Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
بیسویں صدی اپنے دامن میں مسلمانان عالم کے لیے متنوع مذہبی، سماجی اور سیاسی افکار کا طومار لے کر آئی تھی۔ نامور مغربی مفکر ژاں ژاک روسو کا پیش کردہ نظریہ شہریت اور ریاست دنیا بھر میں متجسم ہو رہا تھا۔ انسانیت گلوبلائزیشن کے پہلے مرحلے یعنی قومی، وطنی اور انفرادی شناخت کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ارسطاطالیسی نظریہ کائنات کالعدم ہو نے کے نتیجے میں زمین اور آسمان بجائے فرش اور چھت کے متوازی ہو گئے تھے۔ صدیوں سے آبا ء و اجداد اور سماج کی تقلید کرنے والے اذہان وجود خدا سے لے کر فرد کے حقوق تک ہر گوشہ فکر سے متعلق سوال اٹھا رہے تھے۔ مذہب کی بنیاد پر تفریق otherness کا جواز ختم ہو رہا تھا۔ ریاست اور شہری کا تصور جہاں مغرب کو بادشاہت سے جمہوریت کی طرف لے کر گیا تھا وہاں ترک مسلمانوں کو بھی کمال اتا ترک کی رہنمائی میں خلافت سے سیکولر جمہوریت کی جانب لے کر جا رہا تھا۔ مسلمانان عالم اپنی مرکزیت کھونے کے بعد فکرمند تھے کہ نئے زمانے میں، جو ایک انقلابی کروٹ لے کر نقش کہن سے نجات پا چکا ہے ، وہ اپنا وجود اور تشخص کیسے برقرار رکھ پائیں گے؟ ایسے میں مذہبی علماء کے دو طبقات کا تشکیل پانا، دیکھا جائے تو فطری معاملہ تھا۔ایک طبقہ تو قدامت پسندی اور رجعت پرستی کے متوالوں کا تھا اور دوسراوہ جنہیں ان کے نتائج فکر کے اعتبار سے جدت پسند مانا جاتا ہے۔ جس مسئلے کا ان دونوں طبقات فکر کو سامنا تھا وہ عالمی سطح کا تھا اس لیے مسئلے کا حل پیش کرنے والے بھی کسی ایک خطہ ارضی کے باسی نہیں تھے۔مگر ہم یہاں فقط برصغیر کے تناظر میں دونوں طبقات کا عمومی ذکر کرنے کے بعد مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے نظریہ تاریخیت کی بابت چند گزارشات پیش کریں گے۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ آج کل جدت پسندی کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے حالانکہ جدت پسندی ایسا وصف ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی بھی فکر، نظریہ یا مذہب جمود کا شکار ہو کر سماج سے غیر متعلق (irrelevant) ہو جاتا ہے۔
دونوں طبقہ ہائے فکر کے بارے میں بنیادی سوال تو یہی ہونا چاہیے کہ کونسا طبقہ رجعت پسند اور کونسا جدت پسند تھا۔ مگر ہم طبقات کی نشاندہی کرنے کے بجائے ان کے نقطہ نظر کا مختصرتعارف تحریر کرکے اپنے موضوع کی طرف آئیں گے۔ رجعت پسند حلقے اس خیال کے حامی تھے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام ہی ہمارا مقصود اول ہونا چاہیے کیونکہ ان کی رائے میں معیاری مسلم سماج خلافت کے قیام اوریک قومی اعتبار سے مذہبی بنیادوں پر جڑے امت مسلمہ کے عالمی تصور کے بغیر ممکن نہیں ہے۔بلکہ یہاں تک دعوی کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو دین کے کئی احکام پورے نہیں ہوں گے۔ چنانچہ خلافت کا قیام ان حضرات کے ہاں مذہبی فریضہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔رجعت پسند طبقے کا مدعا سمجھنے کے لیے علامہ شبلی نعمانیؒ کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو مناسب ہو گا۔
ایک دن تقریر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’دوسری قوموں کی ترقی یہ ہے کہ آگے بڑھتے جائیں، آگے بڑھتے جائیں لیکن مسلمانوںکی ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے جائیں یہاں تک کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صف میں جا ملیں۔(1)
دوسری طرف وہ جدت پسند مسلم مفکرین ہیں جنہیں ہماری رائے میں جدت پسند سمجھنا درست نہیں۔کیونکہ ان حضرات کے ہاں خلافت کے بجائے جدید قومی ریاست اور جمہوری طرز حکومت کو قبول کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے بلکہ زیادہ صحیح ہو گا اگر کہا جائے کہ یہ حضرات جمہوری سیاست اور جدید قومی ریاست کے زبردست وکیل ہیں۔ لیکن اس اضافے کے ساتھ کہ جدید قومی ریاست اور جمہوری سیاست کا ڈھانچہ اسلامی ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے عالمی منظر نامہ عالمی اسلامی اتحاد (pan-Islamism) کی بنیاد پر تشکیل دیا، جبکہ مقامی اعتبار سے اسلامی جمہوریت اور مسلم ریاست کے تصور کو اپنایا۔ چونکہ جمہوریت اور جدید قومی ریاست دونوںتصورات نئے ہیں جن کے لیے قدیم روایتی ذخیرہ کوئی بھی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے اس لیے ان حضرات نے جدید قومی ریاست میں موجود sovereignty stateکے نظریے کو حاکمیت اعلیٰ کے ہم معنی قرار دے کر اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا۔ parliament کو مجلس شوریٰ اور legislation کے عمل کو قرآن و سنت کے تابع لکھواکر اپنے تئیں اسلامی حکومت اور اسلامی نظام دونوں کے قیام کے لیے قابل عمل منصوبہ پیش کر دیا۔ بظاہر اس اپروچ کے نتیجے میں مسلمانوں کے سیاسی و سماجی مسائل کا حل نظر آتا ہے مگر یہ فکراپنے اندربے شمار داخلی تضادات رکھنے کے ساتھ ساتھ عملی پہلوؤں سے کافی ساری مشکلیں بھی پیدا کر دیتی ہے۔مثلا حاکمیت اعلیٰ اگر اللہ کے ساتھ خاص ہے تو اس کی عملی صورت کیا ہو گی؟ اسٹیٹ داخلی یا خارجی پالیسی تشکیل دیتے وقت اللہ کی مرضی کیسے معلوم کرے گی؟ کسی بھی مسلمان ملک کو بطور مثال لے لیں اور تصور کریں کہ اس کا غیر مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی تعلق طے کرتے ہوئے سود پر مبنی بین الاقوامی اصولوں کو کیسے گنجائش فراہم کی جائے گی؟ اگر ( state sovereignty ) سے اللہ کی حاکمیت مراد لینا درست مانا جائے تو کیا یہ کہنا جائز ٹھہرے گا کہ معاذاللہ خدا نے ریاست کی معاشی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے سود کو جواز بخش دیا ہے؟ اسی طرح ان حضرات کے ہاں اس سوال کا جواب بھی موجود نہیں ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو مجلس شوریٰ قرار دیا جائے اور قانون سازی کا حق اس سے لے کر قرآن و سنت کے تابع کر دیا جائے تو قرآن و سنت کا مقصود کون اور کس معیار کے مطابق متعین کرے گا؟ کیونکہ پارلیمانی اراکین کی حیثیت تو فقط مشورہ دینے کی حد تک رہے گی فیصلہ کن پوزیشن تو وہی ہو گی جو قرآن و سنت میں مذکور ہو، ایسے میں کس کا فہم قرآن و سنت بنیاد ٹھہرے گا؟
آمدم برسر مطلب بظاہر جدت پسند نظر آنے والی اس فکر کو جدت اور قدامت کے درمیان کوئی جگہ ملنی چاہیے کیونکہ فکری بیانیے میں استعمال ہونے والی جدید اصطلاحات مگر کمزور مذہبی استدلال پر قائم یہ آراء نہ تو مکمل طور پر قدامت پسندی کی نمائندہ ہیں اور نہ ہی جدت پسندی کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ قدامت پسندی کی نمائندہ اس لیے نہیں کہ خلافت اور اس کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والے مظاہر یعنی دارالاسلام اور دارالحرب اور ان کے لوازمات میں سے چند کو تو اس فکر میں جوں کا توں رکھا گیا ہے جبکہ کچھ کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح مذکورہ فکر جدت پسندی کی نمائندگی کرنے سے بھی قاصر ہے کیونکہ جدید قومی ریاست میں اقتدار اعلی عوام کے لیے اور قانون سازی کا حق عوام کی نمائندہ پارلیمان کے لیے خاص کیا گیا ہے۔ جبکہ ان حضرات کی مزعومہ جدید اسلامی ریاست میں مذکورہ حقوق عوام کے بجائے قرآن و سنت سے واقف علمائے دین کے لیے مخصوص کر دیے گئے ہیں، جو مآل کار تھیوکریسی کی ہی ایک جدید شکل بن جاتی ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا شمار برصغیر ہند کے چند بڑے جدت پسند مفکرین میںہوتاہے ۔ مولانا سندھیؒ کے ہاں قدیم روایتی ذخیرے سے اخذ و استفادہ کے ساتھ ساتھ جدت پسندی (modernity) کو بھی نہایت اہمیت حاصل ہے۔ ان کے ہاں جدید مغربی علوم کی پیدا کردہ اصطلاحات پر عربیت کی ملمع کاری کر کے انہیں اسلامائز کرنے کے بجائے چیزوں کو ان کی اصل (origin) میں رکھ کر لینے یا نہ لینے کی سوچ پائی جاتی ہے۔ مولانا سندھی ؒ تاریخ کے انہی گوشوں کے نئے اور انتہائی اہمیت کے حامل پہلو سامنے لاتے اور ان سے استفادہ کرتے ہیں جنہیں عام مسلمان مفکرین ناقابل تقلید جتلا کر ان سے اپنا ماضی جوڑنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ مولانا سندھیؒ کے ہاں تاریخیت (historicizing) اور واقعیت (objectivism) کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ مولانا کی رائے میں ماضی کو اسی صورت اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھا جا سکتا ہے کہ اسے ایک زندہ روایت سمجھا جائے۔ بصورت دیگر روایت ایک بوجھ بن کر رہ جائے گی۔ کیونکہ ایشیائے کوچک سے لے کر عرب کے ریگزاروں اور انڈونیشیا کے جزائر سے لے کر افریقہ کے جنگلوں تک ہر علاقے میں تاریخی اعتبار سے مسلمانوں کے افکار، رسوم، رواج اور خیالات کبھی یکساں نہیں رہے۔ اگر روایت کو ایک خاص تعبیر و تفہیم کے اندر محدود اور جامد تصور مان لیا جائے تو مسلمانوں کے بے شمار طبقے بلکہ پوری کی پوری سلطنتیں اور ان کی حدود میں بسنے والے لاکھوں مسلمان روایت شکن اور نتیجے کے طور خارج از اسلام قرار پائیں گے۔
یہاں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی سیاسی پالیسی ، جسے دین الٰہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کو بطور مثال پیش کرنا مناسب ہو گا۔اکبر کا دور حکومت مذہبی اور سیکولر ہر دو طبقہ ہائے فکر کے ہاں مسلسل زیر بحث رہتا ہے۔ سیکولر نقطہ نظر کے حامی احباب کے نزدیک اگر اکبر کا دور ایک مثالی طرز حکومت کے طور پر جانا جاتا ہے تو اہل مذہب کے ہاں اسے دین الٰہی کی وجہ سے ہزار بدنامی کا سامنا ہے۔ لیکن مولانا سندھیؒ ایک مذہبی اسکالر ہونے کے باوجوداکبر کے دور کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عام مسلمان مفکرین اکبر کے دور حکومت کو اس لیے برا سمجھتے ہیں کہ ان کے خیال میں اکبر نے دین کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا اور بنیادی اسلامی احکام میں رد و بدل کر کے اس کی شکل بگاڑ دی تھی۔ دین الٰہی یا دین اکبری کی میسر تفصیلات پر تحقیقی نظر دوڑائی جائے اور اسے تاریخ و واقعاتی تناظر سے جدا فقط ایک نظریے کے طور پر دیکھا جائے تو مذہبی طبقے کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ مگر مولانا سندھیؒاسی واقعہ کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں، جس میں تاریخیت اور واقعیت دونوں کارفرما ہیں۔مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اسلام جس خطہ ارضی میں بھی گیا وہاں کے رسم و رواج میں ڈھل کر آگے پھیلا۔ اسلام نے کبھی بھی مقامی روایات کو اپنانے میں بخل کا مظاہر ہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایرانی اور افریقی بھی اپنے رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے اتنا ہی اچھا مسلمان سمجھا گیا جتنا یمن و حجاز کا رہنے والا ایک عربی۔اسلام کی مثال اس صاف شفا ف پانی کی طرح ہے جو ریت، پتھر، مٹی جس پر سے بھی گزرے اسی کا عکس دکھاتا ہے لیکن ان بدلتے عکوس کی وجہ سے اسلام کے جوہر(essence) میں فرق نہیں آتا۔ اسی اصول کے مطابق مولانا سندھیؒ کی رائے میں اسلام جب ہندوستان میں آیا تو چاہیے تھا کہ مسلمان مقامی ہندوستانی رسم و رواج کو قبول کرتے نہ کہ مقامی طرز بود و باش سے مغایرت برت کر کوئی ایسی الگ شناخت قائم کرتے جو ہندوؤں کے لیے اجنبی ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہوتی۔ مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ مولانا کی رائے میں سلطان محمود خلجی نے اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے چند اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر علمائے کرام کی مخالفت کی وجہ سے اسے اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔جلال الدین اکبر چونکہ خلجی کی نسبت زیادہ مضبوط اور اپنے فیصلوں میں آزاد بادشاہ تھا اس لیے اس نے درست سمت قدم بڑھا کر ہندوستان کے مقامی مذاہب اور اسلام کو باہم قریب کرنے کی عملی کوشش کی۔ یاد رہے کہ مولانا اکبر کی پالیسی کو مکمل طور پر قبول نہیں کرتے بلکہ اس میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ علمائے دین کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس زمانے کی سماجی ضرورت اور تاریخی تناظر دونوں کو مدنظر رکھ کر اکبر کی پالیسی سے اس کی خامیاں دور کرتے اور وحدت الوجود اور وحدت انسانیت کے اصولوں کے مطابق اسے آگے بڑھاتے۔اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو اسلام ہندوستان کا مقامی اور دیسی مذہب بن جاتا اور صدیوں بعد مولانا ابوالکلام آزادؒ کو یہ دہائی نہ دینی پڑتی کہ ہندوستان پر میرا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک ہندو کا۔مولانا سید حسین احمد مدنی ہندوستان میں اسلام کی اس اجنبیت کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’بادشاہان اسلام نے اولا تو اس طرف توجہ ہی نہیں کی، بلکہ وہ تمام باتوں کا قوت سے مقابلہ کرتے رہے، مگر شاہان مغلیہ کو ضرور اس طرف التفات ہوا، خصوصا اکبر نے اس خیال اور اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا اور اگر اس کے جیسے چند اور بادشاہ ہو جاتے یا کم از کم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنو ں کی چال مدفون ہو جاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے صرف اشخاص پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔‘‘(2)
’’مولانا سید حسین احمد مدنی کے اس بیان پر غور کیجیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقلدانہ نظر کس طرح چیزوں کو صرف ان کے ظاہر ( face value ) پر لیتی ہے، اور مجتہدانہ نظر کس طرح چھپی ہوئی حقیقتوں تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ اکبر کے معاملہ کو غلط رنگ دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانی تاریخ کا سفر اسلام کی موافقت میں جاری ہونے کے بجائے اسلام کے خلاف جاری ہو گیا۔‘‘(3)
بات لمبی ہوتی جا رہی ہے اس لیے مزید تفصیلات سے گریز کر کے حاصل کلام کی طرف آتے ہیں کہ اگر اس واقعہ کو تاریخی و واقعاتی تناظر سے کاٹ کر دیکھا جائے تو اکبر کی پالیسی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی جیسا کہ علمائے دین کی اکثریت کی رائے ہے مگر مولانا سندھیؒ کی مجتہدانہ بصیرت کی داد یتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے تناظر میں دیکھا جائے تو اسی پالیسی کو مغل سلطنت کا جھومر کہے بنا چارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا سندھیؒجب ہندوستان کی خوبیاں گنواتے ہیں تو جلال الدین اکبر کا نام بڑی محبت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ (4)
واقعات کی موضوعی حقیقت reality) (objective کی اہمیت سمجھنے کے لیے اشہر حرام سے متعلق قرآنی آیات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ عہد نبوی میں ہجرت مدینہ کے فورا بعد ہی رسول اللہ ﷺ نے قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کے خلاف چھوٹی موٹی کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ اس قسم کے ایک واقعہ میں مکہ کے تجارتی قافلے کے چند افراد مارے گئے۔ اتفاق سے یہ واقعہ اس مہینے کے شروع میں ہوا جس میں عربوں کے ہاں ایک دوسرے پر حملہ کرنا ممنوع تھا۔ چنانچہ اس واقعہ کی خوب تشہیر کی گئی اور لوگوں کو باور کرایا گیا کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو عربوں کی ایک بہترین روایت کو بھی قبول نہیں کرتا۔ چنانچہ اشہر حرم میں لڑائی کی بابت آیات کا نزول ہوا جن میں بتایا گیا کہ
’’کہہ دو لڑائی اس مہینے میں بڑا گناہ ہے اور روکنا اللہ کی راہ سے اور اس کو نہ ماننا اور مسجد حرام سے روکنا اور نکال دینا اس کے لوگوں کووہاں سے، اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔‘‘(5)
آیت کریمہ کے طرز استدلال سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعات کو درست تاریخی و واقعاتی تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا کس قدر ضروری امر ہے؟ قرآن نے اس آیت میں اشہر حرام کے اندر لڑائی کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ اس جانب رہنمائی کی ہے کہ کسی بھی اقدام کا واقعاتی تناظر اس کی حیثیت کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ چنانچہ اشہر حرام میں لڑائی کی حرمت اپنی جگہ باقی ہے لیکن مذکورہ واقعہ کو بجائے حرمت و حلت کے اس کے درست سماجی و واقعاتی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جس کی بنا پر بعض اوقات بظاہر نادرست اقدام بھی اہم خارجی عناصر کو دیکھتے ہوئے درست قرار پاتا ہے۔
ریاست، سیاست اور حکومت کی بابت جب بھی دینی نقطہ نظر سے بحث ہوتی ہے تو حدود اللہ یا شرعی سزاؤں کا ذکر حرف اولیں کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں اگرچہ اہل علم کی ایک معتد بہ تعداد ایسی ہے جن کے ہاں حدوداللہ کو بعینہٖ نافذ العمل نہیں سمجھا جاتا۔ مگر انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے آغاز میں اس موضوع پر سرے سے گفتگو کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ سر سید احمد خان اور ڈاکٹر اقبال جیسی قدآور شخصیات کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ مولانا ابوالکلام آزاد جیسا جری انسان بھی حدود اللہ کی بابت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ پاتا کہ’’اسلامی نظام کے قیام سے پہلے ان سزاؤں کی اہمیت نہیں۔‘‘(6)
یعنی اگر آج اسلامی نظم حکومت قائم ہو جانے کی صورت بن جائے تو حدود اللہ کو بعینہٖ نافذ کیا جائے گا۔ مگر مولانا سندھیؒ کے ہاں حدود اللہ کی بابت یہ تنگ دامنی نہیں پائی جاتی۔ اس باب میں بھی مولانا تاریخیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ مولانا کی رائے میں ان سزاؤں کا محل عرب سماج تھا اور جس زمانی عرصہ میں ان کا نزول ہوا اس زمانے کے تمدنی عرف میں قرآنی سزائیں ہی بہترین آپشن تھا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ یہ سزائیں ہر سماجی گروہ پر تا قیامت جوں کی توں نافذ العمل رہیں گی بلکہ وقت کے ساتھ جیسے جیسے انسانی شعور ترقی کرتا جائے گا اور جہاں جہاں تمدنی ضروریات میں تبدیلی واقع ہو گی وہاں ان سزاؤں میں روح عصر کے مطابق ایسی ترمیم کرنا ،جس سے سزا کی حکمت فوت نہ ہو، لازم ہو گی۔ مثلا اگر آج اسلامی نظم حکومت قائم ہو جائے اور انسانیت اپنے تجربے سے اس نتیجے تک پہنچ جائے کہ چور کا ہاتھ کاٹے بنا ہی اسے چوری کی عادت سے روکنا ممکن ہے تو مولانا سندھی ؒ کی رائے میں قطعِ ید پر اصرار کرنا ٹھیک نہ ہو گا۔ پروفیسر محمد سرور لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ فکر اور قانون پر گفتگو ہو رہی تھی۔۔۔ارشاد ہوا: قانون نتیجہ ہے ایک خاص قوم کے خاص حالات اور خاص زمانے کے تقاضوں کا، زمانے کا تقاضا ہی منشائے خداوندی ہوتا ہے۔ ہر زمانہ شان اللہ ہے۔ نئے زمانے اور اس کے تقاضوں کو نہ ماننا شؤون اللہ کا انکار ہے۔۔۔ راقم الحروف نے عرض کیا کہ قانون اگر قوموں کے مزاج اور زمانے کے حالات کے مطابق بنتے ہیں تو قوموں کے مزاج اور زمانے کے حالات تو بدلتے رہتے ہیں۔ اس صورت میں خود قرآن کے اندر جو قانونی احکام ہیں، وہ کیسے ابدی ہو سکتے ہیں؟ فرمانے لگے : بالکل نہیں، ان قانونی احکام کی حیثیت اس وقت ہمارے لیے ایک نمونہ اور مثال کی ہے اس سے زیادہ نہیں۔‘‘(7)
یہاں اس نکتے کی وضاحت بھی مناسب ہو گی کہ بہت سے دیگر اہل علم جو حدود اللہ کے باب میں گنجائش کامیلان رکھتے ہیں ان کے ہاں اس کا سبب تاریخی و سماجی تناظر نہیں بلکہ دیگر وجوہات ہیں۔ مولانا سندھی ؒاس باب میں غالبا ہندوستانی مفکرین میں اپنی نوعیت فکر کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے حدوداللہ کی حیثیت بجائے نصوص کے لفظی معنی کے ان کے تاریخی و سماجی تناظر میں متعین کی ہے۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ نے اپنی کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور ان کے ناقد‘‘ میں مولانا کی اس رائے کو سیدنا عمرؓکے چند فیصلوں کے ذریعے تقویت دینے کی کوشش کی ہے۔(8)
مگر ہماری رائے میں اس طرح مولانا سندھیؒکا نقطہ نظر ثابت نہیں ہوتاکیونکہ مولانا سندھیؒ حدوداللہ کو مثال اس وجہ سے نہیں کہتے کہ سیدنا عمر ؓ یا کسی اور نامور خلیفہ نے تاریخ کے کسی موڑ پر انہیں معطل کیا بلکہ مولانا کا اصرار ہے کہ قرآن کریم میں مذکور ان سزاؤں کو دیکھنے کا درست تناظر تبھی سمجھ میں آئے گا جب ان کا سماجی و تاریخی مقام طے کیا جائے۔مولانانے اپنی رائے کے حق میں شاہ ولی اللہؒ کی بعض عبارتیں ’’فیوض الحرمین‘‘ اور ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ سے پیش کی ہیں لیکن شاہ صاحب کی عبارتوں سے یہ نتائج بہ تکلف ہی ثابت کیے جا سکتے ہیں۔ زیادہ بہتر بات یہی ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مولانا سندھیؒ کی رائے ان کی اپنی فکری کاوش ہے اور بڑی حد تک صائب بھی۔ کیونکہ نصوص خود بھی تو ایک مخصوص سماجی پس منظر اور تاریخی تناظر رکھتی ہیں جس کے بنا نصوص پر عمل تو درکنار ان کا فہم حاصل ہونا بھی دشوارہے۔ڈاکٹرفضل الرحمن لکھتے ہیں :
’’درحقیقت ابدیت ان علل اور غایات کو حاصل ہے، جو قرآنی احکام کی تہ میں ہیں اور جو ہمیشہ قرآن سے صراحتاً، کنایتاً یا سیاقاً اخذ کی جا سکتی ہیں۔۔ جو شخص بزعم خود ’’منصوص‘‘ پر اڑا ہوا ہے اور بھولا ہوا ہے کہ ان نصی احکام کا ایک خاص پس منظر، خاص حالات اور خاص گرد و پیش سے ربط ہے اور یہ کہ درحقیقت ان نصی احکام کی جان ان کی علت غائی اور ان کا مقصد ہے۔ چاہے حالات کچھ بھی ہوں، نص پر سختی سے اڑے رہنے سے علت غائی اور مقصد حقیقی فوت ہو جانا یقینی ہے۔‘‘(9)
شاہ ولی اللہؒ کی کتب میں مجموعی طور پر اسی علت غائی کو حق اور باطل، برّ اور اثم، قانون سازی اور اخلاقی تصورات میں ایک اہم کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، یعنی مظاہر کے بجائے مقاصد پر توجہ رکھنے کی دعوت دی گئی ہے۔ مقاصد جس طریقے پر عمل کرنے سے حاصل ہوں وہی نیکی کہلاتی ہے۔ حجۃ اللہ البالغۃ میں لکھتے ہیں:
’’ہر وہ عمل بھی نیکی ہے جو ان ارتفاقات ( سماجی اداروں) کی اصلاح کرے جن پر کہ انسانی نظام کی بنیاد ہے۔ جس طرح اہل عقل و دانش نے ارتفاقات کا استنباط کیا، لوگوں نے اسے صدق دل سے مانا اور سب دنیا والوں کا ان پر اتفاق ہے، اسی طرح نیکی کے بھی کئی طریقے ہیں، جن کا نیک باطن لوگوں کو الہام کیا گیا، لوگوں نے ان کی پیروی کی، تمام ملتوں کے پیروکار شہروں کی دوری اور اپنے ادیان و مذاہب کے اختلاف کے باوجود اپنی فطری مناسبت اور نوع انسانی کے تقاضوں کے تحت نیکی کے ان طریقوں پر متفق ہو گئے۔‘‘(10)
عام طور پر خلافت راشدہ کو اسلامی نظم حکومت کا معیاری دورسمجھا جاتاہے۔ آج بھی جن حضرات کے ہاں اسلامی نظم حکومت قائم کرنے کی فکر پائی جاتی ہے ان کے ہاں خلافت علی منہاج النبوۃ اور قرآنی یا الٰہی حکومت کے الفاظ بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ لیکن سوائے مولانا سندھیؒ کے کوئی ایک مفکر بھی الٰہی حکومت سے شخصی آزادی(مذہب کی آزادی، اظہار راے کی آزادی اور پریس کی آزادی وغیرہ) کا تصور کشید نہیں کرتا۔ آزادی اظہار رائے کی بات اگر کسی کے ہاں کی جاتی ہے تو چند ایسی پابندیوں کے ساتھ جن کا تعلق عقیدے سے ہے۔ تبدیلی مذہب کی اجازت کا تو تصور تک ممکن نہیں، البتہ معاصر دنیا کی طرف سے لاحق مجبوریوں کی بنا پر ارتداد کی سزا کو کسی نہ کسی صورت میں accommodate کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمان ریاست میں اسلام کے علاوہ کسی مذہب کی اعلانیہ تبلیغ کی اجازت دینے کا ہر امکان رد کیا جاتا ہے۔اس کے برعکس مولانا سندھیؒ کی رائے میں خلافت راشدہ اگرچہ الٰہی حکومت کا معیاری نمونہ تھی مگر خلافت کے بعد کی حکومتیں، جنہیں ملوکیت و بادشاہت کا نام دے کر discreditکیا جاتا ہے، بھی الٰہی حکومتیں ہی تھیں۔ مولانا کا ماننا ہے کہ خلافت راشدہ مخصوص سماجی و زمانی حالات کا مظہر تھی جس کا اعادہ نا ممکن ہے۔ فرماتے ہیں:
’’جو زمانہ گزر گیا، وہ پھر واپس نہیں آیا کرتا۔ جو پانی بہہ جاتا ہے، وہ لوٹتا نہیں۔ قرآن پر عمل کر کے خلافتِ راشدہ کے دور اول میں صحابہ نے جو حکومت بنائی اب بعینہٖ ویسی حکومت نہیں بن سکتی۔ جو لوگ قرآن کو اس طرح سمجھتے ہیں وہ حکمت قرآنی کے صحیح مفہوم کو نہیں جانتے۔بیشک خلافت راشدہ کی حکومت قرآنی حکومت کا ایک نمونہ ہے لیکن یہ نمونہ بعینہٖ ہر دور میں منتقل نہیں ہو سکتا۔‘‘(11)
وقت اور حالات کے بدلنے اور اسلام کی مختلف جغرافیائی ثقافتوں سے آشنائی کی وجہ سے طرز حکومت میں تبدیلی آنا ناگزیرامر تھا۔ اموی و عباسی ادوار اسلامی ہیں تو صفوی، فاطمی ، عثمانی اور مغل حکومتیں بھی اپنے متنوع ثقافتی ڈھانچے کے باجود اسلامی ہی کہلائیں گی۔پروفیسر محمد سرور لکھتے ہیں:
’’مولاناکہتے تھے: افسوس کی بات یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے عربوں کے دورکو مقدس سمجھ لیا گیا اور ایرانیوں، ترکوں اور ہندوستانیوں کے عہد کو زوال کا زمانہ مان لیا گیا۔ حالانکہ اسلام کے عالمگیر انقلاب کے اعتبار سے یہ سب دور ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔‘‘(12)
جہاں مولانا ان سب حکومتوں کو الٰہی یا اسلامی حکومت مانتے ہیں وہاں ان میں سے کسی ایک کو بھی مثالی اور حرف آخر نہیں مانتے۔ ان کی رائے میں ہر زمانے اور ہر علاقے کا اپنا مزاج ہوتاہے، مروجہ علمی زبان میں اسے روح عصر سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کا اعتبار کیے بغیر کوئی بھی نظم اجتماعی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ الٰہی حکومت کے قیام پر اصرار کرنے والے مولانا سندھیؒجب ہندوستان کے سیاسی نظم کے لیے اپنا فارمولا پیش کرتے ہیں تو سیکولر بنیادوں پر قائم جمہوری طرز سیاست کو بنیاد بناتے ہیں۔ مولانا اس فارمولے میں خلافت راشدہ ماڈل کے مطابق ہمہ گیر اور لا محدود اسلامی سلطنت کے بجائے جدید قومی ریاست کو اپناتے ہیں اور ہندوستان کو ریاستی اکائیوں (confederations) میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ صوبائی خود مختاری کی بات کرتے ہیں اورکئی رواجوں اور ثقافتوں میں تقسیم مسلمان ممالک کے اتحاد کے بجائے علاقائی طاقتوں کے ساتھ اتحاد پر زور دیتے ہیں۔(13)
مولانا کے ناقدین اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی اپروچ پر عمل کرنے سے قرآن و سنت کی ثابت نصوص یا تو اپنے درست تناظر سے ہٹ جاتی ہیں یا وہ غیر متعلق ہو کر ر جاتی ہیں۔ بادی النظر میں یہ اعتراض نہایت ہی ٹھوس لگتا ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ ایسا اسی صورت میں ہو گا جب کہ نصوص کو کسی خاص زمانی عرف کے ساتھ مخصوص کر کے ان کے مفاہیم کو محدود کر دیا جائے۔ مولانا کی رائے میں نصوص ساکت و جامد نہیں بلکہ زندہ جاوید ہیں۔ اگر نصوص کو تاریخ کے کسی خاص دور میں اخذ کردہ مفاہیم و معانی کے اندر محدود کر دیا جائے تو قرآن کے تا قیامت کتاب ہدایت ہونے کے تصور پر زد پڑتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو کتاب تاریخ کے ایک خاص موقع اور سماج کی ایک مخصوص شکل میں محدود ہو وہ مسلسل ارتقاء پذیر انسانی سماج کے لیے ہمیشہ قابل عمل کیسے رہ سکتی ہے؟ ہماری رائے میں مولانا کی اپروچ پر عمل کرنے سے قرآن و سنت کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے کیونکہ اس اپروچ میں قرآن ہر دور کے انسان کے ساتھ اسی کے عرف و عادت کے مطابق مخاطب نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا قرآن کی آیت ’’کل یوم ھو فی شان‘‘ کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ نصوص کے معاملے میں شاہ ولی اللہؒ کی عبارات سے ایک واضح مفہوم متبادر ہوتا ہے۔ حدود و شعائر کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’بعد میں آنے والوں پر فی الجملہ تو یہ حدودباقی رہیں گی لیکن اس معاملے میں ان پر زیادہ تنگی نہ کی جائے‘‘۔
اہل نظر جانتے ہیں کہ حدود کا بیان جن نصوص میں ہوا ہے وہ کس قدر واضح ہیں۔ خاص طور پر چوری اور زنا کی حد تو بالکل صاف اور صریح ہے، نص قطعی ہے، مطلق ہے کسی قید سے مقید بھی نہیں لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اور شاہ صاحب کی عبارت ایک اور ہی رخ سامنے لا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان حضرات کے ہاں بھی نصوص پر عملدرآمد کے باب میں سماجی حالات اور واقعاتی تناظر کا اعتبار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ حدود کے معاملے میں لچک کا یہ عالم ہے تو دوسرے شعائر اور سماجی اداروں میں اس کا کیا حال ہو گا۔
اس موضوع کی مزید وضاحت کے لیے نصوص تو ایک طرف مسلمان سماج میں نصوص کی بنیاد یعنی تصور خدا اور عقیدہ رسالت کی بدلتی تشریح کو ایک نظر دیکھ لیا جائے تو بھی حضرت سندھی کی مراد واضح ہو جائے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ آگے بڑھتے زمانے اور شعوری ارتقاء کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ہاں مذکورہ بالا دونوں بنیادی تصورات بھی بدلتے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک گروہ نے تشبیہ و تجسیم کو اس انتہا تک پہنچا دیا کہ قرآن میں مذکور ہاتھ، چہرہ اور ضحک وغیرہ صفات کو اللہ کی ذات میں ثابت کر دیا،جبکہ ایک دوسرے گروہ نے تنزیہ کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے خدا کو ’’قدرمحض ‘‘بنا دیا۔ایک گروہ نے وحدت الوجود جبکہ دوسرے نے وحدت الشہود کو ثابت کیا۔ چنانچہ خدا کا تصور کہیں ماورائی (transcendental) تھا تو کہیں سریانی (immanent)۔اسی طرح عقیدہ رسالت کی بنیاد یعنی وحی کی بابت مسلمانوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ وحی نبی ؐ کی ذات سے الگ وجود ہے۔جبکہ حکماء کی رائے میں وحی ’’از دل خیز دبر دل ایزد‘‘ کی صورت دل سے اٹھتی اور دل پر نازل ہوتی ہے۔ شبلی نعمانی’’ سوانح مولانا روم‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’پس جبریل کہ مشہود رسل علیہم السلام است ووحی از جانب حق سبحانہ می رساند،آں حقیقت جبریلیہ است کہ قوتی از قواء رسل بود،متصور شدہ در عالم مثال در صورتی کہ مکنون بود در رسل مشہود می شود،و مرسل می گردد، و پیغام حق می رساند۔ پس رسل مستفیض از خود اند نہ از دیگری۔‘‘(15)
’’جبریلؑ جو انبیاء کو نظر آتے تھے اور خدا کی طرف سے وحی لاتے تھے ،وہ حقیقت جبریلیہ ہے، جو انبیاء کی قوتوں میں سے ایک قوت ہے۔ یہی قوت صورت بن کر عالم مثال میں انبیاء کو محسوس ہوتی اور خدا کی طرف سے قاصد بن کر پیام لاتی ہے تو انبیاء اپنے آپ سے ہی مستفید ہوتے نہ کہ کسی اور سے۔ جو کچھ ان کو نظر آتا ہے وہی ہے جو ان کے خزانہ میں مخزون تھا۔‘‘
بعض ناقدین کے مطابق مولانا سندھیؒ سوشلزم سے متاثر بلکہ مرعوب ہو گئے تھے ، اس لیے شاہ صاحبؒ کی کتب کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے اور ان سے بے محل استشہاد کرتے پائے جاتے ہیں۔ ہماری رائے میں شاہ صاحبؒ کی کتب سے استشہاد میں مولانا کو اگر مقلد محض سمجھا جائے تو یقینا ناقدین کا اعتراض درست ہو گا مگر حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ مولانا سندھیؒشاہ صاحبؒکی کتب اور ان کے افکار کی محض تقلید نہیں کرتے بلکہ انہیں اپنے دور کے تناظر میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں،اس لیے مذکورہ اعتراض درست نہیں۔ ویسے بھی مولانا سندھیؒاور شاہ صاحب ؒکے درمیان قریب اڑھائی سو سال کا لمبا عرصہ حائل ہے۔ اگر مولانا سندھیؒ شاہ صاحبؒکے ڈھائی سو سالہ پرانے افکار پر جوں کا توں اصرار کرتے تواس سے زیادہ بہتر تھا کہ قدامت پرست طبقے کی طرح براہ راست چودہ سو سالہ قدیم تعبیر کو ہی جوں کا توں زندہ کرنے میں اپنی زندگی گزار دیتے۔ لیکن معاصر دنیا میں انتہائی محدود تعداد میں پائے جانے والے قدامت پرست طبقے کے سوا شاید ہی کوئی ایسی اپروچ رکھتا ہو۔حال یہ ہے کہ اگر سید ابو الاعلی مودودیؒاور ڈاکٹر اقبال ؒ جیسے(اپنی سیاسی فکر کے حوالے سے) قدامت پرست مفکرین اس اولین معیاری طرز سماج کو بعینہٖ نافذ العمل نہیں مانتے تو مولانا سندھیؒ سے شاہ صاحبؒ کی فکر پر بعینہٖ اصرار بدرجہ اولیٰ لا یعنی قرار پاتا ہے۔کیونکہ مولانا سندھیؒایک قوم کی تاریخ، زبان، اور اس کے ادب کے تسلسل کی طرح اس کے فکر کے تسلسل کو قائم رکھنے کے بھی زبردست حامی تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اس تسلسل کے بغیر کوئی قوم فطری اور صحت مند بنیادوں پر ترقی نہیں کر سکتی۔ مولانا تسلسل سے مراد یہ لیتے تھے کہ انسان کو اپنے ماضی کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہیے نہ کہ وہ اسے حرف آخر مان کر پاؤں کی زنجیر بنا دے۔چنانچہ پروفیسر محمد سرور رقمطراز ہیں:
’’ فروری یا مارچ 1944 کے دن تھے۔ مولانا جامعہ نگر اوکھلا دہلی میں مقیم تھے۔ جامعہ کی مرکزی عمارتوں کے سامنے اوکھلا روڈ کی دوسری طرف ایک چائے خانہ تھا، جس کے ساتھ ایک کھلا ہوا لان بھی تھا۔ لان میں جامعہ والے اکثر جا بیٹھتے اور چائے پیتے۔ ایک دن مولانا بھی وہاں تشریف لے گئے۔ راقم الحروف بھی ان کے ساتھ تھا۔ اتفاق سے پروفیسر سلامت اللہ اور ان کے ساتھی بھی وہاں موجود تھے۔ چنانچہ مولانا کے ساتھ ان کی باتیں شروع ہو گئیں۔ مولانا انہیں یہ ذہن نشین کرانے لگے کہ آپ کے جو نظریات، مقاصد اور عزائم ہیں، آپ ان کو مسلمانوں میں لے جانے اور انہیں ان کا قائل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے، جب تک آ پ میری بات نہ مانیں اور شاہ ولی اللہؒ کی حکمت کی آج اس دور کے تقاضوں کے مطابق نئی تعبیر کر کے اسے اپنے فکر و عمل کو آگے بڑھانے کا واسطہ نہ بنائیں۔‘‘(16)
رہی بات سوشلزم سے تاثر قبول کرنے کی تو خود مولانا سندھی ؒ اس بابت وضاحت کرتے ہیں کہ کسی بھی فکر کو مکمل طور پر نہ تو قبول کیا جاتا ہے اور نہ ہی رد۔ کیونکہ ہر فکر دیکھنے والوں کے اپنے زاویہ نظر کی بنیاد پر اپنے اندر خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر سوشلزم کی کسی خوبی کو مولانا قبول کرتے ہیں تو اعتراض کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ البتہ دیکھنا ہو گا کہ مولانا جن چیزوں کو قبول کرتے ہیں ، ان سے اسلام کی جوہری ہیئت پر منفی اثر پڑتا ہے یا نہیں اور ہمارے خیال میں مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا سندھیؒ کی فکرمیں ایسی کوئی خرابی نہیں پائی جاتی، جس سے اسلام کی جوہری ہیئت پر کوئی زد پڑتی ہو، کیونکہ اگر ایسا ہے تو ان سے پہلے شاہ ولی اللہؒکو کٹہرے میں لانا ہو گا۔
( مقالہ نگار گفٹ یونی ورسٹی،گوجرانوالہ،پاکستان کے شعبہ اسلامی فکر وثقافت میں ایم فل اسکالر ہیں اور مدرسہ ڈسکورسز پروگرام سے بحیثیت طالب علم وابستہ ہیں ۔ای میل: jawdatsyria2013@gmail.com)