Editorial Board

  • Ebrahim Moosa (Patron)

    Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies

    Keough School of Global Affairs

    1010 Jenkins Nanovic Halls

    University of Notre Dame

    Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA

    Email, emoosa@gmail.com

    Ph. +19 192703431

  • Dr. Waris Mazhari (Chief Editor)

    Assist. Professor, Department of Islamic Studies,

    Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062

    Email: w.mazhari@gmail.com

    Ph. 9990529353

  • Dr. Joshua Patel ( Deputy Editor)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025

    Email. mmushtak@jmi.ac.in

    Contact. 9910702673

  • Dr. Safia Amir ( Assistant Editor-I)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025

    Email : samir@jamiahamdard.ac.in

    Ph. 9540390930

  • Dr. Syed Abdur Rasheed ( Assistant Editor-II)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Aliah University, Kolkata

    Email : abdurrasheedhyd@gmail.com

    Ph. 8583837253

  • Dr. Javed Akhatar (Managing Editor)

    Assistant Professor, (Guest)

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025

    Email : javed.akhatar1985@gmail.com

    Ph. 9891059708

  • International Advisory Board:

    Saadia Yacoob ( associate editor-I)

    Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA

    Office:Hollander Hall, Rm 206

    Office Phone: (413) 597-2585

    Email, saadia.yacoob@gmail.com

  • Ali Altaf Mian ( associate editor-II)

    Assistant Professor

    Department of Religion, University of Florida, USA

    Email, alimian@gmail.com

  • Adeel Khan ( associate editor-III)

    Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,

    SOAS University of London, UK.

    Email: adeel.khan.cantab@gmail.com

Instructions for Authors

  • The Journal welcomes articles from academics and scholars from around the world.
  • All articles will be subject to anonymous review, and will be evaluated on the basis of their creativity, quality, and understanding.
  • The Editor accepts responsibility for the selection of materials to be published, however individual authors are responsible for the facts, figures, and views in their articles.
  • The Editor reserves the right to edit the articles for reasons of space and clarity.
  • Articles should generally contain between 5,000 and 7,000 words including notes and bibliography, although shorter articles may be accepted by arrangement with the editors.
  • Submission of an article is taken to imply that it has not been previously published, or considered for publication elsewhere.

تبصرہ ٔ کتب

نام کتاب : قرآن اور ارتقائے حیات کی جستجو
ترجمہ : In Search of Our Origins How the Quran Can Help in Scientific Research
مصنف : ڈاکٹر جمشید اختر
مترجم ومبصر : ڈاکٹرمحمد ذکی کرمانی
ناشر : اویروس اکادمی علی گڑھ،2020

چند دہائی قبل قرآن کریم اور سائنس کے موضوع پر مسلم اسکالرز کا رویہ یہیں تک محدود تھا کہ یا تو سائنسی انکشافات کو قرآنی آیات سے ثابت کر دیتے تھے یا ان کی روشنی میں آیات قرآنی کو سائنس کے ذریعے سمجھنے کی کوشس کرتے تھے۔ عام خیال یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نہ تو سائنس ہی کا کوئی بھلا ہوتا تھا اور نہ ہی فہم قرآن میں کوئی اضافہ۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میںجب اسلام اور سائنس کی بحث عالمی سطح پر معروف سائنسی جرائد تک پہنچی تو ایک تنقید اس طرح کی گئی کہ قرآنی حقائق کو سائنس کے ذریعہ ثابت کرنے میں ایک بڑا نفسیاتی خطر ہ یہ لاحق ہے کہ الٰہی انکشافات کوہم ایسے انسانی انکشافات سے صحیح ثابت کر رہے ہوتے ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی کمزور بنیاد ہے۔ مزید یہ کہ قرآن ہمارے ایمان کا جز ہے اور سائنسی انکشافات مشاہداتی سچائیاں ہیں اور یہ دونوں ہی ہماری زندگی کے استحکام کے لئے لازمی ہیں۔ کوئی ایک بھی اگر کمزور ہوگا تو مجروح شخصیتیں پیدا ہونگی۔ قرآن کریم پر ایمان اگر کمزور ہوگا تو زندگی کٹی پتنگ اور ڈوبتی کشتی کی مانند ہوگی اور اگر سائنسی مشاہدات سے انکار کریں گے تو ہر طرح کی غلامی مقدرہو جائے گی۔

اس فکر کے نتیجہ میں قرآن اور سائنس کے تعلق اور اس کے مطالعے کی حوصلہ شکنی ہوئی اور یہ سوچا گیا کہ سائنس چو نکہ ایک زیر تشکیل کہانی کی مانند ہے اس لئے اس کے حقائق کو زمان و مکان کے پس منظر میں ہی سمجھا جائے اور قرآن کو اس سے مدلل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔یہ بات کسی حد تک درست تھی لیکن ہر ذہن کو مطمئن نہ کر سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ زندگی ایک اکائی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن کی ایمانیات اور انسانی عقل کے سائنسی یا علمی اظہار کو الگ الگ اور ایک دوسرے سے ممیز حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس پس منظر میں جو اہم مباحث سامنے آئے ان کا حاصل یہ تھا کہ :

  1. قرآن کریم بنیادی طور پر ایک ورلڈ ویو کی تشکیل کرتا ہے جس کا رول یہی ہے کہ جو معاشرہ اسے قبول کر لے یا جس معاشرہ پر اس کا غلبہ ہو اس سے وابستہ افراد کی علمی، فکری اور تخلیقی سر گرمیاں، اس ورلڈ ویو کے زیر اثر تشکیل پائیں اور ان کاارتقاء ہو۔ یہ اثر فطری انداز میں ہوتا ہے اور کیونکہ اس میں لوگ فردا فردااشریک ہوتے ہیں اس لئے تنوع لازمی ہے۔ عہد اسلامی کی تاریخ میں چوں کہ یہ ورلڈویو متحرک تھا اس لئے زندگی کے ہر ہر پہلو کو اس کے ذریعہ تحریک ملی۔ وہ جن کے ذہنوں پر یہ ورلڈ ویو غالب ہوا ان کی سرگرمیوں کا اس کے زیر اثر ہونا تو فطری تھا۔لیکن دوسرے افراد بھی اس سے متاثر ہوئے جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو سیاسی اعتبار سے اس ورلڈویو کے زیر اثر تھے اور وہ بھی جو اس کی ثقافت سے متاثر ہو گئے تھے۔
  2. دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم مختلف انسانی سرگرمیوں کے لیے کچھ اقدار فراہم کرتا ہے۔یہ اقدار اکثر تو عمومی ہوتی ہیں لیکن بعض اوقات یہ خصوصی بھی ہوتی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے جدید مباحثہ کا ایک اثر یہ ہوا کہ بعض مفکرین نے ایسی قرآنی اقدار کی نشاندہی کی جو جدید سائنسی سر گرمیوں کے لئے بہتر اور صحت مند رخ کی یقین دہانی کراتی ہیں۔اسلامی اقدار کی یہ نشاندہی اس پس منظرمیں بڑی اہم ثابت ہوئی کہ جدید سائنس جس سلسلۂ اقدار یا جس ورلڈویو کے پس منظر میں جاری تھی وہ بنیادی طور پر استحصال، تشدد اور ہوس سے تشکیل پائی تھی۔
  3. تیسرا اہم نکتہ اس مباحثہ کا یہ تھا کہ تقریبا یہ طے پاگیاکہ اسلام ورلڈویو اور اقدار کی شکل میں تو سائنس کے لئے اہم ہے لیکن خود اس میں سائنس کے حقائق کی جستجو کرنااس کتاب کے ساتھ شاید نا انصافی ہوگی۔