Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
نام کتاب | : | قرآن اور ارتقائے حیات کی جستجو |
ترجمہ | : | In Search of Our Origins How the Quran Can Help in Scientific Research |
مصنف | : | ڈاکٹر جمشید اختر |
مترجم ومبصر | : | ڈاکٹرمحمد ذکی کرمانی |
ناشر | : | اویروس اکادمی علی گڑھ،2020 |
چند دہائی قبل قرآن کریم اور سائنس کے موضوع پر مسلم اسکالرز کا رویہ یہیں تک محدود تھا کہ یا تو سائنسی انکشافات کو قرآنی آیات سے ثابت کر دیتے تھے یا ان کی روشنی میں آیات قرآنی کو سائنس کے ذریعے سمجھنے کی کوشس کرتے تھے۔ عام خیال یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نہ تو سائنس ہی کا کوئی بھلا ہوتا تھا اور نہ ہی فہم قرآن میں کوئی اضافہ۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میںجب اسلام اور سائنس کی بحث عالمی سطح پر معروف سائنسی جرائد تک پہنچی تو ایک تنقید اس طرح کی گئی کہ قرآنی حقائق کو سائنس کے ذریعہ ثابت کرنے میں ایک بڑا نفسیاتی خطر ہ یہ لاحق ہے کہ الٰہی انکشافات کوہم ایسے انسانی انکشافات سے صحیح ثابت کر رہے ہوتے ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی کمزور بنیاد ہے۔ مزید یہ کہ قرآن ہمارے ایمان کا جز ہے اور سائنسی انکشافات مشاہداتی سچائیاں ہیں اور یہ دونوں ہی ہماری زندگی کے استحکام کے لئے لازمی ہیں۔ کوئی ایک بھی اگر کمزور ہوگا تو مجروح شخصیتیں پیدا ہونگی۔ قرآن کریم پر ایمان اگر کمزور ہوگا تو زندگی کٹی پتنگ اور ڈوبتی کشتی کی مانند ہوگی اور اگر سائنسی مشاہدات سے انکار کریں گے تو ہر طرح کی غلامی مقدرہو جائے گی۔
اس فکر کے نتیجہ میں قرآن اور سائنس کے تعلق اور اس کے مطالعے کی حوصلہ شکنی ہوئی اور یہ سوچا گیا کہ سائنس چو نکہ ایک زیر تشکیل کہانی کی مانند ہے اس لئے اس کے حقائق کو زمان و مکان کے پس منظر میں ہی سمجھا جائے اور قرآن کو اس سے مدلل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔یہ بات کسی حد تک درست تھی لیکن ہر ذہن کو مطمئن نہ کر سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ زندگی ایک اکائی ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن کی ایمانیات اور انسانی عقل کے سائنسی یا علمی اظہار کو الگ الگ اور ایک دوسرے سے ممیز حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس پس منظر میں جو اہم مباحث سامنے آئے ان کا حاصل یہ تھا کہ :
گذشتہ صدی کی آخری دہائی تک پہنچتے پہنچتے ہم ان تین نکات پر تقریبا متفق ہو چکے تھے اور اسلام و سائنس کا عالمی مباحثہ انہی نکات کے پس منظر میں جاری رہا۔ لیکن اسی دوران بعض ایسے افکار بھی سامنے آئے جو ان نتائج سے جزوی طور پرہی متفق تھے اوریہ باور کرا رہے تھے کہ حتمی طور پر یہ تسلیم کر لینا کہ قرآن سائنسی حقائق کی کتاب نہیںہے، صحیح نہیںہے۔ جرنل آف اسلامک سائنس میں ایک مضمون ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی کا شائع ہوا۔ جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ قرآن سائنسی حقائق تو نہیںالبتہ بہت سے ایسے اشارے ضرور دیتا ہے جو سائنسی حقائق کی طرف توجہ مبذول کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک اہم تحقیق تھی لیکن یہ کام آگے نہ بڑھ سکا کہ اسی دوران جمشید اختر کی ایک کتاب The Ultimate Revelation شائع ہوئی جو اصلا ایک سائنس فکشن تھی لیکن اس میں بڑے مدلل انداز میں یہ بتانے کی کوشس کی گئی تھی کہ عربی زبان کی اہمیت کیا ہے اور عظیم تر کائناتی حقائق کو بیان کرنے کے لیے وہ کتنی موزوں زبان ہے۔ اس کتاب سے اندازہ ہوتا تھاکہ مصنف کے ذہن میں ایک بڑا منصوبہ ہے جس پر وہ تحقیق و جستجو میں مصروف ہیںچنانچہ ایک طویل عرصے کی ریسرچ و تحقیق کے نتیجہ میں In Search of Our Origin شائع ہوئی اور اس کے بعدFate of our Universeسامنے آئی۔ اسی دوران بعض اہم موضوعات مثلااصحاب کہف، مکالمہ موسیٰ و خضر وغیرہ پر بھی ان کے اہم تحقیقی مضامین منظر عام پر آئے ہیںجو ان موضوعات پر نئی جہتوں کا تعارف کراتے ہیں۔ سر دست In Search of Our Originہمارے پیش نظر ہے جس کا اردو ترجمہ راقم الحروف نے ’’قرآن کریم اور ارتقائے حیات کی جستجو‘‘ کے نام سے کیا ہے جو304 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے ایو یروز اکیڈمی، علی گڑھ نے 2019 میں شائع کیا ہے۔
یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کہ وحی ربانی ترسیل کے ذریعے رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تھی یہ قلب رسول ﷺپر القاء نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا باب مٹی سے حیات کے آغاز اور آدم تک اس کے سفر کی وضاحت کرتا ہے۔ تیسرے باب میں جدید انسان کی آمد پر بحث ہے کہ یہ کہاں اور کب واقع ہوئی ؟ پھر چوتھے باب میں ایک مخلوق جنات کے بارے میں وضاحت ہے۔ جب کہ پانچواں باب وحی سے حاصل شدہ معلومات کی صداقت کوجانچنے کا ایک طریقہ تجویز کرتا ہے۔
اس سے قبل کہ میں اس تصنیف کے اہم نکات کا تعارف کرائوں ضروری سمجھتا ہوں کہ چند امور کی وضاحت پیش کر دوں تاکہ اس طرح کے موضوعات پر موجود معیاری اور غیر معیاری تصنیفات کے درمیان اس تصنیف کی اہمیت واضح ہو سکے :
جیسا کہ ابتدائی تعارف میں کہا گیا ہے کہ اسلام اور سائنس کے موضوع پر سوچتے ہوئے با لعموم سائنسی حقائق کی قرآن کے ذریعے اور قرآنی دعوئوں کی سائنس کے ذریعے صداقت ثابت کرنے کی کوشش ہی پیش نظر رہی ہے۔ پیش نظر کتاب کا منظر نامہ مختلف ہے۔اس کتاب میں اصولََا یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ غلطیوں کے امکان کے باوجود سائنس حقیقت کا معیار ہے اور انسان اس کامنکراس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اس کی کچھ غلطیاں اس طرح واضح ہو جائیں جس طرح گذشتہ حقیقتیںواضح ہوئی تھیں۔ صحیح اور غلط کا معیار سائنس کی دنیا میں مشاہدہ تجربہ اور عقل ہی پر منحصر ہوگا۔چنانچہ قرآن کریم کو جسے کلام الہی تسلیم کیے بغیر عقل کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے،اس کے حقائق کی حقانیت کو تسلیم کرنے میں سائنسی ٹولز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ رویہ یقینا ایک انحراف ہے اس مذکورہ بالا رویہ سے جس کا اظہار قرآن اور سائنس کے میدان کی صداقتوں کو ایک دوسرے کی مد د سے ثابت کرنے میں ہوتا رہا ہے۔ یہاں یہ نقطہ نظر ہے کہ جب سائنسی حقائق کے فہم میں وقت کے ساتھ بعض تبدیلیاں آسکتی ہیں تو وقت کے ساتھ قرآن کریم کا فہم بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔جہاں سائنس کے نتائج زمان ومکان کے پابند ہیں وہیںقرآن کریم کے دنیا اور کائنات کے بارے میں بیان کا فہم بھی زمان و مکان کا پابند ہے۔ اور وقت کے ساتھ اس کے سمجھنے میں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ البتہ قرآن کریم اور سائنس کے فہم میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ قرآن کا فہم اس عربی مبین کے محیط اور حدود کا پابند ہوگا جو اُس زمانے میں قریش اوران کے قرب و جوار کے قبائل میںبولی جاتی تھی چنانچہ پیش نظر کتاب منتخب موضوعات پرجدید سائنسی تحقیقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کے الفاظ کے عربی مبین کے پس منظر میں ایک فہم کی وضاحت کر تی ہے جس کے نتیجہ میں بعض اوقات قرآن کے فہم میں تبدیلی آجاتی ہے اور بعض اوقات سائنس کا فہم زیادہ مربوط ہو جاتا ہے۔اس پس منظر کی ضروری وضاحت کے بعد کتاب کے مختلف موضوعات کا تعارف پیش ہے۔
اولین موضوع جس پر یہ کتاب بحث کرتی ہے وہ یہ سوال ہے کہ قرآن کریم کا نزول باقاعدہ کسی ایجنسی کے ذریعے ہوا تھا یا یہ محض قلب رسول ﷺ پر القاء کر دیا گیا تھا۔اس سوال کے پس منظرپر بحث کرنا مقصد نہیں البتہ اتنا واضح ہے کہ ترسیل کا مطلب ہے Extra Terrestrial Intelligence (SETI) کے وجود کو تسلیم کرنا اور القاء کا مطلب وحی کی صحت میں بہت سے شکوک و شبہات کے دروازے کھول دینا ہے۔ مصنف جمشید اخترنے تحقیق وتجزیہ کی خداداد صلاحیت سے ثابت کیا ہے کہ وحی القاء کے ذریعے نہیں بلکہ ایک ایجنسی کے ذریعے جسے ہم روح القدس یا جبرئیل کے نام سے جانتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ تک پہنچی تھی۔ اگر القاء ہوا ہوتا تو وہ ناقابل برداشت بوجھ جووحی کے نزول کے دوران نہ صرف رسول اللہ ﷺ کو محسوس ہوتا تھا بلکہ ہر وہ وجود جس پر آپ تشریف رکھتے یا جس کا سہارا آپ اس وقت لئے ہوتے تھے اس کو بھی محسوس ہوتا تھا۔
(1) یہ سوال کہ آپ ﷺ اسے کس طرح برداشت کر پاتے تھے اس کی توجیہ کے لئے بالکل ابتدائے عمر میں اس جراحی کے عمل میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے تذکرے سیرت کی کتابوں میں تواتر سے مل جاتے ہیں۔ اسی طرح مہر نبوت کو بھی اس غیر معمولی قوت برداشت سے جوڑ کر سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مکی دور میں چھوٹی چھوٹی سورتوں یا آیات کے نزول کو بھی اسی پس منظر میں سمجھا گیا ہے کہ جسم مبارک بتدریج نزول وحی کے بوجھ کا عادی ہو جائے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ القاء کے بجائے ترسیل پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ قرآن یہ اعلان کر رہا ہے کہ ماورائے زمین کوئی ایسا وجود پایا جاتا ہے جو زمین سے رابطہ کرتا ہے اور یہ وجود SETI والا وجود نہیں ہے جو روشنی کی رفتار میں محدود رہ کر ہی سفر کر سکتا ہے۔ بلکہ اس سے بلند تر ہے اور اس رفتار کی گرفت سے ماوراء ہے۔ قرآنی بیانیہ کسی ایسی ایجنسی کے وجود کو تسلیم کراتا ہے جو روشنی کی رفتار کی رکاوٹ کو توڑ کر سفر کر سکتی ہے اور اس طرح ایک نئے دریچہء علم کو متعارف کراتی ہے۔ SETI اس دریچہ کوتسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ سائنس ابھی اس سے آگاہ نہیں ہے اور علم اور حصول علم کے جو معیار ات اس نے قائم کر رکھے ہیں وہ ان پر نظر ثانی کرنے کی ہمت نہیں جٹا پارہی ہے۔ راقم کے خیال میں چونکہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد جنہیں ہم انبیاء کہتے ہیں، پیام رسانی کے اس طرز کا راست تجربہ رکھتی ہے، اس لئے ترسیل علم کا یہ دریچہ اصولا انسان کی دسترس میں ہے اور مستقبل قریب میں انسان اسے تسلیم کرلے گا۔ ابھی تک اسے تسلیم نہ کیے جانے میںسائنسدانوںکاایک یہ رویہ بھی حائل ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقتیں صرف انہی پر اسی طریقہ کا ر اور معیار کے مطابق آشکار ہو ں گی جس کی تشکیل خود انہوں نے ہی کی ہے۔یہ رویہ صرف ان حقائق کی دنیا میں تو معقول سمجھا جائے گاجو سائنس کی دسترس میں ہیں لیکن اگر حقیقت کی کچھ بلند تر سطحوں کا بھی امکان ہے جس سے انکار محض حماقت اور ایک غیر علمی رویہ ہے تو پھر سائنس کو سنجیدگی سے ان بیانات پر توجہ دینی چاہیے جو ان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وحی کے نزول میں کسی ایجنسی کے رول کو تسلیم کر لینا در اصل اس سمت میں ایک قدم ہے۔
دوسرے باب کا موضوع مٹی سے پیدائش حیات اورآدمی تک اس کا سفر ہے۔غورو خوض کے ذریعہ قرآن یہ بالکل واضح کر دیتا ہے کہ زندگی کا آغاز اور جدید انسان کی پیدائش آپس میں مربوط ہوتے ہوئے علیحدہ علیحدہ واقعات ہیں۔ قرآن کریم کی وہ اصطلا حات جو جدید انسان کی پیدائش کے لئے استعمال کی گئی ہیں اور وہ جو زندگی کے آغاز کے بارے میں ہیں ان میں نمایاں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ لیکن ان پر غور وخوض یہ واضح کر دیتا ہے کہ ان کے معنی کہاں پر جدید انسانی نسل کے بارے میں ہیں اور کہاں آغاز حیات سے متعلق ہیں۔ اس سلسلے میں اولین خلیے کی پیدائش اور اولین انسان یعنی آدم کی پیدائش دو ایسے مقاماتِ فکر ہیں جو اس پوری بحث میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور قرآن کریم ان دونوں کے متعلق کچھ بنیادی باتیں کہتا ہے۔ البتہ یہ موضوع سائنس کا بنیادی موضوع ہے۔ اولین خلیے کی پیدائش پھر اس کا غیر نامیاتی یعنیinorganic حالت سے نامیاتی یعنی organic حالت میں آنا اور پھر یہ کہ یہ خلیے اپنی آبادی میں کس طرح اضافہ کرتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ان میں اختلاف بہت ہیںاور بہت سے سوالات پر یہ نظریات خاموش ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ اولین خلیے فوسل بن جانے کے بعدچٹانوں میں ظاہر ہوئے۔ ان کی عمر کے تعین میں یہ کہا گیا ہے کہ شاید یہ اس وقت ہی پیدا ہو چکے تھے جب زمین کے اندر چٹانیں بنانے کی صلاحیت پورے طور پر ظاہر بھی نہ ہوئی تھی۔ اسی طرح انسان اول کی پیدائش کے بارے میں انگنت سوالات ہیں جن کا جواب نہیں معلوم۔ پہلا انسان کب اور کہاں ظاہر ہوا اور اس ظہورمیں کون سے مراحل شامل تھے؟ کیا اس کا ارتقاء اتفاقی تبدیلی mutation اور طبعی انتخاب natural selection کا نتیجہ تھا یا کوئی اور معمہ اس کے پیچھے ہے۔کیا مختلف اوقات اور علاقوںمیںمختلف انواع سے اس کا ارتقاء ہوا ہے یا یہ کہ ایک منفرد اور تنہا واقعہ تھا جو افریقہ کی سر زمین میں پیدا ہوا اور یہیں سے دوسرے علاقوں میں پھیلا۔ سائنس کا نقطہء نظر افریقہ میں پیدا ہونے والے نسب واحد کی وکالت کرتا ہے لیکن یہ بھی متعدد سوالات کے جواب دینے سے قاصر ہے۔ مثلا اہم سوال یہ ہے کہ اولین جینیا تی باپ سے متعلق کروموزوم لائن اور اولین عورت کی پیدائش سے متعلق mitochondrial line میں چوراسی ہزار سال کا زبردست فصل کیوں پایا جاتا ہے ؟ آرکیولوجیکل رسرچ بتاتی ہے کہ کوئی پچاس ہزار سال قبل نسلِ انسانی کے رویوں میں اچانک تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ اس تبدیلی کا آغاز ہو ا؟ ہمارے اس سوال کا جواب موجود نہیں ہے کیونکہ آرکیولوجی میں قرائنی شہادتوں پر ہی یقین کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس طرح کی تبدیلی اصلاًدماغ میں واقع ہوئی ہوگی اور کیونکہ دماغ فوسلز میں تبدیل نہیں ہوتا اس لئے ہم سائنسی طریقے سے یہ مطالعہ نہیں کر سکتے۔ کیا اس طرح کے سوالات کا کوئی جواب قرآن کے پاس ہے؟ اس کی وضاحت کے سلسلے میں قرآن کریم بعض اشارہ فراہم کرتا ہے جو آغاز حیات اور آدمی کی پیدائش سے متعلق ہیں۔پیش نظر کتاب ان اشاروں اور عقلی علوم کا symbiosisکرتی ہے اور بعض ایسے نتائج پر پہنچتی ہے جو
مذکورہ بالا سوالات کے جواب حاصل کرنے میںبڑے معاون ہیں۔البتہ اس اپروچ میں بعض دقّتیں حائل ہیں۔مثلا ایک بات تو یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر قرآن کریم کی آیات ایک جگہ نہیں پائی جاتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن شاذ و نادر ہی آغاز حیات پر راست کلام کرتا ہے۔ آیات کی اکثریت آدمی کی پیدائش کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اس میں شامل مرحلوں کا تذکرہ کرتی ہیں اور اس دوران وہ یہ بتاتی ہیں کہ زندگی کا آغاز خاک سے ہوا تھا۔ لیکن یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا قرآن کا یہ بیان ایسا ہی ہے جیسا کہ مختلف mythlogies کے ساتھ خود بائبل میں بھی اولین آدمی کی خاکی بنیادوں کے بارے میں کہا گیا ہے یا یہ کسی اور متبادل کی طرف اشارہ کرتا ہے ؟اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا آدمی کی پیدائش زمین پر موجود زندگی کی دوسری شکلوں سے غیر متعلق اور غیر مربوط ہے ؟ یا زندگی کے خاک سے آغاز کی طرف اشارہ اس کی ہر شکل کی ابتداء کے بارے میں ہے۔بالفاظ دیگر کیا زندگی کی ابتداء خاک سے ہوئی اور پھر بتدریج اس کی مختلف شکلیں سامنے آئیں ؟
دوسرا ہم سوال رحم مادر میںبچے کا ارتقاء اور زمین پر حیات کے ارتقاء کے بارے میں ہے۔ قرآن کریم کی وضاحتیں ان دونوں کے process میں گہری مشابہت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جس کی بنا پر ان دونوں علیحدہ علیحدہ processes میں ہم کوئی فرق نہیںکرپاتے جس کے نتیجہ میں تمام ہی مفسرین نے ان بیانات کو بچے کی پیدائش کے تناظر میں سمجھا ہے۔ ایک اور مسئلہ انوکھے الفاظ اور پیچیدہ تراکیب کے استعمال سے متعلق ہے جو در اصل سائنس اور وحی کے علم میں ایک سبک سی مماثلت کی بنا پر پیدا ہوا ہے۔ یہ اب ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ یہ کائنات نہ صرف قابل فہم ہے بلکہ انسان کی بلند ہوتی ہوئی قوت ِادراک کے نتیجے میںاسے نہ صرف جزوی انداز بلکہ اور مرحلہ وار انداز میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کا اندازہ سائنس کی مسلسل ترقی اور قوانین فطرت کی بڑھتی ہوئی گہرائیوں اور پیچیدگیوں کے مرحلہ وار کھلنے والے اسرار سے ہوتا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ قوانین فطرت کی طرح وحی کی پیچیدگیاں بھی وسعت پذیر ہیں جن کااظہار قرآن کے انوکھے الفاظ اور پیچیدہ تراکیب کی شکل میں ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآنی معلومات ایک اوسط درجہ کے حامل فرد کے لئے ہمہ وقت قابل فہم رہتی ہیں لیکن جب ایک قاری ان جملوں پر زیادہ گہرائی اور تازہ ترین معلومات کی روشنی میںغور کرتا ہے تو یہی آیات معانی کی مزیدگہرائیاں انسان پر کھولنے لگتی ہیں۔ البتہ ایک حسین پہلویہ ہے کہ معلومات کے اضافے کے ساتھ آیات کے معانی کا جھکائو الفاظ کے ان معنی اور استعمال کی طرف ہو جاتا ہے جو اس زمانہ کے بدُّو استعمال کرتے رہے تھے جب یہ نازل ہو رہا تھا آئیے اب دیکھتے ہیں کہ انسانی تخلیق سے متعلق قرآن کے انکشافات کیا ہیں ؟
حیات کے جینیاتی مطالعہ کے نتیجہ میں سائنسدانوں کو چار پیٹرن نظر آتے ہیں۔ ایک اور انتہائی اہم پیٹرن سے نکلا ہوا نتیجہ یہ ہے کہ تمام ہی ذی حیات انواع میں زبردست قسم کی عدم مشابہت پائی جاتی ہے۔ انسانوں کی مثال سامنے ہے کہ کوئی بھی دو افراد یکساں DNA نہیں رکھتے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ تمام ہی انواع میں ایسے اوصاف موجود ہیں جن کی بدولت یہ جس ماحول میں پائے جاتے ہیں ان کی زندگی اس سے پوری موافقت اور مناسبت رکھتی ہے۔ سائنسدانوں کا تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ ان تمام انواع میں موروثیت کا بنیادی میکنزم ایک ہی ہے اور اب DNA sequence کے ذریعہ جینیاتی مشابہت اور اختلاف کو عددی شکل میں سمجھا اور پیش کیا جاسکتا ہے جس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کون سی انواع آپس میں زیادہ قرابت رکھتی ہیں اور کون سی دور کی رشتہ دار ہیں۔ اس سے ایک اور نتیجہ سائنسداں یہ نکالتے ہیں کہ تمام ہی ذی روح اشیاء ایک شاندار درخت کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی ان تمام کا ایک مشترکہ مورث رہا ہے۔ چوتھا مشاہدہ فوسلز کے مطالعہ پر مشتمل ہے جس سے سائنسداں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک طویل عرصہ کے دوران حیات کا ارتقاء ہوا ہے اور یہ ایک عالمگیر مشترک مورث سے ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہے۔ ان مشاہدات اور نتائج کی بنیاد پر سائنسی توجیہ سے متعدد سوالات ابھرتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ملتا۔
ان مشاہدات سے سائنسدان یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نوے فیصد اقسام کی نامیاتی اجسام جینز کی سطح پر آپس میں مربوط ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے ان اجسام کے اظہار میں انتخاب کا عمل ارتقاء کی پوری تصویرنہیںبتاتابلکہ بتاتاہے کہ بعض دوسرے عوامل بھی کار فرما رہے ہیں، دوسرا مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو مذہبی صحائف پر ایمان رکھنے کی بنا پر نیچرل سلیکشن کے ذریعے ارتقاء کو صحیح نہیں مانتے،اس طرح یہ لوگ ارتقاء کا سرے سے انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ انواع ارتقائی مراحل سے نہیں گزریں بلکہ اپنی مکمل شکل میں خالق کے ذریعے پیدا کی گئی ہیں لیکن یہ پیدائش کس طرح ہوئی اس کے بارے میں یہ لوگ خاموش ہیں۔
سورہ تین کی تشریح سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدمی کی پیدائش ایسے مراحل کا حصہ تھی جس کے نتیجے میں وہ بہترین ساخت پر اور دوسری اشیاء کے ساتھ فٹ ہوتے ہوئے پیدا ہوا۔ قرآن کا یہ بیان مذکورہ بالا دونوں نظریوں کو نہ تو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی مسترد کرتا ہے، لیکن ہم قطعیت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے نزدیک آدمی کی پیدائش نہ تو قطعاً اتفاق تھی اور نہ ہی کسی کی نگرانی کے بغیر تھی۔ بلکہ پہلے سے طے شدہ پیدائش کی ایک بہترین ا سکیم کا حصہ تھی تاکہ یہ دوسری اشیاء کی اسکیم میں فٹ ہو جائے۔ یہ ایک لچکدار بیانیہ ہے جس میں پہلے سے منتخب ایک خاکہ کے پس منظر میں تغیرmutation ہوا ہے۔
مٹی سے تخلیق کے عمل میںسورہ سجدہ کی آیت (32:7) بڑی اہم ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا مٹی سے کی ‘‘ یہاں ابتدا کے لفظ کا مطلب ہے کہ آئندہ کچھ اور ہونے والا ہے۔قرآن کریم نے اتنا کہہ کر باقی میدان کھلا چھوڑ دیا ہے تا کہ انسان وقت آنے پر تحقیقات کے ذریعے اس کے process اور میکنزم کو سمجھ سکے جو بعد کے مراحل میں پیش آئے۔ چنانچہ ڈاکٹر کیرن اسمتھ مٹی سے آغاز کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے میکنزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ لفظ سلالہ (23:12) نطفہ (80:19) علق (96:2) اور طین لازب (37:11) ما ءِ مھین (77:20) قرار مکین(77:21)جیسی اصطلاحات قرآن کریم کی آیات میں جس طرح آئی ہیں انھیں بہتر طور پر اس ماحول میں ہی سمجھا جا سکتا ہے جو زمین کے ابتدائی دور سے مما ثلت رکھتا ہو۔انھیں رحم مادر کے پس منظر میں سمجھنا خاصی سنجیدہ نظر ثانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً’’ قرار مکین‘‘کی جگہ کسی ایک مقام پر ہی اگر رحم کا لفظ استعمال ہوا ہوتا تو ہم ان تمام مراحل کو رحم مادر سے متعلق سمجھ سکتے تھے۔اسی طرح ایک اصطلاح حَمَإٍ مسنون (15:26) بھی زندگی کے ارتقائی پروسس کا ایک مرحلہ معلوم ہوتی ہے۔ حما کالی مٹی کا ایسا گارا ہے جو سڑ گیا ہو اور اس میں خمیر پڑ گیا ہو۔ جبکہ مسنون جو اپنے مصدر سننکل کر کوئی شکل اختیار کرنے اور صورتگری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی یہ وہ مرحلہ ہے جب مٹی میں تبدیلی آرہی تھی اور وہ ایک شکل اختیار کر رہی تھی۔ انسان کی تخلیق کے بیان میں قرآن ایک خاص لفظ صلصال استعمال کرتا ہے،بعض آیات میں (15:26,28,33)یہ جس ترتیب سے آیا ہے،وہ اس مرحلے کی طرف اشارہ کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جب حَمَإٍمسنون اور انسانی پیدائش کے درمیان کا ہے جب انسان میں صوقی اور سمعی صلاحیتوں کی آمد ہوئی۔اس طرح زندگی کے ارتقاء میں جنس کی تخلیق کی طرف سورہ الفرقان کی آیت (25:54)میں فَجَعَلَہٗ نَسَبا وَ صِھرا کے الفاظ سے اشارہ ملتا ہے۔اس بحث کے اختتام کے طور پر ہم جمشید اختر کی کتاب سے اقتباس پیش کر دیتے ہیں جو اس بحث کو ایک بہتر رخ دیتی ہے۔
’’ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن عربی کی عام اصطلاحوں کا استعمال کر سکتا تھا، مثلاً قصد ا اگر ماں کے پیٹ میں پیدائش کی طرف اشارہ ہوتا تو بچہ دانی کے لیے رحم کا استعمال با آسانی کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے بجائے عمومی طور پر نطفہ، قرار مکین یا علق وغیرہ کے دیدہ ودانستہ استعمال نے ایک ہی آیت کے مختلف ادوار میں گونا گوں تشریحوں کے امکانات پیدا کر دیئے۔ معلومات در معلومات کی یہ صفت اس لیے ضروری تھی کہ ایک ہی آیت کے ذریعے مختلف ادوار کی روز افزوں پیچیدگیوں کے درمیان ہدایت واضح ہونا تھی تا کہ علم کے بلند ہوتے ہوئے معیار کے درمیان آیتوں کو نہ صرف سمجھا جا سکے بلکہ ان کی تشریح بھی کی جا سکے۔قرآن کی ساخت کا حسن یہی ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ علم بتدریج ان الفاظ کے مادّوں کے معنوں تک پہنچ رہا ہے۔ اصل بیان کی طرف بار بار مراجعت ہی اس کا طریقہ ہے اور در اصل یہی تاویل کے معنی بھی ہیں۔ (صفحہ 135،ارتقائے حیات کی جستجو)
گزشتہ باب میں زندگی کا آغاز زیر بحث تھا۔ اس تیسرے باب میں جدید انسان کے ظہور پر بحث کی گئی ہے۔ سائنس دو نقطہ نظر رکھتی تھی۔ ایک یہ کہ جدید انسان زمین کے مختلف علاقوں میں ارتقاء کے نتیجے میں ظاہر ہوا،جبکہ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جدید انسان افریقہ کے علاقے میں پیدا ہوا ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ جب ہم دور قدیم کے افریقہ کی بات کرتے ہیں تو اس میں آج کا مشرق وسطیٰ شامل تھا۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ جو ثبوت آثار قدیمہ اور اعضاء کے مطالعے (anatomical study ) سے ملے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جدید ترقی یافتہ انسانوں کے ظہورکو بہت طویل عرصہ نہیں گزرا اور یہ بھی کہ یہ ایک تازہ ارتقائی عمل رہا ہے۔غالب مفروضہ یہی ہے کہ جدید انسان کی ابتداء افریقہ سے ہوئی ہے جو ( Homosapien )کی واحد افریقی الاصل ابتدا کے مفروضے پر مشتمل ہے۔جدید انسان کی آمدجن عظیم تر اعصابی اور ثقافتی تبدیلیوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے تھی ان کے نتیجے میں دوسرے Hominidsکے خاتمہ اور بالآخر اس کرۂ ارض پرہمیںمکمل غلبہ حاصل ہوا۔ یہ سائنسی نقطہ نظر ہے جس میں آج جینیاتی مطالعے کو اہمیت حاصل ہے۔ زندگی کے مطالعے میں palenteology اور rcheology a کے بعد جب جینیاتی مطالعے کو اہمیت دی جانے لگی تو اس مطالعے میں نہ صرف سرعت بلکہ بڑی گہرائی بھی آتی گئی۔
مذکورہ بالا نقطہ نظر نظریہ ارتقاء پر مشتمل ہے جس میں انسان اور دنیا کی ابتدا کو ایک خالص طبیعی نقطہ نظر سے سمجھنے اور دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس کے بر خلاف ایک نقطہ نظر creationists کابھی ہے جو طبیعی انتخاب پر مشتمل نقطہ نظر سے میل نہیں کھاتا۔ ان میں یہودی مسیحی نظریہ بھی ہے اورمسلم اسکالرز نے بھی رائے زنی کی ہے۔ اہل تخلیق نظریہ ارتقاء پر جن بنیادوں پرمعترض ہیں وہ اوّلین زندہ خلیہ کی پیدائش، اتفاقی تغیر randum mutation فوسل رکاڈ زمیں عبوری صورتوں کا نہ ہونا، انواع کا اچانک ظہور،انسانوں اور بعض دوسری انواع میں جینیاتی مشابہت کا پایا جانا اور انسانی جسم میں موجود متعدد اعضا مثلاً اپنڈکس، ریڑھ کی آخری ہڈی کو انسان کے عبوری وجود کا حصہ سمجھنا جیسے مفروضے شامل ہیں جن کی بنیاد پر اہل ارتقاء اپنے نظریہ کے حق میں دلیل پیش کرتے ہیں۔ اہل تخلیق کے مطابق ہر زندہ گروپ ارادتاًپیدا کیا گیا اور مقصدیہ تھا کہ اس کے اور آنے والے گروپ کے لیے سازگار حالات پیدا ہو سکیں اور اس بنا پر پوری دنیامیںایک ecological balance قائم ہو سکے۔
تخلیق آدم سے متعلق روایتی اسلامی نقطہ نظر در اصل یہودی فکر پر مشتمل ہے جو اس دور کے مفکرین کے یہاں عام تھا۔ یعنی خدا نے آدمی کو مٹی کی دھول سے ایک پتلے کی شکل میں بنایا اور اس کے نتھنوں میں پھونک ماری اور یوں انسان ایک زندہ ہستی تھا لیکن گہری تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ اس سے مختلف تھا۔ اس سلسلے میں قرآن متعدد اشارے دیتاہے۔
قرآن کہتا ہے کہ انسان ابتدا میں ایک قوم تھا۔( 10:19))۔ قوم یعنی ایک ایسا گروہ جسے مشترک اوصاف باندھے ہوئے ہوں۔ ان اوصاف کے مشترک ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک علاقے سے ہوں۔ مختلف علاقوں میں بسنے والے انسان مشترک اوصاف کے مالک نہیں ہو سکتے۔اس طرح لگتا ہے کہ قرآن regional continuity کو مسترد کرتا ہے اور Out of Africa Model کی تائید کرتاہے۔
قرآن کہتا ہے کہ’’ اے انسان ہم نے تجھے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا‘‘(13:49)۔ اولین مرد اور عورت کی پیدائش میں درمیانی فصل بہت زیادہ نہیں تھا اور نہ ہی ان دونوں کے مقام پیدائش میں ہی زیادہ فاصلہ تھا۔ قرآن یہ نہیں بتاتا کہ ان کی پیدائش ساتھ ساتھ ہوئی تھی یا کچھ مراحل میں۔ اور یہ بھی نہیں بتاتا کہ پہلے مرد کی پیدائش ہوئی تھی یا عورت کی، لیکن سورۃالزمر(6:39) سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نفس واحدۃسے پیداکیاگیا۔ نفس زندہ وجود کی نمائندگی کررہا ہے جبکہ واحدہ کے معنی ایک کے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ ذکر (مذکر انسان) اور انث (مؤنث انسان) جیسے خصوصی الفاظ استعمال نہ کرتے ہوئے اس کے مؤنث زندہ وجودہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مزید غوروخوض غیر مبہم طور پر بتاتا ہے کہ آدم کی پیدائش حوا کے بعدہوئی ہے اور ماں حواپہلی انسان تھیں جنھیں پیدا کیا گیا۔ قرآن سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ روایتی فہم کہ پہلے خدا نے مٹی سے ایک جسم بنایا صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طویل مدتی عمل تھا،جس کا آغاز زندگی کی پیدائش سے ہوا تھا اور بالآخر آدمی کی پیدائش ہوئی تھی۔ مزید یہ کہ ہم قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جسم یاصورت پہلے نہیں بنی بلکہ پہلے زندگی کا آغاز ہوا اور پھر صورت گری کا مرحلہ آیا۔
سورہ سجدہ (9:32)میں جو یہ کہا گیا ہے کہ اللہ نے اس میں روح پھونکی تو ہماری روایتوں میں اسے اس طرح سمجھا یا گیا ہے کہ اللہ نے اپنی روح انسان میں پھونکی۔ روح پھونکنے کے اس عمل نے بڑے مسائل کھڑے کیے ہیں۔ روح اگر خدا کا حصہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان میں خدا موجود ہے،اور دوسرا یہ کہ انسان کے ہر اچھے اور برے عمل میںوہ شریک ہے۔ اس پس منظر میں مصنف نے روح کے موضوع پر اچھی بحث کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ روح اللہ کی ایک ایجنسی ہے جس سے وہ مختلف اوقات میں مختلف کام لیتا ہے۔ اس میں معروف کام پیام رسانی کا ہے۔ لیکن یہی روح آدم کی پیدائش کے سلسلے میں تین بار قرآنی حوالہ بنی ہے اورحضرت عیسی کی پیدائش میں دوبار اس کے کردار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان دونوں مقامات یعنی پیدائش آدم اور پیدائش عیسی میں روح کے ساتھ ایک دوسری اہم اصطلاح نفخ کا استعمال ہوا جس کے معنی روایتاً پھونک مارنے کے لیے گئے ہیں۔ بلکہ اسے پھونک مار کر بیج بونے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم آدم اور عیسیٰ کی پیدائش میں مشابہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ( آل عمران 3:9 ) بار بار کہتا ہے کہ مریم جو پاکباز تھیں اور جنہوں نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ قرآن کریم کا بار بار یہ کہنا اس لیے نہیں ہوسکتا کہ مریم کی پاکیزگی پر ہمارا شک دور ہو جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ عیسی کے عمل پیدائش کے بارے میں یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ کوئی عام sexual عمل نہیں تھا، یعنی روح انسانی شکل میں بھی اس کا ذریعہ نہیں بنی تھی۔ یہاں بھی بیان وہی ہے جو آدم کی پیدائش کے بارے میں کیا گیا فنفخنا فیہ من روحنا (12:66)۔ یہاں بھی نفخ کا عمل ہے اور روح کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔معلوم ہوا کہ عیسی اور آدم کی پیدائش میں مشابہت دراصل process کی ہے، یعنی دونوں میں اللہ کی ایجنسی روح کے ذریعے نفخ کا عمل کیا گیا۔ یہی وہ مشابہت ہے جس کی طرف قرآن کی آیت اشارہ کر رہی ہے۔لیکن یہاں ایک اہم سوال کھڑا ہوتا ہے کہ عیسیٰ کی پیدائش میں یہ عمل مریم کے ساتھ تھا لیکن آدم کی پیدائش میں یہ عمل کس کے ساتھ کیا گیا؟ کیا نفس واحدہ اور مریم میں کوئی مماثلت پائی جاتی ہے؟ یہ ایک قابل غور سوال ہے۔دونوں کی پیدائش کے سلسلے میں قرآن کی آیت یوں ہے: ان مثل عیسی عنداللہ کمثل آدم ( 3 :59) یعنی عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے،جسے اس نے مٹی سے پیدا کیا۔پھر اس سے کہا کہ ہو جا اور وہ موجود تھا۔دونوں میں سے کسی کا بھی باپ نہیں تھاعیسی کی صرف ماں تھیں توپھر یہ مما ثلث کیسی ہے ؟
اس سلسلے میں ایک سائنسی تحقیق بڑی اہم ہے جسے ہم اختصار کے ساتھ یہاں پیش کر تے ہیں۔ یکم نومبر 2000میں ایک انتہائی اہم تحقیق Genetics Nature نام کے عالمی سطح پر معروف ترین رسالہ میں شائع ہوئی۔یہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے وابستہ ایک سائنسداں Peter Underhill اور اس کے رفقاء کی تھی۔یہ تحقیق peternal lineage (پدری سلسلۂ نسل)کے پس منظر میں کوئی 22 مختلف جغرافیائی علاقوں سے ایک ہزار مردوں کے data سے اخذ کی گئی تھی جس سے معلوم ہوا کہ انسان کا Most recent common ancestor (MRCA) ایک مرد تھاجو افریقہ کے علاقے میں کوئی 58ہزار سال قبل رہتا تھا۔لیکن اسی data سے Mitochondrial DNA کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ انسانوں کا MRCA ایک عورت تھی جو (143000)سال قبل پائی جاتی تھی۔ہمیںمعلوم ہے کہ انسانی پیدائش میں Y-Chromozomes باپ کی طرف سے اور Mitochondria ماں کی طرف سے آتے ہیں۔قرآن کہتا ہے کہ تمام انسان ایک اولین جوڑے کی اولاد ہیں۔چنانچہ ہم انسانوں میں پایا جانے والا Mitochondria حواسے نہیں بلکہ نفس واحدہ سے آیا ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ آدم ہو یا حوا دونوں ہی نفس واحدہ سے پیدا ہوئے۔
اس باب میں بعض دوسرے انتہائی دلچسپ مباحث بھی ہیں،مثلا یہ کہ آدم ؑجس جنت میں تھے، کیا یہ وہ جنت ہے جو آخرت کے واقع ہوجانے کے بعد اہل ایمان کو ملنے والی ہے ؟، قرآن مختلف قسم کی جنتوں کا ذکر کرتا ہے البتہ آدم و حوا کی پیدائش یا پرورش جہاں ہوئی یہ وہ جنت نہیں تھی، بلکہ ایک چھپی اور ڈھکی ہوئی جگہ تھی جس کی ecology ہر طرف سے محفوظ تھی اور یہ جگہ شاید سورج یا حرارت کے منبع کے نواح میں تھی۔ اسی جگہ کے لئے قرآن مستقر اور مستودع کے الفاظ استعمال کرتا ہے جن سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
لفظ خلیفہ کا استعمال یعنی فی الارض خلیفۃ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح فرشتوں کا یہ خدشہ کہ آنے والی یہ آخری نسل خون خرابہ کرے گی اور فساد برپا کرے گی بھی کم دلچسپ نہیں۔ خلیفہ کے معنی نائب کے بجائے اگر آخری مخلوق سمجھ لئے جائیں تو پورے قرآنی بیانیہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا،مزید یہ کہ آدم سے قبل کی انسانی لیکن غیر آدم نسلیں جنہیں ہم Homoerectus Neanderthal اور آخری کو Homosapiens کہتے ہیںان میں اول الذکر دونوں کا مکمل طور پر خاتمہ جو Homosapiens نے کیا اس میں خون بہنا واضح ہے جسے فرشتوں نے دیکھا تھا،لیکن یہ فساد کا ایک منفی پہلو ہے، اس کا دوسرا پہلو مثبت بھی ہے جو انسانوں کے ایک دوسروں سے آگے رہنے اور ترقی کرنے سے متعلق ہے اور جس کے ذریعے تہذیبی ارتقاء بھی ہوتا ہے۔
چوتھا باب ایک اور دلچسپ موضوع پر بحث کرتا ہے جس کا تعلق جنات سے ہے۔ مصنف نے قرآنی حوالوں کو بھی استعمال کیا ہے اور سائنس کی دنیا کے مشاہدات اور تجربوں کو بھی بنیاد بنایا ہے۔قرآن نے واضح کیا ہے کہ جنات انسانوں سے قبل پیدا ہوچکے تھے (15:27) اور یہ ہمیں نظر نہیں آتے (7:27)،جنات کی پیدائش کے سلسلے میںایک بڑی مماثلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلاً سورۃالحجر کی26ویں آیت میں کہا گیا ــــــ’’ہم نے انسان کو صلصال اور حمأمسنون سے پیدا کیا (15:26)اور اس کے فوراً بعد فرمایا کہ ’’اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا ‘‘(15:27)، دونوں آیتیں جو یکے بعد دیگرے موجود ہیں دو باتیں واضح کرتی ہیں۔ ایک تو انسانوں کے مقابلے میں جنات کی پیدائش کا طریقہ الگ ہے، یعنی انسان کو مٹی سے پیدا کیا تھا لیکن جنات کی پیدائش کا آغاز آگ یعنی ایسی انرجی سے ہوا جس میں تھوڑا سا مادہ بھی موجود تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جنات اور انسان کی پیدائش میں ایک قسم کی مماثلت بھی ہوسکتی ہے۔ 26ویں آیت سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حماِِِِِمسنون (یعنی انسانی زندگی کا وہ مرحلہ جب زندگی نے ایک واضح شکل اختیار کی تھی )سے صلصال (جب اس میں صوتیاتی صلاحیتیں ظاہر ہوگئی تھیں)اور پھر تخلیق انسان کے مرحلے تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ کے دوران بڑی قابل ذکر تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔اگر اس آیت کو اگلی یعنی 27ویں آیت پر منطبق کیا جائے تو یہ فرض کرنا مشکل نہیں کہ سموم (انتہائی شدید طور پر گرم جلتی ہوئی ہوا) سے نار (آگ یا انرجی )کے بننے میں اس طرح کی تبدیلی ہوئی ہوگی جیسی نامیاتی حیات کی تخلیق میں ہوئی تھی اورکیونکہ یہ بیانیہ حمأِِ مسنون کے مرحلے سے شروع ہوتا ہے تو ہمارے لئے دوسرا اہم نکتہ آیات کے اس جوڑے کے وہ الفاظ ہیں جن کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے ’’اور جنات کو ہم نے پہلے پیدا کیا ‘‘یعنی جنات کی پیدائش حَمَإٍ مسنون سے بھی قبل ہوچکی تھی یعنی اس سے بھی قبل جب انسانی زندگی متعدد خلیوں پر مشتمل ہوکر ایک شکل اختیار کر چکی تھی۔
اسی طرح سورہ رحمن میں دو آیات کاایک اور جوڑ بہت اہم ہے ’’اس نے انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی‘‘ (55:14)،’’اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا ‘‘(55:15)قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ انسان کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا (مٹی کی یہ حالت کہ وہ آواز نکالنے لگے کچھ مرحلوں سے گزر کر ہی ہوئی تھی ) دوسری طرف اس کے فورا بعد کہا جارہا ہے (55:15)کہ جنات کو خالص انرجی (دھوئیں کے بغیر )یعنی آگ سے پیدا کیا جو نار یعنی اس آگ سے پیدا ہوئی جس میں ذرات موجود تھے،اور اسی خالص انرجی یعنی مارج سے جنات پیدا کیے، معلوم ہوا کہ نامیاتی زندگی جس طرح ارتقائی مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے جنات بھی اسی طرح کے مراحل سے گزر کر پیدا ہوئے ہوں گے یعنی پہلا قدم سموم سے نارمیں تبدیلی اور پھر نارسے مارج جس سے شاید اولین جن کو پیدا کیا گیا ہوگا۔مختصر یہ کہ قرآن جب جنات کی بات کرتا ہے تو اس کا اشارہ ایسے زندہ شعوری وجود کی طرف ہوتا ہے جس کی بنیاد انرجی پر ہے۔اسے آزادقوت ارادی یعنی اختیار حاصل ہے اور یہ ہمارے یعنی انسانوں کے ساتھ اسی زمین پر رہتے ہیں۔ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا انسانوں کی پیدائش کے ساتھ جنات کی پیدائش کے مرحلوں کا تذکرہ شایدایک اشارہ دے رہا ہے کہ زمین پر نامیاتی زندگی کے آغاز و ارتقاء میں جنات کا کوئی نہ کوئی رول رہا ہے۔ یہ رول کس مرحلے میں رہا حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔البتہ ہماری زمین اور اس پر زندگی کے آغاز کے بارے میں جو کچھ سائنسی معلومات ہمیں آج تک پہنچی ہیں اور قرآن نے جو اشارے دیے ہیں ان کی بنیا دپر دواشارے ضرور مل رہے ہیں۔ سورۃ الدھر میں قرآن نے جس طویل زمانہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس دوران انسان ایک ناقابل ذکر شے تھا، اس سے دوباتیں سامنے آتی ہیں۔
(1) ایک خلیہ وجود unicellular organism کی پیدا ئش میں غیرنامیاتی اجزاء کا مل کر ایک نامیاتی وجود میں تبدیل ہونا۔ اس سلسلہ میں کوئی واضح بات ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔
(2) ایک خلیہ وجود کی کثیر خلیہ وجود multicellular organism میں تبدیلی کس طرح اور کتنی مدت میں ہوئی ہوگی فوسلز کا ریکارڈ اس باب میں دو ارب سال سے زیادہ کا عرصہ بتا تا ہے، لیکن یہ تبدیلی کس طرح ہوئی واضح طور پر نہیں معلوم۔عین ممکن ہے کہ حیات انسانی کی ابتداء کی تاریخ میں مذکورہ بالا مراحل میں جنات کا رول رہا ہو اور انہیں کے ذریعہ یہ انتہائی اہم مراحل سر انجام دیے گئے ہوں۔ واللہ اعلم۔
قرآن کریم جنات کے بارے میں یہ بتاتا ہے کہ وہ ایک ذہین مخلوق ہیں۔ انہیں وحی کا علم ہے اور وہ با اختیار ہیں اور اسی بنیاد پر وہ جوابدہ بھی ہیں اور جزاء و سزا کے مستحق بھی، لیکن چوں کہ ان کی زندگی کی تعریف انسانی زندگی سے مختلف ہے، اس لئے ہم ان کے بارے میں احکامات کی نوعیت سے واقفیت نہیں رکھتے۔قرآن نے اس سلسلے میں محض ان کے انجام کار کے بارے میں خبر دی ہے۔البتہ ایک دلچسپ معلومات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ سائنس کی معلومات کے مطابق انرجی پر مشتمل ایسے وجود ممکن ہیں جو اپنے آپ کو reproduce کر سکتے ہیں اور ان کی یہ صفت انسانی خلیۂ حیات سے مماثلت رکھتی ہے، یہ تحقیق رومانیہ کے سائنسداں نے کی تھی جس کا تذکرہ لندن سے شائع ہونے والے معروف سائنسی جریدہ New Scientist نے اپنی 17؍ستمبر2003ء کی اشاعت میں کیا ہے، لیکن اس پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
پانچویں باب میں وحی سے حاصل علم کی تصدیق کے باب میں ایک میکنزم تجویز کیا گیا ہے، یہ چار اقدامات پر مشتمل ہے جوWilliam Dembiski کی Information Theory پر مشتمل ہے۔
اختتام کے طور پر راقم کی چند معروضات قارئین کے لئے پیش ہیں۔ قرآن کریم دانش ربانی کا اظہار ہے،دانش انسانی کے لئے۔اور دانش ربانی محض اخلاقی تعلیمات،کچھ اقدار،کچھ قوانین ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں فی زمانہ دانش انسانی کی ضروریا ت کا اظہار ہوتا ہے۔ بقول حضرت ابن عباسؓ کہ قرآن اپنی تہوں کو کھولے گا۔ چنانچہ اسے محض محدود معنی میں انسان کی عملی ہدایت کا ذریعہ سمجھنا بڑا ظلم ہے۔ قرآن کریم علم کا ایک نیا دریچہ ہے جو اس وقت بھی اپنے وقت سے آگے تھا جب یہ نازل ہو رہا تھا اور آج بھی وقت سے آگے ہے۔ پیش نظر کتاب ان متعدد ایسے مقامات کی نشاندہی کرتی ہے جہاں سائنس تھم جاتی ہے اور قرآن کریم ایک متبادل اپروچ کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔ البتہ اس اپروچ کا فہم اس وقت ہی ممکن ہے جب قاری علم جدید سے واقفیت رکھتا ہو اور قرآن کریم کے اپنے فہم کو ماضی میں کی گئی تشریحات کا تابع نہ بنائے۔ میری معلومات کی حد تک قرآن کریم کو اس طرح سمجھنے کی یہ کتاب اولین کوشش ہے۔
( مدیر سہ ما ہی مجلہ ’’ آیات‘‘، علی گڑھ۔ای میل: kirmanimz@gmail.com)