Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
اصلاً خراسان کے علاقہ طوس سے تعلق رکھتے تھے اور انھوں نے اپنے تعلیمی سفر کے اکثر مراحل اسی علاقے میں طے کیے۔ طوس و نیشاپور کے علاقے میں مختلف مسالک موجود نہیں تھے ۔ اس وجہ سے یہاں تکفیری ماحول زیادہ عام نہیں تھا۔ اس کے مقابلے میں بغداد کو مرکز علم کی حیثیت حاصل تھی۔ دار الخلافہ ہونے کی بناپر مختلف نظریات رکھنے والے گروہ یہاں جمع تھے۔ اس کے باعث ایک دوسرے کی تغلیط کا ماحول عام تھا، تاہم چوتھی اور پانچویں صدی میں بغداد میں کئی وجوہ کی بنا پر تکفیری فضا عام ہو گئی اور اس کی وجہ سے فسادات نے جنم لیا۔ پانچویں صدی ہجری کی ابتدا میں بغداد اسلامی فرقوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس وقت کے دو ممتاز فرقے اہلِ سنّت اور اہلِ تشیّع ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کئی فرقے موجود تھے، جو اقلیّت میں تھے؛ جیسے معتزلہ، زیدیہ اور مسلمان فلاسفہ۔ خود اہلِ سنّت اور اہلِ تشیّع میں بھی کئی ذیلی گروہ تھے؛ جیسے اہلِ سنّت میں حنفیّہ، شافعیّہ، حنابلہ اور مالکیّہ۔ بغداد میں غالب حیثیت حنابلہ کی تھی، پھر شافعیّہ، پھر حنفیّہ اور اقلیّت میں مالکیّہ تھے۔
ان فرقوں کے باہمی تعلّقات خوش گوار نہیں تھے، خصوصاً اہلِ سنّت اور اہلِ تشیّع کے مابین اختلافات اور نزاعات سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں، لیکن خود ان کے ذیلی فرقوں میں بھی نزاع کی کیفیت موجودتھی؛ خصوصاً شافعیّہ اور حنابلہ کے مابین۔ اسی دور میں بغداد نے ان گروہوں کے علمی و فکری عروج و ترقّی کا مشاہدہ کیا اور جہاں اہلِ سنّت کے علوم (عقائد، فقہ، حدیث، رجال اور تاریخ) کو ترقی حاصل ہوئی اور نئے مدارس کی بنیاد رکھی گئی، وہیں اہلِ تشیّع کی فکر میں نمایاں تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ ان کی روایت کو کلام اور عقلی علوم سے مزیّن کیا جانے لگا۔ پانچویں صدی ہجری کا دور معتزلہ اور فلاسفہ کے لیے کچھ زیادہ خوش گوار ثابت نہیں ہوا۔ بہ ہر حال پانچویں صدی ہجری کا بغداد اپنے علوم، علما اور فرقوں کی بنیاد پر نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ اسی طرح یہاں کے سیاسی حالات نے بھی مذہبی گروہوں اور علوم کی ترویج میں نمایاں کردار ادا کیا۔
بغداد کی علمی مرکزیت کے سبب اسلامی دنیا کے علما و طلبہ اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی توجّہ کا مرکز یہی تھا، لیکن یہاں کی علمی فضا سیاسی حالات سے متاثّر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ پانچویں صدی ہجری کا نصف اول اہلِ تشیّع کی حکم رانی میں گزرا، جنھوں نے بغداد میں شیعہ مذہب کو فروغ دیا۔ جب کہ دوسرا نصف سنّی سلجوقوں کے حصہ میں آیا، جنھوں نے اہلِ سنّت کو مضبوط کیا اور متعدد مدارس کی بنیاد رکھی۔ عام طور پر یہ تصوّر کیا جاتا ہے کہ تکثیری معاشروں (pluralistic societies) میں ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا بھر پور موقع ملتا ہے اور اس کے نتیجے میں محبّت، بھائی چارہ، قوّت برداشت اور ہمدردی جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ موجودہ مغربی ممالک میں عموماً تحمّل و برداشت کا معاملہ دیکھا گیا ہے، لیکن ہماری سمجھ کے مطابق، یہ سب کچھ دین سے لا تعلقی کا اثر ہے۔ ورنہ امریکا کی اسی سر زمین پر جب آئر لینڈ سے کیتھولیکس ہجرت کر کے آئے، تو پہلے سے موجود پروٹسٹنٹوں نے مذہب کے نام پر انھیں بد نام کرنے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی۔ یہی حالت بغداد کی بھی تھی، جہاں پوری دنیا سے لوگ علم و ہنر کے حصول کے لیے اکٹھا ہوتے تھے۔ یہاں تمام طبقوں، قوموں اور مذاہب سے وابستہ لوگوں کو مل کر رہنے کا موقع بھی میسّر آتا اور اس کے نتیجے میں باہمی تعلقات خوش گوار بھی ہوتے، لیکن یہیں پر تکفیر کی تلوار بے نیام بھی استعمال ہوتی تھی۔
بغداد کے علما نے بھی باہمی اتفاق کی کوئی کوشش نہیں کی، بلکہ ایک دوسرے کی تکفیر کرنا ان کا خاص شیوہ رہا اور اس کے سبب دار الخلافہ میں کئی دفعہ فتنہ و فساد اور قتل و غارت کی نوبت آئی۔ یہ حالت صرف اہلِ سنّت اور اہلِ تشیّع کے مابین نہیں ہی تھی، بلکہ خود اہلِ سنّت کے گروہوں کی آپسی صورتِ حال بھی اسی کے مشابہ تھی۔تکفیر اور فتنوں کے ان مظاہر کو بنیادی طور پرتین امور میں محصور کیا جا سکتا ہے: ۱۔فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری۲۔دار الخلافہ سے جاری ہونے والے تکفیر کے سرکاری حکم نامے۳۔ علما کی کتابوں میں دیگر فرقوں کی تکفیر کے فتاوی جات۔
بغداد میں اہلِ سنّت اور اہلِ تشیّع کے ما بین فسادات کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا، جب چوتھی صدی ہجری کے آخری نصف میں بویہیوں کوحکومت ملی۔ ان کی حکومت سے اہلِ تشیّع کو تقویّت حاصل ہوئی اور اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ اپنی مذہبی رسومات و شعائر کا کھلے عام مظاہرہ کرنے لگے؛ جن میں عاشورا جلوس اور توہینِ صحابہ سب سے نمایاں ہیں۔ اسی بے باکی کے سبب چوتھی صدی ہجری میں کئی ایک فسادات کے واقعات رونما ہوئے۔پانچویں صدی ہجری کی نصفِ اول میں ان دونوں گروہوں کے ما بین کئی فسادات اور قتل و غارت کے واقعات پیش آئے؛ جن میں 406ھ، 408ھ، 421ھ، 432ھ، 441-445ھ 1کے فسادات نمایاں ہیں۔ ان میں سے بعض کی نوعیت زیادہ سنگین نہیں تھی، لیکن وہ غیر سنگین واقعات زیادہ خوں ریز واقعات کی تمہید ثابت ہوئے۔البتہ 443 اور 444ھ میں رونما ہونے والے فتنوں کو ابن کثیر نے اہلِ سنّت اور اہلِ تشیّع کے ما بین جنگ کا نام دیا ہے۔ سنّیوں نے اپنے غم و غصہ کی بھڑاس امام موسی کاظم اور امام محمد جواد کی قبروں کی حرمت پامال کر کے نکالی۔متعدد گھروں کو نذرآتش کر دیا گیااور بہت سے انسانی جانوں کو اس جنگ کی آگ کھا گئی۔2 ان فسادات کا اختتام اس وقت ہوا جب 447ھ میں سنّی سلجوقیوں نے بغداد پر حملہ کیا اور حکومت سنبھال لی۔ بغداد میں اہلِ تشیّع کی حالت بہت کم زور ہو گئی جس کی واضح دلیل یہ کہ 448ھ میں اہلِ تشیّع نے حکومت کے خوف سے فجر کی نماز میں ’حيّ علی خير العمل‘ کے بجاے ’الصلاۃ خير من النوم‘ کہنا شروع کر دیا3 اور اسی سال اہلِ تشیّع کے شیخ ابو جعفر طوسی کے گھر پر قبضہ کر لیا گیا اور ان کے مکتبہ کو جلا دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں شیخ اپنی جان بچانے کے لیے نجف کی جانب بھاگ گئے۔ 460ھ میں ان کی وفات ہوئی اور ان کے بعد ان کا کوئی ایسا جانشیں سامنے نہیں آیا، جس نے شیعہ ہو نے کی حیثیت سے ان کی نیابت کا حق ادا کیا ہو۔ جب اہلِ سنّت نے اپنی قوّت کا احساس کیا تو 449ھ میں کھلے عام لوٹ مار کی گئی اور اہل تشیع کے مال کو غنیمت و مباح قرار دیا گیا۔4
یہ اہلِ سنّت اور شیعہ کے باہمی فسادات کا عمومی تذکرہ تھا، لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا؛ کیوں کہ اہلِ تشیّع کے کم زور ہو جانے کے بعد اہلِ سنّت کے آپس کے اختلافات ابھرنے لگے، اور حنابلہ واشاعرہ (شافعیّہ) کے ما بین طرح طرح کے فتنے ظاہر ہونے لگے۔ ابن اثیر نے 447ھ کے حادثات میں بیان کیا ہے کہ بغداد میں شافعی اور جنبلی فقہا کے ما بین ایک فساد برپا ہوا، جس کی نوعیّت ابتداءً فقہیّ تھی۔ اس فتنہ کو بھڑکانے والوں میں دو حنبلی فقہا؛ ابو علی ابن الفرّاء اور ابن تمیمی تھے۔ ان دونوں حضرات نے بسملہ بالجہر ، اذان میں ترجیع اور نمازِ فجر میں قنوت سے انکار کیا اور لوگوں کو اس بابت ابھارا۔5
مدرسہ نظامیّہ کی سنگِ بنیاد نے اشاعرہ کو قوّت کا احساس دلایا اور یہ احساس بھی ان دونوں فریقوں کے ما بین نزاع بڑھانے کا ایک سبب بنا۔ 469ھ میں ابن قشیری بغداد آئے اور مدرسہ نظامیّہ میں حنابلہ کو برا بھلا کہنے لگے اور انھیں تجسیم کی جانب منسوب کیا۔ اس پر حنابلہ بھڑک اٹھے اور ایک فساد مچ گیا۔ یہاں تک کہ قتل و قتال تک نوبت جا پہنچی۔6 معاملہ کی سنگینی کے باعث حکومت کو مداخلت کرنی پڑی۔ حنابلہ کی جانب سے شریف ابو جعفر اور شوافع کی جانب سے ابو اسحاق شیرازی اور ابن قشیری وغیرہ وزیر کے پاس حاضر ہوئے۔ صلح و امن کی بات چیت شروع کی گئی، لیکن شریف ابو جعفر کی تلخ کلامی کے باعث معاملہ طعن و تشنیع اور تکفیر تک پہنچ گیا۔ انھوں نے وزیر سے کہا:
’أيّ صلح بيننا؟! إنما يكون الصلح بين مختصمين علی ولاية أو دنيا أو قسمة ميراث أو تنازع في ملك! فأما هؤلاء القوم فهم يزعمون أننا كفّار، ونحن نزعم أن من لا يعتقد ما نعتقده كافر، فأيّ صلح بيننا؟!‘7
’’ہمارے ما بین صلح کیسے ہو سکتی ہے؟ صلح تو وہاں ہوتی ہے، جہاں دو فریق کسی دنیوی معاملہ میں جھگڑ جائیں۔ ہماری صورتِ حال ان سے مختلف ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ ہمیں کافر تصوّر کرتے ہیں اور ہم انھیں کافر سمجھتے ہیں۔ لہذاہم میں صلح کس بات پر ہو سکتی ہے؟‘‘اسی نوعیّت کا ایک فساد 475ھ میں رونما ہوا، جب ابو قاسم بکری نے مدرسہ نظامیّہ میں وعظ کہااور دورانِ وعظ حنابلہ کی عیب جوئی شروع کر دی۔ انھوں نے سورۂ بقرۃ کی آیت 102 کے ضمن میں امام احمد کو سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اور حنابلہ کو شیاطین کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا۔8 اسی طرح امام احمد نے کفر نہیں کیا بلکہ ان کے اصحاب نے کفر کیا۔بغداد کی تکفیری فضا کو واضح کرنے کے لیے یہ واقعہ بھی اہم ہے کہ ایک روز ابو یوسف قزوینی معتزلی نظام الملک کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت نظام الملک کے پاس ایک حنبلی فقیہ ابو محمد تمیمی اور ایک اشعری موجود تھے۔ ابو یوسف نے نظام الملک سے کہا:
قد اجتمع عندك رؤوس أهل النار! فقال: كيف؟ فقال: أنا معتزليّ، وهذا مشبّه وذاك أشعريّ، وبعضنا يكفّر بعضاً.9
’’آپ کے پاس دوزخیوں کے ائمہ اور سردار اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اس لیے کہ میں معتزلی، یہ حنبلی اور وہ شافعیّ ہے اور ہم ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔‘ ‘
مذکورہ بالا واقعات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پانچویں صدی ہجری میں بغداد میں فرقہ ورانہ فسادات اپنے عروج پر تھے اور ان کی نوعیّت چند ممتاز فرقوں کے باہمی اختلاف کی نہیں تھی، بلکہ ذیلی فرقوں کی کیفیت بھی یہی تھی۔
تکفیر کا معاملہ محض عوام، چند علما اور فسادات تک موقوف نہیں تھا، بل کہ پانچویں صدی کی سنّی حکومت نے بھی اس بے ڈھنگی تکفیری فضا کو بڑھانے میں مدد دی۔ حکومت کی جانب سے اپنے مخالفین کی تکفیر کے احکام نامے جاری ہوئے، بل کہ بعض اوقات ان لوگوں کی تکفیر کے بھی احکام نامے جاری ہوئے، جو حکومت کے مخالفوں کو کافر نہیں سمجھتے۔ اس بات کاذکر ہو چکا ہے کہ پانچویں صدی ہجری کے پہلے نصف میں بغداد پر اہلِ تشیّع کی حکومت تھی، لہذا خلافتِ اسلامی کا ان پر کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ خلیفہ قادر باللہ (م، 422ھ) کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جنھوں نے سیاسی حلقوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا اور اہلِ سنّت کے اقتدار کو قائم کرنے کے لیے بویہیوں کی باہمی نفرت و کش مکش کو فروغ دیا۔ لہذا ان کے دور میں حکومت کی جانب سے مسلسل اہلِ سنّت کے مخالفین کے حق میں تکفیری احکام نامے جاری ہوتے رہے، خصوصاً اہلِ تشیّع اور معتزلہ کے خلاف۔خراسان میں سلطان محمود غزنوی نے خلیفہ قادر باللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے معتزلہ، رافضہ، اسماعیلیہ، قرامطہ، جہمیّہ اور مشبّہہ وغیرہ کو قتل کیا، قید میں ڈالا اور انھیں جلا وطن کیا۔ منبر و محراب میں ان گروہوں پر لعنت بھیجنے کا حکم دیا۔10
خلیفہ قادر کے مذکورہ احکام ناموں کے بعد تکفیری رجحان میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مثال کے طور پر 409ھ میں دار الخلافہ میں اہلِ سنّت کے مذہب پر مشتمل ایک کتاب پڑھی جانے لگی، جس میں مرقوم تھا:
’أنّ من قال القرآن مخلوق، فهو كافر حلال الدم.‘11
’’قرآن کو مخلوق کہنے والا کافر اور مباح الدم ہے۔‘‘
اس سے مراد اہلِ اعتزال تھے۔ 420ھ میں خلیفہ قادر باللہ نے عقائد پر مشتمل ایک کتابچہ لکھوایا، جس میں اہلِ سنّت کے تمام عقائد کا تذکرہ کیا گیا۔ اس کتابچے کو ’الاعتقاد القادريّ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔12 یہ کتابچہ مخالفین کی تکفیر سے خالی نہیں تھا؛ خصوصاً معتزلہ اور شیعہ کی تکفیر۔ مثال کے طور پر خلقِ قرآن کا عقیدہ رکھنے والوں کے بارے میں مذکورہ تھا:
ومن قال إنه مخلوق علی حالٍ من الأحوال فهو كافر حلال الدم بعد الاستتابة منه.13
’’قرآن کو کسی بھی صورت میں مخلوق کہنے والا کافر اور مرتدّ ہے۔ توبہ سے انکارکے بعد وہ مباح الدم ہو جائے گا۔‘‘
خلیفہ کی جانب سے جاری کردہ اس عقیدہ نامے پر حنبلی فکر کا بڑا گہرا اثر تھا 14اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ بغداد میں حنابلہ اکثریت میں موجود تھے اور قاضی ابو یعلی فرّاء حنبلی کے خلیفہ قادر کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔اس عقیدہ نامے کی بنیاد پر کئی مرتبہ تکفیر اور دیگر فتنوں کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔ مثال کے طور پر، 460ھ میں بعض علما نے اس کتابچہ میں ایک اور جملے کا اضافہ کر کے اسے ترویج دینے کی کوشش کی، جس میں اہلِ تشیّع کو کافر قرار دیا گیا اور ان لوگوں کو بھی کافر کہا گیا جو اہلِ تشیّع کی تکفیر نہیں کرتے تھے۔ وہ جملہ یہ تھا:
’وعلي الرافضة لعنة الله، وكلّهم كفّار، ومن لا يكفّرهم فهو كافر.‘15
یہاں پر ’الاعتقاد القادريّ‘ کو خصوصیّت کے ساتھ بیان کرنے سے یہ نہ سمجھا جائے کہ خلافتِ وقت کی جانب سے کوئی اور تکفیری حکم نامہ جاری نہیں ہوا۔ 458ھ میں یہ سرکاری حکم نامہ جاری کیا گیا کہ صحابہ کی توہین کرنے والے کافر ہیں۔16حکومت کی جانب سے ان فتنوں کو ہوا دینے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بویہی شیعوں نے بغداد پر ایک صدی سے زیادہ حکومت کی تھی۔ اس لیے اپنی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے عوامی سطح پر شیعوں کے تئیں نفرت پید ا کرنے کی روش ان کے سیاسی مفاد میں تھی۔
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کا ایک امتیاز یہ ہے کہ ان دونوں صدیوں میں فرقوں اور مذاہب پر کتابیں لکھی گئیں۔ شاید اسی وجہ سے اس زمانے کی کتب میں تکفیر و تشدید کا خصوصیّت کے ساتھ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ فرقوں اور مذاہب کے تذکرہ میں لکھی جانے والی قدیم ترین کتابوں میں ابو الحسن اشعری (م، 324ھ) کی کتاب، ’مقالات الإسلاميين‘ اور ملطی بلخی (م، 377ھ) کیالتنبيه والردّ علی أهل الأهواء والبدع شامل ہیں۔
پانچویں صدی میں لکھی جانے والی کتابوں میں عبد القاہر بغدادی (م، 429ھ) کی ’الفرق بين الفرق‘، ابن حزم (م، 456ھ) کی ’الفصل في الملل والأهواء والنِحَل‘، ابو مظفّر اسفرایینی (م، 471ھ) کی ’التبصير في الدين‘ اور ابو یعلی فرّاء حنبلی (م، 456ھ) کی ’المعتمد في أصول الدين‘ وغیرہ شامل ہیں۔ چوں کہ ہماری بحث کا تعلّق بغداد اور یہاں موجود فرقوں سے ہے، اس لیے ہم یہاں پر ان کتابوں میں سے مشہور تصنیفات؛ ’الفرق بين الفرق‘، ’أصول الدين‘ اور ’المعتمد في أصول الدين‘ کو موضوعِ بحث بنائیں گے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں نے تکفیر کو رواج دیا اور اسلامی فرقوں میں سے اکثر کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا۔ مثال کے طور پر بغدادی نے اپنی ’أصول الدين‘میں لکھا:
اعلم أن تكفير كلّ زعيم من زعماء المعتزلة واجب من وجوه.17
’’معتزلہ کی تکفیر کے وجوب کی کئی وجوہات ہیں۔‘‘
اس نوعیت کی عبارات سے ان کی فکر کی عکّاسی ہوتی ہے۔ اسی طرح دیگر کئی فرقوں پر وہ یہ حکم لگاتے ہیں کہ ہم جارودیّۃ، ہشّامیّۃ، نجّاریّۃ، جہمیّۃ، امامیّۃ میں سے ایسے لوگ جنھوں نے صحابہ کرام کی تکفیر کی، قدریّۃ، معتزلۃ، بکریّۃ، ضراریّۃ، مشبّہۃ اور خوارج کی اسی طرح تکفیر کرتے ہیں، جس طرح وہ اہل سنّت کی تکفیر کرتے ہیں۔ نہ تو ان کے لیے سلامتی کی دعا کرنا درست ہے اور نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔18
وہ تکفیر میں اس حدّ تک بڑھ گئے کہ معتزلہ کی تکفیر میں شک کرنے والے کو بھی کافر قرار دے دیا۔19 اسی طرح انھوں نے ایسے امور میں بھی تکفیر شروع کر دی جو قطعی اور بنیادی نہیں تھے؛ مثال کے طورپر انھوں نے ابراہیم نظّام کو اس بنیاد پر کافر قرار دیا کہ وہ اجماع کی حجّیّت کا انکار کرتے ہیں۔20 قاضی ابو یعلی فرّاء حنبلی نے بھی کئی فریقوں کی تکفیر کی۔ خلقِ قرآن اور رُؤیتِ باری تعالی سے انکار کرنے کی وجہ سے انھوں نے معتزلہ 21کو اوراسی طرح صحابہ کی توہین وتفسیق کے سبب اہلِ تشیّع کی تکفیر کی اور ان کے قتل کو لازمی قرارد یا۔22
تکفیر کی بے ضابطگی سے متعلق امام غزالی کا منہج پر بھی نظررہنی چاہیے۔تکفیر اور فتنوں کی اسی فضا میں امام غزالی نے 484ھ میں بغداد میں قدم رکھا۔ وہ بہ طورِ مدرّس نظامیّہ میں تشریف لائے۔ انھوں نے اس ماحول کوبہ غور دیکھا، جانچا اور عزلت کے دوران، جب وہ بغداد سے چلے گئے تھے، دمشق میں اپنی معروف کتاب، الاقتصاد في الاعتقاد لکھی۔ اس کتاب کے آخری باب، الباب الرابع في بيان من يجب تكفيره من الفرق میں اختصار کے ساتھ انھوں نے تکفیر کے قواعد کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے کئی سالوں بعد انھوں نےفيصل التفرقة بين الإسلام والزندقة لکھی، جس میں بڑی تفصیل کے ساتھ تکفیر کی بحث کو ذکر کیا گیا ہے۔23 تکفیری فتنے کے جن امور کا ہم نے تذکرہ کیا ہے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ ایک ایسا نظریہ و موقف پیش کیا جائے، جو با ضابطہ ہونے کے ساتھ ساتھ اعتدال و انصاف کی خوبیوں کے ساتھ متّصف ہو؛ محض گمان و ظنّ کی بنیاد پر کسی پر تہمت نہ لگائی جا سکے، نہ تو اس میں اتنی تنگی ہو کہ اپنے اندر سمونے کی اس میں گنجایش نہ ہو اور نہ اتنی بے پروائی کہ ہر کوئی اس میں داخل ہو جائے۔ امام غزالی کے پیش کردہ اصول وقواعد کی یہی خوبی تھی۔
کسی شخص کو کافر قرار دینے کے بارے میں علماے اسلام ہمیشہ محتاط رہے ہیں۔ امام غزالی کا شمار بھی ان حضرات میں ہوتا ہے، جنھوں نے تکفیر بے جا کی تردید کی اور اسے عقل کا کھلونا بننے کے بجاے اس کی حقیقت یہ بیان کی ہے کہ یہ ایک شرعی حکم ہے۔ چناں چہ امام غزالی اپنی کتاب الاقتصاد في الاعتقادمیں لکھتے ہیں:
فاعلم قبل كلّ شيء أنّ هذه مسئلة فقهيّة، أعني الحكم بتكفير من قال قولا أو تعاطي فعلا. وإنها تارة تكون معلومة بأدلّة سمعيّة، وتارة تكون مظنونة بالاجتهاد، ولا مجال لدليل العقل فيها ألبتة. 24
’’یاد رکھیے کہ تکفیر ایک فقہی معاملہ ہے، یعنی کسی کے قول و فعل کی بنیاد پر اس کی تکفیر کا حکم لگانا ایک فقہی معاملہ ہے۔بعض اوقات یہ دلائلِ نقليہ سے معلوم ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ اجتہاد کے ذریعے معلوم ہوتی ہے۔لیکن عقلی دلیل کا اس میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔‘‘ یہی بات انھوں نے اپنی دیگر تصنیفات میں بھی ذکر کی ہے۔25 تکفیر کے امر شرعیّ ہونے کو مزید واضح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ کسی شخص کو کافر قرار دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اخروی اعتبار سے وہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہے گا اور دنیوی اعتبار سے اس کی جان و مال مباح ہوں گے اور کسی مسلمان عورت کے ساتھ اسے نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ سارے امور شرعیّہ ہیں، لہٰذا ان احکام کے ثبوت کے لیے دلیل شرعی ہی کی ضرورت ہو گی، جو یا تو صریح نصّ یا کسی نصّ پر قیاس کی صورت میں ہونا ضروری ہے۔26 امام غزالی کی اس وضاحت سے جہاں وہ تکفیر کی حقیقت سے روشناس کروا رہے ہیں، وہیں وہ اس کے استعمال کے دائرے کو محدود کررہے ہیں۔
تکفیر کے باب میں ایمان و کفر کی تعریف کو بہ خوبی سمجھ لینا ضروری ہے، اسی لیے امام غزالی نے اصول و قواعد کے بیان سے پہلے ان اصطلاحات کی تعریف بیان کی ہے۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
الكفر هو تكذيب الرسول صلي الله عليه وسلم في شيء مما جاء به، والإيمان تصديقه في جميع ما جاء به.27
’’رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے کسی دینی معاملے کا انکار کرنا کفر ہے، جب کہ ایمان اُن کے لائے ہوئے ہر امر دینی کی تصدیق کرنے کا نام ہے ۔‘‘ یہ بات پہلے بیان کر دی گئی ہے کہ کسی کا کافر یا مسلمان ہونا شرعی و فقہی علم ہے، لہذا اس کا علم دلیل سمعی یا اجتہاد پر موقوف ہو گا۔ اس بات کو مثال سے واضح کرنے کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی تکذیب رسول کا علم دلیل سمعی کے ذریعہ ہوا ہے؛ یعنی قرآن و حدیث۔ اس کے مقابلے میں دہریوں 28کی تکذیب رسول کا علم اجتہاد کے ذریعہ ہوا ہے۔
کفر و ایمان کی یہ تعریف جامع ہے، لیکن اس تعریف میں کلیدی الفاظ دو ہیں؛ انکار و تکذیب اور رسول اللہ علیہ السلام سے ثابت شدہ حکم یا چیز۔ جہاں تک انکار و تکذیب کا تعلق ہے تو امام غزالی نے اسے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انکار و تکذیب کو اتنے سادہ الفاظ میں مراد نہیں لینا چاہیے، بل کہ یہ تفصیل طلب ہے۔ اسے بہ غور سمجھ لینا انتہائی اہم ہے؛ کیوں کہ یہی وہ لفظ ہے جسے بنیاد بنا کر ہر فریق دوسرے فریق کی بے جا تکفیر کرتا ہے۔ ہمارے دور میں بھی یہ بالکل واضح ہے اور امام غزالی کے دور میں بھی یہی رویّہ عام تھا۔ انھوں نے اپنے وقت کی باہمی تکفیر بازی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا کہ حنبلی اشعری کی تکفیر اس بنیاد پر کرتا ہے کہ وہ رسول اللہ علیہ کا مکذّب ہے، اشعری حنبلی کی تکذیب رسول کی بنیاد پر تکفیر کرتا ہے، اشعری معتزلی کی اور معتزلی اشعری کی۔29تکذیب، وجود کو مستلزم ہے؛ یعنی کسی چیز کے موجود ہونے کے بعد ہی اس کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ اسی وجود کی تفصیل میں وہ یہ فرماتے ہیں کہ کسی چیز کے وجود کی صرف ایک ہی صورت نہیں ہوتی، بل کہ وجودِ شے کے کئی مراتب ہیں؛ وجودِ ذاتی، وجودِ حسّی، وجودِ خیالی، وجودِ عقلی اور وجودِ شبہی۔
وجودِ ذاتی:جو چیز اپنا خارجی وجود رکھتی ہو اور حواس و عقل کے ذریعہ اس کا ادراک ممکن ہو تو اس وجود کو وجودِ ذاتی کہتے ہیں۔ ہمارے آس پاس موجود ہر شے پر اسی وجود کا اطلاق ہوتا ہے۔ تمام چرند پرند، حیوانات و نباتات کے وجود کا تعلق اسی قبیل سے ہے۔ وجود کی یہ صورت بہت عام فہم ہے ، حتی کہ اسی قسم کو وجود کی واحد صورت تصوّر کیا جاتا ہے۔ ہر ایسی چیز جس کے بارے میں رسول اللہ علیہ السلام نے خبر دی ہے اور اس میں تاویل کی ضرورت نہیں سمجھی گئی وہ وجودِ ذاتی کی مثال ہے۔
وجودِ حسّی:اس سے مراد ایسا وجود ہے جس کا مشاہدہ حواس کے ساتھ خاص ہو اور کوئی اور اس مشاہدہ میں شریک نہ ہو سکے، جیسے کہ سویا ہوا شخص اپنی قوت باصرہ سے کئی اشیا کا مشاہدہ کرتا ہے لیکن خارجی دنیا میں ان اشیا کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور نہ اس شخص کے مشاہدہ میں کوئی اور شریک ہو سکتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں، کیوں کہ جہاں وجودِ ذاتی محال محسوس ہوتا ہو تو علما نے وجودِ حسّی کی جانب رجوع کیا ہے۔ مثال کے طور پر رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایاکہ موت کو بہ روز قیامت ایک سفید پیشانی والے کالے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنّت و دوزخ کے سامنے اسے ذبح کر دیا جائے گا۔ جن حضرات کے نزدیک موت ایک عرض ہے اور عرض کا جسم میں تبدیل ہونا محال اور نا ممکن ہے تو اس روایت سے وہ یہ مراد لیتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ اس پورے منظر کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے اور اس مینڈھے کے بارےمیں ان کا خیال یہ ہو گا کہ وہ موت ہے، لہذا ان کی حسّ میں یہ موت ہی ہو گی، لیکن خارج میں ایسا نہیں ہو گا اور یہ موت کے نہ آنے کے یقین کا سبب ہو گا۔
وجودِ خیالی:اس سے مراد وہ صورت یا وجود ہے، جو کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے بعد انسان اپنے خیال میں لا سکتا ہے۔ یہ صورت انسانی دماغ میں تو اپنے تمام اوصاف کے ساتھ باقی ہوتی ہے، لیکن دماغ سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر کسی ہاتھی کو دیکھنے کے بعد آنکھیں بند کر کے اس کا تصوّر کیا جائے تو اس کی شکل کا ہو بہو تصوّر انسان کے خیال میں آ سکتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گویا کہ میں یونس بن متی کو دو سفید جھالر دار چوغے پہنے دیکھ رہا ہوں، جب وہ تلبیہ کہتے ہوئے آ رہے تھے اور پہاڑ ان کی تلبیہ کا جواب دے رہے تھے اور اللہ تعالٰی ان سے فرما رہے تھے کہ اے یونس، میں تمھاری پکار سن رہا ہوں۔یہ رسول اللہ ﷺ کے ذہن میں موجود ایک صورت کے بارے میں خبر محسوس ہے؛ کیوں کہ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ سے پہلے رونما ہو چکا تھا اور اس وقت اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ لہذا یہ بات کہنا کوئی بعید نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے خیال میں یہ صورت موجود ہو اور پھر یہ ان کے سامنے بھی آ گئی ہو۔ جیسے کہ سویا ہوا شخص خواب میں کوئی صورت دیکھتا ہے۔ اس بات پر ایک قرینہ لفظِ ’گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں‘ بھی ہے؛ کیوں کہ اس جملے سے ایک مثال کو بیان کر کے سمجھانا مقصد ہے، نہ کہ عین صورت کو سب سے سامنے پیش کرنا۔
وجودِ عقلی:کسی بھی موجودہ چیز کو دیکھنے کے دو زاویے ہوتے ہیں؛ ایک تو اس کا ظاہری وجودو جثّہ اور دوسرا اس کی حقیقت و معنی۔ وجود عقلی سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کے ظاہری وجود و صورت کے ادراک کے بغیر محض اس کی حقیقت و معنی کو اخذ کر لینا۔ چوں کہ حقیقت و معنی کا ادراک عقل کرتی ہے، لہذا اس وجود کو وجودِ عقلی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’ہاتھ‘ کا ایک ظاہری وجود ہے ؛ چند مخصوص ہڈیوں کے ڈھانچے پر گوشت پوست کا وجود، جو مخصوص حرکت کرتا ہے، اور دوسرا اس کا معنی و حقیقت ہے؛ کسی چیز کو پکڑنے کی قدرت و طاقت ہونا۔ اسی معنی و حقیقت کا ادراک وجودِ عقلی کہلاتا ہے۔ وجود عقلی کی کئی مثالیں ہیں۔ مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالٰی نے آدم کی مٹی کو اپنے ہاتھوں سے چالیس دنوں تک گوندھا۔ اس فرمان کے مطابق اللہ کے لیے ہاتھ کا ثبوت ہوتا ہے، چناں چہ جن حضرات کے نزدیک اللہ کے لیے ایک محسوس ہونے والے عضو کا ثبوت درست نہیں ہے تو وہ تاویل کر کے یہاں پر ’ید‘ کی حقیقت و معنی مراد لیتے ہیں؛ یعنی جس سے کوئی کام کیا جا سکے، پکڑا جا سکے اور لیا دیا جا سکے۔ لہذا مذکورہ بالا ارشاد میں اللہ کے ’ید‘ سے مراد فرشتے ہوں گے؛ کیوں کہ فرشتوں کے واسطے سے اللہ تعالٰی یہ سب امور انجام دیتے ہیں۔
وجودِ شبہی:وجود شبہی سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز نہ تو اپنے ظاہری وجودکے اعتبار سے موجود ہو اور نہ اپنی حقیقت و معنی کے اعتبار سے، نہ خارج میں ہو، نہ حسّ میں، نہ خیال میں اور نہ عقل میں، بل کہ اس کے خواصّ و صفات کے ساتھ مشابہت رکھنے والی ایک اور چیز موجود ہو۔30 اللہ تعالی کے حق میں وارد ہونے والی تمام صفات، مثلاً غصہ، غضب، اشتیاق، خوشی، صبر وغیرہ وجود شبہی کی قبیل میں سے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر غضب کی حقیقت اور معنی قلبی اطمینان کے لیے خون کا کھولنا ہے، جو کہ نقصان پہنچانے یا تکلیف دینے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ جو حضرات اللہ کے حق میں غضب کے ثبوت کو ذاتی، حسّی، خیالی و عقلی طور پر ماننے کے قائل نہیں تو وہ یہاں پر غضب کے علاوہ ایک اور صفت کے وجود کے قائل ہیں، جس سے ویسے ہی نتائج حاصل ہوتے ہیں جو صفت غضب سے حاصل ہوتے ہیں، مثلاً سزا دینے کا ارادہ۔
وجود کے مذکورہ مراتب اور ان کی شریعت میں مثالیں بیان کرنے سے امام غزالی کا مقصد یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص وجود کے ان مراتب میں سے کسی ایک درجے کا قائل رہتا ہے تو اسے مکذّب یا منکر کہنا غلط ہے، البتہ جو شخص رسول اللہ ﷺ یا شریعت کے کسی حکم کے بارے میں یہ سمجھتا ہے کہ اس بات کی کسی بھی درجے میں کوئی حقیقت نہیں ہے تو یہی در اصل انکار و تکذیب کہلائے گی۔ وہ لکھتے ہیں:
إعلم أن كل من نزّل قولاً من أقوال صاحب الشرع علی درجة من هذه الدرجات فهو من المصدقين، وإنما التكذيب أن ينفي جميع هذه المعاني، ويزعم أن ما قاله لا معني له. 31
’’جو شخص رسول اللہ ﷺ کی کسی بات کو (وجود کے) مذکورہ بالا درجات میں سے کسی بھی درجہ میں رکھے تو وہ تصدیق کرنے والوں میں سے ہے اور تکذیب و انکار وجود کے تمام درجات کی نفی کرنا اور یہ گمان رکھنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بات بے معنی ہے۔‘‘ امام صاحب کا مطمح نظر یہ ہے کہ ایمان کے دائرے کو وسیع کیا جائے اور تکفیر کے دائرے کو محدود، تا کہ تکفیر جیسے نازک مسئلہ میں غلطی کا احتمال کم سے کم ہو۔ ’وجود کے درجات میں سے کسی ایک درجہ میں رکھنے‘ سے ان کی مراد تاویل کرنا ہے۔ یہاں تاویل کی تفصیل بیان کرنا مقصد نہیں،32 البتہ تاویل کی اہمیّت اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہونے کو واضح کرنے کے لیے امام صاحب کے محض ایک اقتباس کی جانب اشارہ کافی ہو گا۔ فرماتے ہیں کہ ہر گروہ تاویل کرنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ احمد بن حنبل کے بارے میں مشہور ہے کہ تاویل سے حدّ درجہ اجتناب کرتے تھے، لیکن وہ خود تاویل کی بعید ترین صورتیں؛ کلام کا مجازی معنی مراد لینا یا استعارہ قرار دینا، ماننے کے لیے مجبور ہوئے ہیں۔ 33
تکفیر میں جن امور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے: تکفیرایک شرعی معاملہ ہے، لیکن امام غزالی کے نزدیک تکفیر کا حکم لگاتے ہوئے پانچ امور کا بالخصوص خیال رکھا جانا از حد ضروری ہے اور انھیں نظر انداز کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہو گا۔ تکفیر کے قواعد کو ذکر کرنے سے پہلے ان اہم امور کا تذکرہ مناسب ہے۔ وہ امور یہ ہیں:
أحدها: أن النصّ الشرعيّ الذي عدل به عن ظاهره هل يحتمل التأويل أم لا؟ فإن احتمل فهل هو قريب أم بعيد؟34
’’پہلی بات یہ ہے کہ جس نصّ کو اس کے ظاہری معنی سے پھیرا جا رہا ہے، (اس کے بارے میں یہ بات قابل غور ہے کہ) آیا وہ تاویل کا احتمال رکھتی ہے یا نہیں۔ اگر وہ تاویل کا احتمال رکھتی ہے تو آیا یہ احتمال قریب ہے یا احتمال بعید۔‘‘ جن چیزوں پر غور و فکر کرنا لازمی ہے، ان میں سے ایک شرعی نصّ ہے، جس میں تاویل کر کے ظاہری معنی کے بجاے غیر ظاہری معنی مراد لیا گیا ہو۔ اس میں جن باتوں پر غور و فکر کیا جائے گا وہ یہ ہیں؛ آیا اس شرعی نصّ میں نفسِ تاویل کا احتمال ہے یا نہیں؟ اور اگر اس میں تاویل کا احتمال باقی ہے تو آیا یہ احتمالِ قریب ہے یا بعید؟ احتمالِ قریب یا بعید کا مقصد دلیلِ تاویل کو پرکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ امام غزالی لکھتے ہیں کہ کسی جملے میں احتمالِ تاویل کا علم بہت مشکل ہوتا ہے اور اس کے لیے علمِ لغت میں مہارت درکار ہے۔ اسی طرح اہلِ زبان کے استعاروں اور مثالوں میں استعمالِ الفاظ کو سمجھنا اور مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔
متروک نظریے کی نوعیّت
’الثاني: في النصّ المتروك أنه ثبت تواتراً أو آحاداً أو بالإجماع المجرّد. فإن ثبت تواتراً فهو علی شرط التواتر أم لا؟ إذ ربما يظنّ المستفيض تواترا، وحدّ التواتر ما لا يمكن الشكّ فيه كالعلم بوجود الأنبياء... وأما ما يستند إلي الإجماع فدرك ذلك من أغمض الأشياء إذ شرطه أن يجتمع أهل الحلّ والعقد في صعيد واحد، فيتفقوا علی أمر واحد اتفاقاً بلفظ صريح. 35
’’دوسری چیز وہ نص ہے ، جسے ترک کیا گیا ہے۔ (اس کے حوالے سے یہ قابل غور ہے کہ) آیا وہ تواتر سے ثابت ہوا ہے، خبر واحد سے ثابت ہوا ہے یا محض اجماع سے۔ (مزید یہ کہ) اگر وہ تواتر سے ثابت ہوا ہے تو آیا وہ تواتر کی شرائط پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ (اس بات کا یقین کر لینا اس لیے ضروری ہے) کیوں کہ بعض اوقات خبر مشہور کو بھی متواتر سمجھ لیا جاتا ہے، حالاں کہ خبر متواتر کی تعریف یہ ہے کہ جس میں شک و شبہ کی گنجایش باقی نہ ہو۔ مثال کے طور پر انبیا کا وجود وغیرہ۔ اجماع سے ثابت شدہ دلیل وہ سمجھنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اجماع کی شرط یہ ہے کہ علما ایک جگہ اکٹھے ہوں اور کسی ایک معاملہ پر صریح الفاظ کے ساتھ اتفاق کریں۔‘‘
امام غزالی نے تواتر کی تعریف یوں بھی کی کہ جس میں شک نہیں کیا جا سکتا۔ تواتر کا علم ایک اہم معاملہ ہے؛ کیوں کہ بعض اوقات تعداد کے اعتبار سے تواتر کی شرائط پوری ہو جاتی ہیں، لیکن اس سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔اجماع کا معاملہ بھی بہت اہم اور پیچیدہ ہے؛ کیوں کہ اجماع کے تحقّق کی شرائط پوری ہونی چاہییں اور تحقّقِ اجماع کے بعد بھی اگر کوئی مجتہد اجماع کا انکار کرے تو اہلِ علم کی اس کی تکفیر و عدمِ تکفیر میں مختلف آرا ہیں۔36
النظر في أن صاحب المقال هل تواتر عنده الخبر، أو هل بلغه الإجماع؟ إذ كلّ من يولد لا تكون الأمور عنده متواترة، ولا موضع الإجماع عنده متميّز عن مواضع الخلاف.37
’’تاویل کرنے والے شخص کے احوال کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے؛ آیا اسے اس بات کے تواتر یا اجماع کا علم حاصل ہے یا نہیں۔ کیوں کہ ہر شخص کے لیے (یکساں طور پر) امور متواتر نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کے لیے مجمع علیہ اور مختلف فیہ امور واضح ہوتے ہیں۔‘‘ تواتر اور اجماع وغیرہ کےابحاث کا علم یک لخت نہیں ہو جاتا، بل کہ کئی کتابیں پڑھنے کے بعد کسی شخص کے نزدیک کوئی شے متواتر یا مجمع علیہ بنتی ہے۔ اس کی ایک مثال ابو بکر فارسی کی کتاب الاجماع ہے۔ انھوں نے یہ کتاب تصنیف فرمائی، لیکن اس سےیہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر شخص کے نزدیک مذکورہ مسائل مجمع علیہ ہیں اور اسی کا اثر تھا کہ بہت سے علما نے ان کے ذکرکردہ مجمع علیہ مسائل سے اختلاف کیا۔
النظر في دليله الباعث له علی مخالفة الظاهر أهو علي شرائط البرهان أم لا؟ ... ولا بدّ من معرفة ذلك، فإن البرهان إذا كان قاطعاً رخص في التأويل، وإن كان بعيداً. فإذا لم يكن قاطعاً لم يرخّص إلا في تأويل قريب سابق إلي الفهم.38
’’جس دلیل کی بنا پر تاویل کی جا رہی ہے؛ آیا وہ دلیل و برہان کی شرائط پر پوری اترتی ہے یا نہیں۔یہبات اس لیے اہمّ ہے کہ اگر دلیل قطعی ہو تو تاویل کے احتمالِ قریب و بعید کے لیے کافی ہوتی ہے، لیکن اگر دلیل قطعی نہیں ہے تو محض تاویل قریب میں وہ کار گر ہو گی۔‘ ‘
دلیل کی شرائط وغیرہ کے بارے میں امام غزالی نے مستقل کتابیں لکھی ہیں؛ جن میں سے معروف القسطاس المستقيم اور محكّ النظر ہیں۔ اوّل الذکر کتاب میں انھوں نے قرآن سے پانچ طرح کے دلائل کا ثبوت پیش کیا ہے؛ ميزان التعادل الأكبر، ميزان التعادل الأوسط، ميزان التعادل الأصغر، ميزان التلازم اور ميزان التعاند۔
النظر في أن ذكر تلك المقالة هل يعظم ضررها في الدين أم لا؟ فإن ما لا يعظم ضرره في الدين فالأمر فيه أسهل... 39 ’’نفس قول (کے اثرات) پر بھی غور کیا جائے گا کہ آیا اس کے سبب دین میں کوئی بڑا فتنہ برپا ہوا ہے یا نہیں۔ (اس بات کا خیال رکھنا اس لیے اہم ہے کہ) جس موقف سے کوئی قابل اعتنا فتنہ و ضرر نہیں پہنچا تو اس کا فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے ۔‘‘محض کسی پیش کردہ موقف کی بنا پر تکفیر نہیں کی جائے گی، جب تک اس موقف کا معاشرہ میں اثر نہ معلوم ہو۔ آیا اس موقف سے دین میں کوئی ضرر اور فتنہ لازم آئے گا یا نہیں۔ اگر اس سے کسی فتنہ و فساد کا اندیشہ نہیں ہے تو اس کی تکفیر کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔
امام غزالی کے نزدیک تکفیر کے قواعد و ضوابط کی نوعیت کیا ہے؟ اس پر نظرڈالنا چاہیے۔تکفیر میں جن امور کو بہ طور خاص ملحوظ رکھا جانا چاہیے، ان کی تفصیل کے بعد امام غزالی کے نزدیک قواعد تکفیر کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔رسول اللہ علیہ السلام کے لائے ہوئے کسی امر دینی کا انکار کفر ہے:
الكفر هو تكذيب الرسول صلي الله عليه وسلم في شيء مما جاء به، والإيمان تصديقه في جميع ما جاء به.40
’’رسول اللہ ﷺ نے جو امور دینیہ بیان کیے ہیں انھیں درست تسلیم کرنا ایمان ہے، جب کہ ان میں سے کسی بھی چیز کا انکار کرنا کفر ہے۔‘‘
کسی شے کو وجود کے کسی بھی مرتبے پر نہ ماننے کو انکار کہتے ہیں:
كل من نزّل قولاً من أقوال صاحب الشرع علي درجة من درجات الوجود فهو من المصدقين، وإنما التكذيب أن ينفي جميع هذه المعاني، ويزعم أن ما قاله لا معني له.... ولا يلزم الكفر للمؤولين ما داموا يلازمون قانون التأويل. 41
’’جو شخص رسول اللہ ﷺ کی کسی بات کو (وجود کے) مذکورہ بالا درجات میں سے کسی بھی درجہ میں رکھے تو وہ تصدیق کرنے والوں میں سے ہے اور تکذیب وجود کے تمام درجات کی نفی کرنا اور یہ گمان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بات بے معنی ہے۔جب تک تاویل کرنے والے تاویل کے اصولوں کا لحاظ رکھیں گے تو ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔‘‘
بغیر کسی جواز کے تاویل کرنا غلط ہے، لیکن کفر نہیں:
جواز التأويل موقوف علی قيام البرهان علی استحالة الظاهر... لا ينبغي أن يكفر كل فريق خصمه، بأن يراه غالطاً في البرهان، نعم يجوز أن يسمّيه ضالّا أو مبتدعاً.42
’’تاویل کا جواز ایسی دلیل پر موقوف ہے جوظاہری مفہوم کے عدم امکان پر واضح کرے۔ (اس) دلیل میں غلطی کی بنیاد پر مدّ مخالف کی تکفیر غیر مناسب رویّہ ہے، البتہ اسے گمراہ یا بدعتی کہنا روا ہے۔‘‘ تاویل کی درستی کے لیے ایسی دلیل قاطع یا برہان کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے یہ بات واضح ہو سکے کہ مطلوبہ نصّ میں ظاہری معنی مراد لینا نا ممکن ہے۔ گویا کہ اصل چیز ایسی دلیل کی موجودگی ہے۔ یہ بات کوئی بعید نہیں کہ ایک شخص کے نزدیک کوئی دلیل قاطع و یقینی ہو، جب کہ وہی دلیل دوسرے شخص کے نزدیک یقین کے حصول کے لیے نا کافی ہو، لہذا محض دلیل میں غلط ہونے کی بنیاد پر ہر جگہ تکفیر کرنا غیر مناسب ہے، بل کہ اس کے لیے مزید قرائن تلاش کرنا ضروری ہے۔فروعی امو رمیں تاویل کرنے سے کفر لازم نہیں آتاہے:
إن كان تأويله في أمر لا يتعلّق بأصول العقائد ومهمّات الدين، فلا يكفّر.43
’’اگر کوئی شخص فروع دین 44 میں تاویل کر رہا ہے، ( چاہے وہ نصّ بہ ذاتِ خود تاویل کا احتمال رکھتی ہے یا نہیں)، تو اس کی نہ تو تکفیر کی جائے گی اور نہ اسے بدعتی قرار دیا جائے گا۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نوعیت کی تاویل سے دین کے کسی اصول میں فرق نہیں پڑتا اور نہ یہ تکذیبِ رسول کو لازم ہے۔ اگر فروعی امور میں تاویل کرنا فتنہ و فساد کا ذریعہ بنے تو اسے گم راہی قرار دیا جائے گا:
نعم، إن كان فتح هذا الباب يؤدّي إلي تشويش قلوب العوامّ فيبدّع به خاصّة صاحبه في كلّ ما لم يؤثر عن السلف ذكره.45
’’اگر فروع دین میں تاویل کرنا عوامّ میں تشویش (و فتنہ)کا باعث بنے، تو اسلاف سے غیر منقول باتوں میں اسے بدعتی قرار دیا جائے گا۔‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس پر متنّبہ ہو جائیں اور اس کے فتنہ سے بچ جائیں۔
کسی امرِ متواتر کا انکار کفر ہے؛ چاہے اس کا تعلق اصول سے ہو یا فروع سے:
لا تكفير في الفروع أصلاً إلا في مسئلة واحدة و هي أن ينكر أصلاً دينيّاً علم من الرسول بالتواتر.46
’’فروعِ دین میں تاویل یا انکار کرنے سے کفر لازم نہیں آتا، سواے ایک صورت کے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے عقیدے کا انکار کیا جائے جو تواتر سے ثابت ہو۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر میں اصل ’تکذیبِ رسول‘ ہے اور جب تواتر سے کسی معاملہ کا ثبوت ہو جائے تو اس کے بارے میں یقینی علم حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ ایسی صورت میں اس کا انکار ’تکذیبِ رسول‘ کے مترادف ہے۔
خبرِ واحد یا اجماع کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا:
لو أنكر ما ثبت بأخبار الآحاد فلا يلزمه به الكفر، و لو أنكر ما ثبت بالإجماع فهذا فيه نظر.47
’’جس اصل دینی کا ثبوت خبر واحد سے ہو تو اس کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا۔ اور مجمع علیہ معاملہ کے انکار سے کفر کے ثبوت میں اختلاف ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس کا ثبوت یقینی نہیں ہے۔
اصولِ دین میں سے کسی اصل کا انکار کرنے سے کفر لازم ہے، جب کہ تین شرائط پائی جائیں؛ نص میں تاویل کا احتمال نہ ہو، وہ امر تواتر سے ثابت ہو اور عقل اس کے خلاف کسی دلیل کا تصوّر تک نہ کر سکے:
أما الأصول الثلاثة، فكل ما لم يحتمل التأويل في نفسه و تواتر نقله ، و لم يتصوّر أن يقوم برهان علي خلافه فمخالفته تكذيب محض.48
’’اصولی عقائد میں جو عقیدہ کسی تاویل کا احتمال نہ رکھتا ہو، وہ تواتر کے ساتھ منقول بھی ہو اور اس کے خلاف کسی عقلی دلیل کا تصوّر بھی نہ کیا جا سکتا ہو تو اس کی مخالفت تکذیب محض ہے۔‘‘ اصولی عقائد میں تاویل کرنے سے کفر کے لزوم کے لیے تین شرائط ہیں؛ اس نصّ میں بہ ذات خود تاویل کا احتمال نہ ہو، اس کے خلاف کسی دلیل کا تصوّر تک نہ کیا جا سکتا ہو اور اس کا ثبوت بھی تواتر کے ساتھ ہو۔
اگر کسی نصّ میں تاویل کا احتمال موجود ہو، اگر چہ تاویلِ بعید کا، تو دلیل کو دیکھا جائے گا؛ اگر دلیل قطعی ہو اور اس کو ظاہر کرنے سے عوامّ میں کسی فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو تو اس تاویل کا تذکرہ ضروری ہے۔ عوامّ میں کسی فتنہ کے اندیشے کی صورت میں اس تاویل کا احتمال بدعت ہے۔ اگر دلیل ظنی ہو اور اس سے کسی دینی ضرر کا احتمال نہ ہو تو اس کا اظہار بدعت تو ہے، لیکن کفر نہیں ہے۔
امام غزالی نے عزلت کے سفر کے دوران، دمشق میں الاقتصاد في الاعتقاد لکھی اور اس کتاب میں مختصر انداز میں تکفیر سے متعلق ایک چھوٹا سا باب باندھا۔ اس کتاب میں امام صاحب نے تکذیب کے مختلف مراتب کی بنا پر گروہوں کی درجہ بندی کی ہے۔ تکفیر کے باب میں اس کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے ذکر کیا جا رہا ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ تکذیب کے مختلف مرتبے ہوتے ہیں اور انھی مرتبوں کی بنا پر ہم لوگوں کی درجہ بندی کر سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک تکذیب کے چھ درجے ہیں اور ہر ایک کی صفات اور حکم میں فرق ہے:
امام غزالی لکھتے ہیں کہ تکذیب میں سب سے پہلامرتبہ یہود و نصاری اور اہلِ شرک کا ہے؛ کیوں کہ ان کی تکذیب و انکار کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور اس بات پر پوری امت کا اجماع بھی موجود ہے۔ گویا کہ تکذیب و انکار کے باب میں اہلِ کتاب اور مشرکین اصل ہیں اور باقی تمام گروہ ان کی فرع ۔49 یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امام صاحب تمام یہود و نصاری اور اہلِ کتاب کو اس درجہ میں شمار نہیں کرتے۔ ایک اور مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ کافروں کی تین قسمیں ہیں؛ ایسے کفار، جو اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے قرب و جوار میں رہتے ہیں اور ان تک اسلام کی دعوت بھی پہنچ چکی ہے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ایمان قبول نہیں کیا تو وہ کافر و ملحد ہیں۔دوسری قسم کے کفار وہ ہیں جو مسلم ممالک اور مسلمانوں سے بہت دور رہتے ہیں اور انھیں اسلام کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ ایسے لوگ معذور شمار ہوں گے۔ تیسری طرح کے افراد ایسے ہیں جنھیں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں اور اسی بنا پر وہ اسلام اور ایمان سے دور ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ بھی معذور تصوّر کیے جائیں گے۔ 50اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ جس کافر کو اسلام کے بارے میں معلومات ملیں اور اس نے ان کے بارے میں غور و فکر کرنا شروع کر دیا، لیکن حق و سچ کی وضاحت ہونے سے پہلے وہ فوت ہو گیا تو امید ہے کہ اسے بخش دیا جائے گا۔51
تكذيب البراهمة المنكرين لأصل النبوّات، والدهريّة المنكرين لصانع العالم...ويلتحق بهذه الرتبة كلّ من قال قولاً لا تثبت النبوّة في أصلها أو نبوّة نبيّنا محمد علي الخصوص إلا بعد بطلان قوله.52
’’براہمہ کی تکذیب ، جو سرّے سے نبوّت کے منکر ہیں، اور دہریہ کی تکذیب، جو خدا کے وجود کے منکر ہیں (یہ دوسرے درجے کی تکذیب میں شمار ہو گی)۔ تکذیب کے اس درجہ میں ہر ایسا شخص بھی شامل ہو گا، جس کے قول کی تردید کے بغیر نفس نبوّت یا محمد علیہ السلام کی نبوّت ثابت نہ ہوتی ہو۔‘‘ براہمہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سرے سے نبوّت کا انکار کرتے ہیں اور دہریوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ، اہلِ کتاب اور مشرکین کی طرح کافر ہیں اوران لوگوں کے کفر کا علم نصوص پر قیاس کرنے سے ہوا ہے۔
فلاسفہ کی تکذیب کا ایک اور مرتبہ ہے؛ کیوں کہ یہ خدا اور انبیا کی تصدیق کرنے کے باوجود، ایسے امور کا اعتقاد رکھتے ہیں جو شریعت کے خلاف ہیں۔ 53امام صاحب نے تین مسائل کی بنا پر فلاسفہ کو کافر قرار دیا ہے:
فلاسفہ اس دنیا کے قدم وازلی ہونے کے قائل ہیں۔
فلاسفہ اللہ کو عالم بالکلیّات تسلیم کرتے ہیں، لیکن اسے عالم بالجزئیّات نہیں مانتے۔
فلاسفہ بعث بعد الموت کے قائل ہیں، لیکن روح کی حدّ تک۔ وہ جسم کی بعثتِ ثانی کو نہیں مانتے۔
فلاسفہ کا یہ عام طریقہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں اور پھر اس کے لیے کئی حیلے بہانے پیش کرتے ہیں۔54
المعتزلة والمشبّهة والفرق كلّها سوي الفلاسفة، وهم الذين يصدّقون ولا يجوّزون الكذب لمصلحة وغير مصلحة، ولا يشتغلون بالتعليل بمصلحة الكذب بل بالتأويل.‘55
’’فلاسفہ کے علاوہ دیگر تمام فرقے، مثلا معتزلہ و مشبّہۃ وغیرہ، کا تعلق اسی رتبۂ تکذیب سے ہے۔ یہ لوگ اللہ و رسول کی تصدیق کرتے ہیں، لیکن فلاسفہ کی طرح کسی مصلحت وغیرہ کی بنا پر نبی کی جانب جھوٹ کی نسبت کو درست نہیں سمجھتے اور پھر جھوٹ کی مصلحت کی علّتیں تلاش نہیں کرتے، بل کہ یہ نصوص میں تاویل کرتے ہیں۔‘‘
امام صاحب فرماتے ہیں کہ ان گروہوں میں افراط و تفریط موجود ہے اور بعض مسائل کی نوعیّت ایسی ہے کہ ان میں تکفیر کی جا سکتی ہے، لیکن جہاں تک ممکن ہو سکے ان گروہوں کی تکفیر سے بچنا چاہیے؛ کیوں کہ ہزار کافروں کو زندہ چھوڑ دینے کی غلطی، کسی مومن کو قتل کرنے کی بہ نسبت بہت معمولی ہے۔ ان حضرات کی عدمِ تکفیر کی دلیل پیش کرتے ہوئے، لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تکذیب و انکار کی صورت میں ایک شخص کی تکفیر کی جا سکتی ہے، لیکن تاویل میں غلطی کرنے کی بنا پر تکفیر کا ثبوت نہیں ہے۔ کلمۂ شہادت کی بنا پر ان حضرات کی جان و مال محفوظ ہے تو مباح الدم ہونے کے لیے بھی کوئی ٹھوس دلیل چاہیے۔56 مزید یہ کہ خطا فی الاجتہاد کو ثواب کا موجب قرار دیا گیا ہے، اس کی بنا پر کفر کیسے لازم آئے گا؟
من يترك التكذيب الصريح ولكن ينكر أصلاً من أصول الشرعيات المعلومة بالتواتر عن رسول الله ﷺ.57
’’جو شخص صراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا انکار نہیں کرتا، لیکن کسی متواتر شرعی کا منکر ہے۔‘‘
یہ بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ کفر سے مراد رسول اللہ ﷺ کی کسی بات کا انکار کرنا ہے اور جس معاملہ کا ثبوت تواتر سے ہو تو اس سے علمِ ضروری حاصل ہو گا کہ یہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ لہذا ایسی شے کا انکار تکذیبِ رسول میں شمار ہو گی۔ امام غزالی نے اسی لیے ان لوگوں کی صفات میں یہ بات ذکر کی ہے کہ یہ صراحت کے ساتھ تکذیب نہیں کرتے، لیکن در حقیقت یہ تکذیب و انکار ہی ہے۔کسی متواتر معاملہ کا انکار کرنا تو بہ ہر حال کفر ہے، لیکن تواتر کا ثبوت ایک اہم اور پیچیدہ معاملہ ہے۔
تکذیب کا ایک درجہ یہ ہے کہ کسی ایسے معاملہ کا انکار کیا جائے جس کا ثبوت محض اجماع سے ہو۔ امام صاحب لکھتے ہیں کہ اجماع کی مخالفت کی بنا پر کسی کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ نظام معتزلی نے حجیّتِ اجماع کا انکار کیا، لیکن اس کے باوجود ان کی تکفیر نہیں کی گئی۔58
تکفیر کے حوالے سے امام غزالی کی وصیت قابل غور ہے۔امام غزالی تکفیر میں ملوّث ہونے سے منع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أما الوصيّة: فأن تكفّ لسانك عن أهل القبلة ما أمكنك ما داموا قائلين لا إله إلا الله محمد رسول الله غير مناقضين لها... فإن التكفير فيه خطر والسكوت لا خطر فيه.59
امام صاحب یہ وصیّت فرما رہے ہیں، ’’جہاں تک ممکن ہو سکے، اہلِ قبلہ کی تکفیر سے بچتے رہو؛ کیوں کہ تکفیر ایک نہایت خطرناک عمل، جب کہ خاموشی میں کوئی نقصان نہیں۔‘‘والخطا في ترك ألف كافر في الحياة أهون من الخطإ في سفك محجمة من دم مسلم.60
’’غلطی سے کسی مسلمان کا بوند بھر خون بہانے کی غلطی، ہزار کافروں کو معاف کر دینے کی غلطی سے بڑھ کر ہے۔‘‘اس کے علاوہ تکفیر کے معاملہ میں ذاتی تعصّب بھی شامل ہو جاتا ہے، جس کی بنا پر اس کی سنگینی میں اضافہ ہو جاتا ہے:فإن أكثر الخائضين في هذا إنما يحرّكهم التعصّب واتّباع الهوي دون التصلّب للدين.61 ’’کئی دفعہ ذاتی خواہش و تعصّب کی بنا پر لوگ تکفیر کر دیتے ہیں، نہ کہ علمی پختگی کی بنیاد پر۔‘‘
ایک اور مقام پر امام صاحب نے لکھا ہے کہ بات بات پر تکفیر کرنا علمی وسعت کی نہیں، بل کہ بے وقوفی کی علامت ہے۔ امام صاحب تکفیر کے دائرہ کو پھیلانے کا عمل، اللہ کی رحمت کی وسعت کے منافی سمجھتے تھے۔ ایک مقام پر انھوں نے حق کو تلاش کرنے والے غیر مسلموں کی درجہ بندی کی اور آخر میں ایسے شخص کے بارے میں لکھتے ہیں، جسے اسلام کے بارے میں معلومات مل جائیں اور وہ خلوص کے ساتھ اس کے بارے میں تحقیق و جستجو کر رہا ہو، لیکن اس دوران اسے موت آ جائے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟فرماتے ہیں:
فإن اشتغل بالنظر والطلب ولم يقصر فأدركه الموت قبل تمام التحقيق فهو أيضاً مغفور له ثمّ له الرحمة الواسعة. فاستوسع رحمة الله تعالي ولا تزن الأمور الإلهية بالموازين المختصرة الرسمية.62
’اگر کوئی کافر اسلام کے بارے میں غور و فکر میں لگا، لیکن تشفّی ہونے سے پہلے اسے موت آ گئی تو امید ہے کہ اس کی بخشش ہو جائے گی اور اس کے بعد اس کے اللہ کی وسیع رحمتیں ہیں۔ پس اے مخاطب! اللہ کی رحمت کو وسیع کرو اور اللہ کے معاملات کو اپنے پیمانوں سے مت ناپو اور تولو۔‘
امام غزالی کی مباحثِ تکفیر کو جائزہ لینے کے بعد یہ بات بہ خوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ ان کے افکارِ تکفیر کی اہمیّت اور ان کے امتیاز کے درست اندازے کے لیے سب سے پہلے اس دور کا تاریخی مطالعہ نہایت اہمّ ہے۔ امام صاحب سے پہلے بھی کئی فقہا و متکلمین نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، لیکن انھوں نے اس بحث کو کئی حوالوں سے نیا رنگ دیا ہے۔ اس دور کی سیاسی فضا کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں وہ ایمان کے دائرے کو بہت تنگ کرنے پر راضی نہیں تھے، وہیں وہ کفر کو بھی واضح قواعد کے ساتھ بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، تا کہ تکفیر جیسا شرعی حکم نہ تو تعطّل کا شکار ہو جائے اور نہ ہی غلط سیاسی و سماجی استعمال کی زد میں آ جائے۔ البتہ ان کا میلان ایمان کے دائرے کو پھیلانے اور کفر کے دائرے کو چھوٹا کرنے کی جانب محسوس ہوتا ہے۔ اس کے لیے کہیں وہ ’’ وجود کے درجات‘‘ جیسی کلامی و فلسفیانہ ابحاث کا استعمال کرتے ہیں، کہیں وہ اصولِ دین اور فروعِ دین جیسی اصطلاحات کو وضع کرتے ہیں، کہیں وہ تکفیر کا حکم لگانے سے پہلے کے امورِ ملحوظہ کی وضاحت کرتے ہیں ۔ تواتر ، اجماع اور تاویل میں بھی وہ گنجایش اور توسّع پیدا کرتے ہیں، تا کہ انھیں بے جا تکفیر میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔ وہ اربابِ دانش کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ محض کلمۂ کفر کو موضوعِ بحث بنانے کے بجاے قائل کے ذہنی رجحانات اور معاشرے پر اس کلمۂ کفر کے اثرات بھی زیرِ غور لائیں۔ بات بات پر تکفیر کو امام صاحب علمی پختگی کے بجاے بے وقوفی اور کم علمی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ ان کے نزدیک تکفیر اور اللہ کی رحمت کے مابین نسبتِ عکسی (inverse proportion) کا تعلق ہے، لہذا ایک کے بڑھنے سے دوسرا کم ہو جاتا ہے۔موجودہ تکفیری دور میں امام صاحب کے افکار جہاں بے جا تکفیر کی روک تھام کے لیے نہایت مفید ہیں، وہیں اس شرعی حکم کے عدمِ تعطّل کے لیے بھی کار گر ہیں۔
( مولانا محمد شہزاد حسین نے مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کاتعلیمی وتخصصاتی کورس مکمل کیا ہے۔وہ پاکستان کے ایک سرکاری اسکول میں معلم ہیں۔ ای میل : @ @ hotmail.com abumuhammad1434@)