Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
روایت اپنی ذات میں کیا چیز ہے ؟ روایت اپنی تفصیلات میں کس مرکز کے گرد گھومتی ہے؟ روایت کی تفہیم کی کسوٹی کیا ہے؟ کیا روایت کوئی تسلسل ہے یا عدم تسلسل کا دوسرا نام روایت ہے؟ روایت انسانی شعور اور وجود کو متاثر کرتی ہے یا اس سے متاثر ہوتی ہے؟ روایت فکر ہے ،عمل ہے یا پھر انسانی رویہ؟ روایت راہ ہے راہنما ہے یا پھر منزل؟ روایت بوسیدگی ہے پژمردگی ہے یا پھر تازگی؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات روایت کی تفہیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات مختلف انداز میں دیے گئے ہیں۔ روایت کو مختلف لوگوں نے مختلف انداز سے سمجھا اور بیان کیا ہے۔یہاں پر ہم چار مختلف مناہج پر گفتگو کریں گے جو روایت کی تفہیم میں الگ حیثیت کے حامل ہیں۔
روایت کے لیے انگریزی زبان میں (tradition) کا لفظ بولا جاتا ہے جو کہ اس کا مبہم اور غیر اطمینان بخش ترجمہ ہے۔ عام طور پر روایت کا لفظ سنتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی پرانا خیال یا فرسودہ عمل ہے جو روایت کے عنوان سے معروف ہے۔اور اسی طرح روایت کو زندہ کرنے کی بات کی جائے تو یہی خیال گزرتا ہے کہ کسی پرانے رویہ کو اجاگر کیا جائے۔ جدید دور میں روایت یا ٹریڈیشن کے لفظ سے زیادہ کلچر کے لفظ کو پسند کیا جاتا ہے۔ایسا اس لیے ہے کہ ٹریڈیشن کے لیے آپ کو کوئی اتھارٹی کا حوالہ دینا ہوتا ہے جبکہ کلچر میں اتھارٹی نہیں ہوتی۔ آج ما بعد جدیدیت کے دور میں اس کے لیے کلچر کا لفظ زیادہ معروف ہے۔
کلچر میں سوچ غیر اہم ہوتی ہے۔ میں یہ اس وجہ سے کر رہا ہوں کہ سب کر رہے ہیں اور اس میں کوئی مخصوص شخص یا مستند حوالہ ذمہ دار نہیں ہوتا۔اس میں کسی اتھارٹی کی طرف سے کسی بھی عمل کیlegitimacy کی ضمانت نہیں دی جاتی۔روایت اپنے اندر ایک تجربہ اور حکمت رکھتی ہے۔ تہذیبی سطح پر اور علمی سطح پر ایک مستند حوالہ رکھتی ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹریڈیشن کا مطلب ہے کسی ایسی چیز کی اندھی تقلید جو کہ عقلی نہ ہو بلکہ محض پریکٹس میں ہو۔ یہ روایت کی عمومی تفہیم ہے۔جبکہ حقیقت میں روایت اس سے بہت مختلف ہے۔بغیر سوچے سمجھے کسی چیز کو محض روایت کے نام پر قبول کرنا اور اس کی حتمیت پر اصرار کرنا روایت پرستی کہلاتا ہے۔
روایت پرستی کا مطلب روایت نہیں ہے اور اسی طرح روایت پسندی کا مطلب روایت پرستی نہیں ہے۔ اس لیے کہ روایت پسندی میں کسی مخصوص ہیئت پر اصرار نہیں کیا جاتا بلکہ اس میں روایت کی روح کو برقرار رکھا جاتا ہے۔
قدیم نقلی روایت سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے تکمیلی ظہور کے بعد جب وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا اور آسمان سے انسان کا رابطہ کٹ گیا تواس کے بعد حضرت محمد ؐ کے قول، فعل اور تقریر کوکسی بھی درپیش معاملہ میں راہنمائی کے لیے بطور سند نقل کر دیا جاتا اور اس نقل شدہ ذخیرے کو آج ہم حدیث کے عنوان سے جانتے ہیں۔ اس کو انگریزی میں tradition reportingکہا جاتا ہے۔ اس میں جو کچھ نقل کیا جا رہا ہوتا ہے،اس نقل کو روایت اور نقل کرنے والے کو راوی کہا جاتا ہے۔راوی اپنی روایت کو نقل کرتے ہوئے سند کے طور پر اس روایت کے ذرائع اور اتصال کو بھی بیان کرتا ہے۔ نقل کرنے کی یہ روایت فطری بھی ہے اور انسانی علم میں قابل فخر سرمایہ بھی۔ مسلمانوں نے اس عظیم روایت کو بام عروج پر پہنچایا۔ روایت کا یہ مفہوم نہایت محدود اور ایک مخصوص علمی دائرے میں منحصر ہے اور اس روایت کی زبان عربی ہے۔
سادہ اور سپاٹ مزاج عربوں میں پروان چڑھنے والا مذہب اسلام نہایت ہی سادہ، عمومی اور سریع الفہم اصولوں پر مبنی تھا جس کا مقصد عقائد اور اعمال کی پاکیزگی تھا لیکن جب اسلام جغرافیائی حدیں عبور کر کے دوسری اقوام و ملل تک پہنچا تو مختلف نفسیاتی، معاشرتی، علاقائی، اور علمی عوامل اس پر اثرانداز ہوئے اور یونانی فکر پر مشتمل فلسفیانہ مباحث بھی اس میں در آئے اور اس طرح اسلام میں حقیقت کی تعبیر اور تشریح کا مسئلہ پیدا ہوا جس سے مسلم الٰہیات نے جنم لیا۔ علم الکلام کی پیدائش کے رد عمل میں علماء کی ایک جماعت نے غیر کلامی رویہ کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ وہ قرآن و حدیث کے ظاہری مفاہیم کو فوقیت دیتے تھے۔ ان علماء کو روایت پرست (traditionist) کہا جاتا ہے۔
معتزلہ نے کلامی مسائل میں مذہبی عقائد کی عقلی توجیہ و تاویل اور صداقتوں کے تعین میں عقل کے کردار کی اہمیت کو ابھارا تو انہوں نے معتزلہ کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔بلکہ ابوا لحسن اشعری نے جب معتزلہ کو انہی کے فلسفیانہ اسلوب اور عقلی انداز میں جواب دینا شروع کیا تو ان اصول پسند متشدد مدرسی علماء نے امام اشعری پر بھی سخت تنقید کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ الٰہیاتی مسائل اور کلامی مباحث غیر اسلامی ہیں۔اس لیے کہ جس چیز کے متعلق آپ ؐ نے کچھ نہیں فرمایا اس پر بحث کرنا خلاف سنت ہے اور اگر یہ ضروری ہوتا تو آپؐ ان سے متعلق ہدایات فرماتے اور وہ روایات میں موجود ہوتا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اسلامی احکام میں عقل و فراست کا استعمال بدعت اور ضلالت ہے۔ امام اشعری نے اپنی کتاب ’’ الرسالۃ فی استحسان الخوض فی علم الکلام‘‘ میں ان کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے اور اس پر بحث کی ہے کہ یہ روایت پرست خود اپنے اصول ہی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اگر آپ ؐ نے ان مسائل سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا تو ان کو ممنوع بھی تو نہیں قرار دیا اور اگر یہ روایت پرست خود سے اسے ممنوع قرار دیتے ہیں تو یہ دراصل خود اس بدعت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
ان traditionists کو اہلِ حدیث یا اصحاب حدیث بھی کہا جاتا تھا جبکہ ’’ نویں صدی کے روایت پرستوں نے اپنے لیے اہل السنہ کی اصطلاح کو ترجیح دی۔‘‘(1) لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اہل حدیث محدثین کے مترادف نہیں ہیں۔ محدثین علم حدیث کے علماء یا ماہرین کو کہا جاتا ہے جن کے لیے ضروری نہیں کہ وہ روایت پرست بھی ہوں۔ اصحابِ حدیث کی اصطلاح حدیث اور روایات سے متعلق ایک خاص رویہ رکھنے والوں کے لیے معروف تھا۔ اور آج کے دور میں بھی اس لفظ کا مدلول حدیث سے متعلق ایک خاص رویہ اور رائے رکھنے والی جماعت ہے۔ آٹھویں صدی میں یہ جماعت فکر اسلامی کے منظر نامے پر نمودار ہوئی اور دسویں صدی کے بعد یہ ناپید ہونا شروع ہوگئے۔ لیکن آج کے دور میں بھی اسلامی تہذیب، کلچر، قانون اور معاشرے کے بارے میں ان جیسی جامد،ناقابل تغیر اور انتہاپسندانہ رائے رکھنے والے لوگ موجود ہیں جو روایت کو اس کی منجمد صورت میں محبوس رکھنا چایتے ہیں۔
بغداد کے بعض روایت پسند بعد میں فقہ کے حنبلی مکتب فکر کی صورت میں سامنے آئے۔ خود امام احمد بن حنبل کا شمار بھی اپنے وقت کے ایک عظیم traditionist عالم کے طور پر ہوتا ہے۔ ان کے استاد سفیان بن عییینہ اور یحییٰ بن سعید القطان(2) بھی روایت پسندی کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔
قدیم روایت پرست اپنی مذہبی اور اخلاقی شناخت کو ایک خاص وقتی ساخت یا مثالی نبوی دور کی صورت میں برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ ان روایت پسندوں کی کچھ نمایاں خصوصیات یہ تھیں۔
سنجیدگی کا غلو آمیز تصور : ٹریڈیشنسٹ کی اکثریت اپنے چہروں پر مسلسل اور غیر منقطع سنجیدگی قائم رکھتی تھی۔ کسی قسم کی تفریح، مسکرانا اور خوشی کا اظہار اس کے نزدیک ناپسندیدہ تھا۔ قہقہہ اور مسکرانا ان روایت پرستوں کے ہاں انتہائی قبیح فعل تھا۔ ان میں سے بعض روایت پسند اپنی اس سنجیدگی میں غلو کی انتہا کو پہنچ جاتے تھے جن میں سے چند ایک کاتذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔ معروف روایت پرست یوسف ابن اسباط (810م) کے بارے میں معروف تھا کہ وہ تیس برسوں میں کبھی مسکرائے نہیں اور چالیس سال تک انہوں نے کسی سے مذاق نہیں کیا۔ بشر الحافی(841م ) نے مسکرانا اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ کہیں وہ اس حالت میں مر نہ جائیں (جو ان کی نظر میں بدترین موت تھی) عبد الوہاب(865م ) نامی ایک حنبلی زاہد نے جب اپنے بیٹے کو اس کی ماں کے ساتھ ہنستے ہوئے دیکھا تو کہا کہ ’’کیا قرآن کا ماہر اس طرح ہنستا ہے‘‘(3)وہ خدا ترسی کی حالت کو برقرار رکھنے کے لیے سنگین حد تک خود پر جبر کرتے تھے۔ ان کے زہاد اپنی اس خاص شناخت کی وجہ سے اس وقت کے متصوفین اور معتزلی زاہدوں سے الگ نظر آتے تھے۔
پاکیزہ احساس اجتماعیت : ان روایت پرستوں کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ جماعت بندی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ان میں ناصحانہ اجتماعیت کا پاکیزہ احساس بہت شدت سے پایا جاتا تھا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ نیک اور پاکیزہ لوگ جو روایت کی اس خاص تعبیر سے متفق ہیں وہ پاکیزہ احساس اجتماعیت سے سرشار ہوں منٹگمری واٹ کا کہنا ہے کہ ان میں اخوت پسندی کا یہ احساس عرب کے قبائلی مزاج کی وجہ سے تھا۔(4) وہ مسلمانوں کی جماعت کی طرف انتساب پر بہت مصر اور اس تعلق سے انتہائی حساس تھے۔مارشل ہوڈسن نے مسلم برادری کے ساتھ اس انتساب کو ’’مخصوص طیارے کی طرف سفر‘‘سے تعبیر کیا ہے کہ صرف اس طیارے میں سچائی اور اس کی توثیق، پاکیزگی اور اس کا حصول ممکن ہے۔ ان کا خیال تھا یہ رکنیت ان کو جلاوطنی اور دوسرے مصائب و مشکلات سے حفاظت فراہم کر سکتی ہے۔ اور یہ رکنیت ان کے وجود کا اخلاقی جواز بھی مہیا کرے گی۔
غیر متعلق خیال: یہ روایت پرست غیر متعلق خیال کی نفی اور ذہنی یکسوئی پر اصرار کرتے تھے۔ذہنی یکسوئی ایک اصول کی حیثیت سے ان روایت پرستوں کے حلقے میں کارفرما تھی۔ وہ ہر اس خیال اور فکر کو جھٹک دینا چاہتے تھے جو ان کے طے کردہ اسلامی تصور سے مختلف ہو۔ یہ ان کا پسندیدہ اور منفرد اصول تھا جس کو وہ نہ صرف مذہبی مناظروں اور مکالموں میں استعمال کرتے تھے بلکہ اپنے نکتہ نظر کی تبلیغ اور ترویج میں بھی اس کا سہارا لیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اچھے اور معتبر مسلمان کو، جس چیز کا اس کے مذہب سے تعلق نہ ہو اسے چھوڑ دینا چاہیے ورنہ وہ ذہنی خلفشار میں مبتلا ہو گا۔ روایت پرستوں کے ہاں’’غیر متعلق خیال یا چیز‘‘ سے مراد عام طور پر تعقل، بیجا تجسس، اور قیاسی الٰہیات ( theology speculative ) لی جاتی تھی۔ ایک روایت پرست کا قصہ معروف ہے کہ اس نے ایک گھر کے متعلق پوچھ لیا کہ یہ کب تعمیر ہوا تھا اور پھر اسے احساس ہوا کہ یہ تو غیر متعلق سوال ہے اس کی پاداش میں اس نے خود کو ایک ماہ روزہ رکھنے کی سزا دی۔
اس روایت کی زبان علامتی ہے۔۔ان کے اظہار میں ایک ندرت ہے ایک ولولہ ہے ایک گہرا لگاؤ ہے۔ اس روایت میں تمثیلی اسلوب کی جاذبیت موجود ہے۔ان کے ہاں عقل سے زیادہ روحانی تجربہ اہمیت کا حامل ہے۔
کائنات اور اس سے جڑے انسان کی حقیقت زمان ومکان کی ابتداء ہی میں انسانی وجود اور شعور پر منکشف کر دی گئی تھی اور آج تک وہ انسانی فطرت میں ودیعت ہے۔ تمام منظم ادیان، تہذیبی روایات، مابعد الطبیعاتی اسالیب، اور اساطیراسی جوہر حقیقت سے منصہ شہود پر آئے لیکن گردش ایام نے اس پر گرد ڈال دی ہے اور اس کا کچھ حصہ دور جدید کی نیرنگیوں کی تہ میں بھی دب کر رہ گیا ہے۔ ہمیں قدیم جوہری اصولوں کی مدد سے اس متاع عزیز کو دریافت کرنا ہے جو کہ نوع انسانی کا آفاقی سرمایہ ہے۔قدیم آفاقی روایت کا احیا بیسویں صدی میں رینے گینوں، آنند کمار سوامی اور فرڈجوف شوان نے کیا۔ انہوں نے ہمارے زمانے میں بڑے پیمانے پر اس دانش کی ترویج کا فریضہ انجام دیا جو زمانے سے ماورا بھی ہے اور زمانے کا تقاضا بھی ہے۔ (5)
روایت وہ آفاقی قالب ہے جس میں ڈھلنا انسان کا مقصد حیات ہے۔یہاں روایت سے مراد کوئی ثقافت، تہذیب سماج، اقدار یا رواج نہیں ہے بلکہ یہ ایک دائمی حکمت ہے جس کا اظہار نہ صرف تمام بڑی مذہبی روایات بشمول ہندومت، بدھ مت، تاؤمت، کنفیشزم، یہودیت، عیسائیت، اور اسلام میں ہوتا ہے بلکہ مختلف مابعد الطبیعاتی نظام بھی اس حکمت سے بھرپور ہیں۔ اور یہ حکمت ہی انسان کا خصوصی ورثہ ہے۔
This knowledge can scarcely be effective unless it takes account of what is in fact the specifically human heritage, the' primordial tradition' or 'perennial philosophy'(6)
یہ وہ امر ربانی ہے جو تاریخ کے بدلتے موسموں میں آفاقی روایت کے گلدستہ کو سچ کی تازگی بخشتا رہتا ہے۔ خارجی عامیانہ اور کلامی اختلافات یہاں پر داخلی، حکمیاتی اور علامتی مفاہیم میں حل ہوتے ہیں۔ اسی لیے فرڑوف شواں مذاہب کی حقیقت اور صورت میں افقی لکیر کھینچتا ہے اور مذاہب کو ظاہری اور باطنی پہلوؤں میں تقسیم کرتا ہے۔شوان حقیقت کی اقالیم میں تفریق کے لیے esoteric اور exoteric جیسی اصطلاحات استعمال کرتا ہے۔ اور یہ تقسیم خالص روحانی ہے جس کے ذریعے سے مذہب کی وحدت اور کثرت کا ازلی مسئلہ حل کیا جاتا ہے۔ ہسٹن سمتھ جو اس روایت کے نہایت ہی معتبر ترجمانوں میں سے ایک ہیں، انہوں نے شوان کی معروف کتاب
(The Transcendent Unity of Religions)کے تعارفی حصے میں لکھا ہے کہ "The issue of unity and diversity in religion is converted into one of spiritual types: esoteric and exoteric. The esoteric minority consists of men and women who realize that they have their roots in the Absolute."(7)
سچ خارجی کلامی تکثیریت سے ماورا اور واحد ہے اور اس کا عرفان وجدانی طور پر کسی بھی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے۔اس روایت میں مذہب کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اس کا مابعد الطبیعاتی عنصر زندہ رہے۔ جیسے ہی مذہب کی مابعد الطبیعاتی حیثیت ماند پڑنے لگتی ہے تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔اس کے بغیر یہ جذباتیت کا مغلوبہ اور تصوراتی ڈھانچہ بن کے رہ جاتا ہے۔حق کی تلاش اور جستجو اس روایت میں کوئی خاص معانی نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ حق روز اول سے عیاں ہے اوروہ انسانی اور تہذیبی شعور کے مختلف قدیم روایتی دھاروں میں ظہور پذیر رہا ہے۔ اور آج بھی انہی نقوش میں پنہاں ہے۔
فکری ارتقاء یہاں قابل تحسین یا مطلوب نہیں ہے،اگر وہ جوہر اصلی سے منسلک نہ ہو۔اس فکر میں جدید علمی مناہج کا رد کیا جاتا ہے جو کہ قدیم اساسی راہنمائی سے غیر متعلق ہیں۔ادراک کے نئے شعوری سانچے میں اب یہ چیز ڈھل رہی ہے کہ یہ روایت جدیدیت کی علمی تفہیم ہے۔ اس نے جدیدیت پر علمی تنقید کر کے روایت(tradition) کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
’’ رینے گینوں کا دعویٰ ہے کہ جدید علوم، قدیم روایتی علوم کے زوال یافتہ نشانات ہیں۔‘‘(8)
اس روایت کے امین علامتی فراست کے قائل ہیں۔یہ روایت حقیقت کا ایک ناقابل اظہارعلم ہے۔ حقیقت اپنے جوہر میں ایک ہی ہے لیکن اس کا بیان زمان و مکان کے حصار میں مختلف ہوتا ہے۔ اس روایت کے مطابق حقیقت کا اظہار علامتوں (symbols) کے ذریعے ہوتا ہے اور علامتوں سے مراد conventional sign نہیںہیںبلکہ علامتیت دراصل وجود کی وہ ماہیت ہے جوکہ(inherent in the nature of things)(9)اشیاء کی فطرت میںودیعت ہے اور اس کے ذریعے سے ایک مرتبہ حقیقت،دوسرے مرتبہ حقیقت سے مماثل ہوتا ہے۔ رینے گینوں نے اس علامتیت (symbolism) کی اہمیت پر اپنی تحریروں میں بہت زور دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جدید مغرب علامتیت کے پیرائے میں سوچنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔
اس روایت میں دل کو موہ لینے والی ایک خاص طرح کی سحر انگیزی( enchantment) کا عنصر موجود ہے جو انسان کو وقت کی موجودہ بندش سے آزاد رکھتا ہے۔ہم آہنگی اور الفت کی استغراقی کیفیت اس روایت کا خاصہ ہے۔
اس روایت میں وجود کے مختلف مراتب(levels of being) ہیں اور ان میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ اپنے مقام وجود سے شناسائی نہایت ضروری ہے -علم و جہالت عقل و وحی مادی و روحانی ، خاکی و افلاکی، طبیعی و مابعد الطبیعی، انسان اور خدا ہر شی کواگر اس کے مرتبہ وجود میں رکھ کر دیکھیں گے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔ جب تک کوئی شے اپنے مرتبہ وجود میں رہتی ہے توازن برقرار رہتا ہے۔ جیسے ہی مادہ روح کو یا عقل خدا کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتی ہے تو مراتب وجود میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے اور چیزیں الجھنا اور بکھرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ وحدت کثرت میں اور کثرت شعور میں ڈھلنے لگتی ہے اور وجود و شعور میں ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔
اس روایت کا ایک عنصر غرابت بھی ہے جس سے عام لوگ واقف نہیں ہیں۔ جس سطح پر کھڑے ہو کر اور جس علمی مزاج کو قائم رکھتے ہوئے اورجس فکری گیرائی اور روحانی گہرائی میں ڈوب کر وہ بات کرتے ہیں لوگوں کا عمومی مزاج اس سطح اور مقام سے شناسا نہیں ہے۔ اردو زبان میں حسن عسکری کی تحریروں میں سب سے پہلے اس فکر کا تعارف ہوا اور پھر سراج منیر نے اس روایت کی تفہیم اور تبیین میں اپنی زندگی کا قیمتی حصہ صرف کیا اور آج اردو زبان کو سمجھنے والوں میں بے شمار لوگ ہیں جو اس روایت سے وابستہ ہیں۔ان میں سے ایک ممتاز نام ڈاکٹر سہیل عمر کا ہے جنہوں نے ترجمہ اور طباعت کے ذریعہ اس روایت کی ترویج میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔استدلالی قوت اور تنقیحی مزاج اس روایت کا حصہ ہے۔ان کے استدلال سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کے استدلال میں ایک آفاقیت موجود ہے جو جدید ذہن کواس مدامی دانش کی طرف کھینچتی ہے۔
اس روایت کی زبان مکالمہ ہے۔اس روایت کے حاملین کے اظہار میں ایک بہاؤ ہے۔ ایک جدت ہے ایک تازگی ہے۔معقول، مدلل اور پیچیدہ روایت میں روایت محض تسلسل کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں عدم تسلسل بھی روایت کا حصہ ہے بلکہ لازمی حصہ ہے۔ اس روایت میں ٹریڈیشن کو تنقیدی نکتہ گاہ سے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ تنقید ہی وہ مرکز ہے جو روایت کی حیات کاضامن ہے۔تنقید ہی وہ دائرہ ہے جو روایت کی تنظیف کا ذریعہ بنتا ہے۔اس میں روایت کے ہیئتی تحفظ سے زیادہ اس کی تعمیر پر توجہ دی جاتی ہے۔یہ روایت فکر سے زیادہ ایک رویہ ہے ایسا رویہ جس میں فکر تنقیدی مراحل سے گزر کر پروان چڑھتی ہے۔۔روایت اپنے جوہر میں واحد اور اپنے اظہار میں منتشر ہے یہ اپنی روح میں مقفل اور مسجع اور اپنے بدن میں مکسر اور مجتمع ہے۔ یہ روایت جذبات پر نہیں بلکہ تعقل کی جاودانی پر یقین رکھتی ہے۔ یہ روایت حقیقت کی تلاش میں بے خود ہے۔ اس روایت کی شان یہ ہے کہ اس میں علم بوسیدہ نہیں ہوتا۔ حقائق پرانے نہیں ہوتے۔ اقدار لاتعلق نہیں ہوتیں۔ منزل اور حتمیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے بلکہ راستہ ہی اس کی منزل ہے۔ جستجو ہی اس کا مقصد ہے۔
طلال اسد کی تفہیم کے مطابق ٹریڈیشن ایجاد نہیں بلکہ منتقل ہوتا ہے
"I understand tradition to be given not invented."(10)
اس کے مطابق روایت اپنے بنیادی جوہر میں ناقابل تغیر ہوتی ہے۔روایت کا ایک حصہ’’essential‘‘ اور دوسرا’’contingent‘‘ ہوتا ہے۔ہمیشہ پہلے کی حفاظت اور دوسرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ صورت کے تجزیہ اور تزکیہ کے ذریعہ روایت کی روح کی حفاظت کی جاتی ہے۔اس روایت میں تطہیر کا بہترین طریقہ (genealogical perspective) نسبی تناظر ہے۔کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنیولوجی اور ٹریڈیشن میں مشترک زمین نہ ہونے کی وجہ سے مفاہمت ممکن نہیں اس لیے کہ ٹریڈیشن کوئی نہ کوئی بنیاد رکھتا ہے اور جنیولوجی ہر طرح کی بنیاد کو اکھاڑ پھینکتی ہے۔ اس تصور کا رد کرتے ہوئے طلال اسد کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ جنیولوجی کی غلط تفہیم کا نتیجہ ہے۔جنیولوجی ہر طرح کی بنیاد کومنہدم نہیں کرتی بلکہ اس کی اساس ’’امروز‘‘ ہوتی ہے۔
"Genealogical critique is not a rejection of all grounding; its ground is "today," the place from which one thinks on the difference between time present and time past, and aspires to future time."(11)
روایت کا پیچ دار استدلالی پہلو بنیادی طور پر لسانی عمل سے منسلک ہے زبان کی حرکیات حقائق کی تشکیل میں چونکہ اہم کردار ادا کرتی ہیں اور انسانی تخیل بھی کسی حد تک اپنی تشکیل میں اس کا پابند ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے روایت بھی اپنے ماقبل تشکیل تصور (prior conceptualization) کو اسی کے ذریعہ ممکن بناتی اور منتقل کرتی ہے۔ اور یہی پیچ دار استدلالی تناظر ہی ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص یہ سیکھتا ہے کہ اشیاء کا الفاظ کے ساتھ کیا ربط ہے حقائق میں الفاظ کس طرح منعکس ہوتے ہیں یا الفاظ میں حقائق کس طرح جگہ بناتے ہیں۔ اور کس طرح حیات کی دھنک میں رنگ بھرا جاتا ہے۔روایت میں شعور کس طرح ارتقاء پذیر ہوتا ہے اور وجود کی نمود کس طرح ہوتی ہے؟ احساس مخصوص زاویوں میں کس طرح پروان چڑھتا ہے۔
"The discursive aspect of tradition is primarily a matter of linguistic acts passed down the generations as part of a form of life, a process in which one learns/relearns "how to do things with words," sometimes reflectively and sometimes unthinkingly, and learns/relearns how to comport one's body and how to feel in particular contexts."
اس روایت میں زبان کے ساتھ تعقل کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ ڈسکرسو ٹریڈیشن میں تعقل حقائق کی تشکیل پر کافی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ عقلی مباحث اس روایت کا امتیاز اور مطمح نظر ہے۔ یہی وہ پل ہے جو عالم اور معلوم کو آپس میں جوڑتا ہے۔
"Reason proceeds discursively through language and like a bridge, joins two banks knower and known."(12)
لڈوگ وٹگنسٹائنLudwig Wittgenstein کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہم کسی ٹریڈیشن کے عنوان سے سیکھتے ہیں یا اپناتے ہیں وہ کوئی لگے بندھے اصول یا کسی دروس کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک طرز وجود ہے اور ہستی کی سر مستی ہے جس میں انسان بہہ رہا ہوتا ہے۔ وہ کوئی ایسا مخصوص دھاگہ نہیں ہے جسے جب کوئی چاہے اپنی پسند کے مطابق چن لے یا چھوڑ دے بلکہ وہ دوسرے کو اپنے اندر سمونے اور محسوس کرنے کی وسعت کا نام ہے۔
"But a mode of being, not a thread one can pick up or drop whenever one feels like it but a capacity for experiencing another in a way that can't be renounced." (13)
یہاں روایت محض نظریہ سازی یا تجریدیت کی علامت نہیں ہے بلکہ روایت عملیت پسندی اور تجربیت کی اہمیت سے پھرپور ہے۔ اسی تجربہ کی بنیاد پر اس ٹریڈیشن کی ماضی میں بنیادیں تلاش کی جاتی ہیں اور اس کی مستقبل سے مطابقت پیدا کی جاتی ہے۔ خاص طرح کے عملی اظہار اور اس کی تکرار اس روایت کے حاملین میں مخصوص میلانات کو جنم دیتی ہے اور اس کے اندر(sensibilities) خاص جزبے سے متاثر ہونے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
Tradition stresses embodied, critical learning rather than abstract theorization.(14)
اس روایت کے علمبرداروں کے نزدیک سوال کے جواب سے زیادہ اس پر غورو خوض اہم ہے۔ تفکیر کا یہ عمل ہی علمی روایت کی روح ہے۔یہاں سوال کا جواب بھی ایک سوال ہوتا ہے۔ یہاں کسی سوال پر سوالیہ نشان اور کسی جواب پر فل سٹاپ نہیں لگایا جاتا۔
اس روایت میں حقیقت کا محض بیان نہیں ہوتا بلکہ اس کی توجیہ، اس کا تجزیہ، اس کی تعلیل ، اس کی تمثیل، اس کا تنوع، اس کی توضیح اور اس کی تنقیح بھی ہوتی ہے۔ اس میں متن علم کے ابلاغ سے زیادہ اس پر بحث و تمحیص کو فوقیت دی جاتی ہے۔سوالات کے مختلف دھارے، اعتراضات کے مختلف سوتے جوابات کے رنگ برنگے دھاگے، مل کر ہمیں راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔بے ہنگم فکری دھاگوں کا ایک مجموعی تسلسل ہمیں ایک مضبوط اور پائیدار حل فراہم کرتا ہے۔
یہاں سلسلہ بحث ہی وہ فلٹر ہے جو فکر کی تطہیر کرتا ہے اور اس قدیم علمی روایت میں فکری ارتقاء نہ صرف مطلوب بلکہ قابل تحسین بھی ہے۔اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح ماقبل جدیدیت کی اسلامی ابحاث آج کے دور سے متعلق ہوتی ہیں ؟کس طرح ان میں تطبیق دی جا سکتی ہے اور کس طرح جدید اور قدیم میں ہم آہنگی تلاش کی جا سکتی ہے؟اسلام اور مغرب کے مستند اور مشترک حوالوں کی تلاش اس کا مطمح نظر ہے۔یہ روایت اسلام اور مغرب کے مقام انقطاع اورمقام اتصال کی فراہمی کے لیے سنجیدہ کوشش ہے۔
(مقالہ نگار یونی ورسٹی آف سینٹرل پنجاب میں سوشل سائنسز میں ریسرچ کررہے ہیں اور مدرسہ ڈسکورسز پروگرام سے بحیثیت طالب علم وابستہ ہیں۔)