Mirza Family Professor of Islamic Thought & Muslim Societies
Keough School of Global Affairs
1010 Jenkins Nanovic Halls
University of Notre Dame
Notre Dame, Indiana 46556-7000 USA
Email, emoosa@gmail.com
Ph. +19 192703431
Assist. Professor, Department of Islamic Studies,
Jamia Hamdard, Hamdard Nagar, New Delhi, 110062
Email: w.mazhari@gmail.com
Ph. 9990529353
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email. mmushtak@jmi.ac.in
Contact. 9910702673
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi, 110025
Email : samir@jamiahamdard.ac.in
Ph. 9540390930
Assistant professor,
Department of Islamic Studies,
Aliah University, Kolkata
Email : abdurrasheedhyd@gmail.com
Ph. 8583837253
Assistant Professor, (Guest)
Department of Islamic Studies,
Jamia Millia Islamia, New Delhi-1110025
Email : javed.akhatar1985@gmail.com
Ph. 9891059708
Assistant Professor of Religion, Department of Religion, Williams College, USA
Office:Hollander Hall, Rm 206
Office Phone: (413) 597-2585
Email, saadia.yacoob@gmail.com
Assistant Professor
Department of Religion, University of Florida, USA
Email, alimian@gmail.com
Teaching Fellow, department of Religions and Philosophies,
SOAS University of London, UK.
Email: adeel.khan.cantab@gmail.com
(پروفیسر پیٹر ڈبلیو اوکس Peter W. Ochs (1950) یونیورسٹی آف ورجینیا کے شعبہ دینیات میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ یہودی فکر اور علم الکلام میں انہوں نے ییل یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے اور چارلس پرس کی مابعدالطبیعات پرپی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے۔عیسائی، یہودی اور اسلامی فکر کے تقابلی مطالعوں کے ساتھ، مذہب فلسفے اور سائنس کے جدید کلامی مباحث ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ منطق، علامتی ابلاغ Semiotics، اور استدلال بالصحائف( Scriptural Reasoning) میں ان کی مہارت اور تحقیق علمی دنیا میں قابل ذکر حیثیت رکھتی ہے۔ ادارہ )
فکر میں معدودے چند لوگ ہوں گے جو جدیدیت سے پیدا ہونے والی چنوتی سے اس کامیابی سے عہدہ برآ ہوئے ہوں جو علامہ اقبال کے حصے میں آئی۔ میں آج ان کے افکار کا تذکرہ دو وجوہات کی بنا پر کر رہا ہوں۔ ایک تو اس نابغے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جس کو میرے قریبی مسلمان ساتھی غایت ِاحترام سے دیکھتے ہیں اور دوسرا اس غرض سے کہ میں اور میری قوم بلکہ تمام ادیان ِ ابراہیمی کا کنبہ ان حضرات سے اور علامہ اقبال کے افکار سےگہرائی کے ساتھ مزید کچھ سیکھ سکیں۔ اس استفادے سے ہمارے لیے یہ جاننا ممکن ہو سکے گاکہ جدیدیت کے عطا کردہ مفید تحفوں کو باقی رکھتے ہوئے اس کی پیدا کردہ خرابیوں اور اس کی لائی ہوئی کج روی کی اصلاح کیوں کر ممکن ہے؟
ہمارے بین المذاہب مکالمے میں اول اول شریک ہونے والے مسلمان ساتھی ڈاکٹر باسط کوشل1 نے 1997 میں مجھے تشکیل ِجدید الٰہیات ِاسلامیہ سے متعارف کروایا۔ علامہ محمد اقبال کا مل جل کر مطالعہ کرتے ہوئے ہم نے ایک مشق شروع کی جو استدلال بالصحائف یا صحفی استدلال سے ہماری دلچسپی پر منتج ہوئی: دنیائے علم کی فکری کج روی کا مرض اور اس انحرافی فکر کے لیے درماں طلبی۔ ڈاکٹر باسط بلال مجھے اقبال کی اصلاح پسند الٰہیات سے متعارف کروا رہے تھے تو میں انہیں چارلس سینڈرس پرس کی اصلاحی منطق سے متعارف کروا رہا تھا جو امریکی عملیت پسند فلسفی ہیں اور ان کا فلسفہ ٔ سائنس میں علمی کام اقبال سے تقریبا آدھی صدی پہلے کا تھا۔ اس زیر ِنظر منصوبے نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ یہ دونوں ماہرین جدیدیت کی کج فکری کی تشخیص اور اس کے دیے ہوئے زخموں کے معالجے کے طریقوں میں کتنا اشتراک رکھتے ہیں ؟ اقبال اور پرس کے علمی کام کو باہمی مکالمے کے انداز میں دیکھنے کی معقول وجوہات موجود ہیں۔ پرس اپنے دور میں فلسفہ ٔ سائنس اور سائنسی منطق کا سب سے بڑا مفکر تھا۔ یہی نہیں دیگراسالیبِ فکر مثلا عملیت پسندی( pragmatism)، علامتی ابلاغ( (semiotics اور تعلقات کی منطق میں بھی مجتہدانہ حیثیت رکھتا تھا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ صحائفِ خداوندی پر ایمان جیسے معاملات پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ڈاکٹر باسط پہلے شخص ہیں جن کے یہاں یہ نکتہ نمایاں ہوا کہ ایک طرف تو پرس کی سائنسی منطق اقبال کے فلسفہ مذہب اور فلسفہ سائنس کی تکنیکی صحت میں نکھار پیدا کرتی ہے اور دوسری جانب اقبال کی فلسفیانہ الہیات، متنِ صحائف اور عبادات پر مبنی الہیات سے وارد ہونے والے نکات اور مباحث کو مکالمے کا جزو بنا دیتی ہے اور یہ چیز پرس کے علمی کام میں ابھی نامکمل دکھائی دیتی ہے۔ یہ مکالمہ محض تاریخِ فکر تک محدود نہیں بلکہ اقبال اور پرس دونوں کے افکار مذہب اور سائنس کے معاصر فلسفوں کے لیے گہرے اور پر معنی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
میں اس مکالمے کو متعارف کرواتے ہوئے اقبال کی" تشکیل ِجدیدالہیاتِ اسلامیہ " کا پرس کی عملیت پسندی کے نقطہ نظر سے دوبارہ مطالعہ کروں گا۔ گنجائش محدود ہے، لہذا خود کو صرف اس ایک انتہائی اہم سوال کے جوابات کی تلاش تک محدود رکھوں گا جو ایک عملیت پسند آج پوچھ سکتا ہے:صحیفہ خداوندی پر بنیاد رکھنے والا کوئی بھی مذہب آج جدیدیت کے چیلنج کا جواب کیونکر دے سکتا ہے ؟ میری یہ ہے کہ تشکیل ِ جدید کو اگر پرس کی عملیت پسندانہ تناظر میں پڑھا جائے تو ہمیں اس سے آٹھ سبق حاصل ہوتے ہیں:
الہامی کتب پر مبنی مذہب کو، تاریخی بحرانوں کا تغیر خوفزدہ نہیں کرسکتا۔ ان سے مذہب میں اضطراب پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنے آپ کو ان طبقات اور معاشروں کے سامنے بطور معلم اور راہنما پیش کرتا ہے جو شورش ِفکر اور فکری بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
’’حقیقت اپنے تمام مظاہر میں موجود ہے؛ اور انسان جو ایک متزاحم ماحول میں زندگی بسر کر رہا ہے، وہ ظاہر کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ لہٰذ ا قرآن مجید نے ہمیں تغیر جیسی زبردست حقیقت کی طرف توجہ متوجہ کیا کیونکہ اگر ہم اس سے غفلت برتتے یا اسے اپنے قابو میں لانے کی کوشش نہیں کرتے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم زندہ و پائیدار تہذیب قائم کر سکیں‘‘۔2
اب چارلس پرس کو لیجیے۔ وہ اول اول ایک کیمیادان اور ماہر ریاضیات تھے۔ بعد ازاں وہ فلسفہ سائنس کے ایسے مفکر کے طور پر ابھرے جو عیسوی انداز ِ فکر رکھتا تھا۔ شاید ان کی عملیت پسندی ان کی زیادہ بہتر وجہ شہرت ہے۔ عملیت پسندی ایک طریق فکر ہے جو جدید مغربی فکر کے تجریدی افکار کو زندگی کے حقائق سے از سر نو منسلک کرنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ سائنسی اور انسانی تحقیقات کو جو روزمرہ زندگی میں اپنی اصل اور اپنے مقاصد کو بھول کر اپنا حوالہ خود بن چکی تھیں اور خدمت ذات کی اسیر ہو چکی تھیں، پرس کے فلسفہِ عملیت نے ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے فکری وسائل مہیا کیے ہیں۔ پرس کی عملیت پسندی کی بڑے پیمانے پر تعلیم ان کے محسن اور شاگرد ولیم جیمز کے ذریعے عام ہوئی۔ ولیم جیمز کے کام نے اقبال کو امریکی فلسفہ عملیت کی علمیات اور نفسیات سے روشناس کروایا۔ اقبال کا شعورِ ولایت اور شعور ِ نبوت کے مابین فرق کرنا عملیت پسندی کے مفہوم کی وضاحت میں مدد کرتا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ :
محمد ﷺ عربی بر فلک الافلاک رفت و باز آمد – واللہ اگر من رفتمے ہر گز باز نیامدے ’’محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے بلند ترین مقام پر گئے اور لوٹ آئے۔ قسم ہے خدا کی اگر میں اس مقام تک جاتا تو میں کبھی واپس نہ آ پاتا‘‘یہ مشہور اور عظیم صوفی بزرگ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی کے الفاظ ہیں۔ شیخ موصوف کے اس ایک جملے سے ہم ا س نفسیاتی فرق کاا دراک نہایت خوبی سے کر لیتے ہیں جو شعور ِنبوت اور شعور ِ ولایت کے درمیان پایا جا تا ہے۔ صوفی نہیں چاہتا کہ واردات اتحاد میں اسے جو لذت اور سکون حاصل ہوتا ہے، اسے چھوڑ کر واپس آئے۔اس کے برعکس، نبی کی بازآمد تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ ان واردات سے واپس آتا ہے تو اس لیے کہ زمانے کی رو میں داخل ہو جائے ’’اور پھر ان قوتوں کے غلبہ و تصرف سے جو عالم تاریخ کی صورت گر ہیں، مقاصد کی ایک نئی دنیا پیدا کرے۔ صوفی کے لیے تو لذت اتحاد کی آخری چیز ہے‘‘ لیکن انبیاء کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان واردات کو ایک زندہ اور عالم گیر قوت میں بدل دیں۔ 3
ان اصطلاحات میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عملیت پسندی دراصل پرس اور ولیم جیمز کا اپنے ہارورڈ کے ساتھیوں کے لیے اسلوبِ تلقین ہے کہ وہ صوفیاء کی طرح کم اور پیغمبروں کی طرح زیادہ عمل کریں۔ پرس کے نزدیک عملیت پسندی محض فلسفے کا ایک مکتب فکر نہیں تھا بلکہ اس سے بڑھ کر ایک امر خداوندی تھا کیونکہ ہبوط ِ آدم کے بعد عقل اس لیے بیدار کی گئی کہ اس دنیا میں زندگی کے دیے ہوئے زخموں کا ا ندمال کر سکے۔ میرا خیال ہے کہ اقبال خود کو اس کام کے لیے مامور جانتے تھے کہ جدیدت کے اچھے اثرات کو رد کیے بغیر اسلامی معاشرے میں جدیدیت کی پیدا کردہ چاک دامنی کو رفو کر سکیں۔ تشکیل ِ جدید کا مطمح نظر یہی ہے:
’’عالم انسانی کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے : کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کا روحانی استخلاص، اور وہ بنیادی اصول جن کی نوعیت عالمگیر ہو اور جن سے انسانی معاشرے کا ارتقاء روحانی اساس پر ہوتا رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید یورپ نے اسی نہج پر متعدد عینی نظامات قائم کیے، لیکن تجربہ کہتا ہے کہ جس حق و صداقت کا انکشاف عقل محض کی وساطت سے ہو، اس سے ایمان و یقین میں وہ حرارت نہیں پیدا ہوتی جو وحی و تنزیل کی بدولت ہوتی ہے۔۔یقین کیجیے، یورپ سے بڑھ کر آج انسان کے اخلاقی ارتقاء میں بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں۔ برعکس اس کے مسلمانوں کے نزدیک ان بنیادی تصورات کی اساس چونکہ وحی و تنزیل پر ہے جس کا صدور ہی زندگی کی انتہائی گہرائیوں سے ہوتا ہے، لہذا وہ اپنی ظاہری خارجیت کو ایک اندرونی حقیقت میں بدل دیتی ہے..... مسلمانوں کو چاہیے کہ آج اپنے اس موقف کو سمجھیں اور اپنی اجتماعی زندگی کی اسلام کے بنیادی اصولوں کی رہنمائی میں از سر نو تشکیل کریں تاکہ اس کی وہ غرض و غایت پایہ تکمیل کو پہنچ سکے جو ابھی تک صرف جزوا ہمارے سامنے آئی ہے یعنی روحانی جمہوریت کا نشو ونما جو اس کا مقصود و منتہا ہے۔ 4
تغیر کی ایک علامت اور نشانی، اذیت وکلفت ہے۔ صحائفِ مقدسہ پر مبنی مذاہب آپ کو ان معاشروں اور طبقات کے لیے اپنے آپ کو بطور معلم اور رہنما پیش کرتے ہیں جن پر اذیت کا غلبہ ہوگیا ہو۔
تشکیل ِجدید میں اقبال اذیت کا علمیاتی اور صحیفہ الہامی کا بیانیہ پیش کرتا ہے جس کا آغاز تخلیق ِ آدم کے قرآنی بیان سے ہوتا ہے۔ اقبال کے مطابق یہ بیان انسانیت کی دو جبلی خواہشات کو مدنظر رکھتا ہے : علم کی خواہش اور دوسری طاقت اور اپنے تسلسل وتناسل کی خواہش۔ یہ دونوں خواہشات خود قصہ آفرینش میں ودیعت کر دی گئی ہیں : خالق کائنات خود وہ انائے مطلق ہے جس نے تمام اشیاء چھوٹے چھوٹے ذرات سے لے کر انسان تک کو "خودی" کی صورت پر پیدا کیا ہے جوکہ تمام توانائیوں اور سرگرمیوں کے مرکز ے ہیں۔ یہ مرکزے پیچیدگی، باہمی تعلق اور خود شعوری کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ تمام اشیاء خود کو جاننا چاہتی ہیں اور اپنی دنیاؤں کو خود میں مدغم کرنا چاہتی ہیں اور تمام اشیاء اپنا تسلسل چاہتی ہیں۔ اسی لحاظ سے قرآنی بیان، پرس کے لیے علم ِ وجود کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، کیونکہ پرس کے نزدیک تمام اشیاء ،سب سے چھوٹے ذرے سے لے کر اوپر تک، زندگی رکھتی ہیں، علم کی جویا ہیں اور نمو چاہتی ہیں لیکن اذیت کا کیا؟
اقبال کے نزدیک ہبوط آدم کا بیان کسی "اخلاقی زوال" سے متعلق نہیں ہے : " یہ انسان کا جبلی شعور ذات سے شعور ذات کے پہلے جھماکے کی طرف سفر ہے۔انسان کا پہلا فعل عصیاں آزادی ِاختیار کا اولین عمل بھی ہے۔ اسی وجہ سے قرآنی بیان کے مطابق آدم کی یہ اولین خطا معاف کر دی گئی۔
(2: 37-35) اور (20:120 -122)شجرۃ الخلد و ملک لایبلی کا قصہ اس حقیقت سے صرف نظر کرنے کے میلان کا قصہ ہے کہ اس کا اختیار محدودیت کا اسیر ہے۔
اس میلان کی تصحیح کا صرف یہی طریقہ تھا کہ اسے ایسے ماحول میں رکھ دیا جائے جو اذیت ناک ہوتے ہوئے بھی انسان کی عقلی استعداد کی دمیدگی کے لیے مناسب ہو۔ بنا بریں حضرتِ آدم کا کلفتوں سے مملو طبعی ماحول میں داخل کیا جانا کسی سزا کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد انسان کے ازلی دشمن شیطان کے مقاصد کو شکست دینا تھا جس نے ایک عیاری کے ساتھ انسان کو ہردم ترقی اور تسلسل کی خوشی سے محروم رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن رکاوٹ بھرے ماحول میں انائے مقید کی حیات، علم کی مسلسل توسیع پر منحصر ہوتی ہے اور اس توسیع کی بنیادحقیقی تجربہ ہوتا ہے۔ اور محدود خودی، جس کے سامنے ان گنت امکانات ہوتے ہیں، کے تجربے کی توسیع صرف ’’ سعی اور خطا‘‘ والے طریقے پر منحصر ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ’’خطا ‘‘ جسے شعوری چوک سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، تجربہ کی تعمیر میں ایک ناگزیر عنصر ہے۔5
اقبال کا شجرۃ الخلد کا تذکرہ پرس کی بشریات کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پرس کے ہاں بھی انسان ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے جس میں مزاحمت والا ماحول، دریافت، تغیر اور آموزش کا ذریعہ بنتا ہے۔ ہر رکاوٹ انسان کے لیے ابتلائے تشکیک کی تکلیف پیدا کرتی ہے اور تشکیک کسی بھی شخص پر اس کی غلطی آشکار کرتی ہے اور اس غلطی کی اصلاح کے راستے کی تفہیم عطا کرتی ہے اور ’’سعی اور خطا‘‘ والے طریقے سے ان راستوں کی تفہیم کی آزمائش کرتی ہے۔ یہ عمل بار بار ہوتا ہے اور یہی عمل سائنسی شعور کو جلا بخشتا ہے جس کے مزید خلاصے کو پرس the protean vir (مردِ متنوع)6، یعنی حقیقی انسان کا نام دیتا ہے۔ یہ’’ متنوع انسان‘‘ یافعال انسان ضبطِ نفس کے ذریعے سے ’’سعی اور خطا‘‘ کے طریقے پر ترقی کرتا ہے اور اس کا حتمی جوہرمکمل سائنس یا حقیقت کا علم ہے۔ وہ واحد حقیقت ِمحسوس جس کا عنوان عالم ِ خلق ہے۔ اسی لیے شجر ۃ الخلد سے متعلق قرآن کا بیانیہ پرس کےفلسفہ & & ٔ سائنس یا اس سے جنم لینے والی کلفتِ تشکیک کے لیے الہامی صحیفے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
لیکن اقبال اس کے علاوہ ایک اور تعبیر بھی پیش کرتے ہیں جس میں تسلسل وتناسل کی انسانی خواہش "سعی اور خطا " کے اصول پر دنیا کو جاننے کے عمل کو چیلنج کرتی ہے۔ شیطان تو انسان کو شجرۃ الخلد کاپھل کھانے کی طرف کبھی نہ ختم ہونے والی بادشاہت (ملک لایبلی ) کا خواب دکھا کر راغب کرتا ہے۔ لیکن چونکہ ہر فرد ِ انسانی محدود ہے اس لیے انسانوں کی لامحدود حد تک تسلسل و تناسل کے عزائم لامحالہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکڑاؤ کا باعث بنتے ہیں ۔ اور یہ ٹکڑاؤ اپنے جلو میں زمانوں کی خوفناک کشمکش لے کر آتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’نیچے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو‘‘ 7
مخالف فردیتوں کا باہمی ٹکراؤ ہی آفاقی اذیت ہے جو حیات کے زمانی سفر کے لیے اندھیرا اور روشنی دونوں پیدا کرتا ہے۔ ذاتِ انسانی کو نوعِ حیات کی ایک صورت میں قبول کرنا ہی دراصل ان تمام نقائص اور نارسائیوں کو قبول کرنا ہے جو ذاتِ انسانی کی محدودیت سے پیدا ہوتے ہیں۔ 8
کیا شاندار بیان ہے! اقبال کے ہاں کلفتِ انسانی کی یہ دوسری تعبیر، پرس کے بیانیے میں انسانی اذیت کے بیان کے پورے تجربے کی نہ صرف تکمیل کرتا ہے بلکہ اذیت و جد وجہد کی مزید وضاحت بھی فراہم کرتا ہے۔ پرس کے نزدیک تشکیک اوراذیت ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اقبال ان کے درمیان فرق کو بہتر طریقے پرپیش کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کی عارف خاتون سائمن ویل (Simone Weil) کے نزدیک دکھ pain اور آزار “affliction” کے درمیان فرق ہے۔ ویل لکھتی ہیں کہ آزار روح کی ایک حالت کا نام ہے جب دکھ حد سے گزر جائے اور انسان میں جینے کی آس ختم ہوجائے۔ اسی مفہوم میں اقبال کا "زمانوں کی خوفناک کشمکش" کا بیان آزار والی حالت ہو سکتا ہے۔ ان مایوسیوں سے ماوراء جو کہ مزاحمتی ماحول سے پیدا ہوتی ہیں اور جو سائنسی تحقیق کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ یہ وہ درد ہے جو جنگ کے بعد درپیش ہوتا ہے اور پھر اس سے نا امیدی کی کیفیت جنم لیتی ہے۔ شاید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں طرح کی کلفتوں اور دکھ کی صورتوں کے درمیان فرق دراصل اس بات کے درمیان فرق کو نمایا ں کرتا ہے کہ جدیدیت ہماری تہذیب پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ ( ہمیں یہ سکھا کر کہ ناموافق حالات میں ہمیں سائنسی طور پر کس طرح سوچنا ہے) اور جدیدیت ہماری تہذیب کا بوجھ کیسے بن جاتی ہے جب وہ یہ بھلا دیتی ہے کہ سائنس کا تعمیری مقصد کیا تھا ا ور اسی وجہ سے اس کے ہاتھوں مزید رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
تو پھر کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال اور پرس دونوں کے نزدیک جدیدیت، جب وہ یہ بھلا دیتی ہے، انفرادی شعور جس سے آزادی ِ اختیار اور تنقیدی عقلی پیداہوتا ہے، کے دکھ کے لیے راہنمائی فراہم کرتی ہے ؟ لیکن یہ جدیدیت اپنے جلو میں شعورِ خود شعار کا خطرہ بھی ساتھ لاتی ہے جوکہ دنیا کو اپنی ’’ذات ِ محض‘‘ اور ’’غیرمحض‘‘ جیسی تخریبی دولختی میں بانٹ دیتی ہے جس سے آزار و ابتلاء وجود میں آتا ہے جو کہ دکھ سے اوپر کی چیز ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ دوسرا سبق ہمیں جدیدیت کے داخلی مسائل میں سے ایک سے روشناس کرواتا ہے جن سے جدیدیت کی تعریف متعین ہوتی ہے۔ انسانی آزادی کی چنوتی صرف جدیدیت ہی کا نہیں بلکہ نوعِ انسانی کی تخلیق کا بھی مسئلہ ہے۔ اقبال کے اہم کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے جدیدیت پر تنقید کی اور اس کی اصلاح بالکل ایسے ہی کی جیسے کسی بھی شخص کو انسانی زندگی کے کسی عہد پر تنقید اور اصلاح کرنی چاہیے۔ جدیدیت اسی وجہ سے ایک مسئلہ ہے کیونکہ ہم جدید ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے روایت اس لیے ایک مسئلہ نہیں ہے جبکہ ہم روایتی ہیں یا علم الکلام ایک مسئلہ ہوتا ہے جبکہ ہم متکلمین میں سے ہیں۔ اسی تناظر میں اقبال قرآن کی ہدایت پیش کرتے ہیں کہ ہم خود کو موجودہ دنیا سے الگ کیے بغیر کس طرح ایک منقسم دنیا کو بہتر کر سکتے ہیں۔ یہ مسلط آگہی کی اذیت کو قبول کرنا ہے۔ ان بلند روحانی تعبیرات کی تشکیلِ نو کےحوالے سے پرس کا عملیتی (pragmatic)سبق یہ ہے کہ آزار کو دوبارہ مسلط کیے بغیر اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔وہ دراصل آزار کی ماری اشیاء (اداروں، ڈھانچوں، یا تہذیبوں ) کی ان تعمیری اصولوں کے ذریعے سے درستگی جو ان کے اندر ہی موجود ہیں، گو نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ لیکن کیسے؟
جب اچانک جدید تہذیب جیسی نامانوس، خطرناک اور بالقوۃ تباہ کن چیز کا سامنا ہو تو پہلے اور کچھ نہ کریں : دعا کریں
اقبال ہبوط آدم کی بحث کے فورا بعد درج ذیل کا اضافہ کرتے ہیں : انسانیت کی ان گنت ادوار پر مشتمل کدوکاوش، یاذات مقابل ذاتِ غیر۔
اب ہم فکرِ خالص کی حدود سے ماوراء ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایمان خیر کی حتمی فتح کی صورت میں مذہبی عقیدے کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ 'اللہ اپنے 'حکم 'کو پورا کرنے والا ہے لیکن اکثر انسان اسے نہیں جانتے۔( قرآن 12:21) مذہب کے لیے یہ ممکن نہیں کہ محض تصور پر قناعت کر لے؛اس سے بڑھ کر مذہب چاہتا ہے کہ اس کے مقصود ومطلوب کا گہرا علم حاصل کرے اور اس سے قریب تر ہوتا چلا جائے، لیکن یہ قرب حاصل ہوگا تو دعا کے ذریعے سے۔ مگر پھر دعا وہ چیز ہے جس کی انتہاء روحانی تکلیات پر ہوتی ہے۔ دعا کا یہ عمل شعور کی مختلف حالتوں پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔ 9
اقبال ان کلمات کو عملیتی انداز میں ترتیب نہیں دے رہے جیسا کہ دعا کسی سائنس کی پکار کے طور پر نمایاں ہو جسے یہ پتہ ہو کہ یہ اپنی حدود سے گزر چکی اور اس کا سفینہ ڈوبنے کو ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ بےخبر ہے، اسے خطرے سے آگہی کی فوری ضرورت ہے لیکن وہ نہیں جانتی کہ کیسے جانے۔لیکن اقبال کے نقطہِ نظر سے دعا یقینا وہ احوال اور امکانات پیداکر دیتی ہے جن میں اصلاح اور درستگی کا عمل واقع ہو سکے۔ جدید دنیا کی آواز ولیم جیمز کے مذہبی تجربے کے تنوع سے شروع کرتے ہوئے اقبال یہ مشاہدہ پیش کرتے ہیں :
’’دعا اپنی اصل میں جبلی امر ہے اور پھر جہاں تک حصولِ علم کا تعلق ہے، اسے غور وفکر سے مشابہ ٹھہرائیں گے....فکر کی حالت میں تو ہمارا ذہن حقیقتِ مطلقہ کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے اعمال و افعال پر نظررکھتا ہے لیکن دعا کی صورت میں یہ آہستہ گام کلیت کی منزل بہ منزل رہنمائی کو چھوڑ کر فکر سے آگے بڑھتا اور حقیقت مطلقہ پر تصرف حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ یوں بالارادہ اس کی زندگی میں حصہ لے سکے‘‘۔ 10
اس کے بعد اگلے پیراگراف کو اس طرح ختم کرتے ہیں کہ " سچی بات یہ ہے کہ علم کی تمام تر تلاش بنیادی طور پر دعا ہی کی ایک صورت ہے۔ عالمِ طبعی کا سائنسی طور پر مشاہدہ کرنے والا جو دعا کے عمل میں مصروف ہو، جویائے عرفان شخص کی طرح ہے‘‘۔ 11
میں نے دوسری کسی بھی چیز سے پہلے جدیدیت کے جواب میں اقبال کی رایے کو بطور عبادت کے دیکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کا موضوع انسان کا آزار و ابتلاء ہے نہ کہ محض دکھ اور تکلیف : نہ مقامی ناانصافیاں اور نہ ہی ظلم وجبر ہے بلکہ پورے نظام ِ علم کا فساد ہے جو کہ کسی بھی تہذیب کی اس صلاحیت ہی کی بیخ کنی کر دیتا ہے جس سے دنیا کو جاننے کی بنیادی استعداد متعلق ہے، جس سے سائنس کی نمو ہوتی ہے۔ یہ کہنا کہ " پہلے دعا کرو " یہ کہنے کے مترادف ہے کہ آزار دکھ کی وہ حالت ہے جو نامعلوم کو دریافت کرنے کے تمام روایتی اور متعین طریقوں پر یقین کو برباد کر دیتی ہے۔ پہلے دعا کرنا دراصل بدن کی روزمرہ عادات سے لے کر طب اور اخلاقیات کے تمام خالص فنی طریقوں کا تجزیہ ہے جو اس بات کی یقین دہانی ہے کہ مسئلہ ان وسائل اور قوتوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اگر خرابی دور کرنے کا کوئی وسیلہ پایا ہی نہیں جاتاتو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ تہذیب فیصلہ کن لمحات سے گزررہی ہے۔ یہ یا تو ناکام راسخ العقیدگی اور ریت و رواج کی بے ثمر تکرار کا لمحہ ہے یا پھر انقلابی تشکیلِ جدید کا وقت۔اگر واقعی ایسا وقت آن لگا ہے تو پہلے دعا کرنا حالیہ طریقوں کی باقی ماندہ تمام طاقت کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔یوں سمجھیے کہ سوئے عرش یہ ہاتھ پھیلانا ایسا ہی جیسے کوئی دعا میں اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے۔گویا موجودہ تہذیب کے اعمال فرشتوں کی اجتماعی آہ و زاری ہے جس میں سب ہم آواز ہو کر اکٹھے خدا کے حضور گڑگڑاتے ہیں۔
’’خدایا تو عظیم ہے ! ہمارے خالق ہمیں، اپنی مخلوق کو، یادرکھ جس دن تم نے ہمیں خلق کیا تھا۔ ہم کون تھے ؟ ہم کتنی پستی میں گر چکے ہیں۔ تو دیکھ کب سے کتنے دور ہم گرے ہوئے ہیں اور کس قدر تہی دامن ہیں! اس حکمت سے جو کہ شروع میں تو نے ہمیں ودیعت کی تھی ! ہماری دعاؤں کو سن! اے خدا، عطا کر ہمیں اپنی حکمت ایک دفعہ پھر کہ تیری حکمت کے ذریعہ سے ہم نئی زندگی پا ئیں اور اس زمین پر جاننے کے نئے راستے کھول سکیں۔‘‘
اقبال کے زیادہ عاجزانہ انداز میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے قدم پر دعا اس بات کا ادراک ہے کہ ہر قسم کی سائنس محدود ہے جو دراصل ایک رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے پروان چڑھتی ہے تاکہ اس رکاٹ کو دور کر سکے لیکن ہر ایسی سائنس اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب اسے مکمل طور پر ایک نئی صورت حال اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے ایک خاص حالت میں paradigm shift (تبدل تناظر) کا نام بھی دیا جا سکتا بہ شرطیکہ یہ ہمارے مختلف تعلیمی رویوں اور مناہج کو شامل ہونے کے ساتھ تناظر کا بھی متحمل ہو جو ہمارے شعور کو نئی راہنمائی فراہم کرے اور صرف مروجہ مناہج علم اور مختلف شعبہِ علم کے چلتے ہوئے فیشن کے اسیر نہ ہوں۔ میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اقبال نے تشکیل جدید میں اپنے نظریہ ہبوط کے فورا بعد دعا کا تذکرہ کیا ہے۔ میں نے اقبال کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کے ہاں ہبوط آدم کا بیانیہ پہلے تو سائنس کو وسیع تر تناظر میں متعارف کرواتا ہے جس میں انسان دنیا کو جاننے کا عمل سیکھتا ہے اور اس درد کا درماں کرتا ہے جو خود سائنس کی ترقی کا باعث ہے۔ دوسرا بیانیہ ’’انسان کا انسان کے لیے تشدد اور مزاحمت‘‘ کی بات کرتا ہے جو سائنسی عمل کے لیے رکاوٹ بنتا ہے او ر بسا اوقات ماقبل تعمیر شدہ سائنس کے جملہ حاصلات کو منہدم کرنے تک چلا جاتا ہے۔
اس رویے کا علاج موجودہ تہذیب کی سائنس سے ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ رویہ اسی آزادی کا مرہون منت ہے جس نے اس سائنس کو جنم دیا ہے۔ یہ علاج اس طریقہ کے باہر ہی سے ممکن ہے جو کہ ایسی انسانی آزادی میں روح پھونکنے والا ہے جو ہر طرح کی سائنس کی علمی بنیاد ہے۔ پرس اسے عملیت پسندی کہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس طرح اقبال کی فکر میں اضافہ کرتا ہے۔ اقبال اسے دعا کہتے ہیں اور وہ اس طرح پرس کےنظریے ( عملیت پسندی) کی مزید اہمیت بڑھا دیتے ہیں۔
عملیت پسند کے نزدیک جو عقل اپنے حد ود سے تجاوز کرتی ہے، اس کے سقم کا درماں موزوں طور پر اس کی اصل کی طرف متوجہ کرنے ہی سے ممکن ہے۔ اس کی ہدایت دست قدرت کی مرہون منت ہے اور وہی خالق اپنی مخلوق کو بہتر جانتا ہے اور اس کے ہاتھ میں اس کے ہر درد کا درماں اور ہر زخم کا مرہم ہے۔ اقبال اور پرس دونوں اس خالق کی شناخت کے متعلق براہ راست بات نہیں کرتے، اس لیے کہ خالق شناسی اس کے بارے میں پوچھنے والے کے حوالے سے متعین ہوتی ہے۔ تشکیل جدید کے ان ابتدائی مباحث کے مرحلے میں سوال پوچھنے والا ذہنی طور پر ابھی سائنس کی تحدیدات سے باہر سوچنے کے لیے تیار نہیں، خدا کا نام لینے کا کیا ذکر! ان دونوں حضرات میں سے پرس زیادہ کم گو ہیں کیونکہ ان کے مخاطب قارئین بنیادی طور پر اہل منطق اور تجرباتی سائنسداں ہیں جبکہ دوسری طرف اقبال کے مخاطبین اگرچہ جدیدیت زدہ ہیں، لیکن وہ شاعری اور قرآن بھی سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے پرس کا علمی کام اقبال کی تشکیل جدید کے پہلے با ب کے چہار چوب تک محدود رہتا ہے یا بعض اوقات تیسرے باب کے مباحث کو چھو سکتا ہے،لیکن اقبال کے ہاتھ پر سائنسداں زیادہ تیزی سے بدل جاتا ہے۔
دعا کرنا تو خود جدید قضایاتی سائنس(Propositional Science)کی قیود سے نکلنے کا عمل ہے ۔
اقبال تشکیل جدید کے اسباق کو تدریجی مراحل میں پیش کرتے ہیں۔ اس لیے جو مطالب اور مباحث ابتدائی ابواب میں پیش کیے گئے ہیں، وہ قارئین میں پہلے سے ایک خاص اندازِ فہم اور صلاحیت ِ ادراک کو فرض کرتے ہیں۔ بعد والے ابواب میں اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اگر میں اقبال کا مطالعہ ٹھیک سے کر رہا ہوں تو اس کی کتاب کا ہر مرحلہ اپنے سے پہلے کے مرحلے کا کارِ رفو مکمل کر کے اس کی سطح کو بلند کر دیتا ہے جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر مرحلے کا اپنا وقار اور خدائی مقصد ہے اور ہر مرحلے کی اپنی حدود بھی ہیں۔ تو کیا اس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تشکیل جدید کا ہر مرحلہ دراصل ایک مقامِ دعا ہے ؟ جدید سائنس کے بحران سے پیدا ہونے والی دعا سے آغاز ہے اور اس