Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
(یہ تحریر آر۔جی۔کالنگ وڈ کی کتاب The Idea of Historyکے مقدمے کا ترجمہ ہے۔دور جدیدمیں فلسفہ ٔ تاریخ پرجوکتابیں لکھی گئی ہیں،ان میں اس کتاب کوغیر معمولی اہمیت اور شہرت حاصل ہے۔فلسفہ ٔتاریخ کے حوالے سے اس نےنئے افکارورجحانات کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے۔ کتاب کے اس مقدمے میں فلسفہ ٔ تاریخ کے اہم نکات پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ادارہ)
کتاب فلسفۂ تاریخ کے موضوع پر ایک مقالہ ہے۔ فلسفۂ تاریخ کی اصطلاح اٹھارھویں صدی کے مفکر والٹیئر (Voltaire) کی ایجاد ہے۔ اس اصطلاح سے والٹیئرکا مقصد محض تاریخ کا تنقیدی یا علمی مطالعہ وتجزیہ تھا، یعنی تاریخ کا ایک ایسامطالعہ جس کے ذریعہ ایک مورخ قدیم کتابوں میں موجود واقعات کو ہوبہو دہرانے کے بجائے ان پراپنے ذاتی فکری وتنقیدی زاویہ سے سوچ سکے۔ بالکل اسی اصطلاح کا استعمال اٹھارھویں صدی کے اختتام پر ہیگل (Hegel)نے کیا ؛ لیکن ان تمام لوگوں نے اس کا استعمال ایک مفہوم میں کیا۔ اس سے ان کی مراد محض عالمی تاریخ تھی۔ تاہم اس اصطلاح کو انیسویں صدی کے متعددایجابی مفکرین (positivists)کے یہاں ایک تیسرے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔ ان حضرات کے نزدیک فلسفۂ تاریخ ان عمومی اور مشترک قوانین اور اصولوں کی دریافت کا نام ہے جو دنیا میں پیش آنے والے ایسے واقعات کی تحدید کرتے ہیں جنھیں تاریخ بیان کرتی ہے۔
والٹیئراور ہیگل کے بقول فلسفۂ تاریخ کا دائرہ کار صرف تاریخ ہے جب کہ ایجابی مفکرین نے تاریخ سے کسی فلسفہ کی تشکیل کی کوشش نہیں کی ہے؛ بلکہ ان کا مقصد موسمیات (meteorology) کی طرح ایک تجربی سائنس کی تشکیل وارتقا ہے۔ ان تمام اقوال میں فلسفہ کا تصور ہی وہ عنصر ہے جو فلسفۂ تاریخ کے تصور پر غالب ہے۔ والٹیئرکے نزدیک فلسفہ کا مقصد آزادانہ تنقیدی مطالعہ ہے جب کہ ہیگل کے نزدیک اس فلسفہ کا مقصد پوری دنیا کے بارے میں بحیثیت مجموعی مطالعہ کرنا ہے اور انیسویں صدی کے ایجابی مفکرین کے نزدیک، اس فن کا مقصد یکساں اور مشترک قوانین کا انکشاف رہا ہے۔
لیکن 'فلسفۂ تاریخ کی اصطلاح کا استعمال جس مفہوم میں میں نے کیا ہے وہ ان تمام مفاہیم سے یکسر مختلف ہے۔ اس اصطلاح سے میں کیا مفہوم بہم پہنچانا چاہتا ہوں اس کو واضح کرنے کے لیے سب سے پہلے میں اپنے 'تصورِ فلسفہ سے متعلق کچھ گوش گذارکرنا چاہوں گا۔
'فلسفہ گہرائی سے سوچنے کا نام ہے۔ فلسفیانہ ذہن محض کسی شےکے بارے میں سوچتا ہی نہیں ہے بلکہ کسی شےکے بارے میں سوچنے کے دوران اس شےسے متعلق اپنی فکر کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔ اسی لیے فلسفے کو دوسرے درجہ کی سوچ یا متعلقہ سوچ کے بارے میں سوچ کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر فلکیات (astronomy) کے میدان میں، سورج اور زمین کے مابین فاصلے کی دریافت پہلے مرحلے کی سوچ ہے؛ لیکن منطق یا سائنسی نظریے کے تناظر میں اس بات کا انکشاف کرنا کہ جب ہم سورج سے زمین کے فاصلے کا انکشاف کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت حقیقی معنوں میں ہم کیا عمل انجام دے رہے ہوتے ہیں، یہ دوسرے مرحلے کی سوچ ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فلسفہ دماغ سے متعلق سائنس کا نام ہے یا یہ علم نفسیات (psychology)کا نام ہے۔ علم نفسیات پہلے مرحلے کی سوچ ہے؛ اس کا رویہ دماغ کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو حیاتیات(biology)کا زندگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ فکر اور شےکے درمیان رابطے سے بحث نہیں کرتا ہے؛ بلکہ یہ بلاواسطہ فکر سے اس طرح بحث کرتا ہے جیسے کہ یہ اس شےسے بالکل کوئی مختلف چیز ہو یا جیسے کوئی ایسی چیز جو دنیا میں کسی خاص مظہر کے طور پر ظہور پذیر ہوتی ہو، جو بالذات مناقشے کا موضوع بن سکے۔ فلسفے کا تعلق نفسِ فکر سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق متعلقہ فکر اور موضوع کے مابین پائی جانے والی نسبت سے ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا تعلق ہمیشہ اپنے موضوع سے بھی اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ نفس فکر سے۔
فلسفہ اور نفسیات کے مابین فرق کی وضاحت تاریخی فکر کے تعلق سے مذکورہ دنوں علوم میں اپنائے گئے مختلف رویوں کی روشنی میں بخوبی کی جاسکتی ہے-تاریخی فکر ایک خاص نوع کی سوچ ہے جو ایک خاص موضوع سے متعلق ہوتی ہے جسے ہم فی الحال ماضی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ماہر نفسیات کو تاریخی سوچ میں دلچسپی ہوسکتی ہے؛ وہ دماغی احوال کی ایسی عجیب انواع کا تحلیل وتجزیہ کرسکتا ہے جو مورخین کے ذہنوں میں چلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پروہ دلیل سے یہ بھی ثابت کرسکتا ہے کہ مورخین ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فنکاروں کی طرح ایک تخیلاتی دنیا تعمیر کرتے ہیں کیوں کہ وہ اس قدر وہمی ہوتے ہیں کہ وہ اس حقیقی دنیا کے علاوہ کسی اور دنیا میں گم رہتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فن کاروں یا آرٹسٹوں کے برخلاف یہ لوگ اس تخیلاتی دنیا کو ماضی کی شکل میں پیش کرتے ہیں کیوں کہ یہ لوگ اپنے اوہام یا غیر حقیقی خیالات کی جڑیں اپنے بچپن کے ماضی کے واقعات میں تلاش کرتے ہیں اور ان گتھیوں کو سلجھانے کی ناکام کوشش کے لیے ماضی میں زیادہ سے زیادہ جھانکتے رہتے ہیں۔ اس تجزیہ کو مزید طول بھی دیا جاسکتا ہے جس سے یہ پتہ چلے گا کہ جولیس قیصر جیسی اہم شخصیت میں کسی مورخ کی دلچسپی کس طرح سے بچپن میں اپنے والد کے ساتھ اس کے رویہ کی وضاحت کرتا ہے۔ اور اسی پر دیگر چیزوں کو بھی قیاس کیاجا سکتا ہے۔ میں یہ بالکل نہیں کہتا کہ اس طرح کی تحلیلات ضیاع وقت ہیں۔ میں محض ایک مخصوص نوع کی حالت بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے میرا مقصد اس بات کی نشاندہی ہے کہ موضوعی اور معروضی کے مابین بنیادی تعلق کے تناظرمیں اس طرح کی تحلیل کا ارتکاز بطورِ خاص موضوعی سطح پر ہوتا ہے۔ اس کاتعلق مورخ کی فکر سے ہوتا ہے نہ کہ اصل موضوع یعنی ماضی سے۔ اگرماضی نام کی کوئی چیز ہی نہ ہوتی، اگر جولیس قیصر محض ایک تخیلاتی شخصیت اور تاریخ ایک علم کےبجائے محض تخیلات کا ایک مجموعہ ہوتی تو تاریخی فکر کا نفسیاتی تجزیہ بعینہ یہی ہوتا۔
اس کے برعکس ایک فلسفی کے لیے قابل توجہ چیز نہ تو بذات خود ماضی ہے جیسا کہ مورخ کے لیے ہوتا ہے، اور نہ ہی اس سلسلے میں مورخ کی اپنی فکر جیسا کہ ایک ماہر نفسیات کے یہاں ہوتاہے بلکہ دونوں کے مابین پائی جانے والی نسبت۔کسی موضوع اور اس کے حوالے سے فکر کے مابین رشتہ کے تناظر میں کوئی بھی فکر محض فکر نہیں رہتی بلکہ ایک علم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس طرح سے علم نفسیات کے لیے محض فکر کا جو نظریہ ہوتا ہے جس میں کسی اور شےسے ہٹ کر دماغی اور ذہنی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے، وہی مقام فلسفے میں علم کے نظریے کو حاصل ہوتا ہے جہاں ایک فلسفی اپنے آپ سے سوال کرتا ہے: مورخین کے سوچنے کا انداز یا منہج کیا ہوتا ہے؟ فلسفی اپنے آپ سے پوچھتا ہے: مورخین کسی چیز کو کیسے جانتے ہیں۔ وہ آخر ماضی کو کیسے سمجھتے ہیں؟ بالکل اس کے برعکس ایک فلسفی کے انداز سے ہٹ کر مورخ کا یہ عمل ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں ماضی کا ادراک کرے۔مثلا اس بات کا پتہ لگائے کہ اتنے سال پہلے ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے۔ ان چیزوں سے ایک فلسفی کا تعلق اس طور پر نہیں ہوتا ہے کہ یہ چیزیں رونما ہوئیں، بلکہ اس طور پر کہ یہ چیزیں ایک مورخ کے علم میں ہیں، اس کا مقصد یہ سوال کرنا بالکل نہیں ہے کہ یہ واقعات وحوادث کس نوع کے تھے اور کب اور کہاں رونما ہوئے، بلکہ ان واقعات کے بارے میں اس بات کی تفتیش کرنا ہے کہ آخر مورخ کو اس واقعہ یا حادثہ کا علم کیوں کر ہوا؟
اس طرح سے ایک فلسفی کو مورخ کے ذہن کے بارے میں سوچنا ہے؛ لیکن جس دوران وہ اس تفکیری عمل سے گزر رہا ہوتا ہے وہ کسی ماہر نفسیات کے عمل کی نقل نہیں کررہا ہوتا ہے کیوں کہ اس کے نزدیک ایک مورخ کی فکر دماغی اور عقلی مظاہر کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا؛ بلکہ علم کا ایک نظام ہوتا ہے۔ وہ ماضی کے بارے میں بھی سوچتا ہے لیکن اس انداز سے نہیں کہ وہ مورخ کے عمل کی محض نقالی ہو؛ کیوں کہ اس کے نزدیک ماضی واقعات وحوادث کا تسلسل نہیں؛ بلکہ چند معلوم چیزوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ ہم اس کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک فلسفی تاریخ کے موضوعی پہلو کے بارے میں سوچنے کے اعتبار سے نظریہ ٔ علمِ انسانی کا ماہر(epistemologist)، اور معروضی پہلو کے بارے میں سوچنے کی وجہ سے ایک ماہر مابعد الطبیعیات (metaphysician) کا درجہ رکھتا ہے؛ لیکن اس کو اس طرح بیان کرنا نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ اس سے اس بات کا اشارہ ملے گا کہ ایک فلسفی کے کام کی معلومات شناسی اور مابعد الطبیعیاتی پہلوؤں کو الگ الگ انداز سے دیکھا جا سکتا ہے حالانکہ یہ ایک غلطی ہوگی۔ فلسفہ میں مطالعۂ علم اور مطالعۂ معلومات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔یہ عدم امکان خود اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ فلسفہ دوسرے مرحلے کی فکر یا سوچ کا نام ہے۔
اگر فلسفیانہ سوچ کا یہ عام خاصہ ہے تو پھر جب میں فلسفہ کے ساتھ لفظ تاریخ کا اضافہ کرتا ہوں اس وقت میری مراد کیا ہوتی ہے؟ آخر فلسفۂ تاریخ کا مخصوص موضوع کس مفہوم کے اعتبار سےعام فلسفہ اور کسی دوسرے علم کے فلسفے سے جداگانہ ہے؟
عموماً اس بات پر اتفاق ہےاگرچہ کسی قدر عدم اتفاق بھی ممکن ہےکہ خود فلسفے کے ڈھانچے میں اختلافات وامتیازات پائے جاتے ہیں۔ اکثر لوگ منطق یا نظریۂ علم کو اخلاقیات یا نظریۂ عمل سے جدا رکھتے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کا امتیاز کرنے والے اکثر لوگ اس بات پر بھی اتفاق کریں گے کہ کسی چیز کا جاننا ایک طرح کا عمل بھی ہے اور یہ اس عمل کا جب اخلاقیات کی روشنی میں مطالعے کیا جاتا ہے تو ایک طرح کا علم ہوتاہے یا کم از کم اس پرمشتمل ہوتا ہے۔ ایک منطقی جس فکر کا مطالعہ کرتا ہے اس کا بنیادی مقصد سچائی کو دریافت کرنا ہوتا ہے، اور اس طرح سے یہ ایسی سرگرمی کا نمونہ ہوتی ہے جو کسی مقصد کی حامل ہو اور ایسے ہی افکار اخلاقیاتی تصورات کہلاتے ہیں۔ ایک اخلاقی فلسفی جس عمل کا مطالعہ کرتا ہے وہ ایک ایسا عمل ہوتا ہے جو اس اعتقاد اور علم پر مبنی ہوتا ہے کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے اور علم یا عقیدہ معلومات شناسی پر مبنی تصور کا نام ہے۔ اس طرح سے منطق اور اخلاقیات باہم مربوط ہیں اور در حقیقت ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے، اگر چہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی امتیازی شان ہے۔ اگر فلسفۂ تاریخ نام کی کوئی چیز ہے تو اس کا تعلق دیگر مخصوص فلسفیانہ علوم کے ساتھ بھی اتنا ہی گہرا ہوگا جتنا کہ ان دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہے۔
پھر ہمارے سامنے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلسفۂ تاریخ کو عام نظریۂ علم میں مدغم کرنے کے بجائے انفرادی طور پر اس کو کیوں خصوصی مطالعہ کا موضوع بنایا جائے؟ یورپی تمدن کے پورے سفرپر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کسی نہ کسی حد تک تاریخی طور پر سوچتے رہے ہیں لیکن ہم انسانوں کی عادت ہے کہ ہم جن چیزوں کو بلا کسی خاص تعب و مشقت کے انجام دیتے ہیں ان پر بمشکل غور کرتے ہیں۔ ہم صرف اسی وقت غور وتامل سے کام لیتے ہیں جب ہمارا سامنامشکلات سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہم ان پر قابو پانے کے لیے اپنے اندر مخفی قوتوں کا ادراک کرتے ہیں۔ اس طرح سے فلسفہ کا موضوع، خود آگہی کے منظم اور سائنسی ارتقا کے طور پر، وقتا فوقتا ایسے مخصوص مسائل پر منحصر ہوتا ہے جب انسان کا مشکل حالات سے سامنا ہوتا ہے۔ تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں کسی بھی قوم یا معاشرے کے فلسفے کے لیے خصوصی اہمیت کے حامل موضوعات پر نظر ڈالنا در اصل ان مخصوص مشکلات کی جانب اشارہ کرنے والے امورکو دریافت کرنا ہے جن کے حل کے لیے انھیں اپنی پوری دماغی توانائی صرف کرنا پڑی۔ دوسری طرف ذیلی یا ضمنی موضوعات پر نظر ڈالنے سے پتا چلے گا کہ ان کی زندگی میں ایسی چیزیں رہی ہیں جن میں ان کو زیادہ مشکلات سے نہیں دوچار ہونا پڑا۔
ہماری فلسفیانہ روایت چھٹی صدی عیسوی کے یونان سے جا ملتی ہے اور اس دور میں اہم فکری موضوع علم ریاضیات (mathematics)کی بنیادوں کی تشکیل تھی۔ اسی وجہ سے یونانی فلسفے نے علم ریاضیات کو اپنی مرکزی توجہ کا سامان بنایا جب یونانی لوگ کسی علمی نظریے پر گفتگو کرتے تو سب سے پہلے اس علم سے ان کا ذہن ریاضی کے علم ہی کی طرف منتقل ہوتا۔
تب سے ایک صدی قبل تک یورپی تارِیخ میں دو عظیم تعمیری ادوار گزرے ہیں۔ قرون وسطی میں مرکزی فکری مسائل کا تعلق علم دینیات سے ہوا کرتا تھا اور اسی لیے فلسفے کے مسائل دینیات پر غور وفکر کے نتیجے میں رونما ہوئے جو کہ در حقیقت خدا اور انسان کے باہمی تعلقات پر مبنی تھے۔ سولھویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک، انسانی فکری کاوش کا سب سے بڑا حصہ مادی علوم کی تاسیس سے وابستہ تھا، اور فلسفے نے اپنے ارد گرد خلا میں موجود اشیاء کی فطری دنیا -بحیثیت مقصد- اور انسانی ذہن –بحیثیت موضوع- کے مابین رشتے کو اپنا مرکزی موضوع قرار دیا۔ یقینا اس پورے عرصے میں لوگ تاریخی طور پر سوچتے رہے ہیں؛ لیکن ان کی تاریخی سوچ یا تفکیر/ تقابلی طور پر سادہ یا ناپختہ اور ابتدائی انداز کی رہی۔ اس نے ایسے مسائل اور سوالات نہیں اٹھائے جن کا بآسانی حل تلاش کرنا ممکن نہ ہو، اور اس پر غور کرنے کے لیے مجبور نہیں ہونا پڑا۔ لیکن اٹھارھویں صدی میں لوگوں نے تاریخ کے بارے میں تنقیدی طور پر سوچنا شروع کردیا کیوں کہ لوگوں نے پہلے ہی سے خارجی دنیا کے بارے میں تنقیدی طور پر سوچنے کا آغاز کردیا تھا کیوں کہ تاریخ کو ایک خاص قسم کی فکر گردانا جانے لگا تھا اگرچہ اب بھی اسے بالکل ریاضیات، دینیات یا سائنس کی طرح کوئی فن نہیں مانا جاتا تھا۔
اس غور وخوض کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس مفروضے کی بنیاد پر قائم کردہ نظریۂ علم کہ علم ریاضیات، دینیات یا سائنس، یا یہ تمام مل کر عمومی طور پر پیش آنے والے تمام علمی مسائل کا حل پیش کرسکتے ہیں۔ اب مزید اطمینان بخش دعویٰ تصور نہیں کیا جا رہا تھا۔ تاریخی فکر کا اپنا ایک موضوع اور مقصد ہوتا ہے جس کی اپنی منفرد خصوصیات ہیں۔ ماضی یعنی زمان و مکان میں پیش آنے والے ایسے مخصوص واقعات جو اس وقت وقوع پذیر نہیں ہورہے ہیں، کو ریاضیاتی فکر کی مدد سے نہیں سمجھا جاسکتا ہے، کیوں کہ علم ریاضی ان چیزوں کا ادراک کرتا ہے جو زمان و مکان سے معرا ہوتی ہیں، اور در اصل زمان و مکان کی بندش سے آزادی ہی وہ صفت ہے جس کی وجہ سے انھیں جانا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سے ماضی کا ادراک دینیاتی فکر سے بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس طرح کی تفکیر کا موضوع منفرد اور غیر محدود ہوتا ہے جب کہ تاریخی احوال وواقعات محدود اور کثیر مقدار میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے سائنسی تفکیر سے بھی ماضی کے وقائع کا ادراک ممکن نہیں ہے کیوں کہ وہ حقائق اور سچائیاں جن کو سائنس کے بل بوتے پردریافت کیاجاتا ہے انھیں مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں کھرا اترنے کے بعد ہی جانا جاسکتا ہے جس کی مثال ہم مشاہدے اور ادراک میں آنے والی چیزوں سے دے سکتے ہیں۔ چونکہ ماضی ہماری نظروں سے بالکل اوجھل ہے اور اس سے متعلق ہمارے خیالات کی جانچ اور تصدیق اس انداز سے نہیں کی جاسکتی ہے جس طرح ہم سائنسی مفروضات کی تصدیق کرلیتے ہیں، اسی وجہ سے علم کے وہ شعبے جو ریاضی، دینیاتی اور سائنسی علوم کی تفصیل کے لیے وضع ہوئے ہیں وہ تاریخی علم کے خصوصی مسائل پر روشنی نہیں ڈال سکتے۔ اور جس وقت یہ مذکورہ علوم اپنے میدان سے متعلق علم کی خالص تفصیلات پیش کررہے ہوتے ہیں تو اس وقت در اصل اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تاریخی علم ایک ناممکن الحصول علم ہے۔
جب تک تاریخی علم نے بعض مخصوص مسائل سے نبرد آزما ہوکر اور ان سے نپٹنے کے لیے خاص طریقہ اپناکر فلاسفہ کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کروائی، کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن جس وقت تقریبا انیسویں صدی میں یہ وقوع پذیر ہوا، تو اس وقت حالت یہ تھی کہ علم سے متعلق معاصر نظریات سائنس کے مخصوص مسائل کی جانب مرکوز تھے اور ریاضیات اور دینیات کے مطالعہ پر مبنی ایک متوارث روایت کی شکل میں تھے جب کہ یہ نیا تاریخی منہج، جو ہر پہلو سے ارتقا پذیر تھا، ہنوز توجہ کا محتاج تھا۔ اسی لیے ایک ایسی خاص قسم کی تحقیق وتحلیل درکار تھی جس کا مقصد منظم اور مرتب تاریخی مطالعہ کے وجود میں آنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس نئی دشواری یا متعدد نئی مشکلات یا فلسفیانہ مشاکل پر غور وخوض ہو۔ یہی نیا مطالعہ وہ مطالعہ ہوگا جس کو بجاطور پر 'فلسفۂ تاریخ کا عنوان دیاجاسکے گا اور یہ کتاب در اصل اس موضوع کا مطالعہ کرنے کی ایک مختصر کوشش ہے۔
جوں جوں یہ مطالعہ آگے بڑھے گا اس کے دو متوقع مراحل سامنے آئیں گے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ فلسفۂ تاریخ کو ایک وسیع شکل میں مرتب کیے جانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ جو چیز بھی فلسفے کا حصہ ہوتی ہے وہ نسبتاً علیحدہ حالت کی حامل ہوتی ہے اور اسے ایک خاص مسئلے کا ایک خاص مطالعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو خاص انداز سے سلجھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ روایتی فلسفے اس سے بحث نہیں کرتے ہیں اور اسے علیحدہ کرنے کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ فلسفہ جس چیز کا اثبات نہیں کرتا اس کا یہ گویا منکر ہوتا ہے۔ اسی لیے روایتی فلسفے اپنے اندر یہ مفہوم رکھتے ہیں کہ تاریخی علم ناممکنات میں سے ہے۔ اسی لیے فلسفۂ تاریخ ان چیزوں سے علیحدہ ہوکر آزادانہ طور پر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ کس طرح تاریخ ایک ممکن الحصول موضوع ہے۔
دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ فلسفے کی اس نئی شاخ اور قدیم روایتی نظریات کے درمیان رابطے کو متعین کرنا ہوگا۔ فلسفیانہ خیالات کے مجموعے میں کسی بھی طرح کا اضافہ شروع سے موجود ہر چیز میں کسی نہ کسی قدر تبدیلی کا سبب بنتا ہے اور جب کسی نئے فلسفیانہ علم یا سائنس کا قیام عمل میں آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام قدیم سائنسی نظریات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر جدید نیچرل سائنس (modern natural science) اور اس پر غور وخوض کے نتیجے میں وجود میں آنے والے فلسفیانہ نظریہ کے قیام نے قیاسی منطق کے تئیں وسیع پیمانے پر بے اعتمادی پھیلاکر مسلمہ منطق پر رد عمل ظاہر کیا اور اس کی جگہ پر ڈیکارٹ (Descartes) اور بیکن (Bacon) کے منطقی مناہج کو متعارف کیا۔ اسی چیز نے دینیاتی مابعد الطبیعاتی علم (theological metaphysics) پر بھی رد عمل ظاہر کیا جو انیسویں صدی میں قرون وسطی سے بطور میراث منتقل ہوئی تھی اور اس نے خدا سے متعلق نئے تصورات جنم دیے جنھیں ہم ڈیکارٹ اور اسپنوزا (Spinoza) کے یہاں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح اسپنوزا کے دور تک فلسفۂ سائنس بقیہ دیگر فنون سے علیحدہ ہوکر فلسفیانہ تحقیق وجستجو کی کوئی مخصوص برانچ نہ رہی؛ بلکہ یہ دیگر تمام فنون میں سرایت کرگئی اور اس نے سائنسی روح سے لبریز ایک مکمل فلسفے کو جنم دیا۔ موجودہ تناظر میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام فلسفیانہ سوالات کا ایک محدود دائرے میں فلسفۂ تاریخ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیا جائے جس کے نتیجے میں وسیع تناظر میں ایک ایسا فلسفہ وجود میں آئے گا جسے 'فلسفۂ تاریخ کا نام دیاجاسکے گا۔
اگر یہ کتاب مذکورہ دونوں مراحل میں سے صرف پہلے مرحلے کی نمائندگی کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ہمارے لیے اطمینان کا سامان ہوگا۔ یہاں ہمارا مقصد حقیقتِ تاریخ کے حوالے سے ایک ایسی فلسفیانہ تحقیق پیش کرنا ہے جسے علم کا ایک مخصوص شعبہ سمجھا جائے جس کا اپنا جداگانہ مقصد ہو۔ سرِدست ہم اس سوال کو نظر انداز کررہے ہیں کہ یہ تحقیق وجستجو دیگر فلسفیانہ مطالعہ جات پر کس طرح اثر انداز ہوگی؟
تاریخ کیا ہے؟ تاریخ کا موضوع کیا ہے؟ اس کا طریقۂ کار اور مقصد کیا ہے؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کا جواب مختلف اہلِ علم مختلف انداز سے دیتے ہیں۔ تاہم ان اختلافات کے باجود ان جوابات میں بڑی حد تک یکسانیت بھی نظر آتی ہے اور یہ یکسانیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ جوابات نااہل مبصرین سے ملنے والے جوابات کو نظر اندازکرتے ہوئے —چھان بین اور تحقیق وتفتیش کی کسوٹی پر پرکھے جائیں۔ دینیات یا دیگر تمام مادی علوم کی طرح تاریخ ایک خاص قسم کی فکر کا نام ہے۔ اگر ایسا ہی ہے،تو پھراس انداز کی فکر کی ماہیت، موضوع، طریقۂ کار اور اہمیت سے متعلق اٹھائے جانے والے سوالات کے جوابات ایسے لوگوں سے ملنے چاہئیں جو دو طرح کی صلاحیتوں کے حامل ہوں۔
اوّلاً : اس شخص کے اندر اس طرح کی سوچ کا تجربہ ہو یعنی کہ جواب دہندہ خود مورخ ہو۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو آج کل ہم سب مورخ ہیں۔ تمام تعلیم یافتہ حضرات ایسے تعلیمی مرحلے سےضرور گزرتے ہیں جس میں کسی نہ کسی قدر تاریخی فکر کا عنصریا مواد ضرور پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ محض اس وجہ سے اس کے اندر تاریخی فکر کی حقیقت، موضوع، طریقۂ کار اور اہمیت کے بارے میں رائے زنی کی اہلیت پیدا ہوجائے گی۔ کیوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کہ تاریخی فکر سے متعلق اس نے اس راہ سے جو تجربہ حاصل کیا ہے وہ سطحی یا غیر معیاری ہو۔ ظاہر ہے اس طرح کے سرسری تجربات پر مبنی خیالات بہت ہی لچر، کمزور اور پھسپھسے ہوں گے، اور یہ تو ایسے ہی ہوگا جیسے کسی نے محض ہفتہ کے اختتام پر پیرس کا دورہ کیااور اس کے بعد وہ فرانسیسی عوام کے بارے میں اپنے خیالات ونظریات پیش کرنے لگا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی چیز سے متعلق معمولی تعلیمی اداروں کے ذریعہ حاصل کردہ تجربات سطحی ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ پرانے اور فرسودہ ہوتے ہیں۔ تاریخی فکر سے متعلق اس منہج سے حاصل کردہ تجربات نصابی کتابوں کے اسلوب میں ڈھلے ہوتے ہیں اور اس طرح کی نصابی کتب کا المیہ یہ ہے کہ یہ کتابیں عصرحاضر کے مورخین کے افکار کی عکاسی نہیں کرتی ہیں بلکہ یہ ماضی کے کسی ایسے عصر میں موجود مورخین کےافکار کی ترجمانی کرتی ہیں جب کہ سارا مواد ابھی خام تھا اور اسی کی مدد سے آج کی نصابی کتابوں کو مرتب یامدون کیا گیا ہے۔ جس وقت یہ مواد خام نصابی کتابوں کا حصہ بنتے ہیں اس وقت تک وہ قدیم تاریخی افکار ہی فرسودہ نہیں ہوتےبلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس وقت تک تاریخی فکر کے اصول وضوابط یعنی علم تاریخ کی حقیقت، موضوع، طریقۂ کاراور اہمیت کے تعلق سے بھی بڑی تبدیلیاں پیدا ہوچکی ہوتی ہیں۔ تیسری بات جو کہ اس سے مربوط بھی ہے،یہ ہے کہ عمومی تعلیم کے راستے سے حاصل کردہ تمام علوم کے بارے میں ضمنی طور پر لوگوں میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ یہ علم اس وقت آخری مرحلہ میں پہنچ چکا ہے۔ جب کسی اسکول یا کالج کا ایک طالب علم کسی بھی موضوع کے مطالعے کے ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے تو وہ یہ یقین کربیٹھتا ہے کہ تمام علمی امور جو اس نے پڑھے ہیں وہ اس کے سامنے حتمی اور آخری شکل میں ہیں کیوں کہ اس کے نصاب کی کتابیں اور اس کے اساتذہ بھی ان علمی امور کو حتمی اور فائنل تصور کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ اس ماحول یا حالت سے باہر نکلتا ہے اور جب وہ موضوع کے حوالے سے مزید مطالعہ کرتا ہےتو پھر اسے سمجھ میں آتا ہے کہ کوئی بھی چیز حتمی یا فیصلہ کن مرحلے میں نہیں ہے۔ چنانچہ اس مرحلہ میں داخل ہونے کے بعد، بند ذہنیت یا اپنے خیالات پر اصرار کا رجحان جو کہ ہمیشہ نا پختگی کی وجہ سے پنپتا ہے اس سے یہاں آکر رخصت ہوجاتا ہے۔ وہ اب ان نام نہاد حقائق کو ایک الگ ناقدانہ نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوکر گویا ہوتا ہے: میرے استاذ اور میری درسی کتابوں نے تو مجھ سے یہ بتایا تھا کہ فلاں فلاں حقائق درست ہیں؛ لیکن کیا واقعی یہ حقائق درست ہیں؟ آخر کن اسباب کی بنا پر انھوں نے اسے درست قرار دیا تھا، اور کیا وہ اسباب ان حقائق کو درست قرار دینے کے لیے کافی تھے؟
دوسری طرف، اگر ایک طالب علم طالبعلمی کے مرحلے سے باہر نکل جاتا ہے؛ لیکن کسی وجہ سے وہ اپنے فن یا موضوع کا مزید مطالعہ جاری نہیں رکھ پاتا ہے تو پھر وہ اپنی بند ذہنیت سے باہر نہیں آپاتا ہے۔ چنانچہ ایسا شخص بطور خاص مذکورہ بالا سوالات کی جوابدہی سے قاصر ہوتا ہے۔ شاید ان سوالات کا جواب اس آکسفورڈ کے فلسفی سے زیادہ غلط انداز میں کوئی اور نہیں دے سکتا جس نے اپنی جوانی میں گریٹس کی پڑھائی کی، اور کبھی تاریخ کا طالب علم رہا اب وہ یہ سوچتا ہے کہ جوانی میں اسے تاریخی فکر کا تجربہ حاصل ہے، جو اسے اس بات کا اہل قرار دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ اب یہ بحث کرے کہ تاریخ کیا ہے، اس کا موضوع کیا ہے اور اس کا طریقۂ کار اور مقصد کیا ہے؟
ان سوالات کے جوابات بہم پہنچانے کے لیے دوسری ضروری صلاحیت جو مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ ایک انسان کے پاس محض تاریخی فکر کا تجربہ ہونا کافی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ اس نے اس تجربہ پر خوب غور وخوض کیا ہو۔ اس کے لیے صرف ایک مورخ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ساتھ ساتھ اس کا فلسفی ہونا بھی ناگزیر ہے اور بطور خاص اس کے اندر ایسی فلسفیانہ سوچ موجود ہو جس کی بدولت تاریخی فکر کے مسائل پر اس کوبصیرت حاصل ہو۔ ممکن ہے کہ کوئی اپنی تاریخی سوچ پر غور وخوض کیے بغیر ایک اچھا مورخ بن جائے، گو ایسے شخص کا شمار اچھے مورخین میں نہیں ہوسکتا۔ اس طرح غور وخوض کی صفت کے بغیربآسانی تاریخ کا ایک بہت عمدہ مدرس بننا ممکن ہے؛ اگرچہ ایسے شخص کو فن تاریخ کا اعلی ترین استاذ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ نیز اس بات کو ذہن نشین رکھنا ازحد ضروری ہے کہ تجربہ پہلے ہوتا ہے اور اس تجربہ پر غور وخوض کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ سب سے ادنی درجہ کے مورخ کے اندر بھی اول الذکر صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے پاس وہ تجربہ ہوتا ہے جس پر وہ غور وخوض کرسکے۔ اگر اسے غور وخوض کرنے کے لیے کہا جائےتو ایسی صورت میں اس کے تاملات اور تفکرات کے درست ہونے کا کافی امکان بھی ہوتا ہے۔ ایک ایسا مورخ جس کا فلسفہ سے زیادہ گہرا ربط نہ ہو شاید ہمارے ان چاروں سوالات کے جوابات اس فلسفی سے زیادہ معقول اور بہتر انداز میں دے سکتا ہے جس کا تاریخ سے زیادہ ربط نہ رہا ہو۔
سطورِ ذیل میں میں اپنے چاروں سوالات سے متعلق اس انداز سے جواب دینے کی کوشش کروں گا کہ عصر حاضر کا ایک مورخ اسے بآسانی قبول کرسکے۔ یہاں مختصر اور سرسری طور پر انھیں پیش کیا جارہا ہےلیکن یہ ہمارے موضوع کے عارضی تعارف کے لیے کافی ہوں گے اور جوں جوں ہمارا مناقشہ آگے بڑھے گا ہم اپنی بحث کا دفاع اور اس کی تفصیل بھی پیش کرتے جائیں گے۔
میرا خیال ہے کہ ہر مورخ اس بات پر اتفاق کرے گا کہ تاریخ ایک قسم کی ریسرچ اور تحقیق کا نام ہے۔ یہ کس طرح کی تحقیق ہے ابھی میں یہ سوال اٹھانا نہیں چاہتا۔ اپنی نوع یا زمرے کے اعتبار سے یہ سائنس کے زمرے میں داخل ہے، اور یہ فکر کی ایسی قسم ہے جس کے ذریعہ ہم سوالات پوچھتے ہیں اور پھر ان کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رکھنا نہایت ضروری ہے کہ سائنس عموماً پہلے ہی سے معلوم چیزوں کے جمع کرنے یا کسی خاص پیرائے میں ترتیب دینے کا نام نہیں ہے۔ سائنس ایسی چیز کی جستجو کا نام ہے جسے ہم نہیں جانتے ہیں، اور جس کی دریافت کے لیے ہم متجسس ہیں۔ جن چیزوں کو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں ان میں وقت لگانا ہمارے مقصد کے لیے ایک مفید عمل تو ہوسکتا ہے لیکن یہ بذات خود مقصد نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ایک وسیلے یا ذریعہ کا درجہ حاصل ہے۔ علمی طور پر اس کی صرف اسی قدر اہمیت یا قیمت ہوتی ہے جہاں یہ کسی ایسے سوال کا جواب فراہم کرسکے جس کے استفسار کا ہم پہلے ہی سے فیصلہ کرچکے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی کسی جہالت سے واقف ہوجاتے ہیں، ہرچیز سے بے خبری یا عدم واقفیت کے نتیجے میں نہیں بلکہ کسی متعین چیز سے عدم واقفیت کی وجہ سے مثلا پارلیمنٹ کاآغاز کب سے ہوا، کینسر کا سبب کیا ہے، سورج کی کیمیائی ترکیب کیا ہے، کسی انسان، گھوڑے یا کسی اور گھریلو جانور کی جسمانی محنت کے بغیر پمپ چلانے کا طریقہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ در اصل سائنس دریافت کا نام ہے، اور اس مفہوم کے اعتبار سے تاریخ ایک سائنس ہے۔
ہر سائنس دوسری سائنس سے جداگانہ ہوتی ہے؛ کیوں کہ ہر سائنس کسی مختلف چیز کو دریافت یا اس کی جستجو کرتی ہے۔ آخر تاریخ کس چیز کی جستجو کرتی ہے؟ میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ تاریخ احوال وواقعات کی جستجو کرتی ہے یعنی تاریخ ماضی میں انسانوں کے ذریعہ انجام پانے والے اعمال کی جستجو کرتی ہے۔ اگرچہ اس جواب سے دیگر بہت سے سوالات جنم لیں گے جن میں سے بہت سے سوالات اہل علم کے درمیان اختلافی اور نزاعی بھی ہوسکتے ہیں تاہم ان کے جوابات فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ یہ جوابات اس قضیہ یا اصول کی بھی تردید نہیں کرتے ہیں کہ تاریخ احوال وواقعات سے بحث کرنے والی سائنس کا نام ہے جس کا مقصد ماضی میں انسانوں کے ذریعہ وقوع پذیر ہونے والے افعال ووقوعات سے متعلق جنم لینے والے سوالات کی جوابدہی ہے۔
تاریخ کا طریقۂ کار کیا ہے اور یہ کیسے آگے بڑھتا ہے؟ تاریخ نام ہے شواہد کی تفسیر وترجمانی کا۔ یہاں شواہد چند ایسی مختلف چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے جن کو انفرادی طور پر دستاویزی ثبوت قراردیاجا سکے، اور ثبوتی دستاویز اس چیز کا نام ہے جو بر وقت موجود ہو، اور ایسا ہو کہ مورخ اس پر غورو خوض کرنے کے بعد ماضی کے احوال وواقعات سے متعلق جنم لینے والے سوالات کے جوابات حاصل کرسکے۔ یہاں بھی متعدد ایسے سوالات کیے جاسکتے ہیں جن کے جوابات مشکل ہوسکتے ہیں: مثلاً ان شواہد کی قبولیت کے لیے کس طرح کی خصوصیتیں درکار ہیں، اور ان کی تشریح یا ترجمانی کس طرح کی جائے گی۔
یہ آخری سوال ہے اور نسبتاً یہ دوسرے سوالات سے زیادہ مشکل ہے۔ اوپر مذکور تینوں سوالات کی بنسبت اس سوال کی جوابدہی میں زیادہ دیدہ ریزی اور فکر وتامل کی ضرورت ہوگی۔ اس کا جواب دینے کے لیے تاریخی فکر پر غور وخوض کرنا بھی نہایت ضروری ہے اگرچہ دیگر متعلقہ چیزوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ کہنا کہ فلاں چیز کا مقصد فلاں چیز ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں فرق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ الف با کے لیے کار آمد ہے اور با وہ ہے جس کے لیے الف کارآمد ہے۔ میں یہاں ایسا جواب دینا چاہوں گا اور ایک ایسے خیال کا اظہار کرنا چاہوں گا جسے شاید کوئی مورخ مسترد نہ کرسکے۔ اگرچہ اس جواب سے متعدد مزید ایسے سوالات پیدا ہوں گے جن کا جواب دینا خاصا مشکل ثابت ہوگا۔
میرا جواب یہ ہے کہ تاریخ کا مقصد انسان کی 'خود آگہی ہے۔ عموماً یہ بات انسان کے لیے نہایت اہم گردانی جاتی ہے کہ اسے اپنی ذات سے آگاہ ہونا چاہیے۔ یہاں 'خود آگہی یا اپنے آپ کو جاننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی ان ذاتی خصوصیات سے آگہی حاصل کی جائے جس کی بنا پر اسے دیگر انسانوں سے ممتاز کیا جا سکے بلکہ یہاں خود آگہی سے مراد بحیثیت انسان اپنی فطرت اور مزاج کی شناسائی اور آگہی ہے۔ 'خود آگہی کا سب سے پہلا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ جان سکے کہ ایک انسان ہونے کا مطلب کیا ہے؟خود آگہی کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ انسان یہ جان سکے کہ وہ جس طرح کا بھی انسان ہے اس کی وجہ سے اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ خود آگہی کا تیسرا مقصدبحیثیت انسان اپنے اندر ان خصوصیات کو دریافت کرنا جو دوسرے انسانوں میں موجود نہیں ہیں۔ خود آگہی کا مطلب اس بات سے آگاہ اور واقف ہونا ہے کہ انسان کیا کیا کارنامے انجام دے سکتا ہے؟ چونکہ جب تک ایک انسان تجربات کے مراحل سے نہ گزرے اسے اس بات کا ادراک نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ کیا کیا کر سکتا ہے، اس لیے اسے اپنی وسعتوں اور صلاحیتوں کا اندازہ انسان کے ذریعہ ماضی میں انجام پانے والے کارناموں ہی سے ہوسکتا ہے۔ لہٰذا تاریخ کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ماضی میں انسان نے کیا کچھ کیا ہے، اور اس طرح سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان آخر ہے کیا؟
(مینیجنگ ڈائریکٹر انڈو عرب ملٹی لنگول پرائیویٹ لمیٹڈ۔دیوبند۔
ای میل: anwarkhanqasmi@gmail.com)