Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
تحر یر میں تین امور کو مقصود جبکہ دو امور کو ضمنا بیان کیا جائے گا۔ مقصود بیان کیے جانے والے امور میں سے پہلا امر شاہ ولی اللہ صاحب کے نزدیک شریعت کی تشکیل کے وقت شریعت اور سماج کے باہمی تعلق کا بیا ن ہے۔ دوسرا امر شریعت کی تشکیل و تکمیل کے بعد شریعت و سماج کے باہمی تعلق کی بابت شاہ صاحب کی فکر کی کھوج لگانا ہے۔جبکہ تیسرا اور آخری مقصودی ہدف جو بنیادی طور پر اس پوری تحریر کامرکز قرار دیا جا سکتا ہے،وہ شاہ صاحب کی فکرِ کلی کا مختصر تجزیہ اور مختلف موضوعات پر جزوی بیانات سے قطع نظر ان کی اصل فکر تک رسائی کی کوشش ہے تاکہ اس کی روشنی میں فی زمانہ درپیش تحدیات میں شاہ صاحب کی فکر سے راہنمائی کی حدود اور دائرے کا تعین ممکن ہو سکے۔ جن امور کو ضمنا ذکر کیا جائے گا ان میں سے پہلا امر شاہ صاحب کی فکر کی جزئیات کی مسلم دانشوری میں پہلے سے موجود بنیادوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جبکہ دوسرا امر فکرِ ولی اللہی کے ما بعد افکار پر اثرات کا جائزہ لینا ہے۔
قبل اس کے کہ ہم اپنی مقصودی بحث کی طرف بڑھیں، پہلے بطور مختصر مقدمہ یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ شاہ صاحب انسان اور انسانی معاشرہ کی تاریخی دھارے پر حرکت کو کس طرح دیکھتے ہیں ؟ اور ان کے خیال میں خدائی احکامات معاشرے کی کس خاص کیفیت کے وقت اور کس سبب سے نازل کیے جاتے ہیں ؟
شاہ صاحب نے اپنی کتاب’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مبحث ِ ثالث کے بابِ اول میں’’ ارتفاقات‘‘ کے عنوان کے تحت انسان اور معاشرہ کی طبیعت اور فطرت کو بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں : خدا نے تمام ممکنات کو ایک خاص صورت ِ نوعیہ پر پیدا کیا ہے۔ ہر نوع کے طبعی تقاضے اس کے اندازِ تخلیق کےموافق ہیں جن کا اسے الہام کر دیا جاتا ہے۔ انہی مخلوقات میں سے ایک انسان بھی ہے جس کی صورت کو خدا نے تمام مخلوقات سے بہتر سانچے میں ڈھالا ہے۔ اس خاص صورتِ نوعی کی بدولت انسان کو اس صورت کے مطابق الہاماتِ طبیعیہ سے نوازا جاتا ہے۔ ان الوہی الہامات میں انسان کو دیگر انواع سے ممتاز کرنے والی چیزیں تین ہیں: ایک یہ کہ انسان کسی کام کے کرنے کا ارادہ رائے کلی کے تحت کرتا ہے۔ عام چوپایوں کی طرح طبعی داعیہ کی بناء پر محض غرض کو پورا کر نااس کا مقصود نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ انسان میں تمام امور کو ظرافت اور لطافت سے انجام دینے کا داعیہ رکھا گیا ہے۔ تیسرا یہ کہ انسان اپنے تجربات کی بناء پر مفید تدابیر مستنبط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگرچہ یہ کام بعض اصحاب بصیرت کا ہے لیکن دیگر افراد کی طبیعتوں میں اس کی صحت اس طرح پیوست ہوتی ہے کہ جب وہ ان مفید تدابیر کو دیکھتے ہیں تو اس کی تصدیق کیے بناء نہیں رہ سکتے۔ 1
انسان کے خاص صورت کے طبیعی تقاضوں کے سبب الہاماتِ الہیہ سے نوازے جانے، ان کے معروضی اطلاقات کے حق و خیر ہونے اور بنا ہدایتِ شرعی ان میں بعض اذہان کے مقتداء اور بعض کے پیروکا رہونے اور انہیں مٹائے بغیر شرائع کو ان سے متعلق کرنے کا نظریہ شاہ صاحب کے ہاں پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ نظریہ شاہ صاحب کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ روایت میں بعینہ یہ نظریہ ہمیں امام عبد الوہاب الشعرانی کے ہاں بھی ملتا ہے۔ شعرانی’’ ارشاد الطالبین‘‘ میں فرماتے ہیں:
اعلم یا اخی ان جمیع الحدود التی حدها الرب تبارک وتعالی فی ھذہ الدار لا تخرج عن قسمین:قسم یسمی سیاسة حکمية، وقسم یسمی شرعية، وکلاهما جاءا لمصلحة العباد وبقاء ایمان فی ھذہ الدار ودفع الفساد فی العالم۔
فاما القسم الاول : فطریقه الالقاء بمثابة الالهام عندنا وذلک لعدم وجود شریعة بین اظھر اھل ذلک الزمان، فکان الحق تعالی یلقی فی فطر نفوس الاکابر من الناس الحکمة فیحدوا الحدود ویضعواالنوامیس فی کل مدینة و جهة و اقلیم بحسب مزاج ما تقتضيه تلک الناحية وطبائعهم، فانحفظت بذلک اموال الناس ودمائهم واھلوھم و ارحامهم وانسابهم، وسموها نوامیس ومعناها اسباب الخیر-2
ترجمہ:’’ جان لیجیے کہ جوحدود خدا نے اس دنیا میں جاری کی ہیں وہ تمام کی تمام دو قسموں پر ہیں۔ ایک سیاستِ حکمیہ دوسری شرعیہ۔اور یہ دونوں لوگوں کے مصالح ان کے ایمان کی حفاظت اور دنیا میں دفعِ فساد کے لیے ہیں۔ جہاں تک سیاستِ حکمیہ کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک ا س کے القاء کا طریقہ الہام ہے اور یہ تب ہے جب اس زمانے کے لوگوں میں کسی قسم کی شریعت کا ظہور نہ ہوا ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ خدا انسانوں میں سے اکابرین کے نفوس میں حکم القاء کر دیتا ہے پس وہ حدود کو جاری کر دیتے ہیں اور نوامیس وضع کر دیتے ہیں۔ ہر شہر، علاقے اور اقلیم میں انہی لوگوں کے مزاج کے مطابق۔ پس یہ نوامیس لوگوں کے مال، جان، اہل،ارحام اور نسب کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور ان کا نام نوامیس رکھا گیا ہے۔ نوامیس کا مطلب ہے اسبابِ خیر‘‘۔
ترجمہ:’’ جان لیجیے کہ جوحدود خدا نے اس دنیا میں جاری کی ہیں وہ تمام کی تمام دو قسموں پر ہیں۔ ایک سیاستِ حکمیہ دوسری شرعیہ۔اور یہ دونوں لوگوں کے مصالح ان کے ایمان کی حفاظت اور دنیا میں دفعِ فساد کے لیے ہیں۔ جہاں تک سیاستِ حکمیہ کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک ا س کے القاء کا طریقہ الہام ہے اور یہ تب ہے جب اس زمانے کے لوگوں میں کسی قسم کی شریعت کا ظہور نہ ہوا ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ خدا انسانوں میں سے اکابرین کے نفوس میں حکم القاء کر دیتا ہے پس وہ حدود کو جاری کر دیتے ہیں اور نوامیس وضع کر دیتے ہیں۔ ہر شہر، علاقے اور اقلیم میں انہی لوگوں کے مزاج کے مطابق۔ پس یہ نوامیس لوگوں کے مال، جان، اہل،ارحام اور نسب کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور ان کا نام نوامیس رکھا گیا ہے۔ نوامیس کا مطلب ہے اسبابِ خیر‘‘۔
ارتفاق کا کوئی بھی درجہ ہو اس میں انسانوں کا عمل رائے کلی کے مطابق ہوتا ہے جس میں وہ اپنے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے مستقبل کی طرف بڑھتے ہیں۔ اور چونکہ اس سارے انسانی عمل کی بنیاد انسان کی خاص صورت پر تخلیق ہے اس لیے دنیا کے تمام انسان ارتفاقات کے اصولوں پر متفق ہیں اگرچہ ان کی بعض جزئیات میں عملی اختلاف نظر آتا ہے لیکن وہ اختلاف اصولی نہیں ہوتا۔
شاہ صاحب لکھتے ہیں:’’ارتفاقات کی ظاہری صورتوں اور ان کی جزئیات کا اختلاف تمہیں پریشان نہ کرے کیونکہ ان کے اصول میں کوئی اختلاف نہیں۔ مثلا مردوں کو چھپانے میں تمام دنیا کا اتفاق ہے لیکن اس کی صورتیں مختلف ہیں۔ بعض دفنانا جبکہ بعض جلانا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح نکاح اور زنا میں فرق کرنے کے لیے نکاح کی تشہیر میں سب کا اتفاق ہے لیکن بعض اس کےلیے گواہ بنانا اور ولیمہ کرنا پسند کرتے ہیں اور بعض دف بجانا اور گانے گانا وغیرہ ۔‘‘3
جزئیات میں اختلاف طبائع، عادات اور علم کے اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے اصل میں ایک طریقہ پر ہونے کے باوجود اقوام رسوم میں مختلف ہو جاتی ہیں۔ شاہ صاحب کی عبارتوں سے پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک انسانی تجربات کی خاص اہمیت ہے کیونکہ یہی تجربات وہ بنیادی چیز ہیں جن کی بدولت انسان کسی معاملے میں کلی رائے قائم کرنے کا اہل بنتا ہے۔ اور جب انسان اپنے تجربات کی روشنی میں ایسی کلی رائے قائم کر لے جو مصلحتِ عمومی پر منطبق ہوتی ہو تو وہی حق اور سنتِ راشدہ بن جاتی ہے اور اس کی خلاف ورزی عنداللہ مبغوض قرار پاتی ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:
وَإِذا انْعَقَدت سنة راشدة، فسلمها الْقَوْم عصرا بعد عصر، وَعَلَيْهَا كَانَ محياهم ومماتهم، ويبست عَلَيْهَا نُفُوسهم وعلومهم، فظنوها متلازمة لِلْأُصُولِ وجودا وعدما لم تكن إِرَادَة الْخُرُوج عَنْهَا وعصيانها إِلَّا مِمَّن سمجت نَفسه، وطاش عقله، وقويت شَهْوَته۔ 4
ترجمہ: ’’جب یہ سنت راشدہ مستحکم ہو جائے اور اقوام اسے عصرا بعد عصر مانتی چلی آئیں کہ ان کی زندگی اور موت اس پر ہونے لگے اور اسی پر ان کے نفوس اور خیالات جم جائیں۔ اور وہ اس طریقہ کو وجودا اور عدما اس اصول کا متلازم سمجھنے لگیں تو ان کی خلاف ورزی صرف وہ شخص کرتا ہے جس کی عقل مسخ، شہوت غالب اور نفس خبیث ہو‘‘۔
فَإِذا تقرر ذَلِك تقررا بَينا، ارتَفَعت أدعية الْمَلأ الْأَعْلَى وتضرعت مِنْهُم لمن وَافق تِلْكَ السّنة وعَلى من خالفها، وانعقد فِي حَظِيرَة الْقُدس رضَا وَسخط عَمَّن بَاشَرَهَا، أَو عَلَيْهِ، وَإِذا كَانَت السّنَن كَذَلِك عدت من الْفطْرَة الَّتِي فطر الله النَّاس عَلَيْهَا۔ 5
ترجمہ: ’’جب سنتِ راشدہ مستحکم ہو جائے تو ملاءِ اعلی کی دعائیں ان لوگوں کے حق میں بلند ہوتی ہیں جو ان کی موافقت کریں اور ان کے حق میں بددعائیں جو ان کی مخالفت کریں۔ حظیرۃ القدس میں اس مقدس طریقہ کے حاملین کے حق میں خوشنودی اور مخالفین کے لیے ناراضی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جب ان طریقوں کی یہ حالت ہوتی ہے تو وہ اس فطرت میں شمار کیے جاتے ہیں جس پر خدا نے لوگوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔
شاہ صاحب کے ہاں ارتفاقات کی اصطلاح بہت عمومی ہے جس کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ ارتفاقات کی بنیاد انسانی تجربات کی روشنی میں قائم کیے جانے والے وہ کلی اصول ہیں جو مصلحتِ عمومی پر منطبق ہوتے ہیں اور یہی وہ اصول ہیں جن کی موافقت یا مخالفت انسان کے صحیح یا فاسد المزاج ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ جیسا کہ ماقبل اقتباس میں گزرا۔
انسان معاشرتی انداز میں گروہوں کی شکل میں مختلف علاقوں میں قیام کرتا ہے جس کی وجہ سے عادات و اطوار اور طبائع میں مختلف ہو جانا ایک فطری بات ہے یہی وجہ ہے کہ علاقائی رسوم میں تمام انسانیت کا اتفاق ضروری نہیں ہے بلکہ علاقائی رسوم میں لوگوں کے درمیان اختلاف واقع ہو جاتا ہے بایں ہمہ یہ رسوم شاہ صاحب کے خیال میں انتہائی اہم اور مقدس ہیں کیونکہ ارتفاقاتِ صالحہ انہی رسوم کے تحت پائے جاتے ہیں اور یہ رسوم ان ارتفاقات کی محافظ ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:
وَالسّنَن السائرة وَإِن كَانَت من حق فِي أصل أمرهَا لكَونهَا حافظة على الارتفاقات الصَّالِحَة، ومفضية بأفراد الْإِنْسَان إِلَى كمالها النظري والعملي، ولولاها لالتحق أَكثر النَّاس بالبهائم-6
ترجمہ: ’’اکثر مروج طریقے اپنی اصلیت کے اعتبار سے بالکل حق ہیں کیونکہ یہ صالح ارتفاقات کے محافظ ہیں اور افرادِ انسانی کے نظری اور عملی کمال کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں۔ اگر یہ رسوم نہ ہوں تو انسان کی زندگی چوپایوں کی سی ہو کر رہ جائے‘‘۔
گویا شاہ صاحب کے نزدیک انسان اپنی نوعی صورت کی وجہ سے رائے کلی کے مطابق عمل کرتا ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں مصلحتِ عمومی کی تلاش میں کوشاں رہتا ہےاور جب اہلِ بصیرت مصالحِ عمومی کے مطابق کسی بات کو بیان کر دیں یا کوئی عمل کر لیں اور دیگر افرادِ انسانی اس الوہی وجدان کے مطابق جو ان کی طبائع میں پوشیدہ ہوتا ہے اس بات کی عملی تصدیق کر دیں تو ملاء اعلی میں وہی بات حق ہو جاتی ہے خواہ اس بات کا تعلق فردِ انسانی سے ہو یا معاشرے سے۔ رہی یہ بات کہ ارتفاقات کی صحت کو کیسے جانچا جائے ؟ تو اس کے متعلق شاہ صاحب کا خیال یہ ہے کہ اگر وہ مصالحِ کلی پر منطبق ہوتے ہیں تو وہ صالح ارتفاقات ہیں۔
خدا نے انسان کواچھائی اور برائی کا اختیار دیا ہے تاکہ دنیا کے ذریعہ سے اس کے آخری انجام کا فیصلہ کرے۔ اگر کو ئی انسان مصالح کلی پر اپنی ذات یا اغراض کو ترجیح دیتا ہے اور مسلم ارتفاقاتی اصولوں پر قائم رسوم میں باطل چیزوں کی آمیزش کرتا ہے جن کی وجہ سے بواسطہ ٔرسوم ان ارتفاقات میں بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے تو خدا کسی پیغمبر یا مجدد کو پیدا فرما دیتا ہے جو باطل کو رسوم سے الگ کر تا ہے تاکہ انسان فکری اور عملی کاوش کے ذریعہ جن مصالح تک پہنچ چکا ہے ان کی حفاظت کی جا سکے۔ گویا یہ انسان کی معاشرتی زندگی سے مذہب کے تعلق کا نقطۂ آغاز ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں :
اعْلَم أَن الرسوم من الارتفاقات هِيَ بِمَنْزِلَة الْقلب من جَسَد الْإِنْسَان، وَإِيَّاهَا قصدت الشَّرَائِع أَولا وبالذات، وعنها الْبَحْث فِي النواميس الإلهية-7
ترجمہ: ’’رسوم کو ارتفاقات میں وہی حیثیت حاصل ہے جو جسمِ انسانی میں قلب کو ہے۔شرائع الہیہ میں اولا اور بالذات یہی ارتفاقات مقصود ہوتے ہیں اور نوامیسِ الہیہ انہی سے بحث کرتے ہیں‘‘۔
فالبركل عمل يَفْعَله الْإِنْسَان قَضِيَّة لإنقياد للملأ الْأَعْلَى واضمحلاله فِي تلقي الإلهام من الله وصيرورته فانيا فِي مُرَاد الْحق، وكل عمل يصلح الارتفاقات التي بنى عَلَيْهَا نظام الْإِنْسَان-8
ترجمہ: ’’پس نیکی وہ عمل ہے جسے انسان ملاءِ اعلی کی اطاعت بجا لانے کے واسطے اور الہامِ الہی کے قبول کرنے میں ہمہ تن محو ہو کر اور مرادِ الہی میں فانی ہو کر کرتا ہے۔ اور ہر وہ عمل جو ان ارتفاقات کی اصلاح کرتا ہے جن پر نظامِ انسانی کی عمارت قائم ہے‘‘۔
ماقبل کے بیانات سے الہاماتِ الہیہ، ملاءِ اعلی کی خوشنودی اور انسانی ارتفاقات میں تعلق کی نوعیت بالکل واضح ہو کر سامنے آ چکی ہے۔ گویا یہ تمام اشیاء ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہیں بلکہ باہم ایسا لطیف تعلق رکھتی ہیں کہ ہر واحد دوسرے سے منسلک ہے۔ اور اس میں مرکز کا درجہ انسانی ارتفاقات کو حاصل ہے جس کی نشان دہی اس کے ان اعمال سے ہوتی ہے جو مصالحِ عمومی پر منتج ہوتے ہیں۔
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ( الشورى : 13 )
ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دی اتھا اور جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘
جس طرح ارتفاقات کے کلی اصولوں میں عموم اور معاشرتی اور علاقائی رسوم میں تخصیص ہوا کرتی ہے اسی طرح دین اور شریعت کا بھی معاملہ ہے۔ دین عام ہے جبکہ شریعت میں بنسبت دین کے تخصیص ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ دین کا ماخذ مابعدالطبیعی عقائد اور امورِ تعبدیہ کے علاوہ ارتفاقات کے وہی اصول ہیں جن میں تمام انسانیت یکساں طور پر شریک ہے جبکہ شرائع کا ماخذ اصلا رسوم ہیں جن کی بنیاد ارتفاقات کے عمومی اصولوں پر ہوتی ہے۔
اعْلَم أَن أصل الدّين وَاحِد اتّفق عَلَيْهِ الْأَنْبِيَاء عَلَيْهِم السَّلَام، وَإِنَّمَا الِاخْتِلَاف فِي الشَّرَائِع والمناهج۔ 9
ترجمہ: ’’معلوم ہونا چاہیے کہ دین کی اصل ایک ہے اور تمام انبیاء اس پر متفق ہیں جبکہ اختلاف شریعتوں اور مناہج میں ہے‘‘۔
اس اصولی بات کے بعد شاہ صاحب تفصیل سے ان چیزوں کا ذکر کرتے ہیں جو دین ہیں جنہیں ہم نے ماسبق عبارت میں عقائد، امورِ تعبدیہ اور اصولِ ارتفاقات کے مقتضیات سے تعبیر کیا۔ مثلا عقائد میں تمام انبیاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اس کے ناموں میں الحاد سے رکا جائے اور اسے حرام سمجھا جائے، مرنے کے بعد کی زندگی اور جنت و جہنم کو حق جانا جائے او رامورِ تعبدیہ میں مثلا طہارت، نماز، روزہ زکوۃ، حج، نفلی عبادات اور دعا وغیرہ کی ادائیگی کو لازم جانا جائے۔ اور ارتفاقات کے مصالح مثلا نکاح کی ضرورت، زنا کی حرمت، عدل و انصاف کی ناگزیریت اور ظلم و جور کی حرمت وغیرہ۔
ماقبل میں گزرا کہ ارتفاقات کے اصولوں کا مصدر نوعِ انسانی کی خاص ہیئت ہے جس کی وجہ سے انسان فطرتا ان اصولوں کی تشکیل اور ان پر عمل کو لازم جانتا ہے۔ بنیادی طور پر یہی منبع اصلِ دین کا بھی ہے چنانچہ شاہ صاحب فرماتے ہیں:
وَاعْلَم أَن الطَّاعَات الَّتِي امر الله تَعَالَى بهَا فِي جَمِيع الْأَدْيَان إِنَّمَا هِيَ أَعمال تنبعث من الهيئات النفسانية الَّتِي هِيَ فِي الْمعَاد للنفوس أَو عَلَيْهَا.10
ترجمہ:’’ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ طاعتیں اور عبادتیں جن کا حکم اللہ تعالی نے تمام مذاہب و ادیان میں یکساں طور پر دیا ہے وہ وہی اعمال ہیں جو نفوسِ انسانی کی حالتوں اور ہیئتوںسے پیدا ہوتے ہیں اور آخرت میں انہی اعمال کی بھلائی برائی کے اثرات نفوسِ انسانی کے سامنے پیش ہوں گے‘‘۔
دین و شریعت اور ان کے منابع کو جان لینے کے بعد ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شریعت کے نزول کی ضرورت کیا ہوتی ہے ؟ اور شریعت کا بنیادی ماخذ کیا ہوتا ہے ؟
اصل دین اور ارتفاقات کے مصالح کی یکسانیت کے باوجود یہ بات قابلِ فہم ہے کہ یہ دونوں عمومی چیزیں رسوم جیسی عملی اور جزوی صورتوں کے تحت پائی جاتی ہیں اور رسوم میں طبائع، عادات اور مکانی و زمانی بعد سے اختلاف پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ ان مختلف رسوم میں اصل چیز کی حفاظت کس طرح کی جائے،اس کی تعبیر اور تشریح کے لیے خدا انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرماتا ہے جو آ کر مروج رسوم کے مطابق اس کی تعبیر پیش کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں باطل کی آمیزش ہونے لگے اور ایسا بگاڑ پیدا ہو جائے جس سے دینی و دنیوی مصالح متاثر ہونے کا خدشہ ہو تو خدا انسانی تجربات سے ماخوذ مصالح اور دین کی حفاظت کے لیے انبیاء کو مبعوث فرماتا ہے جو باطل کو حق سے جدا کر کے ہدایت کے راستے کو واضح فرما دیتے ہیں۔شاہ صاحب فرماتے ہیں :
أَن مُرَاد الْأَنْبِيَاء عَلَيْهِم السَّلَام إصْلَاح مَا عِنْدهم من الارتفاقات، وَأَن مظان الْمصَالح تخْتَلف باخْتلَاف الْأَعْصَار والعادات، وَلذَلِك صَحَّ وُقُوع النّسخ۔ 11
ترجمہ:’’ انبیاء کا بڑے سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان ارتفاقات اور تدابیرِ نافعہ معاشرت کی اصلاح کی جائے جو ان کےمخا طبین کے پاس موجود اور ان میں جاری و ساری ہیں۔ مصالح کے مواقع باعتبار زمانہ اور عادتوں کے مختلف ہوا کرتے ہیں اسی لیے شریعتوں میں نسخ صحیح اور جائز ہے‘‘۔
یہ بات واضح رہے کہ اس عبارت میں شاہ صاحب ارتفاقات کے مصالح عمومی میں زمانہ اور عادتوں کی وجہ سے اختلاف کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ ان مصالح کے مواقع کا تذکرہ کر رہے ہیں جن کا تعلق خاص رسوم سے ہے اور یہی نسخ کے جواز کی بنیادی وجہ ہے۔
اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاہ صاحب کے خیال میں شرائع کی تشکیل کس طرح کی جاتی ہے اور ان میں کن باتوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے ؟شاہ صاحب کے بیانات کی روشنی میں اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ شریعت کے قواعد و اصول سے لے کر اس کے آداب و ارکان کا تمام تر تعلق مروجہ تمدن سے ہوتا ہے جن میں لوگوں کی عملی صورتوں کے ساتھ ساتھ ان کے فکری اور طبعی رجحانات اور ان کی نفسیات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ذیل میں شاہ صاحب کے بیانات کی روشنی میں اس کی کچھ تفصیلات ذکر کی جاتی ہیں:
واعلم ان الشرائع لا تنعقد ا لا فی العادات و ھذہ حکمة الله فینظر الی ما عندھم من العادات فما کان منها فاسدا سجل علی تركه وما کان صحیحا ابقی۔ 12
ترجمہ: ’’شریعتوں کے احکام و قواعد کی تشکیل لوگوں کی عادات کے مطابق ہوتی ہے۔ اور اس بات میں اللہ تعالی کی بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ جب کسی شریعت کی تشکیل ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالی اس وقت کے لوگوں کی عادات پر نظر ڈالتا ہے۔ اب جو عادتیں بری ہوتی ہیں ان کو ترک کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ اور جو اچھی ہوتی ہیں انہیں اپنے حال پر رہنے دیا جاتا ہے‘‘۔
وَالَّذِي أَتَى بِهِ الْأَنْبِيَاء قاطبة من عِنْد الله تَعَالَى فِي هَذَا الْبَاب هُوَ أَن ينظر إِلَى مَا عِنْد الْقَوْم من آدَاب الْأكل وَالشرب واللباس وَالْبناء ووجوه الزِّينَة، وَمن سنة النِّكَاح وسيرة المتناكحين، وَمن طرق البيع وَالشِّرَاء، وَمن وُجُوه المزاجر عَن الْمعاصِي وَفصل القضايا وَنَحْو ذَلِك. فَإِن كَانَ الْوَاجِب بِحَسب الرَّأْي الْكُلِّي منطبقا عَلَيْهِ، فَلَا معنى لتحويل شَيْء مِنْهُ من مَوْضِعه وَلَا الْعُدُول عَنهُ إِلَى غَيره، بل يجب أَن يحث الْقَوْم على الْأَخْذ بِمَا عِنْدهم، وَأَن يصوب رَأْيهمْ فِي ذَلِك، ويرشدوا إِلَى مَا فِيهِ من الْمصَالح، وَإِن لم ينْطق عَلَيْهِ، ومست الْحَاجة إِلَى تَحْويل شَيْء أَو إخماله لكَونه مفضيا إِلَى تأذي بَعضهم من بعض أَو تعمقا فِي لذات الْحَيَاة الدُّنْيَا وإعراضا عَن الْإِحْسَان، أَو من المسليات الَّتِي تُؤدِّي إِلَى إهمال مصَالح الدُّنْيَا وَالْآخِرَة وَنَحْو ذَلِك - فَلَا يَنْبَغِي أَن يخرج إِلَى مَا يباين مألوفهم بِالْكُلِّيَّةِ، بل يحول إِلَى نَظِير مَا عِنْدهم۔ 13
ترجمہ: ’’ارتفاقات کے باب میں انبیاء جس امر کو خدا کی طرف سے لائے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ان چیزوں کو دیکھا جائے جو قوم کے پاس اور ان کے تمدن میں موجود ہیں۔ یعنی کھانے پینے اور پہننے کے آداب، تعمیر کے انداز، زینت کی صورتیں، نکاح کا طریقہ اور زن و شوہر کی سیرت، بیع و شراء کے طریقے، مقدمات کا فیصلہ کرنے کی صورتیں وغیرہ۔ پس تمدن کی وہ صورتیں جو شریعت کے مدعی پر رائے کلی کے موافق منطبق ہونے والی ہوں تو نہ ان صورتوں میں سے کسی کو بدلنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کےمثل کی طرف تجاوز کرنے کی بلکہ انہی تمدنی صورتوں کو ان کی شکل میں باقی رکھنا ضروری ہے۔ اس صورت میں لوگ جن عادات سے مانوس ہیں ان کی تصویب کرنا اور ان کے کرتے رہنے پر لوگوں کو ابھارنا ضروری ہے۔ لیکن اگر مروج باتیں ایسی ہوں کہ وہ مفادِ عامہ کے لیے مضر ہوں اور انہیں بدلنے کی حاجت پیش آئے تب بھی ایسی باتوں کا حکم دینا مناسب نہیں جو اس تمدن کے لوگوں کی مالوفات کے بالکلیہ مبائن ہو‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام کے تعمیرِ کعبہ کی نسبت ’’فیوض الحرمین ‘‘میں فرماتے ہیں:
ومن تلک الانفسارات بیت الله وذلک ان الناس قبل سیدنا ابراهيم توغلوا فی بناء المعابد والکناییس فبنوا بناء علی اسم الشمس فی وقت یغلب فيه روحانية الشمس وکذلک القمر وسائر الکواکب و زعموا ان من دخل بهذه البیوت اقترب بصاحبها والحق ذلک بالضروریات و صار التوجه الی الامر البسیط ما لم یتعین له جهة و موضع کالامر البعید فنزل علی قلب ابراهيم حذو ما کان فی زمنه و اصطفی موضعا علمه مناسبا لهذا الامر بان یکون ذلک قوی الافلاک والعناصر مقتضية للبقاء و جاذبة لافئدۃ الناس اليه وعین لتعظیم الناس ایاہ طرقا و اوضاعا و تدلی اليهم بایجابه عليهم۔ 14
ترجمہ: ’’اور ان انفسارات میں سے یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے قبل لوگ شمس و قمر اور دیگر سیاروں کے نام پر کنیسے اور عبادگاہیں بناتے تھے اور ان افلاک کی روحانیت کے غلبہ کے وقت ان میں داخل ہونے کو تقرب کا سبب سمجھتے تھے یہ روایات اس قدر عام تھیں اور ان کی عادات میں اس قدر راسخ تھیں کہ ان کے لیے ضروریات میں سے ہو گئی تھیں،ایسے امرَ بسیط کی طرف توجہ ہو گئی تھی جس کے لیے کوئی جہت اور موضع متعین نہ ہو، ابراہیم علیہ السلام کے دل پر ان کے مقابل یہ بات اتاری گئی اور انہوں نے ایک جگہ متعین کی جس کوا نہوں نے اس کے لیے مناسب سمجھا اس طرح کہ قوائے افلاک و عناصر بقا کے مقتضی ہوں اور لوگوں کے دل اس کی طرف کھنچیں۔ اور اس کےطریقے اور اوضاع کو متعین کر کے اس کی تدلی کو ان پر واجب قرار دے دیا‘‘۔
وَالْمُعْتَبر فِي نزُول الشَّرَائِع لَيْسَ الْعُلُوم والحالات والعقائد المتمثلة فِي صُدُورهمْ فَقَط، بل أعظمها اعْتِبَارا، وأولاها اعتدادا مَا نشأوا عَلَيْهِ واندفعت عُقُولهمْ إِلَيْهِ من حَيْثُ يعلمُونَ وَمن حَيْثُ لَا يعلمُونَ۔ 15
ترجمہ:’’شریعتوں کے نزول میں معتبر صرف وہ علوم و حالات اور عقائد نہیں جو ان کے سینوں میں متمثل ہیں بلکہ ان میں سب سے زیادہ اعتبار اور بدرجہء اولی لحاظ اس علم کا ہے جس پر وہ پروان چڑھے ہیں۔ اور جس کی طرف ان کی عقلیں جاتی ہیں۔ اور جہاں سے وہ جانتے ہیں اور جہاں سے نہیں جانتے‘‘۔
اوپر بیان کردہ شاہ صاحب کی عبارتوں سے یہ بات بالکل واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے کہ شاہ صاحب کے نزدیک شریعت کی تشکیل میں تمدن کا کس قدر حصہ ہوتا ہے۔ شاہ صاحب اپنی اس رائے کا اطلاق شریعت کے تمام اجزاء پر کرتے نظر آتے ہیں خواہ ا ن کا تعلق افکار و خیالات سے ہو یا اعمال و افعال سے۔ وہ باتیں اصولِ شریعت کی ہوں یا فروع شریعت کی۔ حتی کہ اگر کسی شریعت میں اس خاص وقت کی ضرورت کے مطابق کوئی کمی یا زیادتی بھی کی جاتی ہے یا کسی خاص صورت کو مفادِ عامہ کے خلاف یا کسی بھی وجہ سے مضر جانتے ہوئے اس کی متبادل صورت بھی بیان کی جاتی ہے تو اس متبادل صورت میں بھی موجود تمدن اور مالوفات کا مکمل لحاظ رکھا جاتا ہے۔
ذیل میں اس کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں جن سے شاہ صاحب کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں سہولت ہو گی:
يَعْقُوب عَلَيْهِ السَّلَام مرض مَرضا شَدِيدا، فَنَذر لَئِن عافاه الله ليحرمن على نَفسه أحب الطَّعَام وَالشرَاب إِلَيْهِ، فَلَمَّا عوفي حرم على نَفسه لحْمَان الْإِبِل وَأَلْبَانهَا، واقتدى بِهِ بنوه فِي تَحْرِيمهَا، وَمضى على ذَلِك الْقُرُون حَتَّى أضمروا فِي نُفُوسهم التَّفْرِيط فِي حق الْأَنْبِيَاء إِن خالفوهم بأكلها، فَنزل التَّوْرَاة بِالتَّحْرِيمِ، وَلما بَين النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنه على مِلَّة إِبْرَاهِيم قَالَت الْيَهُود كَيفَ يكون على مِلَّته وَهُوَ يَأْكُل لُحُوم الْإِبِل وَأَلْبَانهَا، فَرد الله تَعَالَى عَلَيْهِم أَن كل الطَّعَام كَانَ حلا فِي الأَصْل وَإِنَّمَا حرمت الْإِبِل لعَارض لحق باليهود، فَلَمَّا ظَهرت النُّبُوَّة فِي بني إِسْمَاعِيل وهم بُرَآء من ذَلِك الْعَارِض لم يجب رعايته۔ 16
ترجمہ:’’ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی بیماری میں نذر مانی تھی کہ اگر وہ شفا یاب ہو جائیں تووہ خود پر محبوب کھانا حرام کر لیں گے۔ اور اسی سبب سےانہوں نے اونٹ کے گوشت سے کنارہ کشی کر لی۔ اور ان کے متبعین نے نبی کی پیروی کو اس فعل میں بھی لازمی سمجھا اور خود پر اونٹ کا گوشت حرام کر لیا۔ اور جب اسی حال میں ان پر صدیاں بیت گئیں اور یہ بات ان کے تمدن میں معروف ہو گئی کہ اونٹ کا گوشت کھانا درست نہیں تو خدا نے بھی ان کے معروف کی مخالفت نہیں کی بلکہ تورات اس گوشت کی حرمت ہی کے ساتھ نازل ہوئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت چونکہ بنی اسماعیل میں تھی اور انہیں ایسا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا اور وہ اونٹ کا گوشت کھاتے پیتے تھے لہذا شریعتِ محمدی اونٹ کی حلت کے ساتھ نازل ہوئی‘‘۔
كما أَن الْعَرَبِيّ المتوجه إِلَى شَيْء ليفعله أَو طَرِيق ليسلكه إِذا سمع لَفْظَة ’’رَاشد‘‘ أَو ’’نجيح‘‘ كَانَ دَلِيلا على حسن مَا يستقبله دون غير الْعَرَبِيّ وَقد جَاءَت السّنة بِبَعْض هَذَا النَّوْع - فَكَذَلِك يعْتَبر فِي الشَّرَائِع علُوم مخزونة فِي الْقَوْم واعتقادات كامنة فيهم وعادات تتجارى فيهم كَمَا يتجارى الْكَلْب۔ 17
ترجمہ:’’ جس طرح ایک عرب آدمی جب کسی کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اسے کرے یا کسی راستہ کی طرف کہ اس پر چلے۔ جب وہ لفظِ "راشد " یا " نجیح" سنتا ہے تو وہ لفظ دلیل ہوتا ہے اس چیز کی اچھائی پر۔ لیکن ان الفاظ کا برائی یاا چھائی پر دلیل ہونا صرف عربی کے لیے ہے نہ کہ غیر عربی کے لیے۔ پس اسی طرح شریعتوں میں ان علوم کا اعتبار کیا جاتا ہے جو قوم میں محفوظ ہوتے ہیں۔ اور ان عقائد کا اعتبار کیا جاتا ہے جو ان میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔اور ان عادتوں کا اعتبار کیا جاتا ہے جو اس قوم میں سرایت کیے ہوتی ہیں‘‘۔
ان الشرائع لا تنعقد الا فی العادات، لذلک الوحی المتلو لا ینعقد الا فی الالفاظ والکلمات والاسالیب المخزونة فی ذهن الموحی اليه ولذلک اوحی الله الی العربی باللغة العربية والی السریانی الی اللغة السریانية۔ 18
یعنی وحی اسی قوم کی زبان،محاورات اور کلمات میں اترتی ہے جس قوم کی طرف وحی کی ہدایت بھیجنا مقصود ہو اور یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ شرائع میں خدا قوم کی مالوفات و عادات سے چشم پوشی نہیں کرتا۔
حجۃ اللہ البالغہ میں شرائع کے تمدنی بنیادوں پر قیام کی بابت ذکر کے بعدفرماتے ہیں:
كَانَ الطّيب والخبيث فِي المطاعم مفوضا إِلَى عادات الْعَرَب-19
شریعتِ محمدی میں کھانوں کی پاکیزگی اور گندگی بھی اسی عربی تمدن کے مطابق بیان کی گئی جس میں اس شریعتِ مطہرہ کا نزول ہوا تھا۔
وَلذَلِك حرمت بَنَات الْأُخْت علينا دون الْيَهُود، فانهم كَانُوا يعدونها من قوم أَبِيهَا لَا مُخَالطَة بَينهم وَبَينهَا، وَلَا ارتباط، وَلَا اصطحاب، فَهِيَ كالأ جنبية بِخِلَاف الْعَرَب-20
ترجمہ: ’’اور اسی وجہ سے بھانجی ہمارے لیے حرام کی گئی ہے نہ کہ بنی اسرائیل کے لیے کیونکہ وہ لوگ اسے اس کے باپ کی قوم سے شمار کرتے تھے۔ان کے اور اس لڑکی کے درمیان کوئی اختلاط نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی رابطہ اور رفاقت لہذا وہ ان کے لیے ایک اجنبی عورت کی طرح ہی ہوتی تھی بخلاف عرب کے‘‘۔
وَلذَلِك كَانَ طبخ الْعجل فِي لبن أمه حَرَامًا عَلَيْهِم دُوننَا، فان علم كَون ذَلِك تغييرا لخلق الله ومصادمة لتدبير الله حَيْثُ صرف مَا خلقه الله لنشء الْعجل ونموه إِلَى فك بنيته وَحل تركيبه كَانَ راسخا فِي الْيَهُود متجاريا فيهم، وَكَانَ الْعَرَب أبعد خلق الله عَن هَذَا الْعلم حَتَّى لَو ألْقى عَلَيْهِم لما فهموه، وَلما أدركوا المناط الْمُنَاسب للْحكم۔ 21
ترجمہ : ’’اور اسی وجہ سے گوسالہ کو اسکی ماں کے دودھ مین پکانا یہود کے نزدیک حرام تھا لیکن ہمارے ہاں حرام نہیں۔ یہود یہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی اور اس کی تدبیر کے سراسر خلاف ہےکیونکہ جس چیز کو خدا نے گوسالہ کی پرورش اور نشو و نما کے لیے پیدا کیا اسی سے اس کے ڈھانچے کو جدا کیا جائے گا اور اسکی ترکیب کو کھولا جائے گا۔ اور عرب اللہ کی مخلوق میں اس علم سے سب سے زیادہ دور تھے۔ اگر ان پر یہ علم ڈالا جاتا تو یقینا نہ وہ لوگ اس علم کو سمجھتے اور نہ ہی حکم کی مناسب علت کو سمجھ پاتے‘‘۔
شاہ صاحب کے حوالے سے بیان کی جانے والی مذکورہ سطور سے یہ بات بالکل واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ شاہ صاحب شریعت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے ہاں نہ صرف یہ کہ شریعت کےداخلی ڈھانچہ کی تشکیل میں اس وقت کے تمدن کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور کوئی اعتقاد یا عمل ایسا نہیں ہوتا جس کا شریعت حکم دے اور وہ پہلے سے اس معاشرے میں موجود نہ ہوبلکہ نفسِ شریعت کی تشکیل میں بھی زبان و بیان سے لیکر مابعد الطبیعیاتی تصورات کی تشکیل تک میں اسی تمدن کی مالوفات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔
انسانی علم، اس کے ارتقااور شریعت کی، اخبار واحکامات سے اس کے تعلق کے بارے میں، مولانا ابو الکلام آزاد نے خدا ئ تفہیم کے حوالے سے بہت اہم نکتہ بیان کیا ہے جو شاہ صاحب ہی کی فکر کا تسلسل محسوس ہوتا ہے جسے اہمیت کے پیشِ نظر ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
’’ انسان کے تمام تصورات کی طرح صفاتِ الہی کا تصور بھی اس کی ذہنی اور معنوی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا ہے۔ انبیاء کرام کی دعوت کی ایک بنیادی اصل یہ رہی ہے کہ انہوں نے خدا پرستی کی تعلیم ہمیشہ ویسی ہی شکل و صورت میں دی جیسی شکل و اسلوب کے فہم و تحمل کی استعداد مخاطبین میں پیدا ہو گئی تھی۔ وہ مجمع انسانی کے معلم اور مربی تھے اور مربی کا فرض ہے کہ متعلمین میں جس درجہ کی استعداد پائی جاتی ہے اسی درجہ کی تعلیم دے۔ پس انبیاء کرام نے بھی وقتا فوقتا صفاتِ خداوندی سے متعلق جو پیرایۂ تعلیم اختیار کیا وہ اس سلسلہء ارتقاء سے باہر نہ تھا بلکہ اسی کی مختلف کڑیاں مہیا کرتا ہے ‘‘۔ 22
اب رہی یہ بات کہ اگر تمدن ہی شریعت کی اصل ہے تو انبیاء کی بعثت کا کیا مقصد ہوتا ہے ؟دراصل بات یہ ہے کہ خدا کا دین ایک ہی ہے۔دین کی بنیادی چیزیں وہ ہیں جن پر تمام پر انبیا متفق ہیں۔ جیسے خدا کا شریک نہ ہونا، نیکی کی مختلف اقسا م، نکاح کی حلت اور زنا کی حرمت وغیرہ۔ جہاں تک شرائع کا تعلق ہے تو وہ مختلف ہیں اور ان کے اختلاف کی وجوہات میں سے ایک وجہ تمدن کا وہ اختلاف ہے جس کی طرف شاہ صاحب نے اشارہ کیا۔ جب تمدن میں ایسے رسوم ورواج جڑ پکڑنے لگیں جن سے اصل دین پر یا انسانی فطرت کی مشترک اخلاقی قدروں پر زد پڑتی ہو تو اللہ اپنے بندوں میں سے کوئی نبی یا مجدد پیدا کر دیتا ہے جو مفادِ عامہ اور اصل دین کے خلاف پیدا ہو جانے والے عناصر کی اصلاح کر تا ہے لیکن اس اصلاح میں اس خاص تمدن کے مالوفات سے مباین کوئی حکم نہیں دیا جاتا جیسا کہ سابق میں بھی گزرا۔تشکیلِ شریعت میں نہ صرف مخاطبین کے عادات و طبائع، ان کے علم اور مراجعِ علم کا لحاظ رکھا جاتا ہے بلکہ ان کی نفسیات کا بھی پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔
’’بعض دفعہ اگر کسی پاک چیز کے متعلق لوگوں میں ناپاکی کا تصور قائم ہو جائے تو شریعت براہِ راست اسکی حقیقت بیان کر کے اسے پاک قرار نہیں دے دیتی بلکہ اسے لوگوں کے فہم پر رہنے دیا جاتا ہے تاکہ ان کی طبائع میں کدورت پیدا نہ ہو اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ناپاکی کے موقع کے بعد جو موقع پیدا ہوا اسکی وجہ سے ناپاکی دور ہو گئی حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ شے اصلا ناپاک ہی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال نبی ﷺ کا یہ قول ہے:’’یطھرہ ما بعدہ‘‘۔ 23
گذشتہ سطور میں یہ بات وضاحت کے ساتھ آ گئی کہ شاہ صاحب شریعت اوراس کی تشکیل اور انسان و معاشرہ کے ساتھ اس کے تعلق کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر شریعت کی کنہ اور حقیقت وہی ہے جو شاہ صاحب بیان فرما رہے ہیں اور اسکی بنیادیں انسانی تمدن سے جڑی ہوئی ہیں جن پر اسکی عمارت کو اٹھایا جاتا ہے تو اگر تمدن تبدیل ہو جائے تو شریعت نے ایک خاص تمدنی تناظر میں جن عملی جزئیات کے احکامات نزولِ وحی کے زمانہ میں نافذ کیے ان کی کیا حیثیت باقی رہے گی ؟ کیا تمدن کی تبدیلی ان احکامات پر اثر انداز ہو گی یا نبی کے قول و عمل سے جو حکم جس طرح بیان کر دیا گیا وہ تمام زمانوں میں اسی طرح نافذ العمل ہو گا جیسا کہ خود نبی اور اس کے تمدن سے مشابہ تمدن میں رہا ؟
ہمارے خیال سے شاہ صاحب کی اس بارے میں واضح رائے کا اندازہ تب ہو سکتا تھا جب شاہ صاحب اپنے بیان کردہ اصولوں کے تقاضے کے مطابق جزوی و عملی مسائل پر ان کے انطباق کی کوشش کرتے لیکن حجۃ اللہ کی جلدِ ثانی دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ صاحب ایسا نہیں کرتے بلکہ شاہ صاحب شریعت کے داخلی ڈھانچہ کی تشکیل جس انداز میں حضور کے دور میں ہوئی تھی اسی کے مصالح ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اگرچہ اس میں تیسیر، تخفیف اور اعتدال کا اصول ہمیشہ ان کے مدِ نظر رہتا ہے لیکن ان تمام اصولوں کو شاہ صاحب حکمِ شارع سمجھ کر انہی خاص صورتوں کے ساتھ جوڑتے ہیں جو شارع کی طرف سے خاص شکل میں قائم کردہ ہیں۔ مثلا شا ہ صاحب یہ تو ذکر کرتے ہیں کہ شریعتِ محمدیہ میں حدود کی صورتوں میں تخفیف کی گئی ہے اور بخلاف ِ شرائع سابقہ دو درجات رکھے گئے ہیں :ایک زیادہ سے زیادہ سزاکا اور دوسرا کم سے کم سزا کا۔ اور یہ بات پہلے معلوم ہو چکی کہ جرائم کی روک تھام کے لیے شریعت کا ان سزاؤں کی خاص صورت میں تنفیذ کا مدار وہ خاص تمدن ہے جس میں شریعتِ محمدیہ کا نزول ہوا بایں ہمہ شاہ صاحب تمدن کی تبدیلی کے سبب اس حکم کی تبدیلی سے بحث نہیں کرتے بلکہ جو حکم شارع نے اپنے دور میں نافذ کیا اسی تناظر میں اس کے مصالح بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ 24
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ شاہ صاحب سماج و تمدن اور شریعت کے تعلق کو دو مختلف زاویوں سے زیرِ بحث لاتے ہیں:
1۔ ایک جب شریعت کی تشکیل ہو رہی ہو اس وقت شریعت اور سماج کا تعلق کیا ہوتا ہے ؟
یہ وہ سوال ہے جس کے کے متعلق شاہ صاحب کی فکر کو تفصیلا اوپر کے صفحات میں ذکر کر دیا گیا ہے۔
2۔ دوسرا جب شریعت مکمل ہو جائے اور اپنی ایک الگ شناخت قائم کر لے۔
اس دوسرے پہلو سے متعلق شاہ صاحب نے مختلف مقامات پر کلام کیا ہے لیکن ہم ان کی کتاب حجۃ اللہ کے بابِ ششم سے قدرے طویل کلام نقل کرتے ہیں جو انہوں نے امام اور پیشوا کی صلاحیتوں کے ذیل میں ذکر کیا ہے جس سےاس پہلو پر شاہ صاحب کی فکر کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔فرماتے ہیں :
الإِمَام نَفسه لَا يَتَأَتَّى مِنْهُ مجاهدة أمَم غير محصورة، وَإِذا كَانَ كَذَلِك وَجب أَن تكون مَادَّة شَرِيعَته مَا هُوَ بِمَنْزِلَة الْمَذْهَب الطبيعي لأهل الأقاليم الصَّالِحَة عربهم وعجمهم ثمَّ مَا عِنْد قومه من الْعلم والارتفاقات، ويراعى فيهم حَالهم أَكثر من غَيرهم،ثمَّ يحمل النَّاس جَمِيعًا على اتِّبَاع تِلْكَ الشَّرِيعَة لِأَنَّهُ لَا سَبِيل إِلَى أَن يُفَوض الْأَمر إِلَى كل قوم أَو إِلَى أَئِمَّة كل عصر، إِذْ لَا يحصل مِنْهُ فَائِدَة التشريع أصلا، وَلَا إِلَى أَن ينظر مَا عِنْد كل قوم، ويمارس كلا مِنْهُم، فَيجْعَل لكل شَرِيعَة؛ إِذْ الْإِحَاطَة بعاداتهم وَمَا عِنْدهم على اخْتِلَاف بلدانهم وتباين أديانهم كالممتنع، وَقد عجز جُمْهُور الروَاة عَن رِوَايَة شَرِيعَة وَاحِدَة، فَمَا ظَنك بشرائع مُخْتَلفَة،؟ وَالْأَكْثَر أَنه لَا يكون انقياد الآخرين إِلَّا بعد عدد ومدد لَا يطول عمر النَّبِي إِلَيْهَا، كَمَا وَقع فِي الشَّرَائِع الْمَوْجُودَة الْآن فَإِن الْيَهُود وَالنَّصَارَى وَالْمُسْلِمين مَا آمن من أوائلهم إِلَّا جمع، ثمَّ أَصْبحُوا ظَاهِرين بعد ذَلِك فَلَا أحسن وَلَا أيسر من أَن يعْتَبر فِي الشعائر وَالْحُدُود والارتفاقات عَادَة قومه الْمَبْعُوث فيهم، وَلَا يضيق كل التَّضْيِيق على الآخرين الَّذين يأْتونَ بعد، وَيبقى عَلَيْهِم فِي الْجُمْلَة، والأولون يَتَيَسَّر لَهُم الْأَخْذ بِتِلْكَ الشَّرِيعَة بِشَهَادَة قُلُوبهم وعاداتهم، وَالْآخرُونَ يَتَيَسَّر لَهُم ذَلِك بالرغبة فِي سير أَئِمَّة الْملَّة وَالْخُلَفَاء، فَإِنَّهَا كالأمر الطبيعي لكل قوم فِي كل عصر قَدِيما أَو حَدِيثا-25
ترجمہ: ’’ امام خود تنِ تنہا لا تعداد فرقوں سے جہاد نہیں کر سکتا۔اس لیے ضروری ہے کہ اسکی شریعت کا مادہ وہی ہو جو تمام معتدل اقالیم کے باشندوں کے لیے بمنزلہء قدرتی راستے اور طریقے کے ہے خواہ وہ عرب ہیں یا عجم۔پھر امام کو ان علوم اور تدابیر پر نظر رکھنی چاہیے جو اسکی قوم میں رائج ہیں تاکہ بنسبت دوسروں کے ان کے احوال کی رعایت کر سکے۔جب اسکی قوم کی شریعت مقرر ہو جائے تو تمام لوگوں کو اسکی پیروی پر آمادہ کرے۔اس کا موقع نہیں ہوا کرتا کہ ہر ایک قوم کی حالت اسی کو تفویض کر دی جائے یا ہر ایک زمانے کے اماموں پر اسے چھوڑ دیا جائے۔اس سے شریعتِ مقررہ بے سود ہو جاتی ہے۔اور یہ بھی ممکن نہیں کہ امام ہر ایک قوم کے علوم کا اندازہ کر کے ہر ایک کے لیے جدا شریعت قرار دے۔سب کی عادات اور ان کے تمام ذاتی امور کا احاطہ کرنا، جبکہ ان کے شہر اور مذاہب مختلف ہیں، ناممکن کے درجے میں ہے۔جب ایک شریعت کے نقل کرنے میں تمام ناقلین کو عاجزی پیش آتی ہے تو مختلف شرائع کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے ؟ اور اکثر یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ مدتِ دراز کے بعد اور فرقے بھی مطیع ہو جایا کرتے ہیں جس کے لیے نبی کی عمر وفا نہیں کرتی۔موجودہ شرائع ہی میں دیکھ لیجیے کہ یہود و نصاری اور مسلمانوں میں اولا معدودے چند ہی ایمان لائے تھے۔پھر ان کو غلبہ حاصل ہو گیا۔لہٰذا اس سے زیادہ عمدہ اور آسان طریقہ نہیں ہے کہ امام شعائر، حدود اور تدابیر میں اپنی ہی قوم کا لحاظ کرے جن کی طرف وہ مبعوث ہوا ہے۔اور آئندہ آنے والوں کے لیے بھی یہ امور باعثِ تنگی نہ ہوں اس لیے ان پر اسے رحم کی نظر کرنی چاہیے۔پہلے لوگ تو اپنی قلبی شہادت اور اپنی عادات کی راہنمائی سے اس شریعت کو اختیار کرتے ہیں۔اور بعد والے اس مذہب کے ائمہ اور خلفاء کی سیرتوں کو مرغوب جان کر اتباع کرتے ہیں۔نیز ہر زمانہ میں قدیما اور حدیثا ہر قوم کا یہی شیوہ ہو گیا ہے ‘‘۔
گویا شاہ صاحب کے ہاں جب شریعت کی تشکیل ہو رہی ہوتی ہے تو یہ بات لازمی اور ناگزیر ہوتی ہے کہ اسکی تشکیل کی بنیاد اس زمانہ کے لوگوں کی مالوفات، عادات اور تصورات بنیں جن کے درمیان شریعت کو تشکیل دیا جا رہا ہے۔ لیکن تکمیل کے بعد لازمی ہے کہ دوسرے دیار کے لوگوں کو بھی اسی کے مطابق عمل کا مکلف بنایا جائے کیونکہ ہر قوم کا معاملہ اسی کے سپرد کرنا ناممکن امر ہے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو شریعت کا وجود ہی بے سود رہے گا۔ جن لوگوں کی عادات پر شریعت کی تشکیل کی گئی ان کے لیے تو اس پر عمل کرنا موافقِ عادات اور مالوفات کے آسان ہے ہی لیکن دوسروں کے لیے اس وجہ سے اس میں قدرے تیسیر ہے کہ جب کسی دوسرے معاشرے میں اہلِ شریعت کو غلبہ حاصل ہو جائے تو وہاں کے لوگ ائمہ اور خلفاء کی سیرت میں رغبت رکھیں گے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنا ان کے لیے آسان ہو گا۔
اس اقتباس سے یہ بات تو واضح طور پر سمجھ آ جاتی ہے کہ شاہ صاحب تکمیل شریعت کے بعد کے مرحلے کو اس سے بالکل مختلف انداز سے دیکھتے ہیں جس طرح وہ بوقتِ تشکیل اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن بیان کے انداز اور قوت سے یہ اندازہ لگانا بالکل بھی ناممکن نہیں کہ شاہ صاحب دورانِ تشکیل جس طرح اصولی اور حتمی بات کر رہے ہوتے ہیں اس طرح یہاں نہیں کرتے بلکہ تکمیل کے بعد شریعت اور سماج سے متعلق ان کے خیالات شریعت کے ضیاع کےخدشات کے پیشِ نظر ایسی حکمتوں پر مبنی ہوتے ہیں جو وجودِ شریعت کی محافظ بنیں۔
تشکیل کے بعد شریعت اور سماج سے متعلق شاہ صاحب کی فکر عمومی اور حتمی نہیں ہے۔ اسکی دو وجوہات ہیں جن میں سے ایک انہی کی فکر کے داخل میں پائی جاتی ہے جبکہ دوسری اگرچہ خارجی ہے لیکن اسکی دلیل بھی شاہ صاحب ہی کے کلام سے ملتی ہے۔
شریعت کے دوسرے مرحلے سے متعلق شاہ صاحب کا نظریہ محض اس حکمت پر استوار ہے کہ کثرتِ اختلاف سے شریعت کا ضیاع لازم نہ آئے اگر کسی بھی صورت میں یہ قباحت زائل ہو جائے تو ان کے نزدیک بھی حکم وہ نہیں رہے گا جسے سابقہ اقتباس میں نقل کیا گیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شاہ صاحب خود بھی مذہبی تفہیم میں عوام اور خواص کی تفریق کے قائل ہیں لیکن خواص کے نظریات کی تشہیر کو مکروہ اس وجہ سے جانتے ہیں کہ اس سے عوام میں نفسِ دین ہی کے ضائع ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا احتمال باقی نہ رہے اور اسرارو حکم کے اصولوں کو منضبط انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جا سکے تو پہلا حکم باقی نہیں رہتا چنانچہ حجۃ اللہ میں امام کی ذمہ داریوں کے ضمن میں لکھتے ہیں :
وَمِنْهَا أَن يُكَلف النَّاس بأشباح الْبر والاثم، ويلزمهم ذَلِك إلزاما عَظِيما، وَلَا يلوح لَهُم بأرواحها كثير تلويح، وَلَا يخيرهم فِي شَيْء من الشَّرَائِع، وَيجْعَل علم أسرار الشَّرَائِع الَّذِي هُوَ مَأْخَذ الْأَحْكَام التفصيلية علما مكنونا لَا يَنَالهُ إِلَّا من ارتسخت قدمه فِي الْعلم، وَذَلِكَ لَان أَكثر الْمُكَلّفين لَا يعْرفُونَ الْمصَالح وَلَا يَسْتَطِيعُونَ مَعْرفَتهَا إِلَّا إِذا ضبطت بالضوابط، وَصَارَت محسوسة يتعاطاها كل متعاط، فَلَو رخص لَهُم فِي ترك شَيْء مِنْهَا، وَبَين أَن الْمَقْصُود الاصلي غير تِلْكَ الأشباح لتوسع لَهُم مَذَاهِب الْخَوْض، وَلَا اخْتلفُوا اخْتِلَافا فَاحِشا وَلم يحصل مَا أَرَادَ الله فيهم۔ 26
ترجمہ: ’’ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کو نیکی اور بدی کے اعمالِ ظاہری کی تکلیف دے اور لوگوں پر ان اعمال کی سخت پابندی کروا دے اور ان کی ارواح کی طرف زیادہ اشارہ نہ کرے اور شریعت کی کسی بات میں ان کو خود مختار نہ کرے۔ شرائع کے علمِ اسرار کو جو احکاماتِ تفصیلیہ کا ماخذ ہے لوگوں سے مخفی رکھے جس کا پتا راسخ العلم ہی لگا سکتے ہیں۔ اس لیے کہ اکثر مکلفین نہ تو اسرار کو معلوم کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی معرفت کی ان میں استطاعت ہو سکتی ہے تاآنکہ ان مصالح کے قواعد منضبط نہ کر دیے جائیں اور وہ محسوسات کی طرح ہو جائیں کہ ہر حاصل کرنے والا ان کو حاصل کر سکے۔ پس اگر ان کو کسی چیز کے چھوڑنے کی اجازت دے دی جائے یا یہ بتلا دیا جائے کہ مقصودِ اصلی ان ظاہری اعمال کے سوا کوئی اور امر ہے تو ان کے لیے غور کے مواقع اتنے وسیع ہو جائیں گے کہ وہ سخت اختلاف میں مبتلاء ہو جائیں گے اور شریعت سے متعلق خدا کا مقصود فوت ہو جائے گا‘‘۔
حجۃ اللہ کے مقدمہ میں شاہ صاحب نے اسرار وحکم کی بابت کافی مفصل کلام کیا ہے جس میں علمِ اسرار و حکم کی تدوین کی اہمیت و ضرورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقد یظن ان الاحکام الشرعية غیر متضمنة لشیٔ من المصالح وانه لیس بین الاعمال وبین ما جعل الله جزاء لها مناسبة، وان مثل التکلیف بالشرائع کمثل سید اراد ان یختبر طاعة عبدہ فامرہ برفع حجر او لمس شجرۃ مما لا فائدۃ فيه غیر الاختبار فلما اطاع او عصی جوزی بعمله۔ وھذا ظن فاسد۔ 27
ترجمہ:’’ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ شریعت کی بنیاد مصالح و حکم پر نہیں اور اعمال و جزاء میں کوئی مناسبت نہیں۔ تکالیفِ شرعیہ کی مثال ایسی ہے کہ ایک آقا اپنے غلام کی فرمانبرداری کا امتحان لینا چاہتا ہے تو اسے کسی پتھر کے اٹھانے کا یا کسی درخت کے چھونے کا حکم دے دیتا ہے۔ اور اس سے اس کا مقصد صرف غلام کی اطاعت کا امتحان ہے۔ جب وہ ایسا کر لیتا ہے تو آقا اسے اچھا بدلہ دیتا ہے۔ اور نافرمانی کرتا ہے تو سزا دیتا ہے۔یہ خیال سراسر فاسد ہے‘‘۔
شاہ صاحب نے علمِ اسرار و حکم کی اہمیت تو بیان کر دی ہے لیکن اسکی ضرورت جس انداز سے مقدمہ میں بیان کی ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس علم کی ضرورت محض شریعتِ خداوندی پر طمانیتِ قلب کے حصول کی سی ہے۔ علاوہ ازیں مقدمہ ہی میں ایک جگہ یہ بات صراحتا بیان بھی کی گئی کہ اگر اسرار و حکم کا علم نہ ہو تب بھی ظاہرِ احکاماتِ شریعت پر عمل کرنا لازم ہے۔
شاہ صاحب کے اس اندازِ بیان سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید شاہ صاحب بعینہ وہ بات کر رہے ہیں جو ہمارے علماء عموما کیا کرتے ہیں لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ اگر شاہ صاحب کی فکر کو کلیتا دیکھا جائے اور ان کے کلام کا احاطہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں علل پر مبنی ظاہری احکامات کا لزوم محض اس لیے ہے تاکہ عوامی اعتقادات اور مذہب کی حفاظت کی جا سکے لیکن اگر علمِ اسرار اس درجہ منضبط کر لیا جائے کہ عوام کی اس تک عقلی رسائی ممکن ہو تو شرائع کی موجودہ صورتوں کے لزوم کی وہ حیثیت لازما باقی رکھنا ضروری نہیں ہے جیسا کہ ماقبل میں’’ فیوض الحرمین ‘‘کی عبارت سے یہ بات مکمل طور سے واضح ہو کر سامنے آ چکی ہے۔
’’علماءِ اصولِ فقہ کے نزدیک اصولِ دین چار ہیں۔ کتاب یعنی قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔ لیکن درحقیقت یہ تعبیر درست نہیں ہے۔ جہاں تک قیاس کا تعلق ہے اصولِ دین کے اعتبار سے اسکی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ قیاس تو وہی معتبر ہے جس کا استنباط قرآن، سنت اور اجماع سے ہوا ہو۔ اس کے بعد تین اصول باقی رہ جاتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ سنت کو قرآن سے مستنبط مانتے ہیں لیکن ان کے نزدیک استنباط کا طریقہ وہ نہیں جو ائمہء فقہاء میں مروج ہے چناچہ شاہ صاحب نے حکمت کے اصول پر استنباط کے طریقے اور اصول بھی مقرر کیے ہیں ‘‘۔ 28
بعدِ تکمیل ِ شریعت شاہ صاحب کے فکر میں ان کی اصولی ابحاث سے اختلاف کی ایک بہت بڑی وجہ ان کے اپنے معروضی اور خارجی حالات ہیں، سیاسی قوت کے لحاظ سے شاہ صاحب کے بعد کے حالات ان کے زمانے سے یکسر مختلف ہیں۔
الحاصل ہماری رائے میں شاہ صاحب کے افکار کو کلیتا دیکھنے کی بجائے اگر ٹکڑوں میں تقسیم کر کے دیکھا جائے تو ان کی فکر کبھی صحیح معنی میں واضح نہیں ہو سکتی کیونکہ روایتی فکر میں صدمے سہنے کی بہت سکت ہے اور وہ شخصی افکار کو اپنی فکر کے مطابق موڑ کر اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اوپرکی سطور میں ہم نے شاہ صاحب کے افکار کو جس انداز سے پیش کیا یا ان کا کسی حد تک تجزیہ کیا وہ شاہ صاحب کی فکر کے تمام پہلووں اور ان کے بیانات کے مجموعہ سے پیدا ہونے والے نتائج پر مبنی ہے اور ہم حقیقتا اسی کو فکرِ ولی اللہی سمجھتے ہیں۔
مابعد مفکرین میں شاہ صاحب کی فکر کی اس تفہیم کے اثرات جن حضرات میں واضح طور پر نظر آتے ہیں ان میں شاہ صاحب کے سب سے معتبر شارح مولانا عبیداللہ سندھی اور بعد ازاں ڈاکٹر فضل الرحمن قابلِ ذکر ہیں۔ یہ دونوں احباب بھی شاہ صاحب ہی کی طرح مذہب کو ایک کلیت کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ اگرچہ شریعت کے جزوی احکامات میں ان کی فکر میں قدرے فرق ہے لیکن اس میں ان کے زمانوں، شخصی حالات اور علم کا کافی دخل ہے۔
مولانا سندھی بھی دین و شریعت کی اسی تقسیم کے قائل ہیں جن کا ہم نے شاہ صاحب کے حوالے سے ذکر کیا۔ دین اور اسکی اقدار کو دائمی اور حتمی جبکہ شریعت کے ظاہری لبادے کو سندھی صاحب زمانی سمجھتے ہیں اور یہ شاہ صاحب کی اس فکر کا اثر ہے جس میں وہ شریعت کی تشکیل سے متعلق شریعت و سماج کے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔
’’نیا دور ہمارے لئے بہت سی مصیبتیں لایا ہے۔ ہم اس ملک کے مالک تھے آج ہم دوسروں کے غلام ہیں، ہمارے ہاتھ میں سیاسی اقتدار اور معاشی ثروت کی باگ ڈور تھی لیکن آج ہم اس سے محروم ہیں، ہمارے اشراف علم و فضل کے محافظ تھے لیکن علم و فضل اب دوسروں کے ہاں جا چکا ہے، ہم آسمان پر تھے لیکن تقدیر نے ہمیں گڑھے میں دھکیل دیا، ہمارے لئے یہ انقلاب کوئی معمولی انقلاب نہ تھا، ہم شکست کھا گئے اور ہمیں اس شکست کا کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے لیکن یہ شکست ہمارے تمدن اور نظام کی شکست ہے ہماری فکر کی نہیں۔ اس تمدن نے ایک زمانے مین ایک ڈھانچہ اختیار کیا تھا لیکن اب وہ ڈھانچہ ٹوٹ چکا ہے لیکن اب جب کہ وہ جہاز ڈوب چکا ہے اور اس کے تر آنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تو عقل و ہمت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک نیا جہاز بنایا جائے اور ظاہر ہے اس کے بنانے میں فن، مہارت اور نمونہ سے بڑی مدد لی جائے گی۔ القصہ ہمارا تمدن، ہمارا قانون اور ہمارا نظامِ زندگی بجنسہ اب دوبارہ کبھی بحال نہیں ہو سکتا ان کی حیثیت اب ایک تاریخی واقعہ کی سی ہے لیکن وہ ہمارے باطنی وجود کی علامات بن گئی ہیں اس لئے ان کا کلیتا انکار ممکن نہیں ہے۔ ‘‘ 29
اس اصولی بات کے بعد اگر سندھی صاحب کے شریعت کے جزوی احکامات کے متعلق افکار کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاہ صاحب کی اصولی گفتگو کی روشنی میں سمجھتے ہیں کہ چونکہ شریعت کی تشکیل کا تمام تر مدار اس زمانہ کے مالوفات اور اسی قوم کی عادات پر ہوتا ہے لہذا جزوی احکامات کی علی الاطلاق تنفیذ نہ تو عقلا درست ہے اور نہ ہی یہ شریعت کا منشاء ہے۔ ان احکامات میں شریعت ایک کلی اصل فراہم کرتی ہے جبکہ اس کے تحت جزوی احکامات کا استنباط ہر زمانے کے علم اور ہر قوم کی مالوفات اور ان کے احوال سے متعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’ انسانوں کو خدا نے بنیادی قانون دے دیا ہے جبکہ اسکی روشنی میں تفصیلی قانون وہ خود بنا سکتا ہے۔ اور تفصیلات میں خطاء معاف ہے ‘‘۔ 30
’’قرآن میں جو تعزیراتی احکام ہیں یا سنت میں جن معاشی یا معاشرتی صورتوں کی تحدید ہے وہ ابدی اور غیر مبدل نہیں ہیں بلکہ عملی مثالیں ہیں جن کی عملی صورت قرآن کی عمومی ہدایت کی روشنی میں وہی ہو سکتی تھی۔ ہمارے لئے وہ محض قانونی نظائر ہی ہیں ‘‘۔ 31
سندھی صاحب عہد رسول میں شریعت کے جزوی احکامات کو تبدیلیٔ تمدن سے معطل تو نہیں مانتے لیکن ان کی معروضی صورتوں کے اطلاقات میں محدودیت پیدا کر دیتے ہیں۔
چنانچہ ان کے ہاں انسان کے معاشی، معاشرتی اور شخصی احوال اگر ایک خاص کیفیت میں ہوں کہ اصل ہدایت کی روشنی اس صورت میں بعینہ قدیم سزا کے اجراء کی مقتضی ہو تو وہی سزا جاری کی جا سکتی ہے۔
مذہب کو ایک اخلاقی کلیت میں دیکھنے کے اعتبار سے ڈاکٹر صاحب کا بھی قریب قریب وہی نظریہ ہے جیسا اوپر سندھی صاحب کے حوالے سے گزرا لیکن ان کے ہاں اس نظریے میں بہت وسعت ہے۔ وہ جزوی آیات یا بیانات کو سرے سے کسی قسم کی حجت ہی نہیں جانتے بلکہ ان کے ہاں استدلالا پورا قرآن ایسے ہی ایک اکائی ہے جیسےکہ علما کے ہاں اسکی اخلاقی تعلیمات ایک اکائی ہیں۔ اپنی اس بات پر کہ نصوص فردا استدلال کی قوت ہی نہیں رکھتیں خواہ وہ قرآنی آیات ہی ہوں، انہوں نے علامہ شاطبی کی’’ الموافقات‘‘ سے استدلال کیا ہے۔ 32
اخلاقِ قرآن کو کلی اکائی کے طور پر سمجھنے کا مطلب ان کے نزدیک قرآن کی داخلی فکر اور ذاتی حرکت ہے وگرنہ تو یہ رویہ فلاسفہ اور صوفیاء کے ہاں بھی ملتا ہے لیکن وہ ان کے نزدیک محض وقتی ملمع سازی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا 33-
The basic élan of the Quran … the stress on socioeconomic justice and essential human egalitarianism…. is quite clear from its early passages. Now all that follows by way of Quranic legislation in the field of private and public life. Even the five pillars of Islam that are held to be religion par excellence, has social justice and the building of an egalitarian community as it’s end. To insist on a literal implementation of the rules of the Quran, shutting one's eyes to the social change that has occurred and that is so palpably occurring before our eyes, is tantamount to deliberately defeating it's moral ,social purposes and objectives. It is just as though, in view of the quranic emphasis on freeing slaves, one were to insist on preserving the institution of slavery so that one could “earrn merit in the sight of God.” 34
ترجمہ: ’’قرآن کا اصل منشاء اور غایت۔۔سماجی معاشی انصاف اور لازمی انسانی مساوات پر اصرار-اسکی ابتدائی سورتوں سے بالکل واضح ہے۔اس کے بعد جو کچھ بھی ہے یعنی نجی زندگی کے لئے قرآن کی قانون سازی،حتی کہ اسلام کے پانچ ارکان جو دین کا اعلی ترین درجہ سمجھے جاتے ہیں،ان سب کا مقصد اور منتہا سماجی مساوات اور انصاف پر مبنی ایک معاشرہ قائم کرنا ہے۔قرآن کے قواعد کی بالکل لفظ بلفظ تعمیل پر زور دینا، اس معاشرتی تبدیلی سے قطع نظر کرتے ہوئے جو واقع ہو چکی ہے اور بالکل محسوس انداز میں ہماری نظروں کے سامنے ہے،اس کا مقصد قرآن کے اخلاقی سماجی مقاصد اور اغراض کو جان بوجھ کر ناکام بنانا ہے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے غلاموں کے آزاد کرنے کی تاکید کے پیشِ نظر کوئی شخص غلامی کا نظام باقی رکھنے پر اس لئے اصرار کرے کہ انہیں آزاد کر کے عند اللہ ماجور ہو سکے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک قرآن میں آنے والے قانونی یا نیم قانونی احکامات کا ظاہر ہر حال اور دور میں لازمِ عمل نہیں ہے بلکہ اگر آگے بڑھ کر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس دور میں بھی وہ جزوی اور قانونی احکامات اصلا مطلوب نہیں تھے بلکہ ان کے تحت پائی جانے والی حکمت و مصلحت پر مبنی اور قانونی منطقی بنا ہی مقصودتھی اور اسی کو حاصل کرنا شرعی احکامات کا ہدف تھا جسے اس زمانے کی مناسب بنتروں کی ترویج سے حاصل کیا گیا۔
Generally speaking, each legal or quasi legal pronouncement is accompanied by a ratio legis explaining why a law is being enunciated. To understand a ratio legis fully, an understanding of the socio-historical background is necessary. The ratio legis is the essence of the matter, the actual legislation being it’s embodiment so long as it faithfully and correctly realizes the ratio: if it dose not, the law has to be changed. 35
ترجمہ : ’’عمومی بات کریں تو ہر قانونی یا نیم قانونی اعلان کے ساتھ ایک عقلی مبنیٰ ہوتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کسی قانون کا اعلان کیوں کیا جا رہا ہے۔اس عقلی مبنی کو پوری طرح سمجھنے کے لئے معاشرتی تاریخی پسِ منظر کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔عقلی مبنی سارے معاملے کا نچوڑ ہوتا ہے۔اور جو کچھ قانون سازی کی جاتی ہے وہ اس کا مادی اظہار ہوتا ہے اگر یہ اس کے مقصد کو اصل کے مطابق اور صحیح طور پر حاصل کرتی ہے۔اور اگر اس اصل مقصد کو حاصل نہیں کر پاتی تو قانون کو تبدیل کرنا ضروری ہے‘‘۔
چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں اثباتی یا سلبی تمام جزوی احکامات اپنی ظاہری صورتوں میں اس معاشرے کے ساتھ خاص تھے جس میں شریعت کی تشکیل ہوئی -36البتہ حکم کے تحت پائی جانے والی عقلی اور منطقی بناء ابدی اور ہمیشہ کے لیے ہے جس پر غور سے شریعت کے اصل مقصد تک پہنچا جاتا ہے۔ بعد کے زمانوں میں جب تمدن تبدیل ہو جائے تو قرآن سے راہنمائی کا طریقہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں خاص سے عام اور پھر عام سے خاص کی طرف دو طرفہ حرکت سے ممکن ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
Whereas the first movement has been from the specifics of the Quran eliciting and systematizing of it's general principles, values, and long-range objectives, the second to be from this general view to specific view is to be formulated and realized now. 37
ترجمہ:’’ جہاں پہلی حرکت قرآن کے مخصوص احکام سے اس کے عمومی اصولوں، قدروں اور دوررس مقاصد کے استنباط اور انہیں ایک نظام کی صورت دینے کی طرف ہوئی تھی،وہاں دوسری حرکت اس عمومی منظر سے اس مخصوص منظر کی طرف ہونی ہے جسے اب تشکیل دیا جانا ہے‘‘۔
سندھی صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے افکار میں علم، حالات، زمانے اور تحدیات کے تنوع کی وجہ سے اگرچہ بہت بنیادی اختلاف موجود ہے لیکن قرآن کو ایک اکائی کے طور پر سمجھنا، جزوی احکامات کی خاص صورت میں تنفیذ کو خاص دور کے لیے سمجھنا اور اختلافِ تمدن میں مذہب کی عمومی اور اخلاقی اقدار کی طرف لوٹنا وہ امور ہیں جو دونوں مفکرین کے ہاں مشترک ہیں، جس کے تانے بانے شاہ صاحب کی اصولی ابحاث سے جا ملتے ہیں جیسا کہ ماسبق میں تفصیلا ذکر کیا گیا۔
(وزیٹنگ لکچرر، یونی ورسٹی آف سینٹرل پنجاب،لاہور۔ ای میل :hassanzadi24@gmail.com)