Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
امام ابن تیمیہ ؒ نے یونانی منطق کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے،جس کا نام ’’الرد علی المنطقیین‘‘ہے۔ یہ اسلامی عقلیات کے کلاسیکس میں شامل ہے اور ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔امام صاحب نے اس کتاب میں یونانی منطق کے طرز استدلال اور اس کی بنیاد میں موجود مابعد الطبیعیاتی اور علمیاتی تصورات کا گہرا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔امام ابن تیمیہ ؒ کی تحریر میں عموما ربط وارتکا ز کی کمی ہوتی ہے۔ وہ اصل موضوع کے دوران ضمنی موضوعات پر بہت طویل گفتگو کرتے ہیں،جس سے عام قارئین کے لیے اصل موضوع کے ساتھ رہنا اور اصل موضوع کو مربوط رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔اسی لیے امام ابن تیمیہ کی اکثر کتب کی تلخیص وتہذیب کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے اور کئی کتب کی تلخیص وتہذیب ہوچکی ہے۔جیسے ’’منہاج السنۃ‘‘ کی تلخیص امام ذہبی نے’’المنتقی‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔اسی طرح ان کی کتاب ’’درء تعارض العقل والنقل ‘‘کی تلخیص بھی معاصر عرب علماء کے ہاں ملتی ہے۔
امام ابن تیمیہ کی مذکورہ کتا ب (الرد علی المنطقیین)کی تلخیص علامہ سیوطی ؒ نے کی ہے، جو’’جہد القریحۃ فی تجرید النصیحۃ‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔اس تلخیص کے منہج وطریقہ کار سے متعلق علامہ سیوطی ؒ نے تلخیص کے آخر میں لکھا ہے کہ :
’’یہ ابن تیمیہ کی کتاب کے خلاصہ کا اختتام ہے، میں نے غالبا انہی کی عبارت کو بغیر کسی تصرف کے ذکر کیا ہے، البتہ ان کی کتاب سے بہت سی باتیں حذف کی ہیں، کیونکہ وہ تقریبا بیس کاپیوں یا جلدوں پر مشتمل تھی۔میں نے اس سے کوئی اہم بات حذف نہیں کی، بلکہ وہ باتیں حذف کی ہیں جن کا مقصود کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، مثلا جو باتیں تبعاً وضمناً تھیں یا الٰہیات کے مسائل پر ان کے ذریعہ رد مقصود تھا، یا مکرر باتیں تھیں، یا بعض مناطقہ کے نقص کا بیان تھا، لیکن ان کا تعلق فن کے کسی قاعدے کے ساتھ نہیں تھا، تو میں نے ایسی باتوں کو حذف کردیا۔جو شخص میرے اس خلاصہ کا مطالعہ کرےگا،وہ اصل کتاب سے زیادہ آسانی سے مستفید ہوسکےگا، کیونکہ وہ بڑی مشکل کتاب ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ سیوطیؒ نے امام ابن تیمیہ ؒ کے کلام سے مکرر واضافی مباحث کو نکال کر انہی کی عبارات کو اس طرح مرتب کیا ہے کہ اس کی افادیت اصل سے بڑھ گئی ہے اور اصل کتاب کی بنسبت تلخیص سے استفادہ کرنا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔معروف اسکالروائل حلاق نے علامہ سیوطیؒ کی اس تلخیص (جہد القریحۃ فی تجرید النصیحۃ) کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اور اس پر ایک مبسوط اور وقیع مقدمہ بھی لکھا ہے۔حلاق نے بھی علامہ سیوطیؒ کے اس دعوی کی تائید کی ہے کہ یہ ملخص اصل کتاب سے زیادہ افادیت کا حامل ہے’’۔مدرسہ ڈسکورسز‘‘ کے ہر طالب علم کو کورس کے اواخر میں ایک مقالہ،تلخیص یا کسی کتاب پر تبصرہ لکھنا ہوتا ہے،مجھے اس سلسلے میں’’ جہد القریحۃ‘‘ کی اردو زبان میں تلخیص کرنے کا کام ملا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(شاد)
پہلا مقام مناطقہ کے ایک دعوی کے رد کے بارے میں ہے۔مناطقہ کا دعوی ہے کہ:’’تصور صرف حد کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے۔‘‘ اس دعوی کو گیارہ نکات میں رد کیا گیا ہے:
اس مقام میں مناطقہ کے دوسرے دعوی کو رد کیا گیا ہے۔ مناطقہ کا دعوی ہے کہ ’’ حد اشیاء کے تصور کا فائدہ دیتی ہے۔‘‘ اس کو یوں رد کیا گیا ہے کہ:
پہلا اصول ان کا یہ قول ہے کہ ماہیت کا اپنے وجود کے علاوہ خارج میں ایک الگ حقیقت بھی ثابت ہے، یہ اس شخص کے قول کی طرح ہے کہ :معدوم بھی ایک چیز ہے۔ یہ سب سے زیادہ فاسد بات ہے۔ ان کی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ کوئی بھی چیز اپنے وجود سے پہلے معلوم ہو سکتی ہے،اس کا ارادہ بھی کیا جاسکتا ہے اور جو چیز قدرت میں ہے اور جو قدرت سے باہر ہے ان دونوں میں تمیز و فرق بھی کیا جاسکتا ہے۔
تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ذہن میں ثابت شدہ ہیں، خارج میں نہیں اور جو چیز ذہنوں میں موجود ہو، وہ خارج میں موجوداعیان سے زیادہ وسیع ہوتی ہے اور ذہن میں موجود و ثابت تو ہوتی ہے، لیکن خارج اور نفس الامر میں نہ موجود ہوتی ہے اور نہ ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ دعویٰ کرنا کہ یہ دونوں خارج میں موجود ہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ جو چیز ماہیت کے لیے لازم ہے اور جو چیز ماہیت کے لئے ذاتی ہے،(یعنی اس کے لئے حقیقت نہیں ہے)ان دونوں میں فرق ہے۔اگر خارج میں موجود ماہیت کو صفات لازمہ سے الگ اور خالی قرار دیا جائے اور خارج میں پائے جانے والے وجود کو بھی صفات لازمہ سے خالی قرار دیا جائے اور اس وجود کو بعینہ ماہیت مع لوازم کے قرار دیا جائے تو یہ ایسے ہوگا کہ ’’یہ وجود اپنے لوازم سمیت ہے‘‘ اور یہ دونوں باتیں باطل ہیں،کیونکہ کسی عدد کا مرکب اور مفرد ہونا جیسے انسان کا حیوان اور ناطق ہونا، جب ان سے ذہن میں موصوف مع صفت آجائے تو موصوف کو صفت کے بغیر فرض کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
مناطقہ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ جس ذاتی کو لازمِ ماہیت سے الگ سمجھتے ہیں،وہ ہے جس کی صورت ذہن میں پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ یہ بات دو وجہ سے باطل ہے:
الف- پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ ان کی اپنی وضع اور ایجاد کی خبر ہے،کیونکہ وہ خود ذاتی کو اپنے ذہن میں مقدم کرتے ہیں اور دوسری چیز کو موخر کرتے ہیں یہ تو تحکم اور زبردستی ہے، تو جس نے بھی ذاتی کو ذہن میں مقدم کر کے لازم وغیرہ کو موخر کیا ہےاس نے اس سلسلے میں مناطقہ کی تقلید کی ہے۔
یہ معلوم ہے کہ حقائق خارجیہ ہم سے مستغنی ہیں اور ہمارے تصورات کے تابع نہیں ہیں، ایسا نہیں ہے کہ جب ہم کسی چیز کو اپنے ذہن میں مقدم اور دوسری چیز کو ذہن میں مؤخر مان لیں تو خارج میں بھی وہ چیزیں ایسی ہی ہوں۔رہی یہ بات کہ فلاں چیز ماہیت میں داخل ہے اور فلاں چیز ماہیت سے خارج ہے،یہ محض زبردستی ہے جس پر نہ خارجی مشاہدے میں کوئی دلیل ہے اور نہ ہی فطرت میں کوئی دلیل ہے۔
ب- دوسری وجہ یہ ہے کہ موصوف کے لیے کسی وصف کا ذاتی ہونا ایسا معاملہ ہے جو موصوف کی حقیقت کے تابع ہے، وہ حقیقت جس کی وجہ سے موصوف کا وجود ہے، خواہ ہمارا ذہن اس کا تصور کرے یا نہ کرے۔اگر ایک وصف،موصوف کے لئے ذاتی ہے اور دوسرا وصف ذاتی نہیں ہے تو یہ ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان یہ فرق ان دونوں کی ایسی حقیقتوں کی طرف لوٹے جو ذہن سے ہٹ کر خارج میں ثابت اور موجود ہے۔ یا حقائقِ خارجیہ میں بعض ایسی ہوں جن کی کوئی حقیقت نہ ہو، بلکہ وہ محض ذہنی تقدیم و تاخیر کا نام ہو۔یہ دوسرا احتمال اس وقت ممکن ہے کہ جب حقیقت اور ماہیت کو صرف ذہن میں فرض کیا گیا ہو، خارج میں ثابت نہ ہو تو یہ عمل صاحبِ ذہن کی تخمین و انداز کے تابع ہے۔
خلاصہ یہ ہےکہ یہ سب امور محض ذہن میں فرض کیے گئے ہیں جن کی خارج میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ سب کچھ محض خیالات اور توہمات باطلہ ہیں، اسی طرح کی باتیں مناطقہ کے کی کئی اصولوں میں پائی جاتی ہیں۔
7۔ کیا مناطقہ حد تام میں اور اس کا حقیقت کے تصور کا فائدہ دینے میں یہ شرط لگاتے ہیں کہ کسی چیز کی تمام صفات ذاتیہ جو اس چیز اور اس کے غیر میں مشترک ہوں،پہلے ان سب کا تصور کر لیا جائے، (اس کے بعد حد،تصور کا فائدہ دے گی) یا مناطقہ یہ شرط نہیں لگاتے؟ اگر منا طقہ یہ شرط لگاتے ہیں تو تمام صفات کا استیعاب لازم و ضروری ہے اور اگر وہ یہ شرط نہیں لگاتے اور حد میں صرف جنس ِقریب کے جاننے پر اکتفا کرتے ہیں تو یہ محض تحکم و زبردستی ہے۔
8۔ مناطقہ کا یہ شرط لگانا کہ ایسی فصول کا ذکر ضروری ہے جو محدود کو ممیز کردے اور ان کا ذاتی و عرضی میں فرق کرنا، یہ دونوں باتیں ممکن نہیں ہیں، کیونکہ کوئی بھی فصل ممیز جو محدود کے ایسی خواص میں سے ہو جو خواص عموم اور خصوص میں محدود کے مطابق ہوں، جب وہ ممیز پایا جائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی دوسرا اسی ممیزکو ماہیت کے لئے لازم اور عرض بنا دے۔
9۔ مناطقہ کے دعوی میں دور و تسلسل ہے، لہٰذا ان کا دعویٰ باطل ہے۔ وہ اس طرح کہ مناطقہ کہتے ہیں کہ محدود کا تصور اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک تمام صفات ذاتیہ کا ذکر نہ کیا جائے، پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ماہیت کا تصور محدود کے تصور کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔اب اگر متعلم، محدود کا تصور اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک وہ صفات ذاتیہ کا تصور حاصل نہ کرلے اور وہ صفات ذاتیہ کا تصور بھی اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک و ہ موصوف یعنی محدود کا تصور حاصل نہ کرلے اور خود موصوف کا تصور بھی اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک صفات ذاتیہ کو جان کر ان میں اور ان کے غیر میں فرق نہ کر لیا جائے۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ ذات یعنی محدود کی معرفت یا تصور، ذاتیات کی معرفت پر موقوف ہوگی اور ذاتیات کی معرفت،ذات یعنی محدود کی معرفت پر موقوف ہوگی تو نہ ذات کی معرفت حاصل ہو سکے گی اور نہ ذاتیات کی۔
10۔ اس سلسلے میں خود مناطقہ کے درمیان اختلاف ونزاع ہے، جس کا فیصلہ اس اصل پر ممکن نہیں ہے اور دلائل کی مساوات اور برابری باطل ہے۔
اس فصل میں مناطقہ کے اس دعوی کو رد کیا گیا ہے کہ تصدیق صرف قیاس سے حاصل ہوسکتی ہے:
اسی طرح دو متضاد اور ضدین کا بھی یہی معاملہ ہے۔اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کا باہم متضاد ہونا معلوم ہو، اگر ان میں سے دو متعین چیزوں کا متضاد ہونا معلوم ہوجائے تو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتیں، لہٰذا قضیہ کلیہ کا علم ایسے مقدمہ کبری کے علم کا فائدہ دیتا ہے جو حد اکبر پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایسے مقدمے کا علم نہ ہو جو حد اصغر پر مشتمل ہوتا ہے۔
جہاں تک نتیجہ کے علم کی بات ہے جو یہ ہے کہ یہ دو متعین چیزیں باہم متضاد ہیں لہٰذا یہ دونوں جمع نہیں ہوسکتیں۔ یہ نتیجہ مقدمہ کبری کے علم کے بغیر بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ مقدمہ کبری یہ ہے کہ دوضدین کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتے، لہٰذا نتیجے کا علم ایسے قیاس کا محتاج نہیں ہےجس کو مناطقہ برہان کا نام دیتے ہیں،حالانکہ کلام اللہ،کلامِ رسول اور تمام علماء کے کلام میں برہان اس چیز کے ساتھ خاص نہیں ہے جس کے ساتھ مناطقہ اسے خاص کرتے ہیں۔مناطقہ لفظ برہان کو اس قیاس کے ساتھ خاص کرتے ہیں جس کی صورت اور مادہ کو مناطقہ کا سابقہ ذکر کردہ چیزوں(قضیہ کلیہ موجبہ وغیرہ ) کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔
جمہورعقلاء نے اس شخص کو غلط قرار دیا ہے جو اس بات کا قائل ہو کہ ہر علم و نظر کے اندر دو مقدمات ضروری ہیں جن کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ دو سے زیادہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مناسب یہ ہے کہ اس اصول کو ایسےعقلی موادمیں استعمال کیا جائے جن پر انبیاء کی نصوص کے ذریعے دلیل ذکر نہ کی جاتی ہو،کیونکہ اس عقلی مواد کے ذریعے مناطقہ کی منطق کا فساد ظاہر ہوتا ہے۔ اگر اس اصول کو اس مواد میں استعمال کیا گیا جو انبیاء کی نصوص سے معلوم ہوا ہے تو وہاں ایک قضیہ کلیہ کی بھی ضرورت ہوگی۔مثلا اگر ہم نبیذ کی حرمت،جو کہ مختلف فیہ ہے،کو ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ہم کہیں گے کہ نبیذ نشہ آور ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے۔یا ہم کہیں گے کہ نبیذشراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔ تو ہمارا یہ کہنا کہ نشہ آور چیز شراب ہے۔ یہ ہمیں نص سے معلوم ہوا ہے، جیسے آپ ﷺکا ارشاد ہےکہ ’’ہر نشہ آور مشروب شراب ہے۔‘‘ اور ہمارا یہ کہنا کہ ہر شراب حرام ہے، یہ بھی نص اور اجماع سے معلوم ہواہے۔اس میں کسی کا نزاع واختلاف نہیں ہے، نزاع و اختلاف مقدمہ صغری میں ہے کہ نبیذ مسکر یا خمر ہے یا نہیں؟ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ہر ’’مسکر یعنی نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے۔‘‘ حدیث کے دوسرے الفاظ یوں ہیں کہ: ’’ہر نشہ آور شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے یہ الفاظ منطقی ترتیب سے ذکر فرمائے ہیں، تاکہ مناطقہ کی طرح دو مقدمات کے ذریعے نتیجے کو واضح کیا جاسکے۔یہ ان لوگوں کی بہت بڑی جہالت ہے،کیونکہ آپﷺ کا مرتبہ اس سے بہت بلند ہے کہ آپ ﷺبیانِ علم میں مناطقہ کا طریقہ استعمال کریں، بلکہ آپ کی امت کے عقلمند و اصحابِ علم علماء میں سے بھی کوئی اس کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ ان مناطقہ کے طریقے پر چلے،بلکہ وہ تو مناطقہ کو ان جاہل لوگوں میں شمار کرتے ہیں جو حساب اور طب جیسے پیشوں کے سوا کچھ بھی بہتر طریقے سے نہیں جانتے۔ رہے وہ علوم جو خالص عقلی و یقینی دلائل پر موقوف ہیں اور علوم الٰہیہ تو منا طقہ اس قسم کے علوم کے لوگ نہیں تھے۔ مسلمانوں کے اہل تدبر لوگوں نے اپنی کتابوں میں اس کی وضاحت کر دی ہے۔ انھوں نے اس پر تفصیلی کلام کیا ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ نہ تو سمعیات( یعنی منقولات )قیاس برہانی کے محتاج ہیں اور نہ ہی عقلیات۔ اس سے مناطقہ کا یہ دعویٰ ممتنع و باطل ہو جاتا ہے کہ اس قیاس برہانی کے بغیر علم حاصل نہیں ہوسکتا، جس کو مناطقہ ذکر کرتے ہیں۔
قیاس کے مسمی و مصداق میں لوگوں کا اختلاف رہا ہے،اہل اصول کا ایک گروہ، جیسے ابوحامد غزالی اور ابو محمد مقدسی وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ قیاس تمثیلی کو قیاس کہنا حقیقت ہے،جبکہ قیاس شمولی کو قیاس کہنا مجاز ہے۔ دوسرا گروہ،جیسے ابن حزم وغیرہ اس کے برعکس رائے کے قائل ہیں کہ قیاس کا لفظ شمولی میں حقیقت اور تمثیل میں مجاز ہے۔جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ دونوں کو قیاس کہنا حقیقی معنوں میں ہے اور قیاس عقلی ان دونوں(تمثیلی وشمولی) کو شامل ہے۔ جن حضرات نے اصول دین، اصول فقہ اور علوم عقلیہ کی مختلف انواع میں کلام کیا ہے ان میں سے اکثر کی یہی رائے ہے اور یہی درست رائے ہے، کیونکہ دونوں کی حقیقت ایک جیسی ہے، صرف استدلال کی صورت میں فرق ہے۔
قیاس کا لغوی معنی ہے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملاکر اندازہ کرنا۔ یہ اس کو بھی شامل ہے کہ ایک متعین چیز کو دوسری متعین چیز سے ملا کر اندازہ کیا جائے اور اس کو بھی شامل ہے کہ ایک متعین چیز کو کسی ایسے امر کلی کے ساتھ ملا کر موازنہ کیا جائے جو اس کو اور اس کی امثال کو شامل ہو، کیونکہ کلی،جزئیات کی ذہن میں موجود ایک مثال ہوتی ہے، اسی لیے وہ اس کے موافق و مطابق ہوتی ہے۔
قیاس شمولی یہ ہے کہ کسی معین چیز سے ذہن ایسے عام،مشترک اور کلی معنی کی طرف منتقل ہوجائے جو اس متعین اور اس کے علاوہ دیگر چیزوں کو شامل ہو، اور اس پر ایسی چیز کے ذریعے حکم لگانا کہ جس سے یہ لازم آئے کہ ذہن اس مشترک کلی( یعنی لازم) سے ملزومِ اول یعنی اس متعین چیز کی طرف منتقل ہوجائے۔ حاصل یہ ہے کہ قیاس شمولی، خاص سے عام کی طرف اور پھر اس عام سے خاص کی طرف ذہن کے منتقل ہونے کا نام ہے۔ بالفاظ دیگر جزئی سے کلی کی طرف پھر اس کلی سے اول جزئی کی طرف ذہن کا منتقل ہوکرجزئی پر کلی والا حکم لاگو کرنا قیاس شمولی ہے۔ اسی لئے دلیل اپنے اس مدلول سے خاص ہوتی ہے جو کہ حکم ہے، کیونکہ دلیل کے وجود سے حکم (یعنی مدلول )کا وجود لازم آتا ہے،جبکہ لازم اپنے ملزوم سے اخص نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے زیادہ عام یا اس کے مساوی ہوتا ہے اور یہاں قیاس شمولی میں عام ہونے کا یہی مطلب ہے۔
جہاں تک قیاس تمثیلی کی بات ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن ایک متعین حکم سے دوسرے متعین حکم کی طرف منتقل ہوجائے، کیونکہ وہ دونوں ایک مشترک و کلی معنی میں شریک ہوتے ہیں، اس لیے دونوں کا حکم بھی یکساں ہوتا ہے، کیونکہ حکم(جو دونوں پر لاگو ہےوہ) اس مشترک کلی کے لئے لازم ہوتا ہے۔ پھر اس مشترک کلی اور حکم کے درمیان کا لزوم اگر خود واضح اور معلوم نہ ہو تو اس کے علم کے لئے کسی سبب کا ہونا بھی ضروری ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دونوں متعین چیزوں کا تصور اور علم حاصل کیا جائے، جن کو اصل و فرع کہتے ہیں، پھر ان دونوں سے ذہن ان کے لازم یعنی علت مشترکہ کی طرف منتقل ہوجائے،پھراس لازم(علت مشترکہ )کے لازم یعنی حکم کی طرف ذہن منتقل ہوجائے، اس سے یہ علم حاصل ہوجائے گا۔
اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ حکم،علتِ مشترکہ کے لئے لازم ہے، اس کو یہاں قضیہ کبری کہتے ہیں،پھر اس لازم حکم کوملزومِ اول یعنی متعین اول کے لئے ثابت کرنے کی طرف ذہن منتقل ہوجائے۔ یہی درحقیقت قیاس شمولی ہی ہے، ورنہ قیاس تمثیلی اور شمولی کی صرف دلیل کی صورت اور ترتیب میں فرق ہے،کیونکہ جس حقیقت کی وجہ سے قیاس تمثیلی دلیل بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ مدلول کے لئے مستلزم ہے اور اس حقیقت میں دونوں (تمثیلی وشمولی)ایک جیسے ہیں۔
مناطقہ کا یہ دعوی کہ برہان سے کلیات کا علم حاصل ہوتا ہے کئی وجوہات کی بنا پر غلط ہے:
اولاً: اگر برہان سے صرف کلیات کا علم حاصل ہوتا ہےتو کلیات صرف ذہن میں متحقق اور موجود ہوتی ہیں۔ اعیان اور موجودات سے ان کا تعلق نہیں ہوتا اور خارج میں صرف متعین چیز ہی موجود ہوتی ہے، لہذا برہان سے کسی بھی متعین چیز کا علم حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے کسی موجود چیز کا علم حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس سے صرف ایسے امور کا علم حاصل ہوتا ہے جو ذہن میں مقدور و مفروض ہوتے ہیں۔
ثانیاً: موجودات میں سب سے اشرف و بہتر ذات واجب الوجود کی ہے اور اس کا وجود متعین ہے،کلی نہیں ہے، کیونکہ کلی کے اندر شرکت کا تصور ممنوع نہیں ہوتا،جبکہ واجب الوجود میں شرکت کے وقوع کا تصور ممنوع ہے۔اب اگر برہان کے ذریعے ایسی ذات کا علم حاصل نہیں ہو رہا جس میں شرکت کے وقوع کا تصور ممنوع ہے، بلکہ برہان کے ذریعے ایسے امرِ کلی کا علم حاصل ہوتا ہے جو واجب الوجود اور غیرکے درمیان مشترک ہے، تو معلوم ہوا کہ برہان سے واجب الوجود کا علم حاصل نہیں ہوا۔اسی طرح کا معاملہ مناطقہ کے جواہر ِعقلیہ کا بھی ہے جو کہ دس ہیں یا ان حضرات کے ہاں دس سے زیادہ ہیں جو انہیں دس سے زیادہ سمجھتے ہیں، جیسے مقتول سہروردی اور ابوالکلام وغیرہ۔ یہ سارے جواہر عقلیہ بھی متعین ہیں، امور کلیہ نہیں ہیں۔جب ہمیں برہان سے صرف کلیات کا علم ہو سکتا ہے تو پھر اس کے ذریعے ہمیں جواہر عقلیہ کا علم حاصل نہیں ہوسکتا۔
ثالثاً: مناطقہ کا علوم کو تین اقسام( طبیعی، ریاضی اور الٰہی )میں تقسیم کرنا اور ریاضی کو طبیعی سے اشرف و بہتر قرار دینا اور الٰہی کوعلمِ ریاضی سے بہتر قرار دینا،یہ ایسی بات ہے جس کے ذریعے انہوں نے حقائق کو الٹ پلٹ کر دیا ہے، کیونکہ علم طبیعی،خارج میں موجود اجسام کے علم کا نام ہے اور ان موجودات کی حرکات کے مبدا کا علم، ان کا ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیل ہونے کا علم، اور ان میں پائی جانے والی طبیعت کا علم، محض خالی مقداروں اور اعداد کے علم (ریاضی)سے بہتر ہے، کیونکہ علم ریاضی میں انسان محض گول شکل یا تکون یا چوکور شکل ہی کا تصور کرتا ہے، اگرچہ اقلیدس میں موجود سب کچھ کا تصور بھی کرلے۔یا علم ریاضی میں محض ایسے خالی اعداد کا تصور کرتا ہے،جن سے خارج میں موجود کسی چیز کا علم حاصل نہیں ہوتا، اور ایسے تصورات میں نفس کے لیے کوئی کمال نہیں ہے۔ اگر علم ریاضی، اعداد کی معرفت کے طلب کرنے اور مقدرات خارجہ، جو کہ اجسام و اعراض ہیں، ان کی معرفت کے طلب کا نام نہ ہوتا تو اس کو سرے سے علم ہی نہ کہا جاتا۔ علم ہندسہ یعنی فن تعمیر کو علمِ ہیئت کے لئے مبادیات میں اس لیے شامل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے علم ہیئت کے براہین میں مدد ملے یا دنیا کی تعمیر میں اس سے فائدہ حاصل ہو۔ باوجود اس بات کے کہ ان ریاضی امور کے علاوہ میں مناطقہ کا قیاس برہانی کسی بھی چیز پر ایسی دلالت نہیں کرتا جو جامع، یقینی اور فساد سے خالی ہو۔
اگر فرض کرلیا جائے کہ نفس کو کلیات ِ مجردہ کے علم سے کمال حاصل ہوتا ہے،جیسا کہ مناطقہ کا خیال ہے،تو یہ لوگ علمِ اعلیٰ یعنی وجود اور اس کے لواحقات میں غور وفکر کرنے میں جو کچھ ذکر کرتے ہیں،وہ ایسا(یعنی کلیات)نہیں ہے،کیونکہ صرف وجود کے معنی کا تصور تو ایک واضح چیز ہے،حتی کے مناطقہ کے ہاں اس کے واضح ہونے کی وجہ سے یہ حد سے بھی مستغنی ہے،لہٰذا صرف وجود کا معنی تو مطلوب نہیں ہوسکتا،بلکہ وجود کی اقسام مطلوب ہیں،اور اس کی اقسام یعنی واجب،ممکن،جوہر،عرض،علت،معلول،قدیم اور حادث،یہ سب وجود کے مسمیٰ و مصداق سے اخص(زیادہ خاص) ہیں اور (اقسام کی معرفت کے بغیر)محض کسی عام امر کا ذہن کے اندر کئی قسموں میں تقسیم ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جو یہ تقاضا کرے کہ وہ علمِ کلی عظیم ہو اور وجود کے تصور سے خالی ہو،(بلکہ اس کے لیے اقسام کی معرفت بھی ضروری ہے) اور جب آپ کو اقسام کی معرفت حاصل ہوجائے تو یہ ایسے’’معلوم‘‘کا علم نہیں ہےجو تغیر واستحالہ(عدمِ امکان)کو قبول نہ کرتا ہو،اور نہ ہی اس علم کے ساتھ کوئی ایسی دلیل ہوتی ہے جو اس بات پر دلالت کرےکہ یہ عالم ازلی ہے اور ہمیشہ رہےگا،اور نہ ہی یہ دوسری کسی ایسی چیز پر دلالت کرتی ہے جس کے ذریعے یہ لوگ فاعل،فاعلیت،زمانہ، حرکت اور اس کے توابع وغیرہ کے دوام پر استدلال کرتے ہیں،بلکہ یہ علم محض ایک نوع کے قدیم ہونے اور اس کے دوام پر دلالت کرتا ہے،کسی معین چیز کے قدیم یا کسی معین چیز کے دوام پر دلالت نہیں کرتا۔ان سب کے باوجود یہ جزم و یقین کرنا کہ ان ادلہ کا مدلول یہ عالم یا اس عالم کی کوئی متعین چیز ہے،یہ محض جہل ہے،جس پر اس کے سوا کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس عالم کے علاوہ کسی بھی دوسرے عالم کے وجود کا علم نہیں ہے،حالانکہ عدمِ علم،علم بالعدم کی دلیل نہیں ہے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ نفس صرف علم سے کامل ہوتا ہے،جیسا کہ ان کا خیال ہے،تو یہ ذہن میں
رہے کہ نفس کی دو قوتیں ہیں:
1۔علمی ونظری قوت
2۔عملی وارادی قوت
ان دونوں قوتوں کے کمال کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی معرفت حاصل ہو اور اس کی عبادت کی جائے، اس کی عبادت،اس سے محبت اور فرمانبرداری کو جمع کرتی ہے،لہذا نفس صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت سے ہی کامل ہوتی ہے۔
خامساً: اگر مناطقہ کے قیاسِ برہانی کا اصل مقصد اس کے ذریعے موجوداتِ ممکنہ کی معرفت کا حصول ہے تو موجوداتِ ممکنہ میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ہمیشہ کے لیے ایک ہی حالت پر واجب البقاء ہو،بلکہ یہ سب تغیر واستحالہ کے قابل ہوتے ہیں،لہٰذا ان کا علم کسی ایسے موجود کا علم نہیں ہے جو واجب الوجود ہو اور نہ اس کے پاس اس عالم کے کسی چیز کے ازلی ہونے پرکوئی دلیل ہوگی،جیسا کہ دیگر مقامات پر اس کی تفصیل موجود ہے۔البتہ ان کے دلائل سے زیادہ سے زیادہ یہ لازم آئےگا کہ فاعلیت،مادہ اور مدت کی ایک نوع دائمی ہے اور نوع کا دائمی ہونا یوں بھی ممکن ہے کہ اس نوع کی ایک عین کے وجود کے بعد دوسری عین کا وجود ہو(یعنی ایک فناء ہو اور دوسرے کا وجود ہو،مخلوقات کی طرح)اور اس کے ساتھ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ مفعول حادث ہوتا ہے اور مسبوق بالعدم( عدم سے وجود میں آنے والا)ہوتا ہے،جیسا کہ صریح عقل اور صحیح نقل کا تقاضا بھی یہی ہے،کیونکہ یہ کہنا کہ مفعول معین اپنے فاعل کے ساتھ ازل و ابد سے ہی مقارن ہوتا ہےتو یہ ایسی بات ہے جس کے ممنوع ہونے کا تقاضا صریح عقل کرتی ہے،اور کوئی بھی چیز اپنے فاعل کے بقدر کیسی ہوسکتی ہے،خصوصا جب فاعل خود مختار بھی ہو؟!
جب کہا جاتا ہے کہ موجود دو قسموں،یعنی واجب اور ممکن، میں تقسیم ہوتا ہے تو وہاں تقسیم کا منبع و ماخذ تمام اقسام میں مشترک ہوتا ہے،پھر وجود کا واجب الوجود کے اندر کامل طور پر پایا جانا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ وجود کا مسمیٰ و مصداق ایک ہی معنی ہے،جو واجب الوجود اور ممکن میں مشترک ہےیہی معاملہ ان تمام اسماء و صفات کا ہےجن کو خالق و مخلوق دونوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔جیسے حی،علیم،قدیر،سمیع اور بصیر وغیرہ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات، جیسے علم،قدرت،رحمت،اس کی رضا، ناراضی،خوشی اور دیگر اسماء و صفات جو انبیاء بتاتے ہیں۔
1۔قیاس 2۔استقراء 3۔تمثیل
وہ اس کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ استدلال کرنے والا یا تو کلی سے جزئی پر استدلال کرےگا،یا جزئی سے کلی پر، یا ایک جزئی سے دوسری جزئی پر استدلال کرےگا۔بسا اوقات مناطقہ اس (کلی و جزئی )کو عام وخاص سے تعبیر کرتے ہیں،یعنی یا تو خاص سے عام پر استدلال کیا جائےگا یا عام سے خاص پر یا ایک خاص سے دوسرے خاص پر استدلال کیا جائےگا۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت (کلی سے جزئی پر استدلال کرنا)’’قیاس‘‘ ہے،جس کو وہ قیاس شمولی کا عنوان دیتے ہیں،کیونکہ قیاسِ شمولی ہی ان کے ہاں قیاس ہے،جبکہ دیگر اکثر اہلِ اصول و اہلِ کلام "تمثیل"کو قیاس کا نام دیتے ہیں۔اور جمہور علماء کے ہاں لفظِ قیاس دونوں(شمول وتمثیل)کو شامل ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جزئیات سے کلی پر استدلال کرنا’’استقراء‘‘ ہے،اگر یہ استقراء مکمل و تام ہو تو یہ’’استقراء تام‘‘ ہے جو یقین کا فائدہ دیتا ہے،اور اگر ناقص ہو تو یہ یقین کا فائدہ نہیں دیتا۔
یہ ہے کہ تمام جزئیات کی چھان بین کرنے کے بعد سب میں جو مشترک امر پایا جائے،سب پر اسی مشترک امر کا حکم لاگو کیا جائے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر جزئیات کی چھان بین کرنے کے بعد امرِ مشترک کی بنیاد پر حکم نافذ کرنا۔استقراء ناقص کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص یوں کہے کہ جب حیوان کھاتا ہے تو اپنا نچلا جبڑا ہلاتا ہے،کیونکہ ہم نے استقراء وتلاش سے کام لیکر یہ معلوم کیا ہے کہ اکثر حیوان ایسا ہی کرتے ہیں۔ایسے شخص سے کہا جائےگا کہ مگرمچھ کھاتے وقت اپنا اوپر والا جبڑا ہلاتا ہے۔
1۔قیاسِ اقترانی
2۔قیاس استثنائی
قیاس استثنائی یہ ہے کہ جس کا نتیجہ یا نقیض،اسی وقت بالفعل اس میں موجود ہو۔اور قیاس اقترانی یہ ہے کہ اس کا نتیجہ یا نقیض،بالفعل اس میں موجود نہ ہو،بلکہ بالقوہ موجود ہو،جیسے قضایا حملیہ کا مجموعہ۔مثلا : ہر نبیذ،نشہ آور ہے،اور ہر نشہ آور حرام ہے۔(نتیجہ:نبیذ حرام ہے۔یہ نتیجہ قیاس میں بالفعل موجود نہیں،لیکن بالقوہ موجود ہے۔) قیاس استثنائی کی مثال جیسے قضایا شرطیہ کا مجموعہ۔قضیہ شرطیہ دو قسم کا ہوتا ہے:
قضیہ شرطیہ متصلہ:اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ہم کہیں کہ :اگر نماز صحیح ہے تو نمازی پاک ہوگا۔اس میں مقدم(صغری)کے عین کا استثناء، تالی(کبری)کے عین کا نتیجہ ہوتا ہے اور تالی کی نقیض کا استثناء،مقدم کی نقیض کا نتیجہ ہوتا ہے۔
قضیہ شرطیہ منفصلہ: اس کی پھر تین قسمیں ہیں:
الف:-مانعۃ الجمع والخلو:جیسے ہمارا قول کہ :عدد یا تو جفت ہوگا یا طاق،یہ دونوں باتیں جمع
نہیں ہوسکتیں،اور نہ ہی عدد بیک وقت ان دونوں(جفت،طاق)سے خالی ہوسکتا ہے،بلکہ ایک کا ہونا
ضروری ہے۔
ب:-مانعۃ الجمع: جیسے ہمارا قول کہ :یہ چیز یا تو کالی ہوگی یا سفید،یعنی کالا و سفید رنگ
دونوں جمع نہیں ہوسکتے،البتہ مذکورہ چیز بیک وقت ان دونوں رنگوں سے خالی ہوسکتی ہے۔
ج:-مانعۃ الخلو: اس میں بیک وقت دونوں باتوں کا نہ ہونا ممنوع ہوتا ہے۔البتہ دونوں کا جمع
ہونا ممکن ہوتا ہے۔
مناطقہ کبھی یوں کہتے ہیں کہ مانعۃ الجمع والخلو ہی در حقیقت قضیہ شرطیہ حقیقیہ ہے،اور یہ عموم وخصوص میں دونوں نقیضوں کے مطابق ہوتا ہے،جبکہ مانعۃ الجمع،نقیضین سے اخص ہوتا ہے،کیونکہ دو ضد کبھی جمع نہیں ہوسکتے،البتہ دو نوں ضدین بیک وقت مرتفع ہوسکتے ہیں کہ دونوں ہی نہ ہوں۔اور ضدین،نقیضین سے اخص ہے۔مانعۃ الخلو:یہ نقیضین سے عام ہے۔مناطقہ کے لیے مانعۃ الخلو کی مثال دینا مشکل ہے،البتہ بقیہ دونوں قسموں کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔
مانعۃ الخلو کی مثال مناطقہ یوں دیتے ہیں کہ مثلاً: یہ شخص تیر رہا ہے یا ڈوب نہیں رہا۔اب اس شخص کی حالت ان دونوں باتوں سے خالی نہیں ہوسکتی،(یعنی تیر نہ رہا ہو اور ڈوب رہا ہو،یہ ناممکن ہے۔)کیونکہ وہ تب ڈوبے گا جب وہ سمندر میں ہو،یا ڈوب نہ رہا ہو اور سمندر میں ہو یا سمندر میں نہ ہو۔البتہ یہ دونوں باتیں جمع ہوسکتی ہیں کہ وہ سمندر میں ہو اور ڈوب نہ رہا ہو۔ایسی مثالیں بہت ہیں۔جیسے ہم کہیںکہ :یہ شخص زندہ ہے یا عالم نہیں ہے یا قادر نہیں،یا سننے والا نہیں،یا دیکھنے والا نہیں یا متکلم نہیں ہے۔کیونکہ اگر وہ زندہ ہے تو ایک بات پائی گئی اور اگر زندہ نہیں ہے تو یہ تمام صفات بھی معدوم ہوجائیں گی،(تو دوسری بات پائی جائے گی)۔اور ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک شخص زندہ ہواور اس میں یہ صفات نہ ہوں۔
مناطقہ قیاس اقترانی کو چار اشکال میں تقسیم کرتے ہیں:
جب مناطقہ،شکلِ ثانی اور شکلِ ثالث سے حاصل ہونے والے مطالب کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ نقیض،عکس اور عکسِ نقیض سے استدلال کرنے کے محتاج ہوتے ہیں،کیونکہ کسی قضیہ کے صدق کے ثابت ہونے سے اس کی نقیض کا کذب لازم آتا ہے،جبکہ اس کے عکسِ مستوی اور عکسِ نقیض کا صدق ہی لازم آتا ہے۔مثلا اگر ہمارا یہ قول سچا ہے کہ :حج کرنے والوں میں کوئی کافر نہیں ہے۔تو اس سے یہ بھی لازم آئےگا کہ کفار میں سے کوئی حج کرنے والا نہیں ہے۔(یہ سابقہ جملہ کا عکسِ نقیض ہے۔)
مناطقہ کی ان تفصیلات کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یا تو یہ سب باطل ہیں یا اس میں ایسی طوالت ہے جو مستدل کے ذہن سے استدلال کے طریقے کو مزید دور کرتی ہے۔بہرحال! یا تو یہ ایسی خطا ہے جو حق سے روکنے والی ہے،یا ایسا طویل راستہ ہے جو مسافر کو حق تک پہنچنے سے پہلے ہی تھکادےگا،حالانکہ یہ امکان موجود ہے کہ وہ اس سے زیادہ آسان اور قریبی راستہ سے حق تک پہنچ جائے۔اس کی مثال ہمارے بعض اسلاف یوں دیتے ہیں کہ کسی سے پوچھا جائے کہ تمہارا کان کہاں ہے؟تو وہ اپنا دایاں ہاتھ کھینچ کر بلند کرےاور پھر گھماکر دوسری طرف بائیں کان کو لگادے۔حالانکہ اس کے لیے اپنے دائیں یا بائیں کان کی طرف اشارہ کرنا اس سے زیادہ آسان طریقے سےممکن تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سیدھے راستے کی کیا خوب صفت بیان فرمائی ہے:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا [الإسراء: 9]
’’بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
اعلیٰ مقاصد کی طرف جانے والا سب سے سیدھا اور درست راستہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھیج کر ہمیں بتایا ہے۔رہا ان لوگوں کا طریقہ تو اس میں گمراہی ہے،ٹیڑھا پن اور طوالت بھی ہے۔اس کے ساتھ یہ ایسے امر تک پہنچانے والا ہے جو اللہ کے عذاب سے بچانے والا نہیں ہے،چہ جائیکہ یہ طریقہ ان کی سعادت کا سبب بنے اور اس کے ذریعے نفوس کو کمال حاصل ہو۔مناطقہ کے پاس دلیل کو تین قسموں،قیاس،استقراء،تمثیل، میں تقسیم کرنے پر کوئی دلیل نہیں ہے،بلکہ یہ حصرِ باطل ہے۔اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ علمِ مطلوب صرف دو مقدموں سے حاصل ہوسکتا ہے،ان سے زائد یا کم مقدموں سے حاصل نہیں ہوتا،یہ بھی بغیر دلیل کی بات ہے اور باطل ہے۔
مناطقہ دلیل کو تین اقسام میں منحصر کرنے پر جو دلیل دیتے ہیں کہ :استدلال یا تو کلی سے جزئی پر ہوگا یا جزئی سے کلی پر،یا ایک جزئی سے دوسری جزئی پر ہوگا۔پہلی قسم قیاس،دوسری استقراء اور تیسری قسم تمثیل ہے۔اس دلیل کے جواب میں یہ کہا جائےگا کہ مناطقہ نے دلیل کو تین اقسام میں منحصر کرنے پر کوئی دلیل نہیں دی۔اگر ایک جزئی سے دوسری جزئی پر استدلال کرنا قیاسِ تمثیل ہے توپھر جو قسمیں مناطقہ نے بیان کی ہیں،دلیل صرف ان میں منحصر نہیں ہوگی،بلکہ ایک قسم مزید بھی نکل آئے گی کہ ایک کلی سے دوسری ایسی کلی پر استدلال کیا جائے،جو پہلی کلی کے لیے لازم اس کے اور مطابق ہو۔اسی طرح ایک جزئی سے دوسری ایسی جزئی پر استدلال کرنا جو پہلی جزئی کے لیے اس طرح لازم ہو کہ ایک کے وجود سے دوسری کا وجود اور ایک کے عدم سے دوسری جزئی کا عدم لازم آئے۔یہ دونوں قسمیں مناطقہ کی اقسام،قیاس،استقراء اور تمثیل میں سے نہیں ہیں۔حقیقت میں یہی آیات اور نشانیاں ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وبالنجم ہم یہتدون۔
’’اور لوگ ستاروں سے بھی راستے دریافت کرلیتے ہیں۔‘‘
مناطقہ کا یہ کہنا کہ استدلال میں بغیر کسی کمی بیشی کے صرف دو مقدمات کا ہونا ضروری ہیں۔یہ قول طرد و عکس(جمعا و منعا)ہر اعتبار سے باطل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مستدل شخص کا مقدمات کا محتاج ہونا ایسی بات ہے جس میں لوگوں کے احوال مختلف ہوسکتے ہیں۔چنانچہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو صرف ایک مقدمہ کی ضرورت ہوتی ہے،کیونکہ بقیہ مقدمات کا ان کو پہلے سے ہی علم ہوتا ہے۔کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو کوئی بات جاننے کے لیےکسی استدلال کی ضرورت ہی نہیں ہوتی،بلکہ ان کو بدیہی طور پر اس بات کا علم حاصل ہوجاتا ہے۔کچھ لوگوں کو دو مقدمات کی،اور کچھ کو تین مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے،بلکہ کچھ لوگوں کو چار مقدمات کی اور کچھ کو اس سے بھی زیادہ مقدمات کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔چنانچہ جو شخص یہ جاننا چاہتا ہو کہ یہ متعین نشہ آور چیز حرام ہے،تو اگر اُسے پہلے سے یہ علم ہو کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہوتی ہے،لیکن اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ متعین چیز نشہ آور ہے یا نہیں،تو ایسا شخص صرف ایک مقدمہ کا محتاج ہوگا، وہ ایک مقدمہ یہ ہوگا کہ وہ یہ جان لے کہ یہ متعین چیز نشہ آور ہے۔اگر اُسے کسی نے بتادیا کہ یہ متعین چیز حرام ہے اور اس نے پوچھا کہ اس کی حرمت پر کیا دلیل ہے ؟اور استدلال کرنے والے نے یہ جواب دیا کہ اس کی حرمت کی دلیل یہ ہے کہ یہ چیز نشہ آور ہے،اتنی سی بات سے مطلوب مکمل حاصل ہوجائےگا۔
اسی طرح اگر دو آدمیوں کے درمیان مشروبات کی بعض انواع کے بارے میں اختلاف ہوجائے کہ کیا وہ نشہ آور ہیں یا نہیں؟جیسے اکثر لوگ بعض مشروبات کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔سوال کرنے والے کو یہ علم نہ ہوکہ وہ مشروبات نشہ آور ہیں یا نہیں،لیکن اُسے یہ علم ہوکہ ہر نشہ آور چیز حرام ہےتو ایسے سوال کرنے والے کو جب کوئی بھروسہ مند اور قابل اعتماد آدمی یہ خبردے یا دیگر دلائل سے اُسے معلوم ہوجائے کہ یہ مشروب نشہ آور ہے تو اُس کو یہ علم بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ مشروب حرام ہے۔یہی معاملہ دیگر ان انواع و اعیان کا بھی ہے جن کے بارے میں کسی کو شک ہو کہ وہ کسی قضیہ کلیہ کے تحت آتے ہیں یا نہیں؟حالانکہ اُسے قضیہ کلیہ کا علم ہوتا ہے۔جیسے لوگوں کا نرد اور شطرنج میں اختلاف کرنا کہ آیا یہ جوئے میں داخل ہیں یا نہیں؟اسی طرح لوگوں کا متنازع فیہ نبیذ میں اختلاف کرنا کہ آیا وہ خمر ہے یا نہیں؟اسی طرح نذر،طلاق،غلام آزاد کرنے میں اختلاف کرنا کہ آیا یہ چیزیں درج ذیل آیت کے تحت آتی ہیں یا نہیں؟:
’’ خدانے فرض قرار دیا ہے کہ اپنی قسم کو کفارہ دے کر ختم کردیجیے اور اللہ آپ کا مولا ہے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔‘‘ [التحريم: 2]
اسی طرح لوگوں کا درج ذیل آیات کے مفہوم میں اختلاف کرنا کہ کیا اس سے شوہر مراد ہے یا ولی مستقل مراد ہے؟
’’اگر تم نے ان کو چھونے سے پہلے طلاق دے دی اور ان کے لیے مہر معین کر چکے تھے تو معین مہر کا نصف دینا ہوگا مگر یہ کہ وہ خود معاف کردیں۔یا ان کا ولی معاف کر دے اور معاف کردینا تقویٰ سے زیادہ قریب تر ہے اور آپس میں بزرگی کو فراموش نہ کرو. خدا تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔ [البقرہ: 237]
دلیل اور استدلال میں کبھی دو مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے،جیسے وہ شخص جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ متنازع فیہ نبیذ حرام ہے یا نہیں؟اور اُسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ متعین چیز نشہ آور ہے یا نہیں؟تو ایسے شخص کو اس وقت تک یہ معلوم نہ ہوگا کہ یہ متعین چیز حرام ہے جب تک اُسے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ یہ متعین چیز نشہ آور ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ انسان کو یہ علم ہوتا ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور اُسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ متعین چیز نشہ آور ہے اور ہر نشہ آور چیز شراب کے حکم میں ہے،لیکن اُس کو ابھی ابھی اسلام لانے کی وجہ سے یا جہلاء اور زنادقہ (جو ان احکام میں شکوک و شبہات ڈالتے ہیں)کے درمیان پڑا ہونے کی وجہ سے یہ معلوم نہ ہو کہ آپﷺ نے شراب کو حرام قراردیا ہے یا اس کو یہ علم تو ہو کہ آپﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے یا اُسے یہ علم بھی ہو کہ یہ متعین چیز خمر یعنی شراب ہے اور آپﷺ نے شراب کو حرام قراردیا ہے،لیکن اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں،یا اس کو یہ علم نہ ہو کہ آپﷺ نے شراب کو تمام مسلمانوں کے لیے حرام قراردیا ہے،بلکہ اس کا خیال یہ ہو کہ آپﷺنے بعض لوگوں کے لیے شراب کو مباح قراردیا ہےاور وہ خود کو ایسے ہی لوگوں میں سمجھتا ہے۔جیسے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ شراب کو علاج وغیرہ کے لیے پینا جائز ہے۔تو ایسے افراد کے لیے محض اتنی بات کافی نہیں ہے کہ یہ متعین نشہ آور،نبیذ عام مسلمانوں کے لیے حرام ہے،بلکہ ان کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ نبیذ نشہ آور ہے اور شراب کے حکم میں ہے اور آپﷺ نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قراردیا ہے،اور آپﷺ اللہ کے برحق رسول ہیں،جو چیز آپﷺ نے حرام قراردی ہو،گویا کہ اللہ نے حرام قراردی ہے،اور یہ کہ آپﷺ نے اس کو تمام مسلمانوں کے لیے حرام قراردیا ہے،علاج یا لذت کے لیے اسے مباح نہیں قراردیا۔
استدلال کو صرف دو مقدمات کے ساتھ خاص کرنا باطل ہے،اس کی مزید وضاحت اس بات سے ہوسکتی ہے کہ مناطقہ،قیاس (خواہ وہ برہانی ہو،خطابی ہو،جدلی ہو،شعری ہو یا سوفسطائی)کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ :"یہ کئی اقوال سے مرکب قول ہوتا ہے،یا قیاس ایسی چیز سے عبارت ہے جو کئی اقوال سے مرکب ہوتا ہے اور جب اس مجموعہ کو تسلیم کرلیا جائے تو اس سے ایک اور قول کو ماننا لازم آتا ہے۔"
ہم نے کئی مقامات پر یہ وضاحت کی ہے کہ قیاسِ تمثیل اور قیاسِ شمول ایک دوسرے کے لوازم ہیں،اگر دونوں کا مادہ ایک ہو تو جس علم یا ظن کا فائدہ ایک قیاس سے حاصل ہوتا ہے،وہی فائدہ دوسرے قیاس سے بھی حاصل ہوتا ہے۔کیونکہ اعتبار علم کے مادہ کا ہوتا ہے،قضیہ کی صورت وشکل کا اعتبار نہیں ہوتا،بلکہ جب مادہ یقینی ہو،خواہ اس کی صورت قیاسِ تمثیل کی ہو یا قیاس شمول کی، وہ یقینی ہی رہےگا اور خواہ قیاس کی صورت اقترانی ہو یا مناطقہ کے بقول استثنائی ہو یا کوئی اور عبارت کہہ دیں جو آپ کو پسند ہے۔خصوصا ایسی عبارات جو مناطقہ کی عبارات وتعبیرات سے زیادہ واضح،بہتر اور عقل کے زیادہ قریب اور الفاظ میں زیادہ جامع ہو،بشرطیکہ مقصود سب کا ایک ہو۔
یہ بات یعنی قیاس تمثیل وقیاسِ شمول کا ایک ہونا،کئی مثالوں سے واضح ہوتی ہے،مثلا جب آپ کہیں کہ: یہ انسان ہے اور ہر انسان مخلوق ہوتا ہے،یا ہر انسان حیوان،یا حساس یامتحرک بالارادہ یا بولنے والا ہوتا ہے یا آپ ان کے علاوہ انسان کے دیگر لوازمات لے آئیں۔اگر آپ چاہیں تو دلیل کو سابقہ صورت میں بھی پیش کرسکتے ہیں اور اگر آپ چاہیں تو اس کے بجائے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ :وہ انسان ہے تو مخلوق بھی ہے،یا وہ انسان ہے تو حیوان،یا حساس یا دیگر انسانوں کی طر ح متحرک بالارادہ بھی ہے،کیونکہ یہ انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ اس انسانیت میں شریک ہے جو کہ ان صفات کا تقاضا کرتی ہے۔اور اگر آپ چاہیں تو سابقہ دونوں صورتوں کے بجائے یوں کہہ دیں کہ: یہ انسان ہے اور انسانیت ان احکام(حیوان،حساس وغیرہ)کو مستلزم ہے،اس لیے یہ احکام اس انسان کے لیے بھی لازم ہیں۔اور آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ :اگر یہ انسان ہے تو یہ ان صفات سے متصف ہوگا جو انسان کے لیے لازم ہیں۔یا آپ دلیل کو یوں بھی لاسکتے ہیں کہ :یہ انسان ان صفات کا حامل ہوگا یا نہیں؟دوسرا احتمال باطل ہے،لہذا پہلا احتمال متعین ہے،کیونکہ یہ صفات انسان کے لیے لازم ہیں،انسان ان صفات کے بغیر نہیں پایا جاسکتا۔
جہاں تک استقراء کی بات ہے تو یہ اس وقت یقینی ہوتا ہےجب استقراء تام ہو۔ایسی صورت میں پھر آپ اس قدرِ مشترک کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں جو تمام افراد میں پایاجاتا ہے۔استقراء کوئی جزئی سے کلی یا کلی سے جزئی پر استدلال کا نام نہیں ہے،بلکہ یہ دراصل ایک متلازم سے دوسرے متلازم پر استدلال کرنے کا نام ہے،کیونکہ اس حکم (قدرِ مشترک) کا تمام افراد میں پایاجانا اس بات کو واجب کرتا ہے کہ وہ حکم اس کلی وعام افراد کے لیے لازم ہو۔
مناطقہ کا یہ کہنا کہ استقراء،جزئی وخاص سے کلی وعام پر استدلال کرنے کا نام ہے،یہ بات درست نہیں ہے۔یہ بات کیسے درست ہوسکتی ہے جبکہ دلیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدلول کا ملزوم ہو؟! اگرمدلول علیہ کے معدوم ہونے کے وقت دلیل کا وجود ممکن ہو اور مدلول اس دلیل کے لیے لازم نہ ہوتو پھر جب ہمیں دلیل کے ثبوت کا علم ہوگا تو اس کے ساتھ مدلول کے ثبوت کا علم نہ ہوگا۔(لہذا دلیل،دلیل نہ رہی)جب ہمیں یہ علم ہے کہ مدلول کبھی دلیل کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا اور اس کے باوجود ہم یہ بھی کہیں کہ مدلول ہمیشہ دلیل کے ساتھ ہوتا ہے،اس میں تو ہم نے دو متناقض ومنافی باتوں کو جمع کردیا!۔
یہ جس لزوم کا تذکرہ ہم نے کیا،اس سے استدلال حاصل ہوجاتا ہے،خواہ لزوم جیسے بھی حاصل ہو۔اور جب بھی لزوم زیادہ قوی،کامل اور واضح ہوتا ہےتو دلالت بھی اتنی قوی،کامل اور واضح ہوتی ہے۔جیسے مخلوقات،جو خالق سبحانہ وتعالیٰ کی ذات پر واضح دلالت کرتی ہیں،کیونکہ کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو اپنے خالق پر دلالت نہ کرتی ہو۔مخلوق کا وجود،خالق کے وجود کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے،بلکہ مخلوق کا وجود خالق کے علم،قدرت،مشیت،حکمت اور رحمت کے بغیر بھی ناممکن ہے،ہر مخلوق ان صفات پر دلالت کرتی ہے۔
قیاس اقترانی کی مکمل صورت اس طور لوٹتی ہے کہ یہ چیز فلاں چیز کے لیے لازم ہےاور فلاں چیز دوسری چیز کے لیے لازم ہے۔یہ بعینہ قیاس استثنائی ہے جو متصل ومنفصل سے مرکب ہوتا ہے،کیونکہ قضیہ شرطیہ متصلہ میں لزوم سے استدلال کیا جاتا ہے،یعنی ملزوم جو کہ مقدم وشرط بھی کہلاتا ہے،کے ثبوت سے لازم کے ثبوت پر استدلال کیا جاتا ہے،لازم کو تالی اور جزاء بھی کہتے ہیں۔یا اس میں لازم(تالی/جزا)کی نفی سے ملزوم(مقدم/شرط)کی نفی پر استدلال کیا جاتا ہے۔اور قضیہ شرطیہ منفصلہ،جس کو اصولیین سبر وتقسیم کہتے ہیں اور اہلِ جدل اس کوتقسیم وتردید کہتے ہیں۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دو نقیضوں(متضاد اشیاء)میں سے ایک کےثبوت سے دوسرے کی نفی پر اور ایک کی نفی سے دوسرے کے ثبوت پر استدلال کیا جائے۔اس کی چار قسمیں ہیں۔اسی لیے "مانعۃ الجمع والخلو" میں چار استثناءات ہوتے ہیں کہ اگر یہ ثابت ہے تو اس کی نقیض کی نفی ہوگی،اسی طرح دوسرابھی،اور اگر یہ منتفی ہے تو اس کی نقیض ثابت ہوگی،اسی طرح اس کا برعکس بھی۔’’مانعۃ الجمع‘‘ اس میں ایک ضد کے ثبوت سے دوسرے ضد کی نفی پر استدلال کیا جاتا ہے اور دونوں بیک وقت منتفی اور معدوم ہوسکتی ہیں۔’’مانعۃ الخلو‘‘ اس میں تناقض ولزوم ہوتا ہے،اور دو نقیض بیک وقت منتفی ومعدوم نہیں ہوسکتے، اس لیے دونوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے،لیکن اس کی جزا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز موجود اور دوسری چیز معدوم ہو،(یعنی ایک ہی چیز کا وجود وعدم نہیں ہوسکتا۔)ایک چیز کا وجود اور دوسری چیز کا عدم کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک چیز دوسری کے لیے لازم ہوتی ہے۔البتہ اس میں دونوں نقیض بیک وقت معدوم ومنتفی نہیں ہوسکتی،کیونکہ دونوں کی نفی کا تقاضا یہ ہوگا کہ ایک چیز کے وجود اور عدم کو ایک ساتھ ہی ختم ومرتفع کیا جائے۔
علمِ منطق پر اس لیے کلام کیا گیا ہے کیونکہ مناطقہ کا خیال ہے کہ منطق ایسا قانونی آلہ ہے کہ اگر اس کی رعایت رکھی جائے تو یہ غور وفکر میں غلطی سے بچاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس آلہ کو دیکھیں کہ کیا یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ مناطقہ کا خیال ہے یا حقیقت اس کے خلاف ہے؟
مناطقہ کے بڑوں میں کچھ شیوخ ایسے گزرے ہیں کہ جب ان کے سامنے ان کے اقوال کا فاسد وغلط ہونا واضح کیا گیا،جس سے ان کی گمراہی بھی واضح ہوگئی،اور وہ لوگ اپنی دفاع سے عاجز آگئے،تو کہنے لگے یہ ایسے علوم ہیں جن کو ایک ہزار سال سے زائد عرصہ قبل کے ذہنوں نے جلابخشی ہے اور فضلاء نے ان علوم کو قبول کیا ہے۔مناطقہ کے اس استدلال یا خیال کے کئی جوابات ہیں:
اولاً-حقیقت وہ نہیں ہے جو مناطقہ بیان کرتے ہیں،کیونکہ وہ عقلاء جو ان مناطقہ سے افضل تھے،وہ ہمیشہ سے مناطقہ پر رد کرتے آئے ہیں اور ان کی غلطی کو بیان کرتے آئے ہیں۔جہاں تک قدماء کی بات ہے تو ان میں کثرتِ اختلاف معروف ومشہور ہے،ان کی تاریخ اور ان کے مقالات میں اس بارے میں ایسی باتیں ہیں جن کے ذکر کرنے کا یہ مقام نہیں ہے۔جہاں تک اسلامی تاریخ کی بات ہے تو مسلمان اہلِ نظر وتدبر نے ان لوگوں کے منطقی والٰہیاتی اصولوں،بلکہ علم طبیعی وریاضی میں بھی ان کے فساد اور غلطیوں کے بیان میں تفصیلی کلام کیا ہے۔اور مسلمان اہلِ نظر کی ہر جماعت،یہاں تک کہ روافض نے بھی،اس بارے میں کتابیں لکھی ہیں۔تمام اہلِ ایمان اور علماء کا ان لوگوں کی گمراہی اور کفر کے بارے میں گواہی دینا اتنا عام اور مشہور ہے کہ اس کا انکار سوائے متعصب اور ضدی شخص کے کوئی نہیں کرسکتا اور اہلِ ایمان اس زمین میں اللہ کے گواہ ہیں۔
ثانیاً-مناطقہ کی یہ بات کوئی حجت نہیں ہے،کیونکہ ارسطو سے قبل جو فلسفہ رائج تھا اور اسے قبولیت حاصل تھی،ارسطو نے اس فلسفہ میں طعن کرکے اس کی غلطیوں کو واضح کیا۔اسی طرح ابن سیناء اور اس کے متبعین نے بھی قدماء کے کئی اقوال میں ان کی مخالفت کی اور ان کی غلطی کو واضح کیا۔اور فلاسفہ نے ایک دوسرے پر دیگر جماعتوں سے زیادہ رد کیا ہے۔ابوالبرکات وغیرہ نے بھی ارسطو پر بہت زیادہ رد کیا ہے،کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد محض بیانِ حق ہے،ہم کسی متعین قائل یا کسی متعین قول کو تعصب کی بنیاد پر اختیار نہیں کرسکتے۔
ثالثاً- بتوں کی عبادت کرنے والوں کا دین تو فلاسفہ سے بھی زیادہ قدیم ہے اوراس دین میں ایسے گروہ داخل ہوچکے ہیں جو فلاسفہ کے گروہوں سے زیادہ ہیں۔اسی طرح تحریف شدہ دین یہودیت بھی ارسطو کے فلسفہ سے زیادہ قدیم ہے۔اور عیسائیت کا تبدیل شدہ دین تقریبا ارسطو ہی کے زمانے کا ہے،کیونکہ ارسطو تقریبا تین سو سال قبل مسیح کے زمانے کا تھا،اور اسکندر بن فیلبس کے زمانے کا تھا،جس کے لیے تاریخ روم لکھی گئی ہے،اسی تاریخ کو یہود ونصاری استعمال کرتے آئے ہیں۔
رابعاً- اگر فرض کرلیا جائے کہ بات ایسی ہی ہے جیسا کہ مناطقہ کا کہنا ہے تو بھی یہ سارے محض علوم عقلیہ ہیں جن میں کسی قائل کی تقلید نہیں کی جاتی،بلکہ ان علوم کا علم محض عقل سے حاصل ہوتا ہے،لہذا ان علوم کی تصحیح نقل کرنا ان سے درست نہیں ہے،بلکہ ان میں عقلِ مجرد کے علاوہ کوئی بھی بات نہیں کی جاسکتی۔جب صریح عقل ان علوم کی کسی بات کے باطل ہونے پر دلالت کرےتواس عقلِ صریح کو رد کرنا جائز نہیں ہے،کیونکہ ان علوم والوں کا یہ دعوی نہیں ہے کہ یہ علوم ایسے مآخذ سے مستفاد ہیں جن کی تصدیق ضروری ہے،بلکہ ان علوم کا ماخذ محض عقل ہے،لہذا ان کا فیصلہ عقل صریح کے تقاضےپر چھوڑا جائےگا۔
(ایم فل،اسلامک اسٹڈیز، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی،اسلام آباد۔
ای میل: shad-M654@gmail.com)