Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
( نصر حامد ابو زید(1943ء -2010ء )نے ابن عربی پرمتعدد کتابیں لکھی ہیں،ان میں ایک کتا ب ہکذا تکلم ابن عربی ہےجس میں ابن عربی کے افکار و نظریات کو عمدہ انداز میںبیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نصر حامد ابوزید کو روشن خیال عرب مفکرین میں شمار کیا جاتا ہے۔ پیش نظر مقالہ مذکورہ کتاب کی چھٹی فصل تاویل الشریعۃ : جدلیۃ الظاہر و الباطن کا خلاصہ ہے۔ اس میں ابن عربی کے موقف کو مصنف نے جس انداز میں پیش کیا ہے اسی پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ابن عربی کے موقف کی تائید و تنقید مقصود نہیںہے۔مترجم)
اسلام کے بنیادی مصادر سے نکلے ہوئے احکام و قوانین جن کا مقصد مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کی تنظیم ہے خواہ عبادات کی قبیل سے ہوں یا معاملات یا معاشرت کی قبیل سے،ان سب کو شریعت کہتے ہیں اور کبھی شریعت کااطلاق عقیدہ و اسلامی قوانین کے جامع’’ اسلامی دینی نظام‘‘ پر ہوتاہے؛ لیکن یہاںپر اس معنی میں شریعت کااستعمال نہیں ہوا؛ بلکہ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے ؛اس لیے کہ دینی نظام جو کہ عقیدہ و قوانین کا جامع ہوتا ہے اس معنی میں دیگر ادیان پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے؛ اس لیے کہ تمام آسمانی ادیان کادین ایک ہی ہے ہاں شریعت میں زمان و مکان کے اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے یعنی انبیاء کا دین ایک ہے اور شرائع مختلف ہیں۔اس پر ابن عربی نے قرآن کی چند آیات سے بھی استدلال کیا ہے مثلاً :
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًاوَّالَّذِیْ ٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَعِیْسٰیٓ اَنْ اَقِیْمُواالدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہ2
ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے تیری طرف بھیجا ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِئیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْف عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔3
ترجمہ: ’’ مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی اداسی۔‘‘
قرآن میں غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کہیں دین کے لیے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کو معیار قرار دیتا ہے اور کہیں اس کے لیے عمل صالح کو معیار قرار دیتا ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے دینی و دنیوی خلاصی اور چھٹکارے کے لیے خوف اور حزن و غم کا ختم ہونا معیار ہوگا۔دوسری تعبیر میں امن اور سرور و خوشی کا حاصل ہونایہ خلاصی کے مفہوم میں داخل ہے اور یہ معیار تمام ادیان جیسے یہودیت نصرانیت ؛بلکہ صابیت میں بھی پایاجاتا ہے۔ دین اسلام اپنے معنی لغوی کے اعتبار سے اللہ تعالی کی طرف اپنے افعال و سلوک میںکامل احسان کے ساتھ متوجہ ہونے کا نام ہے۔ ابن عربی کہتے ہیں کہ دینی خلاصی(اخروی چھٹکارا) کا دائرہ اس مفہوم کے اعتبار سے اس درجہ وسیع ہے کہ بلا امتیاز و تفریق یہ تمام اصحاب ادیان کو شامل ہے ؛اسی وجہ سے تمام انبیاء کو بلا استثنا قرآن نے’’ مسلمین‘‘ کی صفت سے متصف کیا ہے۔ہاں وحدت دین کے ساتھ ساتھ شرائع مختلف ہیں، اللہ تعالی نے ہر دینی جماعت کو ایک الگ شریعت اور راستہ دیا ہے۔ قرآن میں ہے :
لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا وَلَوْشَآء اللہ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآاٰتٰئکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ۔4
ترجمہ: ’’ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کردی ہے۔ اگر خدا کو منظور ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ لیکن اس کی منشا ہے کہ جو تمھیں دیا ہے اس میں تم کو آزمائے۔ تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو۔‘‘
ابن عربی کا خیال ہے کہ وسائل اور ریاضت کے اسلوب و اسباب میں اختلاف کے باوجود دینی تجربہ ایک ہی ہے، اسی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ عیسائی راہب عارفین کی قسم ہے؛ اگر چہ ان کی شریعت منسوخ ہوچکی ہے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ان راہبوں کو قتل کرنے سے منع کیا جو مخلوق سے علیحدہ ہوگئے تھے اور آپ نے فرمایا ان کو اپنے کام میں لگے رہنے دو پس آپ نے مجمل حکم دیا۔ آپ ﷺ نے ہمیں دعوت کی ذمہ داری دی اور فرمایا کہ جو غائب ہیں حاضر لوگ ان تک ہماری بات پہنچا دیںاس کے باوجود ہمیں ان راہبوں کو دعوت دینے کا حکم نہیں دیا؛ اس لیے کہ آپ ﷺ کو معلوم تھا کہ وہ اپنے رب کی طرف سے دلیل پر قائم ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ ان کو منسوخ شریعت پر باقی نہ رکھتے۔5
بعض روحانی مجاہدات شریعت کے خلاف بھی ہوسکتے ہیں اور ایمان و عمل کی بنیاد پر قائم ہونے والے مجاہدات اور روحانی تجربات سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں جو اور جب وہ شخص جو آسمانی شریعت پر ایمان نہیں رکھتا ہے وہ ریاضت و مجاہدے اور طبعی حکم سے نفس کو پاک کرنے میں ہمارے ساتھ شریک ہوتا ہے تو پاک نفوس کے روحانی اثرات اس پر بھی ظاہر ہوتے ہیں جس طرح مومن کامل پر شریعت کے مطابق ریاضت و مجاہدہ کرنے کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں اور عام لوگوں کے نزدیک ہمارے اور ان کے درمیان اس قدر اشتراک اور تشبیہ بھی ہوتی ہے اور جب وہ لوگ آسمانی دین پر ایمان نہیں رکھتے ہیں؛ لیکن ان علوم کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں جو ریاضت اور روحانی امداد سے حاصل ہوتی ہے تو ان نفوس فاضلہ میں بھی وہ تمام چیزیں نقش ہوجاتی ہیں جو دنیا میں ہیںاس طرح وہ بھی کشف و کرامات کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔
لیکن اس روحانی اشتراک کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ شرعی مجاہدات اور عقلی ریاضت میں کوئی فرق نہیں ہے؛ بلکہ دونوں میں واضح فرق ہوتاہے ؛اسی فرق کی وجہ سے ابن عربی کہتے ہیں کہ صوفیہ پر رہبانیت یا فلاسفہ اشراق کی پیروی کا الزام غلط ہے؛ کیوں کہ صوفیہ،قرآن سے ماخوذ روحانی تجربات اور دیگر لوگوں کے روحانی تجربات کے درمیان میں فرق کرتے ہیں۔
’’ہمیں معلوم ہے کہ اگر چہ ہمارے اور عقلاء کے درمیان اشتراک ہے؛ لیکن ہماری ریاضت و مجاہدے کی اصل کتاب و سنت ہے اور اس بنیاد پر ہم قیامت میں ان لوگوں سے ممتاز ہوں گے اس لیے کہ ہم اس خدائی راستے پر چلتے ہیں جسے شریعت کہا جاتا ہے۔ ‘‘6
ابن عربی شریعت کے باطن کو،وجود کے باطن کا عکس مانتے ہیں، ا س لیے کہ جس طرح وجود کا ظاہر و باطن ہوتاہے اور جس طرح انسان کا ظاہر و باطن ہے؛ اسی طرح شریعت کا بھی ظاہر و باطن ہے اور شریعت اپنے تاریخی ڈھانچے میں ظاہر کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے لیکن باطن میں ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا خطاب دونوں پہلو کو شامل ہوتا ہے۔ شیخ ابن عربی کے مطابق یہ بات معقول نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خطاب میں صرف ظاہر کا قصدکرے،باطن کا قصد نہ کرے۔اس کے بعد ابن عربی اہل ظاہر اور اہل باطن کے فرق کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب عام لوگ احکام شرعیہ کے ظاہر کی معرفت اور اس کی تعمیل و تطبیق میں مصروف ہوئے تو ’’اہل اللہ‘‘ یعنی عارفین صوفیہ جو بہت تھوڑے لوگ ہیں انہوں نے محسوس کیا کہ احکام شرعیہ کو اس کے باطن سے بھی ایک نسبت ہے جس طرح اس کو ظاہر سے مناسبت ہے ؛چنانچہ انہوں نے احکام شرعیہ کے باطنی پہلو پر غور و خوض کرنا شروع کیا تاکہ ظاہر و باطن کو جمع کیا جاسکے اور دونوں پہلو پر عمل کیا جاسکے۔
ابن عربی’’ اہل ظاہر‘‘یعنی فقہاء اور باطنیہ کے درمیان فرق کرتے ہیں : کہ اہل ظاہر سے مراد وہ لوگ ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ احکام شرعیہ کومحض ادا کرنا مقصود ہے، اس کے پس پشت جو روحانی فوائداور مقاصد ہیں وہ مقصود نہیں ہیں۔ اور ’’باطنیہ‘‘ دوسرے پہلو سے سوچتے ہیں۔یہ لوگ شریعت کے ظاہری احکام سے قطع نظر اس کے باطنی روحانی فوائد و مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ان دونوں نظریات کے بالمقابل ’’اہل اللہ‘‘ کا نظریہ ہے جو احکام ظاہری کا انکار نہیں کرتے ہیں؛ لیکن اسی پر اکتفاء بھی نہیں کرتے؛ بلکہ اس میں پوشیدہ مقاصد کو بھی حاصل کرتے ہیں۔یہ لوگ احکام شریعت تک اس کے مصدر اصلی کے ذریعہ براہ راست بلا کسی واسطہ کے پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اہل اللہ اور فقہاء و محدثین کے طریقے میں یہی حد فاصل ہے۔فقہاء کو ابن عربی اپنی اصطلاحی تعبیر میں’’ علماء الرسوم ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔
اہل اللہ صرف اسی اعتبار سے ممتاز نہیں ہیں کہ وہ ظاہر وباطن کے جامع ہوتے ہیں ؛بلکہ ان کے امتیاز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ حضرات احکام کی تصحیح اور اس کے نقل و ادا کے طریقوں کی تصویب کرتے ہیں اور یہ چیزیں انہیں ظاہر و باطن کے اجتماع کی بنا پر حاصل ہوتی ہیں ؛کیوں کہ باطن ظاہر کی تصحیح کرتا ہے اور ’’ظاہر صحیح‘‘ باطن پر عمل کو آسان بناتا ہے۔ اس کے باوجود ایک اہم بات یہ ہے کہ اہل اللہ احکام کی تصحیح کے سلسلے میںاہل ظاہر کو خطا پر محمول نہیں کرتے ہیں۔
اہل اللہ اور اہل الظاہر کے درمیان ظاہر ہے کہ مقاصد اور طریق عمل میں کافی اختلاف ہے، اس اختلاف کی وجہ سے اہل اللہ اور فقہاء و محدثین (علماء الرسوم ) کے درمیان اختلاف کبھی جنگ اور نزاع تک پہنچ جاتا ہے۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ’’ علماء الرسوم‘‘ بہت جلداہل اللہ پر منفی رائے زنی کردیتے ہیں ؛چنانچہ ان پر کفر اور دین و عقیدہ سے نکلنے کا بھی حکم لگادیتے ہیں۔ابن عربی اس اختلاف و نزاع سے بہت زیادہ شاکی اور اس پر غمزدہ نظر آتے ہیں اور وہ اپنے عمیق خطاب میں دونوں گروہوں کے درمیان علمی فرق کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؛چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ’’اہل اللہ ‘‘ پر معرفت کی حیرت اور یقین کے دعوی سے عاجزی کا غلبہ رہتا ہے وہ جس حقیقت تک پہنچتے ہیں اس کے یقینی ہونے کا دعوی نہیں کرسکتے ہیں ؛اس لیے کہ حقیقت کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں جیسے کہ پانی جس برتن میں ہوتا ہے اسی کا رنگ اختیار کرلیتا ہے حالاں کہ حقیقت میں پانی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا ہے۔
دوسری جانب فقہاء حقیقت کو پانے والااور اپنے آپ کو حقیقت کا محافظ تصور کرتے ہیں جب کہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کرپاتے ہیں جس کا اہل اللہ ادراک کرتے ہیں یعنی یہ کہ ہر چیزمیںتجلیات الٰہی سرایت کرتی ہے اور ہر آن اس میں تغیرو تبدیلی ہوتی ہے۔ اس سے اہل اللہ واقف ہوتے ہیں۔ فقہاء اس کا ادراک نہیں کرپاتے ہیں؛ بلکہ وہ ظاہر کے اپنے فیصلے پر باقی رہتے ہیں جس کا نتیجہ بسا اوقات تعصب اور مادی و معنوی تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ تاریخ میںشیخ حلاج اور شیخ سہروردی کے محاکمات موجود ہیں۔
ابن عربی اہل فکر اور اہل اللہ کے درمیان فرق کرتے ہیں اور دوسری جہت سے ان کے درمیان اوران کے دشمن یعنی علماء رسوم کے درمیان بھی امتیاز کرتے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ اہل فکر کا دائرہ کائنات ہے۔ وہ اس سے آگے نہیں بڑھتے ہیں جب کہ اہل اللہ کا دائرہ کائنات سے اوپر ہے۔ وہ اللہ کی ذات ہی میں غور و فکر کرتے ہیں اور چوں کہ اللہ تعالی کی تجلیات مختلف ہیں ؛اس لیے ان کی حیرت اہل افکار کی حیرت سے زیادہ بڑھتی رہتی ہے یہی اہل اللہ اور اہل فکر کے درمیان فرق ہے ؛چنانچہ اہل فکر کہتے ہیں :
فی کل شئی لہ آیۃ | تدل علی انہ واحد |
ہر چیز میں اس بات کی دلیل ہے | کہ اللہ کی ذات تنہا ہے |
جب کہ اہل اللہ کہتے ہیں :
فی کل شئی لہ آیۃ | تدل علی انہ عینہ |
ہر چیز میں اس بات کی دلیل ہے | کہ وہی اللہ ہے |
ابن عربی کہتے ہیں: ایک تیسرا فرقہ ہے جو خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کررہاہے یہ وہ لوگ ہیں جو احکام شرعیہ کے ظاہر کوترک کرکے اس کو باطن کی طرف پھیر دیتے ہیں یہ فرقہ ’’باطنیہ ‘‘کہلاتا ہے۔ غزالی نے اپنی کتاب ’’المستظہري‘‘ میں ان پر زبردست رد کیا ہے اور ان کی غلطیوں کو واشگاف کیا ہے اور انہوں نے اس جماعت کو سعادت منداور فائز المرام جماعت قرار دیا ہے جو ظاہر و باطن دونوں پر عمل کرتے ہیں۔
ابن عربی شریعت اور کائنات کے درمیان ربط پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ چنانچہ وہ شریعت کے مفہوم کواس میزان سے تشبیہ دیتے ہیںجو کائنات کے نظام کی بنیاد ہے اور اس میزان کے بغیر اس کا اندیشہ ہے کہ نظام کائنا ت میں خلل واقع ہوجائے۔کائنات میں جتنی ممکنات ہیں وہ سب اللہ تعالی کی مختلف تجلیات کا مظہر ہیں اورممکنات کیسے اللہ تعالی کی تجلیات کا مظہر ہیں اس کووہ ایک مثال سے سمجھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں مختلف قسم کے عناصر پائے جاتے ہیںاور اختلاف عناصر سے کائنات کا نظام بگڑ سکتا ہے ؛چنانچہ موجودات کو یہ ڈر ہوا کہ کہیں ہمارا وجود خطرے میں نہ پڑ جائے اس لیے یہ’’ اسمائے الہیہ‘‘ کی طرف متوجہ ہوئیں اوریہ ممکنہ چیزیں اسمائے الہیہ سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں :’’ اگر آپ کسی متعین میزان پر فیصلہ کریں جو کسی ایسے مرجع خلائق امام سے وابستہ ہوں جو ہمارے وجود کی حفاظت کرے اور ہم آپ کی تاثیر کو محفوظ رکھیں تو یہ ہم سب کے لیے ٹھیک ہوگا‘‘۔موجودات کی اس درخواست پر اعیان (اعیان اسماء الہیہ) اسم’’ اللہ‘‘ کی پناہ میں آئے جس نے ان اعیان کو ’’اسم مدبر‘‘ بنایا پھر اس نے خدا کے حکم سے اسم’’ رب‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان ممکنات کو باقی رکھنے کے لیے جو بھی کام مصلحت کے مطابق ہو اسے کر جاؤ ؛اس طرح اسم رب نے ا سم ’’مدبر ‘‘کو پہلا ’’وزیر‘‘ بنایا اور اسم’’ مفصل ‘‘کو دوسرا’’ وزیر‘‘ بنایا۔ اسم’’ رب‘‘ نے لوگوں کے لیے کچھ قوانین بنائے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ایک ’’سیاست حکمیہ‘‘ ہے جو خالص اللہ کے الہام سے وجود میں آتی ہے ؛لیکن قانون سازوں کو اس کا پتہ نہیں ہوتا اور دوسری قسم سیاست شرعیہ ہے۔
ابن عربی کا فلسفہ،اللہ وجود، انسان اور معرفت ان چار چیزوں کو شامل ہے۔ شریعت کے مفہوم کے تین گوشے ہیں:(1) وجودی (2) معرفی (3) انسانی۔ان تینوں میں ابن عربی کی فکر کے اعتبار سے مزید دو گوشے شامل ہوتے ہیں۔
ابن عربی کے نزیک تاویل شریعت کا موضوع بھی ان عام فلسفیانہ خیالات یعنی وجود،انسان اور معرفی تصورات سے مربوط ہے۔
اصول اربعہ کی بحث کرتے ہوئے ابن عربی قرآن کریم کو صرف اللہ کی کتاب نہیں سمجھتے ہیںجو نبی کریم ﷺ پرعربی زبان میں نازل ہوئی ہے؛ بلکہ ساتھ میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو دیا ہوا ایک راز ہے۔ ان کا خیال ہے کہ منصوص احکام کے ساتھ کچھ روحانی احکامات بھی ہیں جن کی بنیاد استفت قلبک(اپنے دل سے پوچھو)11 اور دع مایربیک الی ما لا یریبک (ایسی چیزوں کو جو شک پیدا کرنے والی ہوں، چھوڑ کر اُن چیزوں کو اختیار کرو جو شک پیدا کرنے والی نہ ہوں) 12جیسی نصوص ہے۔ ابن عربی اصول شریعت کے لیے مومن کے دل کو وہ کتاب تسلیم کرتے ہیں جسے کتاب اللہ کی تشریح پر قدرت حاصل ہے۔ اسی لیے وہ مومن کے دل کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں۔
شریعت کی دوسری اصل سنت ہے۔اصولیین کے نزدیک سنت رسول کریم ﷺ کے اقوال و افعال اور تقریرات کا مجموعہ ہے لیکن ابن عربی سنت کا تجزیہ اس کے لغوی معنی کے اعتبار سے کرتے ہیں، لغوی معنی سنت کے، طریق اور صراط کے آتے ہیں،ان کا خیال ہے کہ دو راستے ہیں: ایک راستہ رب کا ہے اور ایک راستہ بندوں کا ہے۔ رب کا راستہ یہ ہے کہ وہ مخلوق کے اوصاف میں نزول فرماتا ہے اور بندے کا راستہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اوصاف سے متصف ہونا چاہتا ہے تو سنت درحقیقت اللہ تعالی تک پہنچنے کے لیے بندے کا راستہ ہے اور کتاب اللہ درحقیقت بندے تک پہنچنے کے لیے حق کا راستہ ہے اور چوں کہ حضور ﷺ حقیقت کے راز داں ہیں۔اس لیے ان کی سنت ہی درحقیقت اللہ کا راستہ ہے اور یہ دونوں راستوں کا الگ ہونا ظاہری ہے ورنہ حقیقت میں ایک ہی راستہ ہے جسے ’’صراط مستقیم‘‘ کہا جاتا ہے۔
فقہاء کے یہاں علماء کے اتفاق کانام اجماع ہے۔ ابن عربی اجماع کی دو قسمیں کرتے ہیں، اجماع عرفی ( علماء اصولیین کا اجماع ) اجماع صوفی، اجماع صوفی بندے اور رب کے درمیان اجتماع کا راستہ ہے۔ ابن عربی احکام شرعیہ متفق علیہ کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں۔ کتاب و سنت اور اجماع اور قیاس کو مختلف فیہ اصل مانتے ہیں۔ اجماع کے سلسلے میں ان کی رائے ہے کہ خبر اگر صحابہ کا اجماع ہے تو یہ اجماع ہے اور بعض صحابی کے نقل کرنے سے ہے تو وہ خبر واحد ہے گویا کہ وہ اجماع کو صحابہ میں منحصر مانتے ہیں۔بعد کے فقہاء کے اجماع کو معتبر نہیں مانتے ہیں اور کس طرح بعد کے فقہاء کے اجماع کو معتبر تسلیم کرسکتے ہیں جب کہ وہ علماء کو علماء رسوم کہتے ہیں اور ان کے تکفیری منہج پر زور دار تنقید کرتے ہیں۔13 اجماع کا راز ابن عربی کے یہاں وہ مفہوم ہے جس پر رب اور بندے متفق ہیں جیسے اللہ تعالیٰ خالق ہے اور بندہ مخلوق ہے۔
جن مسائل پر نص قرآنی وارد نہ ہو اور نہ سنت میں اس سلسلے میں کوئی ہدایت ہو اور نہ ہی اجماع ہو ایسے مسائل میں قیاس کی حجیت کے سلسلے میں منکرین اور مجوزین کے دو مواقف مشہور ہیں۔ظاہریہ قیاس کا انکار کرتے ہیں۔ ابن عربی بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے قیاس کا انکارکرتے ہیں۔ البتہ فقہاء ظاہریہ اور ابن عربی کے درمیان فرق یہ ہے کہ فقہاء ظاہریہ قیاس کو حرام کہتے ہیں جب کہ ابن عربی خود قیاس پر عمل نہیں کرتے ہیں لیکن قیاس کرنے والوں کو غلط بھی نہیں ٹھہراتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بعض دفعہ قیاس پر عمل کا پہلو غالب ہوتا ہے اور بعض دفعہ ظاہر نہیں ہوتا ہے لہٰذا اسے دلیل قطعی کا درجہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔البتہ ابن عربی یہ تسلیم کرتے ہیں فقہاء مجتہدین کے لیے قیاس کا دروازہ کھلا ہے اور ہر مجتہد کو ثواب ملے گا خواہ وہ غلطی کرے یا درستگی کو پہنچے ؛بلکہ یہاں پر ابن عربی منکرین قیاس پر سخت تنقید کرتے ہیں۔
ابن عربی قیاس کو خبر واحد کے درجہ میں رکھتے ہیں ؛بلکہ قیاس جلی کو خبر واحد سے قوی تر مانتے ہیں اور خود بھی عقلی طورپر قیاس کو ثابت کرتے ہیں اگر چہ قیاس پر خود عمل پیرا نہیں ہیں۔ابن عربی قیاس جلی اور خفی میں فرق کرتے ہیں اور جہاں کہیں وہ قیاس کا دفاع کرتے ہیں وہ قیاس جلی کا دفاع کرتے ہیں۔اسی طرح ابن عربی استحسان اور مصالح مرسلہ کا بھی دفاع کرتے ہیں،اور استحسان بھی ابن عربی کی نگاہ میں قیاس اور اجتہاد کی ایک شکل ہے جس کی اصل من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا و اجر من عمل بہا۔’’جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کے لیے اور جو اس پر عمل کرے، اس کے لیے بھی اجر ہے۔‘‘14 سے نکلتی ہے۔قیاس کا راز ابن عربی کی نگاہ میں رب کا ظہور بندے کی صفت کے ساتھ اور بندے کا ظہور رب کی صفت اور رب کے امر کے ساتھ ہے۔ یہ قیاس کا راز ہے، حاضر کو غائب پرقیاس کرنا ایک ایسے عقلی حکم کے ساتھ جو حاضر و غائب کے درمیان مشترک ہو وہ قیاس ہے۔متکلمین کے نزدیک تو قیاس الغائب علی الشاہد ہے؛ لیکن ابن عربی کے نزدیک اس کے برعکس قیاس الشاہد علی الغائب ہے۔
اسلام کی مثال شیخ کی نظر میں ایک گھر کی ہے جس کا دروازہ ایمان ہے۔ اس دروازہ کے دو کواڑ ہیں ایک لا الہ الا اللہ ہے اوردوسرا محمد رسول اللہ، اس گھر کے چار ستون ہیں : نماز، روزہ،حج اورزکوۃ۔ایک دوسری مثال میں ابن عربی اسلام اور اس کے نظام عبادت کی مثال فوج کی نظام تربیت سے دیتے ہیں، جس میں شہادتین دو پہرے دار ہیں۔ نماز میمنہ ہے، زکوٰۃ میسرہ ہے اور روزہ مقدمہ اور حج ساقہ ہے۔ان کے نزدیک جگہ کی تبدیلی بھی ممکن ہے مثلا نماز کو مقدمہ، زکوۃ کومیمنہ، حج کو میسرہ اور روزہ کو ساقہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اہل اللہ کے اعتبار سے بھی تقسیم ممکن ہے۔ اہل اللہ، اہل الصلاۃ،اہل الزکوۃ، اہل الحج، اہل الساقہ۔
ابن عربی کے یہاں توحید کے علم اور ایمان میں فرق ہے،اسی طرح کلمۃ توحید کے تلفظ اور عدم تلفظ میں فرق ہے، توحید کا علم رسالت پر موقوف نہیں ہے ؛بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے، چنانچہ حی بن یقظان کے بارے میں تین مسلم فلاسفہ جن میں ابن طفیل شامل ہیں، نے لکھا ہے کہ حی بن یقظان کو اپنے روحانی تجربات کے درمیان توحید کا علم حاصل ہوا تھا۔اس سے علم اور ایمان کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ ابن عربی اس کو قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پروہ قرآن کی اس آیت: شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَا ٓ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَلا وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ لَا ٓ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ15 ’’اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘، میںتاویل کرتے ہیں۔اسی طرح حدیث میں ہے من مات وہو یعلم انہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ۔ 16(جو شخص اس حال میں مرےکہ وہ یہ جانتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔) آپ ﷺ نے یعلم کہا یومن نہیں کہا کیوں کہ ایمان تو خبر پر موقوف ہے۔17اسی طرح ابن عربی توحید کے تلفظ کے اعتبار سے بھی فرق کرتے ہیں کہ توحید کا تلفظ دنیا میں انسان کے مؤمن سمجھے جانے کی بنیاد ہے۔اس کاا عتبار صرف دنیا میں ہے یعنی یہ دنیوی عذاب سے بچاتاہے۔ آخرت میں اس کا اعتبار نہیں ہے ؛بلکہ آخرت میں توحید کا علم بھی کافی ہوگا، اگر چہ تلفظ نہ ہو؛ چنانچہ ابن عربی کہتے ہیں کہ رسول کی آمد اللہ کو پہچاننے والوں اور نہ پہچاننے والوں کے درمیان ہوتی ہے اور رسول تمام لوگوں سے کہتے ہیں کہ لا اللہ الا اللہ کہو، تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ جن مشرکین کو توحید کا علم نہیں ہے ان کو توحید کی تعلیم دے رہے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہواکہ جن کو توحید کا علم تھا ان کو بھی آپ توحید کی تعلیم دے رہے ہیں اس لیے کہ توحید کا تلفظ واجب ہے اور یہی دنیوی اعتبارسے خون معاف کرنے والا ہے۔ اسی وجہ سے حضور ﷺ نے فرمایا :امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فاذا قالوھا عصموا منی دمائہم و اموالہم۔18 ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہا ں تک کہ لوگ لا الہ الا اللہ کے قائل ہوجائیں۔ جب وہ اس کا اقرار کرلیتے ہیں تو ان کی جان ومال محفوظ ہوجاتے ہیں‘‘۔آپﷺ نے حتی یعلموا نہیں کہا کیوں کہ ان میں پہلے سے ہی توحید کے جاننے والے تھے۔پس یہاں پر حکم قول کے لیے ہے،علم کے لیے نہیں اور قیامت میں علم کا اعتبار ہوگا قول کا نہیں۔19
طہارت کی شریعت میں بڑی اہمیت ہے،یہ ہر عبادت کا مدخل ہے۔شرعی اعتبار سے عبادت کے لیے نجاست سے پاکی ضروری ہے۔شرک بھی ایک قسم کی نجاست ہے جیسا کہ قرآن میں ہے انما المشرکون نجس’’مشرکین ناپاک ہیں‘‘20اور توحید یعنی لا الہ الا اللہ یہ اعتقادی طہارت ہے۔ ابن عربی کے نزدیک حسی طہارت یعنی وضو اور غسل کے ساتھ معنوی طہارت یعنی نفس کو برے اخلاق سے، عقل کو برے خیالات سے بچانے پر بھی بہت زور ہے۔ابن عربی کا کہنا ہے کہ صرف انسان نہیں؛ بلکہ انسان کا ہر عضو مکلف ہے، اور ہر عضو کے لیے خاص عبادت ہےاور آٹھ اعضاء ہیں جو مکلف ہیں : آنکھ، کان، زبان، ہاتھ،پیٹ، شرم گاہ،پیر اور دل۔ یہ سارے اعضاء کے اپنے اپنے کام ہیں ابن عربی نے اپنی کتاب مواقع النجوم میں اس کی وضاحت کی ہے۔یہ ایسی کتاب ہے جو ہر استاذ سے بے نیاز کرنے والی ہے ؛بلکہ اساتذہ کوبھی اس کی ضرورت ہے۔
طہارت نماز کا مدخل ہے اور نماز عبادت کا مغز ہے،نماز اصل میں خالق اور مخلوق کے آپسی رشتے اور رب سے ملاقات کی ایک جھلک ہے،جس کی ابتداء طہارت سے ہوتی ہے جو اس ملاقات کی تیاری کے لیے ہے پھر تکبیر’’ اللہ اکبر ‘‘ کے ذریعہ حرم الہی میں داخلہ ہوتاہے۔ پھر سورہ فاتحہ کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے خفیہ طورپر دعا کرتاہے۔ اس پر ابن عربی نے وہ حدیث قدسی پیش کی ہے جس میں ہے کہ جب بندہ نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہذہ بینی و بین و عبدی ’’یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے‘‘ اور جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم تک پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہذہ لعبدی و لعبدی ماسأل۔’’یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جس کا وہ سوال کرے۔‘‘21 ابن عربی کے یہاں نماز کی آٹھ قسمیں ہیں :(1) فرائض خمسہ، یہ قائم بالذات ہیںبقیہ تکملہ ہیں (2) وتر (3) نماز جمعہ (4) عیدین (5) کسوف (6) استسقاء (7) استخارہ (8) نماز جنازہ۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات ان صفات کے ساتھ جن کی تعبیر ذات سے کی جاتی ہیں وہ آٹھ ہیں:(1) ذات (2) حیات(3) علم (4) ارادۃ(5) کلام (6) قدرت (7) سمع (8) بصر۔ اسی طرح اعضاء مکلفہ جو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے مکلف ہیں وہ بھی آٹھ ہیں : کان، آنکھ، زبان، ہاتھ پیٹ، شرم گاہ، پاؤں اور دل۔اس کے ذریعہ ابن عربی خدااور بندے کے درمیان اور ان کی عبادت کے درمیان ایک ربط پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ 22
نماز کی صحت کی شرطوں میں سے ایک شرط ستر عورت ہے۔ابن عربی کہتے ہیں کہ خدائی راز کو چھپانا اصل ستر عورت ہے،کیوں کہ راز الٰہی کھل جائے تو بارگاہ الٰہی کی بے احترامی ہوتی ہے۔راز الٰہی کی حقیقت یہ ہے کہ بہ حالت نماز بندہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے یہی مناجات راز الٰہی ہے اور جسم کو خشوع و خضوع کے ساتھ قائم رکھنایہ راز الٰہی کو چھپانا ہے۔اگر اس کا قلب کسی اور طرف متوجہ ہوا تو یہ سر الٰہی کے ستر کے خلاف ہے۔ستر عورت کی دو قسمیں ہیں : ستر عام یہ راز الٰہی کا ستر ہے اور ستر خاص یہ نماز کا ستر ہے جو کہ رب اور بندے کے درمیان مناجات کا ستر ہے اور مناجات میں دونوں طرف سے ملاقات ہوتی ہے اگر چہ خیال کے پردے سے ہو جیساکہ حدیث میں ہے اعبد اللہ کانک تراہ فإن لم تکن تراہ فانہ یراک۔’’اللہ کی عبادت کرو اس طرح کہ جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو، یا تم یہ احساس کرو کہ اگر تم خدا کو نہیں دیکھ رہے ہو تو خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘23
بعض فقہاء ستر عورت میں عورت کے دونوں ہاتھ، چہرے اور دونوں پیر کو شامل نہیں کرتے ہیں، ابن عربی اس کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ چہرے کو نہیں چھپایا جائے گا اس لیے کہ یہ محل علم ہے، ہاتھوں کو اس لیے نہیں چھپایا جائے گا اس لیے کہ وہ محل جود و عطاء ہے،اور دونوں پیر کو نہیں چھپایا جائے گا اس لیے کہ وہ بدن کو سنبھالنے والے اور ان کو حرکت دینے والے ہیں۔24
عورتوں کی امامت کے تعلق سے تین نظریات ہیں: (1) عورتیں مطلقاً امام نہیں بن سکتی ہیں (2) عورتیں،عورتوں کی امامت کرسکتی ہیں (3) عورتیں،مردو عورت دونوں کی امامت کرسکتی ہیں۔ابن عربی کا بھی یہی خیال ہے، کہ عورتیں مطلقاً امام بن سکتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نقص او رکمال دونوں جنسوں میں ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے بعض مردوں کے لیے کمال کی گواہی دی ہے اسی طرح بعض عورتوں کے لیے بھی کمال کی گواہی دی ہے،یہاں تک کہ نبوت کی بھی گواہی ملتی ہے،اور یہی نبوت امامت ہے۔ابن عربی کہتے ہیں کہ اصل عورت کی امامت کا جواز ہے اور جو شخص بلا دلیل عورت کی امامت سے منع کرتا ہے اس کی بات قابل قبول نہیں ہے۔
اس طرح اسلامی ثقافت میں مرد وعورت کے درمیان مساوات کا مسئلہ جو انتہائی مشکل ترین مسئلہ ہے،ابن عربی اسلامی تاریخ اور اپنے زمانے کے احوال سے قطع نظر ایسا نظریہ اختیار کرتے ہیں جو تمام عرفی اور فقہی بنیادوں کو زیر و زبر کردیتا ہے۔25
قرآن نے مومن کو صدقہ کرنے اور فقیروں کے ساتھ احسان کرنے پر ابھارا ہے،مالداروں کے لیے اپنے مال میں سے ایک حصے کو فقیروں پر خرچ کرنا نماز کی طرح فرض ہے۔اور جس طرح نماز کے ذریعہ جسم اور روح کی پاکیزگی ہوتی ہے، اسی طرح زکوۃ کے ذریعہ نفس کی انانیت، بخل وغیرہ سے پاکیزگی ہوتی ہے،ا س کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مال کو بھی پاک کرتے ہیں۔ ابن عربی کا خیال ہے کہ مال اللہ کا ہے انسان صرف نائب ہے لہٰذا مال کو اپنی ذات تک مخصوص رکھنا اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی ہے لہٰذا اس کو خرچ کرناضروری ہے۔ ابن عربی کا نظریہ ہے کہ مال اور نفس کے درمیان خاص مناسبت ہے جس طرح اللہ تعالی نے زکوۃ کے ذریعہ مال کوپاک کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح نفس کی زکوۃ کا بھی حکم دیا ہے ؛چنانچہ ابن عربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے مال کی زکوۃ کو فرض کیا ہے اور بندے سے یہ کہا کہ جس قدر مال میں نے تمہارے اوپر فرض کیا ہے اس کے تم مالک نہیں ہو؛ بلکہ تم اس کے امین ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے نفس کو حکم میں مال کے درجہ میں رکھا ہے؛ چنانچہ جس طرح مال کی زکوۃ کا حکم دیا ہے اسی طرح نفس کے زکوۃ کو ضروری قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: قد افلح من زکہا۔ ’’وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاک کرلیا‘‘۔26 جس طرح وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کی ہے اسی طرح وہ شخص بھی کام ہوگیا جس نے اپنے نفس کی زکوۃ ادا کی۔ اسی طرح اللہ تعالی نے نفس کو بیع وشراء میںبھی مال کے ساتھ شامل کیا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم و اموالہم27 ’’اللہ تعالی نے مومنین کے نفس اور مالوں کو خرید لیا ہے ‘‘۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے نفس اور مال دونوں کے خریدو فروخت کو بیان کیاہے، اس آیت سے ایک فقہی مسئلہ یہ نکلتاہے کہ جس طرح مال کی زکوۃ ہے، اسی طرح نفس کی بھی زکوۃ ہے۔ مال کی زکوۃتوہمیں معلوم ہے البتہ نفس کی زکوۃ کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح زید کا وہ مال جو زکوۃ کے لیے متعین ہوچکا ہے وہ زید کا مال نہیں ہے؛ بلکہ وہ اس کے پاس امانت ہے،اسی طرح وہ وجود جس سے نفس متصف ہے وہ اس کا نہیں ہے ؛بلکہ وہ اللہ تعالی کا ہے،پس بندے سے مطالبہ یہ ہے جس وجود کے ساتھ آپ متصف ہیں یہ آپ کا نہیں ؛بلکہ اللہ کاہے جو اللہ نے آپ کو نواز رکھا ہے پس اس وجود کوآپ اللہ کے حوالے کردیجیے اور آپ اپنی جگہ پر باقی رہیے، اس سے مت ہٹیے؛ اس لیے کہ آپ کے اندر جو کچھ بھی ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی؛ لیکن جب آپ ایسا کرلیں گے تو آپ کے لیے وہ ثواب ہے جو عارفین باللہ کا ثواب ہے اور آپ اس کے ذریعہ اس مقام کو پالیں گے جس کی قدر اللہ کے علاوہ کسی کونہیں ہے اور یہی وہ فلاح اور بقاء ہے جس سے آپ کا وجود باقی رہے گاجو کبھی ختم نہیںہوگا اور قرآن کریم کی آیت قد افلح من زکہا کا یہی مطلب ہے۔28
نماز اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا نام ہے، اور زکوۃ اللہ کا حق ہے اور روزہ اللہ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کا نام ہے۔روزہ اس ضیاء کے مشابہ ہے جس سے نور پھوٹتاہے پس جب نماز نور ہے تو روزہ اس کی اصل ہے۔ابن عربی نے روزہ کو مثل نہ ہونے میں اللہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس طرح اللہ کی ذات لیس کمثلہ شئی ہے اسی طرح روزہ کے بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے:علیک بالصوم فانہ لا مثل لہ۔ ’’روزہ کی پابندی کرو اس لیے کہ اس کی کوئی مثال اور نظیر نہیں ہے‘‘۔29 معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ کی ذت میں مثلیت کی نفی ہے اسی طرح روزہ میں بھی مثلیت کی نفی ہے۔روزہ کے مثل نہ ہونے پر بھی ابن عربی نے گفتگو کی ہے؛چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ روزہ وصف سلبی ہے، یعنی مفطرات کو ترک کرنے کا نام ہے جس کا کوئی مثل نہیںہے۔ اسی وجہ سے حدیث میں ہے کہ’’ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزہ کے کیوں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ ہوں‘‘۔30 اللہ تعالی نے روزہ کے بارے میں فرمایا الصوم لی، کہ روزہ میرے لیے ہے کیوں کہ حقیقت میں روزہ نہ کوئی عبادت ہے اور نہ ہی کوئی عمل ہے اس پر عبادت یا عمل کا اطلاق مجازاً ہے۔ معلوم ہواکہ روزہ دار لیس کمثلہ شی ء کے وصف میں اللہ تعالی کے مشابہ ہوجاتا ہے۔31 ابن عربی کا خیال ہے کہ روزہ صفت الٰہی کا مظہر ہے،کیوں کہ اللہ تعالی کی صفت کھانے پینے سے محفوظ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حضرت عیسی کو خدا سمجھنے والے اسی غلطی میں مبتلاء ہوئے کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے،اور رات کو آرام نہیں کرتے تھے۔اسی بنیاد پر وہ حضرت عیسی کو خدا سمجھ بیٹھے۔ابن عربی عیسا ئی کو مشرک نہیں ؛بلکہ کافر سمجھتے ہیں کیوں کہ مشرک وہ ہوتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو خدا سمجھے، لیکن یہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو ہی خدا سمجھتے ہیں۔ چوں کہ صوم الدہر سے اشتباہ ہوتا ہے؛ اسی لیے یہ عمل مستحب نہیں ہے اوراسی وجہ سے آپ ﷺ کبھی روزہ رکھتے تھے اور کبھی افطار کرتے تھے اور کبھی رات کو جاگتے اور کبھی سوتے تھے۔
حج کی تاریخ اگر چہ اسلام سے ماقبل سے مربوط ہے، کیوں کہ کعبہ اسلام سے پہلے سے موجود ہے۔ابن عربی کہتے ہیں کہ کعبہ اور قلب مومن ایک جیسے ہیں اسی طرح مومن اور بیت معمور میں بھی مشابہت ہے، کہ جس طرح کعبہ کے ارد گرد نیک و بد ہر طرح کے لوگ طواف کرتے ہیں۔ اسی طرح مومن کے دل میں بھی اچھے برے خیالات آتے ہیں، اور جس طرح بیت معمور کا طواف صرف فرشتے کرتے ہیں اسی طرح عارف کے دل میں صرف اچھے خیالات آتے ہیں۔ اسی لیے ابن عربی کا خیال ہے کہ عارف کا دل کعبہ سے بھی زیادہ مکرم ہے۔ابن عربی کہتے ہیں کہ کعبہ کے چار ارکان ہیں۔ ان میں حقیقت میں تین ارکان ہی ہیں جو سرالٰہی کا محل ہیں۔ایک الٰہی خیالات کا محل، دوسرے ملکی خیالات کامحل اور تیسرے نفسی خیالات کا محل،رکن حجر یہ الہی تجلیات کا محل ہے۔ رکن یمانی یہ ملکی خیالات کا محل ہے اور رکن شامی نفسی خیالات کا محل ہے اور رکن عراقی یہ شیطانی خیالات کا محل ہے اسی طرح انبیاء و رسل کے علاوہ تمام انسانوں کے دل بھی مربع شکل میں ہیں،ہاں انبیاء اور رسولوں کے معکب ہیں۔ ان میں تین ہی خیالات کے محل ہیں۔ الٰہی، ملکی اور نفسی۔شیطانی خیالات سے اللہ نے انہیں محفوظ رکھاہے۔ اسی طرح بعض اولیاء بھی ایسے ہوتے ہیں جن کے دل میں شیطانی خیالات نہیں آتے ہیں جیسے سلیمان الدنبلی ہیں میں نے ان سے خود ملاقات کی ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ پچاس سال سے زائد عرصے سے میرے دل میں برے خیالات نہیں آتے ہیں۔ 32