ربانی دنیا سے ہم آہنگ اور وابستہ ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کا ذہن اپنے ماحول کے ثقافتی خد وخال کی عکاسی بھی کررہا ہوتا ہے۔شاہ ولی اللہ اسلامی شریعت وقانون اور اقدار کوخصوصی اہمیت دیتے ہیںجو ان کی نظر میںاسلام جیسے مذہب میں ،جووحی کی اساس پر قائم ہے ،ابتدا ہی سے موجود ہیں۔اکثر مسلم علما ومفکرین کی نگاہ میں اسلامی شریعت اوراس کی اقدار کی معنویت کا موضوع کبھی محل نزاع نہیں رہا۔ تاہم اکثر اوقات ان کے مظاہراور ان کی عملی تشکیل وتطبیق پر ضرور بحث ہوتی رہی ہے۔ان مشکلا ت سے نبرد آزمائی نے شاہ ولی اللہ دہلوی جیسی شخصیت کو اس بات پرمجبورکیا کہ وہ ما بعد الطبیعات کے خاردار مسائل اور وحی کی عمرانیات(sociology of revelation) کا اچھی طرح ادراک کرنے کی کوشش کریں۔
یہ بات اپنے آپ میںدل چسپ اور اہم ہے کہ علمائے متقدمین نے اپنے زمانے کے متعدد مروجہ علوم کو اپنی دینی فکر کی تشریح وتوضیح اور اپنے نظری دعووں کوقابل فہم بنا کر لوگوںکے سامنے پیش کرنے کے لیے کام میںلانے کی کوشش کی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی جیسے ایک عالم دینیات کے لیے یہ تقریبا ایک ضروری سی بات تھی کہ وہ ایک ایسی دینیات کی تشکیل کریں جس میں سنجیدگی کے ساتھ انسانی شخصیت کے تجربات ومشاہدات پر مبنی پہلو کوپیش نظررکھا گیا ہو۔ان کی نظر میں دینیاتی قواعدوضوابطtheological strictures) ) اکثر معاصر انسانی حقائق کے ماتحت ہوتے تھے،خواہ نفسیات وعمرانیات کے حوالے سے،(ان اصطلاحات کے وجود میں آنے سے قبل) یا دوسرے علوم جیسے فلسفہ اور ما بعد الطبیعات کے حوالے سے ۔
اس دلیل کوپوری قوت وتاکید کے ساتھ پیش کرنے کے لیے شاہ ولی اللہ جو تجویز پیش کرتے ہیں، وہ جیسے ختم نہ ہوسکنے والے ایسے ثقافتی نقشے کے مشابہ ہے جو ہماری دماغی وضع وہیئت کے عین مطابق ہے۔ ہمارے دماغ کوایک اعصابی نظام کی حیثیت سے دیکھنے کی بجائے شاہ ولی اللہ کا اشارہ اس طرف ہے کہ ہم خود کو’’ عصبی ثقافتی یا اعصاب پرمبنی ثقافتی وجود‘‘ کے طور پردیکھ سکتے ہیں۔ خود انبیائے کرام کی فکروشخصیت اپنے ماحول کے ثقافتی اثرات سے دور نہیں رہی، ان پر نازل ہونے والی وحی کا لب ولہجہ اور اس میںثالث کا کردار ادا کرنے والی چیز وہی ثقافتی نقشہ ہوتا تھا،جس کا اظہار ان کی قوم کرتی تھی۔اس موضوع پر شاہ ولی اللہ نے سب سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اپنی کتاب’’ فیوض الحرمین‘‘ میںاظہارخیال کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ یہ سوال اٹھاتے ہیںکہ ایک مادر زاد نا بینایا بہرا خواب میں کس طرح چیزوں کودیکھتا یا سنتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے عیوب ونقائص رکھنے والے اس چیز کے ذریعے دیکھتے یا سنتے ہیں جس کوہم ’’حسیاتی متبادل‘‘ (sensory substitution)یا مختلف حاسوں کے امتزاج ( blending of senses)کا نام دے سکتے ہیں۔ان کے اپنے الفاظ میں’’اسی بنا پر جب مادر زاد اندھا خواب دیکھتا ہے تو اس کو خواب میں رنگ اور شکلیں دکھائی نہیںدیتیں،بلکہ وہ خواب میںدیکھتا ہے کہ وہ چیزوں کوچھو رہا ہے،آوازیں سن رہا ہے۔یا وہ خواب میںچیزوں کو چکھتا اور سونگھتا ہے۔‘‘(2)اسی طرح ایک مادر زاد بہرا خواب میں کبھی کچھ سنتا نہیں بلکہ وہ دیکھنے سننے کے بدل کی معلومات کے لیے دوسرے متبادل حاسوں یا حسیاتی اعضا کا استعمال کرتا ہے۔
حسیاتی متبادل شاہ ولی اللہ کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حسیاتی عیوب کے ساتھ خواب دیکھنے والوںکی مثالیںانہیں اس نظریے کی تشکیل میںمدد دیتی ہیں کہ: ’’ پہلے سے موجودشکلیںاورافکار (pre-existing forms and ideas )،جن کو میں نے ثقافتی نقشہ سازی کا نا م دیا ہے،موجود ہیں۔خواب دیکھنے والوںکے ذہن میںیہ پہلے سے موجود شکلیںاورافکار تعمیری عناصر۔حروف تہجی اورزبان۔ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔جن کی بنیاد پر ایسے خوابوں کا تجربہ ہوتا ہے۔
شاہ ولی اللہ نے یہ مثال اپنے اس نقطہ نظر کے اثبات کے لیے پیش کی ہے کہ وحی جو انبیا کے لیے خدا کی خاص نوازش کا معاملہ ہوتا ہے،وہ فعلیاتی اور ثقافتی لحاظ سے اس دنیا سے مربوط ہوتا ہے،جس میں انبیا زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔اس طرح کہ حضرات انبیا جوکچھ کہتے یا جن چیزوںکی تعلیم دیتے ہیں،وہ ان کے اپنے ماحول اوراس سے ماخوذ ہوتاہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود ان انبیا کے اپنے ذہنوں میں محفوظ ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب انبیا اپنی وحی سے لوگوں کو آشنا کرتے ہیں تو وہ الفاظ وکلمات اور اسالیب جو ’’اصحاب وحی‘‘ کے ذہنوں میںپہلے سے موجودہوتے ہیں بالکل واضح اورعیاںہوجاتے ہیں۔(3) یہ حقیقت انہیںیہ کہنے کا موقع دیتی ہے کہ وحی میںاحکام اورضابطے ان معاشروںکی رسوم وعادات سے فعلیاتی طور پر مربوط اور ہم آہنگ ہوتے ہیںجن میں انبیا کوبھیجا جا تا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاوہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انبیا کا ذہن پہلے سے اپنے ماحول کے ثقافتی سانچے میں ڈھلا ہوتا ہے؟
میںشاہ ولی اللہ کی ژرف بینی اور بصیرت مندی پر دنگ رہ گیا ۔حالاںکہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ شاہ ولی اللہ سے قبل بہت سے علمائے دینیات اورفلاسفہ یہ نظریہ رکھتے تھے۔جب میں نے ڈیوڈایگل مین( David Eagleman ) کی کتابIncognito: The Secret Lives of the Brain پڑھی جس میںانہوںنے اعصابی مرونت (neuroplasticity)پر روشنی ڈالی ہے۔آپ ارک ویہن مایر( Eric Weihenmayer )کو دیکھیں جن کی صرف 13 سال کی عمر میںآنکھ کی روشنی چھن گئی تھی ،لیکن انہوں نے نو جوانی میں ایورسٹ کوفتح کیا ۔آج کل ویہن مایرایک ایسے آلے کومنھ میںرکھ کر کوہ پیمائی کرتے ہیں جس میں چھوٹے چھوٹے 600 برقیروں یا برقی مورچوں(electrodes) کا گرڈ(gird) لگا ہوتا ۔اسے دماغ خانہ ( Port Brain )کہا جا تا ہے۔ ایگل مین کہتے ہیں کہ یہ آلہ کوہ پیمائی کے دوران انہیں زبان کے ذریعے’’ دیکھنے‘‘ میں مدد دیتا ہے۔
شاہ ولی اللہ نے حسیاتی عیوب کے ساتھ جن خواب دیکھنے والوں کا ذکرکیا ہے وہ جوچیزحسیاتی متبادل سے حاصل کرتے ہیں،وہ ویہن مایرکے برین پورٹ آلے کے مشابہ ہے: یعنی خواب دیکھنے والے ایک بڑے فرق کے ساتھ دیکھتے اور سنتے ہیں۔وہ چکھنے ،محسوس کرنے اورسونگھنے کے ذریعے دیکھتے اور سنتے ہیں۔حسیاتی متبادل ہمیںیہ باور کراتا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے نہیں بلکہ اپنے دماغوں سے دیکھتے ہیں۔(4) حسیاتی امتزاج بالکل ایک طرح کا حسیاتی متبادل(synesthesia) ہے جس کے تحت دیکھنے کی چیزکوسنا اورسونگھا جاتا ہے اور سننے کی چیز کو چھوا جاتا ہے۔ اس قسم کا حسیاتی متبادل فنکار ،شاعر اورناول نگاروں میں آٹھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی ایسے لوگوں میںجو کسی خاص قسم کی بصیرت کے حامل ہوتے ہیں ۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ صرف حسیاتی متبادل کاوجود اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ایک سے زیادہ قسم کا دماغ اورذہن ممکن ہے۔(5)
اعصابی نظام کے موجودہ علم نے ادراکی ومشاہداتی قوت کی توضیح میںحیرت ناک پیش رفت کی ہے۔آج ہم پریہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ قوت ادراک سے متعلق نظریہ اس حقیقت کی توضیح صحیح طورپرنہیںکرتا کہ اعضائے حسی سے معلومات کا سارا ذخیرہ(data) دماغ میں پہنچتا ہے۔ اور پھرخود کواس قابل بناتا ہے کہ اسے دیکھا،سنا سونگھا یا چکھا جائے۔اس وقت سائنس داںیہ دلیل پیش کرتے ہیںکہ’’ دماغ ایک مقفل نظام ہے جوخود سے داخلی سطح پر پیدا ہونے والی سرگرمیوں کومتحرک رکھتا ہے‘‘۔(6) شاہ ولی اللہ کے خواب بینوںکی طرح جوبغیر حقیقی چشم وگوش کے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ایگل مین بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ :’’ خواب نظرآنے والی نیند کے دوران دماغ اپنے نارمل انداختے( input) سے الگ ہوجاتا ہے۔اس لیے صرف داخلی فعالیت(internal activation) قشری تحرک(cortical stimulation)کاذریعہ ہے۔‘‘(7)
سوال یہ ہے کہ حواس کسی چیز کے ادراک میںکیارول ادا کرتے ہیں ؟ کیا ہم مکمل طور پر حواس کومعطل یا بے اثر کرسکتے ہیں؟ دماغ کی برقیاتی رو (neurocircuitry)کا علم یہ سوال قائم کرتا ہے کہ آیا بصری ادراک دماغ کے ذخیرہ معلومات کی حرکت ہے جو آنکھ سے دماغ تک ایک لکیر کی شکل میںپہنچتی ہے؟ اس کی بجائے ہم جو کچھ اکتشاف کر پاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ادراک اپنی جگہ جمے ہوئے باز گیر رابطوں( (feedback contacts کو شامل ہوتا ہے جو اس نظام کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ پیچھے کی طرف لوٹ جائے۔اب ہم کویہ پتا چلا ہے کہ ایک جال نما حلقہ دماغ ہم کو اس صلاحیت کا مالک بناتا ہے کہ ہم حقیقی حسیاتی انداختے ( sensory input)سے ماقبل پیش گوئی کرسکیں۔(8)اس ادراک کے نئے فریم ورک سے متعلق ایگل مین کہتے ہیں کہ:’’ انتہائی تعجب خیزپہلویہ ہے کہ داخلی ذخیرہ معلومات (data)خارجی حسیاتی ذخیرہ معلومات کی پیداوار نہیںہے۔ بلکہ صرف اس کے ذریعے ان کو موافق بنایا گیا ہے‘‘۔(9) چناںچہ ہم اب بھی حسیاتی ذخیرہ معلومات پر منحصر ہیں ،لیکن اب ہم یہ جانتے ہیںکہ ہم جیسا پہلے سوچ رہے تھے،یہ اس کے مقابلے میںمتفرق انداز میںکام کرتا ہے۔
شاید شاہ ولی اللہ کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ ذہن اور ثقافت کے مابین ایک یک زمانی synchronic)) تعلق کے قیام پرزوردیں۔ تاہم اس عمل کے دوران انہوں نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا یا ہے کہ کس طرح انسان چیزوں کوجانتا اور سمجھتا ہے ۔یہ بات یقینی طور پر ممکن ہے کہ حسیاتی امتزاج کا تعلق شعرا کی طرح تاریخ کے مختلف مراحل میں انبیا کو حاصل ہونے والی خصوصی فضیلت اور تفوق سے رہا ہے۔ مزید برآںہماری زبان حسیاتی متبادل والے (synesthetic) استعاروںسے معمور رہی ہے۔(10)ہم اس طرح کے الفاظ وکلمات استعمال کرتے ہیں جیسے ’’بلند آہنگ ( فوق البھڑک) قمیص‘‘ ("loud" shirts)تیز( تیکھا)پنیر ( "sharp" cheese ) دھار دار( تیز) شخص (''sharp'' person)۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ مختلف ابعادی (tactile) صفات قمیص ،پنیر اوراشخاص پر منطبق نہیں ہوتے۔ علم الاعصاب کے ماہرراما چندرن کہتے ہیں:’’ استعارے کس طرح عمل کرتے ہیں ،ہم ان کا مبہم سے مبہم تصور بھی نہیںرکھتے اورنہ ہی ہمیںان کے بارے میںکچھ معلوم ہے کہ وہ دماغ میںکس طرح متمثل ہوتے ہیں۔‘‘(11) وہ اس بارے میںرجائی نقطہ نظر رکھتے ہیں کہ متبادل احساس کی اعصابی بنیاد کا سائنسی شعور وفہم اس نکتے کوروشنی میںلا سکے گا کہ استعارے کس طرح دماغ میںمتمثل ہوتے ہیں اور ہم انسانوں کا کس طرح ارتقا ہوا کہ ہم پہلے مقام پر اس طرح کی تعبیرات کواستعمال کرسکیں۔علم الاعصاب شاید اس سلسلے میں معاون ہوکہ ایک تعقل پسند اور زبان کا استعمال کرنے والے موجود کی حیثیت سے ہمارے وجود کی کلیدی حیثیت ہم پر منکشف ہوسکے۔
لہٰذا استعاروں کے معمے اوردماغ ایک انسان پسند (humanist) کی حیثیت سے ہمیںحیرت میںڈال دیتے ہیں کہ آیا شاہ ولی اللہ دہلوی کے افکاراس بات کا عندیہ دیتے ہیںکہ دماغ بھی ثقافت سے مربوط ہوتا ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر اس دعوے کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے کہ دماغ ایک مقفل نظام ہے؟ اگر وہ ایک مقفل نظام ہی رہتاہے توثقافت کس طرح اس میں آہستہ آہستہ آکر اپنی جگہ بنا لیتی ہے؟
(ای میل مصنف: emoosa1@nd.edu )