Editorial Board

  • Ebrahim Moosa (Patron)

    Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies

    Keough School of Global Affairs

    1010 Jenkins Nanovic Halls

    University of Notre Dame

    Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA

    Email, emoosa@gmail.com

    Ph. +19 192703431

  • Dr. Waris Mazhari (Chief Editor)

    Assist. Professor, Department of Islamic Studies,

    Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062

    Email: w.mazhari@gmail.com

    Ph. 9990529353

  • Dr. Joshua Patel ( Deputy Editor)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025

    Email. mmushtak@jmi.ac.in

    Contact. 9910702673

  • Dr. Safia Amir ( Assistant Editor-I)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025

    Email : samir@jamiahamdard.ac.in

    Ph. 9540390930

  • Dr. Syed Abdur Rasheed ( Assistant Editor-II)

    Assistant professor,

    Department of Islamic Studies,

    Aliah University, Kolkata

    Email : abdurrasheedhyd@gmail.com

    Ph. 8583837253

  • Dr. Javed Akhatar (Managing Editor)

    Assistant Professor, (Guest)

    Department of Islamic Studies,

    Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025

    Email : javed.akhatar1985@gmail.com

    Ph. 9891059708

  • International Advisory Board:

    Saadia Yacoob ( associate editor-I)

    Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA

    Office:Hollander Hall, Rm 206

    Office Phone: (413) 597-2585

    Email, saadia.yacoob@gmail.com

  • Ali Altaf Mian ( associate editor-II)

    Assistant Professor

    Department of Religion, University of Florida, USA

    Email, alimian@gmail.com

  • Adeel Khan ( associate editor-III)

    Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,

    SOAS University of London, UK.

    Email: adeel.khan.cantab@gmail.com

Instructions for Authors

  • The Journal welcomes articles from academics and scholars from around the world.
  • All articles will be subject to anonymous review, and will be evaluated on the basis of their creativity, quality, and understanding.
  • The Editor accepts responsibility for the selection of materials to be published, however individual authors are responsible for the facts, figures, and views in their articles.
  • The Editor reserves the right to edit the articles for reasons of space and clarity.
  • Articles should generally contain between 5,000 and 7,000 words including notes and bibliography, although shorter articles may be accepted by arrangement with the editors.
  • Submission of an article is taken to imply that it has not been previously published, or considered for publication elsewhere.

توشیہیکو ایزوتسو

ترجمہ: ڈاکٹرطلحہ رحمان

قرآن کے اخلاقی اور دینی تصورات :زبان وثقافت

مصنف کا تعارف

(توشیہیکو ایزوتسو (4 مئی 1914-7 جنوری 1993) جاپان کی کییؤیونیورسٹی میں لغت اور ثقافت کے پروفیسر تھے۔ انھیں عربی سے جاپانی زبان میں قرآن کریم کے اولین مترجم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انہوں نے کییؤ کے علاوہ طہران کے مؤسسہ پژوھش حکمت و فلسفہ ایران اور میکگل یونیورسٹی کناڈا میں بھی درس وتدریس کی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کا شمار اسلامی فلسفہ اورلسانیات کے عظیم ماہرین میں ہوتا ہے ، نیز وہ عربی، فارسی، سنسکرت، چینی، جاپانی، روسی اور یونانی سمیت تقریباًتیس (30)زبانوں کے ماہر تھے یہ مقالہ ان کی ایک مشہور کتاب ’قرآن کے اخلاقی و دینی تصورات ‘(Ethico-Religious Concepts in the Quran) سے ماخوذ ہے۔)

کے اخلاقی اور دینی تصورات کا مطالعہ متعدد نقطہ ہا ئےنظر سےکیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اس کاآغاز اسلامی فقہ کے اس وسیع نظام سے کريں جو بعد کےادوار میں انسانی اعمال کے تمام تر پہلوؤں کی ضابطہ بندی کا ذریعہ بنا تو یقیناً ہم پر یہ انکشاف ہو گا کہ یہ نظام ہم کو ان تمام شرعی اوامر و نواہی کے لیے بنیادی ماخذ کے طور پر قرآن تک لے جاتا ہے۔ یا پھر ہم قرآن کے اخلاقی و دینی تصورات کی تلاش علم الکلام میں کر سکتے ہیں جس میں ہمیں بعض بنیادی سوالات جیسے خدا سے انسان کا تعلق، عقائد اوران کے عملی تقاضوں وغیرہ کے حوالے سے علمی مباحث ملتے ہیں۔ تیسرا متبادل طریقۂ کار یہ ہوسکتا ہے کہ ہم منظّم طریقے سے قرآن میں موجود مختلف اخلاقی تعلیمات کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کر کے اسے’قرآن کی اخلاقیات‘کا نام دیں۔

اس کتاب کو لکھنے میں میرا طریقۂ کار مذکورہ بالا طریقوں سے بالکل مختلف نوعیت کا رہا ہے۔ خصوصی طور پر اسے وہ تجزیاتی طریقۂ کار مختلف بناتا ہے جو میں نے قرآنی مواد کے مطالعے کے لیے اختیار کیا ہےیعنی خود قرآن کےذریعہ قرآنی تصورات کی تشریح کرنا۔ بہ الفاظِ دیگر میری دریافت کا مرکزی پہلو مواد نہیں بلکہ قرآنی مواد کا لسانی تجزیہ ہے یعنی وہ مخصوص نقطۂ نظر جس سے قرآن کی عملی اور اخلاقی قدروں کو بیان کرنے والے الفاظ کی معنوی بناوٹ1 کے تجزیہ کی کوشش کی ہے۔

میں ابتداء میں جس بات پر خصوصیت کے ساتھ زور دینا چاہتا ہوں اور جو پہلی نظر میں ہی بدیہی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ متن کے ترجمہ سے بالواسطہ منتخب کیے گئے مواد پرانحصار کرنا قطعاًجائزنہیں ہے۔ترجمہ شدہ الفاظ اورجملے اصل سے زیادہ سے زیادہ فقط جزوی مطابقت کے حامل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ترجمہ کسی بھی علمی سفر کے آغاز میں ہمارے متزلزل قدموں کے بعض ناتراشیدہ رہنما خطوط ضرور فراہم کرتا ہے تاہم بسا اوقات یہ ناکافی اور گمراہ کن بھی ہوتا ہے۔ بہرحال ترجمہ کیا ہوا مواد کسی صورت میں بھی کسی قوم کے اخلاقی تصورات پر بحث کی قابل اعتماد اساس نہیں بن سکتا۔ یہ بات مختلف قارئین کےلیے پہلےسےاتنی واضح ہوگی کہ یہاں انہیں اس پراتنا زوردینا ‏شاید اہمیت کا حامل نہ لگے،لیکن اس اصول کی حقیقی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے اور اس پر مستقل توجہ نہ دینے کی وجہ سے اس کے سنگین خطرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہم کسی متن کو اس کی اصل زبان میں بھی پڑھتے ہیں تو لا شعوری طور پر ہم اپنی مادری زبان میں استعمال ہونے والے تصورات کو اس متن میں پڑھنے لگتے ہیں۔اس کے زیر اثر اس متن کی متعدد کلیدی اصطلاحات کی اصل ماہیت کو بدل کر ہم اسےاپنی مادری زبان میں پائے جانےوالے ملتے جلتے تصورات میں تبدیل کردیتے ہیں ۔2 لیکن یہ عمل حقیقتا اصل متن کو ترجمے میں پڑھنے کے برابر ہی ہے، چوں کہ لا شعوری طور پر ہم بہرحال ترجمہ کے ذریعہ ہی اصل تصورات کو تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔

معاصر اخلاقی علوم میں اس قسم کی لا شعوری طور پر کی جانے والی تصورات کی ترسیل نے جو نقصان پہنچایا ہے اس کا اخلاقی نظام کے تقابلی علوم کے میدان میں شدّت سے احساس کیا جا رہا ہے۔ اس رجحان کو ثقافتی بشریات3 (cultural anthropology) کے شعبے میں ہونے والی حالیہ ترقیات سے مزید فروغ ملا ہے۔

ثقافتی بشریات کے میدان میں ہونے والی وسعت اس قدر غیر معمولی ہے کہ لسانی اور ثقافتی سوالات کو حل کرنے میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے اس علم کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ اسی وجہ سے اخلاقیات کے اکثرمعاصر مصنفین اپنے ثقافتی دائرے کی دسترس سے باہر موجود اخلاقی ضابطوں کے وجود پر ضرور توجہ دیتے ہیں، چاہے ان کا یہ عمل غیر مستقل مزاجی سے ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا آج کل تقابلی اخلاقیات سے مشابہت رکھنے والا علم اخلاقیات از حد مقبول ہے،حتّی کہ یہ تقابلی اثرات ان مصنفین کے یہاں بھی پائے جاتےہیں جن کی رایے یہ ہے کہ اخلاقی معاملات میں در حقیقت تکثیریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ انسانی اخلاق کی ماہیّت عالمی سطح پر ہر جگہ اور ہر وقت ایک ہی ہوتی ہے۔

اس قبیل کے اکثر مصنّفین اپنی تحریروں میں اخلاقی اصطلاحات میں لاشعوری تبدیلی کر کے تقابلی مطالعہ کے دوران ان تصورات کو استعمال کرتے ہیں اورغیر مستحکم نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔

پروفیسر مورس کوہین ’’A Preface to Logic ‘‘ میں ارسطو کے تصوّرِ’’ مردِ صالح‘‘(virtuous man ) کے مطالعہ میں یونانی لفظ (areté) ایریٹے کا ترجمہ انگریزی لفظ ’’virtue ‘‘ سےکرنے کے خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انگریزی لفظ ’’virtue ‘‘ جس کو خصوصی طور پر یونانی زبان میں’’ ایریٹے‘‘ کے ترجمے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، بڑا گمراہ کن ہے۔کوہین کی رایےمیں ’’ایریٹے‘‘ کا صحیح ترجمہ انگریزی میں excellenceیعنی امتیازیا امتیازی خصوصیت ہونا چاہیے۔

کوہین کا ترجمہ صحیح ہے یا نہیں اس بحث کو درکنار کر کے اگر ہم فرض کر لیں کہ تمام جگہ اس لفظ کے استعمال کا باریکی سے مطالعہ کرنے سے یہی ترجمہ قابل پیروی لگتا ہے۔ اور اس بناپر کوئی شخص ’’virtue ‘‘ کے قدیم یونانی تصورپرمقالہ لکھنا شروع کردے ۔ وہ اس مقالے کے لیے مواد افلاطون اور ارسطو کی تحریرات کے انگریزی تراجم سے اخذ کرے جن میں ایریٹے کا ترجمہ علی الدوام ’’ورچو‘‘ کیا گیا ہے۔ یا پھر وہ شخص اصل یونانی متن میں جہاں بھی لفظ ایریٹے وارد ہولفظ ’ 'ورچو‘ سے اس کے مفہوم کی تشکیلِ نو کرتا جائے تو اس کے خطرات ظاہر اور یقینی ہیں۔ ایریٹے=ورچو غلط متبادل کے استعمال اور اس ترجمہ کی غلطی واضح نہ ہونے کی بناپرمصنف اس قسم کی لا حاصل بحثوں میں پڑ سکتا ہے کہ یونانی ورچو کی ماہیت کیا ہے یا یونانی اور انگریزی تصور ’ورچو‘ میں کیا فرق ہے؟ اس طرح انگریزی لفظ’’ ورچو ‘‘کے لغوی مفہوم کو لاشعوری طور پر ایک ایسے یونانی لفظ کا مترادف سمجھا جائے گا جس کی اس لفظ سے مماثلت بڑی محدود اور مبہم ہے چوں کہ دونوں الفاظ میں کچھ حد تک ذاتی فضیلت اور قابل ستائش ہونے کا مفہوم شامل ہے۔

بدقسمتی سے اس قسم کی غلطیاں اخلاقیات سے متعلق جدید تحریروں میں عام ہیں۔ مثال کے طور پر ہم محتاط ہو کر ان مغربی مصنفین کی تحریروں کا مطالعہ کریں جنہوں نے جاپانی ’’شنٹو ‘‘عقیدے اور چینی فکرکنفیوشیت میں صداقت اور عدل کے تصور کو سمجھنے کے لیے انگریزی ترجموں سے استفادہ کیا ہو۔ جاپانی اور چینی زبانوں میں ایسے کئی الفاظ ہیں جن کا مفہوم کچھ حد تک صداقت یا عدل کے الفاظ سے مشابہ ہے لیکن محض اس قسم کی مبہم مشابہت کی بنیاد پر تقابلی اخلاقیات کی تشکیل کرنا انتہائی مشکوک عمل ہے۔ خود عربی لفظ ’صالح‘ کا ترجمہ کرنے میں بھی ہو بہو یہی مشکلات درپیش آتی ہیں۔ اس لفظ کے مفہوم کا تجزیہ آگے آنے والی فصلوں میں بھی کیا گیا ہے۔اس لفظ کے لیے بالعموم انگریزی زبان میں righteousکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔میں نے اپنے تجزیے میں یہی دکھایا ہے کہ ان دونوں لفظوں (صالح اور righteous) کے مفاہیم میں بہت فرق ہے۔

اس پوری گفتگو سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس قسم کی کوششیں بالکل بےکار اور بے معنی ہیں۔ بلکہ ایسا کہنا بھی ادعائے بے جا ہوگا۔میں صرف ان خطرات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اخلاقی علوم کے میدان میں اصل تصورات کے دقیق منطقی تجزیہ کے بجائے ترجمہ کے دوران تصورات کی لاشعوری تحریف وترمیم کے نتیجے میں علماء کو ناقابل قبول علمی نظریات کی طرف لے جاتے ہیں۔میں خود بھی کوئی انتہا درجے کا اضافیت پسند (relativist) نہیں ہوں۔

نوویل اسمتھ لکھتے ہیں:’جتنا ہم مختلف اخلاقی ضابطوں کو پڑھتے ہیں اتنا ہی ہم پر انکشاف ہوتا ہے کہ نہ صرف ان میں اصولوں کے بنیادی نکات پر اختلاف ہے بلکہ ان میں تضاد کی وجہ مشاہداتی حقائق کے بارے میں بھی اختلاف رایےہے۔لہذا سبھی ضابطے اس بات پر تو متفق نظر آتے ہیں کہ اچھائی کا بدلہ اچھائی ہو لیکن اس دستور کی پیروی میں کس قسم کا رویہ اچھا سمجھا جاتا ہے،یہ ہر قوم کے لیےمختلف ہوگا۔‘ 4

اسمتھ کی بات یہاں پر صحیح لگتی ہے۔جب تک اسمتھ اخلاقی ضابطوں کے بارے میں تصوراتی اصولوں کی سطح پر بات کرتے رہیں گے تب تک ان کی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ غالباً تجرید کی اس اعلی سطح پر تمام عالم میں انسانی فطرت یکساں ہے۔ اس بنیاد پر میں اخلاقیات کے کئی عالمگیر قواعد اخذ کرنے کے امکان سے انکار نہیں کرتا۔ بلکہ میری رایےمیں اخلاق کےسلسلےمیں بنیادی مسائل اس سے نچلی سطح میں موجود مشاہداتی حقائق اور عملی تجربات میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وہ سطح ہے جہاں معاشرے میں انسانی زندگی کے ٹھوس حقائق کے درمیان اخلاقی تصورات کا مفہومی مواد تشکیل پاتا ہے۔ چوں کہ جس برتاؤ کو اچھا سمجھا جاتا ہے وہ ہر معاشرے کے لیے الگ ہے،اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود اچھائی کا مفہوم ہرمعاشرے میں مختلف ہے ۔لیکن یہ اصول خود اس گمان پر منحصر ہے کہ ہر زبان میں اچھائی سے کم و بیش مطابقت رکھنے والا کوئی نہ کوئی لفظ موجود ہوجب کہ خود اچھا(good) انگریزی کے سب سے مبہم اور ‏غیر واضح الفاظ میں سے ايک ہے۔بہر حال اس طرح کے نامناسب مفروضات سے بچنا چاہیے جس میں مصنف کی اپنی زبان کی ساختیاتی خصوصیات دیگر معاشروں کی زبانوں میں موجود الفاظ کے لغوی مفاہیم کے مطالعے پر اثر انداز ہوتی ہوں۔

درج بالا مباحث سے بہت حد تک اس موقف کی وضاحت ہوتی ہے جس کو اس مقالے میں زبان کے معنوی پہلووں کے حوالے سے اختیار کیا گیا ہے۔اس مقالے کو لکھنے میں میرا بنیادی طریقۂ کار یہ رہا ہے کہ مشاہداتی حقائق کو زیر نظر رکھا جائےاوراس موضوع پر جو مخالف علمی نظریات موجود ہیں ان میں سے کسی ایک کی حمایت نہ کی جائے۔ اگرچہ لغت اور ثقافت کے باہمی ربط پر ضرور میں ایک حتمی موقف اختیارکرنے کی کوشش کروںگا۔ ناگزیر طور پر اس سے اخلاقیاتی اصطلاحات کے حوالے سے میرے ذہنی رویہ میں ذاتی رنگ ابھر کر آتا ہے۔ اس مقالے میں میرا گہرا جھکاؤ ایک ایسے تکثیری نظریہ کی طرف ہے جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ صحیح اور غلط، اچھا اور برا کیا ہے اس میں جگہ اور وقت کے لحاظ سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ان مختلف اخلاقی ضوابط کے بیچ بنیادی فرق ہوتا ہے جس کو محض ادنی تفصیلات میں اختلاف فرض کر کے ایک واحد ثقافتی ارتقا کے پیمانوں پر ان ضوابط کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ یہ مختلف ضوابط اصل میں ایسے ثقافتی اختلافات کا نتیجہ ہیں جن کی جڑیں ہر قوم کی لسانی عادات واستعمالات میں ملتی ہیں۔

اس مقالے کا بنیادی ڈھانچہ معنی کے جس نظریہ5 پر مشتمل ہے وہ کسی بھی لحاظ سے میری خود کی ایجاد نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک خاص قسم کی معنیات(semantics)پر مبنی ہے جس کی تشکیل و تشریح کا سہرا مغربی جرمنی کے پروفیسر لیو ویسگربر (Leo Weisgerber) کے سر جاتا ہے اور جس کو وہ Weltanschauungslehre Sprachliche کہتے ہیں۔6

ان کے اس علمی نظریہ کے اہم پہلو بہت حد تک اس علمی میدان سے موافقت رکھتے ہیں جس کو آج کل نسلیاتی لسانیات (ethnolinguistics)کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کا آغاز لغوی اور ثقافتی ضوابط کے باہمی تعلقات کے مطالعے کے لیےایڈورڈ سیپرنے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں امریکا میں کیا تھا۔ ان دونوں نظریات کی اپنی خصوصیات ہیں جن پر یہاں تفصیل سے بحث کرنا ممکن نہیں، اس لیےدرج ذیل بحث میں دونوں کے ان مشترکہ اہم نکات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو ہمارے بنیادی موضوع سے تعلق رکھتےہیں۔

مجرد تعریف کے بجائے اگر ہم چند ٹھوس مثالوں کی مدد سے اس نظریہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ مثال کے طور پر انگریزی لفظweed لے لیں۔ایک لغت میں اس لفظ کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے: ایک جنگلی بوٹی جو ایسی جگہ پیدا ہو تی ہے جہاں وہ مطلوب نہ ہو،یعنی آسان الفاظ میں کہیں تو ایک ان چاہی یا ناپسندیدہ بوٹی۔ خارجی دنیا میں ناپسندیدہ بوٹی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایک ناپسندیدہ بوٹی محض انسان کے تصور میں ہوتی ہے۔ انسان اشیاء کی لامحدود پیچیدگی کو دیکھتا ہے، ان کو اپنے ذہن میں مرتب کرتا ہے اور اپنے مقاصد کے مطابق ان کی قدرپیمائی کرتا ہے۔weedکا تصور بھی اس قسم کے انسانی عمل کا نتیجہ ہے جس میں ترتیب دینا، چھنٹائی کرنا، قدرپیمائی کرنا اور زمرہ بندی کرنا ‏شامل ہے۔ یعنی ویڈ کا تصور اصل میں انسانی ذہن کی ایک خاص داخلی کیفیت کا اظہار ہے نہ کہ کسی خارجی حقیقت کا نام۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ الفاظ اور حقیقت کے بیچ ایک سیدھا تعلق ہے اور پہلے سے موجود اشیاء کو محض مختلف ناموں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس نظریےکےمطابق میزلفظ کا استعمال اس ٹھوس چیز کے لیے کیاجاتاہےجوہماری نظروں کے سامنے ہے۔ مگرweedکی مثال یہ دکھاتی ہے کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے بلکہ اشیاء اور ان کے نام کے بیچ انسانی وضاحت کی مداخلت ہوتی ہے۔ انسانی ذہن خارجی دنیا کے حقیقی ڈھانچے پر محض انفعالی انداز میں غور نہيں کرتا بلکہ مثبت طور پر حقیقت کو ایک خاص نقطۂ نظر، ایک خاص زاویے سے دیکھتا ہے۔اس ذہنی عمل کو جرمنی کے عوام Geist 7کے نام سے جانتے ہیں اور اسی عمل کے نتیجے میں اشیاء انسان کےلیےوجود اختیار کرتی ہیں۔ حقیقت اور لغت کے بیچ ایک تخلیقی عمل اور مواد کی ایک خاص سمت میں وضاحت کی شکل میں انسانی ذہن کی مداخلت ہوتی ہے۔ یہی الفاظ کے معنی کا صحیح دائرہ ہے۔

عصر جدید میں اس نظریے کا اظہار یوں کیا جا سکتا ہے کہ ہر لفظ کسی غیر لغوی حقیقت کی لغوی درجہ بندی کی نمائندگی کرتا ہے۔مگر یہ درجہ بندی اپنے اندر ایک ایسی ذہنی جستجو کا تصور سمیٹے ہوئے ہے جس میں مختلف اشیاء کو ایک اکائی کے تحت کسی خاص اصول کی بیناد پر جمع کیا جاتا ہے۔ یہ اصول وہ خاص زاویہ ہوتا ہے جس سے انسان حقیقت کو دیکھتا ہے اور یہ زاویہ ثقافتی اور تاریخی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔

’’ویڈ ‘‘کی مثال بڑی واضح ہے مگر یہ کوئی استثنائی مثال نہیں ہے۔ تمام الفاظ بنیادی طور پر کم و بیش اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بینجامن وھورف(Benjamin Whorf) نے ہند یورپی زبانوں جیسے انگریزی، جرمن، فرانسیسی وغیرہ کا جب امریکی آبائی لغات کے گروہ کے ساتھ تقابلی مطالعہ کیا تو یہ حیرت زدہ نتائج سامنے آئےکہ ان دونوں معاشروں میں رہنے والے لوگوں کا خارجی دنیا کا تجربہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ وہ حقیقی دنیا کو مختلف اصولوں کے تحت تقسیم کرتے ہیں اور اس کی الگ الگ انداز میں درجہ بندی کرتے ہیں۔ 8

اس نقطے کو واضح کرنے کے لیے انگریزی لفظ table کی مثال لے سکتے ہیں۔اس لفظ کا استعمال ‏ہر شکل کی میز کے لیے کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ گول ہو یا چوکور۔ایک میز کی شکل چاہے گول ہو،چوکورہو یا کسی اوربناوٹ میں ہو،وہ انگریزی بولنے والوں کےلیے میزہی ہوتی ہے۔ یہ عام نظریہ ہے۔ مگر یہ عام نظریہ خود اس حقیقت پر مبنی ہے، جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں میز کے تصور میں شکل کا کوئی اہم کردار نہیں ہے۔ ہمارے میز کے تصور کی اس خاصیت کی وجہ سے ہی ہم دو الگ اشیاء کو ایک نام دیتے ہیں۔ حقیقت میں ہماری نظروں کے سامنے موجود گول اور چوکور میزیں دو مختلف وجود ہیں مگر ہمارے ذہن میں یہ دونوں بنیادی طور پر ایک ہی ماہیت رکھتی ہیں جسے ہم میز کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ ذہنی بنیاد، یہ ماہیت ہمارا ذہن فراہم کرتا ہے۔

بنجامن وھورف کو اپنی اس کھوج پر بڑا تعجب ہوا کہ ان علاقوں میں جہاں ہند یورپی زبانیں نہیں بولی جاتیں ایسی قومیں بھی پائی جاتی ہیں جو اشیاء کی ان کی بناوٹ کی بنیاد پر درجہ بندی کرتی ہیں: گول، چوکور، مستطیل، مکعب اورٹھوس وغیرہ۔ ان لوگوں کے لیے کسی شے کو کسی خاص زمرہ میں شامل کرنے کی بنیاد اس کی شکل ہوتی ہے۔ ان کی نظر میں ایک گول میز اور ایک چوکور میزدو بالکل مختلف چیزیں ہیں اور ان کے نام الگ الگ ہونے چاہییں۔ ان کے نقطۂ نظر کے مطابق اشیاء کی درجہ بندی کرنے کے مغربی طریقہ کار میں ایک قسم کا بےتکاپن ہے، ان کے مطابق یہ ایک غیر معقول اور بے اصولی پر مبنی طریقۂ کار ہے اور متعلقہ شے کی حقیقی بناوٹ سے متضاد ہے۔

اس مثال سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک شے اور اس کے نام کے درمیان کوئ ٹھوس یا خارجی مطابقت نہیں ہوتی ہے۔ ان کے درمیان ہمیشہ ایک خاص ذہنی عمل کار فرما ہوتا ہے، کسی شے کو ذہنی طور پر ایک چیز کی طرح دیکھنے کی تخلیقی کاروائی اس میں شامل ہوتی ہے۔ اوپر میز کی مثال میں جو نقطۂ نظر ہم نے اختیار کیا وہ عملاً افادیت پسندی کا تھا۔ ہم نے گول اور چوکور کے معیار کو نظرانداز کر کے دونوں اشیاء کو میز کا نام دیا چوں کہ ان دونوں کو ہی ایک خاص مقصد کو پورا کرنے کے لیے بنایاگیاہے۔یہاں ہم نے ان دونوں اشیاء کی شکل و بناوٹ میں فرق کو نظرانداز کر دیا۔ مگر دوسرے لوگوں کے لیے کسی چیز کی ظاہری شکل وصورت ہی فیصلہ کن ہوتی ہے چوں کہ وہ حقیقت کی تقسیم شکلوں کی بنیاد پر کرتے ہیں، مقاصد کی بنیاد پر نہیں۔ ‎‎

اگر میز جیسے عام اور سادہ لفظ کا معنی اپنے اندر اتنی پیچیدگی سمیٹے ہوئے ہےتواس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اہم اورغیرمعمولی الفاظ و اصطلاحات کے معنی کس قدر پیچیدہ ہوں گے؟ وہ لوگ جنہوں نے کبھی ترجمہ کیا ہو انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ کبھی کسی عام سے لفظ کا کسی دوسری زبان میں پوری طرح سے حق ادا کرنا کس قدر پریشان کن ہوتا ہے۔ اکثر ہم امید چھوڑ بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بالکل ناقابل ترجمہ ہے جیسا کہ ڈاکٹر فوسٹ نے گوئٹے کے فن پارے کے جرمن زبان میں ترجمے کی ابتدا ہی میں یونانی لفظlogosکے ترجمے کی پریشانی کا سامنا کرتے ہوئےکیا تھا۔ 9

ترجمے میں آنے والی مشکلات کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک زبان میں پائے جانے والے یہ ناقابل ترجمہ الفاظ اس لغت کے استعمال کرنے والے لوگوں کے خاص ذہنی رویہ کا ترجمان ہوتے ہیں۔ ایسے پیچیدہ الفاظ جن کے معنی میں ایک خاص نقطۂ نظر کی مداخلت صاف طور پر جھلکتی ہے ،کسی لغت میں کم ہی ہوتے ہیں۔ عام الفاظ میں اس کا اندازہ مشکل سے ہوتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہر زبان کے ہر لفظ میں یہ مداخلت پائی جاتی ہے۔ اس اعتبار سےtable اورlogosکے بیچ اتنا فرق نہیں پایا جاتا جتنا کہ پہلی نظر میں محسوس ہوتا ہے۔

انسانی زبانوں کے تمام الفاظ ان کے بولنے والوں کے اس خاص پس منظر کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں وہ خارجی دنیا کو دیکھتے اور تجربہ کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اصطلاحات اصلا اس ظاہری شکل کا نام ہیں جس کے حوالے سے انسان کا داخلی نقطۂ نظر ایک مستحکم پیکراختیار کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو داخلی کہنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ محض ایک فرد کا تصور ہے، بلکہ یہ پورے معاشرے کا مشترکہ نظریہ ہے جو آنے والی نسلوں تک ان کے آبا و اجداد سے ایک مشترکہ تاریخی روایت کے طور پر منتقل ہوتا ہے۔ یہ داخلی اس لحاظ سے ہے کہ اس میں انسانی ذہن کی مثبت مداخلت ہوتی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ الفاظ کے ذریعے خارجی دنیا کا جو تصور انسانی معاشرے بناتے ہیں وہ حقیقی دنیا سے ہوبہو میل نہیں کھاتا ہے۔ اورعلم المعنی (semantics) ان نظریات کے الفاظ کی شکل میں مجسم ہونے کے عمل کے تجزیاتی مطالعہ کانام ہے۔

ہنری بر گساں (Henry Bergson) کے مطابق ہمارے فوری تجربہ میں حقیقت ہمارے سامنے ایک اٹوٹ وحدت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔اس وحدت کو متقدمین hulé(اولین مادہ )کہتے تھے اور عربوں کے یہاں اسے’’ ہیولی‘‘ کہتے ہیں۔ حالیہ فرانسیسی نظریہ وجودیت(existentialism) کے مفکرین اس وحدت کو ایک ایسے متفرق ومنتشر بے شکل مادے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس میں تمام اشیاء اپنے خد و خال کھو دیتی ہیں اور پوری کائنات ایک عریاں، نابینا، اور قبیح مادہ کے خمیر میں تبدیل ہو جاتی ہے جو محض کراہت کا سبب بنتا ہے۔ انسانی ذہن اس اٹوٹ لا تفریق وحدت کی مختلف اشکال میں تفریق کرتا ہے۔ ان اشکال کی مقدار اور خصوصیات ہر معاشرے میں مختلف ہوتی ہیں اور ایک ہی معاشرے کی تاریخ کے ہر پڑاؤ پر بدلتی رہتی ہیں۔ عربوں کے یہاں الفاظ کا عظیم ذخیرہ اس بات کی علامت ہے کہ اس زبان کے بولنے والوں نے مجموعی حقیقت کی تقسیم جن اکائیوں میں کی ہے ،ان کی مقدار اس کی بنسبت کہیں زیادہ ہے جن میں قلیل الفاظ والی لغات کے لوگ یہ تقسیم کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر لغت کے بولنے والے لوگوں نے اپنے اپنے منفرد انداز میں کلی حقیقت کی تقسیم کرنے کی اکائیاں فرض کیں اور ان اکائیوں کو منظم کرنے والا نقطۂ نظر اختیار کیا۔ ہر قوم نے واحد حقیقت کو اپنے اپنے انداز میں مختلف شکلوں میں تراشا۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ حقیقت کی تقسیم کا یہ عمل اشیاء کی خارجی حقیقت سے نہیں بلکہ اس داخلی نقطۂ نظر سے طے ہوتا ہے جس کے تحت اشیاء کو مرتب کیا گیا ہو۔ مجموعی حقیقت کے جو پہلو ہماری امیدوں اور اندیشوں، یا ہماری خواہشات یااعمال کی عکاسی کرتے ہیں ان کو ایک اکائی کے طور پر مجموعی حقیقت سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے اور ایک نام دے دیا جاتا ہے جس سے وہ ایک مجسم تصور بن جاتا ہے۔ مجموعی حقیقت کے محض وہ پہلو جو کسی معاشرے کی طرز حیات کے لیے لازمی سمجھے جاتے ہیں، تاثرات کے لا محدود بہاؤ میں سے چھانٹ کر علیحدہ کر لیے جاتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر ایک کو ایک خاص لغوی تلفظ عطا کیا جاتا ہے جس کو ہم اس کا کوئی نام کہتے ہیں۔

اس طرح وجود کے بنیادی مجرد مادہ پر انسانی ذہن انگنت لکیریں کھینچ کر اس میں نہ جانے کتنے چھوٹے بڑے طبقات بناتا ہے اور یوں عالمِ حقیقت انسانی ذہن کے بنائے ہوئے لغوی اور تصوراتی تجاویز کے نقوش اختیار کرتا ہے اور اس طرح ابتدائی انتشار میں ترتیب پیدا ہوتی ہے۔ الفاظ اور ان کے مفاہیم کئی بیانیوں کا ایک اجتماعی اور پیچیدہ نظام بناتے ہیں جو ایک منظم اور مکمل پردہ کی طرح انسانی ذہن اور تصورات کے ماورا موجود حقیقت میں پنہاں رہتا ہے۔ حقیقت اسی پردہ کے خاص بیانیہ کے ذریعہ ترمیم پا کر، منعکس بلکہ مسخ ہو کر انسانی ذہن تک پہنچتی ہے۔

عام طور پر ہمیں اس حائل پردہ کی ایسی عادت ہوتی ہے، اور یہ ہمارے لیے اتنا فطری اور شفاف ہوتا ہے کہ ہم اس کے وجود سے ناواقف رہتے ہیں۔ ہم اپنی نادانستگی میں یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم حقیقت کا تجربہ کسی چیز کی مداخلت کے بغیر براہ راست اسی انداز میں کر رہے ہیں جیسا کہ وہ ہے۔ اس نظریہ کے مطابق قدرت ہماری آنکھوں کے سامنے مکمل طور پر اپنے بیانیہ اور انقسامات کے ساتھ منظم انداز میں ابتداء سے موجود ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس منظم دنیا کےموجودہ طبقات کا ادراک کر کے ان قدرتی تصورات کو مخصوص نام دے کر اپنے الفاظ کا ذخیرہ جمع کرتے ہیں۔

یہ عام فہم نظریہ اس بات کو بالکل نظرانداز کر دیتا ہے کہ حقیقت کے کسی بھی پہلو کو، اور خود مکمل حقیقت جس کی مثال یونانی فلاسفہ نے بےترتیب مادہ سے دی ہے، کو لامحدود طبقات میں، مختلف اندازمیں اور انگنت زاویوں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے تصورات کےپرے کی حقیقت کی ذہنی تقسیم کے عمل کو علم المعنی (semantics)میں بیان(articulation)کہتے ہیں۔ اس بیان کے بغیر دنیا سراسر بے معنی اور نا معقول محسوس ہوگی، جیسا کہ نظریۂ وجودیت کے قائلین کہتے ہیں۔ یہ بیان ہر فرد خود اپنے لیے نہیں تیار کرتا بلکہ یہ تو الفاظ کا وہ ذخیرہ ہے جو اسے بنا بنایا اپنے آباء و اجداد سے ثقافتی وراثت کے طور پر ملتا ہے اور جسے ہر شخص بچپن میں اپنی مادری زبان سیکھتے وقت حاصل کرتا ہے۔ اس طرح وجود اپنی اصل اور طبیعی حقیقت میں ہمارے ذہن کو میسر نہیں ہوتا بلکہ اپنے ذخیرۂ الفاظ میں موجود علامتوں کے ذریعہ ہی ہم اسے دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے الفاظ حقیقی دنیا کی نقل یا اس کے ہو بہو نسخے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اصلیت سے کلی مطابقت رکھتے ہیں۔ الفاظ اصل میں وہ تمثیلی شکلیں ہوتی ہیں جو خارجی دنیا کو عقلی گرفت میں لانے کے عمل کی واحد کارگزار ذریعہ ہوتی ہیں۔

اس کے متعلق اہم بات صرف یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کا مکمل وجود کو طبقات میں تقسیم کرنے کا اپنا مخصوص انداز ہوتا ہے بلکہ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ یہ طبقات خود آپس میں ایک نظام کے تحت جڑے ہوتے ہیں۔ آپس میں مل کر یہ طبقات ایک بڑا منظم اور پیچیدہ نظام بناتے ہیں۔ محض یہ طبقات انفرادی طور پر ہر لسانی گروہ کے لیے مختلف نہیں ہوتے بلکہ ہر گروہ ان کے بیچ کا باہمی تعلق بھی اپنے مخصوص انداز میں طے کرتا ہے۔ ہر لسانی گروہ کے پاس موجود یہ مکمل نظام ہی ذخیرۂ الفاظ کہلاتا ہے۔ 10

ذخیرۂ الفاظ (vocabulary)یاعام الفاظ میں کہیں تو لغت اور اس کے مفہومی خاکوں کا جال(network) بنیادی طور پر ان شکلوں کا مجموعہ ہے جو اظہار خیال کے کام میں لائی جاتی ہیں۔ ان شکلوں کے مطابق ہم قدرت کے مستقل بہاؤ کو مختلف اعیان و واقعات میں تقسیم کرتے ہیں۔بنجامین وھورف نے بڑے مناسب الفاظ میں اس بات کو یوں بیان کیا ہے کہ ہر زبان حقیقت کا ایک عارضی تجزیہ ہے، چونکہ زبانیں رموزفطرت کی مختلف طریقوں سے گرہ کشائی کرتی ہیں۔ حتی کہ ایک ہی قسم کے عام تجربات کو مختلف زبانیں مختلف طبقات میں درجہ بند کرتی ہیں۔ ایک ہی صورتحال کو مختلف زبانیں مختلف بنیادی زمروں میں رکھتی ہیں۔ ان اکائیوں(units) کو پھر اگلے مرحلے میں ایک وسیع و مربوط نظام تصورات میں رکھا جاتا ہے جسے ہم الفاظ کا ذخیرہ (vocabulary)کہتے ہیں۔ ہر ذخیرۂ الفاظ یا نظامِ مفاہیم ایک خاص تصور کائنات کو مجسم کرتا اور اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ تصور کائنات انسان کے تجربات کے خام مال کو ایک بامعنی 'قابلِ تشریح ' دنیا میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس میں کئی ذیلی ذخیرہائے الفاظ متوازی طور پرشامل ہوتے ہیں جو عموما باہم مربوط ہوتے ہیں۔ اخلاقی اصطلاحات کا تصوراتی نظام اسی قسم کا ایک ذیلی ذخیرۂ الفاظ ہے جس میں مزید اور کئی تصوراتی حلقے ہیں جن کا اپنا اپنا نظریہ حیات ہے۔ معنویاتی سطح پر ضابطۂ اخلاق عالم کی اسی نوعیت کی با مقصد تشریح کا ایک پہلو ہے۔یہ بیان قارئین کو جون لیڈ (John Ladd) کی اس بحث کی یاد دلا سکتا ہے جو انہوں نے اپنی اہم تصنیف “The Structure of a Moral Code”میں کی ہے کہ ہر ایک اخلاقی ضابطہ کسی نہ کسی نظریۂ حیات کا حصہ ہوتا ہے۔ 11

در اصل میرے اور ان کے موقف کے ما بین مشابہت کے کئی پہلو ہیں اور اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اپنے نظریہ کی تشکیل کے دوران اخلاقی ضوابط کے میدان میں ان کی گہری بصیرت سے میں نے بہت استفادہ کیا ہے۔ اگر چہ میرے اور ان کے موقف کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے۔’’ناواہو‘‘ 12 کی اخلاقیات کا مطالعہ کرتے ہوئے انہوں نے اخلاقی ’’جملوں‘‘ اور ’’بیانوں‘‘ کے بیچ جو تفریق کی ہے اس سے میں متفق نہیں ہوں۔ ٹھوس بات یہ ہے کہ انہوں نے ترجمے کو اپنے بنیادی مصدر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدا ہی میں وہ جملے اور بیان کی تفریق کو اپنے کام کے جواز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’The house is white‘‘یہ تینوں مختلف جملے ہیں۔ اگرچہ ان میں بیان ایک ہی ہے۔ ایک ہی پیغام کی ترسیل کے لیے مختلف الفاظ کا استعمال کیا جا سکتا ہے، یا مختلف زبانوں میں اس ایک بات کو بیان کیا جا سکتا ۔ آگے وہ کہتے ہیں کہ بیان کی یہ خصوصیت ان کے لیے مقامی باشندوں کے ساتھ مذاکرہ کی وضاحت پیش کرنے میں بڑی کارآمد ثابت ہوئی۔ چوں کہ وہ خود’’ ناواہو‘‘ زبان نہیں جانتے تھے اس لیے وہ ناواہو لوگوں کا بیان تو مترجم کی مدد سے سمجھ سکتے تھے مگر اس بیان کو جس جملے میں ادا کیا گیا ہے وہ جملہ وہ نہیں سمجھ سکتے تھے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے، یہ طریقۂ کار اس کے بالکل برعکس ہے جو میں نے اس کتاب میں اختیار کیا ہے۔ میرے موقف کے مطابق سب سے اہم وہ اصل الفاظ ہی ہیں جن میں کوئی بیان ادا کیا گیا ہو وہ بیان نہیں جو لیڈ کے مطابق غیر متغیر ہوتا ہے چاہے جس زبان میں بھی اسے ادا کیا جائے۔ در اصل میرا موقف یہ ہے کہ ایک ایسے بیان کا پایا جانا جو کہ تمام زبانوں میں مشترک ہو بذاتِ خود محلِ نظر ہے۔13 پروفیسر روجر براؤن کے بقول ایسے عام الفاظ جنھیں ہم فرض کرتے ہیں جو ہر زبان میں ملیں گے، جیسے ’’ماں‘‘ کا لفظ ہے، اس کامفہوم بھی ہر زبان میں یکساں نہیں ہوتا۔فرانسیسی زبان میں استعمال ہونے والےmèreاور انگریزی کےmotherکے مفہوم میں مکمل طور پر تطابق نہیں ہے۔ اسی طرح فرانسیسی زبان میں استعمال ہونے والا لفظ amieجرمنFreundinاور انگریزی میں استعمال ہونے والے ladyfriendسے مفہوم کے لحاظ سے مختلف ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک زبان میں ادا کی گئی اخلاقی رایے کو دوسری زبان میں بالکل ویسے کا ویسا نہیں ادا کیا جاسکتا۔

ایڈورڈ ساپر(Edward Sapir) نے متعدد مواقع پر یہ بات کہی ہے کہ ادراک کے عام سے عام عمل میں بھی مفاہیم کے تعین میں کسی بھی معاشرہ کے لسانی رویوں کا عمل دخل ہوتا ہے اور اس لیےادراک کاہرعمل ثقافتی طور پر اضافی کہلاتا ہے۔14 اگر ایسا ہے تو انسان کے طرز عمل اور کردار کے حوالے سے اخلاقی اقدار کے معاملے میں یہ نقطۂ نظر اور بھی زیادہ قابل غور ہو جاتا ہے۔ ہر ثقافت میں اخلاقی تجزیہ کے روایتی اسالیب ہوتے ہیں جو تاریخی طور پر اخلاقی اصطلاحات کی شکل میں اجاگر ہوتے ہیں۔ یہ اصطلاحات پھر اس زبان کے بولنے والوں کو ہر اخلاقی صورتحال کے اظہار کے لیے ایک مکمل ذریعہ فراہم کرتی ہیں۔ اپنی آبائی زبان میں موجود مفہومی نمونوں(semantic patterns) کا استعمال کر کے لوگ کسی انسانی عمل اور کردار کے بارے میں آسانی سے تجزیہ، تذکرہ اور قدر پیمائی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے اس لغت کی اخلاقی اصطلاحات میں موجود اخلاقی تجزیے کے لیے درکار اصولوں کی مکمل پیروی لازمی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے مفہومی دائرے(semantic field) کی بنیادی بناوٹ کے مطالعہ کے لیے ایک قابلِ اعتماد علمی طریقہ کار کس طرح سے وضع کیاجائے؟ کسی زبان کی معنیاتی اقسام کی تحقیق کا وہ کیا طریقہ ہوگا جو علمی تفتیش کے معیار پر کھرا اترے۔ علمی سے میری مراد بنیاد ی طور پر مشاہداتی اور استقرائی سے ہے اور میری زیرِ نظر تحقیق کے سیاق میں میرا اشارہ اخلاقی اصطلاحات کے ایک ایسے تجزیاتی مطالعے کی طرف ہے جو مطالعہ کرنے والے کے نظریاتی موقف سے کم سے کم متاثر ہو۔ میری را ےمیں اس نہج پر آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر لفظ کے معنیاتی درجہ کو ان مخصوص احوال کے تناظر میں بیان کیا جائے جس میں وہ استعمال ہوتا ہے ۔کسی خاص واقعہ کی وضاحت کے لیے کسی لفظ کا استعمال کن مخصوص احوال میں درست قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس سوال کے جواب کی کوشش ہی ہمیں کسی لفظ کے صحیح مفہوم تک پہنچا سکتی ہے۔ اس طریقہ کار کا انتخاب میرے اس عقیدے پر مبنی ہے کہ لغت اپنے معانی کے اعتبار سے بنیادی طور پر انسانی ذہن کی اس خصوصی فطرت کا مظاہرہ ہے جس میں وہ تمام اشیاء کی درجہ بندی کرتا ہے ۔

کسی بھی زبان کی اخلاقی و دینی اصطلاحات ایک خاص نظام کے تحت درجہ بند ہوتی ہیں جو اس زبان کے وسیع تر تعبیری نظام کا حصہ ہوتا ہے۔ ایک محقق کے لیے کلیدی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہر اصطلاح کے وہ توضیحی اوصاف تلاش کیے جائیں جن کی بنیاد پر انگنت مختلف اشیاء کو ایک نوع میں شامل کیا جاتا ہے اور اس طرح ان کو ایک نام دیا جاتا ہے۔ کسی لغت کی کلیدی اخلاقی و دینی اصطلاحات کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے محقق بتدریج اس بنیادی نظام تک پہنچ جاتا ہے جس کے ذریعے ایسے سبھی واقعات جن میں کوئی اخلاقی فیصلہ سازی شامل ہوتی ہے، چھان کر الگ کیے جاسکتے ہیں۔ اس عمل کے بعد ہی وہ اصطلاحات اس لغت کے استعمال کرنے والوں کے لیے قابل فہم شکل میں نمایاں ہوتی ہیں۔

یہ طریقۂ کار اصل میں وہی عمل ہے جس کے ذریعے بچّے اپنی مادری زبان سیکھتے ہیں۔ اس قسم کی تحقیق میں محقق اپنے آپ کو قصدا اس طفل کی طرح تصور کرتا ہے جو پہلی بار اپنی مادری زبان سیکھ رہا ہو یا پھر ایک ایسے بشریاتی لسانیات کے ماہر کی طرح جو کوئی نئی زبان سیکھ رہا ہو۔ ایک بچّہ عام الفاظ جیسے سیب کے معنی سیکھنے کے لیے اپنے والدین یا معلم کے ذریعہ اس لفظ کی ادائیگی کا معائنہ کرتا ہے جس کے ذریعے وہ ایک پھل اور لفظ کے بیچ کے لغوی تعلق کو سمجھنے لگتا ہے۔ اس عمل کو کئی بار دہرانے سے بچّہ مفرد پھلوں کو ان کے حجم، رنگ اور شکل کی بنیاد پر سیب کی نوع میں شامل کرتا ہےبالکل اسی طرح بچّہ اخلاقی قدروں کو نمایاں کرنے والے الفاظ بھی سیکھتا ہے۔ جس طرح سے بچّہ کسی خاص اخلاقی اصطلاح کو کسی خاص صورتحال سے جوڑتا ہے یہ عمل بالکل اس کے مشابہ ہے جب بچّہ سیب کے لفظ کا استعمال ایک شے کے حوالے سے کرتا ہے۔اس مرحلے پر ہمیں روجر براؤن(Roger Brown) کاOriginal Word Gameیاد آتا ہے۔ اس کھیل میں کھلاڑی کو غور سے استاد کے اصل لفظ کے استعمال کا مشاہدہ کرنا ہوتا ہے اور اس لفظ کا ایک غیر لغوی نوع سے تعلق سمجھنا ہوتا ہے۔ اس میں کامیاب ہونے کے لیےکھلاڑی کو سب سے پہلے اس غیرلغوی نوع، جس کے حوالے سے وہ لفظ استعمال کیاجارہا ہے، کی خصوصیات کا ادراک کرنا ہوتا ہے۔ کھلاڑی کو یہ دریافت کرنا ہوتا ہے کہ وہ کون سا خاص محرک ہے جس نے ایک خاص زبانی ردّ عمل پیدا کیا ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ عام طور پر سعی و خطا کی کئی کوششوں کے بعد ہی کھلاڑی پوری طرح الفاظ کا استعمال سمجھتا ہے۔ بالکل ایسی ہی صورتحال ایک محقق کی ہوتی ہے۔ اس کا کام دینی و اخلاقی اصطلاحات کے استعمال کی زیادہ سے زیادہ مثالوں کو جمع کرکے ان کا باریکی سے مطالعہ کرنا، جن حالات اور سیاق میں کسی لفظ کا استعمال ہوتا ہے ان کا تجزیہ کرنا، مفروضہ تیار کرنا، اس مفروضے کو مشاہدہ کی بنیاد پر پرکھنا اور اس کی نظر ثانی کرنا اور اس اس طرح کسی اطمینان بخش نتیجے تک پہنچنا ہوتا ہے۔

یہی اس طریقۂ کار کا خاکہ ہے جس کا استعمال ہم قرآن کی دینی و اخلاقی اصطلاحات کے مطالعہ کے لیےکریں گے۔یقینا ہم اس نومولود بچے یا بشریاتی لغویات کے ماہر کی طرح اس قدر معذور نہیں ہیں کہ ہمیں زبان کا بالکل تجربہ نہ ہو۔ کلاسیکی عربی دنیا کی معروف ترین زبانوں میں سے ایک ہے جس کے ذخیرۂ الفاظ اور نحو کا بڑی باریکی سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ عربی کے متعدد بہترین معاجم موجود ہیں ۔عربی لسانیات کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کا کا کام عمل میں آچکاہے۔ خاص طور پر قرآن کی تشریح و توضیح کے حوالے سے ہمارے پاس کئی مستند قدیم تفاسیر موجود ہیں۔ لیکن نظریاتی اسباب کی وجہ سے ہمارے منہجی اصول ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم ان ثانوی مآخذ پر بہت زیادہ انحصار کریں۔ ان کا استعمال زیادہ سے زیادہ قابل قدر معاونت کے طور پر کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہم ان کا استعمال احتیاط کے ساتھ نہ کریں تو بعض اوقات یہ مآخذ مسائل کو واضح کرنے کے بجائے گمراہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

میرے خیالات قارئین میں یہ تاثر پیدا کر سکتے ہیں کہ میں مسئلے کو ضرورت سے زیادہ دشوار بنا رہا ہوں جب کہ عربی ایک خاصی معروف زبان ہے۔ لیکن میری امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس مرحلے پر میں فقط ایک نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ طریقۂ کار جو بڑا ناگوار اور پیچیدہ معلوم ہوتا ہے اس کا دوسرے عملی طریقوں کے بجائے قرآن کی دینی و اخلاقی اصطلاحات کے مطالعے میں استعمال کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہےکہ اس کے ذریعے ہم اخلاقی قدروں کا اظہار کرنے والے الفاظ کا بھی اسی طرح مطالعہ کر سکتے ہیں جیسے ہم دوسرے الفاظ کا کرتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق بنیادی اخلاقی اصطلاحات اسی سطح پر رکھی جاسکتی ہیں ہیں جس طرح عام الفاظ جیسے: میز، سیب، کھانا، چلنا، لال وغیرہ۔ کیوں کہ ہر لفظ کو سیکھنے کا بنیادی عمل لازمی طور پر یکساں ہوتا ہے۔

(پروفیسر توشیہیکوایزوتسو ( Toshihiko Izutsu ) (م، 1993) اسلامیات کے ماہرجاپانی دانش ور تھے۔ ڈاکٹرطلحہ رحمن اسلامک اسٹڈیز سے پی ایچ ڈی ہیںاور مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کےتیسرے سال میںشریک ہیں۔ای میل:ticks_goincrazy@yahoo.co.in)

حواشی وحوالہ جات

  1. (semantic structure)
  2. ۔ Morris R Cohen, A Preface to Logic, London: 1946, p.16
  3. ۔ Cultural Anthropology
  4. ۔ PH Nowell Smith, Ethics, London: Pelican Book, 1954, Chapter I Section a
  5. - Theory of meaning
  6. ۔ یہ ایک جرمن اصطلاح ہے۔ اس کو ساد ہ طور پر لغوی تصور کائنات کہہ سکتے ہیں۔ Vom Weltbild der DeutschenSprache, (Dusseldof, 1950)
  7. ۔ جیسٹ کے لفظی معنی کسی انسان یا گروہ کا جذبہ یا روح
  8. ۔ Benjamin Lee Whorf, Language, Thought and Reality, Cambridge Mass 1956; Paul Henle (ed.) Language, Thought and Culture (Ann Arbor, 1958);
  9. ۔ اس بات کی کئی مثالیں قرآن کریم کی کلیدی اصطلاحات میں ملتی ہیں۔ جیسے لفظ کفر۔ فرض کریں کہ ہم کفر کا ترجمہ انگریزی میں ’’disbelief‘‘ کریں۔ یہ کتنی بڑی تبدیلی ہے۔ جس لمحے ہم کفر کا ترجمہ disbelief سے کریں، اس لفظ کی اصطلاحی بناوٹ کی بنیاد میں جو ذہنی رویہ ہے وہ گم ہو جا تا ہے۔
  10. ۔ ToshishikoIzutsu, God and Man in the Koran, Chapter I, Section 4, Vocabulary and Weltanschauung
  11. ۔ John Ladd, The Structure of a Moral Code, (Cambridge Mass, 1957)
  12. ۔ “Navajo ethics” ناواہو یا ناواجو ایک آبائی امریکی گروہ ہے۔
  13. ۔ Roger Brown, ‘Language and Categories’, published as an appendix to A Study of Thinking, JS Brunner, JJ Goodnow and GA Austin, (New York, 1956)
  14. ۔ Edward Sapir, The Status of Linguistics as a Science, Selected Writings, (Los Angeles, 1951) pp. 160 ff