Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ ان ذی علم ہستیوں میں سے ایک تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی تجدید کے لیے پیدا فرمایا۔ مجددِ دینِ امت کی فہرست میں انہیں خصوصی مقام حاصل ہے۔ جس وقت ابن تیمیہ کی شخصیت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی، اس وقت فلسفہ ، کلام اور تصوف میں بڑے نمایاں افکار ظہور پذیر ہو چکے تھے۔ پہلے ہم فلسفہ پر گفتگو کریں گے۔ مختلف فلاسفہ کی کوششوں سے جو فلسفہ وجود میں آیاتھا وہ نو افلاطونی (Neo-Platonic) فلسفہ ہی تھا۔ فلاسفہ نے اس میں بعض تبدیلیاں کرکے اس کو اسلامی فلسفہ قرار دیا تھا یا کم ازکم یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ فلسفہ اسلامی عقائد کے خلاف نہیں ہے۔ ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کا تصور یہ تھا کہ وہ قائم بالذات اور واجب الوجود ہے۔ اس کے فکر و تدبر کا موضوع اس کی اپنی ذات ہے، یا حقائق کلیہ ہیں جو فی الحقیقت ذات کا حصہ ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اشیاے کائنات اتنی معمولی ہیں کہ وہ اس ذات کے تفکر اور ارادے کا موضوع نہیں بن سکتیں۔ انہوں نے خدا کی وحدت کا ایسا تصور پیش کیا تھا جس میں ارادہ یا فعل کی گنجائش نہیںتھی۔ اس کی صفات کی یا تو انہوں نے منفی تعبیر کی یا انہیں اضافات قرار دیا۔ ان کی نظر میں عالم اور خدا کے درمیان تعلق یہ ہے کہ عالم اس کی ذات سے بالضرورۃ صادر ہوتا ہے اور نزولی ترتیب کے حامل ایک سلسلہ موجودات کی شکل اختیار کرتا ہے۔ ابتداء میں عقول عشرہ، پھر افلاک پھر دیگر مادی اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ایک ازلی نظام ہے جو خود کار سلسلہ اسباب و علل کے تحت عقل فعال کی نگرانی میں کام کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں اگرچہ انسان مادہ اور روح کا مرکب ہے لیکن اس کی ذات کی تکمیل اس میں ہے کہ اس کا جسم غور وفکر اور عمل عقل کے تابع ہو جائے لیکن اس کی غایت تکمیلی، عقلی کاوشوں اور تفکر عقلی میں محدود ہے، کیوں کہ اس طرح انسان خدا کی نقل کر سکتا ہے جو اس کی سعادت قصویٰ کا نقطۂ انتہاء ہے۔
اس سے قبل کہ ہم اس کی وجوہات بیان کریںکہ ایساکیوںہے، ان مختلف پہلووں پر نظر ڈالنا چاہیے جواس مبحث میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔چنانچہ اس مسئلہ کے تین اہم اورخاص زاویے ہیںجن کونمایاںکرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ ہیں: (1)علم ارتقاء(2)مابعدالطبیعات اور(3)اصول تفسیر۔آئیے ان تینوںپر مختصراًگفتگوکرتے ہیں۔مرنے کے بعد انسان کا جسم کلیۃً فنا ہو جائے گا۔ بیشتر فلاسفہ کا خیال ہے ۔ بعث بعد الموت جسمانی نہیں ہوگا صرف روحانی ہوگا۔ جنت میں جسم نہیں بلکہ صر ف روح جائے گی۔ جنت صرف ان کو ملے گی جنہوں نے اپنی عقل کی تکمیل کی ہوگی اور اس کو بالقوہ سے بالفعل بنایا ہوگا۔
اصولی طور پر انسانی عقل خدا کو جاننے، دیگر حقائق کو جاننے اور خیرو شر میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ وحی صرف ان لوگوں کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے جن کی عقل ان کے جذبات سے مغلوب ہوتی ہے۔ انبیاء و رسل انہی کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں اور انہی کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی ساری گفتگو استعارہ اور کنایہ کے پیرائے میں ہوتی ہے۔ اس لیے اگر انبیاء کے کلام کی درست طریقے پر تشریح کی جائے اور اس کو مجاز و تمثیل کے قالب سے نکال کر حقیقت کے قالب میں پیش کیا جائے تو ان کے افکار اس سے مختلف نہ ہوں گے جن تک فلاسفہ نے اپنی عقل کے ذریعہ رسائی حاصل کی ہے۔ حقیقت ایک ہے ۔چاہے اس کو افلاطون و ارسطو نے پیش کیا ہو یا موسیٰ اور محمد علیہم السلام نے۔ انبیاء کو حقیقت کی معرفت کی غیر معمولی قوت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں خرقِ عادت واقعات پیش کرنے کی طاقت بھی دی جاتی ہے اور انہیں کچھ غیر معمولی قوت تخیل سے بھی نوازا جاتا ہے۔ ایسی غیر معمولی قوت جو حقائق عقلیہ کو مادی قالب میں پیش کرے۔ البتہ خرق عادت واقعات کا مظاہرہ کرنے کی قوت کسی نہ کسی درجے میں غیر انبیاء میں بھی پائی جاتی ہے۔
ابن تیمیہ سے پہلے امام غزالی (م505ھ ؍1111ء) نے فلاسفہ کے مذکورہ خیالات کا جائزہ اپنی کتاب ’’تھافت الفلاسفہ ‘‘میں لیا اور ان پر سخت تنقید کی اور بتایا کہ ان میں سے بہت سے افکار باطل ہیں لیکن جو افکار درست ہیں فلاسفہ ان کی صحت کو بھی حتمی طور پر ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے یہ بھی نمایاں کیا کہ کلامی مسائل میں عقل حقیقت تک پہنچنے کی اہل نہیں ہے۔ انہوں نے فلاسفہ کو ان کے تین نظریات کی بنیاد ہر کفر کا مرتکب قرار دیا۔ اوّل یہ کہ جزوی اشیاء علم الٰہی کا موضوع نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ عالم ازلی ہے۔ تیسرے یہ کہ بعث بعد الموت صرف روحانی ہوگا، جسمانی نہیں۔ امام غزالی نے ان تینوں بنیادوں پر فلاسفہ کی تکفیر کی۔ اگرچہ امام غزالی کی تکفیر فلاسفہ بہت مفصل ہے لیکن غزالی نے اس تنقید کے باوجود فلسفہ کے بعض دوسرے اجزاء جیسے منطق اور اخلاق پر تنقید نہیں کی بلکہ ان کی تعریف کی ہے۔ مثلاً منطق کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ہر علم کی کسوٹی ہے اور اس کو انہوں نے اسلامیات کے نصاب کا جزو قرار دیا ہے لیکن اس کے علمی اور مابعد الطبیعاتی مضمرات پر مطلق اظہار خیال نہیں کیا ۔ اس طرح انسانی سعادت اور انسانی کلام کے بارے میں بھی فلاسفہ کے تصور پر اعتراض نہیں کیا ہے۔ دورِ آخر کی بعض تحریروں میں جن کی نسبت امام غزالی کی طرف مشکوک ہے۔ فلاسفہ کے بعض نظریات کی تشریح بھی کی ہے اور اپنی بعض سابقہ آراء پر نظر ثانی کی ہے۔
ابن رشد (متوفی 558ھ ؍1201ء) نے امام غزالی کی تنقید کا جائزہ لیا ہے اور جزوی طور پر امام غزالی سے اتفاق کیا ہے۔ مثلاً تسلیم کیا ہے کہ خدا کے وجود کے کائناتی دلائل جو ارسطو نے پیش کیے تھے یا حدوث کی دلیل جو ابن سینا (م 428ھ ؍ 1036ء) نے دی وہ اطمینان بخش نہیں۔ اس کے برخلاف کائنات کا نظم یا انسانی تخلیق پر مبنی جو دلیل قرآن میں دی گئی ہے ابن رشد نے اسے اطمینان بخش کہا ہے۔ البتہ متکلمین نے عدم محض سے کائنات کی تخلیق کا جو نظریہ پیش کیا ہے، ابن رشد نے اس پر تنقید کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ قرآن سے اس نظریے کی تائید نہیں ہوتی۔ ابن رشد نے یہ بھی کہا ہے کہ غزالی نے کائنات کے صدور کے جس نظریہ پر تنقید کی ہے وہ ارسطو کا نظریہ نہیں ہے۔ اسے فارابی (متوفی 229ھ ؍950ء) اور ابن سینا نے پیش کیا تھا۔ ابن رشد نے ابن سینا کے بعض دوسرے نظریات پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ غزالی نے انہیں ارسطو کی طرف منسوب کرنے میں غلطی کی ہے۔ 1
یہ اور دوسرے نظریات جن کو ابن سینا نے اپنی بعد کی کتابوں میں اور سہروردی (587ھ ؍1191ء) نے اپنے فلسفہ اشراق میں پیش کیا ہے۔ ان پر مزید تحقیق و تنقید اور ان کے مقابلے میں اسلامی تصورات کو مزید توضیح و تشریح درکار تھی۔
ایک طرف فلاسفہ تھے جن کی اولین و فاداری عقل سے وابستہ تھی جو اس چیز کو قبول کرتے تھے جو عقل پر پوری اترتی ہو۔ دوسری طرف متکلمین تھے جن کی اولین ترجیح وحی ہوتی تھی لیکن انہوں نے اس کی زیادہ رعایت نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ قرآن مجید نے صرف عقائد بیان کیے ہیں۔ ان کے دلائل سے زیادہ تعرض نہیں کیا ہے اور اگر کہیں کیا بھی ہے تو وہ تمثیل و بیان کے قبیل کی چیز ہے۔ اس لیے انہوں نے عقائد کے سلسلے میں قرآنی دلائل کو وہ اہمیت نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کے برخلاف انہوں نے کلامی مسائل میں عقلی استدلال کو زیادہ اہمیت دی اور اس کی محدودیت کو محسوس نہیں کیا کہ ان مسائل میں عقلی دلائل فیصلہ کن اور اطمینان بخش نہیں ہوتے۔ مزید برآں انہوں نے فلاسفہ سے بہت سے تصورات اخذ کیے اور اپنے طور پر ان کی وضاحت کی۔ اس کی وجہ سے انہوں نے قرآن پاک کی عبارتوں کی مجازی تعبیر کی اور ان کی تفہیم میں سلف کے مسلک سے اختلاف کیا۔ انہوں نے بعض صفاتِ الہیہ کی نفی بھی کی اور بعض کو معطل کردیا۔ معتزلہ نے صفاتِ الٰہیہ کو ’’اعراض‘‘ قرار دیا جو جسم سے متعلق ہوتے ہیں اور اس بنیاد پر کلامِ الٰہی کی نفی کی اور یہ دعویٰ کیا کہ قرآن مخلوق ہے۔ اس طرح انہوں نے رؤیت باری کا انکار کیا۔ کیوں کہ رؤیت صرف ان چیزوں کی ہو سکتی ہے جو کسی ’’حیّز‘‘ یا مکان میں ہوں (اور اللہ تعالیٰ مکانیت اور ’’حیّز‘‘ سے ماوراء ہے)
دوسری طرف اشاعرہ جو کلام کی دنیا پر چھائے ہوئے تھے، معتزلہ کے اسی نظریے کی تردید کرتے تھے کہ خیر و شر عقلی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نظریہ اللہ تعالیٰ کے لیے بعض چیزیں لازم کرتا ہے اور اس کے اختیار مطلق کو مقید کرتا ہے۔ اس کے رد میں انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ فی نفسہ کوئی چیز نہ خیر ہوتی ہے نہ شر۔ اس کے خیر و شر ہونے کا علم صرف وحی سے حاصل ہو سکتا ہے، عقل سے نہیں۔ اشاعرہ نے اس نظریے کے تقاضا کے طور پر خداکی حکمت کا انکار کیا اور خدا کے ارادے کو ہر اصول اور ضابطے سے آزاد کر دیا۔ ان کو یہ احساس نہیں ہوا کہ ان کے اس نظریے کے نتیجے میں انسان میں اخلاق اور مذہب کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی اور نہ اس کے وجود کا کوئی جواز رہ جاتا ہے۔ اس وجہ سے کہ نبی کے دعوائے نبوت کی صحت اور عدم صحت کو جاننے کا بھی کوئی امکان باقی نہیں رہتا ، نہ سچے نبی اور جھوٹے نبی میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ارادہ الٰہی کے تصور نے انسانی فاعلیت و ارادہ کا انکار کردیا اور طبعیات میں اسباب و علل کی نفی کردی اور یہ دعویٰ کیا کہ انسان اپنے افعال کا فاعل نہیں ہے۔ وہ تو صرف ان کا سبب ہے۔ فاعل یا عامل صر ف اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف متعدد قرآنی نصوص سے متصادم ہے بلکہ پوری انسانیت کے مشترکہ فیصلے کے خلاف ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کریہ وحدۃ الوجود کے تباہ کن نظریہ کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کے بعد صوفیہ اور فلاسفہ کو فاعل کی وحدت سے وجود کی وحدت تک پہنچنے کے لیے صرف ایک ہی قدم اٹھانا رہ جاتا ہے۔
عوامی سطح پر صفاتِ خبریہ کے بارے میں اشاعرہ کا نقطہ نظر زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ اس نقطہ نظر کو اشاعرہ پر معتزلی فکر کا اثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات کا حقیقتاً انکار کیا اور ان کو محض مجاز اور استعارہ کی ایک قسم قرار دیا۔ یہ حضرات وجہ اللہ سے مراد وجود الٰہی، ید اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی قدرت ، نصرت اور عنایت اور استواء علی العرش سے مراد اس کی فرمانروائی اور سماء دنیا پر نزول سے مراد برکاتِ الٰہی کا نزول لیتے ہیں۔
علماء کے ایک بڑے طبقے خاص طور پر علماء اہل حدیث اور علماء حنابلہ نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر علم کلام کا کلیۃً انکار کردیا۔ یہ بھی تسلیم نہیںکیا کہ اس کے ذریعے کبھی کوئی اچھی خدمت بھی انجام دی گئی ہے۔ انہوں نے صفات خبریہ کو ظاہر پر محمول کیا اور اللہ تعالیٰ کو ایک جسمانی وجود کا حامل بنادیا اور اس کے لیے انسانی جسم کی طرح اعضاء تجویز کیے۔ اس طرح انہوں نے سلف کو بدنام کیا۔ جنہوں نے ان صفات کی کیفیت کے بارے میں اظہار خیا ل کرنے سے گریز کیا تھا۔ تاہم ان کے اندر ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اس انتہا پسندانہ رجحان پر تنقید کی اور متعدل راہ اختیار کرنے کی دعوت دی۔ ابن الجوزی (متوفی 597ھ ؍1200ء) ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں۔
فلسفہ اور علم کلام کی طرح تصوف نے بھی ابن تیمیہ سے قبل ایک طویل سفر طے کیا تھا اور اپنی انتہاء کو پہنچ گیا تھا۔ دوسری صدی کے دوران جس میں تصوف نے پہلا مرحلہ طے کیا تھا، تصوف تزکیہ نفس کا ایک طریقہ تھا۔ ابراہیم ادھم (متوفی 160ھ؍776م) اور فضیل بن عیاض (متوفی 187ھ؍1803ء) جیسے صوفیہ زاہدانہ زندگی اختیار کیے ہوئے تھے اور ذکر و عبادت میں مشغول رہتے تھے مگر ان کے بعد آنے والے صوفیہ جیسے ابویزید بسطامی (م 261ھ؍875ء) اور شیخ جنید بغدادی (م 298ھ؍910ء) نے تیسری صدی میں سلوک کا ایک مخصوص طریقہ ایجاد کیا جس میں صوفی کچھ مخصوص احوال و مقامات سے گزرتا ہوا خدا کی ذات تک پہنچتا ہے۔ خدا تک اس رسائی کو صوفیہ نے فناء، محو، جمع اور اتحاد سے تعبیر کیا۔ سلوک کے سفر میں سالک جن مراحل سے گزرتا ہے اس کے لیے مستقل اصطلاحات ایجاد کیں۔ ابو نصر سراج (378ھ؍988ء) اور ابولقاسم القشیری (متوفی 545؍1072م) نے اپنی کتابوں میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ سلوک کے ان مراحل اور ان کے دوران پیش آنے والے تجربات پر غور فکر ابھی ابتدائی دور میں تھا۔ اس کا اندازہ شیخ جنید کے اس کلام سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے توحید پر اپنی گفتگو کے دوران کیا ہے یا ابویزید نے ان بیانات میں کیا ہے جن میں انہوں نے اپنے تجربات بیان کیے ہیں۔
تصوف کا تیسرا اور آخری مرحلہ وہ ہے جب صوفیہ نے اپنے تجربات فلسفہ کی زبان میں بیان کرنے شروع کیے ۔ مثلاً حلاج (متوفی 309ھ؍ 923ء) نے حلول کا تصور پیش کیا۔ ابن عربی (متوفی 638ھ؍1240ء) نے وحدۃ الوجود کا نظریہ پیش کیا۔ ابن عربی نے اپنی زندگی کے آخری ایام دمشق میں گزارے۔ ان کے اور ابن تیمیہ کے درمیان ایک صدی سے بھی کم کا وقت گذرا۔ لیکن اسی قلیل عرصے میں ابن عربی کا نظریہ پورے عالم اسلام میں پھیل گیا تھا۔ بلکہ بعض صوفیہ جیسے صدرالدین قونوی (متوفی 672ھ؍ 1273) ابن سبعین (668ھ؍1269ء) اور تلمسانی (690ھ؍ 1191ء) اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں اس نظریے کی مختلف تعبیرات کرنے لگے تھے۔
پانچویں صدی میں امام غزالی (متوفی 505ھ؍ 1111ء) نے ’’مشکوۃ الانوار‘‘ میں جو فلسفہ تشکیل دیا ہے، اس کے بعض پہلو ابن عربی کے نظریہ وحدۃ الوجود سے ملتے جلتے ہیں۔ انہوں نے ’’احیاء علوم الدین‘‘ کے بعض ابواب اور بعض دیگر کتابوں میں توحید، توکل، صبر اور محبت کی جو تشریح کی ہے اور ان میں جو نظریہ پیش کیا ہے وہ بھی ابن عربی کے نظریہ سے یک گونہ مماثلت رکھتا ہے۔ انہوں نے صوفیہ کے طریقہ کی زبردست وکالت کی ہے اور صوفی کشف کو حقائق کے علم اور کلامی نظریات کی تشریح میں ایک اہم وسیلہ قرار دیا ہے۔
تصوف میں پیدا ہونے والی ان تبدیلیوں نے ہر مجدد کے لیے مختلف مسائل پیدا کیے۔ مثلاً اس کو دینی مسائل میں کلام کرتے وقت پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ وحی اور عقل کے مقابلے میں وہ کشف کو کیا مقام دے۔ خدا سے متعلق صوفیہ نے جو تصورات و نظریات پیش کیے ہیں، ان کا جائزہ لے اور بتائے کہ ان میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اس کو اس سلوک کا بھی جائزہ لینا ہوگا جسے صوفیہ نے اپنایا اور جس کی وہ وکالت کرتے ہیں اور یہ بتانا ہوگا کہ اس کاکون سا جز قرآن و سنت کے مطابق ہے۔ چوتھا کام جو اسے انجام دینا ہوگا وہ یہ ہے کہ صوفیہ نے زندگی کی جن اقدار کو پیش کیا ہے اور اخلاقی و دینی فضائل کی جو تشریح و تعبیر کی ہے ان کا کون سا حصہ قابل قبول ہے اور کون سا قابل قبول نہیں ہے۔
فلسفہ، علم کلام اور تصوف کا جو اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے،توقع ہے کہ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ابن تیمیہ کو کیا کام کرنے تھے۔ اب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ انہوں نے ان کاموں کو کس طرح انجام دیا۔
اب ہم ان اصولوں کا ذکر کریں گے جنہیں ابن تیمیہ نے اپنے تجدیدی کام میں پیش نظر رکھا۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ کی نظر میں قرآن و سنت صرف اسلامی قانون کے ہی ماخذ نہیں ہیں بلکہ وہ ایمانیات اور عقائد، اقدار و معیارات کے بھی مآخذ ہیں۔ قرآن و سنت سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کیسے گذاری جائے؟ معاشی نظام کو کیسے مستحکم کیا جائے؟ سماجی تنظیم کس طرح کی جائے؟ حکومت کیسے چلائی جائے ؟ قرآن و سنت بتاتے ہیں کہ مسلمان تزکیہ نفس کیسے کریں، تقویٰ کیسے پیدا کریں اور خدا کی عبادت بہتر طور پر کس طرح ادا کریں؟ ان تمام میدانوں کے اصول قرآن نے بیان کردیے ہیں۔ تفصیل حدیث میں آتی ہے اس لیے سب سے پہلے انہی کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ بقیہ چیزیں اس کے بعد آتی ہیں اور وہ اس حد تک قابل قبول ہوںگی جس حد تک وہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔
قرآن کے کسی بیان کو سمجھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے قرآن مجید کی مماثل آیات سامنے رکھی جائیں کیوں کہ قرآن کا ایک جزء دوسرے جزء کی تفسیر کرتا ہے۔ اس کے بعد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے جو قرآن مجید کی تفسیر کا مستند ذریعہ ہے۔ اگر کوئی صحیح حدیث قرآن کی تفسیر کرتی ہے تو پھر اس سے آگے نہیں جانا چاہیے۔ تیسرے مرحلے میں صحابہ کرام کے آثار کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ایمانیات، اقدار اور زندگی گذارنے کے طریقوں کے سلسلے میں ان کے درمیان معمولی اختلافات رہے ہیں لیکن ان کے اقوال و اعمال بہرحال ہمارے لیے ایک معیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آخر میں تابعین نے قرآن مجید کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے اسے دیکھنا چاہیے اور جن میں ان کے اندر اتفاق ہے اس سے انحراف نہیںکرنا چاہیے لیکن اگر کسی آیت کی تفسیر میں اختلاف ہو تو پھر جو تفسیر قرآن و سنت کے قریب تر ہوگی اس کو قبول کرنا چاہیے۔ جہاں تک عمل کا تعلق ہے تو خیال رہے کہ صحابہ کرام اس معاملے میں بلند معیار پر فائز تھے اور خارجی افکار و اقدار اور معیارات سے بہت کم متأثر ہوئے تھے۔
صحابہ کرام کے علاوہ ابن تیمیہ ان علماء کے آراء و افکار کو بھی اہمیت دیتے ہیں جن کا تقویٰ اور علم امت مسلمہ میں متفق علیہ ہے جیسے ائمہ اربعہ، امام ابوحنیفہؒ (م، 150ھ؍ 767ء)، امام مالک بن انس (م، 179ھ؍735ء)، امام شافعی(م، 204ھ؍ 819ء)، امام احمد بن حنبل (م، 241ھ؍ 755)۔ ابن تیمیہ کے یہاں ان ائمہ کرام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ان مسالک میں بھی جو مشہور ائمہ رہے ہیں، ابن تیمیہ ان کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے بعد دیگر مجتہدین امت جیسے امام اوزاعی (م، 157ھ؍ 774ء) امام سفیان ثوری (م،150ھ؍771ء) اور علماء حدیث میں سے ممتاز علماء جنہوں نے تدوین حدیث کا کام کیا جیسے امام بخاریؒ ( م،252ھ؍ 870م) امام مسلم ؒ(م، 261ھ؍875م) اور دیگر محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل کو بھی ابن تیمیہ اس فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ ان سارے اصحاب نے جس طریقے سے قرآن و سنت اور اسلامی اقدار و عقائد کو سمجھا ہے وہ قابل احترام ہے، اس کی پیروی کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کو سمجھنے میں عربی زبان کی بھی اہمیت ہے، لیکن اس کا درجہ سب کے بعد آتا ہے۔ البتہ وہی عربی اہم ہے جو اسلام سے پہلے اور ابتدائی عہد میں اسلام میں رائج تھی۔ جب وہ جدید ترکیبوں اور اثرات سے متأثر نہیں تھی۔
ابن تیمیہ کے تجدیدی کارناموں میں عقل کا مقام تیسرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخصوص فطرت اور طبیعت پر پیدا کیا ہے۔ اس لیے عقائد، اقدار، زندگی اورمعاشرے کے اصول و ضوابط کی بنیادیں اس کی فطرت میں داخل ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کے خطوط پر انسان کی تکمیل عمل میں آتی ہے۔ عقل بھی فطرت کا جز ہے۔ اس لیے عقل اور وحی کے درمیان مکمل مطابقت لازمی ہے۔ اس کی وجہ سے ابن تیمیہ کو دو کام کرنے تھے۔ اوّل ان کو یہ ثابت کرنا تھا کہ عقائد اور اقدار، زندگی کی تعمیر اورمعاشرے کی تشکیل کے اصول جو قرآن و سنت میں بیان کیے گئے ہیں اور جنہیں سلف نے مرتب کیا ہے، عقل بھی ان کی تائید کرتی ہے۔ وہ نہ خلاف عقل ہیں اور نہ بے معنی ہیں۔ ابن تیمیہ کو یہ بھی بتانا تھا کہ فلاسفہ، متکلمین، اور دیگر علماء جن چیزوں کو عقل کہتے ہیں، اگر ان میں سے کوئی بات خلاف قرآن و سنت ہوتو وہ عقلاً بھی صحیح نہیں ہے۔
ان ذرائع کے علاوہ ابن تیمیہ کے یہاں معرفت کا ایک اور ذریعہ ہے جسے الہام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ابن تیمیہ امام غزالی کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ تقویٰ ایک غیر مادی علم کے حصول کا ذریعہ ہے جسے خدا تعالیٰ براہِ راست انسان کے دل میں ڈالتا ہے۔ اور اس کی دلیل کے طور پر سورہ انفال کی درج ذیل آیت نقل کرتے ہیں:
یِا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إَن تَتَّقُواْ اللّہَ یَجْعَل لَّکُمْ فُرْقَاناً وَیُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ (الانفال: 8:29)
اس کے ساتھ آپ نے وہ حدیث بھی پیش کی ہے جس میں حضرت عمرؓ کو محدثین2، یعنی ایسے لوگوں میں شمار کیا گیا ہے جنہیں الہام ہوتا ہے۔ امام غزالی نے علم کے اس ذریعہ کو صوفیہ کے کشف و مکاشفہ سے جوڑ دیا ہے۔ ابن تیمیہ نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ البتہ انہوں نے اس ذریعہ علم کی رسائی کو خاصا کم کرکے پیش کیا ہے۔ اسے وحی کے اس طرح مکمل تابع رکھا ہے، جس طرح عقل کو تابع کیا ہے۔
یہ بات معروف ہے کہ علم کے کم و بیش دو ذرائع ہیں۔ ایک ذریعہ تمام انسانوں کو حاصل ہے۔ یعنی حواس خمسہ اورعقل۔ دوسرا ذریعہ وہ ہے جو انبیاء ومرسلین کو عطا ہوتا ہے یعنی وحی۔ جہاں تک حواس اور عقل کا تعلق ہے ان سے حاصل شدہ علم میں ایک حصہ بدیہی ہے جیسے دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ یا دوچیزیں اگر الگ الگ کسی تیسری چیز کے برابر ہوتی ہیں تو وہ آپس میں بھی مساوی ہوتی ہیں۔ ریاضی انہی بدیہی حقائق پر مبنی ہے، جنہیں ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ علم کا دوسرا جزء وہ ہے جو احواس، مشاہدات اور تجربات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ علم ان منفرد اشیاء کی معرفت پر مبنی ہوتا ہے جو خارج میں پائے جاتے ہیں جیسے یہ آدمی بحیثیت آدمی، اور وہ کرسی بحیثیت کرسی۔ کلیات کے بارے میں ابن تیمیہ کا خیال ہے کہ خارج میں ان کا وجود نہیں ہے۔ ان کا وجود صرف ہمارے ذہنوں میں ہے اور جو چیزیں خارج میں وجود نہیں رکھتیں، ان کو ہماری معلومات میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی کے رواقیین کی طرح ابن تیمیہ بھی اسمیت خالصہ کے قائل ہیں۔ وہ ہر اس فکر کی مخالفت کرتے ہیں جو کلیات کے وجود کی قائل ہے۔ سارا سائنسی علم جزئیات کے حسی ادراک سے شروع ہوتا ہے۔ وہ اس ادراک سے عقل ،افکار و تصورات کی دنیا تعمیر کرتی ہے۔ تمام طبیعاتی اور اجتماعی علوم میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ نے اس منطق پر تنقید نہیں کی جو علمی استدلال کے اصولوں سے بحث کرتی ہے۔ ان کی تنقید در اصل ارسطو کی وضع کردہ منطق پر ہے۔ ان کی تنقید اس امر پر بھی ہے کہ امام غزالیؒ اور بعض دوسروں نے ارسطو کی منطق کو ہر علم کی صحت جانچنے کا معیار قرار دیا ہے۔ منطق پر ابن تیمیہ کی تنقید بسا اوقات منطق کو ایسا علم بنا دیتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ غالباً ابن تیمیہ کے اوپر ابن صلاح (متوفی 643ھ؍1245ء) جیسے ناقدین منطق کا اثر معلوم ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ نے منطق پر جو تنقید کی ہے اس کے کچھ اچھے پہلو بھی ہیں۔ ایک پہلو کا تعلق منطق کی تعریفات سے ہے چوں کہ ارسطو کے یہاں کسی چیز کی ماہیت معلوم کرنے کے لیے پانچ چیزیں ضروری ہیں ۔ نوع، جنس، فصل، خاصہ اور عرضِ عام۔ ان پانچ چیزوں کے ذریعے کسی چیز کی ماہیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ابن تیمیہ نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ کسی چیز کی ماہیت کو جاننے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے اور نہ مناسب ہے۔ بلکہ کسی شخص کو کسی چیز کے بتانے کا درست طریقہ یہ ہے کہ یا تو وہ چیز اس کو دکھا دی جائے۔ یا اس کے مشابہ چیز دکھائی جائے یا اس کی مختلف خصوصیات کو بیان کیا جائے۔ یہ ہیں وہ طریقے جن کے ذریعہ ہم مختلف اشیاء کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ نہ کہ اس تعریف کے ذریعے جو ارسطو نے کی ہے۔ ابن تیمیہ نے ارسطو کے نظریہ تعریف پر جو تنقید کی ہے اس کے بارے میں یہ بتا دینا اہم ہوگا کہ موجودہ سائنس نے اشیاء کے علم کے لیے جو طریقہ اختیار کیا وہ وہی ہے جس کی نشاندہی ابن تیمیہ نے کی ہے۔
منطق پر ابن تیمیہ کی تنقید کا دوسرا موضوع منطقی استدلالی ہے جو صغریٰ، کبریٰ اور نتیجہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ کا خیال ہے کہ قضیہ کبریٰ مثلاً الف ب ہے، اس کی حقیقت کو جاننے کا ذریعہ الف اور ب کے مختلف افراد کا مشاہدہ ہے لیکن سارے الف اور ب کا مشاہدہ ممکن نہیں۔ پھر کبریٰ کے درست ہونے کا انحصار قیاس پر ہے۔ اس کے باوجود یہ عجیب بات ہے کہ منطقی استدلال کے بارے میں تو یہ کہا جائے کہ اس سے حقیقی علم حاصل ہوتا ہے اور قیاس جس پر انحصار ہے اس کے بارے میں کہا جائے کہ اس سے صرف امکان معلوم ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ منطقی استدلال میں استدلال عموم سے خصوص کی طرف ہوتا ہے اگرچہ اشیاء کا علم جزئیات سے کلیات کی طرف منتقل ہونے سے حاصل ہونا چاہیے۔ چوں کہ خارج میں جزئیات ہی کا وجود ہے کلیات کا نہیں۔
آخری بات یہ کہ باری تعالیٰ کے وجود کے بارے میں منطقی استدلال کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی جنس کا فرد نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات دونوں میں اکیلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ جس منطق کو الٰہیات کے مسائل میں استعمال کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کا استعمال نہیں ہو سکتا اور وہ تصورات جن تک ان کی رسائی ہوتی ہے، وہ ان کے دعویٰ کے برخلاف محض قیاسات ہیں۔ ابن تیمیہ کا خیال ہے کہ الٰہیات کے مسائل میں منطقی قیاس ممکن نہیں ہے۔ بلکہ صحیح طریقہ قیاس اولیٰ کا ہے۔ قیاس اولیٰ کی تعریف انہوں نے یہ کی ہے کہ ہر وہ کمال جس کا اثبات ہم مخلوقات کے لیے کرتے ہیں اور جو ہر نقص سے پاک ہو۔ اس کا اثبات خالق کے بارے میں سب سے پہلے کرناچاہیے۔ اسی طرح ہر وہ نقص جس کا ہم مخلوقات کے بارے میں تصور کرتے ہیں، ذات باری تعالیٰ سے اس کی سب سے پہلے نفی کی جانی چاہیے۔3
منطق کے بنیادی اصولوں کے علاوہ بعض ایسے یقینی اخلاقی تصورات ہیں جو انسان کی فطرت اولیہ کا جزء ہیں۔ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کی روح کے اندر خیرو شر کا علم رکھا ہے اور احساس ذمہ داری بھی عطا کیا ہے کہ اسے خیر پر عمل کرنا چاہیے اور شر سے بچنا چاہیے۔ اور اس کے اندر یہ تصورات محض روایتی مشہورات نہیں ہیں جن کی صحت اس معاشرے میں معروف ہوتی ہے جس میں ان کا رواج ہوتا ہے جیسا کہ فلاسفہ کا خیال ہے بلکہ یہ انسانی فطرت کا جزء ہیں اور ساری انسانیت کے لیے کلیۃً صحیح ہیں۔ ہم کو وحی کے نزول سے پہلے بھی ان کی صداقت کا علم ہوتا ہے۔ وہ ان معیارات کا جزء ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر وحی کی صداقت چانچی جاتی ہے۔
ابن تیمیہ اس مسئلہ میں معتزلہ اور ماتریدیہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور اشاعرہ کے خلاف ہیں۔ چوں کہ اشاعرہ خیرو شر کے علم کا واحد ذریعہ وحی کو قرار دیتے ہیں۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ خیر و شر کے اعتبار سے اشیاء کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اوّل وہ اشیاء جن کا خیر و شر ہونا وحی کے اعلان سے پہلے معلوم ہو جیسے عدل اور صدق۔ ان چیزوں کے خیر و شر ہونے کا علم ہمیں عقل سے ہوتا ہے۔ وحی اس کی توثیق کرتی ہے۔ دوسری قسم ان اشیاء کی ہے جن کا خیر و شر ہونا وحی پر مبنی ہوتا ہے۔
تیسری قسم میں وہ اشیاء ہیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے محض انسان کی اطاعت شعاری پرکھنے کے لیے دیا کہ وہ اس کو بجالاتے ہیں یا ان کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ تیسری قسم کی اشیاء دوسری قسم کی اشیاء کی طرح خیروشر نہیں بن جاتیں۔ اس قسم کی ایک مثال حضرت ابراہیم ؑ کو اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم دینا ہے۔ جب حضرت ابراہیم ؑ نے حکم الٰہی کو تسلیم کرلیا اور بیٹے کی قربانی دینے لگے تو مقصد پورا ہوگیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ پھر ان کو ایک دنبہ دیا گیا تاکہ وہ اس کو قربان کردیں۔ لیکن معتزلہ اس آخری قسم کے خیر سے واقف نہ ہو سکے۔ وہ صرف پہلی قسم کے خیر کو ہی سمجھ سکے۔ جب کہ اشاعرہ نے ہر قسم کے فعل کو صرف تیسری قسم میں شامل کیا اور بقیہ کی نفی کردی۔
ابن تیمیہ خیر و شر کے علم اور آخرت میں ان پر جزا اور سزا کے درمیان لزوم کے قائل ہیں۔ وہ معتزلہ کے اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ جو لوگ شر کا ارتکاب کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں لازماً سزا دے گا۔ وہ سزا اسی وقت دے گا جب انبیاء بھیج کر شر پر متنبہ کر دے۔ ابن تیمیہ نے اس پر بہت سی آیات و احادیث سے استدلال کیا ہے۔
ابن تیمیہ علم کلام کی مطلقاً مخالفت نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ کلام دوطرح کا ہوتا ہے۔ صحیح اور غلط۔ مختلف متکلمین حتیٰ کہ معتزلہ نے دین کی بڑی خدمت کی ہے اور دیگر مذاہب کے مفکرین کی تنقیدوں کے خلاف اسلام کا دفاع کیا ہے اور ان کی وجہ سے بہت سے افراد نے اسلام قبول کیا۔4
اوّل: متکلمین عقائد سے متعلق قرآن وسنت کے بیانات ہی پر توجہ کرتے ہیں لیکن ان کے حق میں جو دلائل ان میں دیے گئے ہیں، ان پر توجہ نہیں دیتے۔
دوم: جو دلائل انہوں نے خود دیے ہیں ان کے بارے میں ان کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ اطمینان بخش نہیں ہیں۔ کلامی مسائل میں وہ عقل ہی کو فیصلہ کن مقام دیتے ہیں اور اسے وحی اور فہم سلف پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں کلامی مسائل میں عقل کی محدودیت کا احساس نہیں ہوتا۔
سوم: بعض مقدمات جن پر وہ اپنے دلائل کی عمارت کھڑی کرتے ہیں ان کی صحت جانچنے کی وہ کوئی کوشش نہیں کرتے۔ ان کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ غلط نتائج پر پہنچتے ہیں مثلاً کبھی وہ کسی حدیث کا انکار کردیتے ہیں یا اس کی غلط توجیہ کرکے اس کی معنویت کو بے اثر کر دیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ان صداقتوں کا بھی انکار کردیتے ہیں جنہیں ہم عقل عامہ کے ذریعے جانتے ہیں اور جن کو ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔
ابن تیمیہ کی کوشش رہی ہے کہ ایسا علم کلام پیش کریں جو ان غلطیوں سے پاک ہو۔ قرآن و سنت کی نصوص کے قریب ہو اور زیادہ قابل اطمینان اور معقول ہو۔
فلسفہ کے بارے میں ابن تیمیہ کا نقطہ نظر بالکل مختلف ہے۔ اس کے سلسلے میں وہ خالص تنقیدی اور منفی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ کسی فلسفیانہ خیال سے اتفاق تو کر سکتے ہیں لیکن اسلامی فلسفہ جیسی کسی چیز کا کوئی امکان نہیں سمجھتے۔ اگرچہ ابن تیمیہ نے اس موضوع پر اصولی بحث نہیں کی ہے۔ کلامی مسائل میں انہوں نے مختلف مکاتب فکر پر تنقید کی اور ان کے مقابل میں خود ایک اپنا کلام پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن فلسفہ کے ساتھ ان کا رویہ دوسرا ہے۔ انہوں نے فلسفہ پر صرف تنقید کی ہے اور اس کی نفی کی ہے لیکن اپنا کوئی فلسفہ پیش نہیں کیا ہے۔
ہم نے ذکر کیا ہے کہ ابن تیمیہ وحی اور عقل کے علاوہ ایک تیسرے ذریعہ علم کا بھی اثبات کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ اس کی تفصیلات میں نہیں جاتے اور نہ یہ بتاتے ہیں کہ اس کا صوفیہ کے کشف اور روحانی تجربات سے کیا تعلق ہے تاہم وہ اس کے دائرہ عمل کو محدود رکھتے ہیں اور اسے مکمل طور پر وحی کے تابع رکھتے ہیں۔ تصوف پر ابن تیمیہ کی تنقید اولاً بعض صوفیانہ نظریات پر ہے جیسے نظریہ حلول اور فلسفہ وحدۃ الوجود۔ وحدۃ الوجود پر ان کی تنقید خاص طور پر بہت مفصل ہے، انہوں نے ان مقدمات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ دوسری طرف صوفیہ کے ایجاد کردہ طریقوں پر گفتگو کی ہے۔ صوفیہ نے عبادت اور ذکر الٰہی میں جن بدعات کا آغاز کیا تھا ان کا رد کیا ہے اور اس سے اسلامی زندگی پر جو اثرات پڑتے ہیں، انہیں نمایاں کیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابن تیمیہ صوفیہ کے تصور فنا کی بالکلیہ نفی نہیں کرتے جو بقول شیخ احمد سرہندیؒ تصوف کا مابہ الامتیاز ہے اور دیگر اہل زہد و عبادت کے مقابلے میں صوفیہ کی امتیازی خصوصیت ہے۔5 وہ اسے ایک دوسرا مفہوم دیتے ہیں۔
صوفیہ کے بنیادی اوصاف جیسے ورع، محبت، توکل، اخلاص اور رضا وغیرہ سے بھی ابن تیمیہ نے بحث کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔ وہ قرآن و سنت اور سلف صالح کے عمل کی روشنی میں ان اوصاف پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔ ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ جہاں تک عقائد کا تعلق ہے اس میں نہ تو عقل کی ہی کوئی اہمیت ہے اور نہ صوفیہ کے کشف و وجدان کی، ان کاتو صرف ایک ہی ذریعہ وحی نبوی ہے۔ وحی کا ایک جزء تو خدا کا کلام ہے جس کو اللہ تعالیٰ فرشتے کے ذریعے اپنے الفاظ میں نازل فرماتا ہے اور جو اب قرآن مجید کی شکل میں محفوظ ہے۔ دوسرا جزء وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں القاء کیا اور نبی نے خدا کے کلام کی حیثیت سے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔ تیسری قسم وہ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی نگرانی و رہنمائی میں نبی کی زبان سے جاری فرماتا ہے۔ اس کلام کی صحت کی ضمانت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ اگر کسی وقت اس میں کوئی غلطی ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً اس کی اصلاح کر دی گئی۔ اس طرح رسول کے اعمال کی روایت اگر صحیح ذریعہ سے ہمارے پاس آئی ہو تو وہ بھی وحی کا درجہ رکھتی ہے کیوں کہ نبی کے اعمال پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نگاہ رکھی جاتی ہے اور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی صحت کا اہتمام ہوتا ہے۔یہی اہتمام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے بارے میں بھی کیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال کی روایتیں جو حدیث اور سنت کہلاتی ہیں وہ بھی عقائد و اقدار اور شریعت کے مآخذ ہیں۔ ان میں جو روایات غیب سے متعلق ہیں وہ یقینی علم کا ذریعہ ہیں اور ان میں دیے گئے احکام انسانی زندگی اور اس کے اعمال کا بہترین سامان ہیں اور حکم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ احکامات یا تو واجب العمل ہیں جن کی اطاعت لازمی ہے یا استحبابی ہے۔
بعض احادیث ایسی ہیںجن میں اللہ کے رسول کا کلام لفظ بلفظ نقل ہوا ہے اور کچھ ایسی ہیں جن میں آپ کی بات راوی کے الفاظ میں آئی ہے۔ بعض میں آپ کے افعال کو بڑی صحت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔ ان حدیثوں کو متعدد ثقہ اور معتبر راویوں نے نقل کیا ہے جو مضبوط حافظہ کے حامل تھے۔ اعلیٰ درجہ کی احادیث متواتر کہلاتی ہیں۔ یہ ایمان و عمل دونوں ابواب میں حجت شرعی ہیں اور یقینی علم کا فائدہ دیتی ہیں۔ دوسری وہ احادیث ہیں جو اخبار احاد کہلاتی ہیں یعنی جو ایک یا چند راویوں سے مروی ہیں لیکن ان کے راوی متواتر کے درجہ کو نہیں پہنچتے، تاہم ان کی صحت پر بھی یقین رکھنا اور ان پر عمل کرنا چاہیے بشرطیکہ ان کے رواۃ ایمان دار ہوں اور ان کا حافظہ قابل اعتماد ہو۔ ان احادیث کو صحیح کہا جاتا ہے۔ صحیح احادیث کے بہترین مجموعوں میں اوّل امام بخاری کی صحیح بخاری ہے پھر امام مسلم کی صحیح مسلم۔ صحیح حدیث ہی نہیں، حسن کے درجے تک کی حدیث سے بھی عقائد کے باب میں استدلال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ احادیث جو ضعیف ہیں ان سے اس معاملے میں استشہاد نہیں کرنا چاہیے۔ حدیث کے بارے میں ابن تیمیہ کا یہ موقف ہے جس کو انہوں نے اپنی مختلف کتابوں میں معقول انداز میں پیش کیا ہے اور اس پر تفصیلی دلائل دیے ہیں۔
ابن تیمیہ جس عقیدے کی دعوت دیتے ہیں وہ قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ اسے سلف کی اکثریت کی تائید حاصل ہے۔ زیادہ معقول اور اطمینان بخش ہے اور ان غلطیوں سے پاک ہے جو فلاسفہ، متکلمین اور صوفیہ سے سرزد ہوئی ہیں۔ ابن تیمیہ نے اسے ایسے اسلوب میں بیان کیا ہے جو سب کی سمجھ میں آجائے۔
وجود باری تعالیٰ کے مسئلے کو لیجئے، متکلمین نے خدا کے وجود کے بارے میں جو دلیل دی ہے وہ یوں ہے کہ یہ عالم اجسام سے مرکب ہے اور اجسام جوہر اور عرض سے مرکب ہیں۔ چوں کہ ہر جوہر بغیر عرض کے وجود نہیں رکھتا اور اعراض ممکنات میں سے ہیں اور ہر چیز جو اعراض سے متأثر ہوتی ہے وہ بھی ممکن ہے اس لیے عالم ممکن ہے اور جو چیز ممکن ہو اس کے وجود کے لیے ایک سبب ضروری ہوتا ہے جو خود غیرحادث ہو اور وہ سبب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
یہ مقدمات جن پر ان کی دلیل کا مدار ہے خود بھی واضح نہیں ہیں۔ ان کی صداقت محتاج دلیل ہے۔ابن تیمیہ نے ان مقدمات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ غیر یقینی ہیں اور پورا طریقہ استدلال بھی غیر قطعی ہے۔6اور یہ بھی بتایا ہے کہ یہ مقدمات خود قرآن و سنت سے متصادم ہیں اور عقل عامہ کے بھی خلاف ہیں۔
ابن تیمیہ نے پھر فلاسفہ کے دلائل پیش کیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ بھی بہتر نہیں ہیں۔ ایک دلیل جس کو فارابی اور ابن سینا نے پیش کیاہے اس کی ابتداء ممکن الوجود میں فرق کے بیان سے ہوتی ہے۔ اس میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ ممکن کی ماہیت اس کے وجود سے مختلف ہوتی ہے۔ کبھی وہ وجود سے متصف ہوتی ہے اور کبھی عدم سے۔ لیکن یہ بات خود محتاج دلیل ہے۔ ابن تیمیہ کا خیال ہے کہ فلاسفہ کی دلیل حقیقت سے بہت بعید ہے۔ اس لیے کہ ماہیت ہمیشہ وجود کا عین ہوتی ہے جیسا کہ وجود باری تعالیٰ ہے۔ خود فلاسفہ کو بھی اس کا اعتراف ہے۔7 تیسری دلیل جس کو ارسطو اور مسکویہ (متوفی 421ھ؍1030ء) نے بیان کیا ہے اور جو حرکت کے تصور پر مبنی ہے وہ بھی اطمینان بخش نہیں جیسا کہ ابن سینا نے لکھا ہے۔ 8
ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک اس بات سے آغاز کرتا ہے کہ عالم کی تخلیق کا عقیدہ انسانی فطرت میں شامل ہے۔ اس تصور کو اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا معاشرہ نہیں جس میں خالق کے وجود کا کوئی تصور نہ ہو۔ قرآن میں دوسری معاون دلیل یہ ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ پھرنطفہ سے پھر خون کی بوند سے۔ پھر گوشت کے لوتھڑے سے اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا گیا۔(یٰس:12-13)
یہ دلیل اطمینان بخش عقلی دلیل ہے۔ چوں کہ ہر انسان جانتا ہے کہ وہ اپنے آپ پیدا نہیں ہوا۔ وہ پیدا کیا گیا ہے، عدم سے وجود میں لایا گیا ہے۔ ان اشیاء سے بنا ہے جو مٹی سے موجود ہیں۔ اس کا آغاز نطفہ سے ہوا ہے جس سے علقہ پھر مضغہ، پھرہڈیاں بنیں پھر ان پر گوشت چڑھا۔ اس دلیل کا ہر جزء پوری طرح واضح ہے۔ اس میں مزید کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ ارسطو کے مشہور شارح ابن رشد نے اس دلیل کو ان عظیم طبیعاتی دلائل میں سے تسلیم کیا ہے جن کے ذریعے انبیاء نے وجود باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے۔9
صفات باری تعالیٰ کے بارے میں فلاسفہ کا نظریہ اس یونانی تصور پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا واحد، بسیط اور غیر مرکب ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تمام عقلی اور خارجی تمیزات سے ماوراء ہو۔ اس خیال کا اثر یہ ہوا کہ انہوں نے صفات کو سلبی کہا اور محض نسبت قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء یا تو اس کی ذات سے کسی چیز کی نفی کرتے ہیں یا کسی نسبت کا اضافہ کرتے ہیں۔ امام غزالیؒ نے اپنی کتاب ’’تھافت الفلاسفہ‘‘ میں اس تصور کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی تردید کی ہے۔ ابن تیمیہ نے اس پر بہت مفصل تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایجابی صفات جیسے علم، ارادہ، قوت وغیرہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات مرکب نہیں ہوتی کیوں کہ اس کی صفات اس کی ذات کا غیر نہیں عین ذات ہیں۔ ابن تیمیہ مزید یہ کہتے ہیں کہ جو ذات ساری صفات سے عاری ہو وہ صرف ایک ذہنی وجود ہے۔ ایک خلاء اور لاشےہے۔
معتزلہ نے مختلف وجوہات کی بناء پر صفات کے وجود کی نفی کی ہے۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم صفات کو ازلی قرار دیں گے تو ازلی موجودات کا تعدد لازم آئے گا اور اگر صفات کو ممکن قرار دیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے وجود کا ممکن ہونا لازم آئے گا۔ اس نتیجہ سے بچنے کے لیے انہوں نے صفات کو کبھی محض نسبت قرار دیا مثلاً صفت علم کے بارے میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ماہیت اور شئے معلوم کے درمیان صرف نسبت ہے یا یہ کہا کہ صفات ذاتِ الٰہی کے صرف احوال ہیں۔ جیسے عالمیت جس کا وجود خدا کے وجود سے الگ نہیں ہے۔ ابن تیمیہ نے اس دلیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صفات کا اثبات خدا کے ساتھ ساتھ دوسری اشیاء کے وجود کا اثبات نہیں ہے۔ نہ عیسائیوں کے طرز پر صفات کو الٰہ بنانا ہے جس سے بچنے کی کوشش معتزلہ نے کی۔
ابن تیمیہ کا خیال ہے کہ اشاعرہ نے صفاتِ الٰہیہ کا نسبتاً بہتر تصور پیش کیا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی سات لازمی صفات تسلیم کی ہیں یعنی علم، قدرت ، ارادہ ، حیات، سمع، بصر اور کلام۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ صفات ذاتِ الٰہی نہیں ہیں۔ ان کا وجود ذاتِ الٰہیہ کے وجود سے زائد ہے۔ ان کو اضافات و احوال بھی نہیں کہہ سکتے۔ وہ ذات سے الگ بھی نہیں ہیں کیوں کہ ان کا وجود ذات سے الگ نہیں ہے۔ نہ وہ بذاتِ خود موجود ہیں اور نہ کسی اور ذات کے ذریعے ۔ اللہ تعالیٰ ایک واحد وجود ہے۔ ایک ایسی ذات جو مختلف صفات سے متصف ہے۔ ذات و صفات میں یہ تفریق صرف عقلی طور پر کی جاسکتی ہے، حقیقی طور پر نہیں۔ خارج میں کسی ایسی ذات کا وجود نہیں ہے جو صفات سے خالی ہو اور نہ ایسی صفات کا وجود ہی ممکن ہے جو بذاتِ خود موجود ہوں۔
اشاعرہ نے خدا کی ان ساتوں صفات میں سے ہر ایک کو ایک قدیم صفت کے طور پر تصور کیا ہے جو بذاتِ خود کام کرتی ہے نہ ارادہ الٰہی سے ، تاکہ وہ حادث نہ قرار پائیں، مثلاً انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ماضی، حال اور مستقبل ہر شئے کا علم ایک واحد ازلی علم کے ذریعہ جانتا ہے اور ایک واحد ازلی ارادہ سے ہر چیز کا ارادہ کرتا ہے۔ اسی طرح ایک واحد ازلی کلام سے کلام کرتا ہے۔ ان خیال تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو متعدد حادث علوم، حادث ارادے اور حادث کلام فرض کرنے پڑیں گے اور ذاتِ الٰہی ایسی اشیاء کا محل بن جائے گی جو حادث ہیں اور اس کی ازلیت کی نفی لازم آئے گی، ابن تیمیہ اشاعرہ کے اس قول کو صرف اللہ تعالیٰ کے وجود اور حیات کے بارے میں درست قرار دیتے ہیں لیکن علم، ارادہ، کلام اور دوسری صفات کے بارے میں درست قرار نہیں دیتے۔ کہتے ہیں کہ اگر ان کی ازلیت مان لی جائے تو ان کے موضوعات یعنی معلومات، مرادات، اور کلمات کی ازلیت بھی ماننی پڑے گی۔ اس لیے کہ جو چیز خدا کے ازلی ارادہ کا موضوع ہو جو ہر چیز پر قادر ہے، اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ اس کے ارادے کے بعد تاخیر سے وجود میں آئے گی اور یہ بھی معلوم ہے کہ ایک ارادے اور دوسرے ارادے میں فرق ہے۔ دونوں ایک نہیں ہیں۔ یہی بات دوسری صفات کے بارے میں بھی صحیح ہوگی۔ مثلاً کہا جائے گا کہ ایک شئے کا علم دوسری شئے کے علم سے مختلف ہے، حتیٰ کہ ایک ہی چیز کا علم اس کے وجود سے قبل اور وجود کے بعد دو مختلف علوم ہیں۔
ابن تیمیہ کا خیال ہے کہ اس مسئلہ کا حل صرف اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ہم خدا کے لیے دو ارادے فرض کریں۔ ایک ارادہ ازلی، دوسرا ارادہ حادث ۔ اس طرح اس کا علم بحیثیت جنس واحد اور ازلی ہے، جب کہ منفرد علوم متعدد اور حادث ہیں۔ اس طرح اس کا کلام بحیثیت حقیقت واحد اور ازلی ہے، جب کہ منفردکلمات مفرد بھی ہیں اور حادث بھی۔ اس لیے کہ تمام منفرد ارادے، منفرد علوم اور منفرد کلمات ایک ازلی ارادے پر منحصر ہیں اور جو چیز ازلی ارادہ کا نتیجہ ہو وہ حادث ہوتی ہیں۔ مسئلہ کے اس حل میں بھی دشواریاں ہیں لیکن یہ اوروں کے مقابلے میں زیادہ معقول ہے۔
فلاسفہ نے اللہ تعالیٰ کو کلیۃً واحد اور سارے امتیازات سے ماوراء قرار دیا تھا اور نتیجہ کے طور پر اس کے ارادہ و عمل کا انکار کیا تھا۔ عالم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ خدا کی ذات سے لازماً صادر ہوتا ہے، بغیر اس کے کہ درمیان میں کوئی عدم داخل ہو، عالم اس لیے بھی ازلی ہے کہ اس کے وجود سے قبل وقت کا وجود نہیں تھا۔ کیوں کہ وقت حرکت کا پیمانہ ہے اور عالم کے وجود میں آنے سے قبل کوئی چیز متحرک نہیں تھی، عالم کی ازلیت سے متعلق جو دلائل فلاسفہ نے دیئے ہیں، امام غزالیؒ نے اپنی کتاب ’’تھافت الفلاسفہ‘‘ میں ان پر سخت تنقید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ عالم حادث ہے اور ارادہ الٰہی کے ذریعہ پیدا ہوا ہے، لیکن تمام اشاعرہ کی طرح ان کا بھی خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو اپنے ارادہ ازلی کے ذریعے پیدا کیا ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ خدا ایک چیز کو کیوں ایک مخصوص وقت میں، نہ کہ دوسرے وقت میںپیدا کرتا ہے جب کہ ہر لمحہ ایک ازلی اور قادر مطلق ہستی کے لیے یکساں ہے۔ اس سوال کا جواب اشاعرہ اور امام غزالی نے یہ دیا ہے کہ ایک قادر مطلق ارادہ کسی چیز کوکسی بھی وقت پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
معتزلہ نے اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے لیے حادث ارادوں کا اثبات کیا ہے10 جو کسی محل پر محمول نہیں ہیں۔ یعنی وہ ایک ایسے حادث ارادہ کا اثبات کرتے ہیں جو کسی محل کا محتاج نہیں ۔ تاکہ انہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ اشیاے حادثہ کا قیام خدا کی ذات سے ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ پہلے خالق نہیںتھا بعد میں خالق ہوگیا۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اس قول سے یہ لازم آتا ہے کہ ایک وقت تھا جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا فاعل نہیں تھا یا وہ کسی چیز پر قادر نہیں تھا۔ظاہر ہے کہ اس طرح کی بات اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہنا صحیح نہیں ہے۔ 11ابن تیمیہ کاا پنا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ خالق ہے، ہمیشہ سے خالق رہا بھی ہے اور اس کا ارادہ بحیثیت کل ازلی ہے اور اشیاء بھی بحیثیت کل ازلی ہیں۔ البتہ منفرد اشیاء حادث ہیں کیوں کہ وہ الگ الگ ارادوں کی پیداوار ہیں جو حادث ہیں۔
فلاسفہ اور اشاعرہ اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی عمل کسی خیر کو حاصل کرنے کے لیے نہیں ہوتا، اس کے افعال کے پیچھے کوئی غرض نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی خاص مقصد کے لیے انجام دیے جاتے ہیں۔ اشاعرہ کہتے ہیں کہ اشیاء اللہ تعالیٰ کے ازلی ارادہ کی پیداوار ہیں، اس لیے آج عالم جس حال میں ہے وہ اس ازلی ارادہ سے مختلف نہیں ہوتا۔ دوسری طرف فلاسفہ کا خیال ہے کہ چیزیں جس طریقے سے خدا کے علم ازلی میں ہیں، اسی اعتبار سے اپنے وقت کے مطابق دنیا میں وجود پذیر ہوتی ہیں۔ اشاعرہ اور فلاسفہ کے درمیان فرق کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ فلاسفہ تخلیق کی غرض کا انکار اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی ارادہ کا اثبات نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ ارادہ کسی کمی کا مستلزم ہے جس کی اضافت ذات باری تعالیٰ کی طرف نہیں کی جا سکتی۔ ان کے بالمقابل اشاعرہ غرض یا مقصد کا انکار اس لیے نہیں کرتے کہ وہ ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ خدا کے لیے ارادہ کا اثبات کرتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف مقصد کی اضافت بھی کی جائے گی تو اس سے خدا کی ذات میں نقص لازم آئے گا جس کا ارادہ وہ مطلوبہ شئے کی تخلیق کے ذریعے کرنا چاہتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ قدرت کاملہ کا مالک ہے اور خود مکتفی ہے وہ کسی غرض یا سبب کا محتاج نہیں جو اس کے ارادے کا سبب ہو۔
ابن تیمیہ اس تصور کی نفی کرتے ہیں کہ غایت لازماً نقص کو مستلزم ہے۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے افعال اس کے علم اور قدرت کا مظہر ہیں۔ ان کا عمل میں لانا اسے پسند ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ افعال غرض و سبب سے کلیۃً خالی ہوں، انہوں نے قرآن وسنت سے وہ آیات و احادیث نقل کی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے افعال کے وجوہ بیان کیے گئے ہیں۔ ابن تیمیہ نے خدا کی ذات میں کسی نقص یا کمی کی بھی نفی کی ہے اور اسے کامل اور خود مکتفی قراردیا ہے۔
معتزلہ نے خدا کے ارادہ کے لیے مقصد اور علت کا اثبات کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نے انسانوں کو پیدا کیا ۔ انبیاء و رسل بھیجے اور ان کے ذریعہ اپنا پیغام ارسال کیا اور اپنی کتابیں نازل کیں تاکہ لوگ اچھی زندگی گزار سکیں اور اپنے اچھے اعمال کے لیے انعام سے نوازے جائیں۔ ابن تیمیہ اس خیال کی تحسین کرتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ مقصد کو صرف مخلوقات کے ساتھ وابستہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ قرآن میں ایسی نصوص موجود ہیں جو ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف مقصد کو منسوب کرتی ہیں۔ مثلاًوہ چاہتا ہے کہ انسان اس کا ذکر کریں، اس کی تسبیح و تعظیم کریں۔ اس کی عبادت کریں۔ اس کے احکام بجا لائیں، اس سے ڈریں، اسی سے محبت کریں اور اس پر بھروسہ رکھیں اور جب انسان اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے احکام بجا لاتے ہیں تو وہ ان سے راضی ہوجاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی عبادت و اطاعت ، تسبیح و تحمید کا محتاج ہے اور نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ اس کے بغیر ناقص تھا اور اس کی تکمیل لوگوں کے کارناموں کے ذریعے ہوئی۔ اس کے برعکس وہ یہ چیزیں اس لیے پسند کرتا ہے کہ یہ اس کو پسند ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو انسانوں کی بھلائی کے لیے بھیجتا ہے تو جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی ہدایت کا اتباع کرتے ہیں، خدا کی اس ہدایت سے انہیں فائدہ پہنچتا ہے، مگر جو اس کا اتباع نہیں کرتے وہ نقصان بھی اٹھاتے ہیں تو اس عمل میں کیا حکمت ہے جس کے نتیجہ میں ایک عظیم خیر کے ساتھ ساتھ غیر معمولی تکلیف بھی لوگوں کو پہنچے۔ معتزلہ نے اس سوال کے جواب میں یہ کہا ہے کہ انبیاء صرف ان لوگوں کی طرف بھیجے گئے جوان پر یقین رکھیں اور ان کی اطاعت کریں۔ نہ کہ ان لوگوں کی طرف جو ان پر ایمان نہ لائیں اور ان کی نافرمانی کریں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسی چیز کا ارادہ نہیں کرتا جو واقع نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ جواب درست نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کافروں اور گناہ گاروں کے لیے انبیاء مبعوث نہیں فرماتا تو ان کے کفر و عصیان پر ان کو سزا کیوں دے گا اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ کفر و معصیت اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر بھی واقع ہو سکتی ہے۔ معتزلہ کے اس نظریہ کے خلاف ابن تیمیہ اس بات کا اثبات کرتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی خیر و شر ظاہر ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کے ارادہ قوت سے ہی وجود میں آتا ہے۔
ابن تیمیہ نے زور دے کر کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی دو قسمیں ہیں۔ تشریعی اور تخلیقی۔ انبیاء کو بھیجنا ان پر اپنا پیغام نازل کرنا اس کے تشریعی ارادہ کا جزء ہے۔ اس ارادے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے وہ اسے محبوب ہے۔ البتہ انسان اس کے تشریعی ارادے کو تسلیم کرنے میں آزاد ہے۔ اگر بندہ اس تشریعی ارادہ کو تسلیم کرتا ہے تو اسے اس پر انعام ملے گا اور اگر نافرمانی کرتا ہے تو اسے سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ جس کا حکم دیتا ہے وہ خیر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے اور پسند کرتا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے دوسرے ارادے کا یعنی تخلیقی ارادے کا تعلق ہے اس کا جو موضوع ہے اس کے ساتھ اس کی پسند و ناپسند وابستہ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو انبیاء کا انکار کرتے ہیں ان کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں وہ خدا کے پیغام کے مخاطب ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس کے تشریعی ارادے کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اس کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہیں۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ ہر انسان کے لیے خیر اور عافیت کا خواہاں ہے۔ چاہے فرمانبردار ہو یا نافرمان۔لیکن فرق یہ ہے کہ کافروں کاکفر اور ان کے برے اعمال خدا کے تخلیقی ارادے کا موضوع ہیں اور اسی کے حکم سے وقوع میں آتے ہیں۔ اسی طریقے سے وہ عذاب جو کفر و عصیان کی سزا ہے وہ بھی خدا کے تخلیقی ارادے کی پیداوار ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ خدا کسی چیز کا ارادہ کرے جس کے ساتھ شر وابستہ ہو مثلاً وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے پانی برسائے اور اس سے کوئی حادثہ بھی رونما ہو جائے۔ ایسے حالات میں خیر ہمیشہ شر کے اوپر غالب رہتا ہے۔ اسی طرح و ہ خیر جو انبیاء کے ارسال سے وابستہ ہوتا ہے وہ اس شر کے مقابلے میں کہیں بڑا ہوتا ہے جو اس کے نتیجے میں منکرین کے عذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
فلاسفہ کا خیال ہے کہ اجسام مادہ اور صورت سے مرکب ہوتے ہیں۔ صورت ان تمام خصوصیات کا مجموعہ ہوتی ہے جو جسم میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شئی کی صورت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ مثلاً آگ جس کی خصوصیت جلانا ہے تو وہ جلانے سے باز نہیں آئے گی۔ یاپانی جس کی خصوصیت ٹھنڈاکرنا ہے تو وہ ضرور ٹھنڈا کرے گا۔ ان کا خیال تھا کہ علت و معلول میں تلازم لازمی ہے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے معجزات کا انکار کیا۔ سوائے ا س کے کہ صرف ظاہر میں ان کا اظہار ہو۔ امام غزالی نے علت کے اس نظریہ پر ’’ تھافت الفلاسفہ‘‘ میں شدید تنقید کی ہے اور اس کا انکار کیا ہے کہ اشیاء کسی مخصوص صورت، طبیعت اور خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں اور یہ کہ ایک چیز دوسرے کو پیدا کرتی ہے۔ امام غزالیؒ کا خیال تھاکہ ہر شئے براہِ راست خدا کے ارادے سے وجود میں آتی ہے۔ جس چیز کو لوگ علت کہتے ہیں وہ صرف شرط ہے۔ علت تو صرف اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے۔
ابن تیمیہ نے ان دونوں نظریات کی تردید کی ہے۔ فلاسفہ کا یہ خیال کہ اشیاء غیر متغیر صورت کی حامل ہوتی ہیں اور امام غزالی اور اشاعرہ کا یہ خیال کہ اشیاء کی کوئی صورت اور فطرت نہیں ہوتی اور یہ کہ کوئی چیز دوسری چیز کو پیدا نہیں کرتی بلکہ وہ اس کے وجود کے لیے محض ایک شرط ہوتی ہے۔ ابن تیمیہ دونوں نظریات کی تردید کرتے ہیں۔ وہ اشیاء کی صورت اور اس کی علیت دونوں کا اثبات کرتے ہیں لیکن وہ اس کا انکار کرتے ہیں کہ صورت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ اگر یہ مان لیا جائے تو معجزات کا ظہور ناممکن ہوجاتا ہے۔ وہ علیت کے اثبات کی جو دلیل دیتے ہیں وہ وہی ہے جو ان سے پہلے ابن رشد نے دی تھی۔ یعنی یہ کہ اگر علت کا انکار کر دیاجائے تو علم کا امکان باقی نہیں رہتا۔12
فلاسفہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے ارادہ اور جزئیات کے علم کا انکار کیا تھا، اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف کلام کی نسبت کرنے سے بھی گریز کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے کلام کو عقل فعال کی طرف منسوب کیا جسے انہوں نے جبرئیل کہا۔ انہوں نے اس کا بھی انکار کیا کہ جبرئیل کا مشاہدہ کسی خارجی یا ظاہری موجود کا تجربہ تھا۔ انہوں نے کہا انبیاء الفاظ سنتے ہیں اور شکلیں دیکھتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اپنے اندر ہی دیکھتے اورسنتے ہیں نہ کہ خارج میں۔
ابن تیمیہ نے کہا کہ ان سارے بیانات میں فلاسفہ قرآن و سنت کے نصوص کی صریح مخالفت کرتے ہیں۔ معتزلہ اللہ تعالیٰ کی صرف تین صفات کا اثبات کرتے ہیں یعنی حیات، علم اور قدرت اور انہی کو حقیقی صفات قرار دیتے ہیں۔ کلام کو خدا کی ذات کے ساتھ قائم ایک صفت کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ وہ کلام کو اپنی ذات سے الگ کسی اور شئے میں تخلیق کرتا ہے۔
ابن تیمیہ اس خیال کی تضحیک کرتے ہیں ،کہتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ عمر کلام کرتا ہے تو یہ صرف اس وقت کہتے ہیں جب عمر بولتا ہو۔ جس طرح ہم جب یہ کہتے ہیں کہ عمر زندہ ہے، یا عالم ہے یا متحرک ہے تو اسی وقت کہتے ہیں جب خود عمر زندہ ہو یا عالم ہو یا متحرک ہو، نہ کہ جب وہ کسی اور کو زندگی عطا کرتا ہو یا کسی موجود میں علم پیدا کرتا ہو یاکسی شئے میں حرکت پیدا کرتا ہو، اسی طرح جب ہم یہ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے تو اسی وقت کہیں گے جب کہ وہ خود بولتا ہو نہ کہ دوسرے میں کلام کی تخلیق کر رہا ہو۔
اشاعرہ نے کلام کو خدا کی ایک حقیقی اور لازمی صفت قرار دیا ہے لیکن اس کے بارے میں انہوں نے وہی بات کہی ہے جو علم، ارادہ اور قدرت کے بارے میں کہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے کلام ازلی کے ذریعہ کلام کرتا ہے۔ ایسا انہوں نے اس لیے کہا کہ وہ کلام بحیثیت ایک نوع جو واحد اور قدیم ہے اور کلام منفرد جو متعدد اور حادث ہے، دونوں میں فرق نہیں کرتے۔ اس کے بجائے وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ خدا ایک ازلی اور دائمی کلام سے بولتا ہے۔ اس کا کلام ایک واحد کلام ہے خواہ وہ امر ہو یا نہی اور یہ ایک ہی واحد کلام ہے جو عبرانی میں ادا ہوا تو توراۃ کہلایا، جب سریانی میں ادا ہوا تو انجیل کہلایا اور جب عربی میں ادا ہوا تو قرآن کہلایا۔ ان عبارتوں کی اشتعال انگیزی کو کم کرنے کے کیے اشاعرہ نے یہ کہنا شروع کیاکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو کلام نفسی سمجھنا چاہیے، جس میں نہ الفاظ ہوتے ہیں نہ آواز۔ جو صرف ایک فکر اور ایک خیال ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ نے اس پر سخت تنقید کی ہے، ان کا اپنا خیال جسے وہ سلف کا عقیدہ قرار دیتے ہیں، یہ ہے کہ کلام دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک ازلی اور ایک حادث۔ بحیثیت جنس کلام الٰہی ازلی ہے۔ اللہ تعالیٰ ازل سے جب اور جس طرح سے چاہتا ہے کلام کرتا ہے لیکن اس کے کلمات ازلی نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ وہ اس کے ارادے کے موضوع کے اعتبار سے حادث ہیں۔ لیکن انہیں مخلوق نہیں کہنا چاہیے، کیوں کہ کلام کا تعلق متکلم سے اس تعلق سے مختلف ہوتا ہے جو سورج، چاند، شیر اور انسان کا خدا کی ذات سے ہے جو اس کی مخلوق ہیں۔ کلام کا محور خدا کی ذات ہے اور سورج، چاند، شیر اور انسان خدا کی ذات سے الگ خارج میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یہ بیان اس مخصوص تعلق کی وضاحت ہے جو خدا کی ذات اور اس کے کلام میں ہے۔
قرآن حقیقتاً خدا کا کلام ہے، ان کے الفاظ اور اس کے معنی دونوں من جانب اللہ ہیں اور قرآن ان دونوں معنوں میں مخلوق نہیں ہے، اگرچہ وہ قدیم ہے۔ وہ حضرت جبریل کو اسی شکل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا اور انہوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منتقل کیا۔ اس میں کسی کمی یا اضافے کے بغیرمنتقل کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے کسی کمی بیشی یا تبدیلی کے بغیر لوگوں تک پہنچایا۔ اس لیے ہمارے پاس جو قرآن ہے وہ اسی طرح کلام الٰہی ہے جس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت جبریل ؑ کو القاء کیا تھا۔یہ خدا کا وہی کلام ہے جو عہد ابوبکرؓ و عثمان ؓ میں مصحف کے اندر لکھا گیا ہے اور یہ وہی خدا کا کلام ہے جس کو مسلمان اس زمانے سے اپنے مصاحف میں لکھتے رہے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کے وہ الفاظ جوکوئی قاری پڑھتا ہے یا قاری سے کوئی سنتا ہے تو وہ بھی کلام الٰہی ہے۔ ان تمام صورتوں میں قرآن مجید کلام الٰہی اور غیر مخلوق ہے لیکن وہ کاغذ، وہ روشنائی جو لکھنے میں استعمال ہوتی ہے اور اس کو لکھنے کا عمل سب مخلوق ہے۔ ان سب کا تعلق انسان سے ہے اور یہ مخلوق ہیں۔ قرآن کا پڑھا جانا اور قرأت کا فعل سب انسانی آواز اور انسانی فعل ہے اس لیے مخلوق ہے۔
صفات الٰہیہ کے سلسلے میں ابن تیمیہ کا عام موقف یہ ہے کہ قرآن و سنت میں جن صفات کا اثبات کیا گیا ہے ان کا اثبات کرنا چاہیے اور جن کی نفی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی ہے ان کی نفی کرنی چاہیے اور جن کا نہ اثبات کیا گیا ہے اور نہ نفی تو ان کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ اگر وہ کسی ایسی صفت کا اثبات کرتی ہیں جو ان صفات سے مطابقت رکھتی ہے جن کا اثبات اللہ اور رسول کے لیے کیا گیا ہے تو اس کا اثبات کرنا چاہیے، ورنہ نہیں۔ البتہ جہاں تک اسماء الہیہ کا تعلق ہے تو صرف ان اسماء کا اثبات کرنا چاہیے جن کا اثبات اللہ اور اس کے رسولؐ نے کیا ہے، بقیہ کا نہیں، خواہ ان میں کوئی غلط بات نہ بھی ہو۔
ثانیاً وہ صفات جو خدا کے علاوہ مخلوق کے لیے ثابت ہیں، ان کو صفات الٰہی کے ہم معنی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات بے مثل اور منفرد ہیں، انہیں انسانی صفات سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔ مخلوق کسی بھی معنی میں خالق کے ساتھ مشترک نہیں ہو سکتی نہ وہ اس کی ذات میں شریک ہو سکتی ہے اور نہ اس کی صفات میں۔ نام کے سوائے ان کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں۔
ثالثاً صفاتِ الٰہیہ کو ان کے ظاہری معنی پر محمول کرنا چاہیے۔ یعنی ان کو اس معنی میں لینا چاہیے جس معنی میں وہ عام طور پر مستعمل ہیں۔ یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ انہیں ظاہرپر محمول کیا جانا چاہیے۔ استعارے کے طور پر نہیں سمجھنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن میں استعارہ کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ یقینا اس کا استعمال ہوا ہے لیکن جہاں جہاں استعارے کا استعمال ہوا وہاں خدا کی طرف سے اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ اس لیے اگر کہیں اشارہ کردیا گیا ہو تو تفسیر میں استعارے کے معنی ہی لینے چاہئیں اور اسی کو ظاہری معنی قرار دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کی جو صفات، صفات خبریہ کہلاتی ہیں، ان کو صرف وحی اور قرآن و سنت کے ذریعے جانا جاسکتا ہے۔ جیسے استواء علی العرش، نزول، وجہ، عین، ید، ساق، غضب، حب، رضا، ضحک وغیرہ اور ان کو بھی ظاہر پر محمول کیا جائے گا۔ اس طرح جب خدا کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ بلند و برتر ہے یا اعلیٰ ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے تو اس کے علو اور فوقیت کو بھی ظاہری معنی میں لیا جائے گا۔لیکن ان کی کیفیات کو اس معنی میں نہیں سمجھا جائے گا جس معنی میں انسانی صفات کو سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ورائیت اور فوقیت کے کیا معنیٰ ہیں اور ان کی کیا صورت ہے، ہم نہیں جانتے لیکن یہ جانتے ہیں کہ یہ الفاظ کس معنی میں بولے جاتے ہیں اور انہیں کس معنی میں لینا چاہیے۔ یہی بات ان تمام صفات کے بارے میں صادق آتی ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور اسی قبیل کی دیگر صفات کے بارے میں بھی۔ بظاہر ابن تیمیہ نے اللہ تعالیٰ کی معیت کو چاہے انسان کے ساتھ ہو یادیگرمخلوقات کے ساتھ جس معنی میں لیا ہے وہ ان کے عام موقف سے مختلف نظر آتا ہے کیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معیت کو اللہ تعالیٰ کے جاننے، دیکھنے اور مدد کرنے کے معنی میں لیتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے، کیوں کہ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، اگر متکلم کی طرف سے کوئی اشارہ ملتا ہو کہ اس کے کلمہ کو عام لغوی مفہوم کے بجائے دوسرے مفہوم میں لینا چاہیے تو اس دوسرے مفہوم کو ہی ظاہری معنی کہا جائے گا۔ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی انداز سے یہ بات نمایاں فرمادیتا ہے کہ اس کے کلام کو ظاہری معنی میں نہیں لینا چاہیے۔
ابن تیمیہ کا یہ موقف صرف خبریہ صفات کے بارے میں نہیں ہے بلکہ دیگر تمام صفات کے بارے میں بھی یہی موقف ہے۔ ابن تیمیہ نے اس اصول کو متعدد جگہ بیان کیا ہے اور متعدد جگہ اس کا دفاع کیا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کو دو مرتبہ جیل بھیجا گیا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہی سلف کا بھی موقف ہے اور یہ کہ وہ اپنی رایے نہیں دے رہے ہیں بلکہ سلف کا مسلک بیان کر رہے ہیں۔ اس کی تائید میں ابن تیمیہ نے سلف کے متعدد اقتباسات بھی نقل کیے ہیں۔ فلاسفہ اور متکلمین ان صفات کی تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان کے اثبات سے اللہ تعالیٰ کے لیے جسم کا اثبات لازم آئے گا اور اس کی ذات و صفات کی انسانی ذات و صفات سے مماثلت لازم آئے گی۔ ابن تیمیہ نے اس خیال پر تفصیل سے بحث کی ہے اور اس کی تردید کی ہے۔
(پروفیسرمحمد عبد الحق انصاری(م،2012) کا شمار ہندوستان کے معروف دانش وروں میں ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر کی حیثیت سے بھی ا نہوں نے فرائض انجام دیے۔ڈاکٹر محمد مشتاق تجاروی،شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ای میل: muftimushtak@gmail.com)