Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
ارتقاء مسلمانوںکے درمیان ایک بہت ہی گرماگرم موضوع ہے اوریہ گرماگرمی مثبت معنوںمیں نہیںبلکہ منفی لحاظ سے ہے۔ اشاریے بتاتے ہیںکہ مختلف اسباب سے مسلمان عموماًارتقاء کے بارے میں نہایت منفی رایے رکھتے ہیں۔اوراسلامی نقطہ نظرسے وہ اِس کومشکوک نظریہ قراردیتے ہیں۔یہ حقیقت اس موضوع پر مسلمانوںمیںلکھے جانے والے لٹریچرسے بھی مترشح ہے۔1 اورخودراقم کومختلف جہات سے اس کا ذاتی تجربہ بھی بارہاہواہے۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسلمان یک لخت ارتقاء کومستردکردیتے ہیں۔بات یہ ہے کہ وہ اس بارے میں بالکل یکساںموقف کے حامل نہیں ہیںبلکہ اِس پر ان کے یہاں مختلف آراء دیکھنے کومل جاتی ہیں۔میرے اس مضمون کا دہرامقصدہے۔پہلایہ کہ ہمارے لٹریچرمیںاس موضوع پر جوآراء پائی جاتی ہیںان کا ایک خلاصہ قارئین کے سامنے رکھ دوں۔اوردوسرے یہ بتاؤںکہ ارتقاء کوبالکلیہ قبول کرناہویایک قلم مستردکرنا،دونوںہی رویوںمیں مشکلات ہیں۔کیونکہ یہ مبحث بین العلومی نوعیت کا ہے،اس لیے آدمی کواس بارے میں کوئی حتمی رایے دینے میں سخت احتیاط لازم ہے۔
اس سے قبل کہ ہم اس کی وجوہات بیان کریںکہ ایساکیوںہے، ان مختلف پہلووں پر نظر ڈالنا چاہیے جواس مبحث میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔چنانچہ اس مسئلہ کے تین اہم اورخاص زاویے ہیںجن کونمایاںکرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ ہیں: (1)علم ارتقاء(2)مابعدالطبیعات اور(3)اصول تفسیر۔آئیے ان تینوںپر مختصراًگفتگوکرتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم ارتقاء کے علم کولیتے ہیں۔وسیع تناظرمیںارتقاء بتدریج عمل میںآتاہے اورمختلف مراحل سے گزرتا ہے، یوںجینیٹکس اورماحولیاتی عوامل میںایک جدلیاتی رشتہ بنتاہے جومختلف انواع حیا ت کومتنوع قسموںکی طرف لے جاتاہے جووقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی جاتی ہیںجیسے جیسے ان قسموںکی ذیلی انواع آگے بڑھتی ہیںوہ اپنے ماحول سے مطابقت اختیارکرتی ہیں۔ان میںاورمزیدتنوع آتاجاتاہے اوروہ مزیدجینیٹک فرق پیداکرتی جاتی ہیں۔اورآخرکارہماراموجودہ نظام فطرت برپاہوتاہے جس میں انسان مختلف ارتقائی منزلوںاورمتوازی طورپرجاری متعددسیریز کا محض ایک حصہ ہے۔ ا س بیانیہ میں انسان چمپانزی سے مشتق نہیں ہواجیساکہ عموماخیال کیاجاتاہے۔بلکہ انسان اورچمپانزی میںجینیٹک تفریق اورگہری ہوتی گئی۔توچمپانزی ہمارے نسلی کزن قرارپاتے ہیںنہ کہ ہمارے مورث اعلی۔2ارتقاء کے اس فہم کااس شکل سے تقابل کیجیے جس میںغلط طورپر اب تک انسان کوبندر کی اولاد سمجھاجاتاہے۔اس ددسری صورت میںیعنی بندرکاانسان کا مورث اعلی نہیں بلکہ کزن قراردیاجاناارتقاء کی بہتراوردرست تشریح کرتاہے۔اس کے مطابق انسان اورچمپانزی دونوںکے بزرگ کو Primate ancester کہاجاتاہے جس سے غارنشین حیوان( Pan Troglodyte)ظاہرہوئے اوران سے Homo Sepien یعنی موجودہ انسان وجودپذیرہوئے۔
ارتقاء کی شہادتوںکی نوعیت کئی طرح کی ہے۔ان میں فاسل رکارڈ،خلقی مشابہت اورجینیٹکس وغیرہ ہیں۔لیکن ان شہادتوںکے خلاف کئی طرح کے اعتراضا ت بھی ہیں۔مثا ل کے طورپر فاسل رکارڈ پر ایک اعتراض یہ کیاجاتاہے کہ ان میں gaps پائے جاتے ہیںجہاںمختلف انواع کوایک دوسرے سے جوڑنے والی کڑیاںنہیںمل رہی ہیں۔کبھی کسی مرحلے میںمختلف ومکمل انواع دفعتاً ظاہرہوجاتی ہیں۔سائنسی طورپر یہ ایک جائزسوال ہے۔لیکن سائنس دانوںنے کچھ مختلف عبوری اوربیچ کی انواع کی تشخیص کی ہے۔اس کی سب سے مشہورمثال 3Tiktaliks ہے۔یہ ایک اہم دریافت ہے جوسمندرکے جانوروںکوزمین کے جانوروںسے لنک کرتی ہے۔اس میں دونوںکے خصائص میں تشابہ دکھاکردومختلف انواع کے درمیان مرحلۂ انتقال کی وضاحت کی جاتی ہے۔مزیدبرآں ارتقاء کے وکیل یہ مانتے ہیںکہ فاسل رکارڈ ز میںیقینا ابھی کمی ہے مگراس کے اسباب بھی وہ بتاتے ہیں۔مثال کے طورپر ان کا کہناہے کہ:
’’سائنس داںیہ مانتے ہیںکہ ہڈیوںکومحفوظ رکھناایک بڑامسئلہ ہے اسی لیے ایساہوتاہے کہ کسی خاص نوع کی کھوپڑی ہی کے مکمل سیٹ کا پایا جانا دشوارہوجاتاہے۔نوع بنوع نسلوںکاتوذکرہی کیا۔تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ فاسل رکارڈ اپنے آپ میں غلط ہیں۔ مزیدبرآں فاسل رکارڈ ہی (ارتقاکے)تنہاثبوت نہیںبلکہ اس کے تائیدی ثبوت بھی ہوتے ہیں جواب تک صرف ارتقاء کے نظریہ ہی کی تائیدکررہے ہیں۔ہمار ی مرادجینیٹکس سے ہے۔مختلف استقرائی نتائج سے ارتقاء کے حق میں بہت زیادہ دلائل فراہم ہورہے ہیںجن کوMichel Rose استقراء کی مطابقت کا نام دیتاہے۔ارتقاء کے حامیوںاورمخالفین کے درمیان تبادلہ افکار کا ایک میدان یہی نکتے ہیںجن کی تفصیلات سے ہمیںپریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ مثال ہم نے اِس لیے دی تھی کہ یہ دکھایاجاسکے کہ ارتقاکوواقعی سائنسی تھیوری ماننے نہ ماننے کے سلسلہ میں ایک صحت مندانہ بحث موجودہے،جویہ بتاتی ہے کہ ہماری تاریخ میں یاآج ہم جوحیاتی تنوع دیکھتے ہیں اس کی تشریح کے لیے سب سے بہتربیانیہ ارتقاء کی تھیوری ہی پیش کرتی ہے‘‘۔4
ارتقاء کے بعض مضمرات اوراس سے ہونے والے اثرات ایسے ہیںجوتھیالوجی اوردینیات کے لوگوںمیںاضطراب وتشویش پیداکرتے ہیں۔مثلاًخدائی عمل،حدوث،نیچرل ازم اوربرائی کا مسئلہ وغیرہ۔ 5مثال کے طورپرنیچرل ازم کولے لیں۔ارتقاء کا کہناہے کہ نیچرل تناظرمیں ہرچیز کی تشریح کی جاسکتی ہے جیسے دماغی اورجذباتی مظاہرکی یاجیسے کہ آزادیٔ ارادہ اورانہی جیسے اورتصورات کی جوپیچیدہ سمجھے جاتے ہیں،کہ یہ سب اندھی نیچرل فورسز کا نتیجہ ہیں۔اگرہم ابھی تک اِن کی فطرت(nature)کودریافت نہیںکرسکے ہیں توآئندہ کرلیںگے6۔یہ چیز واضح طورپر اسلامی ورلڈویوکے بالکل خلاف جاتی ہے۔کیو ںکہ مافوق الفطرت اورغیبی چیزوںجیسے خدا،روح اورفرشتوںپر ایمان رکھنا اسلام کے مقتضیات میں سے ہے۔اس سے ڈاروینی ارتقاء کا بیانیہ مسلمانوںکے لیے ایک بہت سنجیدہ مسئلہ بن جاتاہے۔مزیدبرآں ملحدین نے ارتقاء کواپنے حق میںزبردست انداز میں استعمال کیاہے اوروہ ارتقاء کوالحادکے مترادف گراننے اوراس کی مارکیٹنگ میںکامیاب ہوگئے ہیں۔چنانچہ ایک مصنف لکھتاہے :
’’بعض میڈیابیانات میں اکثریہ فرض کرلیاجاتاہے کہ تخلیق کا نظریہ (creationism)ایک بہت اہم ایشوہے اوریہ کہ فطری طورپرآپ کوارتقاکوقبول کرنے کے نتیجہ میں ملحدبنناہی پڑتاہے۔ارتقا کی قبولیت اورمذہب کی نفی کے اس ثنائی تصور(جس میں آدمی کومذہب مخالف ملحدیاکم ازکم لاادری فرض کرلیاجاتاہے ) کونئے الحاد کے زاویوںسے مزیدتقویت ملتی ہے جورچرڈ ڈاکنز(Rechard Dawkins) 7 کی کتاب میں بتائے گئے ہیں‘‘۔
الحادوارتقاء کے مابین قریبی نسبت کے پیش نظرمسلمان عموماارتقاء کی تھیوری کوکلیتاً مستردکردیتے ہیں۔تاہم یوںمحسوس ہوتاہے کہ اس بحث میں بعض نزاکتوںکونظراندازکردیاگیاہے۔ نیچرل ازم کے مسئلہ میںارتقاء کے ناقدین کویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیچرل ازم توپوری سائنس کوموضوع بناتاہے۔صرف ارتقاء ہی اس کا مطمح نظرنہیں ہے۔اس لیے اس پرنقدکے لیے بطوردلیل ارتقاء پر تکیہ کرنا ایک مخصوص( selective )تنقیدہوگی۔مزیدبرآںیہ چیزبھی نظراندازکی جارہی ہے کہ نیچرل ازم اصل میں ایک فلسفیانہ پوزیشن ہے نہ کہ سائنسی بحث۔کیونکہ اس مسلمہ کومانناکہ ہرچیز کو گھٹاکرمادہ( matter) کی شکل دی جا سکتی ہے یہ سائنسی پوزیشن نہیں ہے۔ یہ دراصل مابعدالطبیعاتی دعوی ہے جس کوسائنسی خول چڑھاکرپیش کیاجاتاہے۔اس سلسلے میں باحث کوفلسفیانہ نیچرل ازم اورمیتھوڈولوجیکل نیچرل ازم میں فرق کرناچاہیے۔8 پہلے کا دعوی یہ ہے کہ جوکچھ ہے وہ نیچرہے۔ ا س سے باہرکسی چیز کا وجود نہیں۔میتھوڈولوجیکل نیچرل ازم کا دعواہے کہ سائنس صرف نیچرل ورلڈکا مطالعہ کرسکتی ہے( اس سے ماوراء کا نہیں) یعنی یہ علمیات کا سوال ہے۔ وجود (ontology )کا سوال وہ (میتھوڈولوجیکل نیچرل ازم)آدمی کے اپنے ذاتی اعتقادات پر چھوڑدیتاہے۔یہ فرق وامتیازفوراً ہی ارتقاکی ممکنہ غیرملحدانہ تشریحات کے لیے راہ ہموار کردیتا ہے۔ جن میں ’ایک عاقل ہستی کے ذریعے کائنات کی منصوبہ بندی‘ (intellegent designe ) کا نظریہ بھی شامل ہے۔9جوایک خاص پوزیشن ہے اورڈارون کی تھیوری میں جوchance (اتفاقیہ حدوث)کے عناصرہیں ان کا مقابلہ کرتی ہے۔ یعنی اتفاق حیاتیات میںپائی جانے والی پیچیدگی( complexty)پیدانہیںکرسکتا۔ایک ذہین وجودمثلاً خداہی یہ کرسکتاہے۔ساتھ ہی یہ دھیان میںرہے کہ اتفاق کی تھیوری پران سائنس دانوںنے اور ’خدائی منصوبہ بندی کے ذریعے ارتقا‘( theistic evolution) کے نظریے کے حاملین نے زبردست تنقیدیںکی ہیں۔10جوارتقاء کے پورے پیکج کوقبول توکرتے ہیںمگریہ کہتے ہیںکہ ارتقاکے ہرمرحلہ کوخداتعالیٰ ہی وجودپذیرکرتاہے۔11 ان کا کہناہے کہ نیچرل ازم کے نظریے کی توکوئی نہ کوئی توجیہ کرلیںگے مگراس بحث کے دوسرے گوشے یعنی دفعتاً پیدائش اور’ مسئلہ شر‘ (problem of the evil)وغیرہ ایسے نازک مسئلے ہیںجن کا جواب حامیان ارتقاء کے پاس نہیں ہے۔مختصریہ کہ اس موضوع سے متعلق دینیاتی اورفلسفیانہ دونوںطرح کے مباحث ہیں۔اورآپ جس طرح کی مابعدالطبیعاتی اورعقائدی حدبندیاں رکھتے ہیںاسی حساب سے آپ کی ارتقاکی ایپروچ میں فرق آجائے گا۔
ایسالگتاہے کہ اسلام میں ارتقاکے اوپربحث کا مرکزی نکتہ آدم کی حیثیت ہے اورمزیدتوسع کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ انسان کی پوزیشن ہے۔قرآن میںبیان ہواہے کہ آدم کواحسن تقویم پر پیداکیاگیاہے 12اوراُسے خدانے خوداپنے دست قدرت سے پیداکیاہے13 اور یہ کہ وہ زمین پرخداکاخلیفہ بنایاگیاہے۔ 14(یہ تفسیرعام ہے مگردرست نہیں،درست بات یہ ہے کہ انسان خداکانہیں زمین کا خلیفہ(بمعنی حکمراں) بنایاگیاہے۔ مترجم ) یہ بیانات دلیل ہیں کہ آدم اوران کی ذریت کوبقیہ مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے۔تواس طرح کی معززومکرم مخلوق کویہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ وہ حادثاتی پراسِس سے اورناقص مورثوںسے وجودپذیرہوئی ہوگی ؟ مزیدبرآں قرآن وحدیث میں آدم کوبنی نوع انسان کا باپ قراردیاگیاہے 15 جس کا مفہوم یہ معلوم ہوتاہے کہ آدم ہی پہلے انسان تھے جن کے کوئی ماںباپ نہ تھے۔یوںایک طرف توقرآن وحدیث کا یہ بیانیہ ہے جس سے آدم کوپیداکرکے زمین پربھیج دیاجاناثابت ہوتاہے۔اوردوسری طر ف ہمارے پاس ڈاروینی ارتقا ء کی تھیوری ہے جس میںمرحلہ وارارتقابیانیۂ نوجودمیں آتاہے۔اب ان دونوںمیں مطابقت کی بظاہرکوئی صورت نہیں ہے یاکم ازکم سرسری مطالعہ سے سامنے نہیں آتی۔اس مقام پر آدمی کومختلف تعبیری اصولوںاورطریقوںسے سابقہ پڑتاہے جن کی روسے وہ ارتقاء کوقبول یامستردکرسکتاہے۔
جولوگ ارتقاء کوقبول کرتے ہیںوہ آدم وہبوط آدم کی کہانی کوتمثیلی قراردیتے ہیںجس میںآدم ایک استعارہ ہے اورآدم وحواپہلے انسان نہیں تھے۔تاہم یہ واضح رہے کہ ایسی تشریحات کے پائے جانے کا مطلب یہ نہیںہے کہ یہ تشریحات مستندبھی ہوں۔قرآن کی عربیت پر غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ جن آیا ت میں آدم وحواکا تذکرہ ہے وہاںکوئی ایساقرینہ نہیں ہے کہ یہ استعاراتی علامتیںمان لی جائیں یاان کوتمثیل قراردیاجاسکتاہو۔دوسرے بعض علمانے ارتقاء کونصوص کی بنیادپر مستردکردیاہے کیونکہ نصوص قرآن میں آدم وحواکی جومخصوص پوزیشن بتائی گئی ہے وہ ارتقاء کے نتیجہ میںختم ہوکررہ جاتی ہے۔ذیل میں ہم ایک چارٹ دے کر اس کی روشنی میں یہ واضح کریںگے کہ کن علمانے کیاپوزیشن لی ہے اورکس بنیادپر لی ہے؟
پوزیشن | عالم ومفکر | وجہ قبول یارد |
رد | امام طباطبائی 16 | کیونکہ نصوص بتاتے ہیںکہ بنی نوع انسان نے کسی دوسری نوع سے ارتقاء نہیں کیا،نہ کسی حیوان سے نہ نباتات وغیرہ سے |
ابوالاعلی مودودی17 | ارتقاء کا نظریہ محض ایک نظریہ ہے کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں | |
ڈاکٹرطاہرالقادری18 | فاسل رکارڈ زمیںگمشدہ کڑیاںہیں۔سائنس داںارتقاء کی مختلف تشریحات کرتے ہیں،کوئی مشترکہ ومتحدہ تھیوری ابھی تک پیش نہیں کی جاسکی ہے۔ | |
سیدحسین نصر19 | انسان کی فارم متعین ہے اورمختلف انواع کی تبدیلی بنیادی طورپرغلط ہے | |
نوح حامیم کیلر20 | آدم ایک مخصوص تخلیق تھے- اس لیے ارتقاء کا حصہ نہیں ہوسکتے | |
داؤدسلیمان جلاجل21 | آدم ایک مخصوص تخلیق تھے۔ اس لیے ارتقاء کا حصہ نہیں ہوسکتے | |
قبولیت | نضال قسوم 22 | خداپرستی پر مبنی ارتقاء کی کہانی،ڈیٹااورآدم کی تخلیق کی کہانی دونوںکے ساتھ چل سکتی ہے۔ |
رانادجانی23 | آدم کی کہانی ایک تمثیلی کہانی ہے۔ | |
سرسیداحمدخاں24 | کیونکہ ارتقاء کی کہانی سچ ہے اس لیے آدم کی کہانی کوتمثیلی مانناہوگا | |
اقبال25 | آدم کی کہانی تمثیلی ہے،بائبل کی طرح قرآن نے آدم کوعَلم کے طورپر استعمال نہیںکیااس لیے فردکی بجائے اُسے تمثیل پر محمول کرناچاہیے | |
محمدعبدہ 26 | انسان ایک نفس (روح )سے پیداکیاگیاہے اس لیے کوئی فرق نہیںپڑتاکہ اس کا باپ آدم تھایابندر | |
ٹی شوناس27 | آدم انسان کے روحانی باپ تھے۔آدم وحواپہلے انسان نہیں تھے | |
طبیق | شیخ حسین الجسر28 | ان کی پوزیشن تطبیقی ہے یعنی تخلیقیت کومان کرارتقاکوبھی ایک گونہ قبول کرنا۔وہ کہتے ہیںکہ نصوص قرآن میں ایسی صراحت نہیں کہ آدم یکایک پیداہوگئے یاارتقاء کے ذریعہ وجودمیں آئے۔اس لیے اگرارتقاء ثابت ہوجائے تومسلمانوںکواس سلسلہ میں اپنے موقف پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ |
اسماعیل فینی 29 | یہ بھی ارتقاکومستردکرتے ہوئے یہ کہتے ہیںکہ اگرارتقاء ثابت ہوگیاتومسلمانوںکواپنی پوزیشن کا جائزہ لینا ہوگا۔ابھی سائنسی بیانیہ کوغیرحتمی ماناجاناچاہیے‘‘۔ | |
(یہ گزشتہ صدی کے بعض علما ومفکرین کے خیالات کا خلاصہ تھا) |
تاہم نصوص کی بنیادپر اوریہ کہ آدم کوخدانے خصوصیت سے پیداکیا،ارتقاء کوردکرنابھی اشکالات سے خالی نہیں۔کیونکہ اگراس سے مرادیہ ہے کہ آدم کوخدانے اپنے ہاتھوںسے بنایالہذاوہ ارتقاء کا نتیجہ نہیںہوسکتے توپھرسوال ہوگاکہ قرآن میں دوسری جگہ یہ بھی توکہاگیاہے کہ ’’اللہ نے جانوروںاورچوپایوںکواپنے ہاتھوںسے بنایا30کے علاوہ اوربھی آیات واحادیث ہیں جن کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے،لیکن یہ چھوٹاسامضمون اس کا متحمل نہیںہے۔یہاںتومیں صرف یہ بتاناچاہتاتھاکہ معاملہ اتناسادہ اورواضح نہیںجتنالوگ سمجھ رہے ہیں۔
ارتقاکے سلسلہ میںمسلمانوںکا ردعمل ملاجلارہاہے۔داخلی آراء میں ایک تواس کومکمل طورپر قبول کرناہے یامکمل طورپر ردکرنا اور یا دونوںکے درمیان کی راہ اختیارکرنا۔دونوںانتہائوںپرلو گ کھڑے ہیں(جس کا ایک خلاصہ مذکورہ بالاسطورمیںہم نے کرنے کی کوشش کی )اگرچہ ہم ہرپوزیشن کا تفصیلی طورپر جائزہ نہیںلے سکے کیونکہ یہ مضمون اس کی گنجائش نہیںرکھتا۔بہرکیف مذکورہ نقشے سے اتناپتہ چلتاہے کہ موضوع میں خاصی نزاکتیںہیں 31اورسائنس کے درمیان رسہ کشی کولوگ جس طرح سے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں،اسی طریقہ کا اثرا ن کے مواقف پرپڑاہے۔اس میں لوگوںکے مابعدالطبیعاتی اعتقادات اوراسلام کے اصول تعبیربھی کارفرماہیں۔ یوںیہ سوال کہ کیاارتقااوراسلام میںکوئی بنیادی تصادم ہے، اس پرمنحصرہے کہ آدمی کس طرح اِن تینوںزاویوں: ارتقا،مابعداطبیعات اوراصول تفسیرکوبرتتاہے۔اوریہ کہ لٹریچرمیں ان تینوںموقفوںکا اختلاف کہاںسے آتاہے اوراپنے دلائل یہ تینوںکس طرح دیتے ہیں۔یہ تجزیہ کرناخاص کرایک عامی کے لیے ایک نازک امربن جاتاہے۔
بدقسمتی سے کچھ ایسی مشکلات ہیں جوغیرضروری کنفیوژن پیداکردیتی ہیں۔مثلاًمسلمان ارتقاء کے خلاف جودلائل دیتے ہیںوہ زیادہ ترعیسائیت سے ماخوذہیں۔جن کا جب ارتقاسے واسطہ پڑاتوان میںتخلیق پسندوںکی تحریکیںاٹھ کھڑی ہوئیں۔ جوآج مغرب خاص کرامریکہ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 32مسلم دنیامیںبھی بالکل اسی طرح کا ردعمل دکھائی دیتاہے۔چنانچہ ترکی مبلغ عدنان اختر(اوکتار)(جن کا مشہورقلمی نام ہارون یحیٰ ٰہے)کی تحریروںمیںزیادہ ترمسیحی فنڈامنٹلسٹ لٹریچرسے اخذواقتباس سے کام لیاگیا ہے 33 ۔ ارتقاء کے بارے میںکئی پوائنٹس پرہارون یحی ٰ صاف صاف غلط بیانیاںکرتے ہیں۔بدقسمتی سے انہوںنے ایک عالمی نیٹ ورک پھیلادیاہے اورآن لائن پلیٹ فارموںسے بھی یہ غلط ترجمانی عام کی جارہی ہے۔ اورعموماًاسی کوارتقاکا اسلامی فہم قراردیاجاتاہے۔اس غلط خیال پر جلاجل کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
’’ان کی (ہارون یحیٰ کی)تحریروں میں پائے جانے والے ارتقاء کے بارے میں بہت سے غلط بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کو صاف طورپرتخلیق پرست مصادر سے اٹھایا لیاگیا ہے۔ مثال کے طور پر،ہارون یحی تخلیق پسندوںکی یہ رایے لے لیتے ہیںکہ فاسل ریکارڈ میں کوئی ایسی شکل نہیں جوعبوری وانتقالی مراحل کی کڑیوںکوجوڑسکے۔اور یہ کہ تمام تر تغیرات مضر ہیں اوریہ کہ نظریۂ ارتقاء کسی طرح تھرموڈینامکس کے دوسرے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ گروہ اصل میں اس خیال سے تحریک پاتاہے کہ ارتقا کائنات میں خدا کے تخلیقی کردار کو ختم کردینے اور خدا کے رد کردینے کے مترادف ہے‘‘۔ 34
پچھلے حصوں میں پیش کردہ نکات کو دیکھتے ہوئے یہ بتانا حیرت کی بات نہیں ہوگی کہ تخلیق پسندوں کے اس طرح کے دلائل کتنے پریشان کن ہیں۔
یہ صیحح ہے کہ ارتقاء بلاشبہ مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج پیدا کرنے والا مسئلہ ہے۔اس کا تقاضاہے کہ اس ناپسندیدہ اورالجھن والے موضوع کا بین العلومی مطالعہ کیاجائے۔ تاہم اس چیلنج کے باوجود مسلمانوں کو اس موضوع سے دورنہیںرہنا چاہیے۔ہماری اس رایے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو آسان تجزیہ کرنا چاہیے۔بلکہ پہلے اس مسئلے کو اس کی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ سمجھنے کے لیے بڑی کوششیںکرنے کی ضرورت ہے اور تب ہی ایساموقف سامنے آسکے گاجوعلمی معیارات پرپورااترتاہو (پھرچاہے وہ نظریۂ ارتقاء کوقبول کرنے کا ہویااس کومستردکرنے کا)۔ واللہ اعلم بالصواب
(ڈاکٹر شعیب احمد ملک زاید یونیورسٹی(دبئی) میںنیچرل سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور اس وقت روٹلیج سے معاہدہ کے تحت نظریۂ ارتقاء اور ابوحامد غزالی پر ایک مونوگراف لکھ رہے ہیں۔ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے بحیثیت رسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔ ای میل: mohammad.ghitreef@gmail.com)