Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
نام کتاب | : | دینی مدارس: عصری معنویت اور جدید تقاضے |
مصنف | : | ابراہیم موسیٰ |
ترجمہ | : | وارث مظہری |
صفحات | : | 339 |
ناشر | : | مکتبہ نعیمیہ، دیوبند، سہارنپور (یوپی) |
تبصرہ نگار | : | سہیل انجم |
دینی مدارس کے بارے میں عام طور پر کم از کم تین قسم کی رائیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی رائے ان افراد کی ہے جو مدارس سے وابستہ ہیں یا مدارس سے فراغت کے بعد اسی حلقے میں سرگرم ہیں۔ ان کے خیال میں مدارس میں دی جانے والی تعلیم دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی کی کامیابی کے لیے بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی لیے وہ مدارس کے نصاب میں ہلکی سی بھی تبدیلی کا خیال حاشیہ ذہن و دل پر نہیں آنے دیتے۔ دوسری رائے ان لوگوں کی ہے جو مدارس سے وابستہ نہیں ہیں یا جن کا مدارس سے کوئی تعلق تو نہیں ہے لیکن وہ مدارس کے بارے میں سنجیدہ اور مخلص ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کرکے اسے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا جائے اور یہ کام اس طرح کیا جائے کہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم کی روح متاثر نہ ہو تو اس سے طلبائے مدارس کا ذہنی افق بھی وسیع ہوگا اور وہ ہمعصر چیلنجوں سے نبرآزما ہونے کی صلاحیت بھی اپنے اندر پیدا کر لیں گے۔ تیسری رائے ان لوگوں کی ہے جو دینی مدارس کو معاندانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کرتا، پائجامہ، ٹوپی، داڑھی کو قدامت پسندی کی علامت تصور کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان مدارس میں جو جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے اس سے دنیا کے امن و امان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ان کے خیال میں مدارس میں دہشت گرد اور انتہا پسند پیدا کیے جاتے ہیں لہٰذا ان کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جانا چاہیے۔ یہ انتہاپسندانہ اور خطرناک رائے تازہ ترین ہے اور نائن الیون کے بعد تشکیل پذیر ہوئی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ پاکستان اورا فغانستان کی سرحد پر ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت قائم کیے جانے والے مدارس کے فارغین کا رول بہت مشکوک رہا ہے۔ وہ اسلام کو دین رحمت کے بجائے ایک متشدد اور قتل و خوں ریزی کے رسیا مذہب کے طور پر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ در اصل ان مدارس کا قیام اسلام دشمن قوتوں نے اپنے مفاد کی تکمیل کی خاطر کیا تھا۔ ان کی مقصد برآری تو ہو گئی مگر انھوں نے اسلام کے نام پر انسانیت دشمنی کے جو بیج بوئے تھے، برسوں سے اس کی فصلیں کاٹی جا رہی ہیں اور اس طرح اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
لیکن جب کوئی ایسا شخص ان دینی مدارس کے بارے میں رائے ظاہر کرتا ہے جو ان سے فیض یافتہ بھی ہو اور جس نے مدارس کی چہار دیواری سے باہر قدم نکال کر عصری تعلیم گاہوں کے کھلے ماحول اور کلاس روم سے بھی کسب فیض کیا ہو اور جس کا میدان عمل جدید درسگاہیں ہوں تو پھر اس کی رائے ان تینوں آرا سے ذرا مختلف ہوگی اور حقیقت پسند بھی ہوگی۔ جب ہم نے ابراہیم موسیٰ، پروفیسر اسلامک اسٹڈیز، نوٹرے ڈیم یونیورسٹی، امریکہ کی تصنیف کردہ مذکورہ کتاب کا مطالعہ کیا تو اسے مدارس کے موضوع پر تصنیف کی جانے والی کتابوں سے بالکل علیحدہ پایا۔ یہ کتاب نہ تو کسی ایسے شخص کی تصنیف کردہ ہے جس کے دل و دماغ مدارس کی چہار دیواریوں میں قید ہیں اور نہ ہی ایسے مصنف کی فکر کا نتیجہ ہے جس کی تعلیم محض مادی کامیابیوں کے حصول کے محور پر گردش کرتی ہو اور نہ ہی ایسے پراگندہ شخص کے ذریعے لکھی گئی ہے جو دینی مدارس کے بارے میں غلط فہمیوں کی بنیاد پر منفی رائے رکھتا ہو۔ یہ کتاب دینی مدارس کے ساتھ ساتھ عصری یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے ایک ایسے کشادہ ذہن پروفیسر کے قلم کی مرہون منت ہے جو دینی مدارس کے بارے میں پھیلی غلط فہمیوں کے ازالے کے ساتھ ساتھ ذمہ داران و ہمدردان مدارس اور ان کے طلبہ کی سوچ میں انقلابی تبدیلیوں کا بھی خواہاں ہے۔
پروفیسر ابراہیم موسیٰ کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے لیکن ان کے اجداد کی جڑیں ہندوستان کی ریاست گجرات میں پیوست ہیں۔ دوران طالب علمی بعض وجوہ سے ان کے ذہن میں ایک انقلابی کیفیت پیدا ہوئی اور انھوں نے مدارس میں تعلیم حاصل کرکے اسلام کی خدمت کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے تحت وہ ہندوستان آئے اور یہاں انھوں نے گجرات کے بعض مدارس میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا۔ اس کے بعد وہ ندوۃ العلماء گئے اور دیوبند کے بعد وہاںسے بھی عالمیت کی سند لی۔ انھوں نے اپنا تعلیمی سفر یہیں ختم نہیں کر دیا بلکہ کانپور یونیورسٹی سے انھوں نے بی اے کیا۔ اس کے بعد وہ ہندوستان سے نکل گئے۔ انھوں نے دی سٹی یونیورسٹی، لندن سے صحافت میں پوسٹ گریجوئٹ ڈپلومہ کیا اور پھر جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف کیپ ٹاون سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی۔ اِس وقت وہ یونیورسٹی آف نوٹرے ڈم، انڈیانا، امریکہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔
نائن الیون کے بعد جب اسلام پر چوطرفہ حملہ شروع ہوا اور مدارس کو دہشت گردی کے مراکز اور نرسری بتا کر ہدف تنقید بنایا جانے لگا تو پروفیسر ابراہیم موسیٰ کو ایسا لگا کہ یہ حملے خود ان کی ذات پر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے اس سلسلے میں ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے لیے انھوں نے 2004 سے 2007 کے درمیان ہندوستان کے مختلف مدارس کے دورے کیے اور اہالیان و ذمہ داران مدارس کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا۔ پھر انھوں نے اپنے تجربات اور ارباب مدارس سے تبادلہ خیال کے نتائج کی روشنی میں کتاب تصنیف کرنی شروع کی اور اس طرح یہ کتاب انگریزی میں ? What Is a Madrasa کے نام سے 2015 میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس سے شائع ہوئی۔
کتاب کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں :’’زیر نظر کتاب عام قارئین، اساتذہ اور طلبہ کے لیے لکھی گئی ہے۔ اس لحاظ سے اس کی حیثیت ایک ابتدائی درسی کتاب کی سی ہے جس میں ماضی و حال کے حوالے سے مدارس کے مذہبی، ثقافتی اور علمی کردار کا تجزیہ و تعارف پیش کیا گیا ہے۔ جغرافیائی اور ثقافتی تنوعات کے لحاظ سے مدارس میں تنوع اور باہم فرق و اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاہم اس اختلاف سے قطع نظر اس کتاب میں ہند و پاک کے دینی مدارس کے ساتھ سنی مدارس کو مطالعے میں پیش نگاہ رکھا گیا ہے… صرف اہل مغرب ہی نہیں بلکہ بہت سے مسلمان بھی مدارس کی حقیقت سے بالکلیہ ناواقف ہیں۔ دیندار متوسط طبقے کے لوگوں میں مدارس کے تئیں جھکاؤ اور وابستگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ البتہ مسلمانوں کے بالائی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد مدارس کے ساتھ مفاد پرستانہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس کتاب کی تصنیف میں میرے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ میں اسلام، جو مغرب میں سب سے زیادہ مبغوض ترین مذہب کی حیثیت رکھتا ہے، سے متعلق شکوک و شبہات میں گرفتار قارئین کے لیے کس طرح ایک متوازن اسلوب اختیار کروں۔ گیارہ ستمبر کے بعد شہری حلقوں میں جو بحث و مباحثے ہوتے رہے ہیں ان میں سنجیدگی کے عناصر کا فقدان ہے۔ ایک شخص ان قارئین کو جن کا ذہن مدارس سے متعلق زبردست طور پر شکوک و شبہات کا شکار رہا ہے، کیسے یہ باور کرائے کہ اس حقیقت کے برعکس جو میڈیا نے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے، تمام مدارس کا کردار مشکوک و مشتبہ نہیں ہے۔‘‘
مصنف نے کتاب کی تصنیف کے دوران پیش آنے والے چیلنجوں کا ذکر کیا ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پتا نہیں وہ ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہو سکیں گے یا نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب کے حوالے سے قارئین کو ان مدارس کے، جہاں سے انھوں نے کسب فیض کیا، در و دیوار کی زیارت کرانے کے ساتھ ساتھ ان حجروں میں بھی پہنچایا ہے جہاں سے قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ انھوں نے قارئین کو نماز فجر کے وقت بیدار بھی کیا ہے اور دوپہر اور رات کے کھانوں کے ساتھ ساتھ فاضل اوقات میں طلبائے مدارس کی مصروفیات کی بھی جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ مصنف نہ صرف خود تاریخی مراحل سے گزرے ہیں بلکہ وہ قارئین کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلے ہیں۔ مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے بارے میں اٹھنے والی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں اور اصلاح پسند علما اور اساتذہ کے خیالات سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔
مصنف نے ذاتی تجربات بھی بیان کیے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بہت ساری ممنوعات کا ذکر کرنے کے بعدلکھتے ہیں: ’’مغربی طرز کا لباس جو میں زیب تن کرتا تھا، میں قطعی طور پر اسے ترک کر چکا تھا اور یہ عہد کر چکا تھا کہ میں اپنے نظریے کے مطابق صرف ’’اسلامی لباس‘‘ ہی پہنوں گا۔ یعنی ڈھیلا ڈھالا کرتا اور شلوار‘‘۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی لکھتے ہیں ’’اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں نے دیوبند کے اصول پر عمل کیا ہوتا تو نہ صرف جنوبی افریقہ میں میری زندگی ایک خاص دائرے میں محدود ہو کر رہ جاتی_حالانکہ میں نے مدرسے کا رخ ایسی ہی پابندیوں سے خود کو آزاد کرنے کے لیے کیا تھا _ بلکہ ذہنی و فکری ارتقا بھی رک جاتا۔‘‘
انھوں نے مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے بارے میں افرادِ غیر مدارس کے خیالات کے ساتھ ساتھ اہل مدارس کے خیالات بھی پیش کیے ہیں اور اس بارے میں جاری کشمکش پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے جدید نظام تعلیم کو اختیار کرنے پر بھی زور دیا ہے۔انھوں نے اورنگ زیب اور مولانا شبلی نعمانی کے آفاقی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ مولانا اشرف علی تھانوی اور تقی عثمانی کے نظریات سے بھی بحث کی ہے۔ انھوں نے اپنی ایک بحث کا نچوڑ اس طرح پیش کیا ہے :’’مدارس کے حلقوں میں ایک ترقی پذیر، آفاقیت پسند اور علم دوست تحریک کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اسلامی فکر میں انقلابی تبدیلی آئے اور اس میں جدت و تازگی پیدا ہو۔‘‘
پروفیسر ابراہیم موسیٰ نے مدارس میں دہشت گردی کے الزام کا بھی حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیا ہے اور لکھا ہے کہ اہل مدارس نے اس الزام کو مکمل طور پر مسترد کر دیا کہ مدارس کسی بھی نوع کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا ان درسگاہوں میں انتہاپسندی کی تربیت ہوتی ہے۔ ’’عالمی سطح پر مدارس کے خلاف داروگیر کے ماحول اور ہند و پاک اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کی طرف سے مدارس پر نکیل کسنے کی کوشش و اقدام سے برعکس طور پر مدارس کے حلقوں میں ان شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا کہ مدارس کو زیر دام لانے کی یہ کوششیں خارجی طاقتوں کی طرف سے محض اپنا الو سیدھا کرنے اور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہیں‘‘۔ مصنف نے اس صورت حال کو مدارس میں داخلی سطح پر اصلاح پسندی کی کوششوں کو دھچکے سے تعبیر کیا ہے۔
یہ کتاب جہاں مغربی اور اسلام دشمن طاقتوں کو دینی مدارس کے بارے میں رائے قائم کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے وہیں ہمدردان مدارس کو بھی اپنے اندرون میں جھانکنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس کتاب کا موضوع بہت وسیع ہے مگر مصنف نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ اسے سمیٹا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے چار حصے قائم کیے ہیں۔ پہلے حصے میں اپنے علمی تجربات کا ذکر کیا ہے جو ایک طرح سے مصنف کا سفرنامہ بھی ہے۔ دوسرے میں مدارس کی تاریخ وتناظر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تیسرے میں علم کی سیاست سے بحث کی گئی ہے اور چوتھے میں مدارس کو عالمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں وہ خطوط بھی شامل کر دیے گئے ہیں جو مصنف نے پالیسی سازوں کے نام لکھے ہیں۔ جن میں ایک خط امریکی صدر کے نام ہے تو کئی خطوط اساتذہ کے نام ہیں۔
البتہ مصنف نے صرف انھی مدارس کا جائزہ پیش کیا ہے جہاں انھوں نے تعلیم حاصل کی یا جہاں کے انھوں نے دورے کیے۔ اس لیے اس کتاب میں تمام مکاتب فکر کے مدارس کی مجموعی و نظریاتی شکل و صورت سامنے نہیں آتی۔ اگر مصنف چاہیں تو اس کا دوسرا حصہ بھی تصنیف کر سکتے ہیں جس میں وہ دیگر مکاتب فکر کے مدارس اور ان کے رجحانات کا جائزہ لیں۔ اگر وہ نہیں تو کم از کم کتاب کے مترجم ڈاکٹر وارث مظہری تو یہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ ان کا تعلق مدارس سے رہا ہے، وہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ ہیں۔ دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح، فکر اسلامی کی تشکیل نو اور بین مذاہب مکالمے کے موضوعات پر انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں اور متعدد مقالے تحریر کیے ہیں۔ لیکن بہر حال یہ کتاب جو اصلاً انگریزی میں لکھی گئی ہے، انگریزی داں طبقہ اور خاص طور پر مغربی دانشوروں کے شکوک و شبہات کو دور کرنے میں خاصی معاون ہے۔ یہ کتاب اس موضوع پر تخلیق کردہ دیگر روایتی کتابوں سے بالکل الگ ہے۔
ڈاکٹر وارث مظہری ایک اسلامی اسکالر ہیں۔ سنجیدہ فکر کے حامل ہیں اور اردو، انگریزی اور عربی زبان و ادب کا خاصا علم رکھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے کتاب کا انتہائی رواں ترجمہ کیا ہے۔ اگر کوئی ترجمہ، ترجمہ لگنے لگے تو اسے مترجم کی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔ یہ کتاب ترجمہ نہیں لگتی بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اصلاً اردو ہی میں لکھی گئی ہے۔ اس بہترین ترجمہ کے لیے ڈاکٹر وارث مظہری مبارکباد کے مستحق ہیں۔اس کی طباعت اوربائنڈنگ شاندار ہے۔ مجموعی طور یہ ایک مفید کتاب ہے۔ ایسی مزید کتابوں کی ضرورت ہے۔
(تبصرہ نگاریڈیو،وائس آف امریکا،نئی دہلی کے نامہ نگار ہیں،ای میل: sanjumdelhi@gmail.com)
Creating A New Medina: State Power, Islam and the Quest for Pakistan in Late Colonial North India
نام کتاب | : | (ایک نئے مدینہ کی تخلیق: ریاست، اقتدار، اسلام اور برطانوی استعمار کے اواخر میں شمالی ہندوستان میں پاکستان کے حصول کی جستجو) |
مصنف | : | وینکٹ دھولی پالا |
ناشر | : | کیمبرج یونی ورسٹی پریس 2015 |
تبصرہ نگار | : | وارث مظہری |
اسلام کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے بیسویں صدی کے نصف اول میں دو بڑے واقعات پیش آئے:ترکی میں خلافت کا خاتمہ (1924ء)اوربرصغیر ہند میں ایک نئی مسلم ریاست ، پاکستان کاقیام(1947)۔ پاکستان کے نظریہ سازوںنے قیام پاکستان کی معنویت کی جن مختلف حوالوں سے تشریح ووضاحت کی، ان میں یہ حوالہ بھی شامل تھا کہ وہ ترکی کی اسلامی خلافت کا بدل ہوگا۔ اس سے اس دکھ درد کا مداوا ہوسکے گا جو استعماری طاقتوں نے اُسے دیا ہے۔ لیکن قیام پاکستان کے چند سالوں کے اندر یہ خواب حقیقت کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراکر پاش پاش ہوگیا۔ قیام پاکستان کی تحریک کے آغاز سے لے کر آج تک نظریہ پاکستان کے وجود میں آنے کے محرکات پر بحث ہوتی رہی ہے۔ ایک طرف جہاں اصحاب علم وقلم کی اکثریت اس خیال کی حامل رہی ہے کہ پاکستان کے قیام کے پس پشت خالص مذہبی محرکات کارفرما تھے۔ وہیں دوسری طرف طرف اصحاب فکر ونظر کا ایک طبقہ پوری قوت کے ساتھ یہ باور کرانے پر مصر رہا ہے کہ دو قومی نظریہ کی مذہبی اساس پر اگر چہ عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے اور اُن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم اس دینی پہلو کو قیام پاکستان کا بنیادی محرک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا،لا الہ الا اللہ‘‘ جیسے نعرے محض عوام کے جذبات کے استحصال کے لیے تھے۔ اس طبقے کی نظر میں اس کے قیام کا ایک بڑا عامل برطانوی حکومت، انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ہندوستان کے اقتدار کی ہندوستانیوں کی طرف منتقلی پر ہونے والی گفت وشنید اور بحث ومباحثے میں ناکامی تھی۔
زیر تبصرہ کتاب دوسری تھیوری کو مسترد کرنے اور دلائل کے ساتھ اس بات کے اثبات میں لکھی گئی ہے کہ پاکستان کا وجود خالص ایک اسلامی نظریاتی وجود ہے۔ اس کا بامعنی عنوان اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یہ دراصل اسلام کی سیاسی فکر کی قوت کی ہی کارفرمائی تھی جس نے پاکستان کے قیام وتشکیل میں اساسی اور مستحکم رول اداکیا۔ہندوپاک کے علما اور دین پسند دانش وروں کے حلقے پاکستان کی تخلیق کو اسی تناظر میں نہ صرف دیکھتے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ کسی دوسری تھیسس یا مفروضے کو پاکستان کی توہین تصور کرتے ہیں۔
ان ابواب کے علاوہ مقدمہ وخاتمہ اور نتائج بحث پر مشتمل تحریریں شامل ہیں۔ کتاب کا پانچواں اور ساتواں باب اس لحاظ سے اہم ہے کہ اول الذکر میں قوم پرست علما جن میں علمائے دیوبند سرفہرست ہیں، کی طرف سے پاکستان کے قیام کے نظریے پر تنقیدات سے بحث کی گئی ہے، جبکہ ثانی الذکر باب میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے پاکستان سے متعلق نقطۂ نظر اور پُرجوش عملی اقدامات اور کاوشوں کا تجزیہ کیا گیاہے۔ راقم الحروف کے لیے خصوصی طور پر یہ دونوں باب نسبتاً زیادہ توجہ کا باعث بنے۔
مصنف کا خیال ہے کہ تحریک پاکستان میںعلما کی جو حصہ داری ہے، اُسے بڑے پیمانے پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈبلیو سی اسمتھ جیسے صاحب علم کا یہ کہنا ہے کہ 1942ء تک نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والا کوئی بھی گروہ باقی نہیں رہ گیاتھا، طبقۂ علما کی تقسیم ہند کو روکنے کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے یہ بات غلط لگتی ہے۔(ص:281) اس تعلق سے بھی مصنف کی نگاہ میں یہ پہلو جاذب توجہ ہے کہ علما کی اکثریت نے جس میں دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند پیش پیش تھے اور جس کی قیادت مولانا حسین احمد مدنی کے ہاتھ میں تھی، نہ صرف یہ کہ فکری سطح پر نظریۂ پاکستان کے شدید مخالف تھے، بلکہ انھوں نے علمی واسلامی بنیاد پر تقسیم ہند کے عمل کو روکنے کی ہر ممکن جدوجہد کی اور مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔ ان علماء کی نظر میں پاکستان کی پوری تحریک صرف فریب نظر پر مشتمل تھی۔ (ص281-313) اس باب میں انھوں نے تین علما کی نظری وعملی کاوشوں سے الگ الگ عنوان کے تحت تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ مولانا سید محمد ابو المحاسن سجاد، مولانا طفیل احمد منگلوری اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی۔ بانی امارت شرعیہ مولانا محمد سجاد نے ’’مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا پر ایک اہم تبصرہ‘‘ کے عنوان سے 1940ء میں تفصیلی مضمون لکھا جس میںاپنے اس نقطۂ نظر کی وضاحت کی کہ پاکستان کسی بھی صورت میں ایک اسلامی ریاست نہیں بن پائے گا اور مسلم لیگ کے اس دعوے کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ وہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرپائے گا۔ (ص:284) دل چسپ بات یہ ہے کہ مولانا کے نقطۂ نظر کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کی شکل دینا اس کے بغیر ممکن نہیں تھاکہ کم از کم پاکستانی علاقے میں آباد ہندوؤں کی نصف تعداد کو ہندوستان بھیج دیا جائے اور حکومت میں غیر مسلموں کا کوئی حصہ نہ ہو حالاں کہ محمد علی جناح یہ قبول کرتے ہیں کہ غیر مسلموں کو بھی پاکستان کی قانون سازیہ اور حکومتی نظم ونسق میں حصہ دیا جائے گا۔ (ص:285) حالاں کہ یہ دونوں باتیں پاکستان کی تشکیل کے تناظر میں محال ہیں۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی بھی تقریباً اسی نقطۂ نظر کے حامل تھے اور قیام پاکستان کی مخالفت کی ایک بڑی بنیاد اُن کے سامنے بھی یہ تھی کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے وضاحتی بیانات کے مطابق، غیر مسلم اقلیتوں کی بھی اسلامی حکومت میں نمائندگی ہوگی۔ اس لیے یہ گویا آج کی جدید ریاست کے مماثل ریاست ہوگی۔ اس کے خدوخال وہ نہیںہوں گے جو اسلامی ریاست کی شرائط اور شناخت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے بقول غیرمسلموں کو اسلامی ریاست میں صرف ذمی کی ہی حیثیت دی جاسکتی ہے۔ (ص:304) سب سے مضبوط اور عاقلانہ نقطۂ نظر مولانا حسین احمد مدنی کا تھا جو موجودہ دور کے تقاضے کے مطابق نیشن اسٹیٹ کے تصور کو خالص مذہبی دلائل کی بنیاد پر تسلیم کرتے تھے۔ مصنف نے مولانا مدنی کے سیاسی نقطۂ نظر اور قیام پاکستان کی مخالفت میں کیے جانے والے اقدامات اور کوششوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (ص106-10)تاہم صحیح بات یہ ہے کہ مولانا مدنی کے متحدہ قومیت کے نظریہ اور بے باکی کے ساتھ اس کے اظہار نے کثیر ذہنوں سے دو قومی نظریے کے فسوں کو باطل کرنے میں جو وسیع کردار ادا کیا، اس پر اس کتاب میں کسی ایک جگہ ترکیز کے ساتھ بحث نہیں کی جاسکی۔ اس طرح اس ضمن میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی ’’متحدہ قومیت‘‘ کی رد میں لکھے گئے رسالے ’’مسئلہ قومیت ‘‘پر بھی تفصیلی اورتجزیاتی انداز میں گفتگو ہونی چاہیے تھی ۔ کیوں کہ دو قومی نظریے کی بحث اس کے بغیر ادھوری ہے۔ بہتر ہوتا کہ دونوں رسالوں کا اپنے انداز میں محاکمہ کیا جاتا اور اُن کے نکات سے قارئین کو روشناس کیا جاتاجو دوسرے علماء کے نقاط نظر کی تفصیل وتشریح میں مصنف کا طریقہ کار رہا ہے۔ مولانا مودودی کا نقطہ نظر زیر بحث تو آیا ہے لیکن ان کی متعلقہ کتاب اور دوسری تحریروں کے مندرجات کاجائزہ گہرائی کے ساتھ نہیں لیا جاسکا۔
پاکستان کے ایک بنیادی نظریہ ساز کی حیثیت سے مولانا شبیر احمد عثمانی پر لکھا گیا باب، جس کا ذکر اوپر آیا ، اہل علم ودانش کے لیے خصوصی طور پرقابل مطالعہ ہے۔ مصنف نے تفصیل کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃ علماء اسلام کے درمیان کشاکش اور پاکستان کے مسئلے پر دونوں کے درمیان وقفے وقفے سے ہونے والی مصالحت کی گفت وشنید اور میدان آرائی کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ مولانا عثمانی کے نظریۂ پاکستان کی حمایت اور اس تعلق سے جوش و ولولے کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ جس طرح مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد پورا جزیرۂ عرب اسلامی حکومت کے زیر نگیں آگیا، اسی طرح پاکستان کے قیام کے بعد پورا ہندوستان پاکستان کے زیر اقتدار آجائے گا۔ (ص:361) ان کی نظر میں جس طرح خلیفہ عباسی معتصم نے رومی قبضے میں ایک مسلم عورت کی دکھ بھری پکار ’’وامعتصماہ‘‘ پر رومی علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، اسی طرح پاکستان بن جانے کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر مظالم کی صورت میں ان کی داد رسی کی جائے گی۔ (ص:375)
انھوں نے علماء کا ایک وفد دیوبند بھیجا جس میں بنگال کے ایک دولت مند اور دارالعلوم دیوبند کے ایک بڑے مالی معاون شامل تھے۔اس وفد نے مجلس شوریٰ کے ارکان سے درخواست کی کہ وہ دارالعلوم کے مدرسین وطلبہ کی ملت مخالف سرگرمیوں پرقدغن لگائے۔ ان کے خلاف انضباطی کارروائی کرے۔ قوم نے جس مقصد کے لیے ادارہ بنوایا ہے اور وہ اس کی مالی مدد کررہی ہے، یہ سرگرمیاں اس مقصد کے خلاف ہیں۔ (ص:357)لیکن شوریٰ نے اس درخواست کو مسترد کردیا۔ ایک تفصیلی گفتگو ’’مولانا اشرف علی تھانوی اور مسلم لیگ‘‘ کے عنوان سے بھی کتاب میں شامل ہے۔ (ص:96-114) جس میں مولانا تھانوی کے قوم پسند علما کے موقف سے اختلاف اور مولانا مدنی کے متحدہ قومیت کے نظریے پر اُن کی تنقیدی فکر ورائے سے بحث کی گئی ہے۔ مولانا تھانوی نے مولانا مدنی کی کانگریس نوازی سے اختلاف کی بنا پر ہی دیوبند کی سرپرستی سے استعفا دے دیا تھا۔ (ص:114)یہ پوری بحث خاص طور پر علما کی جدید نسل کے لیے قابل مطالعہ ہے۔
بہرحال حضرت مولانا عثمانی اور اُن کے ہم نوا علما کی اکثریت جس رومان پسندی اور یوٹوپین فکر کی شکار تھی، عالم اسلام کے مختلف حصوں میں علما کی اکثریت اب اس رومان پسندانہ ذہنیت سے باہر آچکی ہے۔البتہ مستند روایتی دینی تعلیم سے نا آشنا اسلام پسندوں کی اکثریت اسلامی ریاست کے حوالے سے اب بھی اسی نوع کی نفسیات کی شکار ہے۔ایسی تمام جماعتوں کے لیے پاکستان کی نظریاتی تحریک میںسبق پوشیدہ ہے۔
پاکستان کا قیام واضح طور پر اسلام کی سیاسی فکرمیں پائے جانے والے خلا اور انتشار کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلام کی روایتی سیاسی فکرمیں اس انتشار وپراگندگی کی کیفیت اب بھی موجود ہے جس سے بعض انتہا پسند مذہبی سیاسی جماعتوں کو اپنی تخریب کارانہ فکری وعملی سرگرمیوں کے لیے شہ مل رہی ہے۔ علمائے دیوبند کی نظریاتی بصیرت نے اس فتنے کو اسی وقت محسوس کرلیا تھا جب ابھی وہ ابتدائی مرحلے میں تھا۔علماے دیوبند کی سیاسی فکر میں جو اعتدال اور توازن شروع د ن سے قائم رہا ہے ،اس کتاب سے اس پہلو پر بھی تفصیل سے روشنی پڑتی ہے۔
کتاب کے ان مرکزی ابواب کے علاوہ دوسرے ابواب میں مصنف نے یوپی میں تحریک پاکستان کے فروغ وتوسیع اور اس کے اسباب ومحرکات پر کلام کیا ہے۔ کتاب کا چھٹا باب اس لحاظ سے اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے قابل مطالعہ ہے کہ اس میں اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور میں نظریۂ پاکستان پر ہونے والے موافق ومخالف تحریری مناقشوں پر تجزیاتی نگاہ ڈالی گئی ہے۔
بہرحال یہ کتاب اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں کی بھیڑ میں کوئی انوکھی کتاب نہیں ہے۔ تاہم اس کی متعدد بحثیں، تجزیہ ونتائج موجودہ تناظر میں اپنی تازگی کے ساتھ افادیت کی حامل ہیں۔ یہ کتاب مؤرخانہ شعور اور
محققانہ دیدہ وری کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ اسلوب تجزیاتی اور عالمانہ ہے۔ کتاب کے مطالعے سے بہت سے واقعات کی نئی پرتیں کھلتی محسوس ہوتی ہیں۔ حقائق کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔اس موضوع پرلکھی گئی اس ضخیم کتاب کا کوئی بدل کم ازکم اردو میں موجود نہیں ہے۔یہ نظریہ پاکستان کی نظریاتی دستاویز ہے۔ مستقبل میں پاکستان کے قیام کے نظریاتی پہلوپر لکھی جانے والی کسی بھی مفصل اورتجزیاتی تحریر کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہوگا۔
(مصنف کا تعلق جنوبی ہند سے ہے۔وہ اس وقت امریکہ کی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی ،ول منگٹن میں تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ای میل:Dhulipalav@uncw.edu )