Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
(کانٹ(م،1804) کی اس تحریر میں روشن خیالی کے مفہوم کی مغربی فکرکے تناظر میںتشریح وتوضیح کی گئی ہے۔چناں چہ مصنف کی فکر کے مختلف نکات سے اختلاف کی مکمل گنجائش ہے تاہم مختلف زاویوں سے قارئین’’تجدید ‘‘کے لیے اس کامطالعہ اہمیت وافادیت کا حامل ہے۔ادارہ)
انسان کے غور وفکر سے عاجز ہونے کے خود ساختہ تصور سے نکلنے کا نام ہے۔ غور وفکر سے عاجزہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان بغیر کسی کی رہنمائی کے اپنی عقل کا استعمال نہیں کر سکتا۔ اگر اس رویہ کی وجہ قوت استدلال کے بجائے بغیر کسی رہنمائی کے خود سے عقل کا استعمال کرنے میں پس و پیش ہونا ہو تو پھر یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان نے اس تصور کو اپنے اوپراپنی مرضی سے نافذ کیا ہے۔ جاننے کا حوصلہ پیدا کرو! اپنی عقل کے استعمال کا حوصلہ پیدا کرو! یہی روشن خیالی کی تحریک کا مقصد ہے اور یہی اس کا نعرہ ہے۔
کاہلی اور بزدلی کی وجہ سے انسانوں کی اتنی بڑی تعداد ساری عمر خود کو غور وفکر سے عاجز سمجھتی رہتی ہے۔ حالانکہ فطرت نے اسے برسوں پہلے خارجی ہدایت سے آزاد کر دیا ہے۔ یہی وہ سبب ہے جس کا فائدہ اٹھا کر لوگ خود کو آسانی کے ساتھ دوسروں پر مسلط کر پاتے ہیں۔ عدم تفکر میں بڑی عافیت ہے۔ فرض کیجئے، اگر میرے پاس ایک ایسی کتاب ہو جو میرے بارے میں سوچے، ایک ایسا رہنما ہو جو میرے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے، یا ایک ایسا طبیب جو میری خوراک کا خیال رکھے، وغیرہ وغیرہ، تو پھر مجھے خود سے کچھ محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر صرف پیسے سے ہی کام چل جائے توپھر مجھے سوچنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ میرے لئے دوسرے لوگ یہ بے کار سا کام کر دیں گے۔ وہ مشفق رہنما جنہوں نے ا نسانوں کی ایک بڑی تعداد کی سرپرستی کا ذمہ لیا ہے، جس میں تمام عورتیں بھی شامل ہیں، انسان کی فکری ترقی کو نہ صرف گراں بلکہ انتہائی مضر تصور کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ رہنما عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور احتیاط کے ساتھ انہیں اس رسی کے بغیر جس سے انہیں باندھ کر رکھا گیا ہے ایک قدم بھی آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ پھر وہ انہیں بتاتے ہیں کہ خود سے چلنے میں کتنا خطرہ ہے۔ حالانکہ (بغیر اس رسی کے سہارے چلنے میں) کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ کچھ قدم لڑکھڑانے کے بعد کم سے کم لوگ چلنا تو سیکھ جائیں گے۔ لیکن ناکامیابی کی یہ مثالیں (یعنی ابتدا میں لڑکھڑا کر گر جانا) لوگوں میںڈر پیدا کر دیتی ہیں اور عام طور سے عوام کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک فرد کے لئے غور وفکر سے عاجز ہونے کے تصور سے باہر آکر اپنے لئے سوچنا کتنا مشکل ہو گیا ہے۔ جیسے یہ ا اس کی طبیعت کا ایک حصہ بن گیا ہو۔ وہ اسے پسند کرتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر اپنی عقل استعمال کرنے کے لائق ہی نہیں ہے کیوں کہ اسے اس بات کی کبھی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ قدرت نے انسان کو جو انعام (عقل) دیا ہے اس کے مناسب استعمال کے بجائے نا جائز استعمال کے لئے بہت سے نظریات وتصورات وضع کیے گئے۔ یہ آلات(نظریات وتصورات) انسانوں میں غور وفکر سے عاجز ہونے کے تصور کو مضبوط کرتے ہیں۔ ان زنجیروں کو اتار پھینکنے والے شخص کے لئے ایک قدم بڑھانا بھی مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ کبھی بھی اس طرح کی آزادی کا عادی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت تھوڑے لوگ ہی ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھ پاتے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جواس تصور کے حصار سے اپنی عقلی کاوش کی بنیاد پر ہی باہر نکلے ہیں۔
ایسا بالکل ممکن ہے کہ عوام خود کو روشن خیال بنائیں۔ اور یہ بات تو پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر انہیں آزادی دی جائے تو وہ روشن خیال ہو جائیں گے۔ (ایک سماج میں) آزاد مفکرین کی مختصر ہی سہی ایک جماعت ہمیشہ رہی ہے۔ ایسے لوگ خود ساختہ عوامی نمائندگان کی صف میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ ان مفکرین کو چاہیے کہ وہ غور وفکر سے عاجز ہونے کے تصور کے اس قلادے کو اپنی گردنوں سے پھینک دیں۔ (کیوں کہ صرف اسی صورت میں وہ اس قابل ہو پائیں گے کہ) عوام کو انسان کی قدراور اپنے بارے میں سوچنے کی ان کی ذمہ داریوں کے سچے احساس کو بہتر طور پرسمجھا سکیں۔ یہ ایک اہم بات ہے کہ وہ لوگ جنہیں ان رہنماؤں نے اس تصور کا عادی بنایا تھا بعد میں انہیں خود اسی چیز کی پیروی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے انہیں وہ رہنما اکساتے ہیں جو خود بھی روشن خیال نہیں ہوتے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عصبیت کو ہوا دینا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ اس کا انجام یا توعصبیت کو پیدا کرنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے یا پھر ان کی اولادوں کو۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ لوگ آہستہ آہستہ روشن خیال ہوں گے۔ ایک انقلاب شخصی مطلق العنانیت یا استبداد کو تو ختم کر سکتا ہے لیکن لوگوں کے طریقہ فکر کو صحیح معنوں میں کبھی تبدیل نہیں کر سکتا۔ نئے تعصبات بے وقوفوں کی بھیڑ کی رہنمائی کے لئے پرانے تعصبات کی جگہ لے لیتے ہیں۔
روشن خیالی کے لئے آزادی شرط ہے؛ آزادی سب سے مقدس شے ہے:ہر معاملے میں ایک شخص کو فکر کے عام اظہار(public use of reason ) کی اجازت ہونی چاہیے۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہوں؛ بحث مت کرو! (تربیت دینے والا) افسر کہتا ہے: بحث مت کرو، (جو کہتا ہوں) کرتے رہو۔ ٹیکس کلکٹر کہتا ہے: بحث مت کرو، ٹیکس دو۔ مذہبی رہنما کہتا ہے: بحث مت کرو، ایمان لے آؤ۔ صرف ایک حکمراں ہی اس دنیا میں ہے جو کہتا ہے کہ جتنی چاہے بحث کرو، لیکن میرا حکم مانو۔ ہر جگہ آزادی پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ لیکن کون سی پابندی روشن خیالی کے خلاف ہے؟ کون سی پابندی ٹھیک ہے اور روشن خیالی کی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ (ان سوالات کا) میرے پاس جواب یہ ہے کہ ہر ایک کو فکر کے عام اظہارکی ہر وقت اجازت ہونی چاہیے۔ اور صرف یہی ایک چیز ہے جو انسانوں میں روشن خیالی کی ترقی کے لئے محرک بن سکتی ہے۔ اس کے برخلاف،روشن خیالی کی ترقی میں رکاوٹ ڈالے بغیرفکر کے ذاتی اظہار(private use of reason)پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ فکر کے عام اظہار سے میرا مطلب ایسا اظہار ہے جو ایک انسان بحیثیت دانشور پوری دنیا کے سامنے کرتا ہے۔ جبکہ فکر کا ذاتی اظہار میرے نزدیک وہ ہے جو کسی عہدے کے پابند انسان کے ذریعے ہوتا ہے۔
بعض معاملات میں، جو عوام کے مفاد کو متاثر کرتے ہیں، ایک خاص قسم کا حکومتی نظام ہونا ضروری ہے جس میں عوام میں سے بعض افراد حکومت کے آلہ کار ہوں۔ اس طرح سے مصنوعی طور پر ایک اتفاق رائے قائم ہو جائے گاجو عوام کے مقاصد کو پورا کرنے میں مدد کرے گا۔ یا کم سے کم انہیں برباد ہونے سے بچائے گا۔ اس مقام پر چوں چرا کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، بلکہ ہر کسی کے لئے اطاعت شرط ہوگی۔اس نظام سے جڑے ہونے کے ساتھ ہی ساتھ اگر ایک شخص اپنے آپ کو عالمی انسانی برادری کا حصہ سمجھتا ہو، جسے ہم عالمی سماج سے تعبیر کر سکتے ہیں، (دوسرے لفظوں میں وہ خود کو ایک دانشور تصور کرے اور عقلی بنیادوں پر اپنی تحریروں کے ذریعہ عوام کو مخاطب کرے)تو یقینا وہ بحث و مباحثہ کر سکتا ہے، اور اس سے اس نظام پر بھی بظاہر کوئی فرق نہیں پڑے گا جس کا وہ ایک حصہ ہے۔ اسی طرح ڈیوٹی پر موجود افسر اگر اپنے اعلی افسروں کے احکام کی موزونیت اور افادیت کو ہدف تنقید بنائے تو یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ اسے صرف حکم بجا لانا چایئے۔ لیکن ایک دانشور کی حیثیت سے اگر وہ فوجی خدمات میں در آنے والی خرابیوں پر تنقید کرے اور اپنے نظریات کو عوام کے حوالے کر کے ان کی رائے طلب کرے تو اسے اس عمل سے روکنا کسی بھی صورت جائز نہیں ہوگا۔ایک شہری کی حیثیت سے ایک شخص ٹیکس کی ادائیگی سے انکار نہیں کر سکتا۔ ٹیکس کی ادائگی کے خلاف کسی بھی طرح کی بے جا تنقید لاقانونیت کو جنم دے سکتی ہے، اسی لئے یہ ایک جرم ہے جس کی سزا بھی ہونی چاہیے۔ لیکن یہی شخص اگرایک دانشور کی حیثیت سے ان ٹیکسوں میں غلطی اور ناانصافی کے خلاف عوامی سطح پر آواز بلند کرے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے ایک شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسی طرح سے ایک پادری اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ چرچ کے اصولوں کے مطابق اجتماعات کو تعلیم دے۔ کیونکہ اسے اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن بحیثیت دانشور اسے پوری آزادی ہے، بلکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ چرچ کے اداروں اور مذہبی نظریات کی خامیوں اور ان کو بہتر بنانے کی تجاویز کے بارے میں اپنے تجزیاتی اور تعمیراتی افکار عوام کے سامنے رکھے۔ ایسا کرنا غلط نہیں ہے۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ چرچ کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے عہدے کے مطابق وہ جس چیز کی تعلیم دیتا ہے، اس میں اپنی فکری مداخلت کی اسے آزادی نہیں ہوتی۔اسے ایک ملازم کی حیثیت سے دوسروں کے نام پر اور ان کے حکم کے مطابق بولنے کے لئے رکھا گیا ہے۔ وہ یوں کہتا ہے کہ چرچ اس اس طرح کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس کے حق میں وہ ثبوت پیش کرتا ہے۔ وہ سامعین کو ان نظریات سے پوری طرح فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے جنہیں وہ ممکنہ طور پر خود قبول نہیں کر سکتا۔ (اگرچہ وہ ان نظریات پرجس کی وہ تعلیم دیتا ہے ایمان نہیں رکھتا تاہم) وہ انہیں پوری طرح غلط بھی نہیں مانتا اور اسی وجہ سے ان کی تعلیم کے لئے تیار بھی ہو جاتا ہے۔ اسے ان نظریات میں کوئی چیز مذہب کی روح کے خلاف نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ صاف دلی کے ساتھ کبھی اپنے عہدے پر قائم نہیں رہتا، بلکہ استعفا دے دیتا۔ اس سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ عقل و فکرکا وہ اظہار واستعمال( use of reason)جو ایک دانشور ایسی جماعت کے سامنے کرے جس نے اسے ملازمت پر رکھا ہو، ذاتی(private use) کہلائے گا۔ کیونکہ ایسے سامعین کی تعداد چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہو، ہے تو داخلی ہی۔ اس اعتبار سے بحیثیت مبلغ وہ آزاد نہیں ہے، اور وہ آزاد ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ وہ تو دوسروں کے احکام کا پابند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر پادری ایک دانشورہو،یعنی اپنی تحریروں کے ذریعہ اپنے قاری سے، جو پوری دنیا میں پھیلے ہوتے ہیں،(آزادی کے ساتھ) بات کرتا ہو،تو پھر وہ اپنی فکر کے عام اظہار کے لئے اپنی عقل کے استعمال میں آزاد ہوتا ہے اور کھل کر اپنی رائے دے سکتا ہے۔ اگر روحانی رہنما خود عقل کا استعمال کرنے سے باز رہتے ہیں تو یہ حماقت ہے جومزید حماقتوں کے ایک لامتناہی سلسلے کو جنم دیتی ہے۔
لیکن کیا رہنمائوں کی کسی جماعت، مثال کے طور پر ےچرچ کونسل، کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حلفا خود کو ایک اٹل نظریے کا پابند کر لے، تاکہ اس طرح سے کونسل کے تمام ممبران اور ان کے ذریعہ عوام پر ایک دائمی سرپرستی (guardianship) کو یقینی بنایا جا سکے؟ میں تو اسے ناممکن سمجھتا ہوں۔ ایسا عہد جو انسانی برادری میں روشن خیالی کی مزید ترقی کے حق میں نہ ہو، بے وقعت ہے۔ پھر چاہے اسے کوئی حکومت یا پارلیمنٹ نافذ کرے یا اس کی توثیق کسی مقدس عہد سے ہوتی ہو۔ ایک زمانہ بعد میں آنے والے زمانوں کو کسی بھی طرح کے عہد و پیمان کا پابند نہیں بنا سکتا، اور نہ ہی وہ انہیں اپنی بصیرت کو پروان چڑھانے، غلطیوں سے خود کو پاک کرنے اور روشن خیالی کو ترقی دینے سے روک سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ انسانی فطرت کے خلاف ایک جرم ہوگا، کیونکہ انسان کی فطرت نشو ونما اور ترقی کرتے رہنا ہے۔ لہذا بعد کے زمانوں کو مکمل طور سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس طرح کے فیصلوں کو غیر معتبر اور فرسودہ مان کر مسترد کر دیں۔
وہ تمام فیصلے جو قانون کی صورت اختیار کر سکتے ہیں، ان کے معیار کو اس ایک سوال سے جانچا جانا چاہیے: کیا کسی قوم کو اپنے اوپرایسا قانون نافذ کرنا چاہیے؟ اس صورت میں یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ ایک خاص قانون کو ایک محدود لیکن مختصر مدت کے لئے نافذ کیا جائے (تاکہ اس دوران) ایک بہتر قانون بنایا جا سکے۔ لیکن اس عارضی قانون کے نفاذ کے دوران ہی ہر شہری، اور خاص طور سے ایسے روحانی پیشوا کو، جو ایک دانشور کے فرائض بھی انجام دے رہا ہو، موجودہ اداروں کی خامیوں پر مکمل تنقید کی آزادی ہونی چاہیے۔ ایسا تب تک ہونا چاہیے جب تک کہ ان معاملات میں عوام کا فہم اس حد تک بالغ نہ ہو جائے کہ وہ دانشوروں کی اکثریت کی رائے کے مطابق حکومت کے سامنے اصلاح کی تجاویزپیش کر سکیں تاکہ ان جماعتوں کی حفاظت کی جائے جنہوں نے زبردست غوروفکر کے بعد اور روایت پسندوں سے ٹکرائے بغیر ایک تبدیل شدہ مذہبی نظام (altered religious order) کو اختیار کیا ہے۔ لیکن کسی ایسے چلے آرہے مذہبی ضابطے سے اتفاق کرنا جس پر کسی نے اعلانیہ سوال قائم نہ کیا ہو، انسانی پیش رفت کے ایک عہد کو، جس طرح ماضی میں ہوا، برباد کر دے گا۔ اس کی بالکل بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ایک شخص روشن خیالی سے صرف ایک وقت تک ہی دور رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ وہ اپنے یا اپنی اولادوں کے حق میں روشن خیالی سے مکمل طور پر دست بردار ہو جائے، تو پھر سمجھنا چاہیے کہ اس نے انسان کو حاصل مقدس حقوق کو پامال کیا اور ان کی خلاف ورزی کی۔ رائے عامہ جس چیز کے حق میں نہ ہو، حاکم کو بھی اسے نافذ نہیں کرنا چاہے گا۔ کیونکہ بحیثیت حاکم اس کی اتھارٹی رائے عامہ پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ سارے سچے یا خیالی مذاہب تمدنی ضابطہ بندی کے موافق ترقی کر رہے ہیں توپھرکون کس طرح سے اپنی نجات کا راستہ تلاش کر رہا ہے، ایک حاکم کو اس کی پروا نہیں ہوتی۔ کیوں کہ یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس کی جو ذمہ داری ہے وہ یہ ہے کہ ایسے کسی بھی آدمی پر قدغن لگائے جو دوسرے کو قابلیت اور یقین کے بل پر اپنے طریقے سے نجات حاصل کرنے سے جبرا روکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ حاکم ان (مذہبی) معاملات میں مداخلت کرے اور ایسے لٹریچر کی اشاعت کی سرپرستی کرے جس میں اس کی رعایا اپنے مذہبی نظریات کو عام کرنا چاہتی ہو، تو پھر وہ متعصب تصور کیا جائے گا۔ چاہے اس نے ایسا اپنی اعلی بصیرت کے مطابق ہی کیا ہو۔اور ا س کا یہ عمل لوگوں کو اس پر ملامت کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔ لیکن اس کی سب سے بدتر شکل یہ ہے کہ جب ایک حکمراں اپنے منصب کی پروانہ کرتے ہوئے تمام رعایا کے مقابلے میں چند ظالموں کی روحانی مطلق العنانیت کی حفاظت کرنا شروع کر دے۔
اگر پوچھا جائے کہ کیا ہم روشن خیال زمانے میں جی رہے ہیں؟ تو جواب ہوگا، نہیں۔ کیوںکہ ہمارا زمانہ روشن خیال نہیں بلکہ یہ روشن خیالی کا زمانہ ہے۔ جس طرح کے حالات ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آج بھی انسان بغیر کسی خارجی ہدایت کے مذہبی معاملات میں پورے اعتماد کے ساتھ اپنی عقل کا استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ تاہم، ہمارے پاس واضح اشارات ہیں کہ مذہبی حقائق پر غور و فکر کرنے کے امکانات بہر حال موجود ہیں۔ جبکہ روشن خیالی کی عمومی ترقی یا غور وفکر سے عاجز ہونے کے خود ساختہ تصور سے باہر آنے میں جو رکاوٹیں تھیں وہ کم ہو رہی ہیں۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ عہد روشن خیالی کا عہد ہے اور یہ صدی فریڈرک اعظم کی صدی ہے۔
بہتر یہ ہے کہ حاکم اپنی رعایا پر یہ واضح کر دے کہ مذہبی معاملات میں دخل اندازی اس کے منصب کو زیب نہیں دیتی۔ ان معاملات میں عوام مکمل آزاد ہیں۔ اگر بادشاہ رواداری کے تصور کو ایک حاکمانہ تصور خیال کرتے ہوئے رد کر دیتا ہے تو اسے بھی روشن خیال سمجھا جانا چاہیے۔ ایک ایسے انسان کے روپ میں جو انسانیت کوکم سے کم حکومتی سطح پر ماتحتی کی زنجیروں سے آزاد کر دے اور عوام کو ان کے ضمیر کے مطابق فیصلہ لینے کی مکمل اجازت دے وہ بادشاہ اس لائق ہوتا ہے کہ پوری دنیا اور آنے والی نسلیں اس کی مدح و ستائش کریں۔ اس کے عہد میں معزز رہنما، دانشوروں کی طرح اپنے عہدوں کی پروا کیے بغیر اپنے افکار کوپرکھنے کے لئے آزادی کے ساتھ انہیں عوام کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ وہ مروجہ نظریات کے خلاف اپنی رایے کے اظہار میں بھی آزاد ہوتے ہیں۔ اس بات کا امکان ان لوگوں کے ساتھ زیادہ ہوگا جو کسی عہدے کے پابند نہیں ہیں۔
آزادی کا یہ جذبہ اب پروشیا(Prussia) کی سرحدوں سے بھی آگے جا چکا ہے، حالانکہ اسے یہاں کی تنگ نظر حکومتوں کی نافذ کردہ رکاوٹوں سے برسرپیکار ہونا پڑ رہا ہے۔ (یہ سمجھنا چاہیے کہ) آزادی کسی بھی قوم کے اتحاد اور پبلک آرڈر کے خلاف نہیں ہوتی۔ اس کی زندہ مثال پروشیامیں فریڈرک کی سلطنت ہے۔ اگر کوئی طاقت انسانوں کو زبردستی جہالت و بربریت کے دلدل میں پھینکنے پر مصر نہ رہے تو انسان خود بہ خود آہستہ آہستہ اس دلدل سے باہر آ جائے گا۔
میں نے روشن خیالی کے جس اہم نکتے پر زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان غور وفکر سے عاجز ہونے کے خود ساختہ تصور سے باہر آئے، خاص طور سے مذہبی معاملات میں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمراں آرٹس اور سائنس میں اپنی رعایا کی سرپرستی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ اور سب سے بڑھ کرجو دوسری وجہ ہے وہ یہ ہے کہ مذہبی معاملات میں فکرسے دستبردارہونا بے حد خطرناک اور ذلت آمیز ہوتاہے۔ لیکن اگر حاکم کی طبیعت سائنس اور آرٹس میں آزادی کی حمایت کرے تو اس کے اہم نتائج برآمد ہو سکتے ہیں: مثلا اسے اس بات کا ادراک ہو جائے گا کہ عوام کو فکر کے عام اظہار کی اجازت دینے میں، ایک بہترین آئین کی ترتیب کے لئے ان کی رایوں کا احترام کرنے میں،اور موجودہ قوانین کے خلاف ان کے بے لاگ تبصروں کو قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس اس قسم کی آزادی کی واضح مثال موجود ہے، اس کی وجہ ہمارا بادشاہ ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔
ایسا حکمراں جو روشن خیال بھی ہو اور توہمات سے بھی نہ گھبراتا ہو، مزید اس کے پاس امن عامہ کو یقینی بنائے رکھنے کے لئے ایک عمدہ فوجی نظام بھی ہو، صرف اسے ہی یہ الفاظ زیب دیتے ہیں: 'جتنا چاہے بحث کرو، جس چیز کے بارے میں چاہے بحث کرو، (مگر شرط یہ ہے کہ) میرا حکم مانو!۔ اکثر جب ہم چیزوں کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انسانی معاملات کی ایک عجیب اور غیر متوقع ترتیب ہمارے سامنے آتی ہے۔ ایسی ترتیب جس میں ہر چیز پیچیدہ ہے۔ مثال کے طور پر، بڑے پیمانے پر تمدنی آزادی لوگوں کی ذہنی آزادی کے لئے بڑی مفید لگتی ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ ناقابل تسخیر رکاوٹیں بھی پیدا کرتی ہے۔ اس کے برعکس محدود تمدنی ترقی ہرانسان کو اس کی اپنی استطاعت کے مطابق ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔
قدرت نے بہت ہی احتیاط کے ساتھ انسان میں آزادی فکر کی طلب کو پروان چڑھایا ہے جو آہستہ آہستہ عوام کے طرز فکر پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے اور دھیرے دھیرے انسان کو آزادانہ عمل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اور آخر کار یہ آزادی فکر حکومت کی بنیادوں پر اثر انداز ہوکر اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ انسان کو، جس کی حالت ایک مشین کی طرح ہو گئی ہے، باوقار جنس تسلیم کرے۔