Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
کی اپنی ایک علمی وفکری فضا ہوتی ہے جس میں اس دور کے بنیادی سوالات،بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی بیدار مغز،حساس فکر کا حامل دانش ور اپنے دور کے ان سوالات سے بے خبر نہیں رہ سکتا اور نہ ان سوالات سے بے اعتنائی بر تنا اس کے لیے ممکن ہو تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور ِ جدید میں بے شمار مسلم مفکرین نے جدید مغربی فکر کی طرف سے اٹھائے جانے والے نہایت اہم سوالات کو نہ صرف اس کے درست مقام پر رکھ کر سمجھا ہے بلکہ جدید اسلوب میں ان کے جوابات بھی تلاش کیے ہیں۔ انہی بنیادی سوالات میں سے ایک اہم پہلو صنفی تفریق سے متعلق قرآنی بیانیہ کا ہے جس کے متعلق کئی ایک سوالات ہماری آج کی علمی و فکری فضا کا حصہ ہیں۔ زیر ِ بحث مضمون میں ان سوالات کی روشنی میں دو مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلم مفکرین کےافکار کا تقابلی مطالعہ پیش کیاجائے گا جن میں ایک بر صغیر سے تعلق رکھنے والےمولانا عمر احمد عثمانی اور دوسری نو مسلم امریکی دانش ور خاتون امینہ ودود ہیں۔
مولانا عمر احمدعثمانی دیوبند کے مشہور عالم مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب کے بیٹے ہیں۔مولانا کے اجداد میں تین پشت اوپر شیخ کرامت حسین نامی ایک بزرگ گزرے ہیں جو بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی کے استاد ہیں اور انہی کی صاحبزادی سے مولانا نانوتوی کی شادی ہوئی۔آپ نے تعلیم مظاہر العلوم سہارنپور میں حاصل کی اور تکمیل کے بعد وہیں تدریس شروع کی۔آپ کے اساتذہ میں مولانا محمد زکریا اور مولانا عبدالرحمن کاملپوری جیسی شخصیات شامل ہیں۔آپ کو سند فضیلت مولانا تھانوی سے عطاہوئی۔آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے عربی، فارسی اور اردو میں آنرز کیا۔آپ ڈین آف تھیالوجی بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن حکومت پاکستان کراچی اور پروفیسر اسلامیات گورنمنٹ کالج فارمین ناظم آباد کراچی رہے۔ 1
معروف نومسلم مذہبی سکالر امینہ ودود 1952 ء میں میری لینڈ، امریکہ میں پیدا ہوئیں۔ 1988ء میں مشیگن(Michigan) یونیورسٹی سے عر بی اور اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ عر بی کی اعلی ٰ تعلیم،مطالعہ قرآن اور تفسیر ِ قرآن قاہرہ یونیورسٹی(Cairo University) سے اور فلسفہ کی تعلیم جامعہ ازہر ( مصر ) سے حاصل کی۔ دلچسپی کے میدانوں میں علوم ِاسلامیہ، اسلامی فیمنزم، الٰہیات، فلسفہ اور مکالمہ بین المذاہب شامل ہیں۔
امینہ ودود اسلامی پس منظر کی بجائے ایک عیسائی پس منظر کی حامل ہیں،انہوں نے 1972 میں اسلام قبول کیا۔ جبکہ عمر احمد عثمانی بر صغیر کے ایک ٹھیٹھ مذہبی گھرانے کے فرد ہیں۔امینہ ودود امریکہ جبکہ عمر احمد عثمانی جنوبی ایشیا میں رہے۔ عمر احمد عثمانی کی فقہ القرآن جلد سوم جو حقوقِ نسواں سے متعلق ہے، 1988 میں پہلی بار شائع ہوئی، گویا وہ اس موضوع پر کئی سال پہلے سے کام کر رہے تھے۔جبکہ امینہ ودود اپنی اس قرآنی تحقیق کے متعلق اپنی کتاب Quran and Woman کے مقدمے میں لکھتی ہیں کہ انہوں نے اس کا آغاز 1986 ء میں کیا:
The research for Qur'an and Woman started as early as 1986. At that time, I was quite naive about how significant it would be to pursue a female inclusive reading of the Qur'an. I was also unaware of how to develop such a reading. (preface)
’’قرآن اور عورت سے متعلق تحقیق کا آغاز 1986 کے شروع میں کیا۔اس وقت میں اس بات سے بالکل ناآشنا تھی کہ ایک عورت کی نگاہ سے قرآن مجید پڑھنے کی طرف متوجہ ہونا کس قدر اہم ہوگا۔ میں اس بات سے بھی بے خبر تھی کہ اس طرح کےمطالعے کو کیسے پر وان چڑھاؤں‘‘۔
اس کتاب کی پہلی اشاعت 1992میں ہوئی۔ دوسری طرف ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ امینہ ودود نے عمر احمد عثمانی صاحب کی تحقیق(جو اردو زبان میں تھی ) سے استفادہ کیا ہو۔ اس کے باوجود دونوں کا عورتوں سے متعلق قرآنی آیات کاحاصلِ مطالعہ اور طرز ِ استدلال حیرت انگیز طور پر مماثل ہے اور دونوں گویا ایک ہی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔حقیقت یہ کہ ان دونوں مفکرین کے سامنے جدیدیت نے جو سوال کھڑے کیے تھے وہ ان دونوں کی فکر میں قدرِ مشترک ہے۔ یہی وہ سوالات ہیں جنہوں نے ان دونوں مفکرین کو مرد و عورت کے مابین صنفی تفریق کے روایتی نقطہ نظر اور قرآنی موقف کو دوبارہ دیکھنے کی طرف مائل کیا۔
ایک اور اہم پہلو اس تقا بلی مطالعے سے یہ سامنے آتا ہے کہ امینہ ودود کے نزدیک آج تک جتنے مفسرین ہوئے ہیں، سبھی مر د تھے، انہوں نے اپنے مر دانہ تناظر میں ہی حقوقِ نسواں سے متعلق قرآنی آیا ت کی تو ضیح و تشریح کی ہے، گویا انہوں نے عورتوں سے متعلق اپنے مفر وضات (assumptions) اور مردانہ سماجی اور نفسیاتی پس منظر ہی کی عطا کردہ نگاہ سے ان آیات کو دیکھا ہے۔وہ ایک جگہ لکھتی ہیں :
However, what concerns me most about 'traditional' tafasir is that they were exclusively written by males. This means that men and men's experiences were included and women and women's experiences were either excluded or interpreted through the male vision, perspective, desire, or needs of woman.(intro: 2)
’’تاہم،روایتی تفسیر سے متعلق جس قدر مجھے غر ض ہے وہ یہ کہ یہ تفاسیر خالص طورپر مردوں کے قلم سے لکھی گئی ہیں۔جس کا مطلب یہ ہےکہ ان میں مر د اور مرد انہ تجر بات شامل ہیں اور عورت اور عورتوں کے تجر بات حتی کہ ضروریات یا تو شامل ہی نہیں یا انہیں مر دہی کی نگاہ،تناظراور خواہش سے واضح کیا گیا ہے‘‘۔
If readers of the Qur'an have assumed in any manner that men are superior to women intellectually, spiritually, ontologically, etc.; that men are 'in charge of women'; that men have a more significant role in the continuation of society; that men are natural leaders; that men should 'rule' the family and get obedience from women; that women do not have to participate and contribute in order to maintain the family and society or that her participation is marginal; then those readers will interpret the Qur'an in accordance with those assumptions. 2
’’اگر قرآن کے قارئین نے کسی بھی طرح سے یہ فرض کر لیا ہے کہ مرد عورتوں سے فکری، روحانی، وجود یاتی لحاظ سے افضل ہیں۔ یہ کہ مرد 'خواتین کے ذمہ دار ہیں۔ یہ کہ معاشرے کے تسلسل میں مردوں کا کر دار زیادہ نمایاں ہے۔ یہ کہ مرد فطری رہنما ہیں۔یہ کہ مرد کنبےپر حکمرانی کریں اور خواتین سے اطاعت کروائیں۔یہ کہ عورتوں کو خاندان اور معاشرے کو برقرار رکھنے کے لیے حصہ لینے اور شمولیت کی ضرورت نہیں ہے یا اس کی شراکت معمولی ہے۔ تب ایسے قارئین ان مفروضوں کے مطابق ہی قرآن ِحکیم کی ترجمانی کریں گے‘‘۔
جبکہ ان کے بقول ان کی یہ تحقیق ایک عورت کے نقطۂ نظر سے ہے۔یہ بات ان کی کتاب کے ضمنی عنوا ن (Sub Title)میں دیکھی جا سکتی ہے:
(Rereading the Sacred Text from a Woman's Perspective)
لیکن آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ امینہ ودود کے نتائج فکر عمر احمد عثمانی صاحب کے حاصل ِ مطالعہ سے کس قدر مماثل ہیں۔ گویا دونوں کا نتیجہ فکر ایک ہی ہے۔ لہذا امینہ ودود کا یہ مقدمہ کہ مر د مفسرین نے اپنے مردانہ تناظر میں ہی قرآن ِ حکیم کے صنفی احکامات کو دیکھا ہے، علامہ عثمانی کی تحقیق کے امینہ ودود کے حاصلات ِ فکر کے مماثل ہونے کے ناطےغیر اہم سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ 3
دونوں مفکرین کے ہاں عورتوں کی بابت گفتگو کا آغاز انسان کی تخلیق کے قرآنی بیانیے سے ہوتا ہے۔صنفی تفریق و امتیاز کا انسان کے ابتدائی خلیے سے کیا تعلق ہے ؟ کیا وہ مادہ جس سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اسی میں ایسی کوئی تفریق پائی جاتی ہے جو مردو عورت میں تفوق و بر تری کا کوئی پہلو رکھتا ہو؟ اس سوال کا جواب دونوں کے ہاں ایک ہی ہے کہ ابتدائی مادے اور اس کے ارتقائی مراحل میں ایسی کوئی بات قرآن مجید میں نہیں ملتی جو مر د و عورت کے مابین برتری و کمتری کی دلیل بن سکے۔
’’ابتدائی خلیۂ حیات میں نر اور مادہ کی دونوں خصوصیات ہوتی ہیں۔نر کا خلیہ الگ اور مادہ کاخلیہ الگ ہو جاتا ہے۔ اور ان دونوں سے نر خلیے اور مادہ خلیے بے شمار پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔لہٰذا قرآن کریم کی رو سے اس تخلیقی عمل میں نہ مادہ کواوّلیت حاصل ہے نہ نر کو۔ خلیہ حیات ایک تھا اور اس میں بیک وقت نر و مادہ کی دونوں صلاحیتیں موجودتھیں۔دونوں ایک ساتھ پیدا ہوئےہیں اور ساتھ تقسیم ہو کرالگ الگ ہوئے ہیں لہٰذا نہ نر کو مادہ پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ مادہ کو نرپر‘‘۔ 4
The Qur'anic account of the creation of humankind is important, above all, because it points out that all humans share a single point of origin. That point is represented in the Qur'anic accounts of creation by its use of the term nafs. Just as we have one point of origin, human creation in the Qur'an so do we also have one destination: from one to many and back to one again. What remains to be seen then is the Qur'anic treatment of the dynamics involved in the interactions between the many. 5
’’قرآن ِحکیم کا انسانیت کی تخلیق سے متعلق بیان سب سے بڑھ کر اہم ہے اس لیے کہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تمام انسانوں کا نقطہ آغاز مشترک ہے۔اس نکتے کی نمائندگی، قرآنِ حکیم کے تخلیقی بیانیے میں 'نفس ' کی اصطلاح سےکی گئی ہے۔جس طرح ہمارا نقطہ آغاز ایک ہے،اسی طرح ہماری منزل بھی ایک ہے یعنی ایک سے کئی اور واپس پھر ایک۔پھر دیکھنا یہ باقی ہے رہ جاتا ہے کہ قرآن مجید کس طر ح انسانوں کے مابین تعامل کی جہات کو دیکھتا ہے۔‘‘
اس کے بعد قرآنِ حکیم کے صنفی بیانات کے وہ سارے پہلو جن کی بنیاد پر مر دو وعورت کے درمیان تفریق و تفضیل کے روایتی بیانیے کی اٹھان ہے، دونوں کے ہاں بھر پور انداز میں زیر ِ بحث لائے گئے ہیں۔ انہی میں سے قرآن ِ حکیم کا ایک مقام جہاں سے مردوں کی عورتوں پر فضیلت مستنبط کی جاتی ہے، سورۃ النسا ء کی آیت 34 کا پہلا حصہ ہے۔اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ علی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّل اللہ بعضہم علی بَعْضٍ۔اس آیت کے بارے میں عمر احمدعثمانی لکھتے ہیں :
’’بما فضل اللہ بعضھم علی بعض کا مطلب یہ سمجھ لیاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے بما فضلھم علیھن نہیں فرمایا۔اگرآیت کا یہی مطلب ہوتا تو الرجال اور النسا ء کا لفظ پہلے آچکاہے۔اس اسم ظاہر کا موقع نہیں تھا بلکہ اسم ضمیر کا موقع تھا۔ بما فضلھم علیھن فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی صحیح تھا اور مختصر ترین فقرہ تھا۔ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ نے اسے چھوڑ کر بما فضل اللہ بعضھم علی بعض کا اندازِ بیان بلاوجہ اختیار نہیں فرمایا جو فصاحت و بلاغت کے بھی خلاف ہے اور طوالت آمیز بھی ہے۔ حق تعالیٰ یوں فرما سکتا تھا کہ مرد عورتوں کی ضروریات کے کفیل ہیں اور ہم نے انہیں عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اگر اسم ظاہر ہی استعمال فرمانا تھا تو بما فضل الرجال علی النسا ء فرما دیتا۔ تاکہ بات اگر چہ فصاحت کے خلاف ہو تی لیکن صاف واضح اور دو ٹوک ہو جاتی۔اس سے ظاہر ہو اکہ اللہ تعالیٰ کسی ایک صنف کی برتری نہیں بتا رہےبلکہ بتانا چاہتے ہیں کہ بعض خصوصیات کے لحاظ سے مردوں میں عورتوں سے زیادہ فضیلت ہو تی ہے جبکہ بعض خصوصیات کے لحاظ سے عورتوں میں مردوں سے زیادہ فضیلت ہوتی ہے‘‘۔ 6
Faddala cannot be unconditional because verse 4:34 does not read 'they (masculine plural) are preferred over them (feminine plural)'.It reads 'ba'd (some) of them over ba'd (others)'. The use of ba'd relates to what obviously has been observed in the human context. All men do not excel over all women in all manners. Some men excel over some women in some manners. Likewise, some women excel over some men in some manners.So, whatever Allah has preferred, it is still not absolute. 7
’’فضل غیر مشروط نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ النسا کی آیت 34 میں یہ مذکور نہیں کہ وہ ( مذکر ) ان ( مونث) پر ترجیح رکھتے ہیں۔یہ بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔بعض کا استعمال جیسا کہ ظاہر ہے کہ انسانی تناظر میں کیا گیا ہے۔تمام مر د تمام عورتوں پر ہر لحاظ سے فضیلت نہیں رکھتے۔ کچھ مرد کچھ عورتوں پر کچھ لحاظ سے فضیلت رکھتے ہیں۔اسی طرح کچھ عورتیں کچھ مردوں پر کچھ پہلوؤں سے فضیلت رکھتی ہیں۔لہذا اللہ رب العزت نے جو ترجیح قائم کی ہے یہ مطلق نہیں ہے‘‘۔
اسی طرح قرآن ِ حکیم کی سورۃ البقرۃ کی آیت 228 کے ایک ٹکڑے لِلرِّجَالِ علیہن درجۃٌسے بھی مردو ں کی عورتوں پر برتری اور فضیلت کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس حوا لے سے آیت ِ مذکورہ میں لفظ درجہ کی تو ضیح علامہ عمر عثمانی کی نظر میں یہ ہے کہ یہاں درجہ صرف مخصوص صورتِ حال سے متعلق ہے وہ بھی یہ کہ ایک مرد جب اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ فوراََ دوسری شادی کر سکتا ہے جبکہ عورت کو عدت گزارنی پڑتی ہے اور وہ اس مدت کے بعد ہی شادی کر سکتی ہے۔ بس یہی وہ درجہ ہے جو مرد کو حاصل ہے۔
’’للرجال علیھن درجۃ۔ یہ فقرہ ہمارے علما کے ہاتھ میں عورتوں کی منقصت ثابت کرنے کے لیے دوسرا بڑا ہتھیار ہے۔ہمارے مفسرین نے اسی فقرہ کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک مستقل حکم کی حیثیت سے پیش کر کے مردوں کی عورتوں پر بر تری کے ثبوت میں پیش کر دیا ہے۔حالانکہ یہ فقرہ اپنے سیا ق و سباق سے الگ نہیں ہے‘‘۔ 8
مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ برتری وہی ہے جواوپر بیان کر دی گئی ہے کہ عورتیں طلاق کی صورت میں تین ماہواری ایام تک انتظا ر کرتی ہیں اور مر د انتظا ر نہیں کرتے۔ کیو نکہ عورتوں کے ارحام میں حمل بھی ہو سکتا ہے اگر ان پر انتظار کی پابندی نہ لگائی جائے تو نسب کے خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہے۔ پیداہونے والا بچہ کس شوہر کا شمار ہوگا ؟ وہ کس سے وراثت پا ئے گا ؟ اس کی پرورش اور نگہداشت کے لیے اخراجات کا کو ن سا شوہر ذمہ دار اور کفیل ہوگا ؟ بڑا ہونے کے بعد وہ کس کا بیٹا کہلائے گااور کون اس کا باپ ہوگا جو خود اس کا وارث ہوسکے؟ یہ شدید قسم کی پیچیدگیاں ہیں جن کی وجہ سے عورتوں پر یہ پابندی لگانی ضروری ہے۔ مردوں کو پابند نہ کرنے سے اس طرح کی کوئی پیچیدگیاں پیدانہیں ہوں گی۔ اس لیے ان پر پابندی بھی عائد نہیں کی گئی۔یہ ہے وہ درجہ جس کاتذکرہ اس آیت میں ہے۔ 9
امینہ ودود کے نزدیک بھی اس درجہ کوکلی طور پر مردوں کی عورتوں پر فضیلت ثابت کرنا سیاق و سباق سے بے اعتنائی یا بے خبری کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں ان کی پوزیشن اگر چہ علامہ عثمانی سےقدرے مختلف ہے لیکن نتیجہ دونوں کا ایک ہے کہ اس آیت مبارکہ سے مردوں کی عورتوں پر افضلیت کا جو روایتی بیانیہ ہے وہ درست نہیں۔ ان کے نزدیک یہاں درجہ سے مراد یہ ہے کہ مرداپنی بیوی کو انفرادی حیثیت سے طلاق دینے کا حق رکھتا ہے جبکہ عورت طلاق بغیر کسی اتھارٹی کی مداخلت کے ایسا نہیں کرسکتی۔ چنانچہ وہ لکھتی ہیں۔
This verse has been taken to mean that a darajah exists between all men and all women, in every context. However, the context of the discussion is clearly with regard to divorce: men have an advantage over women. In the Qur'an the advantage men have is that of being individually able to pronounce divorce against their wives without arbitration or assistance. Divorce is granted to a woman, on the other hand, only after intervention of an authority (for example, a judge). 10
’’اس آیتِ مبارکہ کو ان معنوں میں لیا جاتا رہا ہے کہیہ درجہ تمام مر دوں اور تمام عورتوں کے مابین ہر لحاظ سے ہے۔جبکہ گفتگو کا پس منظر واضح طورپر طلاق سے متعلق ہے کہ مر دوں کو عورتوں پر ایک گونہ برتری حاصل ہے۔قرآن مجید میں یہ برتری جو مردوں کو حاصل ہے وہ یہ کہ مرد بغیر کسی مددیا ثالثی کے انفرادی حیثیت سے اس قابل ہو تے ہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو طلاق دے سکیں جبکہ دوسری طرف ایک عورت کسی اتھارٹی( جیسے کہ جج) کی مداخلت کے بعد ہی طلاق لے سکتی ہے‘‘۔
ایک اور اہم مسئلہ عورتوں کی گواہی سے متعلق ہے۔ روایتی طورپر یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عورت کی گواہی مردکی نسبت آدھی ہے، اور اس بات کو قرآن حکیم کی سورۃ البقرہ آیت نمبر 282 سے اخذ کیا جاتا ہے کہ وہاں صراحت سے یہ بات مذکور ہے کہ ایک مر د کے مقابلے میں دوعورتوں کی گواہی کو برابر قرار دیا گیا ہے۔ علامہ عمر عثمانی اس نقطہ ٔنظر کو غلط فہمی پر مبنی قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’شہادت میں دو عورتوں اور ایک مرد کے تناسب کاجو ایک فقہی مسئلہ مشہور ہے۔یعنی اگر کسی معاملہ میں دو مرد گواہ نہ مل سکیں تو ایک مرد اور دو عورتیں شہادت دےسکتی ہیں۔اس سے معلو م ہو ا کہ شہادت کے معاملہ میں بھی دو عورتیں ایک مرد کے برابر ہوتی ہیں۔ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے مقابلہ میں نصف مانی جائے گی۔اس میں بھی تھو ڑی سی غلط فہمی ہے۔جس کی وجہ سے مردوں کی افضیلت اور بر تری کا ثبوت مہیا کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں شہادت کے احکام آٹھ جگہ بیان ہوئے ہیں۔طلاق کی عدّت گزارنے پر جدائی کے لیے یا تجدید نکاح کے لیے،لعان،وصیت، اثبات فاحشہ، اموال یتامیٰ کی حوالگی، قذف اور قرض کے لیے (ان میں لعان اور وصیت کے سلسلہ میں توانہیں شہادت کے لفظ سے تعبیر فرمانا محض مجاز ہےورنہ حقیقت میں وہ شہادتیں نہیں ہیں بلکہ قسمیں ہیں۔)باقی چھ موقعوں پرواقعی شہادتیں ہیں۔اب اگر دیکھا جائے تو ان تما م طرح کی شہادتوں میں صرف ایک مقام ایسا ہے جہاں عورتوں کی شہادت ایک مر د کے مقابلہ میں دو ہےباقی تمام موقعوں پر اس کا کوئی ذکر نہیں ہےکہ وہا ں بھی یہی اصول اختیا ر کیا جائے گا‘‘۔ 11
صرف ایک آیت جو قرض کےلین دین کے متعلق ہے صرف اسی میں مردوں اور عورتوں کی شہادت کے نصاب میں قرآن کریم نے فرق کیا ہےکہ دو مردگواہی دیں اوراگر دومردنہ ہوں تو ایک مر د اور دو عورتیں ہوں۔باقی تمام آیات میں جوشہادت ہی سے متعلق ہیں اس میں کوئی فرق نہیں کیا۔ 12
In addition, one male witness plus this two-female unit, does not equate to a two-for-one formula because otherwise, four female witnesses could replace two male witnesses. Yet, the Qur'an does not provide this alternative. Despite the social constraints, at the time of revelation—inexperience and coercion of women—a woman was nevertheless considered a potential witness. 13
’’مزید یہ کہ ایک مرد جمع دو عورتیں دو اور ایک کے فارمولے کے برابر نہیں۔اس لیے کہ پھر چار عورتوں کی گواہی دو مردوں کی جگہ لے سکتی تھی۔جبکہ قرآن یہ متبادل پیش نہیں کرتا۔ نزول ِ وحی کے وقت معاشرتی رکاوٹوں،عورتوں کی ناتجربہ کاری اور جبر کے باوجود،ایک عورت کو بہر حال ایک ممکنہ گواہ سمجھا جا تا تھا‘‘۔
This limitation regarding financial transactions does not apply in other matters. The call for two women and one man for witnessing financial contracts is not a general rule for women's participation, nor even for all witnessing. Other requests for witnesses should be for unspecified gender. Therefore, anyone deemed capable of witnessing has the right to be one. 14
’’مالی معاملات سے متعلق یہ حد دوسرے معاملات پر لاگو نہیں ہوتی۔ مالی معاہدوں کی گواہی کے لیے دو خواتین اور ایک مر د کا مطالبہ خواتین کی شرکت کا عام اصول نہیں، نہ ہی تمام قسم کی گواہیوں کے لیے۔دیگر اقسام کی گواہیوں کے لیے درخواست غیر معینہ صنف کے لیے ہونی چاہیے۔لہذا جسے بھی گواہی کے لائق سمجھا گیا ہو وہ گواہ بن سکتا ہے۔ ‘‘
عورتوں کے حوالے سے ایک اور معرکۃ الآرا مسئلہ عورتوں کا سربراہ ِ مملکت ہونا ہے۔ کیا عورت امامت ِ کبری ٰ کی اہل ہے۔ اس حوالے سے بھی روایتی موقف بعض احادیث کی بنیاد پر یہی بیان کیا جاتا ہے کہ عورتوں کو سربراہِ مملکت نہیں بنا یا جا سکتا۔ گویا کہ عورتیں اس منصب کی اہل ہی نہیں اور نہ ہی ان میں ایسی قابلیت ہی ہو تی ہے کہ کسی سلطنت کے نظام و انصرام کو چلا سکیں۔ اس معاملے میں بھی مذکورہ مفکرین ایک ہی پوزیشن پر کھڑے ہیں کہ عورت کسی ملک کی سربراہ بن سکتی ہے اور دینی لحاظ سے ایسی کوئی ممانعت نہیں۔
’’قرآن ِ کریم کی سورہ نمل میں ملکہ سبا حضرت بلقیس کی امامت کبری ٰ کا قصہ ملاحظہ فرمائیں قرآن کریم نے ان کو ایک ملک (سبا) کی سربراہ مملکت اور بااختیار و اقتدار سربراہِ مملکت ہونے پر کوئی معمولی سی نکیر بھی نہیں فرمائی جس سے معلوم ہو تا ہے کہ قرآن کی نظر میں ان کا سربراہ ِ مملکت ہونا صحیح تھا۔ان کے ایمان لانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے انہیں معزول کرکے تخت و تاج سے محروم نہیں کر دیا۔بلکہ انہیں ان کے منصب پر قائم اور باقی رکھا۔ 15
Despite this difference in opportunities between men and women, even at the time of revelation, there is nothing implied or stated in the Qur'an which supports the opinion that males are natural leaders. Even in the context of patriarchal Arabia, the Qur'an gives the example of a female ruler. As discussed above, Bilqis is depicted extremely well in the Qur'an. In fact, other than the prophets, she is the only ruler in the Qur'an who is given favorable consideration. The Qur'an refers to her characteristics of wisdom and independence as a leader. 16
’’مر د و خواتین کے مابین مواقع کے اس فرق کے باوجود، یہا ں تک کہ نزول ِ وحی کے وقت،قرآن ِ مجید میں ایسا کوئی بیان یا مواد موجود نہیں جو اس رایے کی تائید کر تا ہو کہ مر د فطری طورپر رہنما ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ مردانہ معاشرت والے عر ب کے پس منظر میں قرآن ایک خاتون حکمران کی مثال دیتا ہے۔جیسا کہ اوپر بیا ن ہواہے،بلقیس کو قرآن مجیدمیں اچھا خاصادکھایا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پیغمبروں کے علاوہ قرآن حکیم میں (مذکورہ)وہ واحد حکمران ہے جسے قابل التفات سمجھا گیا ہے۔قرآن ِحکیم ایک رہنما کی حیثیت سے اس کی دانش مندی اور آزادی کی خصوصیات کا حوالہ دیتا ہے‘‘۔
قرآن ِ مجیدمیں لفظ ازواج اہل ِ جنت کے لیے بطور نعمت کے استعمال ہواہے۔ اس لفظ سے بھی یہی معنی مراد لیے گئے کہ جنتی مردوں کے لیے کئی کئی بیویاں ہو ں گی۔ گویا اس بات سے بھی مر دوں کی عورتوں پر ایک طرح کی برتری کو مان لیا گیا۔ جبکہ عمر احمد عثمانی کے مطابق قرآن ِ مجید کے اس لفظ کو بیویوں کے معنوں میں نہیں لیا جاسکتا۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’ازواج کے معنی بیویاں نہیں ہیں۔ اس کے معنی جوڑے ہیں۔زوج شوہر کو بھی کہتے ہیں اور بیوی کو بھی کہتے ہیں۔لہذاقرآن کریم نے ازواج مطہرۃ سے یہ نہیں بتایا کہ جنت والوں کو ( یعنی مردوں کو ) پاکیزہ بیویاں ملیں گی بلکہ قرآن نے یہ بتایا ہے کہ جنت والوں کو ( مردوں کو بھی اور عوروتوں کو بھی ) جنت میں پاکیزہ جوڑے ملیں گے۔مردوں کو پاکیزہ بیویاں او ر عورتوں کو پاکیزہ شوہر‘‘۔ 17
What is more, some commentators use the Qur'anic statements that there will be pure azwaj (i.e. plural) as an indication that a pious man will go to Paradise and have multiple huri for his pleasure. Indeed, it is a contradiction of terms that a pious man who practices self-constraint should have multiple erotic pleasures as his objective.The absurdity of this is twofold. First, the use of the plural azwaj corresponds to the use of the plural preceding it: for 'believers' (and such terms). The usage is meant to indicate that companionship awaits those who believe (male and female) in their attainment of Paradise—not that each man will get multiple wives! 18
’’مزید یہ کہ کچھ مفسرین قرآنی بیانات کو کہ وہاں پاک ازواج ہوں گے، اس بات کی نشاندہی کے طورپر استعمال کرتے ہیں کہ ایک متقی آدمی جنت میں جائے گا اور اپنے لطف کے لیے متعدد حوریں پائے گا۔یقینا یہ اصطلاحی تضاد ہے کہ ایک پاک باز آدمی جو اس مقصد کے پیشِ نظر ضبط نفس سے کام لیتا ہے کہ اسے وہاں (جنت میں)کثرت سے لذاتِ نفس کے مواقع میسر ہوں گے۔یہ لغویت دو جہتی ہے۔پہلا یہ کہ ازواج کے جمع کے صیغے کا استعمال اسی طرح ہوا ہے جس طرح اس سے پہلے اہل ایمان(بشمول مرد و عورت) کے لیے استعمال ہوا ہے۔اس استعمال سے مراد یہ اشارہ کر نا ہے کہ رفاقت ان لوگوں کا انتظار کر تی ہے جنہیں (مرد اور عورت )جنت کے حصول پر ایمان ہے۔نہ یہ کہ ہر آدمی کی بے شمار بیویاں ہوں گی‘‘۔
مذکورہ بالا مماثل پہلوؤں کے علاوہ دونوں مفکرین کے ہاں چند غیر مماثل پہلو بھی ہیں۔ ایک یہ کہ مولانا عمر احمد عثمانی نے قرآن ِ حکیم میں مذکور عورتوں کے حقوق کی بابت زیادہ تفصیلی گفتگو کی ہے دوسری طرف امینہ ودود کئی ایک حوالوں سے مختلف پوزیشن پر کھڑی ہیں۔ دونوں مفکرین کے ہاں اس تفاوت کی کچھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
عمر احمد عثمانی کی پوزیشن یہ ہے کہ عورت کا بہر حال ایک خاص دائرہ کار ہے۔شریعت ِ اسلامیہ بھی اسی دائرے میں اس کی ساری سرگرمیوں کا تعین کرتی ہے۔ اگر چہ وہ اس بات کے زبر دست حامی ہیں کہ عورت کو تجارت و ملازمت کرنے کی کوئی ممانعت یا روک ٹوک اسلام میں نہیں،اس کے باوجود عمومی طورپر اس کی گھر کے اندر کی ذمہ داریوں کو ہی اس کا اصل وظیفہ قرا ر دیتے ہیں۔
’’اسلام نے اندرون ِ خانہ انتظام وانصرام کا فریضہ عورت کے سپر د کیا ہےاور بیرون ِ خانہ اکتساب رزق کی جدو جہد کا فریضہ مردوں کے ذمہ رکھا ہے۔ چنانچہ بچوں کی پرورش، ان کی غورو پر داخت، ان کو دودھ پلانا،عورت ہی کی ذمہ داری ہے۔ ‘‘ 19
امینہ ودود کے ہاں اسے دوسرے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ ان کے نزدیک بچے کی پرورش اور اسے پالنا پو سنا اگر چہ عورت ہی کے حوالے سے قرآن مجید میں موضوع ِ بحث بنا ہے لیکن قرآن نے اسے عورتوں کی بنیادی تخلیقی خصوصیات کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے بیان نہیں کیا۔قرآن اپنے بیان میں صرف ماں کے ساتھ جسمانی تعلق تک محدود ہے۔ نفسیاتی اور ثقافتی پہلوؤں سے مادریت(mothering) کا تعلق بیان نہیں کرتا۔
Although the Qur'an illustrates explicitly the correlation between the female and bearing children, all other functions connected with child care and rearing, if mentioned at all in the Qur'an, are never described as essential created characteristics of the female. Thus, the Qur'anic reference is restricted to the biological function of the mother—not the psychological and cultural perceptions of' mothering'. 20
’’اگرچہ عورت اور پیداہونے والے بچے کے درمیان تعلق کوقرآن مجید بڑے واضح انداز میں بیان کرتا ہے۔بچے کی دیکھ بھال اور پرورش سے وابستہ دیگر تمام افعال جو قرآن میں مذکور ہیں،انہیں کبھی بھی عورت کی بنیادی پیدائشی خصوصیات کی حیثیت سے بیان نہیں کیا گیا۔لہذا قرآنی حوالہ ماں کے حیاتیا تی فعل تک محدود ہے ناکہ ماں ہونے کے نفسیاتی اور ثقافتی تصورات کے حوالے سے‘‘۔
مزید یہ کہ امینہ ودود کے ہاں قرآن ِ حکیم میں بیان کردہ عورتوں کے حقو ق کو عرب کے سماجی پس منظر، مروج اقدار اور اسلام کے مکی و مدنی دور میں مرحلہ وار دیکھنے کی پوزیشن بھی ملتی ہے۔
It is interesting to note that there are no references made in the Qur'an to specific rights, responsibilities and treatment of women until the Madinan period. 'They consult you concerning women. Say: Allah gives you decree concerning them....' (4:127). If a woman was mentioned in the Makkan period, she was a generic example for all humankind. In the Madinan period of revelation, the particular social reforms introduced were related to the existing practices. In this respect, it is also interesting to note that most reforms were for the benefit of the females. No equivalent reforms benefiting the males were instituted, ostensibly because the existing androcentric norm greatly provided for male needs and wants. The Qur'anic responses were directed towards the pressing need for reforms regarding women. 21
’’دلچسپ امر یہ ہے کہ مدنی دور تک قرآن مجید میں عورتوں کے حقوق، ذمہ داریوں اور سلوک سے متعلق کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔"وہ آپ سے عورتوں کی بابت دریا فت کرتے ہیں،تو آ پ کہہ دیجئے کہ اللہ ان سے متعلق احکام دیتا ہے۔ اگر کوئی عورت مکی دور میں مذکور ہے تو وہ انسانیت کے لیے عمومی مثال کے طورپر پیش کی گئی ہے۔مدنی دورِ وحی میں متعارف کروائی گئیں مخصوص سماجی اصلاحات مروجہ رسوم سے متعلق تھیں۔ اس لحاظ سے یہ مزید دلچسپ بات ہے کہ ان میں سے بیشتر اصلاحات عورتوں کے مفاد میں تھیں۔ عورتوں کی اصلاحات کی طرز پر مردو ں کے مفاد میں کوئی اصلاحات متعارف نہیں کرائی گئیں، ظاہر ہے اس لیے کہ مروجہ مردانہ اقدار زیادہ تر مردوں کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق تھیں۔اسی لیے قرآن مجید نے براہ راست عورتوں سے متعلق اصلاحات کی طرف توجہ مبذول کیے رکھی‘‘۔
ایک اہم اور بنیادی فرق ان دونوں کے ہاں یہ دکھائی دیتا ہےکہ امینہ ودود عورتوں سے متعلق صرف قرآنی بیانیہ پر ہی اکتفا کرتی ہیں جبکہ عمر احمد عثمانی قرآن حکیم کے ساتھ احادیث نبویﷺ اور پوری فقہی روایت سے بھی جابجا استشہاد لاتے ہیں۔گویا ان کی نگاہ پوری اسلامی روایت پر بھی ہے اگرچہ ان کا فکری محور بھی قرآن مجید ہی ہے۔
ایک اور فرق دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، وہ ہے عورت کا مردوں کی امامت کا مسئلہ۔جمہور فقہا کے ہاں اس کے عدم جواز ہی کا فتویٰ ہے۔ اس کے بارے میں عمر احمد عثمانی کا جھکاؤ اس کے جوا ز کی طرف محسوس ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جمہور فقہا کا مسلک یہ ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی۔البتہ امام ابو ثور اور طبری دونوں اس کے قائل ہیں کہ عورت مر دوں کی بھی امامت کر سکتی ہے۔۔۔۔۔امام ابو ثور اور طبری کی غالباََِ دلیل یہ ہے کہ قرآن و سنت سے اس کی صراحۃً ممانعت ثابت نہیں ہے۔البتہ یہ صحیح ہے کہ عموما ً اس پر عمل نہیں ہوا کہ عورتیں مسلمان مردوں کی امام بنی ہوں۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت کی امامت خلاف ِ اولی ٰ ہے،ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔ ویسے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ صدر اول میں کوئی ایسا واقعہ نقل نہیں ہوا کہ کسی عورت نے مردوں کی امامت کی ہو جبکہ ابوداؤد میں حضرت ام ورقہ کے متعلق وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان سے ملاقات کرنے ان کے گھر جایا کرتے تھے اورآ پ نے ان کے لیے ایک موذن مقر ر فرمایا تھا جو ا ن کے لیے اذان دیا کرتا تھا اوران کو آپ نے حکم دے رکھا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کیا کریں‘‘۔ 22
جبکہ امینہ ودود آج کے دور کی غالبا پہلی مسلم خاتون ہیں جو امریکہ میں مخلوط اجتماع کی نمازِ جمعہ میں امامت بھی کراچکی ہیں23،اس کے باوجود اپنی اس کتاب(Quran and Woman) میں وہ اس موضوع کو سرے سے زیر ِ بحث ہی نہیں لاتیں حالانکہ عورت کی امامتِ کبریٰ پر ان کی تفصیلی گفتگو موجودہے۔
دونوں مفکرین کے فکری تناظر کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی دیگر تصانیف کو بھی تفصیلی مطالعہ کا موضوع بنایا جائے۔مضمون ہذا کو اس سلسلے کا محض ایک تعار ف یا ابتدائیہ کہا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں وہ اہل علم جوروایت (tradition)اور جدید یت(modernity) کے درمیان علمی وفکری خلا کو جدید علمی بنیادوں پر پُر کرنے میں اپناحصہ ادا کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے مذکورہ بالا مصنّفین کے علمی کام میں کافی ایسے اجز ا موجود ہیں، جو ان کے علمی سفر میں ممدو معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
(سید مطیع مشہدی گورنمنٹ پوسٹ گریجوئٹ کالج کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اورمدرسہ ڈسکورسز پروگرام کےدوسرے سال میں شریک ہیں۔ ای میل: mutimashhadi@gmail.com)