Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
کا مفہوم کیا ہے؟ اس کی توضیح آسان نہیں ہے، کیوں کہ اس میں تہ در تہ بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔جب یہ لفظ مفرد بولا جاتا ہے تو سننے والے کو پہلے مرحلے میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بس یہی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ لیکن اسی لفظ کوجمع کے صیغے میں ’حقائق‘ بول کر علم کے ایک حصے کے تمام متعلقات ومباحث کا مفہوم لیا جائے، تو اس وقت اس لفظ سے کوئی جزوی یااعتباری مفہوم مراد ہوتا ہے۔لہٰذا اس کے بعد علمی اصلاح کے دائرہ میں بحث وگفتگو کا محور کوئی ایسا موضوع ہوتا ہے جسے علمی حقیقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس ایک حقیقت سے مختلف سائنسی حقائق وجود میں آتے ہیں، جیسے طبیعیاتی، حیاتیاتی یا سماجیاتی حقائق۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس کے دائرے میںد یگر علمی وسائنسی میدانات بھی شامل ہوجاتے ہیں جیسےفنی یا مذہبی حقیقت وغیرہ۔
اس طرح کے جو سوالات ابھرتے ہیں یا ہم اٹھاتے ہیں، وہ بذاتِ خود درست ہیں، اس لیے کہ اس کے ذریعے حقیقت کی مختلف شکلوں کے درمیان فرق وامتیا ز کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح ان سوالات کے ذریعہ ہمیں یہ بھی رہنمائی ملتی ہے کہ لوگ جسے مطلق یا اضافی حقیقت سے تعبیر کرتے ہیں، اس کے اور دیگر حقائق کے درمیان فرق کرسکیں، جیسے یقینی،ترجیحی،محسوس مادی،ظاہری یا روحانی حقیقت اورذاتی یا موضوعی(subjective) حقیقت۔یہ سارے مفاہیم وہ ہیں کہ اگر ان کا قریب المعنی یا ہم معنی اصطلاحات کے ساتھ موازنہ نہ کیا جائے تو صرف ان میں غور کرنے سے کسی مفید نتیجے تک پہنچنا مشکل ہے۔
جب ہم اس پیچیدہ نظریے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر ان یقینی سچائیوں یا حقائق کا مسئلہ سامنے آتا ہے، جن کی(سائنسی فکر کی حقیقی یا ظاہری صورت سے استفادہ کرتے ہوئے )تشکیل کی بنیاد میں ایسی اغلاط شامل ہیں جو وقت کے ساتھ اس حد تک راسخ ہو چکی ہیں کہ ان میں اور یقینی حقائق میں فرق کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ بعض اذہان کے اندرتووہ تقدس کا مرتبہ حاصل کرچکی ہیں۔ اس سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔کیوں کہ جب ان یقینی امور کی تہہ تک پہنچ کر ان کی تحقیق کی جاتی ہے اوران کے مرحلۂ آغاز کی چھان بین ہوتی ہے تو اس وقت یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ یہ یقینی امور محض اوہام پر مبنی ہیں۔
بہرحال جب ہمیں باریک بینی سے دیکھنا ہے تو پھر ضروری ہے کہ ہروہم یا غلطی پر عقلی حیثیت سے نظر ڈالی جائے اور اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ انسانی زندگی میں انسانوں کے طرز فکر ومعاشرت سے متعلق جو حقائق ومفاہیم موجود ہیں،محسوسات کے عقلی تصور کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان سے قریب ہونے کی کوشش بھی کی جائے۔
کبھی کبھی خود کونیاتی حقیقت (cosmological fact) بھی غیرحسی امور یعنی باطنی عقل یا فطرت کے لاینحل قوانین اور اس کے رازہائے سربستہ کے دائرے میں موجود اور محصورہوتی ہے۔شاید ایسے مواقع پران فلسفیانہ عقلی کوششوں سے استفادہ مناسب ومفیدہوگا جنھوں نے حقیقت کو موضوع بحث بنایا ہو، اس سلسلے میں مختلف مساعی اور نظریات وتصورات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔حقیقت کا روایتی نقطۂ نظر ارسطو اور افلاطون دونوں کے فلسفہ میں نظر آتا ہے اور اسی نظریےکے ذریعہ حقیقت کے مفہوم کو حکم یا قضیہ کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے، یعنی حقیقت کو میکانکی انداز میں علمیاتی سطح پرعلم اور اس کے موضوعات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
حقیقت سے متعلق ا س تصورکو عیسائی اور مسلمان ماہرین فلسفہ نے اس دور میں جس کو دین توحید کے ایمانی دور سے تعبیر کیا جاتا ہے،دوسری شکل میں ڈھال کرپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نظریے کے مطابق جب کسی چیز کے ساتھ عقل انسانی ہم آہنگ ہوجائے تو وہاں حقیقت مخفی ہوجاتی ہے۔ اس نظریے کی سب سے بہتر ترجمانی ابن سینا اور تھامس ایکوائنس نے کی ہے۔ ہائیڈیگر کے قول کے مطابق حقیقت کی روایتی تفکیر کو جن بنیادی موضوعات نے واضح کیاہے ان میں سے اہم بات یہ ہے کہ حقیقت کی ماہیت کسی قضیے یا حکم کی اس کے موضوع کے ساتھ ہم آہنگی ہے۔1 جب کہ اسپینوزاکی رایے ہے کہ حقیقت خود اپنے لیے بھی معیار ہے اور غلطی کے لیے بھی۔2ہیگل اکثر اپنے ذہن میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ہم حقیقت سے واقف ہوسکتے ہیں؟ اور پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ زمین سے وجود پذیر ہونے والے اس چھوٹے سے انسان کے بس میں نہیں کہ وہ حقیقت کا ادراک کرسکے۔3 جب کہ ایک دوسرے فرانسیسی فلسفی پال ریکیور(Paul Ricœur)کا کہنا ہے کہ ایک مفکر کی حقیقت سے تعلق کی نوعیت مالکانہ نہیں ہوسکتی،بلکہ صرف امید ورجاء کی حد تک اس کا اس سے تعلق ہوسکتا ہے۔4
اس تعلق کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقت صرف افق نہیں جس کو ہم چھونے کی کوشش کریں بلکہ ایک فضائے بسیط یا وسیع میدان ہے۔5اس مفہوم کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریکیور اور ان کے ہم فکر دیگر فلاسفہ ہائیڈیگر(Martin Heidegger) اور جاسپرس( Karl Jaspers) وغیرہ حقیقت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک ایسی روشنی ہے جس کے ذریعے وجود کو روشن ومنور کیا جاسکتا ہے اور بحیثیت انسان ہمارے لیے اس کی حقیقی گہرائی تک پہنچنا ایک حقیقت کی حیثیت سے ممکن نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہمارا تعلق اس سے آنے والی روشنی ہی کے توسط سے ہوسکتا ہے۔فلاسفہ کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جس کا خیال ہے کہ حقیقت کو مجرد شکل میں پیش کرنے اور اس پر مکمل ملکیت کے حصول کا دعوی صحیح نہیں ہے۔کیوں کہ یہ صورتِ حال انسان کو وہم کی طرف لے جانے والی ہے۔ چنانچہ ادگر مورن (Edgar Morin) کا کہنا ہے کہ حقیقت کا خیال ہی غلطی کا سب سے بڑا منبع ہے اور بنیادی غلطی حقیقت کا یک طرفہ پہلو اپنانے سے ہی ہوتی ہے، جب کہ اس سلسلے میں نطشے(Nietzsche) کا کہنا ہے کہ غلطی علم کے لیے شرط ہے، بلاکسی شک وتردد کے یہ بات کہی جاسکتی ہے،کیوں کہ سائنس میں غلطی کی آمیزش ضرور ہوتی ہے6۔ وہیں اس سلسلےمیں کارل پوپر کہتے ہیں کہ اگر ہم غلطی کے امکان کو درکنار کردیں تو درحقیقت ہم خود حقیقت کو ہی درکنار کرڈالیں گے7۔ ایک تعداد اس راےکی بھی حامی ہے کہ حقیقت تک رسائی میں جو چیز بنیادی طور پر رکاوٹ بنتی ہے وہ گفتگو کا کسی نظریے یا آئڈیا لوجی پر مبنی ہونا ہے۔چنانچہ فرانسو شاتلے (François Châtelet)کی تعریف کے مطابق آئیڈیالوجی نام ہی اجنبیت کا ہےکیوں کہ اس کے مطابق امر واقعہ کو ایسے زاویے سے دیکھا جاتا ہے کہ دیکھنے والا حقیقت کے تئیں اپنے معاشرتی تعلق کی وجہ سے بے گانہ معلوم ہونے لگتا ہے،۔8اسی طرح مائکل فوکو(Michel Foucault)کا قول کہ حقیقت اقتدار کی پیداوار ہوتی ہے،9اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ حقیقت کا علم اقتداراور اس کے تقاضوں اور مصلحتوں کے دائرہ میں رہ کر ہی آگے بڑھتا ہے۔ اور اگر ہمارا رجحان اس طرف ہے کہ حقیقت کے مفہوم کو علمیاتی تناظر میں دیکھیں جس کے ذریعہ اس حالت کو پیش کیا جاتا ہے جس کا علوم انسانی میں وجود ہے تو پھر علوم ومعارف کی تبدیلی کے اصول کےمطابق وہ اس کے ذریعہ تبدیلی قبول کرلیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں اس کا اعتراف واقرار ہے کہ بہت سے ایسے کائناتی اور وجودی حقائق ہیں جن کی علمیاتی توجیہ ممکن نہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی راے یا نقطۂ نظر درست ہے۔جس کایہ دعویٰ ہے کہ وہ بالکل درست ہے، اس نے اپنے خیال میں گویا حقیقت مطلقہ پراجارہ داری قائم کرلی ہے۔
اب فلسفۂ علم نے یہ حقیقت ثابت کردی ہے کہ مغلق ومطلق مفاہیم ومعانی حقیقت کے گردوپیش چکر لگاکر ختم ہوجاتے ہیں اور اسی طرح اشیاء وعقل کے درمیان مکمل ہم آہنگی کو یقینی بنانے والے جوخیالات وافکار ہیں وہ بھی اپنی انتہا کو پہنچ کر دم توڑ دیتے ہیں۔یہ ساری چیزیں ان تصورات اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے تصورات پر قائم ہیں جنھیں ہم نے مزید آگے بڑھنے کا موقع صرف اس لیے نہیں دیا کہ حقیقت کے مفہوم کے تئیں اقوال واجتہادات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت کے متعلق کسی ایک اورجامع نقطۂ نظر تک پہنچنا نہ صرف بہت دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ البتہ مطالعے اور فلسفیانہ آراء ونظریات پر غوروفکر کے بعد ہم ایک بات کو قابل اعتماد تسلیم کرسکتے ہیں اور وہ یہ کہ حقیقت ایک اضافی چیز ہے،وہ کامل ومکمل شکل میں کہیں موجود نہیں ہے۔وہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ہمیشہ اس کی تلاش وبازیافت اور ازسرنو تجدید کی ضرورت پڑتی ہے۔
میں ہوں یا کوئی اور،اس حقیقت پر اپنے علم وفکر اور خیالات وآراء ہی کی روشنی میں نظر ڈال سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ ساری باتیں زمان ومکان کے مطابق ہی وجود میں آتی ہیں۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ میری یہ نظر مجھے اس پر مجبور نہیں کرسکتی کہ میں ان چیزوں کی دائمی، تیز اور میکانکی ترقی کی قطعیت کے سامنے جھک جاؤں۔ بلکہ یہی چیز ہمیں اس کے برعکس اس مرحلہ اور اس مرحلہ کے درمیان جو اضافی حقائق ہیں یعنی حیاتیاتی، علمیاتی اور کونیاتی حقائق۔ ان پر مستقل جمنے پر مجبور کریں گی۔ اوریہ اس لیے کہ وجود کے اضافی حقائق پر اعتماد کا انکار اور بدعنوانی کے کے اندیشے ختم ہوسکیں۔
اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی دوراےنہیں کہ اسرار فطرت کے انکشاف میں سائنٹفک عقل کی اپنی اہمیت ہے، تاہم یہ ضروری نہیں ہےکہ اس دنیا میں انسان کی معاشی و جسمانی حالت کو بہتر رکھنے میں اس کے کردار اور اہمیت پر حدسے زیادہ زور دیا جائے۔ کیوں کہ یہ ایک بین حقیقت ہے۔ نہ ہی یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ اس نےدقیق بشریاتی علوم کی سطح پر یہ صلاحیت•حاصل کرلی ہے کہ انسانوں کے لیے نئی وسعتوں اور میدانوں کا انکشاف کرسکے اور علم ومعرفت کی تاریخ میں (جس میں سائنٹفک علم بھی شامل ہے) جو کچھ وہم اور غلطی ہے اس کا ازالہ کرسکے۔ فلاسفۂ علم کے بقول سائنس کی تاریخ درحقیقت اس کی غلطیوں اور اس سے مستقل آزادی ہی کی تاریخ ہے۔ سائنس کے ذریعے ارضی و کونیاتی حقائق کے متواتر انکشاف کا عمل جاری ہے اور انہی کونیاتی اسرار ا سے وہ سرمایہ وجود میں آتا ہے جس کی تحقیق وجستجو، اخذ نتائج اور ازسرنو دوبارہ تجربہ کا
عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ بدیہی حقائق وواقعات ہیں، جو ان کا انکار کرتا ہے گویا وہ زندگی کے میدان میں سائنسی تفکر کی اہمیت کا انکار کرتا ہے، اور اس پہلو کا انکار کرتا ہے جو کائنات کی زندگی کی بقا، اس کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش اور اس پر عمل کے تسلسل کی شکل میں موجود ہے۔ جب کہ درحقیقت جس مسئلےپر ہمیں ٹھہرکر سوچنا چاہیے وہ علم کے زندگی، مادّہ اور روح سے تعلق کے تئیں ہمارے اندرون میں لازمی طور پر ابھرنے والے چندسوالات ہیں۔بالفاظ دیگر کیا حقیقت اپنے فلسفیانہ مفہوم میں صرف سائنٹفک ہے؟ کیا زندگی صرف علم وعقل کا نام ہے؟زندگی اور کائنات کے دیگر حقائق کہاں ہیں؟ کیا انسان صرف ایک ہی مادّی بعد رکھتا ہے یا اس کے اندر دوسرے ابعاد بھی شامل ہیں؟کچھ دوسرے فلسفیانہ سوالات بھی ہیں، جن کی بنا پر ہم اپنے صحیح اور غلط فیصلوں کی صورت گری کرتے ہیں اور پھر اسی صورت گری کی بنیاد پر بعض اصول ہم قبول کرتے ہیں اور بہت سے اصولوں کو رد کردیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک سوال یہ ہے کہ حقیقت کے مختلف معیاروں کے درمیان فرق وامتیاز ہمارے لیے کیوں کر ممکن ہے؟کسی ایک اصول کو قبول کرنے کے لیے دونوں وجہوں کے درمیان ہم کس طرح فرق کرسکتے ہیں؟ جس سبب یا اسباب کے زیر اثر ہم کسی نص یا عبارت کو سچ ماننے پر خود کو آمادہ پاتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہم اس سے ایسے نتائج کا استخراج واستنباط کرسکتے ہیں جن کے ذریعے ہم کسی چیز کا باریک بینی سے مشاہدہ کرسکنے کے قابل ہوں۔ یا دوسرے الفاظ میں ہم کسی بات کو اس کے نتائج کی وجہ سے مانتے ہیں، مثلاً نیوٹن کے قوانین کی ہم اس لیے تصدیق کرتے ہیں کہ ہم اس کے توسط سے اجرام فلکی کی حرکتوں کو شمار میں لاسکتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم کسی نص یا عبارت کی صداقت اس لیے بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ منطقی طور پر واضح اصولوں سے اس کا استخراج واستنباط ممکن ہوتا ہے، اور اپنے سائنس کی زبان میں ہم اسے علمی معیار کا نام دیتے ہیں اور تمام درست علمی نتائج ان مفروضات پر مرکوز کرتے ہیں جن کا اثبات صرف تجربہ کے ذریعہ ممکن ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر مفروضہ ونتیجہ اپنی اضافی حیثیت میں باقی رہتا ہے، پھر دوسرا مفروضہ اور نتیجہ آکر اس کی جگہ لیتا ہے۔ بنابریں یہ بات طے ہوچکی ہےکہ سائنس میں کوئی حقیقت ثابت ہی نہیں، حقیقت کا سائنٹفک معیار اس نظریے سے جانچا جاتا ہے جو آنکھ اور عقل کی نگاہوں کے درمیان برابر ہوتا ہے، اور یہ معیار خود متعدد توجیہات کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے نتائج میں بھی بہت حد تک پیچیدگی اور الجھاؤ نظر آتا ہے، ایسے مواقع پر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ آخر ان اصولوں کا سائنٹفک نتیجہ کیا ہے؟ یہ تو طے ہے کہ یہ اصول انسان وکائنات کی بہت حد تک اطمینان بخش بلکہ بسااوقات حتمی تصویر پیش کرتے ہیں، لہٰذا جب انسانی معاشرےکو کائنات کی تصویر فرض کرلیا گیا تو یہ بھی طے ہوگیا کہ انسان جب چلتایا کوئی تصرف کرتا ہے تو وہ فطری طور پر کائناتی قوانین کے مطابق ہی تصرف کرتا ہے۔اور جب اسے مان لیا گیا کہ سائنٹفک اصول کائنات کی تصویر پیش کرتے ہیں، تو یہ بھی سچ ہے کہ یہ صورت گری اسی سائنٹفک مفروضے سے حاصل ہوتی ہے جس کے مطابق ہر مادّی حقیقت کا استخراج برقی میکانیات، حرکیات اور ایٹم کے قوانین سے کیا جاسکتا ہے۔ اس نظریے کو تسلیم کرلینے کے بعد یہ اندیشہ سامنے آتا ہے کہ کہیں یہ نہ کہا جانے لگے کہ اس کائنات میں مادّہ کے علاوہ کوئی وجود ہی نہیں، اور یہ اس بنا پر کہ کائنات کے بہت سے مسائل جو عقل ونگاہ کی بصارت کے دائرہ سے باہر ہیں اور روح وفن اور ایجاد وابداع کی لامتناہی دنیا کے حدود میں داخل ہیں، وہ سب کے سب حقائق ہیں، اور شاید یہی انسان کے کائنات سے تعلق کے تئیں واضح وروشن حالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ رہا فلسفۂ علم وسائنس تو،جیسا کہ سبھوں کو معلوم ہے، وہ سمٹ کر اپنے اصطلاحی مفہوم اور خود وضع کردہ نقطۂ نظر تک محدود ہوگیا ہے۔نیزاس نظریےکے مطابق فلسفیانہ اور علمی عقل ہی سبب کی انتہا ہے۔ گویا اس کے علاوہ کسی اور فلسفے، روحانیت یا لاشعور کا کوئی وجود واعتبار ہی نہیں۔ اسی کے ساتھ یہ نظریہ ان کے سامنے ایسے حدود قائم کرتا اور خطوط کھینچ دیتا ہے جس سے آگے بڑھنا اس کے لیے ممکن نہیں رہ جاتا۔ لہٰذا نہ علم اپنی فطری وضع کے مطابق ثابت ہے نہ اس کے حقائق ہی فطری طور پر ثابت ہیں۔ لہٰذا وہ ہمیشہ خود کوایک نئے نقطہ کے ذریعہ اپڈیٹ کرتا رہتا ہے جس نقطۂ نظر کا تمام تر دارومدار اصطلاح ومنہج اور مادّہ وموضوع کے جدید تقاضوں اور مسائل پر ہوتا ہے، اسی طرح گیسٹون باشلار(Gaston Bachelard) کے بقول سائنس کی تاریخ واقعیت اور وضعیت کے درمیان کوئی مناسب ہم آہنگی ظاہر نہیں کرتی، نہ عقلی اور تجربی، اور نہ جوہر اور توانائی کے نقطہ ہاے نظر کے درمیان، نہ متصل ومنفصل کے مابین۔
یہ اس وجہ سے نہیں کہ دنیا کی نفسیات اپنی روز مرہ کوشش میں صرف قوانین کی مشابہت اور اشیاء کے تنوع کے مابین ہچکولے کھارہی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ سائنسی تفکیر ہر فکر اور فارمولے میں دو طرح سے منقسم ہوتی ہے: ایک واقعی اعتبار سے، دوسرےوجوبی اعتبار سے10۔اور جب سائنسی علم کی یہ صورتِ حال ہوجائے(اور یہی راجح بھی ہے) تو پھر اشیاء کی سائنسی سطح پرواقفیت اپنی واقعیت، عقلیت اور عظیم انسانی اہمیت کے لحاظ سے اضافی نوعیت کی ہوگی۔ اور اس میں جو چیز ہوگی وہ قابل ترقی، قابل اصلاح اور لائق تبدیلی ہوگی۔ اس بنا پر مذہبی اور غیر مذہبی دونوں طرح کے علوم ودانش سے تعلق رکھنے والے محققین ومفکرین کی ذمہ داری ہے کہ خود کو ہر ایسے وہم وفکر سے آزاد رکھیں جس میں فلاسفہ اور ماہرین طبعییات وعلوم انسانی کی ایک کثیر تعداد مبتلا ہوچکی ہے، جو یہ سمجھنے لگی تھی کہ مکمل تعقل اورواقعیت پسندی ہی ان کا کعبہ ٔمقصود ہے۔ ان کا ایقان تھا کہ وہ وجود کو ایک خالص علمی شکل میں پیش کرنے پر پوری طرح قادر ہیں۔یہ نظریہ غیرمعمولی ہے، لہٰذا یہ وجود جو اپنی کثرت، اپنے خارجی عطایا اور اپنی کونیاتی وحدت میں یکساں ہے، ہم کو اپنے اندر سموکر ایک ذرۂ بے مقدار بنادیتا ہے اور ہمیں اس خیال پر مجبور کردیتا ہے کہ حقیقت کا کوئی بھی حصّہ یا کسی نوعیت کی حقیقت وجود کے ایک معمولی حصہ کو بھی اپنے احاطہ میں نہیں لے سکتی۔ اسی طرح دینی ودنیوی وجود کسی عالم کی نگاہ میں یک بارگی یا کسی معیّن علم کے ذریعہ یا کسی ایک علمی میدان کے توسط سے گرفت میں نہیں آسکتا، نہ تجربہ میں، نہ عقل میں۔
یہاں آکر سائنٹفک عقل کی ترکیب وبناوٹ پر غور کرنا چاہیے، اور اسی طرح اس عقل کے تجربات وفتوحات پر بھی۔ اس پر اس اعتبار سے بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ ایک متحرک ترکیب ہے حتی کہ اگر یہ ترکیب فکری یا فلسفیانہ لحاظ سے لاینحل اور پیچیدہ معلوم ہو تب بھی اس پر غور کرنا ضروری ہے۔
ماکس پیروٹز نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ علم میں ممکن ہے کہ جہاں ہمیں اصحاب تقدس ملیں وہیں کچھ فریبی ودجال بھی نظر آئیں۔ جس طرح ممکن ہے کہ راہبوں سے ملاقات ہو اسی طرح بالکل ممکن ہے کہ لڑنے بھڑنے والوں سے بھی سامنا ہو۔ اگر کچھ عبقری اور جینیس ملیں گے تو کچھ بیوقوف وکندذہنوں سےبھی سابقہ ہوگا۔کچھ ظالم ہوں گے تو کچھ ماتحت مظلوم بھی، کچھ اچھےتو کچھ پریشان حال بھی، لیکن ایک مشترک صفت جو سب کے اندر نظر آتی ہے وہ ابداع وایجاد کی صفت ہے۔اگرچہ لوگوں کی عقلیں عام طور پر مانوس راستوں ہی پر چلنا پسند کرتی ہیں اور اسی کو ترجیح دیتی ہیں کیوں کہ کسی چیز میں مکمل جدت واختراع اتنا مشکل ہے کہ اس کو کوئی ذی استعداد انسان ہی انجام دے پاتا ہے۔11 اس تعریف کی بنا پر ہمیں حقیقت علمی کی ساکن اور متحرک صفات میں غور وتدقیق کرنا پڑے گا،اور دیکھنا پڑے گا اس میں کس حد تک وہم کا اورکس حدتک واقعیت کا،کس حد تک تعمیر کا اورکس حد تک تخریب کا،کس حد تک تنگ نظری اور کس حدتک وسعت نظر کا دخل ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہمارے لیے اس اقرار کے بغیر چارہ نہیں کہ سائنس اپنے مجرد مفہوم میں ہمیں ٹیکنیکل معلومات فراہم کرتی ہے اور کائنات کے تئیں ہمارے غوروفکر کو قوت ونمو عطا کرتی ہے۔لہٰذا سائنس اور سائنسی حقیقت دونوں انسان کو انتہائی اہم معلومات فراہم کرتے ہیں اور اپنے پورے تجربات کو ایک عمدہ ومربوط نظام کی شکل میں ڈھال دیتے ہیں، لیکن یہ نظام ہمارے تمام تر سوالات کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لہٰذا اثباتیت پسند(positivist) مفکرین(جن میں کلاسیکی اور جدید دونوں شامل ہیں)، مطلق تصویر پیش کرتے ہیں۔ان کا مفروضہ یہ ہے کہ اس سے ہمیں واقعیت کا مکمل فہم حاصل ہوسکتا ہے،ہم یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ انسان ایک گھڑی کی مشین کی طرح حرکت کرتا ہے، لہٰذا مشینی حدود میں رہتے ہوئے اس کے لیے اس کے شعور، ارادہ، کوشش، یا خوشی ومسرت یا ذمہ داری کے احسا س کو عمل میں لائے بغیر اسی رخ پر چلنا ممکن ہے جس پر وہ گھڑی چلتی رہتی ہے۔ درحقیقت اس مفہوم میں محدودیت اور سطحیت اعلیٰ درجے میں پائی جاتی ہے، لہٰذا سائنس کو نہ لذت والم کا احساس ہوتا ہے، نہ اسے حسن وقبح کی پہچان ہوتی ہے اور نہ خیروشر سے واقفیت۔
سائنٹفک عقل جو اپنی علمیاتی حدود سے واقف ہے بہت سادہ ہے، لہٰذا اس کادائرۂ عمل مادیات ومحسوسات تک ہی محدود ہے اور وہ اسی میں اپنے کمالات کا مظاہرہ کرتی ہے، اور واقعیت وعقلیت کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ وہ اس کی کوشش بھی کرتی ہے کہ غیرواقعی، مابعدالطبعیاتی اور لاشعور سے تعلق رکھنے والے حقا ئق کا فہم حاصل کرے اور اس حد تک کہ کائنات کے بعض عام اسرار کو اپنی گرفت میں لے سکے، چنانچہ آئنسٹائن سے لے کر سیلکووسکی(Tsiolkovsky) اور پلانک ( Max Planck)سے لے کر فرنادسکی( Vladimir Vernadsky) تک اور شاردن(Jean Chardin) سے عظیموف(Isaac Asimov) اور تیلہاردی شاردن(Pierre Teilhard de Chardin) سے پیٹر کیپیٹزا(Peter Kapitza) تک بیسیوں صدی کے تمام سائنسداں سائنس اوراس کی عظیم فتوحات کی زبردست قوت سے بخوبی واقف تھے، لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ زندگی میں سائنس ہی ہرچیز نہیں، ساتھ ہی ان کو اچھی طرح علم تھا کہ کائنات روح ا ورمادّہ کے درمیان مناسب توازن پر قائم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جب مختلف سائنٹفک اور کونیاتی وروحانی وسیع حقائق پر نظر دوڑائیں اور کسی نص کے مطالعہ کے بعد اس کا تجزیہ کریں، بالخصوص اس وقت جب کہ اس کے جلو میں رموز واستعارات، اور وجدانی وروحانی اقدار کی بڑی وسیع دنیا آباد ہو، تو پھر ایسی صورت میں پختہ عقلی توجیہ کا عمل پورا نہیں ہوسکے گا، اور اس سیاق وسباق میں دین یادینی زبان کو صرف عقل کی عینک لگاکر نہیں دیکھنا چاہیے، نہ اس عینک سے جسے ہم سائنسی حقیقت کا نام دیتے ہیں، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ یہ ایک ہمہ گیر نظریہ ہے۔ اہل ایمان کے یہاں فکرونظر ہویاحقیقت یا ذاتی تجربہ ہو سب کے سب اسی کے توسط سے حاصل ہوتےہیں جسے ہم دینی یامذہبی حقیقت سے تعبیر کرتے ہیں جس کی اپنی خصوصیات،علامات وامتیازات، اپنی زبان اور اپنا انداز خطاب وتوجیہ ہے۔یہ ساری چیزیں ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتی ہیں، کیا دین حقیقی حالت کا نام ہے یا واقعی حالت کا؟
کیا اثباتیت پسندوں12کا (جن میں فرائڈبھی شامل ہے )یہ کہنا درست ہے کہ دینی ایمان وایقان انسان کی فکری ناپختگی کی دین ہے جس پر ایک دن سائنس فتح حاصل کرلے گی؟۔یہ ایسا سوال ہے کہ علم جدید اپنی تاویلات کے ذریعے موجودہ شکل میں اس کا جواب نہیں دے سکتا،جس طرح مذہبی عوامیت پسندانہ(populist) نظریے میں اس کا شافی جواب ممکن نہیں۔لہٰذا سائنٹفک حقیقت کو موضوعیت پر مبنی نقطۂ نظر(subjective point of view) میں کوئی حتمی جگہ نہیں مل سکتی۔شاعری اور موسیقی کی طرح مذہب اور اس کی تفہیم کو کسی سائنسی نظریے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔نہ اسے کسی تجرباتی منہج اورطریقۂ کار کے تابع بنایاجا سکتاہے۔دین اور دینی حقیقت دونوں کونیاتی حقائق کی پیداوار ہیں۔لہٰذا وہ علماء اور فلاسفہ جنہیں اپنے مناہج فکر اور طرز استدلال میں اللہ کے لیے کوئی جگہ نہیں نظر آتی، وہ عام طور پر اس کی طرف ’’علت اولی‘‘ سے اشارہ کرتے ہیں۔ اس مسئلے سے یہودیت ومسیحیت اور اسلام ہرمذہب کے منتخب مفکرین اور مذہبی نمائندوں نے بے اعتنائی برتی ہے۔ گویا ان کے مطابق، خد اکے وجود کی حقیقت ایک موضوعی حقیقت ہے جس کا سائنسی سطح پر اثبات ممکن ہی نہیں اور اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ کائنات کے کسی بھی مادّی نظام کے تحت اللہ تعالیٰ کی توصیف ناممکن ہے، ساتھ ہی منطقی طور پر وجود باری کے اثبات کی کوششیں بھی بے سود ہیں۔دو سری طرف ان کے مطابق یہ بھی ضروری ہے کہ ایمان باللہ کسی خوف ا ورڈر کا نتیجہ نہ ہو۔ لہٰذا اس کا قتضاء ہے کہ ایسی انسانی حکمت اختیار کی جائے جو اللہ کے لیے دل کو کھول دے اور اسے ہمیشہ ہماری اخلاقی قدروں میں موجود وحاضر رہنے پر آمادہ رکھے۔
جب ہم کسی دینی عبارت یا نص کا مطالعہ کریں تو اسے اس طرح نہ پڑھیں جس طرح کسی چیز کو سائنسی وتجرباتی نقطۂ نظر سے دیکھا اور اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، کیوں کہ لادینی نظریہ جو ایمان سے محروم ہو دینی آیات ومعتقدات کو خرافات واساطیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اور نصوص کو بھی وہ اسی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے، لہٰذا اس نظریے کے مطابق منصوصات میں کوئی چیز بالکل حرفاً حرفاً صحیح نہیں ہے، حالاں کہ اس حرفی مطالعے میں یہ اہم پہلو عام طور پرایسے مفکرین کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے کہ انسانی انا یا خودی کا قدرت مطلقہ سے کیا تعلق ہے، اور یہی پہلو ہماری رہنما ئی کرکے بتاتا ہے کہ خدا کا خیال مذہبی شعورکے اندر رمزی مفہوم پر مشتمل ہے،چنانچہ دنیا اور کائنات کے وجود کے بقاء وتسلسل کے لیے خدا کا وجود ضروری ولازمی ہے، حالاں کہ یہ زبردست رمزی قوت جس کو عقل انسانی نے اللہ کا نام دیا ہے ماضی سے تاحال اور مستقبل میں بھی فطری قوانین کے ذریعے اپنے عمل میں مسلسل مشغول ہےاور رہے گی۔
جب اللہ کے بارے میں بحث ہوتو، منطقی براہین اور عقلی دلائل کا سہارا لینا مفید نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس سیاق میں مفید یہ ہوگا کہ ہم نفس انسانی کے اندرون میں موجود ومخفی روشنی کو تسلیم کریں، جو ہمیں امید ورجاء کی وسیع جولاں گاہ فراہم کرتی ہے۔ ایسی وسعت ہمیں نہ عقل فراہم کرسکتی ہے نہ مادہ، نہ سیاسیات انسانی کی کوئی اور قسم۔ہمیں ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے جو برملا اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ خد ا کے نام پر لڑی جانے والی جنگیں خود انسانوں کے اپنے کرتو ت کا نتیجہ تھیں نہ کہ خدا کا فعل۔ خدا کی یہ صورت گری کی گئی کہ وہ ایک ایسی دوا کی طرح ہےجس کا کوئی فائدہ نہیں یا وہ ایک ایسے ڈھیلے ڈھالے خیال کی مثال ہے جس کا کوئی مقصود نہ ہو۔ مارکس کا مشہور قول ہے کہ مذہب یا خدا کا تصور عوام کے لیے افیم کی حیثیت رکھتا ہے۔ کچھ لوگوں نے خدا کو اپنے وجود ہی کی طرح ایک مستقل وجود تصور کیا۔یعنی دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ ہماری ہی طرح ہے، اور اس کی صورت ہمارے مشابہ ہے،لیکن وہ ہم سے افضل ہے اور آسمان کی سب سے اونچی بلندی پر ہے، جو انسانی خواہشات کی تکمیل کے ہرسامان سے بھرے فردوس بریں کی ہو بہ ہوتصویر ہے۔ لیکن بہت سے لوگ اس کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی صورت خود ہمارے اندر موجود ہے اور ہمارے مابین رونما ہونے والے ناپسندیدہ اور ظالمانہ واقعات جھیلنے کا ہمیں حوصلہ بخشتا ہے، لہٰذا عظیم روحانی ودینی استحضار جو ہمہ گیر ہو یہ اندرونی احساس ہے کہ کوئی کائنات کا حقیقی معبود ہے۔ خود دین اپنے اخلاقی مفہوم کے تناظر میں انسان کو مصائب کوبرداشت کرنے کا حوصلہ بخشتا ہے اور خطاؤں کے صدور پر پشیمانی کا احساس جگاتا ہے۔ ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ دنیا میں ہونے والے انسانی مظالم صرف دنیا میں ہی ختم نہیں ہوجائیں گے بلکہ ان کی باز پرس بھی کی جائے گی۔
کسی انسانی شخصیت میں پایا جانے والا دینی استحضار ہی انسان کو اس پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس عظیم ماورائی ذات سے جس کو خداکہا جاتا ہےوابستہ کلمے کی حکمت سے اپنا رابطہ استوار رکھے اور اس کو اپنی دعاؤں کے ذریعہ پکارے۔ لہٰذا عام تو عام بعض مادیات کے ماہرین اور وسیع عقل پرست بھی خدا کے ذہنی ا ستحضار کی اہمیت وافادیت کے قائل ہیں۔بلوخ (Ernst Bloch)کی رایے ہے کہ انسانی زندگی کے تعلق سے خدا کا خیال انسان کی فطرت سے وابستہ ہے۔ اس زندگی کا رخ ہمیشہ مستقبل کی طرف ہوتا ہے، اور یہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو نامکمل اور لافانی سمجھتے ہیں۔یہ فکر ہمارے اندر اس کی ہمت پیدا کرتی ہے کہ ہم غوروفکر کے بعد اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اس قدر ترقی دیں کہ وہ ہماری اپنی ذات کی حدود سے آگے بڑھ جائے۔چنانچہ فلسفہ کا آغاز بھی تجربہ کی بنیاد پر اٹھنے والے سوال سے ہوتا ہے۔بلوخ اور فیورباخ کے نزدیک خدا اس مفہوم کے اعتبار سے انسانیت کی اعلی اور عظیم قدر کا نام ہے جواب تک وجود میں نہیں آیا ہے۔اسی طرح فرانکفرٹ اسکول کے سب سے ممتاز نظریہ ساز میکس ہور کھایمر(Max Horkheimer) کا خیال ہے کہ جب تک علم سیاست واخلاق میں خداکی فکر شامل نہیں ہوگی اس وقت تک یہ دونوں علوم حکمت پر مبنی ہونے کے بجائے عیاری اور عملیت پسندی(pragmatism) کے حامل ونمائندہ سمجھے جائیں گے۔
جب ایسی بات ہے تو پھر انفرادی اور اجتماعی زندگی سے استحضار دینی کے الگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، نہ ہی قوانین فطرت کے اسرار کوفاش کرنے والے علم کو اس کے عمل سے باز رکھا جاسکتا ہے۔ سائنسی اور مذہبی حقیقت کو ایک دوسرے سے دور کرنے یا ایک کی قیمت پر دوسرے کی نفی کرنے کا رویہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔لہٰذا سب سے اہم یہ ہے کہ حقیقت علمی اور حقیقت دینی کے درمیان واضح خطوط کھینچے جائیں۔اسی طرح سیاسی حقیقت اور اخلاقی حقیقت کے مابین بھی۔ دونوں کے درمیان کہاں ہم آہنگی اور توافق ہے اور کہاں فرق واختلاف، اس کو واضح کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔جس چیز کے ذریعہ دینی و دنیوی حقیقت کو باہم یک رنگ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہےکہ انسانی شخصیت کے ہر پہلو اور بعد کو اس کا فطری حجم عطا کیا جائے۔ انسان کی مادّی اورروحانی شخصیت کی تشکیل ارضی وکائناتی حقائق کی بنیاد پر ہوئی ہے،جب کہ اپنے عقلی بعد میں وہ اس بشری وجود کی ذہنی وفکری ترقیات کا نتیجہ ہے۔ اور اپنے روحانی بعد میں وہ اس پہلو کا حامل ہے جو کائنات کی دیگر اشیا کے درمیان سب سے زیادہ دوامیت کی صفت سے متصف ہے۔ وہ اپنے رب کا بندہ ہے،اس کے حیاتیاتی، سماجی، نفسیاتی یا ثقافتی وجود کوکسی ایک یا دو ابعاد میں محصور نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا اگر ہم اس کے تینوں ابعاد کو شامل کرلیں تو یہ تصویر بہت حد تک جامع اور ہمہ گیر ہوجائے گی۔ اور جب ان تینوں کا احاطہ ہمہ گیر ہوتو اس حال میں اس کی تفہیم زیادہ دشوار گزار اور پیچیدہ نہیں رہتی۔ان تینوں ابعاد میں سے پہلے بعد (مادی و روحانی) کا تقاضا ہے کہ علمی اورسائنسی حقیقت کا ادراک کیا جائے اور اس کو مناسب جگہ دی جائے۔دوسرے بعد(تعقل پسندی) کا تقاضا یہ ہے کہ ذہن کو ہرجہت سے جستجوئے حقیقت ومعرفت کے لیے وا رکھا جائے اور تیسرے بعد (روحانی) کا تقاضا یہ ہے کہ انسانی زندگی کے تعلق سے محبت، داخلی اطمینان اور ماورائیت کو صحیح مقام دیا جائے۔
عقل کا ایک میدان ہے جس میں وہ چند علمی ضوابط واصول کے مطابق کام کرتی ہے جن کی بنیاد اصطلاحات ومفاہیم اور طریقہ ہاے کار کے غیرمستند مجموعہ پر ہوتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ بدلتے اور حرکت کرتے رہتے ہیں، زمانے کے لحاظ سے اس کی قوت وفاعلیت بھی اضافی و عارضی اور جدید حالات کے ماتحت ہوتی ہے۔ علمی اور سائنٹفک ذہن کو چوں کہ ہمیشہ فطرت میں نئے اسرار ورموزکی تلاش رہتی ہے، اس لیے ذرہ سے لے کر فضائے بسیط تک کی چھوٹی سے چھوٹی چیزوں میں موجود اسرار کی نقاب کشائی اس کا مطمح نظر ہوتی ہے اوروہ ان کے انکشاف کے درپے رہتی ہے۔جب کہ دل اور وجدان سائنٹفک عقل کے قوانین کو قبول نہیں کرتے بلکہ وہ روح کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ روحانی دنیا انسان کو بلند یوں کی طرف پرواز کرنے کی فضا فراہم کرتی ہے۔ انسان کی عام اخلاقی اور جمالیاتی زندگی کو رونق بخشتی ہے اور مابعد الطبیعات کی لا محدود فضاؤں میں اسے پرواز کرنا سکھاتی ہے۔
ہر فکرو فن کا اپنا دائرہ اور اپنا میدان ہے۔ اس لیے یہ بات مناسب نہیں ہوسکتی بلکہ حقیقت میں نہایت خطرناک ثابت ہوگی کہ اسے تعقل پسندی اور سائنس پر مبنی فکر کو پورے وجود کا ترجمان فرض کرلیا جائے۔ لیکن دوسری طرف عوامیت پسندانہ موروثی مذہبی اور گروہی ذہنیت عقلی اور سائنسی فکر کو فطرت کے رموز واسرار کے انکشاف سے روکتی ہے۔
دینی حالت ایک حقیقت موجود ہ ہے، انسان کبھی کبھی ایسی جگہ جہاں وہ اپنی عبادات ومراسم ادا کرتا ہے،پہنچ پاتا ہے اور کبھی وہ جگہ اسے بالکل نہیں مل پاتی،کبھی وہ دینی نصوص وعبارات میں درج شدہ بہت سے اقوال کو خرافات اور عوامی قصہ سمجھ کر چھوڑدیتا ہے، کبھی بعضوں کو یہ نظر آتا ہے کہ عقائد میں کہیں کوئی کھوٹ اور کمی رہ گئی ہے، اس لیے کہ وہ لکیر کا فقیر اور ظاہری الفاظ کے مطالبے کا عادی ہوتا ہے، اور اس بنا پر ایمان کی دنیا میں اپنی ذمہ داری اور رمزی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا، اس بنا پر خالص منفیت کو اختیار کرلیتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو وہ خدا، دین، اورمسلک کی اس تصویر پر ہی جم جاتا ہے، جو تعصب، جنگ اور اختلاف کی دیگر شکلوں سے مربوط ہوتی ہے اور دوسری صورتوں کو ترک کردیتا ہے۔کبھی اپنے آپ کو سیکولر کہنے لگتا ہےاورکبھی لاادری اورملحد۔لیکن یہ بالکل ضروری نہیں کہ اس کا ثمرہ ہمیں یہ حاصل ہو۔ اس کے لادینی ہونے کا یقین ہوجائے یا یقین کی کیفیت پید اہوجائے۔یہاں تک کہ اگر وہ اس کا اقرار کر بھی لے تب بھی اس کا دین اس میں موجود رہتا ہے۔بسااوقات یہ چیز روحانی احساسات کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ فلسفہ ومذہب کے تعلقات کے موضوع کے محقق وو لٹراسٹیس کے قول کے مطابق ہرانسان کا ایک خاص مذہب ہوتا ہے جو ایک خاص منہج اور تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے طریقے اور اپنے خاص تجربات سے واقف ہیں وہ ان لوگوں سے واقفیت حاصل کریں جو کسی دوسرے طریقے یا تجربے سے واقف ہوں۔13
درحقیقت اس کی ضرورت ہے کہ خدا اور کائنات کے تئیں ہم اپنے دینی نقطۂ نظر کی ازسرنو تجدید کریں۔ ماضی کے بہت سے واضح تجربات ہیں۔ایسی قدسی صفات منتخب شخصیات رہی ہیں جن کے دل کے دروازے انفس وافاق کے علوم کے حوالے سے کھلے ہوئے تھے۔ ان میں عمومی اور خصوصی نوعیت کی، زمینی وکائناتی حقائق سے تعلق رکھنے والی بہت سی اہم اور مفید باتیں نظر آتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم تخلیقی تجربہ جو تیاردہ شاران اور جان شارون جیسے لوگوں کی طرف سے کیا گیا۔ انہوں نے ایمان کی ماورائی صورت کوسائنسی حقیقت سے مربوط کردیا۔ انہوں نے عیسائیوں کو اس کی دعوت دی کہ وہ حضرت مسیح میں موجود ماورائیت پرمبنی ان کی ایسی تصویر کشی کریں جو تمام اچھے نفوس میں موجود ہوتی ہے اور اس کی بنیاد محبت پر ہوتی ہے۔ایسی محبت جو تمام مخلوقات کوزندگی عطا کرتی ہے۔14