Editorial Board

  • Ebrahim Moosa (Patron)

    Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies

    Keough School of Global Affairs

    1010 Jenkins Nanovic Halls

    University of Notre Dame

    Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA

    Email, emoosa@gmail.com

    Ph. +19 192703431

  • Dr. Waris Mazhari (Chief Editor)

    Assist. Professor, Department of Islamic Studies,

    Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062

    Email: w.mazhari@gmail.com

    Ph. 9990529353

  • Dr. Joshua Patel ( Deputy Editor)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025

    Email. mmushtak@jmi.ac.in

    Contact. 9910702673

  • Dr. Safia Amir ( Assistant Editor-I)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025

    Email : samir@jamiahamdard.ac.in

    Ph. 9540390930

  • Dr. Syed Abdur Rasheed ( Assistant Editor-II)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Aliah University, Kolkata

    Email : abdurrasheedhyd@gmail.com

    Ph. 8583837253

  • Dr. Javed Akhatar (Managing Editor)

    Assistant Professor, (Guest)

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025

    Email : javed.akhatar1985@gmail.com

    Ph. 9891059708

  • International Advisory Board:

    Saadia Yacoob ( associate editor-I)

    Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA

    Office:Hollander Hall, Rm 206

    Office Phone: (413) 597-2585

    Email, saadia.yacoob@gmail.com

  • Ali Altaf Mian ( associate editor-II)

    Assistant Professor

    Department of Religion, University of Florida, USA

    Email, alimian@gmail.com

  • Adeel Khan ( associate editor-III)

    Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,

    SOAS University of London, UK.

    Email: adeel.khan.cantab@gmail.com

Instructions for Authors

  • The Journal welcomes articles from academics and scholars from around the world.
  • All articles will be subject to anonymous review, and will be evaluated on the basis of their creativity, quality, and understanding.
  • The Editor accepts responsibility for the selection of materials to be published, however individual authors are responsible for the facts, figures, and views in their articles.
  • The Editor reserves the right to edit the articles for reasons of space and clarity.
  • Articles should generally contain between 5,000 and 7,000 words including notes and bibliography, although shorter articles may be accepted by arrangement with the editors.
  • Submission of an article is taken to imply that it has not been previously published, or considered for publication elsewhere.

تبصرۂ کتب

کتاب : Islam’s Quantum Question
Reconciling Muslim Tradition and Modern Science
مصنف : نضال قسوم
صفحات : 433
تبصرہ نگار : مولانا محمد رفیق شنواری

زیرمطالعہ کتاب الجزائری پروفیسر نضال قسوم کی ہے جنہوں نے کیلی فورنیا یونیورسٹی سے فلکیات میں پی ایچ ڈی کر کھی ہے اور اب امریکن یونیورسٹی، شارجہ میں طبیعیات اور فلکیات (Physics and Science) کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے سائنس ومذہب بالخصوص اسلامی روایات کے درمیان مطابقت پر قابل قدر کام کیا ہے۔ اس موضوع پر وقیع مجلات میں ان کے درجن بھر مقالے اور کئی کتب شائع ہوچکے ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی اسی سمت ایک کاوش ہے۔ اس کتاب کا مقصد اسلام کے بنیادی اصولوں کے ساتھ سائنس کے اہم اور ہم آہنگ اصولوں کا مربوط، قابل عمل اور قرآن کے معقول (از حد آزاد خیالی سے پاک) مطالعے کی بدولت اجاگر کرنا ہے۔ اسی طرح مصنف کی غرض سائنس اور فلسفۂ سائنس کے درست اور مکمل علم کے ساتھ اس کے مثبت اور مادیت پرستانہ اصولوں سے بچتے ہوئے معتدل اسلامی حکمت عملی اور اس کی روایتی حکمت عملی سے احتراز کرتے ہوئے ہم آہنگی اور توازن کا ایک غیر جانب دارنمونہ تیار کرنا ہے(ص14)۔

کتاب کو تمہید، تین حصوں اور دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تمہید میں علامہ ابن رشد کے حیات ونظریے اور طرز استدلال کی وضاحت کی گئی ہے۔ مصنف چونکہ فلسفہ و مذہب کے درمیان تعلق کے بارے میں علامہ ابن رشد کے فکر اور طرز استدلال سے متاثر ہیں اس لیے کتاب کے آغاز میں اس کی توضیح وتحسین کو بطور تمہید شامل کیا ہے۔ تمہید کے بعد موضوع کا مفصل تعارف اور کتاب کے مقاصد کو واضح کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے عصر حاضر میں اسلام اور قرآن کے درمیان تعلق کے بارے میں بعض مباحث کو تنقید کا نشانہ بنایاہےجو، مصنف کی نظر میں، نہ صرف بنیادی سائنسی حقائق سے لاعلمی پر مبنی ہیں بلکہ سنجیدہ مباحث کے فقدان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سائنس کی حقیقت، اس کے طریقہ کار اور (اسلام کی نظر میں سائنس کے) جائز اور مناسب پہلو ؤں اور حدود سے آگاہی بھی نہایت ہی کم لوگوں کو ہوتی ہے۔(ص،13 ) (اس تنقید سے فاضل مصنف سائنس اور اسلام کے درمیان ایسے سنجیدہ مباحثے کی ضرورت کی طرف بڑھتے ہیں جس کی بنیاد سائنس کے علم ، اس کے فلسفے اور طریقہ کار کے درست فہم کے ساتھ ساتھ اسلام کی بنیادی امور سے واقفیت پر قائم ہو۔ چناں چہ مصنف نےکتاب کا پہلا حصہ بنیادی اور اہم امور کے لیے مختص کیا ہے۔جس میں خدا، اس کی کتاب قرآن اور سائنس کا تعارف دیا گیا ہے۔ اور دوسرے حصے میں اسلام اور معاصر سائنس کے چند اہم مسائل ، مثلا اسلام اور کونیات (Islam and Cosmology) ، اسلام اور تصور غایت یا مقصدیت(Islam and Design)، اسلام اور اصول بشریات (Islam and Anthropic Principal) اور اسلام اور نظریۂ ارتقا (Islam and Evolution) کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ہر باب کے آخر میں تلخیص کے ساتھ ساتھ کتاب کے آخر میں بھی پوری کتاب کا خلاصہ دیا گیا ہے۔

پہلے حصے میں پانچ ابواب شامل ہیں۔ پہلا باب تصورِ خدا سے بحث کےلیے مختص ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف نے اسلام میں تصورِ خدا کےبحث کی مختلف پرتوں کی نشاندہی کی ہے۔ اسلام کے اندر مدرسے کی سطح پر ”خدا تنہا اس کائنات کا خالق ، مالک اور قادر مطلق ہے۔“کے سادہ اور عام فہم تصور سے لے کر صوفیا ، فلاسفہ اور متکلمین کے دقیق اور گہرے مباحث تک کی نشاندہی کی ہے۔ مصنف کے خیال میں اسلامی تصورِ خدا کے بارے میں مسلم عقیدے کی سب سے ٹھوس عکاسی گیارھویں صدی کے ایک بااثر مسلمان مفکر امام غزالی نے کی ہے۔ ایک طویل علمی و روحانی سفر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ خدا اور دیگر مذہبی امور سے متعلق ہر سوال کا جواب ضروری نہیں کہ دلیل سے ہی ملے۔ وہ حقیقت جسے ہم ”خدا“ کہتے ہیں ، اس کا ادراک ، اثبات یا انکار ہماری عقل اور سائنس کے بس سے باہر ہے۔ خدا پر سچا یقین صرف مذہبی اور روحانی تجربے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے(ص24)۔ اسلامی روایت میں تصورِ خدا کے بارے میں سادہ و عام فہم اور کلام کے گہرے اور دقیق تصورات کے ساتھ امام غزالی کا صوفیانہ تصور تیسرا درجہ یا ایک اہم اضافہ ہے۔ اسی طرح مصنف نے انسانوں کے تصورِ خدا پر جدید سائنسی نظریات (Theory of Creation, Big Bang Theory and Quantum Mechanics) نے کیا اثرات مرتب کیے ، ان کا بھی مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔پہلے باب میں تصورِ خدا سے متعلق گفتگو کے بعد دوسرے باب میں قرآن سے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔ اس باب میں اسلام میں قرآن کی اہمیت کے بعد قرآن کے فلسفہ و تصورِ علم اور فطرت کی کھوج اورکائنات کے مطالعے اور مشاہدے پر قرآنی فلسفہ علم کے اطلاق سے بحث کی گئی ہے۔ آغاز میں قرآ ن کی اہمیت کے بعد اسلام میں قرآن کی تفسیری روایت اور اس ضمن میں مختلف اسالیب کی نشاندہی کی ہے۔ مصنف معاصر شامی اسکالر محمد شحرور کے اسلوب تفسیر سے نہایت متاثر ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ شحرور کے اصول تفسیر و تاویل سائنس اور قرآن کے درمیان مطابقت پیدا کرنے میں ممد و معاون ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بڑی گرمجوشی سے ان کے کچھ اصول تفسیر کی وضاحت بھی دی ہے (ص51-53)۔بعد ازاں فاضل مصنف قرآن کے فلسفۂ علم اور تصورِ علم سے بحث کے ضمن میں اس سوال کو زیر بحث لاتے ہیں کہ کیا ”علم“ کا اطلاق محض مذہبیات تک محدود ہے یا فطرت اور کائنات کے مشاہدے اور غور و فکر تک بھی اس کو پھیلایا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے وہ معروف ایرانی اسکالر پروفیسر مہدی گلشنی اور غالب حسن کی آرا سے استفادہ کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ علم کی مذہبی و غیر مذہبی خانوںمیں تقسیم درست نہیں کیوں کہ قرآن علم کو ایک عام مفہوم میں استعمال کرتا ہے(ص،54)۔ چناں چہ فطرت کا مطالعہ نہ صرف یہ کہ قرآن کے ”تصورِ علم“ میں داخل ہے بلکہ قرآن بہ تکرارتقریبا ساڑھے سات سو آیات میں اس کی سفارش بھی کرتا ہے(ص،58)۔ فاضل مصنف کو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ قرآن باقاعدہ سائنس کی کتاب نہیں (ص،63) مگر کائنات کے مطالعے کےلیے اس نے ضرور کچھ بنیادی اصول دیے ہیں جنہیں بجا طور پر قرآن کا فلسفۂ سائنس قرا ر دیا جا سکتا ہے۔ اسلامی سائنس یا قرآنی سائنس کو مرتب کرنے کے لیے فاضل مصنف قرآن تک تفسیر کے ذریعے رسائی(hermeneutical approach) کی سفارش کرتا ہے۔ اور اس سلسلے میں علامہ ابن رشد کے ساتھ ساتھ معروف اصولِ تاریخیت(principal of historicism) کے وکیل نصر حامد ابو زید ،محمد طالبی اور حسن حنفی کی سفارش کرتے ہیں۔ ان حضرات کے تفسیری وتاویلی اصول و اسالیب قرآنی متن کی سائنس یا دیگر غیر مذہبی علوم سے اخذ کردہ نتائج کے مطابق یا کم سے کم تضاد پر مشتمل تشریح، میں معاون ہو سکتے ہیں۔

سائنس کو براہِ راست قرآن میں تلاش کرنے کے بجائے قرآن کے تصورِ علم کو فروغ دینے سے متعلق گفتگو کے بعد سائنس پر ہونے والی تنقیدات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ چناں چہ سائنس کی ابتدا اور تدوین کا مختصر جائز ہ پیش کرنے کے بعد فلسفہ سائنس اور سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں (metaphysical bases) اور سائنسی برتری کا زعم (scientific imperialism) سے متعلق بھی گفتگو کی ہے۔ یہی سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں اور سائنسی برتری کا زعم سائنس پر تنقید کی راہ ہموار کرتی ہے۔ فاضل مصنف سمجھتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ کوئی بھی اپنی مابعد الطبیعیاتی اصولوں کے مطابق سائنس کی صورت گری کر سکتا ہے جو دوسری سائنس سے بظاہر تو مماثل ہوگی مگر اپنی بنیادوں، روح اور تشریحات کے اعتبار سے مختلف ہوگی (ص،94 )۔ فلسفہ سائنس اور اس کی حکمت عملیوں اور حدود کے محتاط فہم کی ضرور ت پر زور دیتے ہوئے اسلامی سائنس پر بھی مختصرا بات کی گئی ہے۔ اس ضمن میں سائنس کی اسلام کاری یا ایک اسلامی سائنس مدون کرنے والے بعض معروف مسلمان مفکرین، گلشنی مہدی، سید حسین نصر ، سردار ضیا ء الدین اور پرویز ہود بھائی ، کی آرا اور ان کے طرز فکر کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس دوران انہوں نے صرف سائنس نہیں بلکہ تمام علوم کی اسلام کاری کے فلسطینی نژاد امریکی مفکر اسماعیلی الراجی الفاروقی کے پروجیکٹ پر بھی مختصرا روشنی ڈالی ہے۔

اسلامی سائنس ترتیب دیتے وقت مسلمان مفکرین کے سامنے ایک اہم نکتہ ”اعجاز“ کا بھی ہوتا ہے۔ چناں چہ کتاب و سنت کی نصوص کا اعجاز ثابت کرنے کے لیےبعض اہل علم نے ایسی نصوص کی یوں تشریحات مرتب کی ہیں جو نتائج کے اعتبار سے بالکل معاصر سائنسی تحقیقات سے مماثل ہوتی ہیں۔ قرآن و سنت کی نصوص میں وارد ایسے بیانات کی سائنسی تشریحات کا عرب دنیامیں ایک رواج چلا ہے۔ مثلا زمین اور اس کائنات کی عمر اور آواز کی رفتار کو قرآنی آیت کی روشنی میں معلوم کرنے کےلیےفاضل مصنف نے بھی دو مقالوں کا ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح اب اس قسم کے تفسیری ادب کےلیے عرب دنیا میں ادارے کام کر رہے ہیں۔ مثلا ایک الاعجاز العلمي في القرآن والسنۃ کافی مشہور و معروف ہے اور اس کا کام موسوعۃ الاعجاز العلمي في القرآن والسنۃ اب مطبوع ہو کر پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ فاضل مصنف نے اسلامی سائنس مرتب کرنے کے لیے اس طریقہ کار پانچویں باب میں ذکر کیا ہے۔قرآن یا احادیث کی ایسی تاویلات کو ، جن کے نتائج خواہ مخواہ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق نکلیں، بیشتر اہل علم تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ فاضل مصنف بھی ان ناقدین میں شامل ہیں۔ وہ تفسیر کے اس انداز کی جڑیں اس اصلاحی تحریک سے جوڑتے ہیں جو انیسویں صدی کے وسط میں سر سید احمد خان، جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ جیسی شخصیات کی قیادت میں اجاگر ہوئی تھیں، جن کی فکر کا مرکزی نقطہ مغرب کے مقابلے میں اسلام کے جدید پہلوؤں اور امکانات کوثابت کرکے اس انداز میں اسلام کا احیا کرنا تھا جس کی اساس دلیل اور ترقی کی جدید روش پر قائم ہو(ص،148-149 )بعض ناقدین نےاس اندازِ تفسیر کو ”قرآن کے مکمل علم کو انسان کے نامکمل سائنسی علم کے تابع کرنا“ قرار دیا ہے(ص،151)۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بجائے سائنسی علم یا ترقی کے حصول اور ایک اسلامی عالمی نظریے کے اندر اعجاز کا مناسب مقام برقرار رکھنے کے لیے لگتا یہ ہے کہ ”سائنسی تفسیر“ ایک طرح کی دل جوئی کا کام کر رہی ہے۔ باقی دنیا سائنس کو فروغ دے سکتی ہے اور ہم مسلمان اسے نئے سرے سے قرآن میں دریافت کر رہے ہیں(ص،166)۔ تفسیر کے ”اعجازِ علمی“ کے نام سے معروف اس انداز کا تاریخی جائزہ پیش کرنے کے بعد فاضل مصنف نےاس کے طریقہ کار (methodology) کا ناقدانہ تجزیہ کیا ہے۔ اور بعد ازاں اسلام کے تصورِ اعجاز کا سہارا لیے بغیر سائنس کا صحیح علم حاصل کر کے نیز اس کی مابعد اطبیعیاتی بنیادوں کی درست تفہیم کے بعد قرآن اور سائنس کے درمیان قابل اعتماد مباحثے پر زور دیا ہے۔ اس تعلق سے وہ کہتے ہیں :

The concept of metaphysical basis of science has also now become standard in the discourse. With that understanding, it becomes clear that the materialistic nature of modern science is a metaphysical choice that has been made but is not part and parcel of the scientific enterprise. Indeed, past cultures (including of course the Islamic civilization in its classical ‘golden’ era) did conduct plenty of science, a large amount of which was rigorous and systematic, but it was largely theistic in its foundations and outlook.

’’سائنس کی مابعد الطبیعیاتی بنیاد کا تصور مباحثے میں اب ایک معیار کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ یہ بات سمجھتے ہی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ جدید سائنس کی مادیت زدہ نوعیت ایک ایسا مابعد الطبیعیاتی امر ہے جس کا انتخاب کیا جا چکا ہے مگر یہ سائنسی مہم کا جز و لازم نہیں۔ یقینا گزشتہ تہذیبوں(بشمول اسلامی تہذیب کے کلاسیکی ’سنہری‘ دور میں) اچھی خاصی سائنسی سرگرمیاں ہوتی تھیں جو زیادہ تر عرق ریز اور منضبط قسم کی ہوتی تھیں مگر اپنی بنیادوں میں اور دِکھنے میں دینیاتی ہی ہوتی تھیں‘‘۔ (ص،185)

مسلم بالخصوص عرب مفکرین کےہاں رائج اسلوب ”اعجاز علمی“ کا ناقدانہ جائزہ لینے اور سائنس کی مکمل بصیرت کے ساتھ ایک نئے سرے سے سائنس اور قرآن کے درمیان مباحثے کی ضرورت پر زور دینے کے بعد دوسرے حصے میں سائنس کے چند اہم مسائل کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ گویا یہ نئے مجوزہ مباحثے کا ایک نمونہ ہے۔ یہ حصہ باب ششم سے لے کر بابِ نہم تک چار ابواب پر مشتمل ہے۔ باب ششم اسلام اور کونیات (Islam and cosmology) کےلیے مختص کیا گیا ہے۔ اس باب میں اولا معاصر مسلم مفکرین بالخصوص اعجازعلمی والے اسلوب کے پیروکاروں نے جومتعلقہ قرآنی آیات کی تفاسیر مہیا کی ہیں، ان کا ایک سرسری جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے بعد قرآن سے ماخوذ اسلام کے چار کونیاتی اصولوں کو ذکر کیا ہے (ص،188)۔ بعد ازاں متقدمین فلاسفہ و مفکرین: ابن سینا، ابن رشد، اخوان الصفا، البیرونی، ابن عربی اور معاصر روایت پسند مسلم مفکرین مثلا سید حسین نصر و غیرہ کی آرا کا تعارف پیش کیا ہے۔ اور اس باب کا اختتام معاصر نظریہ ٔ کونیات پر روشنی ڈال کر کیا ہے۔ اسلامی نظریہ کائنات کے بارے میں مسلم مفکرین و فلاسفہ کی آرا اور ان میں اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے فاضل مصنف دراصل یہ نکتہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے اپنا تصورِ کائنات بالکل واضح اور تمام تفاصیل کے ساتھ مہیا نہیں کیا ہے۔ بلکہ چند عمومی اصول دے کر انسانی غور و فکر کے لیے دورازہ کھلا چھوڑا ہے۔ ان بنیادی نوعیت کی قرآنی معلومات کو لے کراسلامی تصورِ کونیات کی تکمیل کے لیے اسلامی تہذیب کے سنہری دور کے مسلم مفکرین نے یونانی فکر سے بھی مدد لی تھی۔ اس لیے ان کاوشوں کے نتیجے میں سامنے آنے والا ”اسلامی کونیات“ کا تصور مختلف نظریات عالم کی ایک ایسی رنگین تصویر بنی جس میں دیگر ثقافتی عناصر اسلامی اصولوں کے ساتھ مدغم ہو چکے تھے (ص216)۔ یوں ہوتے ہوتے بیسویں صدی میں مسلمانوں نے جو کونیاتی نظریات تشکیل دیے وہ بھی سائنسی اور مذہبی متون کا ملاپ تھے۔ تاہم تیسرے ہزاریے میں مادیت پرستانہ مابعد الطبیعیات کی بدولت سائنس نے کسی بھی قسم کی اسلامی (یا کوئی بھی مذہبی) کونیات کے دورازے بند کر دیے ۔ فاضل مصنف سمجھتے ہیں کہ کائنات کی دریافتوں کا اپنے معانی، انسانی وجود اور عقل و فہم کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ اسی لیے وہ ایک ایسے نظریہ ٔ کونیات کی حمایت کر رہے ہیں جوجدید سائنسی نظریات کے ساتھ ساتھ بنیادی اسلامی اصولوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔ اس نکتے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

In my view, the greatness and power of the creation lies in its absolute elegance and perfection. God is the perfect abstraction of all being and Reality; He is the underlying principle upon which everything is built, and rests. This principle then ‘sustains’ the universe like a spirit pervading all of the existence, like a necessary but undetectable field.

’’میرے خیال میں تخلیق کی عظمت اور طاقت اس کی لطافت اور تکمیل میں مضمر ہے۔ خدا ہر وجود اور حقیقت کاکامل اصول ہے۔ یوں خدا ہی وہی بنیادی اور اصل (وجود) ہے جس کے سہارے ہر موجود قائم ہے۔ جس ذات نے ہر شے پر محیط طاقت کی طرح کائنات کو مستحکم رکھا ہوا ہے، ایک ضروری مگر ناقابل سراغ حصار کی طرح‘‘۔ (ص،218)

اسلام کی نظر میں کائنات کی دریافتیں اہم نہیں بلکہ ان میں غور و فکر کر کے اس کے خالق کی معرفت کا حصول مقصود ہے۔ اسی کو بعض متکلمین اور فلاسفہ نے Argument from Design یا Teleological Argument یا دیگر مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔ فاضل مصنف نے باب ہفتم میں اس دلیل کا جائزہ لیا ہے۔ اسلامی روایت میں اس دلیل کا تاریخی مطالعہ نیز امام غزالی و ابن رشد کی آرا کو بھی ذکر کرنے کے بعد علامہ اقبال کی اس قسم کی دلیل پر نقد کو پیش کیا ہے (ص،235 و مابعد)۔ اقبال کی تنقید کے بعد فاضل مصنف نے قرآن کے سائنسی معجزات کے حمایت کرنے والوں کے موقف کا ناقدانہ تجزیہ کیا ہے۔ مقصدیت کی دلیل کے بعد باب ہشتم میں انسان مرکزی اصول (Anthropic Principal) سے بحث کی ہے۔ اس حوالے سےفاضل مصنف متعلقہ چار مصطلحات کے درمیان فرق کی تاکید کرتے ہیں۔(ص،253):

Argument from Design

Fine-Tuning

Anthropic Principal

Intelligent Design

اس اصول کا مرکزی نقطہ انسان کے لیے مرکزی حیثیت تسلیم کرنا ہے کہ کائنات کی اس قدر منظم اور ہر شے کا ایک مخصوص انداز میں خصائص کا حامل ہونا صعف انسان کی خاطر ہے اور یوں اس پوری منظم کائنات کے اندر انسان کو اس کا مرکز تسلیم کرنااس کے خالق اور خدا کے لیے دلیل ہو سکتا ہے۔ چونکہ یہ نظریۂ ارتقا کے مخالف ہے ۔ ڈارون انسان کے لیے مرکزی حیثیت تسلیم نہیں کرتا تھا۔ وہ انسان کو عمل تخلیق میں ارتقائی پراسس کا ایک مرحلہ ہی سمجھتا ہے۔ اس مسئلے کو فاضل مصنف نے باب نہم میں بحث کا موضوع بنایا ہے۔ چناں چہ اولا مسلم روایت میں مسئلہ ٔ ارتقا کی حساسیت کے بارے میں بتلایا ہے کہ اس کے بارے میں خالص مذہبی قسم کے فتاوی بھی صادر ہوتے رہے ہیں (ص،274) اور مسلمانوں کی اکثریت اس کومفروضہ ہی سمجھتی ہے (ص،275)۔ اس کی تمہید کے طور پر چند سائنسی تصورات کی مفصل وضاحت پیش کی ہے جن کی تفہیم ارتقا کے فہم اور اثبات میں معاون ہو سکتی ہے۔ بعد ازاں ارتقا کے دو نمو نوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ ایک ڈارون کا کٹر نظریۂ ارتقا ہے جو اپنی فطرت پسندانہ ماہیت کے اعتبار سے اسلام سے متصادم ہے (ص،286-291) دوسرا نمونہ ارتقا کا وہ ہے جو ڈارون کے ماسوا دوسرے لوگ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ نمونہ اگر چہ غیر معروف ہے مگر مصنف کے خیال میں، اسلام یا مذہبی تعلیمات سے موافقت کا حامل نظر آتا ہے۔ ان دونوں نمونوں کے بعد ارتقا کے بارے میں مسلمانوں کے خیالات کو ذکر کیا ہے۔ فاضل مصنف کی نظر میں ارتقا کے دوسرے نمونے کو قرآن کی آیات سے ثابت کیا جا سکتا ہے (ص،304)۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے سنہری دور کےمفکرین اور فلاسفہ نے ارتقا ئی نظریات کو نہ صرف فروغ دیا ہے بلکہ ان کی توثیق بھی کرتے رہے ہیں (ص305)۔ اسی طرح فاضل مصنف کئی مفکرین مثلا فارابی، الجاحظ، اخوان الصفااور ابن خلدون وغیرہ کے اقتباسات پیش کرتے ہیں ۔ اسی طرح ماضی قریب اور معاصر کئی اہل علم کی عبارات کو نظریۂ ارتقا کے اس نمونے کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں مسلم نظریہ ٔتخلیق کو زیر بحث لایا گیاہے۔ جس کے مطابق اولین انسان حضرت آدم علیہ السلام ہی ہیں اور جینیاتی تبدیلی صرف نوع کی سطح پر واقع ہو سکتی ہے مثلا انسان رنگ اور قد یا جسامت کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں ؛ جنس کی سطح پر نہیں کہ مثلا جانور سے طویل ارتقائی عمل کے بعد ایک انسان پیدا ہو یا اس کے بر عکس۔ ایسا ممکن نہیں۔ نظریہ ٔ ارتقا کے مخالف مسلمان اہل علم کےنظریہ ٔتخلیق (creationism) کو مصنف نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نظریہ ٔ ارتقا کے بارے میں ان کے خیالات ڈارون کے نظریات کے غلط فہم، قرآن کے سطحی مطالعے اور غیر صحیح مفروضوں پر مبنی ہیں ۔ بلکہ ان کا اسلوب استدلال زیادہ تر امریکی ہم خیال creationists سے مستعار ہے (ص،324)۔ مصنف اس امر پرزور دیتے ہیں کہ مسئلہ ارتقا کے بارے میں بات کرتے وقت اس کی مادیت پرستانہ مابعد الطبیعیاتی بنیادوں کو اس کے علمی و تحقیقی پہلوؤں سے الگ رکھا جائے (ص، 323)۔

کتاب کے تیسرے حصے میں دسواں باب ہے جس میں مصنف نے کتاب کے اہم نکات کو ملخص کرکے پیش کیا ہے نیز سائنس اور اسلام کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کےلیے کیاا قدامات کیے جا سکتے ہیں۔، اس پر روشنی ڈالی ہے۔پہلے ان نصوص کے بارے میں بتایا ہے جو بظاہر سائنسی حقائق سے متصادم ہوں۔ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ فاضل مصنف تاکید کے ساتھ کہتے ہیں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں بلکہ یہ فطرت کے حوالے سے صرف با معنی کوئی تصور دیتی ہےجس کی تشریحات کا دورازہ ہمیشہ سے کھلا رہا ہے اور کھلا رہے گا۔ فاضل مصنف فلسفہ سائنس کے کورسز متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں ان مغربی مفکرین کے ساتھ بھی اشتراک عمل بڑھانے کی سفارش کرتے ہیں جنہوں نے جدید سائنس، اس کے فلسفیانہ اور دینیاتی مضمرات کے حوالے سے خاطر خواہ مہارت حاصل کر رکھی ہے۔

جیسا کہ شروع میں عرض کیاگیا تھا کہ عربی فاضل مصنف کی مادری زبان ہے اور مغربی و یورپی زبانوں میں تعلیم حاصل کر کھی ہے اس لیے دونوں کے قسم کے علوم کے مصادر سے براہ راست استفادے کی صلاحیت کی بدولت اس کتاب کی معلومات مستند اور پیش کیے گئے افکار اوریجنل ہیں۔ اور اس لحاظ سے یہ کتاب ”سائنس اور اسلام سے متعلق “ موضوع پر لکھی گئی تحریروں میں ایک اہم اضافہ ہے۔ کتاب پڑھ کر یہ تاثر بھی ہوتا ہے کہ فاضل مصنف اگرچہ اسلامی عقائد اور نصوص سے اعتراف و احترام کا رشتہ رکھتے ہیں مگر اسی کے سا تھ ساتھ سائنسی نظریات سے مرعوب بھی نظر آتے ہیں۔ اس کا احساس خصوصیت کے ساتھ تب ہوتا ہے جب وہ اعجاز علمی والے اسلوب کو علی الاطلاق مسترد کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات کتاب و سنت کی نصوص سے ایسے استدلالات کو مضحکہ خیز گردانتے ہیں مگر نظریۂ ارتقا سے بحث کے دوران خود نصوص اور متقدمین مسلمان اہل علم و فکر کی عبارات سے جس طرح کے رکیک استشہادات کرتے ہیں ان دونوں رویوں میں تضاد کی حد تک یہ فرق سائنسی نظریات سے مرعوبیت کا اثر ہے یا پھر اعجاز علمی والے اسلوب تفسیر سے شدت اختلاف کا۔

( مولانامحمد رفیق شنواری ،شعبہ قانون، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد،میں پی ایچ ڈی اسکالرہیں ۔ ای میل: (rafeeq1857@gmail.com

2

کتاب : التجدید فی علم اصول الفقہ
مصنف : محمد فتحی محمد العتربی
ناشر : المعھد العالمی للفکر الاسلامی، امریکہ
تبصرہ نگار : ذوالقرنین حیدر سبحانی

بدلتے حالات اور زمانے میں جہاں تبدیلی کی رفتار پہلے سے کہیںزیادہ تیز اور اس کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہوں، فکر ونظر میں تبدیلی آنا اور قدیم تصورات و نظریات پر نظر ثانی کرنا عین فطری اور ضروری ہوجاتا ہے۔ خاص کر جب کہ زندگی کے ہر شعبےمیں حقائق اس قدر تبدیل ہو چکے ہوں کہ اس کا ماضی میں تصور بھی نہ ہو۔ موجودہ زمانے میں ریاست وسیاست، اقتصادیات و سماجیات اور ثقافت و قومیت سمیت تمام تصورات اس قدر تبدیل ہوچکے ہیں کہ اس کی مثال ماضی میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ ایسے میں مسلمان علماء ومفکرین کے یہاں یہ چیز ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لی گئی کہ فکر اسلامی میں تجدید ناگزیر ہے۔ اور دور جدید میں اس تجدید کا عظیم کام ایک عرصہ سے شروع بھی ہوچکا ہے۔ یہ ذہن میںرہنا چاہیے کہ تجدید فی نفسہ اسلامی تاریخ کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں تھی لیکن چونکہ تبدیلی کی یہ رفتار اور انداز تاریخ میں انوکھا اور بےنظیر ہے۔اس لیے تجدید کی یہ کوششیں بھی ایک پہلو سے اپنے اندر انوکھا پن رکھتی تھیں ۔ عرب دنیا میں ان تجدیدی کاوشوں میں سب سے ابھرے ہوئے نام جمال الدین افغانی، محمد عبدہ اور رشید رضا اور ان کے خوشہ چینوں کا آتا ہے، جنہوں نے اسلامی علوم و افکار پر نظر ثانی کی دعوت دی۔ چنانچہ قرآنیات ،علم حدیث، تاریخ اسلامی،فقہ، فلسفہ وکلام؛ ان تمام کو انہوں نے اس حوالے سے اپنا موضوع بنایا۔ بعد کے علماء ومفکرین میں یہ احساس پیدا ہوا کہ تجدید کی یہ کوششیں مطلوب شکل میں ثمرآور نہیں ہو سکیں ۔چنانچہ عصر حاضر کے انقلابات وتغیرات کے جلو میں اسلامی فکر کو درپیش چیلنجز کا جواب دینے کے لیے جس نوع کی فکری تگ وتاز کی ضرورت تھی،وہ سامنے نہیں آسکی۔اس کی اہم وجہ اصولی گفتگو میں تجدیدی کوششوں کا فقدان ہے۔ یہی وہ احساس ہے جس کے تحت زیر تبصرہ کتاب لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اصول فقہ کے بارے میں پوری اسلامی تاریخ میں یہ تاثر موجود رہا ہے کہ اسلامی علوم میں یہ سب سے افضل ہے۔ وہ اس طور سے کہ اصول فقہ سے ہی شریعت کے مصادر ،اسلامی قانون سازی کے باب میں ان کی حیثیت کی صحیح معرفت اور احکام کے استنباط کے قواعد وضوابط اور ان کے متعلقات کا علم ہوتاہے ۔ ساتھ ہی اصول فقہ کی ایک حیثیت یہ بھی ہے کہ اسے اسلامی علوم و افکار کے لیے منہج تحقیق ( research methodology) کا درجہ حاصل ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ جب تک اصولی مواقف پر نظر ثانی نہ ہو اور ان کو زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دینے کے لیے سازگار نہ بنایا جائے ،فکر اسلامی میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے یہ کتاب نہایت قیمتی اور فکر انگیز ہے۔کیوں کہ یہ اصولی سطح پر تجدیدی کوششوں کا تعارف بھی کراتی ہے اور ساتھ ہی اس کی دعوت بھی دیتی ہے۔ کتاب تحقیق کے اعلی معیار پر لکھی گئی ہے۔ چنانچہ ان کوششوں کا محاکمہ بھی کیا گیا ہے جو اصول فقہ کے باب میں تجدید کے عنوان سے کی جاتی رہی ہیں لیکن وہ سنجیدہ اور بامعنی نہیں ہیں۔ کتاب کی اپروچ بہت معتدل، متوازن اور مدلل ہے۔ کتاب کے تمام مضامین کا تعارف اور ان پر تبصرہ تو ممکن نہیں ہے،اس لیے پوری کتاب کا ایک خاکہ پیش کرکے چند منتخب مضامین پر مختصر گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

کتاب مقدمے سے شروع ہوتی ہے جس میں موضوع کی اہمیت اور ضرورت اور اس موضوع پر سابقہ کاموں کا تعارف اور اس کتاب کے منہج تحقیق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے بعد تمہید کے نام سے ایک باب میں موضوع سے متعلق اہم اصطلاحوں کا تعارف کرایا گیا ہے اور ساتھ ہی اصول فقہ کی تدوین کے تجدید کے پہلو سے مراحل متعین کیے گئے ہیں اور چھ مرحلوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔پہلا مرحلہ امام شافعی کی کتاب’’ الرسالہ‘‘ سے عبارت ہے۔ دوسرا مرحلہ باقلانی کی کتاب ’’التمہید‘‘ اور جصاص رازی کی’’ الفصول فی الاصول‘‘ پر مشتمل ہے۔ تیسرا مرحلہ عبارت ہے امام غزالی کی کوششوں سے۔ چوتھا مرحلہ امام شاطبی کی کوششوں پر مشتمل ہے اور پانچواں مرحلہ امام شوکانی کی تجدیدی کاوشوں سے عبارت ہے ۔ جب کہ چھٹا مرحلہ معاصرین پر مشتمل ہے۔ پھر پانچ ابواب اور خاتمے پر کتاب مکمل ہوجاتی ہے۔

پہلے باب میں اصول فقہ میں معاصرین کی تجدیدی کوششوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور ان کوششوں کو تین بڑے گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اصول فقہ کی تجدید کی ضرورت اور اس کے عوامل و محرکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے بعدتجدید کے حوالے سے کچھ ضوابط اور قواعد تجویز کیے گئے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے باب میں بالترتیب شریعت کے دو مصادر قرآن و سنت سے متعلق اصولی انداز میں گفتگو کی گئی ہے جو نہایت اہم اور قابل مطالعہ ہے۔دوسرے باب میں چار اہم موضوعات زیر گفتگو آئےہیں: احکام کو پیش کرنے کے سلسلے میں قرآن کا منہج، قرآن کی موضوعاتی وحدت کا فقہی استنباطات پر اثر، مسئلہ نسخ، اور نظم قرآن۔ تیسرے باب میں کتاب وسنت کا باہمی تعلق، احکام کے تعلق سے سنت کا منہج، سنت نبوی کے ساتھ تعامل میں تجدیدی عناصر اور سنت نبوی کی خدمت کے وسائل موجودہ دور کے حوالے سے۔ چوتھے باب میں مصادر شریعت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے جن میں اجماع، قیاس، مصالح مرسلہ، استحسان، عرف، استصحاب، قول صحابی، پرانی شریعتیں وغیرہ زیر بحث آئے ہیں۔ پانچویں باب میں مجدد اور مجتہد کی صفات و شروط پر گفتگو کی گئی ہے اور اصول فقہ کے روشن مستقبل کے لیے کچھ اہم تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔اخیر صفحات میں خاتمے کے عنوان سےپوری بحث کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔

مصنف کے مطابق اصول فقہ کی تجدید کے حوالے سے اہل علم کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا گروہ وہ ہے جس کے یہاں تجدید کا مطلب محض تسہیل ہے یعنی اصول کی قدیم بحثیں کافی دشوار اور گنجلک انداز سے لکھی ہوئی ہیں جن کو آج کے قاری کے لیے سمجھنا کافی دشوار ہے چنانچہ ان کے مطابق قدیم اصولوں کو آسان اسلوب اور موجودہ زمانے کی اصطلاحوں میں پیش کیا جائے۔ اس گروہ کے مطابق اصول فقہ کی تمام تر چیزیں قطعی اور یقینی ہیں اس لیے ان میں کسی طرح کی تبدیلی یا کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اصول فقہ بھی بقیہ انسانی علوم کی طرح ایک مخصوص تاریخی دور اور تاریخی پس منظر کی پیداوار ہے اس لیے بلاکسی رکاوٹ یا حد بندی کے اسے تجدیدی کوششوں کا موضوع بنایا جا سکتا ہے۔ تیسرا گروہ ان دونوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا ماننا یہ ہے کہ پیش کش میں آسانی کو تجدیدی منصوبے میں شامل ہونا ہی چاہیے، ساتھ ہی ایک دائرے کے اندر خود اصولوں پر بھی نظر ثانی ہونی چاہیے۔ صاحب کتاب اسی تیسری رایے کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر آگے کی تمام بحثوں کو قائم کرتے ہیں۔ راقم کو دوسرے اور تیسرے گروہ میں کوئی جوہری فرق محسوس نہیں ہوا سوائے ایک پہلو کے وہ یہ کہ دوسرا گروہ قدیم علمی اصولی ورثے کے تئیں حقارت آمیز رویہ اپناتا ہےجب کہ تیسرا گروہ قدیم کاوشوں کو سراہتا، اور تحقیق وتجدید کےمیدان میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ بلکہ اس کو مصنف کتاب کے لفظوں میں ایک دوسرے پہلو سے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک گروہ قدیم عمارت کو پوری طرح منہدم کردینا چاہتا ہے دراں حالیکہ اس کے پاس سوائے بعض خوشنما دعووں کے کوئی متبادل عمارت موجود نہیں ہے۔ لیکن جوہری طور سےدونوں میں کوئی فرق نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک گروہ سرے سے پورے اصول فقہ کو ظنی اور قابل تبدیل سمجھتا ہے اور دوسرا اس بات کا قائل ہے کہ نظر ثانی ہو تو سکتی ہے مگر کچھ کو قطعیات اور مسلمات کو تسلیم کرتے ہوئے (اور یہی صاحب کتاب کا بھی موقف ہے)مگر دوسرے گروہ کے یہاں بھی اس سلسلےمیں قطعیات کی حد بندی یا تعین کے سلسلے میں کوئی واضح خطوط نظر نہیں آتے۔ چنانچہ خود کتاب میں اس بات کی طرف تو اشارہ کیا گیا ہے کہ کچھ قطعیات کو ماننا ضروری ہے لیکن اس پر کوئی گفتگو نہیں کی جاسکی کہ یہ حد بندی کن بنیادوں پر ہو اور عملی طور سے وہ کیا چیزیں ہیں جو اس دائرے میں رہنی چاہییں۔ دوسری طرف اگر کتاب کے اندر کے مباحث کا جائزہ لیں تو یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ عملی طور پر خود صاحب کتاب کئی ایسے اصولی مسلمات کو چیلنج کے قابل یا ان میں تجدید کے قائل ہیں جنہیں عام طور سے مسلمات اور قطعیات کے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ دو تین مثالوں کی طرف اشارہ کرنا مناسب ہوگا۔ اصول فقہ میں قرآن پر گفتگو کرتے ہوئے ایک اہم مسئلہ نسخ کا آتا ہے۔قدیم مصادر میں اس کی اہمیت اس قدر تھی کہ قرآن کے تعلق سے کوئی رایے پیش کرنے کے لیے ناسخ ومنسوخ کا علم بنیادی شرائط میں شمار کیا جاتا تھا۔ متاخرین علماء میں بالخصوص معاصرین میں نسخ کے تعلق سے انکار کا میلان بہت عام ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صاحب کتاب نے بھی نسخ کے تعلق سے ان اشکالات اور شبہات کی تائید کی ہے جو انکار نسخ کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ دوسری اہم مثال اجماع کی ہےجو عام طور سے قطعیات کے ضمن میں پیش کی جاتی ہیں۔ معاصرین میں ایک بڑی تعداد ان اہل علم کی ہے جنہوں نے اجماع کے دلیل یا مصدر شریعت ہونے پر سوالیہ نشان قائم کیا یا سرے سے اس کا انکار کیا ۔ صاحب کتاب نے اس تعلق سے دلچسپ موقف اپنایا ہے۔ اول تو انہوں نے اجماع کو اجتہادی ادلہ کے تحت بیان کیا۔پھر دور حاضر میں اس کی معنویت کے اثبات کے حوالے سے اس کی بالکل ایک الگ تعریف کی ہے۔اس ضمن میں انہوں نے قرآن کی متعدد آیات سے استدلال بھی کیا تاہم راقم کو بیشتر آیتوں سے استدلال پر تحفظ ہے۔ چنانچہ انہوں نے اجماع کو شوری کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے،فقہ کے موضوع سے ہٹ کرسیاسی و سماجی معاملات کو طے کرنے کے لیے اس کے تہذیبی سطح پر استعمال پر زور دیا۔ ان دو موضوعات سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ خود صاحب کتاب کے مطابق بھی اس تجدیدی عمل کو کس طرح بے قید اور حد بندیوں سے پرے رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح صاحب کتاب نے متعدد اہم اصولی موضوعات کو اصول فقہ میں شامل کرنے اور ان پر غور وخوض کی مصنف نے دعوت دی ہے جیسے فہم قرآن اور قرآن سے استنباط احکام میں نظم قرآن اور وحدت مضامین کی اہمیت اور اسی طرح سنت کے تعامل میں سنت تشریعیہ و غیر تشریعیہ کے فرق کا لحاظ وغیرہ ۔

مصنف نے جن ابحاث کو منتخب کیا ہے ان سے اندازہ ہو تا ہے کہ اصول فقہ کی تجدید کا کام کس قدرہمت طلب،محنت طلب اور صبر آزما ہے۔ اور اس پہلو سےکس قدر بڑا خلا ہمارے فکری حلقوں میں پایا جاتاہے جس کو پر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ راقم کے خیال میں صاحب کتاب کی یہ رایے بالکل حق بجانب ہے کہ فکر اسلامی میں موجودہ دور کے لحاظ سے معنویت پیدا کرنے،اسلام کی ابدیت و آفاقیت کو اجاگر کرنے نیزفکر اسلامی کے ارتقائی سفر کو منظم کرنے کے لیے اصول فقہ سے متعلق تجدیدی کام ناگزیر ہے۔ البتہ ان تجدیدی کاوشوں کا فوکس مناسب متبادل عمارت تعمیر کرنے پر ہونا چاہیے نہ کہ قدیم عمارت کو منہدم کرنے پر۔ اہل علم کو ان دونوں رویوں کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے پوری آزادی اور فراخ دلی کے ساتھ اصول فقہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور تجدید کے اس اہم اور ضروری سفر کو آگے بڑھانا چاہیے۔ یہ کتاب اس حوالے سے ایک اہم اور قابل تحسین کوشش ہے۔ اس کا ہر باب اور ہر موضوع پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے فکر اسلامی کی تجدید کے نظریاتی سطح پر ہونے والے کاموں کو عملی و تطبیقی صورتحال سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ البتہ راقم کو اس حوالے سے حیرت ہوئی کہ صاحب کتاب نے نظم قرآن اور وحدت مضامین پرتفصیلی گفتگو کی لیکن امام فراہی کی چیزیں، جنہوں نے نظم قرآن کو باقاعدہ ایک فلسفے اور نظریے کے طور پر از سر نو پیش کیا، ان کی نظروں سے اوجھل رہ گئیں۔

(ذوالقرنین حیدر سبحانی، شعبۂ فقہ واصول فقہ،انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا میںپی ایچ ڈی اسکالرہیں۔ ای میل:zhaidersubhani@gmail.com)