Editorial Board

  • Ebrahim Moosa (Patron)

    Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies

    Keough School of Global Affairs

    1010 Jenkins Nanovic Halls

    University of Notre Dame

    Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA

    Email, emoosa@gmail.com

    Ph. +19 192703431

  • Dr. Waris Mazhari (Chief Editor)

    Assist. Professor, Department of Islamic Studies,

    Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062

    Email: w.mazhari@gmail.com

    Ph. 9990529353

  • Dr. Joshua Patel ( Deputy Editor)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025

    Email. mmushtak@jmi.ac.in

    Contact. 9910702673

  • Dr. Safia Amir ( Assistant Editor-I)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025

    Email : samir@jamiahamdard.ac.in

    Ph. 9540390930

  • Dr. Syed Abdur Rasheed ( Assistant Editor-II)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Aliah University, Kolkata

    Email : abdurrasheedhyd@gmail.com

    Ph. 8583837253

  • Dr. Javed Akhatar (Managing Editor)

    Assistant Professor, (Guest)

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025

    Email : javed.akhatar1985@gmail.com

    Ph. 9891059708

  • International Advisory Board:

    Saadia Yacoob ( associate editor-I)

    Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA

    Office:Hollander Hall, Rm 206

    Office Phone: (413) 597-2585

    Email, saadia.yacoob@gmail.com

  • Ali Altaf Mian ( associate editor-II)

    Assistant Professor

    Department of Religion, University of Florida, USA

    Email, alimian@gmail.com

  • Adeel Khan ( associate editor-III)

    Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,

    SOAS University of London, UK.

    Email: adeel.khan.cantab@gmail.com

Instructions for Authors

  • The Journal welcomes articles from academics and scholars from around the world.
  • All articles will be subject to anonymous review, and will be evaluated on the basis of their creativity, quality, and understanding.
  • The Editor accepts responsibility for the selection of materials to be published, however individual authors are responsible for the facts, figures, and views in their articles.
  • The Editor reserves the right to edit the articles for reasons of space and clarity.
  • Articles should generally contain between 5,000 and 7,000 words including notes and bibliography, although shorter articles may be accepted by arrangement with the editors.
  • Submission of an article is taken to imply that it has not been previously published, or considered for publication elsewhere.

میں بھی حاضر تھا وہاں

(قطر میںہفت روزہ تربیتی ورک شاپ(30-25دسمبر،2019) کی روداد)

ڈسکورسزکا سرمائی پروگرام ( winter intensive)سال گزشتہ کی طرح اس سال بھی دوحہ قطر کی حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے کالج آف اسلامک اسٹڈیز میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں مدرسہ ڈسکورسز سے وابستہ ہند و پاک کے 40 طلبہ وطالبات نے حصہ لیا، جو اسلامیات سے مربوط الگ الگ اختصاصات سے وابستہ تھے۔

اس انٹنسو کا عنوان تھا:

An Encounter of Western and Muslim Humanities: Science, Hermeneutics and Tolerance

(مغربی اور مسلم انسانی علوم کی باہمی ملاقات: سائنس،مذہبی متون کی تفہیم وتشریح اور رواداری)ابتدا ہی سے سنتے آئے تھے کہ ہمارا پہلا پروگرام دوحہ، قطر میں ہوگا، اس کا بے چینی سے انتظار تھا، جس میں اپنے آن لائن ساتھیوں سے ملاقات، نیا ملک دیکھنے کا شوق، ایک ترقی یافتہ عرب ملک کے نظام تعلیم سے واقفیت کا موقع، اپنے اساتذہ سے ملاقات، الغرض کئی اسباب جمع تھے، جس کی وجہ سے ہمارے لیے یہ پروگرام ایک خاص کشش رکھتا تھا۔ بالآخر ایک طویل انتظار کے بعد وہ وقت بھی کہ آیا کہ ہم قطر کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ حیدرآباد سے مقامی وقت کے لحاظ سے صبح ساڑھے سات بجے روانہ ہوئے۔ ہمارا سفر زمین کی گردش کے ساتھ تھا، یعنی ہم سورج کے ساتھ سفر کررہے تھے، بلکہ کوشش کررہے تھے کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم وہاں پہنچ جائیں۔ بہر حال صبح میں تو نہیں، البتہ ہم دوپہر سے پہلے وہاں پہنچ گئے۔ ہندوستانی وقت کے حساب سے جب ہم لوگ سوا بارہ بجے دوحہ پہنچے تو وہاں ابھی ساڑھے نو ہورہے تھے۔ کل پونے پانچ گھنٹے کا وقت لگا، جب کہ واپسی میں زمین کے مخالف سمت میں سفر کی وجہ سے ہم صرف ساڑھے تین گھنٹے میں حیدرآباد پہنچ گئے۔

دوحہ انٹر نیشنل ایر پورٹ سے ہم کو لینے کے لیے ہوٹل سے ڈرائیور آیا ہوا تھا، وہ ہم کو لے کر مدینہ التعلیم میں واقع ہوٹل’’ پریمیر ان ‘‘لے گیا۔ شاندار ہوٹل میں نرم وگداز بستر پر دراز ہونے کی دیر تھی، نیند آنا چاہیے تھی، لیکن اپنے باقی ساتھیوں کا انتظار تھا، خصوصا پاکستانی احباب کا، جو رات 1:30 بجے پہنچنے والے تھے۔بہر حال ان کے انتظار میں نیند آگئی۔ رات میں تقریبا .ڈھائی بجے کے قریب احباب پہنچے۔ میرے روم میٹ ڈاکٹر سعید شفیع داخل ہوئے۔ نیند کھل گئی اور دل چاہا کہ فورا جاکر سب سے ملاقات کرلوں، خصوصا شیخ ثناء اللہ، محمد جان، سمیع سعدی وغیرہ جن کی گفتگو کو ’’زوم‘‘(Zoom) پر اکثر سننے کا موقع ملتا رہتا لیکن دوستوں کے آرام کے خیال نے قدم روک لیے۔

صبح کو سب سے پہلی ملاقات مدرسہ ڈسکورسز کے نئے فیکلٹی ڈاکٹر شیر علی ترین صاحب سے ہوئی۔ ڈاکٹر ترین فرینکلن اینڈ مارشل کالج کے مذہبی مطالعات کےشعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔کیفے میں کافی کے گھونٹ لے رہے تھے۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے میرا نام لے کر جواب دیا، خوشی ہوئی کہ فورا پہچان لیا۔ ناشتے پر عمار ناصر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ تعجب ہے کہ میں ان کو پہلی نظر میں پہچان نہیں سکا اور نام پوچھنے تک کی نوبت آئی۔ در اصل میں عمار صاحب کو زوم پر دیکھ کر دوہری کاٹھی کا انسان تصور کررہا تھا، جب کہ وہ نسبتا دبلے شخص ہیں۔ بہر حال تعارف ہوا۔ نیز شیخ ثناء اللہ، جان محمد اور دوسروں سے بڑھ بڑھ کر متعارف ہوا۔ امریکہ میں مدرسہ ڈسکورسز کے فیکلٹی ڈاکٹر جوش لوپو، ڈاکٹر اسفندیارخان (ریسرچ اسکالر، یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم، امریکہ) اور ڈاکٹر شیر علی سے ناشتہ پر گفتگو ہوئی۔

ناشتہ کے بعد ہم حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوئے۔ قطر فاؤنڈیشن کی جانب سے دو بسوں کا انتظام تھا۔ پہلے دن کا شیڈیول صبح 11 بجے دن سے شام45: 7 بجے تک تھا۔ گیارہ بجے کے قریب ہم لوگ کالج آف اسلامک اسٹڈیز، حمد بن خلیفہ یونیورسٹی پہنچ گئے۔ یہ کالج ایک جہاز کی شکل کا بنا ہوا ہے، جس کے دو نہایت بلند مینارے ہیں، جن کی شکل ہوائی جہاز کے پچھلے حصہ سے ملتی ہے۔ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو ایک مصنوعی روپہلی نہر بہہ رہی تھی، جس نے ماحول کو خوشگوار بنادیا تھا۔ آگے بڑھے تو ایک وسیع وعریض آڈیٹوریم کی طرف رہنمائی کی گئی، جس میں ہمارا پروگرام تھا۔

پرگرام کی ترتیب

اس پروگرام کی نوعیت ایک ورک شاپ کی تھی۔ ہم کو آغاز ہی میں ایک مرتب خاکہ دے دیا گیا تھا، جس کے مطابق اس انٹنسو کے دوران افتتاحی اور اختتامی نشست کے علاوہ نو مرکزی موضوعات کے تحت پندرہ محاضرات ہونے تھےاور متعدد مباحثاتی نشستیں طے تھیں، جن میں بحث وگفتگو اور سوال وجواب میں شرکاء کو حصہ لینا تھا۔

تعارفی نشست

پروگرام کا آغاز نشست پر بیٹھی شخصیات کے تعارف سے ہوا۔ پروفیسر ابراہیم موسی، ڈاکٹر شیر علی ترین، ڈاکٹر عمار ناصر، ڈاکٹر وارث مظہری، ڈاکٹر ادریس آزاد (استاذ زائر، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد) اور ڈاکٹر ثمینہ تابش (فیکلٹی اسسٹنٹ مدرسہ ڈسکورسز) نے اپنا تعارف کرایا۔ اس موقع پر ڈاکٹر ابراہیم موسی، ڈاکٹر جو ش لوپو اور ڈاکٹر شیر علی ترین نے مختصر خطاب کیا۔ ڈاکٹر جوش امریکہ میں مدرسہ ڈسکورسز کے فیکلٹی ہیں۔اس سے قبل ڈاکٹر مہان مرزایہ ذمہ داری نبھارہے تھے۔

پروفیسر ابراہیم موسی نے کہا کہ یہ پروگرام خاص میرا شروع کردہ ہے، جس کا ذمہ دار میں خود ہوں۔ اس کی ذمہ داری نہ تو یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم پر ہے اور نہ میرے ساتھیوںپر۔ میں نے جان ٹمپلٹن فاؤنڈیشن کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ برصغیر میں دینی مدارس کے طلبہ قوی الاستعداد ہوتے ہیں، جن پر مزید محنت کرکے ان کو جدید چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔ میں نے یہ پروگرام امین عثمانی صاحب(سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا) کے مسلسل اصرار پر شروع کیا، جنہوں نے تحریری اور زبانی طور پر مجھ سے ہمیشہ یہ مطالبہ کیا کہ میں مغرب ومشرق کو جوڑنے اور مغربی ذہن اور منہج تحقیق سے مدرسہ کے طلبہ کو متعارف کرانے کے لیے کوئی پروگرام شروع کروں۔ اس پروگرام کو شروع کرنے کے لیے کئی جگہوں سے مطالبہ تھا۔ میرا تعلق ساؤتھ افریقہ سے ہے، وہاں سے بھی مطالبہ تھا، اب تو خود امریکہ اور یورپ میں بھی کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے پروگرام کی ضرورت وہاں پہلے سے موجود ہے۔ لیکن ہم نے بر صغیر کے مدارس کو ترجیح دی۔ تاکہ یہاں کے ذی استعداد طلبہ کو مغربی فکر کے چیلنجز سے عہدہ برآہونےکے لیے تیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔تعارفی نشست میں ڈاکٹر شیر علی ترین نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے سائنس، بین المذاہب ملاقاتیں اور فہم نصوص پر گفتگو کی۔

پہلی نشست: ڈاکٹرجوش لوپو کا محاضرہ بعنوان: سائنس اور مذہب

افتتاحی نشست کے بعد نماز ظہر اور ظہرانے کے لیے وقفہ رکھا گیا تھا، جس کے بعد پہلی نشست شروع ہوئی، پہلی نشست میں ڈاکٹر جوش نے محاضرہ دیا، ان کا محاضرہ پیٹر ہیریسن (Peter Harrison) کی کتاب دی ٹیریٹریز آف سائنس اینڈ ریلیجن (The Territories of Science and Religion) کے دو ابواب پر تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہیریسن کے مطابق آج کے دور میں یورپ، امریکہ اور دوسرے ملکوں میں بڑے پیمانے پرکسی بھی مذہب کو مذہب بنام سائنس کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے، جب کہ ماقبل دور میں سائنس کو معرفت خداوندی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک افسانہ ہے کہ یونان میں مسیحیت کے آنے کے بعد سائنسی تحقیق میں زوال شروع ہوا، حالاں کہ ارسطو اور آگسٹائن دونوں کا کہنا تھا کہ فلسفہ اور طبیعی سائنس دونوں تشکیل ذات کے دائرہ کار میں ہیں۔ جدیدیت سے پہلے سائنسی تحقیق کا تشکیل ذات سے گہرا تعلق تھا۔ تشکیل ذات کا مطلب ہوتا ہے اپنی ذات کو ایک مخصوص شکل دینا۔ عیسائیت میں تشکیل ذات کے لیے ضروری ہے کہ مخصوص روحانی، طبیعی اور ذہنی عادتوں کو اپنایا جائے، جس کے ذریعہ انسان ایک مثالی عیسائی بن سکے۔ اس کے بالمقابل جدیدیت میں سائنس کا تصور محدود ہوگیا ۔ اس کا دائرۂ تحقیق بھی سکڑتا گیا ۔سائنس ایک اخلاق کو نکھارنے والی چیز کے طور پر باقی نہ رہی۔ساتھ ہی مذہب کو اعتقادات تک محدود کردیا گیااور دینی میلان رکھنے والوں کو سائنس سے خارج کردیا گیا۔ سائنس دانوں نے اپنے موضوع اور مذہب کے بیچ میں لکیریں کھینچنی شروع کردیں اور یہیں سے سائنس بنام مذہب کا افسانہ گھڑا گیا۔اب سائنس ایک منہج کا نام ہوگیا، جس کا مقصد کسی مفروضہ کو سچ یا جھوٹ ثابت کرنا تھا نہ کہ تشکیل ذات کی طرف توجہ دینا۔ آگے چل کر سائنس کی تعریف یہ سامنے آئی کہ: سائنس وہ ہے جو اپنے موضوع تحقیق سے علیحدہ ہو۔ سائنس داں کی ذاتی شناخت کا اس منہج سے کوئی تعلق باقی نہ رہا۔ ڈاکٹر جوش کا لکچر انگریزی زبان میں تھا، درمیان میں ڈاکٹر شیر علی ترین نہایت محنت اور توجہ کے ساتھ اس کا اردو میں خلاصہ پیش کررہے تھے۔

دوسری نشست بعنوان: آغاز اسلام اور عصر جدید کی ابتدا میں مسلمانوں کی سیاسی دینیات

بعد نماز مغرب دوسری نشست شروع ہوئی۔ اس نشست کے مقرر ڈاکٹر شیر علی ترین اور ڈاکٹر مولانا وارث مظہری تھے، ڈاکٹر شیر علی کا موضوع تھا:

Translating the ‘Other’: Early-Modern Muslim Understandings of Hinduism

(اغیار کا مفہوم: عصر جدید کے آغاز میں مسلمانوں کے درمیان ہندومت کی تفہیم)-یہ ڈاکٹر شیر علی کا لکھا ہوا مقالہ تھا، جس میں انہوں نے اٹھارویں صدی کے متبحر عالم اور صوفی بزرگ حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے مکاتیب سے ان عبارتوں کا انتخاب کیا تھا، جن میں انہوں نے ہندومت کے بارے میں اپنے مسلمان مخاطبین سے گفتگو کی۔ ڈاکٹر شیر علی نے اس میں مسلمانوں کی جانب سے ہندومت کی ترجمانی کے تاریخی شجرے (genealogy) پر گفتگو کی ہے اور البیرونی اور دارا شکوہ سے اس فکر کا نسب ملایا۔درمیان میں امیر خسرو، عبد الکریم شہرستانی اور دوسرے اصحاب علم بھی اس سلسلہ کی کڑی بن جاتے ہیں۔ مرزا مظہر جان جاناںؒ نے ہندومت کو ایک توحید پرست مذہب بتایا ہے اور ویدوں کو الہامی کتاب مانا ہے۔ اس طرح انہوں نے اسلام اور ہندومت میں مشترک بنیادیں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

ڈاکٹر وارث مظہری نے ابو الحسن عامری کی کتاب الاعلام بمناقب الاسلام کی پانچویں، چھٹی اور ساتویں فصل پر اپنا محاضرہ پیش کیا۔ انہوں نے خلاصہ کرتے ہوئے بتایا کہ عامری نے اپنی کتاب میں اسلام کا دیگر پانچ مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت، مجوسیت، صابئیت اور مشرکین سے موازنہ کیا ہے۔ انہوں نے تقابل کے لیے چار میدان طےکیے ہیں: اعتقاد، عبادت، معاملات اور عقوبات یا سزائیں۔ تقابل کا یہ منہج اختیار کیا ہے کہ اصول کا اصول سے اور فروع کا فروع سے موازنہ کیا جائے۔ اور کسی فرقہ یا جماعت کی خوبی اور خامی کو پورے مذہب سے منسوب نہ کیا جائے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں نظریہ علم کی بنیادیں بھی بیان کی ہیں اور علم کی تقسیم کی ہے۔ ان کے مطابق علم کی دوقسمیں ہیں: ایک ملی اور دوسرے حکمی۔ ملی علوم میں بعض علوم حسی ہیں، جیسے حدیث اور بعض عقلی ہیں، جیسے کلام، جب کہ بعض حسی اور عقلی دونوں صفات کی حامل ہیں، جیسے فقہ۔ حکمی علوم میں بھی یہی تین اقسام ہیں، حسی یعنی طبیعیات، عقلی یعنی الہٰیات اور منطق اور حسی وعقلی جیسے ریاضی اور طب وغیرہ۔ عامری نے حکمی علوم کا ذریعہ منطق کو قرار دیا ہے۔ جب کہ ملی علوم کا ذریعہ لغت کو۔

تیسری نشست بعنوان: بین مذہبی ملاقاتیں

26 دسمبر کو تیسری نشست منعقد ہوئی۔اس نشست کے مقرر ڈاکٹر مولاناعمار ناصر اور ڈاکٹر شیر علی ترین تھے۔مطالعہ کے لیے مولانا قاسم نانوتوی کا مباحثہ شاہ جہاں پور مقرر تھا، غیر اردو داں ساتھیوں کے لیے اس مباحثہ پر لکھا ہوا ڈاکٹر شیر علی مقالہ تھا، جس کا عنوان تھا:

The Polemic of Shahjahanpur: Religion, Miracles and History

نشست کے آغاز میں ڈاکٹر شیر علی نے گذشتہ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ابو الحسن عامری اور مرزا مظہر جان جاناں کے درمیان منہج کا ایک اہم فرق ہے، وہ یہ کہ مرزا مظہر جان جاناںؒ کا مقصد توطین یعنیdomestication ہے، جس کا مطلب ہے غیر کو اپنا بنانا، جب کہ ابو الحسن عامری کا مقصد ہے تغریب یعنی foreignization ، جس کا مطلب ہے غیر کو مزید غیر بنانا-ڈاکٹر عمار نے بتایا کہ جدیدیت نے دنیا کے تمام مذاہب کے عقائد اور تعلیمات پر اثر ڈالا ہے، جس کی وجہ سے مذہب کے تصور میں چند اہم تبدیلیاں پیدا ہوگئی ہیں، مثلا: دین کو صرف نصوص تک محدود کردینا۔ دین کو انفرادی اعمال میں محصور کردینا اور سیاست کو مذہب سے منفصل کردینا۔ دینی معرفت کو شخص کی خارجی اتھارٹی یعنی صوفیاء، علماء وغیرہ کی تشریحات وہدایات سے علیحدہ کرکے ذاتی دریافت سے جوڑ دینا، وغیرہ۔

ڈاکٹر عمار صاحب نے یہاں چند سوالات پیش کیے، اور کہا کہ مباحثۂ شاہجہاں پور کو پڑھتے وقت ہمیں چند سوالات پیش نظر رکھنے چاہئیں: مثلا: نص کی تحلیل کس طرح کریں، اور کیا سوالات پیدا کریں؟ یہ دیکھیں کہ احوال اور فکر کا آپسی تعلق کیا ہے، سیاسی، سماجی اور مادی غلبہ کی تبدیلی سے فکر میں کیا تبدیلی پیدا ہوتی ہے؟ اس مناظرہ اور اسلامی ماحول میں ہونے والے مناظرہ میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق کتنا صوری اور کتنا معنوی ہے؟ اس مناظرہ میں معجزہ کی تشریح کس طرح کی گئی ہے؟

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مباحثۂ میں ہندومت کے تعلق سے مولانا قاسم نانوتوی نے قطعی طور پر اس کو کفر وشرک کا مذہب قرار دینے کے بجائے بیچ کی راہ نکالی ہے، اور اس کے لیے قرآن سے دلیل دی ہے، ان کے الفاظ ہیں: ’’باقی رہا دین ہنود، اس کی نسبت اگرچہ ہم یقینا کہہ نہیں سکتے کہ یہ دین بھی آسمانی ہے، مگر یقینا یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ دین جعلی ہے، خدا کی طرف سے نہیں آیا‘‘۔ انہوں نے شری رام چندر جی اور شری کرشن جی کے بارے میں بلکہ مطلقا ہندووں کے اوتاروں کے بارے میں اس کا امکان ظاہر کیا ہے کہ وہ انبیاء یا اولیا ہوسکتے ہیں، اور ان کی طرف جو دعوی خدائی منسوب ہے، ممکن ہے کہ وہ بعد کی تحریفات ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے سوال اٹھایا کہ یہاں ایک ایسے مذہب کو جس میں شرکیہ اور کفریہ عقائد وتعلیمات واضح طور پر موجود ہیں، امکان اور تاویل کے ذریعہ آسمانی مذہب سے قریب کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ سامراجی نظام میں بیرونی عیسائیوں کے مقابلہ میں اپنے ملک کے ہندوؤں کو مذہب اسلام سے قریب تر دکھایا جائے، تاکہ اجنبیت دور ہو اور سب مل کر بیرونی قوت کو باہر کردیں؟ یا یہ فکر کسی پہلے سے موجود فکر کا تسلسل ہے؟

صبح کی یہ نشست بعد نماز ظہر بھی گروپ ڈسکشن کی شکل میں جاری رہی۔سوا ایک بجے ظہرانے کے لیے ہم گذشتہ روز کی طرح یونیورسٹی کینٹین گئے۔ آج ظہرانے کے بعد وقفہ رکھا گیا تھا۔ نماز عصر کے بعد کالج آف اسلامک اسٹڈیز میں چائے کا دور چلا، اور بعد نماز مغرب نشست شروع ہوئی۔

چوتھی نشست بعنوان: رواداری اور تکثیریت

مغرب بعد کی اس نشست کے مقررین ڈاکٹر ابراہیم موسی اور ڈاکٹر وارث مظہری تھے۔ ڈاکٹر مظہری کے محاضرہ کے لیے یوہانن فریڈمین (Yohannan Friedmann) کی کتاب (Tolerance and Coercion in Islam) کا چوتھا باب اور ساری نصیبہ کی کتاب (The Story of Reason in Islam) کے مختلف صفحات مقرر تھے۔ لکچر کے آغاز ہی میں ایک لفظ Political Theology یا سیاسی دینیات پر مباحثۂ شروع ہوا۔ ڈاکٹر ابراہیم موسی نے اس لفظ کا شجرہ نسب بتاتے ہوئے وضاحت کی کہ ماقبل جدیدیت سیاست دین کے تابع ہوتی تھی، جس کے لیے Theo-Politics کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ جب کہ جدید دور کے آغاز کے بعد یہ تصور بدل گیا، اور دین سیاست کے تابع ہوکر سامنے آیا، جس کے لیے Political Theology کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر مظہری نے یوہانن فریڈمین کی گفتگو کا خلاصہ کیا، اور چار سوالات قائم کیے، جو فقہ اسلامی میں مرتد کی سزا کے تعلق سے تھے:اسلامی سیاسی دینیات سے ارتداد کا کیا تعلق ہے؟ ارتداد کی سزا جبر واکراہ کے تحت آتی ہے یا نہیں؟ جبر واکراہ کی کیا تعریف ہوگی؟ کیا یہ مسئلہ فقہ کے حدود سے نکل کر کلامی مسئلہ بن جاتا ہے؟ کب اور کیسے؟ان سوالوں پر گفتگو کرنے کے لیے گروپس تشکیل دیے گئے، مباحثہ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مرتد کی سزا کے تعلق سے جو احادیث موجود ہیں، ان کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتد کی سزا کا تعلق سیاست سے بھی ہے، بعض احادیث میں الفارق لدینہ کے ساتھ المفارق للجماعۃ کا اضافہ ہے، جو اس طرف اشارہ کررہا ہے۔ سیاست سے تعلق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قدیم دور میں ملک کی تشکیل مذہب کی بنیاد پر ہوتی تھی، ہر مملکت کا اپنا مذہب ہوتا تھا، دوسرے مذہب والوں کو یا تو دوسرے درجہ کا شہری بن کر رہنا پڑتا تھا، یا پھر ملک چھوڑ جانا پڑتا تھا۔ مذہب ترک کرنے کا مطلب ملک سے بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ جدید دور میں یہ صورتحال نہیں ہے۔

ایک دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ فقہاء نے مرتد کی سزا کو حدود میں شمار کیا ہے، شریعت کی روشنی میں انہوں نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ حدود میں کسی قسم کی معافی نہیں ہوتی، جب کہ مرتد کی سزا میں دو اشکال ہیں، ایک یہ کہ اگر عورت مرتد ہوجائے تو اس کو قتل نہیں کیا جاتا، اس کی وجہ فقہاء خود بتاتے ہیں کہ اس کے اندر حرابہ یعنی جنگ کرنے کی قوت نہیں ہے، دوسرے یہ کہ حضرت عبد اللہ بن ابی سرح کے بارے میں روایت ہے کہ رسول اللہ نے فتح مکہ کے وقت ان کا خون حلال کردیا تھا، لیکن بعد میں انھیں معاف کردیا گیا۔ مذہب کو اختیار کرنے اور ترک کرنے کا قرآنی اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں کسی پر کوئی جبر نہیں، لا اکراہ فی الدین اور فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر والی آیتیں اس پر دلالت کرتی ہیں۔ مسئلہ ارتداد پر گفتگو کاتعلق اس مسئلے کے فقہی تناظر سے نہیں تھا۔ بلکہ اس کاتناظر یہ تھا کہ اسلام میں تسامح کے حوالے سے ایک مغربی مصنف نے اسے کس طرح دیکھنے کی کوشش کی ہے۔

پانچویں نشست: زبان، منطق اور نظریۂ معرفت پر مباحثے

اس نشست کے مقررین ڈاکٹر وارث مظہری اور ڈاکٹر عمار ناصر تھے۔ موضوع تھا: ابو حیان توحیدی کی کتاب الامتاع والموانسۃ کی وہ فصل جس میں انہوں نے ابو بشر متی بن یونس اور ابو سعید سیرافی کا مناظرہ نقل کیا ہے۔ غیر عربی داں افراد کے لیے ساری نصیبہ کی کتاب (The Story of Reason in Islam)کے منتخب صفحات مقرر تھے۔ ڈاکٹر مظہری نے بتایا کہ ابو بشر متی بن یونس نسطوری عیسائی تھے۔ابو حیان توحیدی نے اس مناظرہ میں ان کی دلیلوں کو بہت کمزور کرکے پیش کیا ہے، ورنہ یہ بحث بہت اہم ہے۔ فارابی نے کتاب الحروف میں اس بحث کو اٹھایا ہے اور موجودہ دور میں بھی یہ بحث اٹھائی جاتی ہے کہ لغت کے ذریعہ معانی تک رسائی حاصل کرنے میں منطق کا کیا مقام ہے اور کیا علم نحو اس کمی کو پورا کرسکتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ عابد الجابری کا ماننا ہے کہ عربوں کی زبان کی تشکیل بدوی ماحول میں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے عربی زبان کا ڈھانچہ عقل برہانی کے بجائے عقل بیانی کے مناسب ہے۔ لیکن طہ عبد الرحمن اس تصور کے خلاف ہیں۔ان کے مطابق اس کا تعلق عربی زبان کی لسانی ساخت سے نہیں ہے۔ بلکہ اصل یہ ہے کہ منطق یونانی لسانیات کی ساخت کے مطابق ہے جسے عربی زبان کی ساخت قبول نہیں کرتی۔گویا منطق جس طرح اہل یونان کے لیے کارآمد ہوسکتی ہے، ضروری نہیں ہے کہ دوسری زبانوں کے جاننے والوں کے لیے بھی اس کی وہی اہمیت ہو۔ڈاکٹر عمار ناصر نے بتایا کہ اس بحث کا ایک پہلو یہ ہے کہ کیا معانی کی تخلیق انسانی ذہن سے پیدا ہوتی ہے، یا معانی کا ایک الگ وجود ہے، جہاں تک انسانی ذہن رسائی حاصل کرتا ہے؟

حسن وقبح کی بحث

ڈاکٹر عمار ناصر صاحب نے بتایا کہ حسن وقبح کی کلامی بحث بھی اسی مسئلہ سے جڑجاتی ہے، وہ اس طرح کہ حسن وقبح شریعت سے الگ کچھ معانی ہیں، جہاں تک ہم عقل اور شریعت دونوں کے ذریعہ رسائی حاصل کرسکتے ہیں، جیسے معتزلہ کا ماننا ہے، یا حسن وقبح الگ معانی نہیں ہیں، بلکہ شریعت کا حصہ ہیں۔ انہوں نے توضیح کرتے ہوئے بتایا کہ اشاعرہ کا ماننا ہے کہ کسی چیز کا قبح خدا کی تعلیم کی وجہ سے ہے، نہ کہ عقل کی وجہ سے۔ خدا سے اوپر کوئی ایسا مصدر نہیں ہے جو کسی چیز کا حسن وقبح واضح کرے۔ اشاعرہ کے نزدیک حسن کا مطلب یہ کہ اس کام کو خدا نے قابل تعریف قرار دیا ہے۔ اور قبح کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کو خدا نے قابل مذمت قرار دیا ہے۔معتزلہ کہتے ہیں کہ حسن وقبح شریعت سے الگ معانی ہیں، جن تک عقل ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ معتزلہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ اللہ پر کچھ چیزیں لازم ہیں، جو اس نے اپنے اوپر خود ہی لازم کرلی ہیں۔اشاعرہ کے اس مسئلہ میں اپنے تحفظات ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خدا پر کسی چیز کی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ شریعت کے ماوراء کوئی مصدر نہیں ہونا چاہیے، جس کی پابندی بندوں پر لازم ہو۔

آج جمعہ کا دن تھا ۔نماز جمعہ کلیۃ الدراسات الاسلامیہ کی وسیع وعریض مسجد میں پڑھی گئی۔ پوری مسجد نمازیوں سے بھر گئی تھی۔ خواتین کے لیے دوسری منزل پر انتظام کیا گیا تھا۔ نماز سے کچھ قبل مجھے محسوس ہوا کہ مسجد کے باب الداخلہ پر حفاظتی انتظامات معمول سے کچھ زیادہ کردیے گئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ تشریف لائے ہیں۔ خطیب نے جمعہ کی امامت کے لیے انہی کو آگے بڑھایا۔ اسماعیل ہنیہ نے نماز کے بعد کھڑے ہوکر سب سے ملاقات کی۔ ہمارے ہندوستانی ساتھیوں سے وہ خصوصی طور سے ملے۔ اور اخواننا من الہند کہہ کر دوسروں سے ان کو متعارف کرایا۔

متحف الفن الاسلامی

آج بعد نماز جمعہ ہمارے لیے متحف الفن الاسلامی کا دورہ طے کیا گیا تھا۔ یہ دورہ ہمارے لیے اس لیے بھی اہم تھا کہ قطر آنے کے بعد سے اب تک سوائے ہوٹل اور حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ظہرانے کے بعد ہم لوگ پروگرام کے مطابق بس میں سوار ہو کر دوحہ شہر روانہ ہوئے۔ مدینہ تعلیمیہ دوحہ شہر سے کچھ دوری پر واقع ہے۔ تقریبا آدھا گھنٹہ سفر کے بعد ہم لوگ ساحل کے کنارے بنی اس عظیم الشان عمارت میں پہنچے جس کا نام متحف الفن الاسلامی یا Museum of Islamic Art ہے۔ یہ میوزیم ساحل کے کنارے سمندر میں تعمیر کیا گیا ہے۔

میوزیم آف اسلامک آرٹ خلیج قطر کے ساحل پر واقع ایک عظیم الشان عمارت میں قائم کیا گیا ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ اس کی عمارت ساحل سے ہٹ کر سمندر میں تعمیر کی گئی ہے، درمیان میں ایک پل ہے، جو میوزیم کو ساحل سے جوڑتا ہے۔ یہ عمارت عالمی شہرت یافتہ معمار آیوہ مینگ پیی نے 2006 میں تعمیر کی تھی، جو ایک چینی نزاد امریکی آرکیٹیکٹ ہیں۔ ان کو (IMP) کے مختصر نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ قاہرہ میں تیرہویں صدی کی ایک مسجد ہے، جس کا نام مسجد احمد بن طولون ہے۔ اس مسجد کے وضو خانہ کے گنبد سے آئی ایم پی نے اس میوزیم کے نقشہ کا تصور اخذ کیا ہے۔باب الداخلہ سے اندر جانے کے بعد ایک وسیع وعریض ہال ہے، جو اس عمارت کی دوسری منزل ہے۔ اس میں ’ادام ‘کے نام سے ایک بڑا ہوٹل ہے۔ چاروں طرف پرسکون سمندر کی لہریں ہولے ہولے اٹھ کر دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ آپ چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے سمندر کی وسعتوں کا لطف لے سکتے ہیں۔

ہمارے پاس وقت کم تھا، جس کی وجہ سے ہم نے تیزی سے تیسری منزل کا رخ کیا۔ اس منزل میں زمانہ اور علاقہ کے لحاظ سے اسلامی فنون کے علیحدہ علیحدہ کارنرس بنے ہوئے ہیں، مثلا قدیم اسلامی فن پارے جن کا تعلق ساتویں تا بارہویں صدی عیسوی سے ہے، ایک کارنر میں موجود ہیں۔ اس کے بعد 12ویں سے 14ویں صدی عیسوی کے ایران اور وسط ایشیا کے اسلامی فن پارے ایک جگہ ہیں۔ مصر وشام کے 12ویں اور 13ویں صدی عیسویں کے شہہ پارے ایک جگہ ہیں۔ ہندوستان اور ترکی کے 16ویں تا 18ویں صدی عیسوی تک کے فن پارے علیحدہ علیحدہ ہیں۔

میوزیم میں جن آثار قدیمہ کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے، ان میں ایک کعبۃ اللہ کے دروازے کی کنجی ہے، جو چوتھی صدی عیسوی کے زمانہ کی ہے۔ فولاد کی بنی ہوئی اس کنجی پر چاندی کا کام ہے۔ جس پر آیت کریمہ: ومن دخلہ کان آمنا کندہ ہے۔ اس کے علاوہ مختلف زمانوں میں امراء اور روساء کے گھروں میں استعمال ہونے والے برتن، جن کے اندر اور باہر نفیس کام کیا ہوا ہے، ایک برتن کا نام سلطانیہ ہے، جو مختلف ڈیزائینوں اور سائزوں میں موجود ہے۔ اسی طرح مختلف نوع کے ابریق، طبق، قنينة یعنی بوتل یہاں جمع کیے گئے ہیں۔ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ایک ناقوس بھی ہے، جو گیارہویں یا بارہویں صدی عیسوی کا ہے۔ یہ ناقوس شکار کے لیے استعمال ہوتا تھا۔یہاں مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے فن تعمیر کے نمونوں کو بھی جمع کیا گیا ہے، جن میں ٹائلس، دروازے، ستونوں کے تاج اور جالیاں شامل تھیں، جن پر نہایت خوبصورت نقش ونگار بنے ہوئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی خطاطی، نقاشی اور مصوری کا شاندار ورثہ ہے۔

مجھے یہاں جس چیز نے سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کیا، وہ مسلمانوں کی سائنسی تاریخ کا ورثہ ہے، جو قطر اسلامک میوزیم نے محفوظ کررکھا ہے۔ اس میوزیم میں اسطرلاب کے متعدد نمونےہیں۔ میرے اندازہ سے چھوٹے بڑے سائز کے بیس سے زیادہ نمونوں کے اسطرلاب اس میوزیم میں موجود ہیں۔ اسطرلاب فلکیات اور ریاضیات میں استعمال ہونے والا انتہائی مفید آلہ ہے، علم جغرافیہ میں بھی اس سے مدد لی جاتی ہے۔ اسطرلاب اصلا یونانی ایجاد ہے، مسلمانوں نے سادہ سے یونانی اسطرلاب کو ترقی دے کر آسمان کے سربستہ رازوں کی دریافت میں اس کو استعمال کیا۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے اسطرلاب محمد بن ابراہیم فزاری نے ابو جعفر منصور کے دور میں تیار کیا تھا۔

ایک فریم میں اسطرلاب کی تمام پلیٹوں کوعلیحدہ علیحدہ کرکے لگایا گیا ہے۔ جس سے اس کی بناوٹ اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے۔ مسلمانوں نے متعدد انواع کے اسطرلاب بنائے، جس میں سے یہاں اسطرلاب مسطح، اسطرلاب اسطوانی، اسطرلاب کونی، اسطرلاب اسطوانی مسطح وغیرہ انواع موجود ہیں۔ اسطرلاب کے علاوہ یہاں ریاضیات کے بھی چند آلات محفوظ ہیں، جن میں مسطرہ (اسکیل) اور پرکار شامل ہیں۔ ریاضی میں استعمال ہونے والے مختلف ٹکڑے بھی ہیں، جو شاید دائرہ ، نصف دائرہ یا مثلث بنانے میں استعمال ہوتے تھے۔ یہ قطر اسلامک میوزیم کی ایک جھلک ہے، یہاں اور بھی بہت کچھ ہے، جس کو بیان کرنے کے لیے دوبارہ زیارت ضروری ہے۔

چھٹی نشست: مہمان استاذ ڈاکٹر سہیرا صدیقی کا محاضرہ بعنوان: نظریۂ معرفت (Epistemology)

اٹھائیس دسمبر کی آج کی نشست میں ڈاکٹر سہیرا صدیقی (کینیڈا) نے نظریۂ معرفت پر اپنا محاضرہ دیا۔ انہوں نے گیارہویں تا چودہویں صدی عیسوی کے درمیان کے چار علماء امام غزالی، امام جوینی، امام رازی اور امام قرافی کے نظریات پر اپنا پاور پوائنٹ پریزنٹیشن پیش کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ مذہبی اعتبار سے نظریۂ معرفت کو جاننا کیوں ضروری ہے؟ سامعین کے مختلف جوابات سننے کے بعد انہوں نے مزید اضافہ کیا کہ علم کلام کا مرکزی سوال نظریۂ معرفت سے مربوط ہے۔ علم کلام کا اصول ہے کہ خدا کو پہچاننا علم کی بنیاد پر ضروری ہے، نہ کہ تقلید کی بنیاد پر۔ اس لیے علم کی حقیقت اس کے مصادر اور اس کی حیثیت کو سمجھنا مذہبی فریضہ بھی ہے۔

تین بنیادی سولات ہیں۔علم کیا ہے؟علم کے مصادر کیا ہیں؟ حاصل شدہ علم کا کیا مقام اور کیا قدر ہے؟ وہ قطعی ہے، یا قطعی نہیں ہے؟

یہ تین سوالات نہ صرف اسلامی تاریخ، بلکہ مغربی فلسفیانہ فکر میں اہمیت رکھتے ہیں۔مغرب میں علمی معاییر کے حوالے سے دو مراحل رہے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی سے پہلے مانا جاتا تھا کہ کسی موضوع (subject)کا قضیہ اس وقت قابل اعتبار ہے، جب کہ اس کے اندر تین تقا ضے موجود ہوں:قضیہ درست ہو، فرد کو قضیہ کا یقین ہو، قضیہ کا یقین کرنے کے لیے وہ مناسب دلیل دے۔لیکن ساٹھ کی دہائی کے بعد گیٹیر (Gettier) نے اس بارے میں ایک مسئلہ اٹھایا، اس نے کہا کہ اعتقاد/ مفروضہ فرد سے الگ ایک چیز ہے۔ وہ اس وجہ سے صحیح نہیں ہوسکتا کہ فرد اس کا یقین رکھتا ہے۔ گیٹیر کی مداخلت کے بعد ایک تناؤ شرو ع ہوا، اور ایک نئی سوچ سامنے آئی، کسب معرفت کو فضائل سے جوڑا گیا۔ مختلف علوم وفنون میں علم کی الگ الگ تقسیم کی گئی ہے۔ اصول فقہ میں اس کو قطعی اور ظنی کے اعتبار سے تقسیم کیا ہے اور فلسفہ میں شک اور یقین کے اعتبار سے۔ صوفیا اس کو معرفت، علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے درجات میں تقسیم کرتے ہیں۔ علم کلام میں علم کی دو قسمیں کی گئی ہیں: ضروری اور نظری۔ انہوں نے بتایا کہ اسلامی تاریخ میں نظریۂ معرفت کے الگ الگ ماڈل رہے ہیں، مثلا: عقلی نظریۂ معرفت؛ یہ معتزلہ کا ہے۔نفسیاتی نظریۂ معرفت؛ یہ اشاعرہ اور امام غزالی کا ہے۔سماجی نظریۂ معرفت؛ یہ امام جوینی کا ہے۔ نتائجی نظریۂ معرفت؛ یہ امام رازی کا ہے۔ نیا عقلی نظریۂ معرفت؛ یہ امام قرافی کے یہاں ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اشاعرہ کے علم کلام کو سمجھنے کے لیے معتزلہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ معتزلہ کے نزدیک علم کے تین درجات یا قسمیں ہیں:

بدیہی: جو فطری ہو، جو اعداد وشمار سے حاصل ہو۔ضروری: اضطراری علم، جو کسی پختہ سبب کی وجہ سے حاصل ہو۔نظری: ظن وتخمین، یہ بھی سبب سے حاصل ہوتا ہے، لیکن سبب فراہم کرنے والے کو خود بھی نتائج کا یقین نہ ہو۔اشاعرہ نے علم کی دو قسمیں کی ہیں: ایک بدیہی یا ضروری، دوسرے نظری۔ اشاعرہ نے علم میں وحی کو مرکزیت عطا کردی اور اخلاق کو بھی وحی سے مربوط کردیا۔ اس کے نتائج یہ ہوئے کہ عقل کے استعمال میں کمی آگئی۔معاییر کو عقل کے بجائے وحی سے مربوط کردیا گیا۔ اور یہ نظریہ سامنے آیا کہ اخلاقی اعمال کے پس منظر میں وحی اصل ہے۔

اشاعرہ نے حسن وقبح کا مفہوم یہ بتایا کہ قبیح وہ ہے جس پر شریعت نے ملامت کی ہو، اور جس کو کرنے والا سزا کا مستحق ہو۔ اور حسن وہ ہے جو مباح ہو، یا جس کے کرنے والے کی تعریف کی گئی ہو اور ثواب کا وعدہ ہو۔ امام غزالی نے اشاعرہ سے تھوڑا سا اختلاف کرتے ہوئے حسن کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ (1) حسن وہ ہے جس سے فاعل کا فائدہ ہو۔ (2) حسن وہ ہے، جس سے ثواب ملے۔ (3) حسن وہ ہے، جس کو کوئی فرد ادا کرسکے۔ نظریۂ معرفت کی بحث میں امام جوینی (م،1085) نے سماجی نظریۂ معرفت کا تصور پیش کیا۔ ابتدا میں انہوں نے علم میں اشاعرہ کی درجہ بندی کو اپنایا۔ اس کے نتیجہ میں ان کے سامنے دو مشکلات آئیں:(1) انہوں نے دیکھا کہ اس منہج کو اختیار کرنے میں اس بات کا خطرہ ہے کہ دینی علم پورا کا پورا نظری ہوجاتا ہے۔ (2) پھر نظری علم کی مختلف اشکال کو ریکوگنائز نہیں کیا جاتا ہے۔ یہاں مرکزی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس ایسا کوئی طریقہ ہے، جس کے ذریعہ نظری علم قطعی میں تبدیل ہوجائے؟

جوینی کے پاس ہمیں نظریہ علم میں انقلاب نظر آتا ہے۔ وہ نظری علم کو ضروری علم میں تبدیل کرنے کا منہج پیش کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اس کے تین ذرائع ہیں:(1) نظری علم کے پس پردہ اسباب تلاش کرکے اس کا یقین کرسکتے ہیں۔ (2) مختلف اوقات میں تکرار سے بھی نظری علم قطعی ہوسکتا ہے۔ (3) اسی طرح کسی چیز کی اجتماعی عملی تکرار سے بھی وہ قطعی ہوجاتا ہے۔ غزالی اور جوینی کے منہج میں فرق یہ ہے کہ غزالی کی ترکیز علم کے نفسیاتی پہلو پر زیادہ ہے۔ جب کہ جوینی کی ترکیز علم کے سماجی پہلو پر زیادہ ہے۔ ہم آگے بڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے امام رازی (م،1209ء) آتے ہیں، جن کے پاس علم کی تقسیم دو درجات میں ہوتی ہے، نظری اور بدیہی۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانی ذہن خود سے حسن وقبح کا پتہ لگاسکتا ہے (جیسا کہ معتزلہ کا کہنا ہے)، لیکن یہ فیصلہ خدا کے احکام پر لاگو نہیں ہوتا (جیسا کہ اشاعرہ کا کہنا ہے)۔ امام رازی نے حسن وقبح کی تعریف میں اس بات کا اضافہ کیا کہ حسن وقبح صرف وہ نہیں، جس سے فرد کو نفع یا نقصان پہنچے، بلکہ وہ ہے، جس سے سماج کو نفع یا نقصان پہونچے۔ آگے چل کر قرافی (م،1285ء) کے نزدیک نئی تعریف سامنے آتی ہے، ان کے نزدیک حسن وہ ہے، جس کی ممانعت اللہ نے نہیں کی۔ قبیح وہ ہے جس کی خدا نے ممانعت کی۔ احسن وہ ہے، جس پر خدا نے ثواب کا وعدہ کیا۔ڈاکٹر سہیرا صدیقی نے تمام مفکرین کے نظریات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام مفکرین نے اللہ تعالی کی نازل کردہ وحی اور اللہ کی حاکمیت کو سمجھتے ہوئے عقل کے دائرہ کار کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ سہیرا صدیقی کا محاضرہ ہمارے لیے اسلامی نظریۂ معرفت کوسمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوا۔

ساتویں نشست: ڈاکٹر علی قرہ داغی کا محاضرہ بعنوان: الفقہ الاسلامی بين النصوص والتراث والمعاصرۃ ۔ وفقا لفقہ المیزان

شام میں بعد نماز مغرب ڈاکٹر علی قرہ داغی کا محاضرہ ہوا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنے موضوع کی توضیح کی اور لفظ ’تراث‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ تراث کا لفظ وُراث سے نکلا ہے، جس کے معنی ورثہ کے ہیں، اسلامی تراث کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے اور انسانی ورثہ کے ساتھ جب مذہب شامل ہوجاتا ہے تو وہ اسلامی ورثہ قرار پاتا ہے۔ نصوص شرعیہ تراث کے لفظ میں داخل نہیں ہوتے ہیں، نہ ہی دین تراث کا حصہ ہوتا ہے۔ البتہ قرآن مجید اور حدیث شریف سے جڑے ہوئے تمام اجتہادات تراث میں داخل ہوتے ہیں۔ فقہی تراث دو طرح کی ہوتی ہے: ایک وہ جو قرآن وسنت سے مربوط ہوتی ہے۔ دوسرے وہ جو اس سے مربوط نہیں ہوتی، جیسے آثار فقہاء اور انسانی تجربات۔

انہوں نے بتایا کہ نصوص کی دو قسمیں ہیں: قطعی اور ظنی، ہمیں اس کے جاننے کی ضرورت ہے کہ دونوں قسم کی نصوص کے ساتھ عقل کا کیا کردار ہے ۔ عقل بارہ طریقے سے نصوص کے ساتھ تعامل کرتی ہے، جن میں سے چند یہ ہیں: نص کے معنی کی طرف مراجعت کرنا، مثلا رقاب کا لفظ ہے جس کے معنی گردن کے ہیں، لیکن یہاں مراد گردن نہیں ہے، بلکہ غلاموں کی آزادی ہے۔ دوسرے نص میں وارد حکم کی علت معلوم کرنا، تیسرے عرف وعادت کو دیکھنا، نیز تحقیق مناط، فقہ الواقع والتوقع یعنی حالات کو سمجھنا اور متوقع حالات کو پیش نظر رکھنا، شروط وضوابط کو ملحوظ رکھنا۔ یہ وہ مختلف کام ہیں، جو نصوص سے تعامل کے وقت عقل کو انجام دینے ہوتے ہیں۔ انہوں نے جدید مسائل کے حوالہ سےالرجال قوامون علی النساءکی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ آیت گھریلو معاملات کے تعلق سے وارد ہے اور گھر چلانے کے لیے مردوں کو ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی ادارہ میں خواتین کو کوئی مرکزی مقام نہیں دیا جاسکتا۔

آٹھویں نشست، ڈاکٹر رانا دجانی کا محاضرہ بعنوان: سائنس، نظریۂ ارتقا اور اسلام

29تاریخ کو صبح کی نشست میں استاذ زائر کی حیثیت سے ڈاکٹر رانا دجانی کا لکچر تھا، ڈاکٹر رانا دجانی کا تعلق اردن سے ہے، وہ اپنے والد کی خرابی صحت کی وجہ سے قطر میں موجود نہیں تھیں، انہوں نے آن لائن لکچر دیا۔ ڈاکٹر دجانی نے نظریۂ ارتقاء کی بہت عمدہ وضاحت کی، ان کا لکچر انگریزی زبان میں تھا، اردو میں مزید وضاحت کے لیے جناب سیف الہادی صاحب کی خدمات لی گئیں۔ ڈاکٹر رانا دجانی نے نظریۂ ارتقا کی گتھی کو سلجھاتے ہوئے کہا کہ اس نظریہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان بندر سے آیا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان اور بندر میں اس قدر مشابہت ہے کہ اگر دونوں کا شجرہ نسب نکالا جائے تو دونوں کسی ایک نقطہ پر جاکر مل جائیں گے۔

ڈاکٹر ادریس آزاد کا محاضرہ: بعنوان: نظریۂ ارتقاء کے ثبوت

اگلا لکچر ڈاکٹر ادریس آزاد کا تھا۔ان کا تعلق پاکستان سے ہے، انہوں نے نظریۂ ارتقاء کے ثبوتوں پر لکچر دیا۔ انہوں نے زمان ومکان کا تانا بانا، کشش ثقل کا کنواں، زرقون پتھر، طبیعی انتخاب، میوٹیشن، فوسل ریکارڈ، کاربن ڈیٹنگ اور قدیم زمانہ کے دریافت ہونے والے کپڑوں میں جوؤں کی موجودگی جیسے متعدد موضوعات کوبنیاد بنا کر نظریۂ ارتقاء کے دلائل سے بحث کی۔ ڈاکٹر ادریس آزاد بہت سادہ انداز میں گہری باتیں سمجھانے کی قدرت رکھتے ہیں۔شرکا نے نظریۂ ارتقا پر مذہبی فکر کے حوالے سے پیداہونے والے سوالات اٹھائے جن کے جواب دیے گئے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ وضاحت کی گئی کہ نظریۂ ارتقا پر گفتگو کا تعلق اس کی مذہبی تفہیم سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد صرف اس نظریے کی تفصیلات سے کماحقہ واقف ہونا ہے۔

قطر نیشنل لائبریری کا دورہ

جمعہ کے روز کی طرح آج بروز پیر ہمارے لیے قطر نیشنل لائبریری کی زیارت کا پروگرام بنایا گیا، قطر نیشنل لائبریری ایجوکیشن سٹی کے قلب میں واقع ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قطر کا قلب ہے۔ نماز ظہر اور ظہرانہ سے فارغ ہوکر ہم لوگ بذریعہ بس مکتبۃ قطر الوطنیۃ پہنچے۔ یہ ایک شاندار اور وسیع وعریض عمارت تھی، جس میں داخل ہوتے وقت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم کسی بہت بڑے غار کے دہانے میں داخل ہورہے ہیں۔ لائبریری کے ذمہ داروں کو اطلاع کردی گئی تھی، اس لیے انہوں نے ہماری رہنمائی کے لیے ایک رہبر کا انتظام کردیا۔ لائبریری دکھانے کے لیے ہمارے ساتھ قطر نیشنل لائبریری کی موظفہ ترک خاتون تھیں۔ انہوں نے ہمیں لائبریری کا مفصل تعارف کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ لائبریری کا نقشہ عصر حاضر کے مشہور ڈچ معمار ریم کولہاس (Rem Koolhaas) نے ڈئزائن کیا ہے۔ ہالینڈ کے رہنے والے معمار نے اس لائبریری کو اس انداز میں بنایا ہے جیسے کسی چوکور کاغذ کے چاروں کونوں کو مثلث بناکر موڑ دیا جائے اور اس کے درمیان میں کسی شخص کو کھڑا کیا جائے تو مسطح حصے کے ساتھ تمام چاروں کونے برابری کے ساتھ اس کو نظر آئیں گے۔ اس عمارت کی دیواروں میں خاص قسم کے شیشے لگائے گئے ہیں، جہاں سے روشنی داخل ہوتی ہے اور چھت سے ٹکراکر پوری لائبریری کو منور کرتی ہے، چھت کو اس انداز سے بنایا گیا ہے کہ وہ روشنی کو برابری سے منعکس کرے۔ اور عمارت کے ہر گوشے میں قدرتی روشنی مہیا ہوسکے۔ لائبریری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ درمیان میں کھڑے ہوکر دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ آپ کسی اسٹیڈیم میں کھڑے ہیں، کیوں کہ کتابوں کی الماریوں کو سیڑھیوں کی طرح افقی ترتیب پر رکھا گیا ہے۔ ریم کولہاس نے اس لائبریری کو کتابوں کے اسٹیڈیم کے طور پر دیکھنے کی کوشش کی تھی۔قطر نیشنل لائبریری کا افتتاح نومبر 2017 میں ہوا۔ یہ 45000 اسکوائر میٹر پر پھیلا ہوا کتب خانہ ہے۔ جو کمپیوٹر کے جدید نظام سے لیس ہے۔ یہاں کتابوں کے لین دین کا عمل بھی خود کار طریقے سے ہوتا ہے۔ جو کتاب آپ واپس کریں گے، اس کو مشین لینے کے بعد اس کی جگہ پر خود ہی پہنچا دیتی ہے۔ اس میں بارہ لاکھ سے زیادہ کتابیں ہیں۔ بچوں کے لیے الگ سیکشن ہے، جہاں ان کی عمر کے لحاظ سے کتابیں رکھی گئی ہیں۔ معذورین کے لیے علیحدہ سہولیات ہیں۔ درمیان میں ایک پروگرام ہال ہے، جہاں پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔

مخطوطات کا سیکشن مکتبہ کے درمیان میں تہہ خانہ میں واقع ہے۔ اس کو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے آثار قدیمہ کے دریافت ہونے پر کسی جگہ کھدائی کی جاری ہے۔ یہاں چار ہزار سے زیادہ مخطوطات اور نقشہ جات ہیں۔ کعبہ کا غلاف، کنجی، حضرت علی کی طرف منسوب قرآن کا صفحہ، قدیم تصاویر اور قطر کی تاریخ کے بارے میں متعدد دستاویزات یہاں موجود ہیں۔لائبریری کا دورہ ہم تشنگان معرفت کے لیے ایک سیر دریا کی طرح تھا۔ دل کہتا تھا کہ یہاں آنے کا ہر روز موقع ملے اور ساری دنیا سے یکسو ہوکر ہم کتابوں میں کھو جائیں اور مولانا آزاد کی طرح حافظ شیرازی کا یہ مصرعہ گنگنائیں: فراغتے وکتابے وگوشئہ چمنے

تاثرات کی محفل

30 دسمبر کوڈاکٹر موسی کا لکچر اس علمی پروگرام کی آخری کڑی تھا۔ اس کے بعد تاثرات کی محفل ہوئی ، جس میں ہندوستان اور پاکستان سے منتخب طلبہ کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔ اس موقع پر شرکا نے پروگرام کے تعلق سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ اس پروگرام کی خوبی یہ ہے کہ یہاں کوئی نقطہ نظرتھوپا نہیں جاتا۔ گفتگو نہایت کھل کر آزاد ماحول میں ہوتی ہے اور ہرشخص کواپنے مطالعے اورفکر کے مطابق سوالات قائم کرنے اوربحث میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔محاضرات کے لیے مواد کا انتخاب مدارس کے فضلا کے لیے بہت اہم تھا۔ انہیں ان کے ذریعے اسلامی فکر کے نئے گوشوں سے گہرے طور پر واقف ہونے کا موقع ملا۔

تاثرات کی دوسری نشست شام چھ بجے کالج آف اسلامک اسٹڈیز کی پہلی منزل پر آراستہ کی گئی۔ یہاں منتظمین کی طرف سے الوداعی ڈنر بھی رکھا گیا اور اس سے پہلے تاثرات کی محفل آراستہ کی گئی۔

اس محفل کی نظامت استاذ عمار ناصر صاحب نے سنبھالی، انہوں نے سب سے پہلے ڈاکٹر شیر علی ترین کو دعوت دی۔ شیر علی ترین نے ڈاکٹر سمیرا صدیقی کے حوالہ سے بتایا کہ انہوں نے شرکاء کے بارے میں اس تاثر کا اظہار کیا کہ ان کے اندر تواضع کے ساتھ تبحر علمی پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شیر علی نے کہا کہ آپ پر آپ کے ہندو پاک کے اساتذہ کا بھی کافی اثر ہے، جس کی وجہ سے آپ کے اندر یہ خصوصیات منتقل ہوئی ہیں۔ کیوں کہ آپ کے اساتذہ کی علمی شان یہ ہے کہ ان کو جو موضوع بھی دے دیا جائے، وہ اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں، اس کے باوجود تواضع کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اس کی نظیر مشرق ومغرب میں نہیں ملتی۔انہوں نے اپنے اس تاثر کا بھی اظہار کیا کہ میری پندرہ سالہ اکادیمی زندگی میں ان چھ دنوں سے زیادہ نافع ،دلچسپ اور مزیدار دن نہیں گذرے۔ ادریس آزاد صاحب نے کہا کہ: مسلمانوں میں ریاضی کی طرف بہت کم توجہ ہے، الجبرا تو مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ ریاضی ہماری میراث ہے۔ اس لیے کم از کم اعشاریہ ایک فیصد ریاضی تو ہمیں سیکھنی ہی چاہیے۔ اس انٹنسو میں ابراہیم موسی صاحب کا جو محاضرہ کلچر کے عنوان پر ہوا، وہ اس پروگرام کی جان تھا۔ موسی صاحب نے جو ایک جملہ کہا تھا کہ تہذیب خود سے پھوٹنے کی چیز ہوتی ہے، میں ابھی تک اس کے نشہ میں ہوں۔ جدید دور بموں کے ذریعہ جیتنے کا نہیں ہے، ہمیں اپنے بیانیہ کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بیانیہ کیا ہے؟ ڈاکٹر جوش لوپونے اس پروگرام کا حصہ بننے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ۔ڈاکٹر وارث مظہری (لیڈ فیکلٹی، انڈیا)نے کہا کہ مدرسہ ڈسکورسز سے ہمارا مقصد نئی روایت کوسامنے لانا نہیں ہے، بلکہ سابقہ روایت کا احیا ہے۔ اس کامقصد مدارس کے فضلا کوموجودہ زمانہ کے فکری چیلنجوں سے واقف کرانا ہے۔

ڈاکٹر عمارناصرصاحب (لیڈ فیکلٹی، پاکستان) نے فرمایا کہ ہم سب آپ کی وجہ سے چند موضوعات پر گفتگو کرسکے، اس پر آپ کو اور ہم سب کو دنیا وآخرت میں جزاء ملے، میں اس موقع پر یہ کہنا چاہوں گا کہ مدرسہ اسلامی تہذیب کا واحد ادارہ ہے، جو باقی رہ گیا ہے۔ اس کی حفاظت وترقی امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ادارے یوں ہی نہیں بنتے، کسی ادارے کو ادارہ بننے اور اعتبار حاصل کرنے میں سینکڑوں برس لگ جاتے ہیں۔ یہ ادارہ آج بھی باقی ہے، اور اس کا اعتبار بھی باقی ہے۔اس ادارہ کی قدر وقیمت کو سمجھنا اور وہ جس علمی روایت کا امین ہے اس کی قدر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ڈاکٹر عمار جب بول رہے تھے تو ان کے سینے میں جذبات کا ایک سمند رتھا، جو چھلکا جارہا تھا۔ خود بھی روئے، اور ساری محفل کو روہانسا کردیا۔

سب سے اخیر میں ڈاکٹر ابراہیم موسی مخاطب ہوئے، وہ بولنے سے پہلے ہی عمار سر کو گلے لگا کر جذباتی ہوگئے تھے۔ انہوں نے گفتگو کا آغاز بھی ان الفاظ سے کیا کہ جب بھی یہ پروگرام ہوتا ہے، میں جذباتی ہوجاتا ہوں۔ مجھے عمار اور وارث مظہری صاحبان کی شکل میں بہترین معاونین ملے ہیں۔ انہوں نے میرے دل کی خلش کو سمجھا۔ یہ سب انہی کا تیار کردہ نصاب ونظام ہے۔ہمارا تاریخی ورثہ چودہ سو سالوں پر محیط ہے۔ ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہے کیوں کہ اس کی بربادی میں صرف مسلمانوں کا نقصان نہیں ہے، بلکہ ساری انسانیت کا نقصان ہے۔ یہ ورثہ آپ کا ہے، اس پر آپ نے محنت نہیں کی، تو کون کرے گا۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مجھےکبھی ہندوپاک کے بہترین گروہ سے مصاحبت کا موقع ملے گا۔ میں خود اس پروگرام سے مستفید ہوتا ہوں۔ پروفیسر ابراہیم موسی کے اظہار خیال کے بعد یہ محفل اختتام پذیر ہوئی۔ اس کے بعد خصوصی ہندوستانی ڈنر کا انتظام تھا۔ سب نے نم آنکھوں اور مسکراتے چہروں کے ساتھ اسے تناول کیا اور میر کا یہ شعر پڑھتے ہوئے واپس ہوئے:

اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

(سید عبدالرشید عالیہ یونیورسٹی کولکاتا کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کے سا ل اول میں شریک ہیں۔ ای میل:abdurrasheedhyd@gmail.com>)