Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
پانچویں صدی ہجری کے بعد معتزلی فکر نے بتدریج اپنی مستقل شناخت کھونا شروع کر دی تھی۔ اس کے بعد معتزلہ کے اساسی نظریات کی نمائندگی ہمیں بنیادی طور پر شیعی علم کلام میں دکھائی دیتی ہے جبکہ جزوی طور پر ان کے کئی مواقف اور استدلالات کو اشعری اور ماتریدی متکلمین بھی بعینہ یا بعض ترمیمات کے ساتھ قبول کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں قاضی عبد الجبار الہمذانی کو معتزلہ کی فکری روایت کا آخری بڑا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے بعد اس سطح کا کوئی نمایاں متکلم ہمیں معتزلی روایت میں دکھائی نہیں دیتا۔ معتزلہ کی روایت میں قاضی عبد الجبار کی علمی حیثیت کا تقابل اشعری روایت میں بطور خاص امام رازی سے کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح امام رازی کے ہاں اشعری مواقف کی توضیح اور استدلالات کی تنقیح ومحاکمہ کا عمل ایک نقطۂ عروج کی نشان دہی کرتا ہے، اسی طرح قاضی عبد الجبار الہمذانی نے بھی معتزلی روایت کے داخلی اختلافات کے محاکمہ اور مخالفین کے ساتھ مجادلہ ومباحثہ کی روایت کو تقریباً اس کے نقطۂ کمال تک پہنچا دیا ہے۔ ان کی مبسوط کتاب ’المغنی فی ابواب التوحید والعدل‘ انھی تمام مباحث کی تفصیل پر مشتمل ہے۔ زیرِ نظر مقالہ میں ہمارے پیش نظر، قاضی عبد الجبار کی توضیحات کی روشنی میں افعال کے حسن وقبح اور عقل وشرع کے باہمی تعلق کے حوالے سے معتزلی فکر کے مقدمات واستدلالات کا ایک مربوط بیان پیش کرنا ہے۔
اشعری اور ماتریدی فریم ورک میں معتزلہ کا موقف عام طور پر جس طرح پیش کیا جاتا ہے، خود معتزلہ کے فکری فریم ورک میں اس کی تفہیم، ترتیب مقدمات کے لحاظ سے، اس سے بہت مختلف ہے۔ حسن وقبح کی بحث اشاعرہ اورماتریدیہ کی روایت میں بنیادی طور پر اصول فقہ میں زیر غور آتی ہے جس کا موضوع انسانی افعال کے شرعی احکام جاننے کے اصول وضوابط ہیں، جبکہ علم کلام میں اس پر گفتگو ضمناً کی جاتی ہے۔ معتزلی فکر میں اس بحث کا اصل مقام علم کلام ہے، جبکہ اصول فقہ میں ا س کی حیثیت ضمنی ہے۔ بحث کے سیاق کا یہ اختلاف بہت اہم ہے اور اس کو نظر انداز کرنے سے معتزلی موقف کی تفہیم خود اس کے زاویہ نظر سے نہیں ہو سکتی۔
اشاعرہ اور ماتریدیہ کے برخلاف، معتزلہ کے نظام فکر میں بحث کا مرکزی دائرہ انسانوں کے افعال میں حسن وقبح کا تعین نہیں، یعنی بات یہاں سے شروع نہیں کی جاتی کہ انسان کسی فعل کے حسن وقبح کا تعین کیسے کرتے ہیں اور اس کے لیے کیا معیارات ہو سکتے ہیں۔ معتزلی نظام فکر میں گفتگو کی ابتدا صفات باری کے تناظر میں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے صفت عدل کے اثبات کے ضمن میں کسی فعل کے حسن وقبح اور اس کی بنیاد پر اس کے وجوب پر کلام کیا جاتا ہے۔ اس سے مقدمات کی ایک ترتیب وجود میں آتی ہے جس کا ایک نتیجہ انسانی افعال اور شرعی احکام کے باہمی تعلق کی بحث میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔
معتزلہ کے عقلی پراجیکٹ کا بنیادی نکتہ خدا کے ارادہ وقدرت اور انسان کی تکلیف واختیار کے باہمی تعلق کو متعین کرنا اور یہ دکھانا ہے کہ انسان کو مکلف ٹھہرانے کا فیصلہ جن بنیادوں پر کیا گیا ہے، وہ انسانی عقل کے لیے پوری طرح قابل فہم اور انسانوں کے مابین جانے مانے اخلاقی تصورات کے مطابق ہیں۔ اس کے لیے معتزلہ اپنے استدلال کے جو بنیادی مقدمات پیش کرتے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
ان بنیادی مقدمات کے ساتھ معتزلہ ابتدا سے انتہا تک خدا کے ہر ہر فیصلے کے متعلق ایک تو یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ کیسے عدل وحکمت کے مطابق ہے اور دوسرا یہ بتاتے ہیں کہ خدا کیسے عدل وحکمت کے اصولوں کے تحت پابند تھا کہ اس طریقے سے معاملہ کرے اور اس کے برعکس معاملہ کرنا اس کے لیے جائز نہیں تھا۔
صفات الہٰی کی معرفت سے متعلق معتزلہ کا موقف حقیقت وجود، علم اور زبان کے بارے میں مخصوص تصورات پر مبنی ہے جنھیں قاضی عبد الجبار نے واضح کیا ہے۔
وجود سے متعلق عقلی تصورات کے اظہار کے لیے زبان میں جو تعبیرات استعمال کی جاتی ہیں، عالم شہود اور عالم غیب دونوں کے متعلق ان کا ایک ہی مفہوم ماننا لازم ہے اور اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کو بہت سی جسمانی صفات مثلاً رنگ، حرکت اور جسم وغیرہ سے منزہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر یہ مانا جائے کہ زبان میں مستعمل تعبیرات کا مفہوم انسانوں کے لیے کچھ اور ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے مختلف ہوتا ہے تو یہ بات مذکورہ تعبیرات کے لیے بھی کہنا ممکن ہوگی جن کا اطلاق اللہ تعالیٰ پرکرنے کو جمہور متکلمین جائز نہیں سمجھتے۔ چنانچہ یہ کہنا جائز ہونا چاہیے کہ حرکت اور جسم وغیرہ کا جو مفہوم انسانوں کے لیے مراد ہے، وہ اللہ کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کے لیے یہ کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کی جارہی ہیں۔ اگر ایک مختلف مفہوم پر محمول کرتے ہوئے ان تعبیرات کا استعمال ذات خداوندی کے لیے درست نہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانی زبان کی تعبیرات کا مفہوم وہی ہو سکتا ہے جو انسانوں کے مابین سمجھا جاتا ہے۔ یہیں سے معتزلہ قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ سے متعلق وارد تشبیہی نصوص کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ وہ مجازی مفہوم میں استعمال ہوئی ہیں اور ان کا ظاہری اور حقیقی معنی مراد نہیں ہے، کیونکہ وہ خدا کی تنزیہ کے منافی ہے۔ کلام اللہ کے مخلوق ہونے سے متعلق معتزلہ کا نظریہ بھی اسی نکتے پر استوار ہے۔ معتزلہ کا کہنا ہے کہ کلام کی تعبیر انسانی زبان میں ان اصوات کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو مخصوص محل سے نکلتی ہیں، اس لیے کلام کی تعریف میں آواز اور اس کا کسی جرم سے خارج ہونا لازماً شامل ہیں، ان کے بغیر کلام کی کوئی تعریف درست نہیں ہو سکتی۔ اس بنیاد پر معتزلہ کلام نفسی کے تصور کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ اس میں الفاظ اور آواز کو کلام سے خارج کر کے صرف ذہن میں موجود معانی کے لیے یہ تعبیر استعمال کی گئی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے کلام کی کوئی الگ تعریف کرنا جو انسانی کلام سے اپنی ماہیت میں مختلف ہو اور اس میں آواز اور صوت کی ضرورت نہ ہو، قابل قبول نہیں۔ کلام کا ایک ہی مفہوم ہے اور اس مفہوم میں اس کی نسبت اللہ تعالی ٰ کی طرف کرنا اس کی تنزیہ اور قدم کے خلاف ہے، اس لیے اللہ کی طرف کلام کی نسبت اس کی ذاتی اور قدیم صفت کے طور پر نہیں، بلکہ اس کے تخلیق کردہ کلام کے معنی میں ہی ہو سکتی ہے جس کا پہلے وجود نہیں تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی مصلحت کے لیے اسے وجود بخشا۔ 1
معتزلہ اسی ضابطے کا اطلاق اخلاقی تصورات پر بھی کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مثلاً ظلم اور عدل کی تعریف انسانوں کے لیے الگ اور خدا کے لیے الگ نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جب ہم عدل اور ظلم کے الفاظ بولتے ہیں (یا مثال کےطور پر شرعی نصوص میں اللہ کے لیے ظلم یا عدل کی تعبیرات استعمال کی جاتی ہیں) تو ان کا وہی مفہوم مراد لینا ضروری ہے جو انسانی زبان میں سمجھا جاتاہے، کیونکہ انسانی زبان کی تعبیرات انھی مفاہیم کے لیے اختیار کی جاتی ہیں جو انسانوں کے مابین معروف ہوں اور شارع نے بھی جب انسانوں کی راہ نمائی کے لیے انسانی زبان ہی کو ذریعہ بنایا ہے تو لازم ہے کہ شارع کے کلام میں بھی اخلاقی تصورات سے متعلق تعبیرات کا وہی مفہوم مراد ہو جن کے لیے یہ تعبیرات وضع کی گئی ہیں۔
انه لا یجوز ان نثبت له تعالی لونا مخالفا للالوان المعقولة وحرکة مخالفة للحرکات کما لایجوز ان نثبت جسما بخلاف صفة الاجسام المعقولة ولا یجوز ان نفصل بینهما بان الجسم جنس واحد ولیس کذلک اللون والحرکة ولذلک لا یجوز ان یقال ان احسانه یخالف المعقول من الاحسان وان ذلک یصح فیه من حیث کان الاحسان تختلف اجناسه۔ 2
’’یہ جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالی ٰ کے لیے کوئی رنگ ثابت کریں جو (اپنی ماہیت میں) انسانی عقل میں آنے والے رنگوں سے مختلف ہو، یا ایسی حرکت ثابت کریں جو عام حرکات سے مختلف ہو۔ اسی طرح عقل کے لیے قابل فہم اجسام سے مختلف کوئی جسم بھی اللہ کے لیے ثابت کرنا ہمارے لیے جائز نہیں، اور ہم یہ کہہ کر دونوں میں فرق نہیں کر سکتے کہ جسم تو جو بھی ہوگا، ایک جیسا ہوگا، لیکن رنگ اور حرکت کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اسی اصول پر یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ اللہ کا احسان اس احسان کے برخلاف ہوتا ہے جو عقل سے سمجھ میں آتا ہے، اور یہ کہ اللہ کے احسان کا مفہوم کچھ اور ہو سکتا ہے، کیونکہ احسان کی قسمیں مختلف ہوتی ہیں۔‘‘
قاضی عبد الجبار اس امکان کی بھی نفی کرتے ہیں کہ انسانی زبان میں مستعمل الفاظ وتعبیرات کا مفہوم، شرع کی روشنی میں متعین کیا جائے، یعنی ان کا لغوی مفہوم ہی وہ سمجھا جائے جو انسانی استعمالات کے بجائے شرع سے واضح ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی زبان کا ماخذ شرع نہیں، بلکہ شرع انسانی زبان کے وجود میں آنے کے بعد وارد ہوتی ہے اور انسانوں کے وضع کردہ الفاظ وتعبیرات ہی سے مدد لیتے ہوئے ان کی راہ نمائی کرتی ہے۔ لکھتےہیں:
ولا یجوز ان یکون وجود ذلک سمعا، لان اللغات لا تتعلق بالسمع بل السمع یرد علیھا لانه لولا تقدم اللغةلماامکننامعرفةالسمع البتة۔3
’’یہ جائز نہیں کہ ان الفاظ کا مفہوم، شرع کے ذریعے سے وجود میں آیا ہو، کیونکہ زبانیں، شرع سے ماخوذ نہیں ہوتیں، بلکہ شرع زبانوںکے بعد وارد ہوتی ہے، کیونکہ اگر زبان پہلے سے موجود نہ ہوتی تو ہمارے لیے شرع کو سمجھنا بھی کسی طور پر ممکن نہ ہوتا۔‘‘
معتزلہ کا موقف یہ ہے کہ خدا کے وجود اور اس کی صفات کی معرفت کا واحد ذریعہ عقل ہے۔ صفات الٰہی میں اللہ کے علم اور قدرت کے ساتھ اس کا حکیم ہونا شامل ہے جس کا مفہوم عبث یعنی بے مقصد اور بے فائدہ کاموں اور جھوٹ اور ظلم جیسے قبائح سے اجتناب کرنا ہے۔ انسانی عقل فطری طور پر محاسن اور قبائح کی اس تقسیم سے واقف ہے اور اس کی حیثیت ایک بدیہی چیز کی ہے جس کا انکار سفسطہ کے زمرے میں آتا ہے۔ چنانچہ ہر عاقل یہ جانتا ہے کہ ظلم کرنا اور نعمت کی ناشکری کرنا برے افعال ہیں، جبکہ کسی کے ساتھ بھلائی کرنا، نعمت کا شکر ادا کرنا، امانت کو واپس لوٹانا اور قرض ادا کرنا وغیرہ اچھے افعال ہیں۔ انسان کے ذہن میں ان افعال کا تصور اس حکم کے بغیر متحقق ہی نہیں ہوتا، اور کوئی بھی فعل جب اس حیثیت میں انسانی عقل کے سامنے آتا ہے کہ وہ ظلم یا جھوٹ یا ناشکری پر مبنی ہے تو اپنے قبیح ہونے کے تصور کے ساتھ ہی آتا ہے۔ اس حکم سے منفک ہو کر ظلم اور جھوٹ وغیرہ کا انسانی عقل میں متصور ہونا، ناممکن ہے۔ 4
معتزلہ ان قبائح کے قبح کی معرفت کو شرع پر موقوف قرار دینے کو درست نہیں سمجھتے، کیونکہ انسانوں کا ان سے فطری طور پرواقف ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ اگر حسن وقبح کی پہچان کو شرع پر موقوف مانا جائے تو پھر صورت حال یہ ہونی چاہیے کہ جو لوگ شرع سے واقف نہیں یا اس کو تسلیم نہیں کرتے، وہ کسی فعل پر اخلاقی حکم نہ لگا سکتے ہوں یا نہ لگاتے ہوں، حالانکہ یہ معلوم ہے کہ دہریہ اور ملحدین جو خدا کو نہیں مانتے، وہ بھی حسن اور قبح کا تصور رکھتے ہیں اور شرع کو مانے بغیر بھی افعال کو قابلِ مدح اور قابلِ ذم قرار دیتے ہیں۔ 5
معتزلہ کا ایک اہم استدلال یہ بھی ہے کہ خود شرع کا معتبر ہونا خدا کی صفات یعنی توحید اور عدل کو، شرع کے ورود سے پیشتر، عقلا ًجان لینے پر موقوف ہے اور ان دونوں صفات اور ان کی تفصیلات کو عقل کی مدد سے سمجھ لینے کے بعد ہی شرع انسان کے لیے دلیل بن سکتی ہے۔ اگر توحید اور عدل کی معرفت کا ذریعہ بھی شرع کو قرار دیا جائے تو یہ غیر منطقی اور غیر عقلی طریق استدلال ہوگا، کیونکہ جب تک خود شارع اور اس کی صفات کی معرفت انسان کو حاصل نہ ہو، وہ اس کی طرف سے دی گئی شرع کی حیثیت کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔
اعلم ان ما تفتقر صحة السمع الیه لا یجوز ان یحتاج فیه الی سمع، لانه یودی الی حاجة کل واحد منهما الی صاحبه، وذلک یوجب الا یوجدا جمیعا، وقد بینا ان السمع ھو الکتاب والسنة، ولا یصح معرفة صحتھما الا مع العلم بانه تعالی حکیم لا یفعل القبیح، فلو لم یمکن معرفة ذلک عقلا لم یصح معرفة السمع البتة، وقد بینا ان المعجز یدل علی النبوات کدلالة التصدیق، فاذا لم یصح ان یعلم تعالی صادقا بقوله وقول الرسول فیجب الا تصح معرفة النبوات بقولھما وذلک یوجب ان یعرف من جھة العقل۔ 6
’’جان لو کہ وحی کا حجت ہونا جس دلیل پر منحصر ہو، خود اس دلیل کو محتاج وحی قرار دینا درست نہیں، کیونکہ اس صورت میں دونوں ایک دوسرے پر منحصر قرار پائیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں ہی کا اثبات نہیں کیا جاسکے گا۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ وحی، کتاب وسنت ہے اور ان کے حجت ہونے کا علم اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کہ یہ جانا جائے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہیں اور کسی قبیح کا ارتکاب نہیں کرتے۔ اب اگر اس بات کو عقلاً جاننا ممکن نہ ہو تو وحی کے حجت ہونے کا علم بھی نہیں ہو سکتا۔ ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ معجزہ، نبوت پر اس پہلو سے دلیل ہوتا ہے کہ اس سے نبی کا صادق ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اب اگر یہ بات جاننا ممکن نہ ہو کہ اللہ اور رسول اپنی بات میں سچے ہوتے ہیں تو ان کے بتانے سے نبوات کا صحیح ہونا بھی معلوم نہیں ہو سکتا اور یہ چیز لازم کرتی ہے کہ ان کے صدق کا علم عقل کے ذریعے سے حاصل کیا جائے۔‘‘ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
ان العلم بالقبائح من کمال العقل، وانما قلنا انه من کمال العقل لان ورود المحاظر والتکلیف یفتقر الیه، ولا یحصل الخوف من ترک النظر الا بعدہ، ولا یصح نفی القبائح عن اللہ تعالی الا بعد العلم بھا، ولھذا قلنا ان من قال فی الاشیاء انھا تقبح للنھی وفی المحسنات انھا تحسن للامر انه لا نامن ان کل شیئ امر تعالی به فھو قبیح وکل ما نھی عنه فھو یحسن، لانه لا سبیل له الی ان یعرف کون القدیم تعالی حکیما مع تجویز القبائح علیه۔ 7
’’قبائح کو جاننا عقل کے کمال کی علامت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نواہی کا ورود اور انسان کو مکلف ٹھہرایا جانا اس کے جاننے پر منحصر ہے۔ غور وفکر کو ترک کرنے سے انسان کا ڈرنا بھی اس کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے قبائح کی نفی بھی اس کے بعد ہی ممکن ہے کہ پہلے ان قبائح کو جانا جائے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا موقف یہ ہے کہ اشیاء اس لیے قبیح ہوتی ہیں کہ ان سے منع کیا گیا ہے اور اس لیے اچھی بن جاتی ہیں کہ ان کا حکم دیا گیا ہے، ان کی بات ماننے کے بعد اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے، وہ حقیقت میں قبیح ہوں اور جن چیزوں سے منع کیا ہے، وہ درحقیقت اچھی ہوں، کیونکہ (اگر چیزیں فی نفسہٖ اچھی اور بری نہیں ہوتیں تو) اللہ تعالیٰ کے لیے قبائح کے ارتکاب کو جائز مانتے ہوئے اس بات کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ وہ ایک صاحب حکمت ہستی ہے۔‘‘
اس کی توضیح یہ ہے کہ بعض اخلاقی قبائح، مثلاً جھوٹ کے قبح کو، جب کہ اس کے ساتھ کوئی دفع ضرر وابستہ نہ ہو، شرع سے پہلے تسلیم کرنا خود شرع کے اعتبار کے لیے ضروری ہے، کیونکہ اگر یہ فی نفسہٖ قبیح نہ ہو، بلکہ اس کا قبح خدا کی طرف سے نہی کی وجہ سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خود خدا کے لیے جھوٹ بولنا قبیح نہیں ہے، کیونکہ اسے کوئی حکم دینے والا نہیں ہے۔ اب اگر خدا کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے تو پھر شرع پر اعتبار کی بنیاد ہی منہدم ہو جاتی ہے، کیونکہ شرع کا اعتبار اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے انسانوں کو جو کچھ بتایا اور جو وعدے وعید بیان کیے ہیں، وہ بالکل سچ ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا کے لیے جھوٹ بولنا روا ہے تو پھر اس امکان کی نفی کسی طرح نہیں کی جا سکتی کہ جو کچھ اس نے شرع کے ذریعے سے انسانوں کو بتایا ہے، وہ بھی نعوذ باللہ جھوٹ ہو جو خدا نے اس لیے روا رکھا ہو کہ اس پر جھوٹ نہ بولنے کی کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے وعدے کے برخلاف، انبیاء کے نیک اعمال کا صلہ سرکش اور فرعون صفت لوگوں کو، جبکہ بدکاروں کے گناہوں کا عذاب انبیاء وصلحاء کو دے دے۔ 8
معتزلی فکر میں کسی فعل کے حسن یا قبح کو انسانی عقل میں اس کے قابل مدح یا قابل ذم ہونے کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے، چنانچہ حسن ایسا فعل ہے جس کا کرنے والا ازروئے عقل مدح کا مستحق ہو اور قبیح وہ ہے جس کا کرنے والا ذم کا سزاوار سمجھا جائے۔ استحقاق مدح وذم میں بنیادی حوالہ نفع وضرر ہے، یعنی جس فعل سے کسی کو نفع پہنچے، اس کو عقل مستحسن قرار دیتی، جبکہ بلا جواز ضرر پہنچانے کو قبیح گردانتی ہے۔ نفع رسانی اور ضرر رسانی کی صورتیں اللہ تعالیٰ اور انسانوں کے لیے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خود اپنی کوئی غرض نہیں رکھتے، اس لیے اللہ کے لیے خود اپنے آپ کو نفع پہنچانا یا ضرر سے بچانا ناقابل تصور ہے، لہٰذا اللہ کے افعال کے قابل مدح ہونے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ مخلوق کے فائدے کے لیے کیے جائیں۔ اس کے برعکس انسان بہت سی اغراض رکھتا ہے، یعنی نفع یا ضرر دونوں کا محل ہے، اس لیے اس کے کسی فعل کے قابل مدح یا قابل ذم ہونے کا مدار اس پر ہے کہ وہ اس کے لیے فائدہ مند ہے یا ضرر رساں۔ پس انسان کو فائدہ پہنچانے والے افعال عقلاً مستحسن اور نقصان کا موجب بننے والے افعال عقلا ًقبیح ہیں۔
اس وضاحت کی روشنی میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ معتزلہ جب افعال کے حسن اور قبح کے بیان کے لیے یہ تعبیر اختیار کرتے ہیں کہ یہ خود افعال کے اندر پایا جانے والا وصف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ حسن یا قبیح قرار پاتے ہیں تو اس سے مراد کسی فعل کا، فاعل کے لیے موجب نفع یا موجب ضرر ہونا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں معتزلہ کے استدلال کی درست تفہیم کو پیش نظر رکھا جائے تو ان پر وہ معروف اعتراض وارد نہیں ہوتا جو ان کے ناقدین نے وارد کیا ہے، یعنی یہ کہ اگر حسن یا قبح کسی فعل کا ذاتی وصف ہوتا ہے تو پھر ایک ہی فعل مثلاً قتل، ایک حالت میں حسن اور دوسری حالت میں قبیح کیسے ہو سکتا ہے۔ قاضی عبد الجبار کی مذکورہ توضیحات ملحوظ رہیں تو معلوم ہوگا کہ حسن یا قبح کو کسی فعل کا غیر منفک ذاتی وصف قرار دینا معتزلہ کے موقف کی درست تعبیر نہیں۔ درست تعبیر یہ ہے کہ حسن یا قبح فعل کے عوارض میں سے ہوتا ہے اور ایک طرح کے حالات میں اگر ایک فعل موجب نفع ہو تو اسے حسن اور دوسری طرح کے حالات میں موجب ضرر ہو تو اسے قبیح قرار دیا جا سکتا ہے۔
معتزلہ کے مذکورہ موقف پر ان کے اور دوسرے کلامی گروہوں کے درمیان، جو اللہ تعالیٰ کے افعال کے حسن وقبح کا تعین فعل کے داخلی وصف اور ہیئت کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ذاتی وصف کے طورپریا اس کی طبعی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے تناظر میں کرتے ہیں، ایک بنیادی اختلاف متفرع ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک گروہ کا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا صادق ہونا اس کی ذاتی صفت ہے اور جھوٹ کی صفت اس میں اسی طرح نہیں پائی جا سکتی جیسے جہل یا عجز نہیں پایا جا سکتا۔ یعنی جس طرح جہل اور عجز، خدا کے نفس تصور کے منافی ہے اور جاہل اور عاجز ہوتے ہوئے کسی ہستی کو خدا ہی نہیں مانا جا سکتا، اسی طرح سچا ہونا بھی اسی طرح اس کی ذات کا لازم اور جھوٹ کا صدور اس سے محال ہے۔ دوسرے گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حسن وقبح کا منبع خدا کی فطرت ہے، یعنی خدا فطرتا جن چیزوں کو پسند کرتا ہے، وہ اچھی اور جن کو ناپسند کرتا ہے، وہ بری ہیں۔
معتزلہ کے نزدیک یہ دونوں توجیہات قابل قبول نہیںاور کسی فعل کے حسن وقبح کی وجہ خودفعل میں ماننا ضروری ہے، چنانچہ صدق نہ تو ان معنوں میں خدا کا ذاتی وصف ہے کہ خدا اس کے خلاف کرنے پر قادر ہی نہ ہو اور نہ فعل کے حسن یا قبح کا منبع خدا کی طبعی پسندیدگی یا کراہت ہے۔ صادق ہونا خدا کا ارادی انتخاب ہے اور یہ صدق کے حسن کی وجہ سے ہے۔ خدا اس کی ضد یعنی کذب پر قدرت رکھتاہے، لیکن اس کے قبیح ہونے کی وجہ سے اس کا ارتکاب نہیں کرتا، اور اسی لیے اس کا صادق ہونا اس کو مستحق مدح بناتا ہے۔ معتزلہ کے اس اصرار کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک حسن یا قبح کی تعریف میں فعل کا قابل مدح یا قابل ذم ہونا بنیادی ہے جو کسی اختیاری وصف پر ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی فعل کا حسن یا قبیح ہونا خدا کی طبعی پسند یا ناپسند کا نتیجہ مانا جائے تو یہ ایک غیر اختیاری چیز بن جاتی ہے جسے قابل مدح یا قابل ذم نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ قاضی عبد الجبار کہتے ہیں کہ حسن یا قبح کو خدا کی طبع کا نتیجہ قرار دینا درحقیقت فعل سے حسن یا قبح کو سلب کر لینا ہے جس سے یہ تعبیر ہی بے معنی ہو جاتی ہے۔9
اسی نکتے کے پیش نظر معتزلہ قبیح افعال کو خدا کی قدرت کے تحت مانتے ہیں، یعنی خدا انھیں کرنے پر قادر تو ہے، لیکن اپنے اختیار سے کوئی قبیح فعل نہیں کرتا، اگرچہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔معتزلہ اس نکتے کی بھی عقلی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ خدا، قدرت رکھنے کے باوجود، کوئی قبیح فعل کیوں نہیں کرتا۔ معتزلہ کے نزدیک یہ نتیجہ دو مقدمات سے اخذ ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ خدا افعال کے قبح کو جانتا ہے، کیونکہ اس کا علم تمام معلومات کو محیط ہے اور حسن وقبح بھی معلومات میں شامل ہے۔ دوسرا یہ کہ خدا کو کسی قبیح فعل کے ارتکاب کی کوئی حاجت نہیں، کیونکہ وہ حاجت سے منزہ ہے۔ اگر انسان پر قیاس کر کے دیکھا جائے تو انسان کسی قبیح فعل کا ارتکاب یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ اسے اس کے قبح کا علم نہیں ہوتا اور یا اپنی کسی غرض یا ضرورت کی وجہ سے وہ فعل کے قبح کو جانتے ہوئے بھی اس کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ چونکہ خدا ان دونوں کمزوریوں سے پاک ہے، اس لیے عقلی طور پر یہ ماننا لازم ہے کہ وہ کوئی قبیح فعل نہیں کرتا۔10
پہلی یہ کہ نفع کے حصول یا ضرر سے بچنے کا عمل اگر اضطراراً اور مجبوراً یعنی کسی فوری فائدے کو حاصل کرنے یا فوری نقصان سے بچنے کے لیے ہوگا تو وہ قابل مدح نہیں۔ اسی وجہ سے کھانا پینا اور اپنے آپ کو دشمنی یا کسی موذی چیز سے بچانا اگرچہ حصول نفع یا دفع ضرر کے لیے ہوتا ہے، لیکن ا س کی نوعیت اضطراری عمل کی ہوتی ہے جس پر انسان کو قابل مدح تصور نہیں کیا جاتا۔ مستحق مدح ہونے میں اس نفع یا ضرر کا اعتبار ہے جو فوری طور پر انسان کو درپیش نہ ہو، لیکن پیشگی آگاہی کی وجہ سے انسان اپنے اختیار سے ان افعال کو بجا لانے کا فیصلہ کرے جو نتیجے کے اعتبار سے اس کو نفع پہنچائیں گے اور اسی طرح ایسے افعال سے اجتناب کرے جو باعتبار نتیجہ اس کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ 11
دوسری یہ کہ کسی انسان کے فعل کا قابل مدح یا قابل ذم ہونا بنیادی طور پر خود اس کی اپنی غرض کے لحاظ سے ہونا ضروری ہے، یعنی کسی دوسرے کا فائدہ ضمناً اور ثانوی طور پر تو مقصود ہو سکتا ہے، لیکن کوئی ایسا فعل جس میں صرف دوسرے کا نفع ہو، اس کا کرنا انسان کو مستحق مدح نہیں بناتا اور اسی لیے ایسے کسی فعل کو حسن بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اسی نکتے کی روشنی میں معتزلہ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ انبیاء کو رسالت کی جو ذمہ داری دی جاتی ہے، اس کو ادا کرنا ان پر اصلا ً اس لیے واجب ہے کہ وہ خود ان کے نفع کو متضمن ہے۔ معتزلہ فریضہ رسالت کی ادائیگی کو اصلاً لوگوں کی نفع رسانی کی بنیاد پر واجب قرار دینے کو درست نہیں سمجھتے، ہاں ضمناً انبیاء کا داعیہ خلق خدا کو فائدہ پہنچانا بھی ہو سکتا ہے۔12
کسی فعل کو عدل یا ظلم قرار دینے سے متعلق متکلمین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اس کی تعیین کا معیار فاعل کی حیثیت اور اس کا استحقاق ہے۔ اگر فاعل انسان کی طرح ایک محکوم اور محتاج مخلوق ہے تو وہ اپنے خالق وحاکم کے بتائے ہوئے احکام کا پابند ہے، لیکن اگر فاعل اللہ تعالیٰ ہے تو اس پر کسی اخلاقی اصول کی پابندی واجب نہیں، کیونکہ وہ خود مختار اورمالک مطلق ہے اور اس کے علاوہ کوئی شارع موجود نہیں جو اسے کسی چیز کا پابند کر سکے۔ یوں انسانی افعال کا حسن وقبح کا تعین تو اس سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کس چیز کا حکم دیا اور کس سے منع کیا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کے افعال کا حکم ایک دوسرے عقلی تصور سے طے ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ مالک کو اپنی ملکیت میں جیسے اس کا جی چاہے، تصرف کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اس تصور کے تحت اللہ کے تمام افعال علی الاطلاق حسن سے متصف ہیں، چاہے وہ انسانی اخلاقیات کی سطح پر قبیح سمجھے جاتے ہوں۔
امام غزالی نے اس کی اطلاقی تفہیم کے لیے، مثال کے طور پر، انسانوںکو ظلم، گناہ اور فتنہ وفساد کی آزادی دینے کا اور جانوروں کو دوسرے جانوروں یا انسانوں کے ہاتھوں پہنچنے والی تکلیف اور اذیت کا حوالہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک آقا اپنے مملوکوں کو آپس میں لڑنے، ایک دوسرے پر زیادتی کرنے اور قتل وغارت برپا کرنے کی اجازت دیے رکھے تو یہ عقلی طور پر ایک قبیح فعل ہے۔ اسی طرح بے گناہ جانوروں کو اذیت اور تکلیف پہنچانے کو روا رکھنا بھی عقلاً قبیح ہے۔ تاہم دنیا میں یہ دونوں چیز ہمارے مشاہدے میں ہیں اور انسانوں کی باہمی اخلاقیات کے اعتبار سے ان کو حسن نہیں کہا جا سکتا۔ ان کو حسن قرار دینا اسی اصول پر ممکن ہے کہ خدا کائنات اور تمام مخلوقات کا مالک ہے اور وہ جو بھی تصرف کرنا چاہے، اسے اس کا حق حاصل ہے اور مالک مطلق ہونے کی وجہ سے اس کا ہر قسم کا تصرف اور فیصلہ حسن ہی ہوگا۔13
اس موقف کے برعکس، معتزلہ کے نزدیک حسن یا قبح کی تعریف، فاعل کے لحاظ سے مختلف نہیں ہو سکتی اور فاعل کی حیثیت، مثلاً اس کا رب اور خالق ہونا یا مربوب اور مخلوق ہونا، فعل کے حسن یا قبح کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ہر وہ چیز جس کو قبیح تصور کیا جاتا ہے، اس کا صدور جس سے بھی ہو، اسے قبیح ہی ماننا لازم ہے، اور یہ کہنا درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرے، اس کا کوئی فعل قبیح نہیں ہو سکتا۔ قاضی عبد الجبار کہتے ہیں کہ اس کی نوعیت حرکت اور جسم کے باہمی تعلق کی ہے۔ جیسے حرکت، جسم کے بغیر متصور نہیں ہو سکتی اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ حرکت سے متصف ہے، لیکن جسم سے نہیں، اسی طرح ظلم اور قبح کا تصور انسانی عقل میں لازم وملزوم ہے اور کسی چیز کوظلم تصور کرتے ہوئے قبح سے مبرا سمجھنا ناممکن ہے۔ 14
معتزلہ کی طرف سے حسن یا قبح کا تعین فاعل کی حیثیت کے لحاظ سے کرنے کے تصور پر متعدد اعتراضات بھی وارد کیے جاتے ہیں جن کی مختصر وضاحت حسب ذیل ہے:
قاضی عبد الجبار یہاں ایک انسانی مثال کو خداپر منطبق کرنے کے استدلال کا جواب دیتے ہیں۔ استدلال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مخصوص رقبہ زمین یا عمارت کا مالک ہو اور وہ کسی شخص کو وہاں آنے سے منع کر دے تو اس شخص کے لیے اس کی خلاف ورزی اخلاقی طور پر قبیح ہوگی۔ اس مثال میں اس آدمی کا، زمین کا مالک ہونا اور اس حیثیت سے کسی کو وہاں آنے سے منع کرنا اس کی بنیاد بن رہا ہے کہ متعلقہ شخص کے لیے وہاں جانا قبیح قرار پائے۔ فرض کریں، یہی آدمی اس شخص کو کسی دوسرے کی زمین میں جانے سے منع کرے تو اس کی وجہ سے اس کا وہاں جانا قبیح نہ بن جائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ چونکہ تمام مخلوقات کا مالک ہے، ا س لیے وہ اپنی ملکیت میں جو بھی حکم دے، اس کے مالک ہونے کی وجہ سے اس کی پابندی ضروری ٹھہرتی ہے اور اسی حیثیت سے اس پابندی پر عمل حسن اور اس کی خلاف ورزی قبیح بن جاتی ہے۔
قاضی عبد الجبار اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں انسان کی مثال پر اللہ تعالیٰ کو قیاس کرتے ہوئے یہ نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ کسی انسان کو دوسرے انسان کو اپنی ملکیت میں تصرف یا دخل اندازی سے روکنا اس کی کسی مصلحت کی بنیاد پر ہوتا ہے، چنانچہ وہ اگر کسی کو پابند کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی اس وجہ سے قبیح نہیں بنتی کہ وہ زمین کے مالک کے حکم کے خلاف ہے، بلکہ اس وجہ سے قبیح ہوتی ہے کہ اس سے مالک کو ضرر پہنچتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اغراض سے بالکل بالاتر ہے اور اس کا کوئی فعل یا فیصلہ اپنی کسی مصلحت کے لیے نہیں ہوتا، اس لیے مذکورہ مثال کے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی کو کسی کام سے اس لیے روکتا ہے کہ اس سے اللہ کو کوئی ضرر لاحق نہ ہو۔ پس انسانی سطح پر ایک مالک کے حکم کی پابندی جس اخلاقی وجہ سے ضروری قرار پاتی ہے، وہ خدا کے احکام میں نہیں پائی جاتی، بلکہ یہ ماننا لازم ہے کہ وہ محض مالک ہونے کی حیثیت سے جیسا بھی حکم چاہے، نہیں دے دیتا، بلکہ حکیم اور عادل ہونے کی وجہ سے وہی فیصلہ کرتا ہے جس میں مخلوق کی مصلحت اور نفع ہو۔17
مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ معتزلہ کے نظام فکر میں حسن وقبح کی بحث صفات باری کی بحث سے جڑی ہوئی اور اس کا ایک ضمیمہ ہے اور اس کا اصل اور بنیادی تناظر، انسانی افعال کی اخلاقی حیثیت کے تعین کے بجائے خود اللہ تعالیٰ کے افعال کے بارے میں جواز وعدم وجواز کے معیارات کی تفہیم ہے۔
معتزلہ کا موقف یہ ہے کہ حسن وقبح کے مذکورہ مفہوم کے لحاظ سے خدا کے تمام افعال کا حسن سے متصف ہونا ضروری ہےجس کے فاعل کو انسانی عقل قابل مدح سمجھتی ہو۔ خدا کا کوئی فعل قبیح یعنی ایسا نہیں ہو سکتا جسے انسانی عقل قابل مذمت گردانتی ہو، کیونکہ قبیح کا ارتکاب کسی غرض کی وجہ سے ہو سکتا ہے جس سے خدا منزہ ہے۔ اس کی تفصیل کرتے ہوئے معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک صاحب ارادہ واختیار ہستی ہے، اور اس لحاظ سے اس پر ابتداء ًکوئی بھی فعل کرنا لازم نہیں، تاہم یہ لازم ہے کہ وہ جو بھی فعل کرے، وہ حسن ہو، قبیح نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کے ہر فعل کی طرح مخلوقات کو پیدا کرنے کے فعل میں بھی حسن کا پایا جانا لازم ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی کوئی غرض نہیں ہے، اس لیے مخلوقات کو پیدا کرنے میں حسن کا ایک ہی پہلو ہو سکتا ہے، یعنی مخلوقات کو نفع پہنچانا۔ مخلوق کو ضرر پہنچانے کی غرض سے پیدا کرنا درست نہیں ہو سکتا، کیونکہ عقلا ًکسی دوسرے کو ضرر پہنچانا قبیح ہے اور خدا کے لیے قبیح کا ارتکاب جائز نہیں۔
معتزلہ مخلوقات کی تخلیق میں ان کے نفع کو تین پہلووں سے بیان کرتے ہیں۔ جو مخلوقات صاحب عقل وشعور نہیں، ان کو اللہ تعالیٰ محض احسان اور تفضل کے طور پر نفع پہنچاتے ہیں، اس لیے ان کو ثواب یعنی عمل کے صلے کے طورپر نفع نہیں پہنچایا جا سکتا، کیونکہ ثواب کے لیے فاعل کا باشعور اور صاحب اختیار ہونا ضروری ہے۔ کچھ مخلوقات کو بظاہر ضرر پہنچایا جاتا ہے، لیکن وہ مآلا ان کے لیے نفع ہی ہوتا ہے، کیونکہ ان آلام اور امراض واسقام کے عوض میں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلہ اور انعام دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال مختلف جانوروں کا دوسرے جانوروں کی خوراک بننا اور آلام میں مبتلا ہونا ہے جس پر معتزلہ کے نزدیک انھیں اللہ کی طرف سے صلہ دیا جائے گا۔ اسی طرح انسانوں کا تکلیف یا بیماری میں مبتلا ہونا اسی حکمت کے تحت ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت وطاعت کی طرف متوجہ ہوں۔ یوں تکلیف اور بیماری بھی ان کے لیے مآلا نفع ہی کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مخلوقات میں سے جو صاحب شعور اورصاحب اختیار ہیں، انھیں مکلف ٹھہرانا بھی اسی لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو مشقت میں ڈال کر عبادت وطاعت کا راستہ اختیار کریں اور ثواب کے حق دار بن جائیں۔ 18
معتزلہ کے موقف کے مطابق انسان کو مکلف اور جزا وسزا کا حقدار بنانا اللہ پر ابتدءاً واجب نہیں تھا۔ اس نے مخلوقات کو پیدا کرنے اور خاص طور پر انسان کو شعور واختیار کے ساتھ مکلف ٹھہرانے کا فیصلہ محض اپنے کرم اور انعام کے طور پر کیا۔ معتزلہ اس کو اللہ کے لطف اور تفضل سے تعبیر کرتے ہیں۔ اللہ کا یہ فیصلہ اپنی کسی غرض پر مبنی نہیں تھا، کیونکہ وہ غرض اور حاجت سے بالاتر ہے۔ یہ محض انسان کے فائدہ کے لیے ہے، اس لیے حسن ہے جس پر اللہ تعالیٰ مدح کا مستحق ہے، لیکن یہ اس پر واجب نہیں تھا۔ یعنی اگر وہ ایسا نہ کرتا تو مستحق ذم نہ ہوتا۔ تاہم جب اس نے یہ فیصلہ کر لیا تو اب وہ ازروئے عدل پابند ہے کہ تکلیف کے سارے لوازم اور شرائط کو پورا کرے جس سے اس کا یہ فیصلہ حسن قرار پائے۔ اس لیے انسان کو اختیار اور آزادی دینا، حسن اور قبح کی پہچان کے لیے عقل سے بہرہ ور کرنا، جن افعال کا حسن وقبح عقل سے معلوم نہیں ہو سکتا، ان کی پہچان کے لیے انبیاء کو مبعوث کرنا، انبیاء کی معرفت کے لیے ان کی تائید میں معجزات ظاہر کرنا، اور تکلیف کے نتیجے میں انسان کے اعمال کی جزا وسزا دینا خدا پر واجب ہے۔ اگر وہ اس کے بغیر انسان کو مکلف ٹھہرائے یا جزا وسزا نہ دے تو یہ قبیح فعل ہوگا جو خدا سے صادر نہیں ہو سکتا۔ معتزلہ مذکورہ تمام امور کے التزام کو’عدل‘ سے تعبیر کرتے ہیں جو خدا پر عقلاً واجب ہے۔
ولهذا مقدمات یجب ان تعرف اولا، منھا ان الافعال معقولة فی الشاھد، ومنھا تمیز فعلنا عن فعله تعالی، ومنھا تمیز الحسن من القبیح وضروبه، ومنھا ان القبیح لا یجوز ان یقع من فاعل دون فاعل۔ وله فروع تتصل به من بعد، ومنھا ان افعال العباد حادثة من قبلھم ولیس من خلقه تعالی، ومنھا انہ لا یکلفھم الا ما یطیقون، وان قدرتھم متقدمة لما یفعلون، ومنھا انه تعالی لا یعاقب من لا ذنب له ولا بذنب غیره، وان الطفل لا یعذب وان کان ابواه کافرین، ومنھا انه لا یرید القبیح ولا یحبه ولا یرضاه ولا یشاؤه بل یکرھه ویسخطه، ومنھا انه لا بد ان یزیح العلل فی التکلیف۔19
’’اس کے کچھ مقدمات ہیں جنھیں پیشگی جاننا ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ عالم شہود میں افعال کو عقلا سمجھنا ممکن ہے، اور یہ کہ ہمارے افعال، اللہ تعالیٰ کے افعال سے الگ ہیں، اور یہ کہ اچھے افعال اور برے افعال کے مابین امتیاز پایا جاتا ہے، اور یہ کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ قبیح فعل کا ارتکاب ایک فاعل کے لیے تو ناجائز ہو اور دوسرے کے لیے نہ ہو۔ اس کے بعد اس کی کچھ فروع ہیں جو اس پر مرتب ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بندوں کے افعال خود ان کی طرف سے وجود میں لائے جاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ نہیں ہوتے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ بندوں پر وہی ذمہ داری ڈال سکتے ہیں جس کی وہ طاقت رکھتے ہیں۔ یہ بھی کہ بندوں کی قدرت، ان کے افعال سے مقدم ہوتی ہے۔ یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بے گناہ کو اور اسی طرح ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کے گناہ کی سزا نہیں دیتے۔ یہ بھی کہ بچے کو عذاب نہیں دیاجا سکتا، چاہے اس کے ماں باپ کافر ہوں۔ یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نہ تو قبیح فعل کا ارادہ کرتے ہیں، نہ اس کو پسند کرتے ہیں اور نہ اس کے ہونے کو چاہتے ہیں، بلکہ اس کو ناپسند کرتے اور اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ یہ لازم ہے کہ ٰانسان کے لیے تکلیفی ذمہ داری اٹھانے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہو سکتی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو دور کرے۔‘‘
معتزلہ یہاں اس اعتراض کا جواب بھی دیتے ہیں کہ بعض افعال جن کا انسانوں سے صادر ہونا مسلمہ طور پر قبیح ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ سے صادر ہوتے ہیں تو معتزلہ بھی انھیں قبیح نہیں کہتے۔ مثلاً کسی پر دیوار گرا کر یا اسے پانی میں ڈبو کر مار دینا انسانوں کے لیے قبیح ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے قبیح نہیں ہے۔ اسی طرح بچوں اور جانوروں کو اگر انسان تکلیف پہنچائیں تو یہ قبیح ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا ایسا کرنا قبیح نہیں ہے۔ قاضی عبد الجبار کہتے ہیں کہ ان افعال کا اللہ تعالیٰ سے صادر ہونا ایک خاص وجہ سے حسن ہے جو انسانوں میں نہیں پائی جاتی، اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ انسانوں، بچوں اور جانوروں کو پہنچنے والی اس تکلیف کا انھیں صلہ دے گا اور یوں یہ تکلیف ان کے لیے انعام اور صلے کا ذریعہ بننےکی وجہ سے ان کے حق میں اللہ کا لطف وکرم بن جاتی ہے۔ گویا تکلیف اگر عوض اور صلے کے ساتھ ہو تو وہ حسن ہے، جبکہ انسان کسی کو مارنے یا اسے تکلیف دینے کا کماحقہ صلہ دینے پر قادر نہیں، اس لیے اس کی طرف سے تکلیف دیا جانا قبیح ہے۔20
قاضی عبد الجبار نے اس مشہور اشکال سے بھی تعرض کیا ہے کہ اگر اللہ پر واجب ہے کہ وہ انسانوں کے متعلق وہی فیصلہ کرے جو ’’الاصلح للعباد‘‘ہے تو جن مکلف مخلوقات کے متعلق اللہ کو پہلے سے معلوم ہے کہ وہ اپنے اختیار کا غلط استعمال کر کے ثواب کے بجائے ہلاکت کی حق دار ٹھہریں گی، ان کو مکلف بنانے کو کیسے ان کے لیے موجب نفع قرار دیا جا سکتا ہے؟ (مشہور تاریخی روایت کے مطابق ابو الحسن اشعری نے اسی بحث میں اپنے استاذ جبائی کے سامنے یہ اشکال پیش کیا تھا کہ اگر اللہ پر ’’الاصلح للعباد‘‘ واجب ہے تو پھر اس نے ایسے انسانوں کو کیوں پیدا کیا جن کے متعلق اسے معلوم تھا کہ جب انھیں اختیار دیا جائے گا تو وہ اس کے سوءِ استعمال سے کفر کا انتخاب کریں گے اور یوں مواخذہ کے سزاوار ٹھہریں گے؟ روایت کے مطابق جبائی اس کا جواب نہیں دے سکے اور یوں ابو الحسن اشعری نے اپنی راہیں مسلک اعتزال سے الگ کر لی تھیں۔21 )
قاضی عبد الجبار اس اشکال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ دراصل، کسی مخلوق کو مکلف ٹھہرانے کا حسن اس بنیاد پر ہے کہ اس کو عقل وشعور اور اختیار دے کر یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے نفس کی شہوات پر قابو پاتے ہوئے خود کو ثواب کا حق دار بنا لے۔ یہ بنیادی فیصلہ حسن ہے اور اس کو کسی پہلو سے قبیح نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے بعدکسی کا اپنے اختیار کو غلط استعمال کرنا اور ثواب کے بجائے عقاب کا حق دار ٹھہرنا اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ دوسرے لفظوںمیں، نتیجے اور مآل کے لحاظ سے کسی مخلوق کو لازماً نفع ہی ملے، یہ تکلیف کے حسن ہونے کا تقاضا نہیں۔ اگر تکلیف کا فیصلہ اپنی مذکورہ شرائط کے مطابق فی نفسہٖ حسن ہے تو اس کے منطقی نتیجے کے طور پر کوئی مکلف مخلوق خود اپنے اختیار سے اپنے آپ کو ضرر کا حق دار بنا لے تو اسے قبیح نہیں کہا جا سکتا۔ 22
قاضی عبد الجبار مزید لکھتے ہیں کہ ضرر کو فی نفسہٖ اور مطلقاً قبیح نہیں کہا جا سکتا اور ضرر حسن بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ آخرت میں کفار کو جو عذاب دیں گے، وہ حسن ہے، اس کو قبیح یا شر نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح دنیا میں مجرموں کو ان کے جرائم پر سزا دینے کا فیصلہ بھی قبیح نہیں، بلکہ ’’ضرر حسن‘‘ ہے۔ اسی طرح اہل ایمان کو دنیا میں جن مصائب اور تکالیف اور ظلم وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں انھی کی کوئی نہ کوئی مصلحت مخفی ہوتی ہے اور ان پر صبر کرنے کا ان کو صلہ دیا جائے گا، اس لیے ان کو بھی شر یا قبیح نہیں کہا جا سکتا۔ 23
قاضی عبد الجبار نے اس نکتے کی ر وشنی میں معتزلہ کے بغدادی گروہ کے موقف کا بھی تخطیہ کیا ہے جو علی الاطلاق، الاصلح للعباد کو اللہ پر واجب قرار دیتے ہیں۔ قاضی عبد الجبار کہتے ہیں کہ اس میں ’’تکلیف اور دین کے لحاظ سے جو بہتر ہو‘‘ کی قید لگانا ضروری ہے، کیونکہ اس قید کے بغیر اللہ تعالیٰ کے افعال کو حسن نہیں کہا جا سکتا۔24
حسن وقبح کے تصور کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے افعال میں جواز وعدم جواز کے معیارات واضح کرنے کے بعد معتزلہ، انسانوں کو اللہ کی طرف سے دیے جانے والے احکام وشرائع پر بھی ان اصولوں کا اطلاق کرتے اور واضح کرتے ہیں کہ اللہ، کس قسم کے افعال کا حکم انسانوں کو دے سکتا ہے اور کس قسم کے نہیں۔ معتزلہ کا موقف یہ ہے کہ حسن یا قبح کی معرفت کا بنیادی حوالہ انسان کا نفع وضرر ہے۔ جس چیز میں انسان کی مصلحت ہو، وہ اخلاقی طور پر حسن اور جس میں اس کا ضرر ہو، وہ قبیح ہے۔ یہ حسن یا قبح، مخصوص احوال میں، خود افعال کے اندر ایک وصف کے طور پر پیدا ہوتا ہے اور وہی یہ طے کرتا ہے کہ کس فعل کو اخلاقی مفہوم میں درست اور کس کو نادرست قرار دیا جائے۔ تاہم کن افعال میں انسان کی مصلحت پائی جاتی ہے اور کن میں نہیں، اس کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت تنہا عقل کو حاصل نہیں، بلکہ اس میں اسے شرع کی راہنمائی کی بھی ضرورت ہے۔ یوں انسان کے اخلاقی واجبات، بنیادی تعریف میں مشترک ہونے کے باوجود، ذریعہ معرفت کے لحاظ سے واجبات عقلیہ اور واجبات شرعیہ میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
اس نکتے کے بیان میں معتزلہ بطور خاص یہ واضح کرتے ہیں کہ شرع یا عقل میں سے کوئی بھی افعال کے حسن یا قبح کو ’طے‘ نہیں کرتے اور ان دونوں کا کردار صرف افعال کے احوال واوصاف کی معرفت کا ذریعہ ہونے تک محدود ہے۔ دوسرے لفظوں میں، شرع یا عقل میں سے کوئی بھی، افعال میں حسن وقبح پیدا نہیں کرتے، بلکہ ان میں فی نفسہٖ موجود حسن وقبح کی پہچان کرواتے ہیں۔ اصول فقہ کی اصطلاح میں یہ دونوں ’مثبت للحکم‘ نہیں ہیں، ان کی حیثیت صرف مظہر یا کاشف کی ہے۔ شرع، افعال کے احوال کو پہچاننے میں عقل کی مدد کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اوصاف عقل پر واضح ہوتے تو وہ اس کا وہی حکم جان سکتی تھی جو شرع میں بیان کیا گیا ہے۔ قاضی عبد الجبار لکھتے ہیں:
وانما یکشف السمع من حال ھذہ الافعال عما لو عرفناہ بالعقل لعلمنا قبحه او حسنه، لانا لو علمنا بالعقل ان لنا فی الصلاة نفعا عظیما وانھا تودی بنا الی ان نختار فعل الواجب ونستحق بھا الثواب لعلمنا وجوبھا عقلا، ولو علمنا ان الزنا ویؤدی الی فساد لعلمنا قبحه عقلا۔ ولذلک نقول ان السمع لا یوجب قبح شیئ ولا حسنه وانما یکشف عن حال الفعل علی طریق الدلالة کالعقل، ویفصل بین امرہ تعالی وبین امر غیرہ من حیث کان حکیما لا یامر بما یقبح الامر به، ولیس کذلک حکم غیره، لا ان امرہ یوجب حسن المامور به، وانما کان کذلک لان الدلالة علی الشیء علی ما ھو به لا انه یصیر کذلک بالدلالة، وکذلک العلم یتعلق بالشیء علی ما ھو به لا انه یصیر کذلک بالعلم، وکذلک الخبر الصدق۔ فالقول بان العقل یقبح او یحسن او السمع لا یصح الا ان یراد انھما یدلان علی ذلک من حال الحسن والقبیح۔25
’’وحی، ان افعال کی اس کیفیت کو واضح کرتی ہے جس کا علم اگر ہمیں عقل کے ذریعے سے ہو جاتا تو ہم ان کے حسن یا قبح کو جان لیتے۔ مثلاً اگر ہمیں عقل سے معلوم ہو سکتا کہ نماز پڑھنے میں ہمارے لیے بہت بڑا نفع ہے اور یہ اس کا ذریعہ بنتی ہے کہ ہم واجبات کو ادا کرنے کا انتخاب کریں اور اس کی وجہ سے ہم ثواب کے حق دار بنتے ہیں تو عقلا ًہی اس کے واجب ہونے کو جان لیتے۔ اسی طرح اگر ہم جان سکتے کہ زنا، فساد پر منتج ہوتا ہے تو اس کے قبح کو بھی ہم عقلا جان لیتے۔ اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ وحی، کسی چیز میں قبح یا حسن کو پیدا نہیں کرتی، بلکہ فعل کیفیت کا حال واضح کرنے میں اسی طرح راہ نمائی کرتی ہے جیسے عقل کرتی ہے۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کے حکم اور عام انسانوں کے حکم میں فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ حکیم ہیں، اس لیے وہ کسی قبیح فعل کا حکم دے ہی نہیں سکتے، جبکہ انسانوں کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ تاہم ایسا نہیں کہ اللہ کا حکم، مامور بہ میں حسن کو پیدا کر دیتا ہے، کیونکہ حکم الٰہی کی نوعیت چیز کی حالت وکیفیت سے متعلق راہ نمائی کرنے کی ہے (جو اس میں پہلے سے موجود ہو)، نہ کہ اللہ کے بتانے سے وہ چیز اچھی یا بری بن جاتی ہے۔ اسی طرح کسی چیز کے متعلق علم کا مطلب اس حالت کو جاننا ہوتا ہے جو اس چیز کی ہے، نہ کہ علم کی وجہ سے وہ چیز ویسی بن جاتی ہے۔ یہی معاملہ خبر صادق کا ہے۔ چنانچہ عقل یا وحی کے متعلق یہ کہنا کہ وہ حسن یا قبح کا فیصلہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ کسی دوسرے مفہوم میں درست نہیں ہو سکتا کہ یہ دونوں افعال میں پائے جانے والے حسن یا قبح سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔‘‘
اس تصور کے مطابق معتزلہ کے نزدیک، اللہ تعالیٰ کو، اپنے خالق ومالک او رپروردگار ہونے کی وجہ سے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ انسانوں کو کسی ایسی چیز کا حکم دے یا اس سے منع کرے جو فی نفسہٖ اپنے حسن یا قبح کی وجہ سے اس کی مقتضی نہ ہو۔ قاضی عبد الجبار اس مسئلے میں اللہ تعالیٰ کے امر یا نہی کو انسانی امر ونہی پر قیاس کو درست نہیں سمجھتے، کیونکہ انسان کا امر ونہی اس کی کسی مصلحت پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی کوئی غرض یا مصلحت نہیں ہے اور اس کے لیے صرف وہی حکم دینا جائز ہے جس میں مخلوق کی مصلحت ہو۔ قاضی عبد الجبار حکم شرعی مثلاً تحلیل وتحریم اور اباحت کی نوعیت سمجھاتے ہوئے اس نکتے کو مزید واضح کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ شارع کی طرف سے تحلیل یا تحریم یا اباحت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ وہ اپنے حکم سے کسی چیز میں حلت یا حرمت اور اباحت کو پیدا کر رہا ہے، بلکہ اس کی طرف سے حکم کا مطلب محض اس بات کی خبر دینا ہوتا ہے کہ فلاں کام میں انسان کی مصلحت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ واجب ہے اور فلاں کام میں انسان کا ضرر ہے جس کی بنیاد پر وہ حرام ہے۔
واعلم ان التحریم من قبل اللہ تعالی ذکرہ لا یکون الا جاریا مجری الدلالة والخبر، وکذلک التحلیل والاباحة، فلا فرق بین قوله ’’حرمت علیکم کذا‘‘ وبین قوله فساد وقبیح فی ان وجه الدلالة فی الجمیع یتفق ولا یختلف، وانما کان کذلک من قبل ان المحرم لا یکون محرما لعلة ولا باختیار مختار، وانما یکون کذلک لوجوه یعلم انه یقع علیھا فیقبح لاجلھا، فلو انه تعالی حرم شکر النعمة ما کان یصیر محرما لتقدم المعرفة بوجوبه، ولو کان التحریم یحصل من قبله لکان تقدم المعرفة لا یوثر فی ذلک، کما یوثر تقدم المعرفة بان الطعام ملک لزید فی انه یصیر مباحا باباحته، ویفارق ذلک الاباحة الواقعة من احدنا لانھا تتضمن حصول سرور من المبیح فی الحل یعادل ما یلحقه من المضرة فیغیر حکم المباح فی الوقت لاجل ذلک، وھذہ القضیة لا تتأتی فیه فلذلک صارت الاباحة من قبله والحظر والتحریم والتحلیل جاریة مجری الخبر والدلالة۔26
’’جان لو کہ اللہ تعالی ٰ کی طرف سے تحریم کا مطلب صرف (کسی فعل کی کیفیت وحالت کے متعلق) آگاہ کرنا اور اطلاع دینا ہوتا ہے۔ یہی معاملہ تحلیل اور اباحت کا بھی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے یہ کہنے میں کہ میں نے تم پر فلاں چیز حرام کی ہے اوریہ کہنے میں کہ یہ چیز فساد اور قبیح ہے، کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں بیانات ایک ہی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ کوئی چیزکسی علت کی وجہ سے یا کسی فیصلہ کرنے والے کے فیصلہ کرنے کی وجہ سے حرام نہیں ہوتی، بلکہ اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں کچھ ایسی وجوہ پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ قبیح قرار پاتی ہے۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ مثال کے طور پر نعمت کے شکرانے کو حرام قرار دیں تو وہ حرام نہیں ہوجائے گا کیونکہ اس کے واجب ہونے کا علم ہمیں پہلے سے حاصل ہے۔ اگر تحریم، اللہ کے حکم کی وجہ سے متحقق ہوتی تو شکر نعمت کے وجوب کا پیشگی معلوم ہونا اس پر کوئی اثر نہ ڈال سکتا، جس طرح اس بات کا پیشگی معلوم ہونا کہ فلاں کھانے کی چیز زید کی ملکیت ہے، اس پر اثر انداز ہوتا ہے کہ اگر وہ اسے کسی کے لیے مباح کر دے تو وہ مباح ہو جائے گی۔ اللہ کی اباحت، ہم میں سے کسی کی اباحت سے اس لیے مختلف ہے کہ ہم میں سے کوئی اگر اپنی چیز کو کسی کے لیے مباح کرتا ہے تو اسے ایسی مسرت ملتی ہے جو اس کو لاحق ہونے والے ضرر کے برابر ہوتی ہے۔ یہ چیز مباح کے حکم کو بدل دیتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی اباحت وتحلیل پر اس اصول کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے اللہ کی طرف سے اباحت وممانعت اور تحلیل وتحریم کی نوعیت، کسی چیز کے وصف اور حالت کے متعلق خبر دینے اور راہ نمائی کرنے کی ہوتی ہے۔‘‘
یہی نوعیت وجوب کی ہے۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ کوئی فعل اس وجہ سے انسان پر واجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کا پابند کیا ہے، بلکہ ضروری ہے کہ خود فعل میں کوئی ایسی وجہ پائی جاتی ہو جو اس کے وجوب کی مقتضی ہو۔ قاضی عبد الجبار کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی مباح فعل کو بھی اس بنیاد پر واجب نہیں کر سکتے کہ اس پر اسے ثواب دیا جائے گا، بلکہ کسی فعل کا مستحق ثواب ہونا اس کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ فعل فی نفسہٖ واجب ہو اور واجب کے بجا لانے پر انسان کو اجر دیا جائے۔ قاضی عبد الجبار لکھتے ہیں:
ان اوامره تعالى ونواهيه تكشفان عن حال الفعل وتدلان على أنه على صفة مخصوصة يقتضي العقل فيه أحكاما مخصوصة- فإذا صح ذلك لم يمكن أن يقال إن القديم تعالى إذا كلف العبد الفعل لحق بالواجب أو الندب لمكان تكليفه- فإن قال إنه تعالى إذا كلف الحسن فقد ضمن الثواب عليه فلذلك يجب أن يلحق بالواجب وإن كان مباحا قيل له إن الثواب لا يستحق بالفعل من حيث تضمنه تعالى أو يعد بفعله بل يجب أن يستحق بالفعل على جهة الوجوب حتى لو أخبر تعالى بأنه لا يثيب عليه لم يتغير حاله- فإذا صح ذلك بطل ما سأل عنه- ويخالف تكليفه تعالى أمر السيد عبده والوالد ولده بالفعل لانهما يأمران بما لهما فيه نفع فلا يمتنع أن يحصل للفعل عند أمرهما من الحكم ما لولاه لما حصل من حيث يعلم بأمرهما السرور والرضا- وليس كذلك حاله تعالى لانه إنما يكلف لغرض يعود إلى العبد فلابد من أن يكون الفعل يقتضي استحقاق المدح والثواب ليحصل به هذا الغرض۔27
’’اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی، افعال کی حالت کو واضح کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ یہ فعل ایک ایسی مخصوص صفت رکھتا ہے جس کی وجہ سے عقل اس کے متعلق مخصوص احکام کا تقاضا کرتی ہے۔ اب اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ جب بندے کو کسی فعل کا مکلف ٹھہراتے ہیں تو اس کے مکلف بنانے کی وجہ سے وہ فعل واجب یا مستحب بن جاتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ جب انسان کو کسی اچھے کام کا مکلف ٹھہراتے ہیں تو اس پر اس سے ثواب کا وعدہ کرتے ہیں اور اس وجہ سے اس فعل کا واجب بن جانا ضروری ہے، چاہے اس سے پہلے وہ مباح ہو تو جواب میں کہا جائے گا کہ کسی فعل پر ثواب کا استحقاق اس بنیاد پر ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ کیا ہے، بلکہ ضروری ہے کہ خود فعل کا مستحق ثواب ہونا اس کے واجب ہونے کی بنیاد پر ہو، اس طرح کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ بتائیں کہ وہ اس پر ثواب نہیں دیں گے تو بھی اس کی حالت (یعنی اس کا واجب ہونا) تبدیل نہ ہو۔ جب یہ بات درست ہے تو پھر سائل کا سوال باطل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بندے کو مکلف ٹھہرانا، آقا کے اپنے غلام اور والد کے اپنے بیٹے کو کوئی حکم دینے سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ آقا اور والد کسی ایسے کا حکم دیتے ہیں جس میں ان کا فائدہ ہوتا ہے، اس لیے یہ ممتنع نہیں ہے کہ ان دونوں کے حکم دینے کی وجہ سے فعل میں ایسا وصف پیدا ہو جائے جو حکم کے بغیر نہ ہوتا، کیونکہ ان دونوں کے حکم دینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے کیے جانے پر خوش اور راضی ہیں (یعنی اس میں ان کا فائدہ ہے)، جبکہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ نہیں ہے، کیونکہ وہ (اپنی کسی غرض سے نہیں بلکہ) بندوں کی کسی غرض کی وجہ سے کسی کام کا حکم دیتے ہیں، پس ناگزیر ہے کہ جس فعل کا وہ حکم دیں، وہ اس وجہ سے مدح اور ثواب کا حقدار ہو کہ اس سے وہ غرض پوری ہوتی ہے۔‘‘
اس سوال کے ضمن میں معتزلہ کو براہمہ کے موقف سے تفصیلی تعرض کرنا پڑتا ہے جو بعثت انبیاء کے جواز کے قائل نہیں اور ان کا کہنا ہےکہ انسان کو عقل کی صلاحیت دے دینے کے بعد انبیاء کی بعثت بہت سے قبائح کو مستلزم ہے۔ براہمہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ مانا جائے کہ شرع کا عقل کے موافق وارد ہونا ضروری ہے تو پھر شرع کی کوئی ضرورت نہیں، اور اگر یہ مانا جائے کہ شرع، عقل کے خلاف بھی وارد ہو سکتی ہے تو اس سے تناقض ادلہ کی صورت حال پیدا ہو جائے گی، کیونکہ اللہ نے ایک طرف انسان کو عقل دی ہے اور دوسری طرف شرع بھیج دی ہے جو باہم متعارض ہیں اور ایسا کرنا ایک قبیح فعل ہے جس کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جا سکتی۔
معتزلہ اس بحث میں براہمہ کی طرف سے اٹھائے گئے تمام اعتراضات کا جواب دیتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ انسانوں کی تکلیفی زندگی کے لحاظ سے بعثت انبیاء کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے اور کیوں اس مقصد کے لیے عقلی صلاحیت کافی نہیں۔ قاضی عبد الجبار نے اس ضمن میں اپنے شیخ ابو ہاشم الجبائی کے نقطہ نظر کو بنیاد بنایا ہے جن کا کہنا ہے کہ انبیاء کی بعثت صرف ایک مقصد کے لیے ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ مکلف کو ان باتوں سے باخبر کر دیا جائے جن سے وہ محض اپنی عقل کی بنیاد پر واقف نہیں ہو سکتا، یعنی شریعت کا مقصد انسان کی تکلیفی زندگی کے مقتضیات کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے۔ 28
قاضی عبد الجبار نے عقل کے ہوتے ہوئے شرع کی ضرورت کو اور پھر عقل وسمع کے باہمی تعلق کو جس طرح واضح کیا ہے، اس کے بنیادی نکات حسب ذیل ہیں: انسانی عقل، حسن وقبح کے بنیادی تصورات اور افعال کے وجوب واباحت کے بنیادی اصولوں سے واقف ہے، مثلاً انسان عقلاً یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کرنے پر اسے ثواب عطا کرتے ہیں، اور اسے مکلف ٹھہرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وہ تمام لوازم فراہم کرتے ہیں جو تکلیف کے لیے ضروری ہیں، اور یہ کہ بطور ایک مکلف مخلوق کے، انسان عقلی واجبات مثلاً کسی جائز غرض کے بغیر جھوٹ بولنے سے اجتناب کا پابند ہے۔ اسی طرح ازروئے عقل انسان کو یہ بھی معلوم ہے کہ انسان میں کسی فعل کے کرنے کے دواعی اگر قوی ہوں گے تو وہ لازما ًاس کو انجام دے گا، لیکن یہ جاننا کہ کن مخصوص افعال میں انسان کی مصلحت پائی جاتی ہے، علم غیب سے تعلق رکھتا ہے، کیونکہ مخصوص افعال کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں حسن یا قبح پایا جاتا ہے، اس پر منحصر ہے کہ افعال کے جملہ خواص ولوازم سے انسان واقف ہو اور یہ واقفیت انسان کو محض عقل کی مدد سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ 29
قاضی عبد الجبار اس نکتے کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں کہ حسن وقبح کے تصورات کے بدیہی ہونے کے باوجود اطلاقی سطح پر افعال کے مبنی بر حسن یا مبنی برقبح ہونے کا فیصلہ کرنا بدیہی نہیں، بلکہ نظری ہے اور بیشتر امور میں اس کے لیے انسان کو انسانی عادات کا بغور مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور تجربہ ومشاہدہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ چنانچہ ایک فعل بظاہر اچھا معلوم ہوتا ہے، لیکن تجربہ وعادت کی روشنی میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بعض مفاسد پر منتج ہو رہا ہے اور اس پہلو سے عقل اس کو قبیح قرار دیتی ہے۔ اسی طرح کوئی فعل بظاہر قبیح دکھائی دیتا ہے، لیکن عقلاً اس کے لوازم ونتائج پر غور کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کسی مصلحت کو متضمن ہے اور اس پہلو سے اسے مستحسن قرار دیتے ہیں۔ (یہاں قاضی عبد الجبار کا استدلال معتزلہ کے دو گروہوں میں سے اس گروہ کے موقف کے مطابق ہے جس کا کہنا ہے کہ حسن وقبح ان معنوں میں افعال کے ذاتی اوصاف نہیں کہ ایک فعل ہر ہر حالت میں حسن یا قبیح ہی ہو، بلکہ حسن وقبح کے تعین میں ان خاص حالات اور شرائط کا بنیادی دخل ہے جن میں کوئی فعل کیا جا رہا ہو۔)
قاضی عبد الجبار اس کو علم طب کے اصولوں اور تجربات کی مثال سے واضح کرتے ہیں۔ عقلا ً انسان کو یہ تو معلوم ہے کہ جسم کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے اجتناب اور بیماری کی اصلاح کرنے والی دواوں کا استعمال ضروری ہے، لیکن محض یہ واقفیت اس کے لیے کافی نہیں کہ انسان مختلف غذاؤں اور دواؤں کے اثرات اور ان کے مفید یا مضر ہونے پر حکم لگا سکے۔ اس کے لیے اطباء کو تجربہ وعادت سے مدد لینی پڑتی ہے اور یہ تجربات نفع وضرر کے عقلی تصور کی تائید وتکمیل ہی کرتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی پہلو سے افعال کے حسن وقبح یا ان کے نفع وضرر کو پہچاننے کے لیے محض حسن وقبح کا اصولی تصور کافی نہیں، بلکہ مخصوص احوال میں مختلف افعال کے اثرات وخصائص کو بھی جاننا ضروری ہے اور شرع، انسان کی اسی ضرورت کی تکمیل کرتی ہے۔ یوں عقل اور شرع، ایک ہی چیز یعنی افعال کس حسن وقبح اور واجبات ووممنوعات کو جاننے کے دو ذرائع ہیں اور دونوںمعتبر ہیں۔
قاضی عبد الجبار، واجبات شرعیہ کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وجوب کا تصور، حسن وقبح کے تصور کی فرع ہے اور حسن وقبح کی تعریف میں بنیادی حوالہ انسان کا نفع وضرر ہے۔ چنانچہ کوئی چیز تبھی واجب ہو سکتی ہے جب اس پر انسان کی کوئی مصلحت اور فائدہ منحصر ہو یا اس سے اجتناب، کسی ضرر سے بچنے کے لیے ضروری ہو۔ یہ تعریف واجبات عقلیہ پر بھی لاگو ہوتی ہے اور واجبات شرعیہ پر بھی، یعنی جیسے ظلم اور جھوٹ جیسے عقلی واجبات کی پہچان نفع اور ضرر کے حوالے سے ہوتی ہے، اسی طرح شرع میں جن چیزوں کو واجب ٹھہرایا جائے، ان کا وجوب بھی انسان کے کسی نفع یا ضرر سے متعلق ہونا چاہیے۔
شریعت جن افعال کو انسان پر واجب یا ممنوع ٹھہراتی ہے، ان کا حسن یا قبح اس پہلو سے ہوتا ہے کہ ان کے کرنے سے انسان میں بہت سے دوسرے محاسن کے کرنے یا قبائح سے بچنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔تاہم کون سا فعل کن شرائط اور قیود کے ساتھ دوسرے افعال کے کرنے یا ان کو ترک کرنے کا داعیہ بن سکتا ہے اور کون سا نہیں، یہ انسان اپنی عقل سے معلوم نہیں کر سکتا اور اس کا جاننا غیب پر مطلع ہونے کی قبیل سے ہے۔ خاص طور پر یہ کہ انسانوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ایک ہی طرح کے افعال سب کے لیے یکساں دیگر افعال کے فعل وترک کے دواعی بن سکیں، جبکہ صرف دلیل عقلی کی مدد سے افعال کی یہ خصوصیت معلوم نہیں ہو سکتی۔
اسی وجہ سے شرائع میں افعال کا حکم بیان کرتے ہوئے مکلّفین کے احوال اور فعل کے اوقات واماکن اور شرائط کے اختلاف کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ بعض دفعہ ایک فعل جو ایک شخص کے لیے واجب یا مباح ہوتا ہے، وہ دوسرےکے لیے ممنوع ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک ہی فعل بعض شرائط کے ساتھ واجب اور بعض شرائط کے ساتھ قبیح ہوتا ہے۔ شریعت، یہ فرق ان مصالح کے پیش نظر قائم کرتی ہے جن کا حصول ان افعال سے مقصود ہوتا ہے اور جن کا صحیح علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ چنانچہ دلیل عقلی ازخود یہ نہیں بتا سکتی کہ مثال کے طور پر طہارت کے بغیر نماز ادا کرنا دیگر محاسن وواجبات کی ادائیگی کا داعیہ نہیں بنے گا بلکہ قبائح کے ارتکاب کا داعیہ بن جائے ہے، جبکہ طہارت کے ساتھ اسی نماز کو ادا کرنا واجبات کی ادائیگی کا داعیہ پید اکرے گا اور فحشاء ومنکر سے روکے گا۔ گویا ایک ہی عمل ایک حالت میں اور ایک شخص کے لیے اس سے مختلف اثرات کا حامل ہے جو دوسری حالت میں دوسرے شخص کے لیے رکھتا ہے۔ 30
قاضی عبد الجبار مزید واضح کرتے ہیں کہ عقل یہ تو بتاتی ہے کہ اللہ کا شکر اور اس کی عبادت کرنی چاہیے، لیکن ان خاص افعال اور ان کی شرائط اور اوقات اور اماکن کی تفصیل نہیں بتا سکتی جن سے اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ مثلاً عقل اس پر دلالت نہیں کر سکتی کہ بغیر طہارت کے نماز عبادت نہیں ہے اور طہارت کے ساتھ عبادت ہے، یا یوم النحر کو روزہ رکھنا عبادت نہیں اور اس سے پہلے عبادت ہے، یا سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ کا وجوب عبادت نہیں اور سال گزرنے پر عبادت ہے۔ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہےکہ عقلیات کا اس باب میں کوئی دخل نہیں۔ 31
شرعی اوامر ونواہی میں جن پہلوؤں سے انسان کی مصلحت پائی جاتی ہے، اس کو علی التفصیل سمجھنا یا اس مصلحت کا انسانی عقل پر واضح ہونا معتزلہ کے نزدیک ضروری نہیں اور نہ ہی تکلیف کی شرط ہے۔ عقل کے لیے اصولاً اور بالاجمال یہ جان لینا کافی ہے کہ تمام احکام شرعیہ کسی نہ کسی پہلو سے انسان کی مصلحت ہی پر مبنی ہیں، کیونکہ شارع حکیم ہے اور انسان کو کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا جو اس کے لیے موجب ضرر ہو۔ قاضی عبد الجبار کے الفاظ میں:
ان الوجہ فی کون ھذہ الافعال مصلحۃ لا یجب ان نعرفہ علی التفصیل، لان الجملۃفی ذلک مقنعۃ، فکذلک القول فی ما لا یجب علیہ تغنی الجملۃ فیہ عن التفصیل۔32
’’ان افعال کے مصلحت ہونے کی وجہ، لازم نہیں کہ ہم پوری تفصیل کے ساتھ جانیں، کیونکہ اس کا اصولی واجمالی علم کافی ہے۔ اسی طرح جو چیزیں انسان پر واجب نہیں، ان کا بھی اصولی اور اجمالی علم، تفصیل سے مستغنی کر دیتا ہے۔ ‘‘
چونکہ افعال کے احوال واوصاف سے متعلق شارع کا علم کامل اور درست، جبکہ انسانی عقل ناقص اور محدود ہے، اس لیے شرع میں افعال کا جو حکم بیان کیا جائے، وہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے جو عقل نے کسی فعل کےظاہر کے لحاظ سے سمجھا تھا۔ قاضی عبد الجبار اس کی تفصیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک فعل عقلاً بظاہر قبیح ہوتا ہے، لیکن شریعت اس کا واجب یا مستحب ہونا بیان کرتی ہے۔ اس کی مثال فرض اور نفل نمازیں اور دیگر فرض ونفل عبادات ہیں جن میں انسان کو مشقت اٹھانا پڑتی ہے جو عقلاً مستحسن نہیں، تاہم شریعت میں ان کے ساتھ وابستہ مصالح کے پیش نظر انھیں فرض یا واجب قرار دیا گیا ہے۔ بعض افعال ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو عقلا ًمستحسن ہوں اور شریعت انھیں درجہ وجوب میں بیان کر دے، جیسے زکو ٰۃ اور کفارے کے ذریعے سے مساکین وفقراء کی مدد کرنا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ افعال عقل کی رو سے مباح ہوں، لیکن شریعت ان کے ساتھ جڑے ہوئے مفاسد کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں ممنوع قرار دے۔ زنا کرنے اور رمضان میں کھانے پینے کو حرام قرار دینا اس کی مثالیں ہیں۔ اسی طرح رمضان میں مساکین کو کھانا کھلانا عقلاً مستحسن اور پسندیدہ ہے، لیکن شریعت نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اور آخری صورت یہ ہے کہ کچھ افعال عقلاً قبیح اور ممنوع ہوں، لیکن شرع میں ان کو مباح قرار دیا جائے، جیسے جانوروں کو ذبح کرنا ازروئے عقل ایک قبیح عمل ہے، لیکن شریعت میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ 33
قاضی عبد الجبار اس موقف پر وارد ہونے والے ایک اعتراض کا جواب بھی دیتے ہیں۔ اعتراض یہ ہےکہ اگر معتزلہ اس امکان کو مانتے ہیں کہ شرع، عقلاً قبیح سمجھے جانے والے بعض افعال کو مباح بلکہ واجب ٹھہرا سکتی ہے تو پھر ان کے موقف اور ان کے مخالفین کے موقف میں کیا فرق باقی رہا جو یہ کہتے ہیں کہ حسن اور قبح، شارع کے امر اور نہی سے پیدا ہوتا ہے اور شارع اگر انسان کو عقلا ًقبیح سمجھے جانے والے افعال مثلا جھوٹ اور ظلم کا حکم دے دے تو یہی افعال حسن بن جائیں گے۔
قاضی عبد الجبار کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ عقل جن افعال پر قبیح ہونے کا حکم لگاتی ہے، وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن سے قبح، کسی حال میں منفک نہیں ہوتا، یعنی عقل کسی بھی حالت میں ان کا تصور، قبح کے بغیر نہیں کر سکتی۔ شرع، ایسے افعال کے حکم کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ دوسرے افعال وہ ہیں جو مخصوص حالات کے اعتبار سے ازروئے عقل حسن سے بھی متصف ہو سکتے ہیں اور قبح سے بھی۔ شرع، انھی سے متعلق عقل کے ظاہری حکم کو تبدیل کر سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں حالت میں اور فلاں شرائط کے ساتھ یہ فعل قبح کو متضمن تھا یعنی انسان کے لیے موجب ضرر تھا جسے عقل اپنی محدودیت کی وجہ سے نہیں جان سکی، لیکن شارع نے اپنے بے خطا علم کی وجہ سے اس فعل کے صحیح وصف کو انسان پر واضح کر دیا۔
سابقہ سطور میں حسن وقبح کے تصور کے حوالے سے معتزلہ کا جو فکری فریم ورک واضح کیا گیا ہے، اس کا تقابل اگر ماتریدی فکر سے کیا جائے تو اتفاق اور اختلاف کے چند اہم نکات ہمارے سامنے آتے ہیں جن کی مختصر وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔
حسن وقبح کے مفہوم اور عقل وشرع کے باہمی تعلق کے حوالے سے معتزلہ کے نقطۂ نظر اور استدلال کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
ابو حامد الغزالی، المستصفی من علم الاصول، تحقیق :الدکتور حمزہ بن زہیر حافظ، دار الہدی النبوی، المنصورۃ /دار الفضیلۃ للنشر والتوزیع، الریاض، 2013ء
ابو محمد ابن حزم، الاحکام فی اصول الاحکام، تحقیق : الشیخ احمد محمد شاکر، دار الآفاق الجدیدۃ، بیروت، 1403ھ
ابو زید الدبوسی، تقویم الادلۃ، تحقیق : الشیخ خلیل محیی الدین المیس، دار الکتب العلمیۃ، بیروت،2001ء
شرح الاصول الخمسۃ، تحقیق :الدکتور عبد الکریم عثمان، مکتبہ وہبہ، القاہرۃ،1996ء
— فضل الاعتزا ل وطبقات المعتزلۃ، تحقیق : فواد سعید، الدار التونسیۃ للنشر، سن ندارد
— المختصر فی اصول الدین، تحقیق : محمد عمارۃ، ناشر نامعلوم، سن ندارد
— ا لمغنی فی ابواب التوحید والعدل، التنبوات والمعجزات، تحقیق: الدکتور محمود محمد قاسم،الدار المصریۃ للتالیف والترجمۃ، مصر، سن ندارد
— الاصلح، تحقیق :الاستاذ مصطفی السقا، الدار المصریۃ للتالیف والترجمۃ، مصر، سن ندارد
— التعدیل والتجویر، تحقیق:الدکتور محمود محمد قاسم، الدار المصریۃ للتالیف والترجمۃ، مصر، سن ندارد
— التکلیف، تحقیق : الاستاذ محمد علی النجار /الدکتور عبد الحلیم النجار، الدار المصریۃ للتالیف والترجمۃ، مصر، سن ندارد
— خلق القرآن، تحقیق :ابراہیم الابیاری، الدار المصریۃ للتالیف والترجمۃ، مصر، سن ندارد
— اللطف، تحقیق:الدکتور ابو العلاء العفیفی، الدار المصریۃ للتالیف والترجمۃ، مصر، سن ندارد
— الشرعیات، اشراف: الدکتور طہ حسین، الدار المصریۃ للتالیف والترجمۃ، مصر، سن ندارد
محمد بن احمد بن عثمان الذہبی، سیر اعلام النبلاء، تحقیق: شعیب الارنووط /ابراہیم الزیبق، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، 1403ھ
(مدیر ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، ای میل: aknasir2003@yahoo.com)